از: پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود عالم قاسمی
صدر شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی اہمیت اور قدر وقیمت ہے۔ یہ اسوہ مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ بھی ہے اور معیار ہدایت بھی ہے۔ اسی لیے مسلمان جہاں کہیں اور جن حالات میں ہوتا ہے اپنے مسائل کا حل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں ڈھونڈتا ہے اور اپنی زندگی کا سفر اسی کی رہنمائی میں طے کرتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو راستہ سے بھٹک جائے گا، منزل اس سے دور ہوجائے گی، وہ اپنی قومی پہچان اور تہذیبی تشخص کو بھی کھودے گا اور مقصد حیات سے بھی محروم ہوجائے گا۔
اس وقت مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسے ملکوں میں آباد اور مقیم ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت اور اکثریت نہیں ہے۔ اکثریت دوسری قوموں کی ہے اور حکومت بھی انہی کی ہے۔ ان میں بعض ممالک تو وہ ہیں جہاں کسی عہد میں مسلمانوں کی حکومت تھی مگر انقلاب زمانہ نے ان کی حکومت کو ختم کردیا اور ان کی جگہ وہاں کے دوسرے باشندوں نے لے لی۔ مثلاً بھارت، یوگنڈا، ہسپانیہ، گرجستان وغیرہ۔ اور بعض ممالک وہ ہیں جہاں مسلمان تلاش معاش اور ملازمت وتجارت کی خاطر گئے، وہاں جاکر آباد ہوگئے اور وہاں کی شہریت اختیار کرلی، یا وہاں کے مقامی باشندوں نے قبول اسلام کیا۔ جیسے برطانیہ، امریکہ، اسٹریلیا، جاپان وغیرہ اور بعض ممالک وہ بھی ہیں جہاں مسلمان ابتداء ہی سے قبول اسلام کے بعد مقیم ہیں اور اقلیت کے طور پر رہ رہے ہیں، مثلاً نیپال اور چین وغیرہ۔ ان ممالک میں مسلمانوں کو مختلف قسم کے سماجی، معاشی، سیاسی، مذہبی اور تہذیبی مسائل ومشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے مسائل ملکوں، حکومتوں اورمعاشروں کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں اور بہت سے مسائل مزاج اور نوعیت کے اعتبار سے یکساں ہوتے ہیں۔ مسلمان اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے جہاں ملکی قانون اورمعاشرتی طور وطریق کا سہارا لیتاہے وہاں وہ اپنے مذہبی حوالہ اور تہذیبی ورثہ کی طرف بھی دیکھتا ہے۔ یعنی وہ مقصد زندگی اور ضرورت زندگی دونوں میں توازن اور ہم آہنگی قائم کرکے اپنے وجود کو باقی رکھنا چاہتا ہے۔
ان ممالک میں جہاں مسلمانوں کے علاوہ دوسری قومیں رہتی اور بستی ہیں اور ایک مذہب کے بجائے کئی مذاہب اور ایک قومیت کے بجائے کئی قومیتوں کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں، اسوئہ رسول سے استفادہ اور راہ نمائی حاصل کرنے کی اگر سعی کی جاتی ہے تو ہمارا ایک مذہبی طبقہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کو اسوئہ کاملہ قرار دیتا ہے، کیونکہ کفار ومشرکین کے درمیان رہ کر جن مشکلات ومصائب کا آپ نے مقابلہ کیا اور جس طرح صبر و استقامت اور حکمت کے ساتھ دین کی دعوت دی اس سے بڑھ کر کوئی اور قابل تقلید نمونہ نہیں ہوسکتا۔
دوسرا مذہبی طبقہ مدنی زندگی کو اسوئہ کاملہ کے طور پر دیکھتا ہے، کیونکہ احکام کی تکمیل، سماجی اور سیاسی اصولوں کی تطبیق اور تکمیل اسلام کا مرحلہ یہی ہے اور ہمیشہ کے لیے رہنما ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مکی اور مدنی دونوں زندگیاں احتیاج واختیار کے لحاظ سے اپنی اپنی اہمیت رکھتی ہیں اور اجتماعی معاملات میں ہمارے لیے دلیل راہ کا کام دیتی ہیں، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا اتباع اور انطباق مومن کا نصب العین ہے۔ اس لیے اس کے ہر پہلو کو نظر میں رکھنا ضروری ہے اور ہر مرحلہ دعوت سے رہنمائی حاصل کرنا ناگزیر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی زندگی میں ایک اہم مرحلہ جو عموماً نظر انداز ہوجاتا ہے حالانکہ کثیر قومی معاشرہ میں براہ راست ہماری رہنمائی کرسکتا ہے وہ ہجرت حبشہ کا ہے۔ ہجرت حبشہ ۶۱۵/ یعنی نبوت کے پانچویں سال ہوئی تھی اورحبشہ سے مسلمانوں کی واپسی مختلف وقتوں میں ہوئی آخری وفد میں حضرت جعفرطیار مدینہ منورہ ۷ھ میں تشریف لائے۔ اس طرح حبشہ میں مسلمانوں کے قیام کی مدت اوسطاً پندرہ سال ہوتی ہے۔
