از: حضرت مولانا محمدمیاں صاحب رحمہ اللہ

عزم وہمت، حمیتِ ملّی اور غیرتِ وطن کا وہ شعلہٴ جوالہ جو ”چنیاپٹن“(۱) سے اُٹھا، دہلی اورآگرہ میں چمکا، سرزمین اودھ میں چٹخا، روہیل کھنڈ میں شعلہ افشاں ہوا۔ پھر اسی کے ایک گوشہ میں محوِ سکون ہوگیا۔ اس کو ۱۸۵۷/ کی جانِ مضطرب کہا جائے یا شہداء ۱۸۵۷/ کا سرتاج، دونوں درست۔

            اپنے تو اپنے غیر بھی(۲) اس کے علم وعمل، قوتِ روحانی اور جرأتِ ایمانی کے معترف ہیں۔

اصل نام، ولدیت اور سلسلہٴ نسب

            تاریخِ آزادی کے ہیرو، وطنِ عزیز کے بہادر فرزند، فداء ملک وملّت، سلطان فتح علی عرف سلطان ٹیپو (شہید) کے ایک مصاحب، سیّدمحمد علی نواب چنیاپٹن تھے۔ انہیں نواب محمد علی کے یہاں ۱۲۰۴ھ میں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ باپ کے نام کی مناسبت سے احمدعلی نام رکھا گیا۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ اصل نام سے شہرت بہت کم ہوئی۔ پہلے ضیاء الدین عرف رہا، دلاورجنگ خطاب۔ اور جب یہ لڑکا عمر عزیز کی تقریباً چھ دہائیاں طے کرنے کے بعد جدوجہد آزادی کا علمبردار ہوا تو احمداللہ شاہ کہلانے لگا۔ رحمہ اللہ۔

            سیّد محمد علی، سیّد جلال الدّین عادل کے فرزند ارجمند تھے۔ سیّد جلال الدّین جو خاندانِ قطب شاہی (فرمانروائے گولکنڈہ) کی یاد گار(۳) تھے۔ ایک طرف چنیاپٹن کے رئیس اور نواب تھے تو دوسری جانب ایک باخدا بزرگ تھے جو اپنے زمانہ کے ولی اور قطب سمجھے جاتے تھے۔

تعلیم وتربیت اور طبعی رجحانات

            خاندانی عظمت کے بموجب آپ کی تعلیم وتربیت امیرانہ ہوئی اوراس زمانہ کے رواج کے مطابق علومِ دینی کے ساتھ فنونِ حرب کا بھی ماہر بنایا گیا۔ ہوش سنبھالا تو طبیعت کا میلان اوراد و وظائف کی طرف تھا۔ نماز، روزہ اوراحکامِ شریعت کے سخت پابند تھے۔ ہر عمل میں سُنّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتّباع ضروری سمجھتے تھے۔ والدین سے ٹیپوسلطان کی شہادت اور سلطنت خداداد کی تباہی کا حال سُنا تو حکومت اورمال ودولت سے دل بیزار ہوگیا۔(۴)

سیاحت و بیعت

            جوانی کاآغاز تھا کہ سیاحت کاشوق ہوا۔ پہلے حیدرآباد گئے۔ پھر یورپ کاسفر کیا۔ انگلستان جاکر ملکہ وکٹوریہ کے مہمان ہوئے۔ وہاں سے واپس ہوکر عربی ممالک کا دورہ کیا۔ حج بیت اللہ شریف سے مشرف ہوئے۔ پھر ایران ہوکر چمن کے راستہ سے ایک عرصہ کے بعد ہندوستان پہنچے۔ یہاں ”سانبھر“ کے علاقے میں ڈیرے ڈال دئیے۔(۵)

            پھر مراحلِ سلوک طے کرنے اور رُوحانی کمالات حاصل کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی حضرت قربان علی شاہ کی شہرت سن کر جے پور گئے۔ ریاضت ومجاہدہ اور چلّہ کشی کے انوار پہلے سے موجود تھے۔ بیعت نے فوراً ہی نسبت مشائخ کا کیف پیدا کردیا۔ حضرت قربان علی شاہ صاحب نے جس طرح رُوحانی فیوض وکمالات سے مالا مال کیا، اصلاح صوفیاء اور تنظیمِ مجاہدین کا فرض بھی آپ کے ذمہ کردیا، اور ہاں محفلِ سماع کی بھی اجازت دے دی۔(۶) بہرحال مولانا احمد اللہ شاہ صاحب جے پور سے ٹونک تشریف لے گئے نواب وزیرالدولہ سے مجلسیں گرم رہیں۔

