از: مولانا سعید احمد جلال پوری
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت کی جو جو علامات ارشاد فرمائی ہیں، کسی قدر معمولی غور وفکر سے دیکھا جائے تو وہ منظر قریب قریب اب ہمارے سامنے ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمارا دور کہیں وہی نہ ہو، نہیں تو وہ دور ہم سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے، اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”عن موسیٰ بن ابی عیسیٰ المدینی، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ”کیف بکم اذا فسق فتیانکم وطغیٰ نساء کم؟ قالوا یا رسول اللّٰہ! وان ذالک لکائن؟ قال نعم وأشد منہ، کیف بکم اذا لم تأمروا بالمعروف وتنہوا عن المنکر؟ قالوا یا رسول اللّٰہ وان ذلک لکائن؟ قال نعم واشد منہ کیف بکم اذا رأیتم المنکر معروفًا والمعروف منکرًا“۔ (کتاب الرقائق، ابن مبارک ص:۴۸۴)
ترجمہ: ”اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی، صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اوراس سے بڑھ کر،اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا؟ جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے، نہ بُڑائی سے منع کرو گے، صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اوراس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی؟ جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگوگے۔“
ہمارے معاشرے کی بدلتی قدروں اور شروفتنہ کی نت نئی شکلوں کا جائزہ لیجئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اب ہم جس طرح بڑی بڑی برائیوں اور فحاشی وغلاظت کی ایمان شکن کارروائیوں کو صبر و تحمل سے برداشت کررہے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ایمان وایقان کی قوت مدافعت جواب دے چکی ہے اور ہمارے دلوں سے ایمانی غیرت اور دینی حمیت رخصت ہوچکی ہے، اور ہماری ایمانی روح مرچکی ہے۔ ہم ذلت وادبار کی کس گہرائی میں گرچکے ہیں، دین ومذہب سے کس قدر دور جاچکے ہیں؟ اور ہواوہوس پرستی، عریانی، فحاشی، راگ باجے اور خواہش نفس کے سامنے اس قدر مجبور ہوچکے ہیں، کہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کو ناجائز و حرام قرار دیاتھا، ہم پوری قوت و طاقت سے ان کو حلال و جائز قرار دینے کے لئے کوشاں ہیں۔
آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ : ”بعثت بکسر المزامیر“ (کنزالعمال ص:۲۲۶، ج:۱۵) میں آلاتِ لہو ولعب کو توڑنے اور گانے بجانے کو مٹانے کے لئے مبعوث کیاگیاہوں؛ مگر اسکے برعکس ابنائے کفر اور ذریتِ ابلیس نے ہمیں اپنی مخصوص حکمت عملی اور عیاری سے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن اور سنت کے مقابلہ میں لاکھڑاکردیا اورہم خدا کے نام سے منسوب فلم ”خدا کے لئے“ کے عنوان سے پورے دین ومذہب اور شریعت کا مذاق اڑانا شروع ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