محدثین اور سیرت نگاروں نے ہجرت حبشہ کا بیان اختصار سے کیاہے۔ مہاجر صحابہ کرام کی حبشہ کی زندگی کی تفصیلات اور مقامی باشندوں کے ساتھ ان کے تعلقات اور لین دین کی جزئیات کا احاطہ نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود جو کچھ معتبر روایات اور تاریخی واقعات سے ثابت ہوتا ہے وہ بجائے خود اتنا روشن اور حوصلہ بخش ہے کہ آج ہم ان کی روشنی میں تکثیری معاشرہ میں مسلمانوں کے اجتماعی حالات کو دیکھ سکتے ہیں اور لائحہ عمل طے کرسکتے ہیں۔
ہجرت کی اسلام میں جو اہمیت ہے اس کے متعلق اتنا جان لینا کافی ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تمام گناہوں کا خاتمہ کرنے والا بتایا ہے۔ الاسلام یہدم ما کان قبلہ والہجرة تہدم ما کان قبلہا․(۱) اسلام ماقبل کے سارے گناہ ختم کردیتاہے اور ہجرت ماقبل کے سارے گناہ مٹادیتی ہے۔
ہجرت حبشہ اسلام میں پہلی ہجرت تھی۔ یہ ہجرت جن حالات میں ہوئی وہ اسلام اور پیغمبر اسلام اور جانثارانِ اسلام کے لیے نہایت صبر آزما اور حوصلہ شکن تھے، قریش کی مخالفت کا طوفان تضحیک، طنز اور دشنام طرازی کی حدوں سے گذر کر جسمانی اذیتوں، ناقابل برداشت زیادتیوں اور قتل وغارت گری میں داخل ہوچکا تھا، ایمان آزمائش میں اور جان خطرہ میں تھی۔ ابن اسحاق کے بیان میں اس کی ہلکی سی جھلک ملتی ہے۔
”کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر دشمنی کی انتہا کردی، ہر قبیلہ اپنے اندر کے مسلمانوں پر حملہ آور تھا، وہ ان کو قیدکرتا، ان کو مارتا پیٹتا اور ٹارچر کرتا، ان کو بھوکا پیاسا رکھتا اور جب دھوپ تیز ہوجاتی تو مکہ کی تپتی ہوئی ریت پر لٹادیتا، جو کم زور مسلمان ہوتے ان کو اذیت دے کر دین سے باز رکھتا، چنانچہ بعض مسلمان ناقابل برداشت ظلم سے مجبور ہوکر دین سے پھر جاتے اور بعض ہمت اور حوصلہ سے کام لیتے اور اللہ ان کی حفاظت کرتا۔“(۲)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ان حالات میں ایک ہی راستہ تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو مکہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جانے کا حکم دیں۔ مگر سوال یہ تھا کہ آخر کہاں جائیں، کونسا ملک ان کو اپنے یہاں پناہ دیگا؟ جس طرح قریش اختلاف مذہب کی بنا پر قتل وغارت گری پر آمادہ تھے اسی طرح ہر ملک کے لوگ اپنے مذہب کا مخالف سمجھ کر یہی سلوک کریں گے۔ سرزمین حجاز سے ملی ہوئی سرحد ملک یمن کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل یمن کی حکمت کے قائل تھے اور یمن میں آپ کے بعض صحابہ بھی موجود تھے، چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعری یمن ہی کے رہنے والے تھے، رسول پاک کے پاس حاضر ہوئے، ایمان لائے اور ایمان وعمل کی اصولی تعلیمات حاصل کرکے یمن واپس چلے گئے۔(۳) مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو یمن ہجرت کرنے کا حکم نہیں دیا، کیونکہ وہاں کا حکمراں ظالم تھا،جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی اسی سال وہاں کے گورنر ابرہہ نے ہاتھیوں کا لشکر لے کر خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کیلئے مکہ پر حملہ کردیا تھا۔ حضور کے دادا عبدالمطلب نے اس موقع پر رب کعبہ سے جو التجا کی تھی اس کا یہ مشہور شعر ہے۔
لاہَمّ ان العبد یمنع رحلہ فامنع حلالک
لا یعْلبو فی صلیبہم ومحالہم ابدا محالک(۴)
اے اللہ! بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے تو اپنے گھر کی حفاظت فرما، کبھی ان کی صلیب اور ان کی تدبیریں تیری تدبیروں پر غالب نہ آئیں۔
دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ اہل یمن سے اہل مکہ کی سناشائی تھی، مسلمان وہاں ہجرت کرکے جاتے تو اہل مکہ بآسانی اہل یمن کو ان کو واپس کرنے پر آمادہ کرلیتے، ہجرت کا عمل بے معنی ہوکر رہ جاتا اور کفارکا تشدد اور بڑھ جاتا۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ انتخاب جزیرہ نمائے عرب سے باہر دوسرے براعظم افریقہ کے ملک حبشہ پر اٹھی۔ اگرچہ اس ملک کا بھی سرکاری مذہب عیسائیت تھی، مگر وہاں کا حکمراں انصاف پسند تھا۔ عرب اورحبشہ کے درمیان سمندر حائل تھا، وہاں سے مہاجرین کو واپس لانا قدرے آسان نہ تھا۔ چنانچہ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:
”لو خرجتم الی الارض الحبشة فان فیہا ملکا لا یظلم عندہ احد وہی ارض صدق حتی یجعل اللّٰہ لکم خرجا مما انتم فیہ“(۵)
(تم لوگ سرزمین حبشہ کو نکل جاؤ، وہاں کا بادشاہ ایسا انصاف پسند ہے کہ اس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا، وہ سچائی کی سرزمین ہے، تا آنکہ اللہ تعالیٰ تم کو ان مصیبتوں سے نجات دے جن میں آج تم گھرے ہوئے ہو)
اس ہجرت میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہ تھے، بلکہ آپ مکہ میں مقیم رہے، کفار کے ظلم وستم برداشت کرتے رہے اور دین کی دعوت پر لگے رہے۔ شاید اس میں یہ مصلحت شامل رہی ہو کہ ساتھیوں کو حبشہ بھیج کر اور خود مکہ میں رہ کر اسلام کے پیغام کو آفاقی سطح پر پیش کرسکیں گے۔ اس طرح اسلام کے لیے دو مراکز عرب اور افریقہ میں بن جائیں گے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم حبشہ کی حکومت اور معاشرت سے متعارف تھے۔ آپ کے گھر میں دایہ حضرت ام ایمن کا تعلق حبشہ سے تھا اور حضرت بلال حبشی کے والدین بھی حبشہ ہی کے تھے۔
بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندانی مراسم بھی تھے، اسی لیے نجاشی کی شخصیت پر اعتماد کرکے اپنے صحابہ کو ان کے ملک بھیج رہے تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت جعفرطیار کو ہجرت کے وقت رسول پاک نے ایک خط بھی دیا تھا کہ اسے نجاشی کو دے دینا۔ حدیث و سیرت کے موجودہ ریکارڈ کی بناپر یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضور کی زندگی کا یہ پہلا خط تھا، اس سے پہلے غالباً آپ نے کوئی خط کسی کو نہیں لکھا، اس خط میں تحریر تھا کہ:
”میں اپنے چچازاد بھائی جعفر کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں اس کے ساتھ کچھ اور مسلمان ہیں، جب یہ آپ کے پاس پہنچیں تو ان کی مہمان نوازی کریں۔“(۶)
دوسرا منظوم خط حضرت ابوطالب نے نجاشی کو اس وقت لکھا تھا جب مکہ کے سردار مہاجرین کو واپس لانے کے لیے دو نفری وفد حبشہ روانہ کررہے تھے، اس خط میں لکھا تھا:
الا لیت شعری کیف فی النای جعفر
وعمرو واعداء العدو اقارب
فہل نال افعال النجاشی جعفرا
واصحابہ او عاق ذالک شاغب
تعلّم ابیت اللعن انک ماجدٌ
کریم فلا یشقی لدیک المجانب
تعلم بان اللّٰہ زادک المجانب
واسباب خیر کلہا بک لازب
وانک فیض ذو سجال غزیرة
ینال الاعادی نفعہا والاقارب(۷)
کاش مجھے معلوم ہوتا کہ دور دراز علاقہ میں جعفر اور ان کے شدید ترین ہم وطن دشمن عمرو بن العاص کے درمیان کیا معرکہ ہوا، کیا جعفر اور ان کے ساتھیوں سے نجاشی نے حسن سلوک کیا، یا رکاوٹوں نے اس کا فیض روک دیا؟ اے نجاشی لعنت آپ سے دور ہے، آپ شریف اور معزز ہیں، آپکے دربار میں کوئی اجنبی محروم نہیں رہ سکتا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو عزت ودولت اور ہر قسم کے اسباب خیر عطا کیے ہیں۔ آپ سخاوت کا گہرا سمندر ہیں جس سے دوست اور دشمن سبھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ہجرت حبشہ کا سب سے مفصل بیان ام المومنین حضرت ام سلمہ سے مروی ہے جس کوامام احمد بن حنبل نے مسند میں ابن ہشام نے سیرة النبی میں اور ابونعیم اصفہانی نے دلائل النبوة میں مکمل نقل کیا ہے۔ ماحصل اس روایت کا یہ ہے کہ دربار رسالت سے ہجرت کا حکم ملا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار ساتھی حبشہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ان میں گیارہ مرد اور پانچ عورتیں شامل تھیں، ان کے نام اس طرح ہیں:
(۱) عثمان بن عفان (۲) ان کی اہلیہ حضرت رقیہ بنت محمد
(۳) عبدالرحمن بن عوف (۴) زبیر بن عوام
(۵) ابو حذیفہ بن عتبہ (۶) ان کی بیوی سہلہ بنت سہل
(۷) مصعب بن عمیر (۸) ابوسلمہ بن عبدالاسد
(۹) ان کی بیوی ام سلمہ (۱۰) عثمان بن مظعون