            ٹونک کی آب وہوا آپ کے ذوقِ سماع کے موافق نہیں تھی۔(۷) مگر ذوقِ جہاد کے لئے سب سے موافق آب وہوا اسی ٹونک کی تھی۔(۸) جو حضرت سیّد احمد شہید کے پس ماندگان کا مرکز تھا اورابھی چند سال ہوئے، حضرت مولانا نصیرالدین صاحب دہلوی کا جہادی قافلہ، وزیرالدولہ کے دماغ کو سرشار کرتا ہوا یہاں سے گذرا تھا۔

            حضرت مولانا سیّد احمد اللہ شاہ صاحب ٹونک سے رُخصت ہوکر گوالیار پہنچے یہاں ایک بزرگ محراب (۹) شاہ قلندر تھے۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اُن کے مشائخانہ اطوار نے آپ کے دل کو موہ لیا۔ یہ قلندر صاحب بھی عجیب تھے۔ دنیا ومافیہا سے بے خبر، مگر راہ ورسمِ انقلاب سے باخبر۔ ظالم فرنگی کے دشمن اور استخلاصِ وطن کے دلدادہ۔

            مولانا سیّداحمد اللہ شاہ صاحب نے قلندر صاحب کے حلقہٴ ارادت میں داخل ہونا چاہا تو داخلہ کی شرط یہ تھی کہ جہاد کی سوکھی رگوں میں تازہ خون دوڑائیں گے اور وطنِ عزیز کو انگریزوں سے نجات دلائیں گے۔ شاہ صاحب نے بسروچشم یہ شرط منظور کی اور سلسلہٴ قادریہ میںآ پ سے بیعت ہوکر خرقہٴ خلافت حاصل کرلیا۔(۱۰) یہ بتانا مشکل ہے کہ کتنے عرصہ آپ نے گوالیار میں قیام کیا۔ البتہ اس موقعہ پر یہ فراموش نہ ہونا چاہئے کہ تقریباً تیس سال پہلے جب حضرت سیّد احمد شہید رحمة اللہ علیہ جہاد کے لئے روانہ ہوئے تھے تو سب سے پہلے تقریباً دو ہفتہ تک آپ کا قیام یہیں رہا تھا۔ پھر راجہ ہندوراؤ اسی ریاست کے مدارالمہام تھے جن کے نام سیّد صاحب نے مرکزِ جہاد سے خط لکھ کر اُن کو جنگِ آزادی کے لئے اُبھاراتھا۔

دہلی مرکزِ سیاست اوراس کی موجودہ حالت

            جہادی قلندر حضرت محراب علی شاہ کے دستِ مبارک پر عہدِ جہاد کرنے کے بعد عزم وعمل کا وقت آیا تو قدرتی طور پر حضرت مولانا سیّداحمد اللہ شاہ صاحب کی نظر دہلی کی طرف اُٹھی کیونکہ:

            (۱) اگرچہ انگریزی اقتدار کا مرکز کلکتہ اوراس کا فورٹ ولیم تھا مگر ہندوستانیوں کی سیاست کا مرکز اب بھی دہلی تھا۔

            (۲) یہاں مغل سلاطین کا جانشین موجود تھا جو سیاسی لحاظ سے مفلوج و مجبور ہونے کے باوجود اُن بیشمار ہندوستانیوں کے جذبات پر حکمراں تھا جو مغلِ اعظم ہی کے کسی وارث کو سلطنت وحکومت کاصحیح مستحق سمجھتے تھے۔

            (۳) یہی دلّی تھی جس کی ولی اللّٰہی تربیت گاہ میں ”رُوحِ انقلاب“ نے جنم لیا تھا۔ جہاں شاہ عبدالعزیز صاحب کی تربیت گاہِ سیاسی میں وطنِ عزیز کو نجات دلانے کی تحریک پروان چڑھی تھی اوراُس نے اپنا دورِ شیرخوارگی پورا کیا تھا۔ جہاں جنگ حریت کے سب سے علمبردار سیداحمد شہید کو پرچم قیادت عطا ہوا تھا۔ جہاں سے چند سال پہلے مولانا نصیرالدین صاحب دہلوی کی زیرسیادت سرفروشانِ حریّت کا آخری قافلہ روانہ ہوا تھا۔

            (۴) یہی دلّی تھی جہاں بقول مولانا عبیداللہ سندھی اب بھی ولی اللّٰہی تحریک کی وہ مرکزی جماعت موجود تھی جس کی رہنمائی حضرت مولانا شاہ اسحاق صاحب اپنی ہجرت گاہ مکہ معظمہ سے فرمارہے تھے۔