چنانچہ نئی نسل کو دین ومذہب اور علماء سے متنفر وباغی کرنے، داڑھی، ارتداد کی شرعی سزا، اسلامی لباس، مذہبی عسکریت پسندی، طالبان کی اسلام پسندی کی بُرائی، قباحت اور شناعت دلوں میں بٹھانے کے علاوہ موسیقی کی حلت، مسلم لڑکی کے غیرمسلم سے نکاح، اوباش اور آوارہ زندگی، بے حیائی و بے شرمی اور خواتین کی مادرپدر آزادی پر مشتمل ایک فلم بنوائی گئی،جس کا نام سن کر ہی دانتوں پسینہ آجاتا ہے کیونکہ: ”برعکس نہندنامِ زنگی کافور“ کے مصدق جس فلم میں اللہ سے عداوت و بغاوت اور کفر وطغیان کی تعلیم دی گئی ہو، اس کانام ”خدا کے لئے“ رکھ کر کیا نعوذ باللہ! اللہ تعالیٰ کے قہر کو دعوت نہیں دی جارہی ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے غیظ وغضب اور قہر کو جوش آئے اور ہم سب ہی نشانِ عبرت بن جائیں؟
اس فلم کی ویب سائٹ اور اخباری اطلاعات کے مطابق اس فلم کا پس منظر یہ ہے کہ ایک گلوکار کو اللہ تعالیٰ نے کسی بندہ خدا کی برکت سے ہدایت نصیف فرمائی تو اس نے گانے بجانے اور ڈھول تماشے کی گناہ آلود زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ کر دین و شریعت کی زندگی اپنالی، جب اس نے اس غلیظ زندگی اور غلاظت بھرے ماحول سے توبہ کرکے معصیت کی جگہ طاعت، گناہ کی جگہ نیکی، بغاوت کی جگہ اطاعت، دنیا کی جگہ آخرت، ظلم کی جگہ عدل، ہوا وہوس کی جگہ دین وشریعت، گمراہی کی جگہ ہدایت کو اپنالیا اور ان کی دعوت و تبلیغ شروع کردی، تو ذریت ابلیس کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے، ان سے یہ برداشت نہ ہوسکا کہ ایک مسلمان راہ راست پر کیسے آگیا؟ اس پر حقیقت حال کیوں کھل گئی؟ اس نے اپنی خوبصورت آواز کو حمد ونعت اور تلاوت کلام اللہ میں استعمال کرنا کیوں شروع کردیا؟ اس نے گانے باجے اور راگ و رنگ کی مذمت کیوں شروع کردی؟ اس کے اس طرز عمل سے اس کے سینکڑوں پرستاروں نے اس غلیظ کوچہ وبازار سے کیوں منہ موڑ لیا؟ اس نے اور اس کے چاہنے والوں نے مسجد ومدرسہ کا رخ کیوں کیا؟اس کی دیکھا دیکھی مسلم نوجوان اس کی ہمنوائی کیوں کرنے لگے؟ وہ یورپ و امریکا کی جگہ حرمین شریفین کے چکر کیوں کاٹنے لگے، اس نے نفس و شیطان کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول کا دامن کیوں تھام لیا؟ وغیرہ وغیرہ۔
یہ تھا وہ دکھ اوریہ تھی وہ تکلیف اور درد جس کی وجہ سے ضلالت وگمراہی کے پجاریوں اور دین و مذہب کے غداروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے، چنانچہ انھوں نے مسلمانوں سے بدلہ لینے اور ان کو اس کا مزہ چکھانے کے لئے وہ کھیل کھیلا کہ شیطان بھی انگشت بدنداں ہوگا، شاید اس کو بھی یہ ترکیب نہ سوجھی ہوگی کہ کسی غلیظ فلم پر ”خدا کے لئے“ کاٹائٹل استعمال کیا جائے، کیا کوئی مسلمان یہ گوارا کرسکتاہے کہ کسی زناکاری، بدکاری، عیاشی، فحاشی اور جسم فروشی کے اڈے پر ”خدا کے لئے“ کا بورڈ سجادیا جائے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو ایک ایسی فلم ․․․ میں احکام اسلام، شعائر اسلام اور منصوصات شرعیہ کا انکار کیا گیا ہو، جس میں غنی اور موسیقی جیسی لعنت کو․․․ کے بارہ میں ارشاد نبوی ہے: ”الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء البقل“ (کنزل العمال، ص:۲۱۸، ج:۱۵) گانا باجا، دل میں اس تیزی سے نفاق پیدا کرتا ہے جس تیزی سے پانی سبزی کو اگاتا ہے․․․ جائز وحلال باور کرانے کی کوشش کی گئی ہو، جس میں داڑھی جیسے حکم شرعی کا مذاق اڑایا گیا ہو․․․ اس پر ”خدا کے لئے“ کا عنوان لگانا کیوں کر گوارا اور برداشت ہوسکتا ہے؟ نعوذ باللہ! کہیں یہ اس گھناؤنی سازش کا حصہ تو نہیں کہ آئندہ لوگ گناہ کو گناہ سمجھ کر نہیں؛ بلکہ نیکی سمجھ کر کیا کریں؟ کیا اس کا یہ معنی نہیں کہ آئندہ مسلمان خنزیر کے گوشت کو بکری کا گوشت سمجھ کر کھایا کریں؟ یا شرب اور پیشاب پر زمزم کا لیبل لگاکر استعمال کیا کریں؟ یا پھر نعوذ باللہ ! ناچ گانے کے لب پر بیت اللہ کا بورڈ لگاکر اس کنجر خانہ کو بیت اللہ کا نام دیا جائے؟