(۱۱) عامر بن ربیعہ (۱۲) ان کی بیوی لیلیٰ بنت ابی حثمہ
(۱۳) سہیل بن بیضاء (۱۴) ابوسیرہ بن ابی رہب عامری
(۱۵) ان کی بیوی ام کلثوم بنت سہل بن عمر (۱۶) حاطب بن عمر۔(۸)
یہ ہجرت نبوت کے پانچویں سال ماہ رجب میں ہوئی تھی۔ سولہ افراد پر مشتمل مہاجرین کا یہ قافلہ جب شعیبہ کی بندرگاہ پر پہنچا تو ان کو حبشہ جانے والی دو کشتیاں مل گئیں اور وہ فوراً روانہ ہوگئے۔ اہل مکہ کو جب یہ اطلاع ملی تو انھوں نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے مگر اس وقت تک کشتیاں ساحل سے دور جاچکی تھیں، لہٰذا وہ ناکام واپس لوٹے۔(۹)
حبشہ میں نجاشی نے مہاجروں کا خیرمقدم کیا اور ان کو پناہ دی۔ شعبان اور رمضان کے دو ماہ حبشہ میں گذرے تھے کہ مسلمانوں کو یہ اطلاع ملی کہ مکہ کے کفار مسلمان ہوگئے ہیں اور ظلم وستم بند ہوگیاہے، اس لیے یہ حضرات مکہ لوٹ آئے۔ مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ اطلاع غلط تھی۔ چنانچہ بااثر مہاجرین اپنے کفار دوستوں کی پناہ لے کر مکہ میں مقیم رہے۔(۱۰) کفار مکہ نے نئے سرے سے مسلمانوں پر مظالم ڈھانا شروع کیا اوراب زیادہ زور وشور سے اذیت پہنچائی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ مسلمانوں کو مکہ سے حبشہ ہجرت کرنے کی تلقین فرمائی، اس ہجرت میں ۸۳ مرد اور ۱۸ خواتین یعنی کل ۱۰۱ صحابہ و صحابیات شریک رہے۔(۱۱)
اہل مکہ نے جب یہ سنا کہ نجاشی نے مہاجروں کو اپنے یہاں پناہ دی، ان کا خیرمقدم کیااور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو وہ اسے برداشت نہ کرسکے اور طے کیا کہ ہر حال میں مہاجروں کو حبشہ سے نکلوانا ہے اور مکہ واپس لانا ہے۔
حبشہ سے اہل مکہ کا تجارتی رابطہ تھا، چنانچہ دو تجربہ کار نمائندوں عبداللہ بن ربیعہ اور عمروبن العاص کو نجاشی اور ان کے وزراء کے لیے تحفہ تحائف دے کر حبشہ روانہ کردیا۔ ان تحائف میں بیش تر چمڑے کی مصنوعات تھیں۔ کفار کے نمائندوں نے حبشہ پہنچ کر نجاشی کے تمام وزیروں کو تحفے پیش کیے اور ان سے وعدہ لے لیا کہ وہ بادشاہ کو مہاجرین کو واپس کرنے پر آمادہ کریں گے۔ قریشی نمائندے آخر میں نجاشی کی خدمت میں تحفے لے کر حاضر ہوئے اور عرض مدعا رکھا:
”چند بے وقوف نوجوان اپنے قومی دین کو چھوڑ کر آپ کے ملک میں آگئے ہیں مگر آپ کے دین میں داخل نہیں ہوئے؛ بلکہ ایک ایسے دین کا اتباع کرتے ہیں جس سے نہ ہم واقف ہیں اور نہ آپ۔ ان کی قوم کے بزرگوں نے ہمیں آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ آپ ان کو لوٹادیں، کیونکہ وہی لوگ ان کے سرپرست ہیں، وہی جانتے ہیں کہ ان میں کیا عیب ہے اور کیوں ان سے ناراض ہیں۔“(۱۲)
نجاشی سے وفد نے گذارش کی کہ ان مہاجروں کو اپنی بات کہنے کا موقع دیے بغیر ان کے حوالے کیا جائے۔ وزیروں نے بھی وفد کی تائید کی اور بغیر مہاجروں کی بات سنے ان کو وفد کے حوالہ کرنے کی درخواست کی مگر بادشاہ انصاف پسند تھا فطری انصاف کے تقاضوں سے واقف تھا اس نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں اس طرح ان کو تمہارے حوالہ نہیں کرسکتا، جو لوگ میرے ملک میں آئے، میرے پڑوس میں رہے، میری پناہ کو دوسروں کے مقابلہ میں ترجیح دی، میں ان کو ضرور بلاؤں گا اور ان سے تمہارے عائد کردہ الزامات کے سلسلہ میں ضرور پوچھ گچھ کروں گا اگر وہ تمہارے الزامات کی تصدیق کریں گے تو میں ان کو تمہارے حوالہ کردوں گا اور واپس بھیج دوں گا اور اگر وہ دوسری بات کہتے ہیں تو میں ان کو ہرگز حوالہ نہیں کروں گا، بلکہ بدستور حسن سلوک کروں گا۔(۱۳)
مسلمانوں کی پریشانی یہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر دوری پر تھے کہ براہِ راست ان سے رہنمائی حاصل کرنا ممکن نہ تھا، ہرمشکل کو خود ہی باہمی مشورہ سے حل کرنا تھا، ان کے پاس حضور کی اصولی رہنمائی تھی قریش کے نمائندے کے الزام اور مطالبہ کا جواب دینے کے لیے جب نجاشی ے صحابہ کرام کو بلوایا تو حضرات صحابہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس وقت کیا حکمت عملی اختیار کی جائے جس سے وہ کفار کے شکنجہ میں پھنسنے سے محفوظ رہ سکیں، اسلام کی تاریخ میں اجنبی ملک میں مسلمانوں کا یہ پہلا مقدمہ تھا اوراس پر اسلام کے مستقبل کا انحصار تھا۔ حضرت جعفر صحابہ کرام کے سربراہ تھے اور حضرت ابوہریرہ کے بقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل انسان تھے۔(۱۴) صحابہ کرام نے اس وقت جو موقف اپنایا وہ دو نکتوں پر مشتمل تھا، پہلا نکتہ یہ تھا کہ ہم اپنے نبی کی تعلیم کے خلاف کوئی بات نہیں کہیں گے چاہے جو کچھ بھی ہوجائے۔(۱۵)