            اس قسم کی متعدد وجوہات تھیں جن کی بناء پر مولانا سیّداحمد اللہ شاہ صاحب کا قدم سب سے پہلے دہلی کی سمت اُٹھنا ضروری تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ لیکن اس وقت کی صورتِ حال نے جو نزاکتیں پیدا کردی تھیں، اُن کا احساس مولانا سیّد احمداللہ شاہ صاحب کو گوالیار میں نہیں ہوسکا یا پوری طرح نہیں ہوسکا۔مثلاً:

            (۱) گذشتہ چالیس سال میں جس طرح دہلی حضرت سیّداحمد شہید، حضرت مولانا اسمٰعیل شہید، حضرت مولانا نصیرالدین دہلوی شہید، حضرت مولانا شاہ اسحاق صاحب رحمة اللہ علیہ وغیرہ کی تحریکات کا مرکز رہی۔ اس کا تقاضا تھا کہ بقول مولانا عبیداللہ سندھی:

”یہاں ریزیڈنٹ کی نگاہ بہت سخت ہو۔“

            (۲) شاطرانِ انگریز یہ طے کرچکے تھے کہ بہادرشاہ پر بادشاہت کے موجودہ طمطراق کو بھی ختم کردیا جائے۔ لال قلعہ جو عظمتِ ہندوستان کا آخری نشان سمجھا جاتا تھا، اس کو بہادر شاہ کے جانشین سے خالی کرالیا جائے۔ اس کے لئے جو تدبیریں عمل میں لائی جارہی تھیں اور جس طرح شاہزادوں سے ساز باز کا سلسلہ جاری تھا، اس کا یہی تقاضا تھا کہ ریزیڈنٹ کی نگاہیں سخت اور محتاط رہیں۔

            (۳) حضرت مولانا سیّداحمد اللہ شاہ صاحب کے دہلی تشریف لانے کا سال معین نہیں ہوسکا۔ قیاس(۱۱) یہ ہے کہ ۱۸۴۶/ یا ۱۸۴۷/ میں آپ دہلی تشریف لائے ہوں گے یعنی تقریباً ۱۲۶۴ھ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ پنجاب میں سکھ حکومت کو ختم کیا جارہا تھا۔ جس سے پورے پنجاب میں بددلی پھیلی ہوئی تھی۔ علاقہ ملتان کی فوجیں زیر قیادت دیوان مول راج انگریزوں سے جنگ کی تیاریاں کررہی تھیں۔ پٹھانوں نے زیرقیادت سلطان محمد خاں و دوست محمد خاں علمِ بغاوت بلند کررکھا تھا۔ بالاکوٹ کا رئیس سیّدضامن شاہ انگریزوں کے دوست گلاب سنگھ مہاراجہ کشمیر سے برسرِپیکار تھا اور اُس کی امداد کے لئے مرکز صادق پور سے مجاہدین کا ایک دستہ مولانا ولایت علی صاحب کی زیر قیادت بالاکوٹ پہنچ چکا تھا اور شہادتِ مجاہدانہ کی پُرانی تمنائیں سرفروشی سے پوری کررہا تھا۔اور جیساکہ اسی سلسلہ کی تیسری جلد میں بیان کیاگیا ہے بقول مسٹر دیبی پرشاد مصنّف گلشنِ پنجاب، پورے ہندوستان بالخصوص شمال مغربی صوبہ (پنجاب وفرنٹیئر وکشمیر) میں غلغلہ مچ رہا تھا۔

            ان نزاکتوں کے علاوہ سیاسی مصلحتوں کا بھی تقاضا یہی تھا کہ جو تحریک موجودہ حالات کے مطابق چلائی جائے، اُس کا مرکز دہلی نہ ہو۔

            اسلامی جہاد کی نوعیت سے جو تحریک سیّداحمد شہید، مولانا اسمٰعیل شہید اوران کے بعد مولانا نصیرالدین صاحب دہلوی رحمة اللہ علیہ نے چلائی تھی، اس کی ناکامی ثابت ہوچکی تھی، اب ایک عوامی تحریک کی ضرورت تھی۔ دہلی اگرچہ مرکزِ سیاست تھی، مگر یہاں تحریکِ حریت ایک خاص حلقہ سے مخصوص تھی۔ یہ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمة اللہ علیہ کے شاگردوں اورمریدوں کا حلقہ تھا۔ بے شک اس حلقہ کے اثرات پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے مگر شاطرانِ برطانیہ نے وہابیت کے جس الزام سے حضرت سیّداحمد صاحب کی تحریک کو سرحد میں ناکام کیا تھا۔ جیسا کہ شاندار ماضی کی جلد دوم میں واضح کیاجاچکا ہے وہ الزام اگرچہ قطعاً بے بنیاد تھا مگر کچھ اپنوں کی ناعاقبت اندیشی اور زیادہ تر کلکتہ کے سرکاری دارالافتاء نے مسلسل پروپیگنڈہ کرکے اس بیس سال کے عرصہ میں اس الزام کو اس حد تک حقیقت کا درجہ ضرور دے دیا تھا کہ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمة اللہ علیہ یا حضرت سیّداحمد شہید صاحب رحمة اللہ علیہ سے تعلق رکھنے والا حلقہ صرف سیاسی نہیں رہا بلکہ مذہبی نقطئہ نظر سے ایک مکتبہ خیال بن گیا تھا۔