ہائے افسوس! کہ مسلمان تقلید مغرب میں اس قدر مسخ ہوگیا ہے کہ اب وہ جھوٹ، سچ اور حق و باطل کے درمیان حائل دیوار گرانے پر تل گیا ہے اور جو کام دنیائے کفر اور ذریت ابلیس نہ کرسکی تھی، اس کا ذمہ اس نام نہاد مسلمان نے اٹھالیاہے؟ کیا کہا جائے ایسے لوگ مسلمان کہلانے کے لائق ہیں؟ یا کافر؟ کیا صرف اسلامی نام رکھنے سے آدمی مسلمان بن جاتاہے؟ دیکھا جائے تو ان فلم سازوں نے مسلمانوں کی دینی، ملی غیرت پر حملہ کیا ہے، بلاشبہ یہ فلم محض فلمی کردار نہیں؛ بلکہ دین و مذہب، امانت ودیانت، شرافت و صداقت، عفت وعصمت، حمیت وغیرت، شرم وحیاء، تقویٰ تدین، غرض تمام دینی اقدار کے خلاف کھلی بغاوت اور اعلان جنگ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کافر ومسلمان کے باہمی نکاح کو ناجائز وحرام قرار دے کر،اس پر پابندی لگاتے ہوئے فرمایا تھا:
”ولا تنکحوا المشکرات حتی یوٴمن ولامة موٴمنة خیر من مشرکة، ولو اعجبتکم ولا تنکحوا المشرکین حتی یوٴمنوا، ولعبد مومن خیر من مشرک ولو اعجبکم، اولئک یدعون الی النار، واللّٰہ یدعو الی الجنة والمغفرة باذنہ ویبین آیاتہ للناس لعلہم یتذکرون“ (البقرہ:۲۲۱)
ترجمہ: ”اور نکاح مت کرو مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لے آئیں اور البتہ لونڈی مسلمان بہتر ہے مشرک بی بی سے اگرچہ وہ (مشرک عورت) تم کو بھلی لگے اور نکاح نہ کرو مشرکین سے جب تک وہ ایمان نہ لے آویں اور البتہ غلام مسلمان بہتر ہے، مشرک سے اگرچہ وہ (مشرک مرد) تم کو بھلالگے، وہ بلاتے ہیں دوزخ کی طرف اور اللہ بلاتا ہے جنت کی اور بخشش کی طرف اپنے حکم سے اور بتلاتا ہے اپنے حکم لوگوں کو تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔“ (ترجمہ شیخ الہند)
مگر یہ باغیانِ دین ومذہب کہتے ہیں ہمیں یہ پابندی قبول نہیں؛ بلکہ نعوذ باللہ مسلمان لڑکی کسی کافر ومشرک کے نکاح میں دی جاسکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اس فلم میں مسلمان لڑکی کے غیر مسلم سے شادی رچانے کو نہ صرف جائز قرار دیاگیا ہے؛ بلکہ گویا اس کی ترغیب دی گئی ہے۔
کیا یہ دین و شریعت اور قرآن وسنت سے اعلان بغاوت نہیں؟ کیا یہ کتاب اللہ کا انکار نہیں؟ کیاکتاب اللہ کاانکار کفر نہیں؟ کیا کہا جائے کہ یہ فلم کفر و ارتداد کی اشاعت و ترویج کے لئے بنائی گئی ہے؟ یا مسلمانوں کی گرتی ساکھ بحال کرنے کے لئے؟ کیا اس فلم کے بنانے والے، اس کی اشاعت و ترویج کرنے والے مسلمان ہیں؟ کیا سمجھا جائے کہ ایسے لوگ مسلمانوں کے ترجمان ہیں؟ یا دنیائے کفر کے ایجنٹ؟ پھر جو لوگ اس فلم کی خرید وفروخت اور دیکھنے دکھانے کے اعتبار سے اسلام دشمنوں کے مذموم مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بن رہے ہیں، کیا وہ اس میں برابر کے شریک نہیں؟
ہائے افسوس! کہ مسلمان کو اس کا احساس تک نہیں رہا کہ اس کی صلاحیتیں، اس کی جان ومال کہاں خرچ ہورہا ہے؟ اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا وزن اسلام دشمنوں کے پلڑے میں ڈال کر اپنی دنیا وآخرت تباہ کررہا ہے۔