دوسرا نکتہ یہ تھا کہ وہ بادشاہ کے نظام انصاف کا سہارا لیں گے۔
صحابہ کرام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوچکا تھا کہ بادشاہ انصاف پرور ہے اور خود ان حضرات نے بادشاہ کے پڑوس میں رہ کر اس کی انصاف پسندی کا عملاً مشاہدہ اور تجربہ کرلیا تھا لہٰذا ان کو اعتماد تھا کہ حق وانصاف کی جنگ میں وہ فتح یاب ہوں گے لہٰذا انھوں نے اسی انصاف کے نظام میں اپنے دفاع کی راہ نکالی۔
نجاشی نے وزراء، علماء ،مشاہدین، مدعی اور مدعاعلیہ سے بھرے دربار میں جب ان کے سامنے قریش کے وفد کا مقدمہ رکھا تو مہاجرین کے قائد حضرت جعفر طیار نے نجاشی کے ذریعہ اپنے دفاع میں تین سوالات قریش کے نمائندوں سے کیے۔
(۱) کیا ہم کسی کے غلام ہیں؟ جو اپنے آقا سے بھاگ کر آئے ہیں، اگر ایسا ہے تو ہمیں ضرور واپس کیا جائے۔
نجاشی نے عمروبن العاص سے جواب طلب کیا تو انھوں نے کہا کہ نہیں یہ لوگ آزاد اور شریف ہیں۔
(۲) کیا ہم کسی کو قتل کرکے بھاگے ہیں؟ اگر ہم نے ناحق خون کیا ہے تو ہمیں مقتول کے وارثوں کے حوالہ کردیا جائے۔
نجاشی نے وفد سے جواب طلب کیا تو عمروبن العاص نے کہا کہ نہیں ایک قطرہ خوں بھی نہیں بہایا۔
(۳) کیا ہم کسی کا مال لے کر بھاگے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہم اس کو ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
نجاشی نے وفد سے جواب مانگا تو انھوں نے کہا نہیں ایک پیسہ بھی لے کر نہیں بھاگے۔(۱۶)
حضرت جعفر طیار نے نجاشی کی عدالت میں قریش کے الزامات کے جواب میں جو سوالات اٹھائے تھے وہ اتنے معقول، برمحل اور عام ذہن کو اپیل کرنے والے تھے کہ عدالت میں موجود ہر شخص نے مہاجرین کی بے گناہی اور کفار قریش کی ایذارسانی کا اندازہ لگالیا، پھر بھی نجاشی نے مقدمہ خارج نہیں کیا بلکہ قریش کے وفد کے لگائے الزامات پر بحث شروع کی، انھوں نے حضرات صحابہ سے اس سوال کا جواب طلب کیا کہ وہ کونسا دین ہے جس کے باعث تم نے اپنی قوم کو چھوڑا، نہ ہمارے مذہب میں داخل ہوئے اورنہ دنیا میں موجود دوسرے مذاہب میں شامل ہوئے؟۔
اس سوال کے جواب میں حضرت جعفر نے اپنے دینی موقف اور مذہبی تعلیم کی وضاحت نہایت معقولیت اور بصیرت کے ساتھ کی، انھوں نے کہا۔
”بادشاہ سلامت! ہم جاہلیت میں مبتلا تھے، بتوں کی پوجا کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاری کا ارتکاب کرتے تھے، رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتے تھے، پڑوسیوں سے براسلوک کرتے تھے، ہمارا طاقت ور کمزور کو دبالیتا تھا، ہم اسی حالت میں تھے کہ اللہ نے ہمارے درمیان ایسا رسول بھیجا جس کے نسب، سچائی، امانت اور پاکدامنی سے ہم واقف ہیں۔
انھوں نے ہمیں دعوت دی کہ ہم صرف ایک معبود کی پرستش کریں، اس کے علاوہ پتھر وغیرہ کے وہ تمام بت جن کی ہم اور ہمارے آباء واجداد پرستش کرتے تھے چھوڑ دیں، انھوں نے ہمیں سچ بات بولنے کی، امانت داری کی، صلہ رحمی کی، پڑوسیوں سے حسن سلوک کی، حرام کاموں اور دوسروں کا خون بہانے سے پرہیز کرنے کی تعلیم دی۔
انھوں نے ہمیں بدکاری سے، جھوٹی بات کہنے سے، یتیم کا مال کھانے سے، پاک دامن عورتوں پر الزام لگانے سے روکا۔ انھوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں، نماز، زکوٰة اور روزہ وغیرہ کا حکم دیا۔ چنانچہ ہم نے ان کی تصدیق کی، ان پر ایمان لے آئے، اور اللہ کی طرف سے لائے ہوئے احکام میں ان کی پیروی کی، ایک اللہ کی عبادت کی، شرک چھوڑ دیا، جس کو حرام کہا اسے حرام جانا، جسے حلال کہا اسے حلال سمجھا۔