            اب تدبّر اور سیاسی دُور اندیشی کا مطالبہ یہ تھا کہ آئندہ تحریک کی دعوت ایسے انداز سے دی جائے کہ جو عناصر اس مکتبہٴ خیال سے تعلق نہیں رکھتے وہ بھی تحریک سے وابستہ ہوں اور مکتبہٴ خیال کی حدبندی ان کی شرکت با قیادت کے راستہ میں حائل نہ ہوسکے۔ اس مصلحت کے پیش نظر حضرت مولانا سیّداحمد اللہ شاہ صاحب بہترین شخص تھے جن کی قدرت کے پوشیدہ اشاروں نے خود بخود دہلی کے سیاسی مدبّرین کے پاس پہنچا دیا تھا۔

دہلی کے بعد آگرہ

            شاہ جہاں آباد (دہلی) اوراکبر آباد (آگرہ) کا پُرانا رشتہ اگرچہ اب کمزور ہوچکا تھا مگر تعاون اوراعتمادِ باہمی کی رُوح ابھی فنا نہیں ہوئی تھی، اور اگرچہ چند سال پہلے آگرہ ملّی رجحانات اور قومی جذبات کے لحاظ سے ایک شہر خموشاں(۱۲) بن چکا تھا مگر جب سے وہ برطانوی صوبہ کا دارالحکومت بنا تھا اس میں پھر چہل پہل ہوگئی تھی اور ذی استعداد صاحبِ فکر علماء وفضلاء کا ایسا مجمع اس کو میسر آگیا تھا جس کی نظیر کوئی دوسرا شہرمشکل سے پیش کرسکتا تھا۔ ان علماء میں اگرچہ زیادہ وہ تھے جو حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب قدس اللہ سرہ العزیز سے تلمذ اور (بالواسطہ یا بلا واسطہ) شاگردی کا تعلق رکھتے تھے۔ مگر غالباً ایسا کوئی بھی نہیں تھا جو ایک مکتبہٴ خیال کے پابند کی حیثیت سے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب یا حضرت سیّداحمدشہید سے وابستہ ہو۔

            مختصر یہ کہ مختلف مکاتبِ خیال اور مختلف سلسلہ تلمذ کے اور فضلاء یہاں رونق افروز تھے اور آگرہ گلہائے رنگارنگ کا گلدان بنا ہواتھا۔ ایک عوامی تحریک کا لالہ زار ایسا ہی گلستان بن سکتاتھا۔ دہلی کے اربابِ بصیرت نے اسی مصلحت سے آگرہ کو منتخب کیا اور حضرت مولانا سیّداحمد اللہ صاحب شہید کی عنانِ توجہّ دہلی کے آگرہ کی طرف منعطف کی۔

            لیکن آگرہ حضرت مولانا سیّد احمد اللہ شاہ صاحب کے لئے بالکل اجنبی شہر تھا۔ اس کے لئے ایک عرصہ درکار تھا کہ مولانا سیّداحمد اللہ شاہ صاحب آگرہ پہنچ کر اعتماد حاصل کریں اور وہاں کے سربراہوں اور کلیدی حضرات تک پہنچ سکیں۔

            حضرت مولانا مفتی صدرالدین صاحب جیسا اعلیٰ مدبّر جس نے حضرت سیّداحمداللہ شاہ صاحب کی سیاسی تگ و دو کے لئے آگرہ کا میدان منتخب فرمایا۔ آپ نے خود ہی اس کی ذمّہ داری بھی لی کہ حضرت مولانا شاہ احمداللہ صاحب جیسے ہی آگرہ پہنچیں، بلاکدوکاوش کلیدی حضرات تک اُن کی رسائی ہوجائے اور یہ اُن کا اعتماد حاصل کرلیں۔ چنانچہ حسبِ روایت مفتی انتظام اللہ صاحب شہابی:

مفتی انعام اللہ خان بہادر جو محکمہ شریعت کے مفتی رہ چکے تھے، اب سرکاری وکیل تھے۔ حضرت آزردہ (مفتی صدرالدین صاحب آزردہ) کے خط کے ذریعہ شاہ صاحب (مولانا احمداللہ شاہ صاحب) اُن کے یہاں آکر مقیم ہوئے۔ اُن کا گھر علماء کا مرکز بنا ہوا تھا۔ مفتی صاحب کے صاحبزادے مولوی اکرام اللہ صاحب ”تصویر الشعراء“ مریدہوئے۔

مجلسِ علماء

            علماء وفضلاء کرام کا یہ گلدستہ جس کی شیرازہ بندی اب تک علمی اورادبی ذوق نے کررکھی تھی، مولانا احمد اللہ شاہ صاحب کے پہنچنے کے بعد اُس میں سیاسی رنگ پیدا ہونا شروع ہوا، اورمجلس کی شکل میں اس اجتماع کی تشکیل کی گئی اس کے ارکان کی مختصر فہرست ملاحظہ ہو۔

            مولوی شیخ اعتقاد علی بیگ صاحب، مولوی امام بخش صاحب، سیّد باقر علی صاحب ناظم محکمہ دیوانی، مولوی نورالحسن صاحب، سیّدمراتب علی صاحب، مولوی خواجہ تراب علی صاحب، سیّد حسن علی صاحب، رحمت علی صاحب، مفتی ریاض الدین صاحب، مولوی غلام جیلانی صاحب، غلام مرتضی صاحب، شیخ محمد شفیع صاحب، مولوی عبدالصمد صاحب، مولوی منصب علی صاحب، مولوی محمد عظیم الدین حسن صاحب، رسول بخش صاحب، باسط علی صاحب، مومن علی صاحب، محمد قاسم صاحب دانا پوری، معین الدین صاحب، مولوی کریم اللہ خان صاحب صدرالصدور، قاضی محمد کاظم علی صاحب، تاج الدین صاحب، طفیل احمد صاحب خیرآبادی، مولانا غلام امام شہید، مفتی عبدالوہاب صاحب گوپامئوی، ڈاکٹر وزیرخاں صاحب، مولوی فیض احمد صاحب بدایونی، مفتی انعام اللہ صاحب۔

            یہ حضرات صدارت نظامت کے مختلف عہدوں پر فائز تھے، یا وکلاء تھے، جنھوں نے اس مجلس کی رُکنیت منظور کی، اور دامے درمے قدمے شاہ صاحب کی تائید و اعانت شروع کردی۔

حلقہٴ ارادت

            حضرت سیّد احمد شہید رحمة اللہ علیہ کے حالات شاندار ماضی جلد دوم میں گذرچکے ہیں۔ انہیں کا نمونہ حضرت مولانا سیّداحمد اللہ شاہ صاحب کے حالت میں بھی نظر آتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ جو گرمی وہاں صرف ذکر اللہ سے پیدا کی جاتی تھی، شاہ احمد اللہ صاحب کے یہاں اس کے لئے ”سماع“ سے بھی کام لیا جاتاتھا۔(۱۳)

            بہرحال حضرت سیّداحمد اللہ شاہ صاحب کے حلقہٴ بیعت وارادت نے وسعت اختیار کی۔ محفلِ سماع خود ایک کشش رکھتی ہے۔ یہاں علم وفضل کے ساتھ قوتِ خطابت کا یہ عالم تھا کہ جہاں آپ کے وعظ کا اعلان ہوتا، ہندومسلمانوں کا بے پناہ ہجوم ہوجاتا۔ اب ایک وقت ذکر وشغل اورمراقبہ کا سلسلہ ہوتا، دوسرے وقت محفلِ سماع کی گرمجوشی۔(۱۴) کبھی عام جلسے ہوتے جن میں دس دس ہزار کا اجتماع ہوتا۔ سُننے والے بے قرار ہوجاتے۔ ہرشخص قربان اور فدا ہونے کا عہد کرتا۔ دوسرے تیسرے روز نمازِ عصر کے بعد قلعہ اکبر آباد کے میدان میں فنِ سپہ گری کی مشق کرائی جاتی۔ خود شاہ صاحب بہترین نشانہ باز تھے۔ تلوار کے ہاتھ بھی بہت جچے تُلے ہوتے تھے۔

            آپ کہیں تشریف لے جاتے تو مریدین کا ہجوم ساتھ ساتھ رہتا۔ آگے آگے ڈنکا بجتا۔ اس لئے آپ کو ڈنکے والا پیر یا ڈنکا شاہ کہا جاتا۔