اسی طرح دنیائے کفر اور یہود ونصاریٰ کے ایجنٹ اس فلم کی اشاعت، ترویج اور مقبولیت کے اظہار وبیان کے لئے اخبارات، رسائل اور میڈیا میں بڑے بڑے اور جہازی سائز کے اشتہارات شائع کرکے باور کراتے ہیں کہ اب تک اس فلم کو اتنے اتنے لاکھ افراد دیکھ چکے ہیں۔
گویا وہ اپنے تئیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے مقاصد میں اس قدر کامیاب ہوگئے ہیں؟ حالانکہ ان کم نصیبوں کو یہی نہیں معلوم کہ یہ سب کچھ ان کی مخالفت میں جارہاہے۔
کیونکہ اس فلم کے دیکھنے والے ان لاکھوں افراد کی گمراہی وضلالت کا وبال وگناہ بھی ان کم نصیبوں کے نامہٴ اعمال میں لکھا جارہا ہے، اس لئے کہ: ”من سن فی الاسلام سنة سیئة کان علیہ وزرہا ووزر من عمل بہا“ (مشکوٰة ص:۳۳) جس نے کوئی بُرا طریقہ ایجاد کیا، اس کا وبال اور ان سب لوگوں کا وبال جنھوں نے اس کی تقلید میں اس بُرے عمل کو اپنایا، اس کی گردن پر ہوگا۔
اب بتلایا جائے کہ فلم بنانے، اس کی اشاعت و ترویج یا خرید و فروخت کرنے والوں کو اس پر خوش ہونا چاہئے یا رونا چاہئے؟
بلاشبہ جب کوئی شخص دین ومذہب سے بیزار، فکر آخرت سے عاری، اور ہوا وہوس کا پرستار بن جائے، تو وہ نفع نقصان کے احساس سے محروم ہوجاتا ہے؛ بلکہ وہ جائز وناجائز اور حلال وحرام کے تصور سے بھی نا آشنا ہوجاتا ہے، اُسے مضر ومفید بلکہ اسے زہر و تریاق میں کوئی فرق نہیں نظر آتا۔
یہی کچھ اس بدنام زمانہ فلم ”خدا کے لئے“ کے ڈائریکٹر شعیب منصور کے ساتھ ہوا ہے، چنانچہ اس فلم کی ویب سائٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف مصوری اور موسیقی کے عشق میں اتنا آگے جاچکے ہیں کہ خیر سے اب وہ عقل ودانش کی تمام حدیں پار کرچکے ہیں، جیسا کہ وہ فرماتے ہیں:
”میں اس بات پر کبھی یقین نہیں کرسکتا کہ اللہ دنیا میں اپنی ہی عطا کردہ خوبصورت ترین چیزوں سے نفرت کرے گا، یعنی موسیقی اور مصوری۔“
کیا کہا جائے کہ موصوف کی عقل وخرد اور دل ودماغ درست ہیں؟ کہیں یہ صاحب ذہنی مریض تو نہیں؟ ورنہ کوئی معمولی عقل و فہم کا انسان اس کے سمجھنے سے قاصر نہیں کہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں، سب ہی اللہ کی پیدا کردہ اور عطا کردہ ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ ان میں سے جو چیزیں انسان کے لئے مفید ونفع بخش تھیں، ان کے استعمال کو حلال و جائز قرار دیاگیا اور جو انسانوں کے لئے نقصان دہ یا ضرر رساں تھیں ان کو حرام اور ناجائز قرار دیاگیا۔
اس تفصیل کے بعد موصوف کا یہ ارشاد کیونکر درست ہوسکتا ہے؟ کہ: ”میں اس بات پر کبھی یقین نہیں کرسکتا کہ اللہ دنیا میں اپنی ہی عطا کردہ خوبصورت ترین چیزوں سے نفرت کرے گا، یعنی ”موسیقی اور مصوری“ کیا دنیا میں جتنی حرام وناپاک چیزیں ہیں، ان کو اللہ کے علاوہ کسی اور نے پیدا یا عطاکیا ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کیا یہ مشرکین مکہ کا عقیدہ نہیں تھا کہ وہ خالق خیر اور خالق شر کو دو الگ الگ خدا مانتے تھے؟ اب بتلایاجائے کہ موصوف کا یہ ارشاد اسلام سے میل کھاتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔
چلو اگر موصوف کے اس فلسفہ کو مان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تمام چیزیں حلال وپاک ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے نفرت نہیں کرتا تو کیا ہم ان سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ جتنی حرام چیزیں ہیں وہ اللہ کی عطاکردہ نہیں ہیں؟ حالانکہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کے لئے بہت ساری چیزوں کے علاوہ بہت سے ایسے رشتے بھی بنائے ہیں جن سے نکاح شادی حرام ہے، مثلاً ماں، بیٹی، بہن، خالہ، بھتیجی، بھانجی وغیرہ، کیا یہ رشتے اللہ کے عطاکردہ اور خوبصورت نہیں ہیں؟ اگر کسی کی بیٹی اور بہن خوبصورت ہوتو کیا وہ خدانخواستہ اس سے شادی رچا سکتا ہے؟ اسی طرح کیا خنزیر، کتا، بھیڑیا اور سانپ وغیرہ اللہ کے پیدا کردہ جانور نہیں ہیں؟اگر ہیں تو کیا جناب فلم ساز صاحب ان کے بارے میں فرمادیں گے کہ یہ سب حلال ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ہی عطا کردہ چیزوں سے نفرت نہیں کرتا۔ کیا سمجھا جائے کہ موصوف ان کے حلال ہونے کے قائل ہیں؟ کیا وہ سورخور ہیں؟ کیا وہ اپنی بہن، بیٹی اور ماں سے جنسی تقاضے پورے کرنے کے قائل ہیں؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں، تو موسیقی اور مصوری کے بارہ میں اس ہرزہ سرائی کا کیا معنی؟
پھر یہ بات بھی محل نظر ہے کہ ”اللہ تعالیٰ نے موسیقی عطا فرمائی ہے“ اس لئے کہ موسیقی اللہ کی عطا نہیں؛ بلکہ انسان کااپنا فعل ہے، لہٰذا جیسے یہ کہنا جائز نہیں کہ زنا اور قتل و غارت گری اللہ کی عطا کردہ ہے، اسی طرح موسیقی اور مصوری کو بھی اللہ کی عطا کہنا جہالت و بے عقلی کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت اور عقل سلیم نصیب فرمائے۔ آمین۔
الغرض سمجھ نہیں آتا کہ یہ دنیا کے پجاری اس ایمان شکن اور گمراہ کن فلم پر اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ کیا ان کو مرنا نہیں؟ کیا ان کو موت، آخرت اور قیامت پر ایمان نہیں؟اگر ہے اور یقینا ہے، جیساکہ فلم سازوں کے ناموں سے معلوم ہوتا ہے کہ خیر سے وہ بھی مسلمان ہیں، تو بتلایا جائے کہ وہ اس بغاوتِ اسلام پر اللہ کے سامنے کیا جواز پیش کریں گے؟
بھلا جہاں ہر شخص کو اپنی نجات کے لالے پڑے ہوں گے، وہاں یہ لوگ اس ایمان شکن واخلاق سوز فلم کے ذریعہ گمراہ اور بے راہ ہونے والے کروڑوں انسانوں کے ایمان وعمل کو غارت کرنے کا وبال کیونکر برداشت کرسکیں گے؟
اس لیے اس فلم کو خریدنا، بیچنا، اس کی تشہیر کرنا دیکھنا اور دکھانا سب ناجائز، حرام اور گناہ کبیرہ ہے؛ بلکہ اندیشہ ہے کہ اس گستاخی پر ایمان نہ سلب ہوجائے، اسی طرح جن لوگوں نے یہ فلم بنائی ہے ان کو چاہئے وہ اس ایمان شکن فعل سے توبہ کریں اور بغاوت خداوندی کے اس نشان کو ختم کریں، ورنہ خطرہ ہے کہ کہیں یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے غیظ وغضب کا نشانہ نہ بن جائیں۔
لہٰذا ہم فلم کے بنانے، بنوانے، اس کی تشہیر کرنے، سنیما ہالوں پر چلانے، دیکھنے اور خرید وفروخت کرنے والوں سے نہایت دل سوزی سے عرض کرنا چاہیں گے کہ اپنی دنیا وآخرت خراب نہ کریں، اور اس گھاٹے کے سودے سے فوراً رجوع کرلیں، ورنہ بہرحال اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
واللّٰہ یقول الحق وہو یہدی السبیل
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
———————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 3، جلد: 92 ، ربیع الاول 1429 ہجری مطابق مارچ 2008ء