بادشاہ سلامت! یہی وہ جرم تھا جس کی بنا پر ہماری قوم نے ہم سے دشمنی کی ہمیں ٹارچر کیا، ہمارے دین کی خاطر آزمائش میں ڈالا تاکہ اللہ کی عبادت چھوڑ کر ہم پھر بتوں کی پوجا کرنے لگیں،اور جاہلیت کی طرح گندے کاموں کو جائز سمجھیں۔ جب انھوں نے ہم پر قہر ڈھایا، ہم پر ظلم کیا، ہمارا جینا دوبھر کردیا اور ہمارے مذہب کے درمیان رکاوٹ ڈالی تو ہم وطن سے نکل کر آپ کے ملک میں چلے آئے، دوسروں کے مقابلہ میں آپ کو ترجیح دی، آپ کی ہمسائیگی اختیار کی اس امید پر کہ آپ کے یہاں ہم پر ظلم نہ ہوگا۔(۱۷)
نجاشی اور ان کی عدالت عالیہ جب مطمئن ہوگئی کہ قریش کا الزام غلط اور مسلمانوں کا بیان درست ہے، تو نجاشی نے آخری سوال مہاجرین صحابہ سے یہ کیا کہ جس خدائی حکم اور تعلیم کا تم حوالہ دے رہے ہو اس کے متن کا کوئی حصہ تمہارے پاس ہے؟۔
تب حضرت جعفر طیار نے کہا جی ہاں موجود ہے اور موقع کی مناسبت سے سورہ مریم کے ابتدائی رکوع کی تلاوت شروع کی۔ تلاوت کیا کی ع از دل خیزد بردل ریزد، کا سماں باندھ دیا، حضرت جعفر سورہ مریم کی تلاوت کی تو باران خشت برسنے لگی، نجاشی نے روتے روتے داڑھی تر کرلی، پادریوں نے روتے روتے اپنے صحیفے بھگولیے، حضرت جعفر کے تین نکاتی سوالات نے عدالت کو پہلے ہی مطمئن کردیا تھا اوراب ان کی تلاوت قرآن نے عدالت عالیہ کے دلوں کو فتح کرلیا۔ نجاشی انصاف پرورہی نہیں، صاحب دل اور صاحب معرفت بھی تھے، انھوں نے عدالت میں فیصلہ سنادیا۔
”ان ہذا والذی جاء بہ عیسیٰ لیخرجن من مشکاة واحدة، انطلقا فلا واللّٰہ لا اسلمہم الیکما“(۱۸)
(بے شک یہ تعلیم اور جس تعلیم کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام لے کرآئے وہ ایک ہی سرچشمہ نور کی ضیاپاشیاں ہیں۔ قریش کے نمائندو تم واپس جاؤ میں ہرگز ان مہاجرین کو تمہارے حوالہ نہیں کرسکتا۔)
قریش کے نمائندے مقدمہ ہارگئے، مگر نچلے نہ بیٹھے، انھوں نے طے کیا کہ اگلے دن وہ نئے الزامات لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور مہاجر مسلمانوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دیں گے۔ عبداللہ بن ربیعہ نے عمروبن العاص کو سمجھایا کہ ایسا نہ کرنا اگرچہ وہ ہمارے دھرم کے مخالف ہیں مگر ہیں تو ہمارے ہی بھائی بندے، مگر عمربن العاص نے نہیں مانا اور کہا میں ضرور بادشاہ کو بتاؤں گا کہ یہ مسلمان حضرت عیسیٰ کو عبد یعنی بندہ سمجھتے ہیں۔(۱۹)
اگلے دن پھر دربار لگا، قریش کے وفد نے نئی چارج شیٹ داخل کی اور بادشاہ سے درخواست کی کہ مسلمانوں سے جواب طلب کریں۔ مہاجرین عدالت میں حاضر ہوئے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ تم حضرت عیسیٰ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو؟ قریش کے نمائندوں نے یہ سوچ کر چال چلی تھی کہ گذشتہ دن ان کے مشرکانہ مذہب کی خلاف مسلمانوں نے جو بیان دیا تھا اس معاملہ میں بادشاہ اور مسلمانوں کا موقف ایک تھا اس لیے بادشاہ کا فیصلہ ان کے حق میں ہوگیا۔ آج جب کہ بادشاہ کے عقیدہ کے خلاف مہاجروں کو بیان دینا ہوگا تو یقینا بادشاہ بھڑک جائے گا اور فیصلہ ہمارے حق میں ہوجائے گا۔
مسلمانوں نے باہمی مشورہ سے طے کیا تھا کہ جس عقیدہ کی خاطر انھوں نے وطن چھوڑا ہے اسے بادشاہ کی پسند وناپسند پر نہیں چھوڑیں گے بلکہ حق بات کہیں گے، چنانچہ بھری عدالت میں حضرت جعفر طیار نے بیان دیا۔
”ہم ان کے بارے میں وہی کہتے ہیں جو اللہ اوراس کے رسول نے کہا ہے کہ وہ اللہ کے بندے،اس کے رسول، اس کی روح اوراس کا کلمہ تھے جسے کنواری مریم پر اللہ نے القا کیا تھا“(۲۰) نجاشی نے یہ سن کرزمین سے ایک لکڑی اٹھائی اور کہا جو تم نے کہا ہے حضرت عیسیٰ اس سے اس لکڑی کے برابر بھی مختلف نہ تھے، تم لوگ جاؤ اور میرے ملک میں امن وسکون کی زندگی گزارو، جو تم پر زیادتی کرے گا اس سے مواخذہ ہوگا۔“(۲۱)
بعض سیرت نگار یہ بھی لکھتے ہیں کہ نجاشی نے نہ صرف مہاجر مسلمانوں کے عقیدہ کی تائید کی تھی بلکہ رسول کریم کی رسالت کی شہادت دے کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے تھے۔(۲۲) ابن سعد کا بیان ہے کہ نجاشی سن ۷ ہجری میں اس وقت اسلام لائے جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خط لکھ کر اسلام کی دعوت دی۔(۲۳) حضرت عبداللہ بن مسعودکی روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ نجاشی نے فرمایا اگر میرے اوپر ملک کی ذمہ داریاں نہ ہوتیں تو میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ان کی جوتیاں اٹھاتا۔(۲۴)