            وہی آگرہ جس کی جامع مسجد کو جمعہ کے روز بمشکل بیس پچیس نمازی نصیب ہوتے تھے۔ اب اس کی ایک ایک مسجد میں سینکڑوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ جو مسجدیں عرصہ سے ویران تھیں، اب اُن کی آبادی پر لوگ حیرت کرتے تھے۔آگرہ شہر اس طرح مسخر ہوگیاتو آپ نے مضافات کا قصد کیا۔ جہاں آپ پہنچتے، مریدین کی جماعت ساتھ رہتی اور ایک ہی دورہ میں اس کا رنگ بدل جاتا۔ عوام کو یاد ہو یا نہ یاد ہو، مگر انگریز کو حضرت سیّداحمدشہید کا دَور یاد تھا۔ حضرت مولانا سیّداحمداللہ شاہ کے اس دَور میں وہی رنگ دیکھا تو تیس سال پہلے کی تمام تاریخ سامنے آگئی۔

حضرت شاہ صاحب سے تعلق رکھنے والوں پر مقدمہ

            انگریزبہادر نے حضرت شاہ صاحب پرہاتھ نہیں ڈالا، یا بقول مولوی سیّد طفیل احمد صاحب مرحوم، پولیس نے اُن کو (مجسٹریٹ کے حکم پر) گرفتار کرنے سے انکار کردیا۔(۱۵) البتہ وہ جماعت جو انگریزوں سے ملازمت کا تعلق رکھتی تھی اوراب شاہ صاحب سے وابستہ ہوگئی تھی اور انہیں کے ذریعہ حضرت شاہ صاحب آگرہ میں قیام کرکے اپنا اثر جماسکے تھے، اُس پر رشوت کا مقدمہ چلادیا۔ مراد آباد کے جج مسٹرولسن مقدمہ کی سماعت کے لئے مقرر کئے گئے۔ حضرت شاہ صاحب اس وقت قصبات ومضافات کے دورہ پر باہر تشریف لے گئے تھے۔ آپ کو سفر ہی میں اس مقدمہ کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا۔ یہ امتحان کی پہلی منزل ہے۔ گھبرائیں نہیں، انشاء اللہ کامیاب ہوں گے۔ کسی پر بھی کوئی آنچ نہیں آئے گی۔

            بہرحال مقدمہ شروع ہوا۔ پولیس نے گواہ پیش کئے۔ مگر یہ بناؤٹی گواہ بیکار ثابت ہوئے۔ خدا جانے پولیس نے کیا کہہ کر اُن کو تیار کیا ہوگا۔ مگر جب وہ اجلاس میں یہ دیکھتے کہ جس کے برخلاف وہ گواہی دینا چاہتے ہیں، وہ ایک باخدا عالمِ دین ہے تو گھبراجاتے اور بقول مفتی انتظام اللہ شہابی:

”جھوٹی گواہی دینے کی جرأت نہ ہوتی۔“

            بہرحال جوں توں کرکے ابتدائی عدالت میں سخت سخت سزائیں تجویز کی گئیں۔ مولوی غلام جیلانی وکیل صدر، مولوی غلام احمد شہید پیش کار اور مفتی سراج الدین پیش کار کو چار چار سال کی قید بامشقّت، مفتی محمد قاسم صاحب داناپوری مسل خواں کو تین سال مولوی بدرالحسن صاحب مسل خواں اورمولوی آل حسن منصف کو دو دو سال۔

            ایک اخبار ”سعدالاخبار“ نے اس خبر کو شائع(۱۶) کرتے ہوئے لکھا:

”دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مولانا محمد قاسم داناپوری جن کا شمار اولیاء کرام میں ہے اور اُن کے ہزارہا مرید صاحبِ ریاضت ومجاہدہ ہیں، اُن کو رشوت سے متہم کیا جاتا ہے، تعجب ہے۔ دوسرے صاحب مولانا غلام امام شہید جو عاشقِ رسول کہلاتے ہیں، اُن کے بھی ہزارہامرید آگرہ حیدرآباد ومرادآباد میں ہیں، اُن پر بھی رشوت کا الزام ہے۔“

            بہرحال فوراً ہی اپیل دائر کیاگیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب حضرات بری کردئیے گئے۔ بقول حضرت شاہ صاحب کسی کابھی بال بیکا نہ ہوا۔

            خان بہادر مفتی انعام اللہ صاحب(۱۷) وکیل صدر جن کے نام شاہ صاحب حضرت مولانا مفتی صدرالدین صاحب آزردہ کا خط لائے تھے، جو سب سے پہلے حضرت شاہ صاحب کے میزبان بنے تھے، یہ بھی معطل کئے گئے۔الزام یہ تھا کہ مُشتبہ خطوط اُن کے یہاں سے برآمد ہوئے ہیں۔(۱۸)