اجنبی ملک میں یہ پہلا مقدمہ تھا جو مسلمانوں نے جیتا تھا۔ اس کے بعد مسلمان تقریباً ۱۵ سال تک حبشہ میں مقیم رہے۔ وہاں انھوں نے شادی بیاہ کی، ان کی اولادیں ہوئیں اور ایک پرامن شہری کی زندگی گذارتے رہے۔ قرائن سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان نجاشی کے قریب آباد تھے، سو آدمیوں پر مشتمل ایک کالونی آباد ہوگئی تھی اور حبشہ کی یہ پہلی مسلم کالونی تھی مگر ان کا ذریعہ معاش کیا تھا، سماجی معاملات کیسے تھے، کتب سیرت میں اس کی جزئیات نہیں ملتیں البتہ اتنا معلوم ہوتا ہے کہ نجاشی نے مہاجرین کی لباس اور طعام کی شکل میں امداد کی۔(۲۵) مسلمان وہاں چھوٹا موٹا کاروبار بھی کرتے تھے اورمحنت ومشقت سے روزی کماتے تھے۔ مہاجرین جب تک حبشہ میں رہے ملک کے خیرخواہ اور نجاشی کے لیے دعا کرتے رہے چنانچہ جب نجاشی کے خلاف اس کے ایک شہری نے بغاوت کی تو مسلمانوں نے نجاشی کی کامیابی کے لیے خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں کیں۔
حضرت ام سلمہ روایت کرتی ہیں:
”فدعونا اللّٰہ تعالیٰ للنجاشی بالظہور علی عدوہ والتمکین لہ فی بلادہ“(۲۶)
ہم لوگوں نے نجاشی کے لیے دعا کی اللہ اسے دشمن پر فتح عطا کرے اوراس کے ملک پر اس کا اقتدار جمادے۔
حضرت جعفر نے اسلام کے تعارف پر مشتمل جو تقریر نجاشی کے دربار میں کی تھی اس میں رسول پاک کی چودہ تعلیمات کا ذکر تھا:
(۱) توحید (۲) سچائی (۳) امانت داری (۴) صلہ رحمی (۵) پڑوسیوں سے اچھا سلوک (۶) حرام کاموں سے پرہیز (۷) خونریزی سے گریز (۸) بدکاری سے پرہیز (۹) جھوٹی بات سے پرہیز (۱۰) مال یتیم سے پرہیز (۱۱) عورتوں پر الزام تراشی سے گریز (۱۲) نماز قائم کرنا (۱۳) زکوٰة دینا (۱۴) روزہ رکھنا۔
ان تعلیمات میں، مذہب، اخلاق اور سماج سب کچھ کی رہنمائی موجود ہے۔ یہی وہ بنیادی تعلیم ہے جو اسلامی معاشرہ کی اساس ہے۔
مہاجرین صحابہ کی اجتماعیت کو ایک دھکا اس وقت لگا جب کہ ان میں سے ایک مہاجر عبیداللہ بن جحش نے اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرلی۔ خواہ اس کی وجہ معاشی حالت رہی ہو یا تربیت کی کمی رہی ہو یا نجاشی کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر اس نے یہ اقدام کیا ہو، بہرحال اس کے ارتداد سے مسلمانوں کو ذہنی اذیت پہنچی اور ان کی اجتماعیت کو دھکا لگا۔ مگرمسلمانوں نے اس صدمہ کو برداشت کیا، عبید اللہ بن جحش کا اسی حال میں انتقال ہوگیا۔ اس کی بیوی ام حبیبہ جو سردار مکہ ابوسفیان کی بیٹی تھیں، اب بیوہ ہوچکی تھیں، رسول کریم نے نجاشی کو خط لکھا کہ وہ ان سے نکاح کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لہٰذا غائبانہ عقد کرکے ان کے پاس مکہ بھیج دیں۔ چنانچہ سن ۷ ہجری میں نجاشی نے عقد کے ساتھ اپنی طرف سے مہر کی رقم ادا کرکے حضرت ام حبیبہ کو رسول پاک کے پاس بھیج دیا۔ رسول پاک نے اس طرح ان کو شوہر کے ارتداد کی وجہ سے سماجی رسوائی کا صدمہ سہنے سے بچالیا اور اپنی زوجیت میں رکھ کر ان کارتبہ بھی بڑھادیا۔(۲۷)
کتب سیرت سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ مہاجر مسلمانوں نے حبشہ کے مقامی باشندوں کو اسلام کی دعوت دینی شروع کردی تھی، چنانچہ ان کی دعوتی سرگرمیوں کے نتیجہ میں چالیس پچاس حبشیوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔(۲۸)
مہاجرین حبشہ کے مقدمہ، بیانات اور اجمالی حالات سے مختصرا یہ نتائج برآمد ہوتے ہیں:
(۱) مسلمان جہاں کہیں ہوں وہ حق پر قائم رہیں اور حق بات ہی کہیں حالات جیسے بھی ہوں، یہی ان کی مذہبی اور تہذیبی زندگی کی اساس ہے۔
(۲) دین کی دعوت، حکمت،معقولیت اور مدلل طریقہ سے اپنے ہم وطنوں کو دین اور ہمیشہ طاقت کا مقابلہ حکمت سے کرنے کی سعی کریں۔ اقلیت کے لیے یہ ہتھیارزیادہ کارگر ہے۔
(۳) جس ملک میں رہیں اس کے خیرخواہ اور محب وطن بن کر رہیں، چنانچہ نجاشی کے لیے دعاؤں کا اہتمام کرکے صحابہ نے اسی خیرخواہی کا ثبوت دیا تھا۔
(۴) ملک کے نظام عدل سے واقفیت حاصل کریں اور اسے اپنے تحفظ کے لیے اوراپنا حق حاصل کرنے کیلئے استعمال کریں، حضرت جعفر نے نجاشی کی عدالت میں یہی کارنامہ انجام دیا تھا۔
(۵) جس ملک میں رہیں وہاں امن پسند شہری کی حیثیت سے رہیں اور تخریبی کارروائیوں ملوث نہ ہوں۔ حضرت جعفر کی تقریر کا یہ جملہ کہ ”رسول اللہ نے ہمیں پڑوسیوں سے حسن سلوک کی، حرام کاموں سے بچنے اور خونریزی سے گریز کرنے کی تعلیم دی“ یہی سبق اورنصیحت دیتا ہے۔
(۶) مسلمان جہاں بھی ہوں باہمی اتحاد واتفاق، مشاورت اور یک جہتی سے کام لیں، اپنا کوئی امیر بھی منتخب کریں، چنانچہ حضرت جعفر طیار کی امارت میں مہاجر صحابہ کا باہمی مشورہ سے ایک موقف طے کرنا ہمیں یہی اسوہ فراہم کرتا ہے۔
(۷) اپنے موقف، مقصد حیات اور طرز زندگی سے ہم وطنوں کو واقف کرائیں تاکہ وہ غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ ان کے لیے تحفظ کے مسائل پیدا نہ کریں اور اسلام کو حریف کے طور پر نہ سمجھیں۔ حضرت جعفر کی پوری تقریر کا لب لباب یہی ہے۔
(۸) ہم وطنوں کے مذہب، مزاج اور تہذیبی شعار سے ضروری واقفیت حاصل کریں تاکہ بقائے باہم کی راہ ہموار ہو۔ ہجرت حبشہ سے قبل سورہ مریم کا نزول اور نجاشی کی عدالت میں حضرت جعفر کی تلاوت سے اس کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے۔
(۹) مسلمانوں کو اگر کوئی مذہبی یا سماجی صدمہ سے دوچار ہونا پڑے تو وہ صبر واستقلال اور دوراندیشی سے کام لیں، عجلت اور جذباتیت سے ممکن حد تک گریز کریں، جیساکہ عبیداللہ بن جحش کے ارتداد پر مسلمانوں کے محتاط رد عمل سے معلوم ہوتا ہے۔
(۱۰) مسلمان جس ملک میں ہوں محنت ومشقت اورحلال روزی کو اپنا وطیرہ بنائیں۔
مختصر یہ ہے کہ آج کے وہ ممالک جہاں حکومت اور اکثریت دوسرے مذاہب کے حاملین کی ہے اور مسلمان وہاں اقلیت کی حیثیت سے جی رہے ہیں، حبشہ کے مہاجر صحابہ کے حالات سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے پرامن زندگی گذارنے کا منصوبہ بناسکتے ہیں۔
ملک کے آئین اور عدالت سے حق حاصل کرسکتے ہیں اوراپنے حقوق و فرائض کو یقینی بناسکتے ہیں۔
$ $ $
حوالہ جات
(۱) الصحیح المسلم، کتاب الایمان، باب فضل ان الاسلام یہدم ما کان قبلہ
(۲) عبدالملک ابن ہشام، سیرة النبی جلد۱،ص:۳۳۹، دارالفکر ۱۹۸۱/
(۳) ابن حجرعسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، جلد۲،ص۳۵۹ مکتبہ مثنی بغداد
(۴) اسماعیل ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، جلد۴، ص۵۸۵ (سورہ الفیل) دارالخیردمشق ۱۹۹۰/
(۵) سیرة النبی جلد۱،ص۳۵۶ (۶) محمد حمید اللہ، خطبات بھاول پور، ص۶۳، نئی دہلی ۱۹۹۷/
(۷) سیرة النبی جلد ۱، ص۳۵۶ (۸) ایضاً، ۳۵۳، نیز دیکھیے فتح الباری، جلد۷،ص۱۴۳
(۹) ابن سعد، الطبقات الکبری، جلد۱،ص۲۰۴، بیروت ۱۹۶۰/ (۱۰) ایضاً، ص۲۰۶
(۱۱) ایضاً، نیز دیکھیے احمد بن محمد القسطلانی، المواہب اللدنیہ، جلد۱، ص۲۵۹، گجرات، سیرة النبی جلد۱،ص۳۵۳
(۱۲) سیرة النبی، جلد۱،ص۳۵۸، نیز ابونعیم اصفہانی، دلائل النبوة جلد۱،ص۸۲، دائرة المعارف النعمانیہ حیدرآباد ۱۳۲۰ھ
(۱۳) ایضاً، نیز دیکھیے مسند امام احمد بن حنبل حدیث نمبر ۱۷۴۰، جلد۲، ص۳۵۶، دارالحدیث قاہرہ، ۱۹۹۵/
(۱۴) الاصابہ فی تمییز الصحابہ، جلد۱، ص۲۳۷ (۱۵) سیرة النبی جلد۱، ص۳۵۸
(۱۶) دلائل النبوة جلد۱، ص:۸۰ (۱۷) سیرة النبی جلد۱، ص۳۵۹، نیز دیکھیے مسند امام احمد بن حنبل، حدیث نمبر ۱۷۴۰
(۱۸) سیرة النبی جلد۱،ص۳۵۹ (۱۹) ایضاً، ص۳۶۰ (۲۰) ایضاً (۲۱) ایضاً
(۲۲) المواہب اللدنیہ جلد۱،ص۲۵۹ (۲۳) الطبقات الکبریٰ جلد۱،ص۲۰۷
(۲۴) مسندامام احمد بن حنبل، حدیث نمبر ۴۴۰۰، جلد۴، ص۲۴۶
(۲۵) دلائل النبوة جلد۱،ص۸۱ (۲۶) سیرة النبی جلد،ص۳۶۰
(۲۷) المواہب اللدنیہ جلد۲،ص۸۵ (۲۸) خطبات بھاول پور،ص۲۰۸
———————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 2، جلد: 92 ، صفرالمظفر 1429 ہجری مطابق فروری 2008ء