آگرہ سے کانپور اور لکھنوٴ

            مولانا احمد اللہ شاہ صاحب آگرہ میں مقیم تھے کہ اودھ میں مولانا امیرعلی شاہ رحمة اللہ علیہ کی شہادت کا ہنگامہ پیش آگیا۔ آپ کو اس کی تفصیلات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا۔ ”اب ہمارے کام کا وقت آگیا۔“ چنانچہ آپ نے سفر کی تیاری شروع کردی۔ مریدین کا بھی ایک جم غفیر ساتھ ہولیا۔ اس طرح کہ ہر ایک مرید نے توشہ ساتھ لے لیا تھا اور گھربار کا معقول انتظام کردیا تھا۔ ماؤں نے بیٹوں کواجازت دی تھی، اور بیویاں شوہروں کو رخصت کررہی تھیں۔ ہر ایک کا دل مگن تھا۔ مرشد ساتھ ہے کوئی خطرہ نہیں ہے۔(۱۹)

            شاہ صاحب آگرہ سے روانہ ہوکر پہلے کانپور پہنچے۔ وہاں عظیم اللہ خاں وغیرہ سے ملاقاتیں رہیں۔ پھر آپ اُناؤ ہوتے ہوئے لکھنوٴ پہنچے۔ گھاس منڈی میں قیام کیا۔ وہیں مولانا فضل حق صاحب خیرآبادی سے ملاقات ہوئی۔ مفتی انتظام اللہ صاحب شہابی تحریر فرماتے ہیں:

”مولانا فضل حق صاحب خیرآبادی جو خالص سرکاری آدمی تھے اُن دنوں لکھنوٌ میں صدرالصدور تھے۔ کچھ دن گذرے تھے کہ مولوی عبدالرزاق صاحب فرنگی محلی کی تائید میں مولانا امیرعلی شاہ(۲۰) صاحب کے خلاف فتویٰ صادر کرچکے تھے۔ وہ (مولانا خیرآبادی) شاہ صاحب سے ملنے آئے۔ شاہ صاحب سے ایسی گفتگو ہوئی کہ گھر جاتے ہی صدرالصدوری سے استعفیٰ دیدیا اور الور چلے گئے اور انگریزوں کے جتنے خیرخواہ تھے، اُتنے ہی (۲۱) دشمن ہوگئے۔(۲۲)

            لکھنوٴ نے تقریباً چالیس سال پیشتر حضرت سیّد احمد شہید کا استقبال بھی بڑی شان سے کیا تھا۔ وہی روح وہاں بھی کارفرما تھی، اور اہلِ لکھنوٴ حضرت سیّد صاحب کے زمانہ کی بہ نسبت اب زیادہ زخم خوردہ ہوچکے تھے۔ انتہا یہ کہ اُن کا بادشاہ واجد علی شاہ جس کو انگریز خواہ کچھ بھی کہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ لکھنوٴ والوں کی آنکھ کا تارا اور باشندگانِ اودھ کی آزادی کا آخری نشان تھا، وہ بھی انتہائی ذلّت و خواری کے ساتھ اُن سے جُدا کردیاگیا تھا، یا جدا کیا جانے والا تھا۔

            بہرحال حضرت سیّدصاحب شہید کی طرح حضرت مولانا احمداللہ شاہ صاحب بھی مقبول اورمحبوب ہونے لگے اور باشندگانِ لکھنوٴ کی والہانہ وابستگی آپ سے دن بدن بڑھنے لگی۔ مگراس انتہائی نازک دَور میں کہ بارک پور والی فوج برخواست کی گئی تھی جس کے سپاہی زیادہ تر اودھ کے رہنے والے تھے۔ ادھر واجد علی شاہ کو معزول کرکے گرفتار کرلیاگیا تھا یا گرفتار کرنے کا منصوبہ تیار کیا جارہا تھا۔ حضرت مولانا احمداللہ شاہ صاحب جیسے انقلابی امام کا لکھنوٴ میں قیام کرنا خود شاہ صاحب کے لئے خطرناک تھا، اور تحریک کے لئے بھی تشویش ناک۔ اس لئے شاہ صاحب نے لکھنوٴ کا قیام مختصر کرکے فیض آباد کا رُخ کیا۔ اب شاہ صاحب نے تمام تکلفات برطرف کردئیے تھے اور بقول مولانا فتح محمد تائب لکھنوی:

نصاریٰ سے جو حکم پیکار تھا                  ہر ایک شخص سے اس کا اظہار تھا

            اس عریانی کا نتیجہ ظاہر تھا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے عمال نے آپ کو گرفتار کرنا چاہا۔ مگر عوام کے ہجوم اوراُن کی بے پناہ عقیدت کے باعث پولیس یہ جرأت نہ کرسکی، تو فوج سامنے آئی۔ حضرت شاہ صاحب اور آپ کے ساتھیوں نے مقابلہ شروع کردیا۔ مگر چونکہ فوج کا یہ اقدام دفعتہ تھا، شاہ صاحب اورآپ کے ساتھی پہلے سے تیار نہ تھے اس لیے یہ مقابلہ بھی ناکام ہی رہا۔ حضرت شاہ صاحب کسی فوجی کی تلوار کی ضرب سے بے ہوش ہوکر گرپڑے۔ آپ کو فوراً گرفتار کرکے جیل خانہ بھیج دیاگیا۔ آپ کے ساتھی بھی گرفتار کرلئے گئے۔

تحریکِ انقلاب ۱۸۵۷ء کا آغاز

            یہ ۱۸۵۶ء کے اواخر یا ۱۸۵۷ء کے شروع کا واقعہ ہے چند ماہ بعد ۱۰/مئی ۱۸۵۷ء کی طوفان انگیز تاریخ آئی جس نے پورے شمالی ہند کی زمین ہلادی۔ حضرت شاہ صاحب اس وقت جیل میں تھے۔ فیض آباد میں عنانِ قیادت ایک اور صاحب نے سنبھالی۔ اُن کا اسم گرامی مولانا سکندر شاہ صاحب فیض آبادی تھا۔ آپ نے جیل خانہ پردھاوا بول کر حضرت شاہ صاحب کو تو چھڑالیا لیکن خود انگریزی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے۔ مگر مولانا احمد اللہ شاہ صاحب نے جھنڈے کو گرنے نہیں دیا۔ اپنی رہائی کے بعد پورے ہندوستان کی رہائی کے لئے پرچم لہرایا، اور جو فدایان وطن جمع ہوئے تھے اُن کو ساتھ لے کر لکھنوٴ کا رُخ کیا۔(۲۳)

            بقول مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی مرحوم:

جس طرح میرٹھ وغیرہ کے باغی سمٹ کر دہلی میں جمع ہوئے تھے اور ظفر کو ہندوستان کا شہنشاہ بنایا تھا، ویسے ہی الہ آباد اور فیض آباد کے باغی بھی ۱۸۵۷/ میں جوش و خروش کے ساتھ لکھنوٴ پہنچے۔ اُن کے آتے ہی یہاں کے بہت سے بے فکرے اُٹھ کھڑے ہوئے اور برجیس قدر کی بادشاہی قائم کردی۔ تھوڑی سی انگریزی فوج اور یہاں کے تمام یورپین عہدہ دارانِ مملکت جو باغیوں کے ہاتھ سے جاں بر ہوسکے ”بیلی گارڈ“ میں قلعہ بند ہوگئے۔ (گذشتہ لکھنوٴ)

            بہرحال مولانا شرر کے الفاظ استعمال کیجئے یا ان کو انقلاب پسند محبانِ وطن کہیے، تاریخی حقیقت یہ ہے کہ برجیش قدر جن کی عمر صرف دس سال تھی، بادشاہ(۲۴) بنائے گئے۔ اُن کی والدہ حضرت محل جو ایک بہادر خاتون تھیں، اُن کی ولی اور سرپرست مقرر ہوئیں۔ ناصرالدولہ علی محمد خاں عرف مموخاں وزیر اعظم یا مدارالمہام مقرر ہوئے، لیکن اس قیامت خیز دَور میں جس کے بل بوتے پریہ سب کچھ ہوا، وہ مولانا احمد اللہ شاہ صاحب تھے جن پر سُنّی اکثریت پورا اعتماد کرتی تھی۔

مقابلہ، ناکامی اور وجوہاتِ ناکامی

            بے شک کا نقشہ قائم ہوگیا۔ عام ہندو مسلمانوں نے دلوں کی گہرائیوں سے وفاداری کا عہد بھی اس حکومت سے کرلیا مگر جو مرض دہلی میں تھے، وہی بیماریاں لکھنوٴ کی فضا میں بھی موجود تھیں بلکہ اُن سے کسی قدر زیادہ۔

            یہاں شیعہ سُنّی کا مسئلہ بھی موجود تھا۔ اربابِ اقتدار کی جنگی نااہلیت بھی اپنا رنگ جمائے ہوئے تھی، اور مرزامغل کی طرح مموخاں کی ریشہ دوانیاں بھی احمد اللہ شاہ جیسے بہادر اور دیانت دار جرنیل کے راستہ میں ہر قدم پر رکاوٹ کے لئے موجود تھیں۔ نتیجہ ظاہر تھا۔ یعنی بہادرانہ معرکوں کے باوجود ناکامی۔ جس کی تفصیل کے لئے مستقل جلد کی ضرورت ہے۔

            مولانا احمد اللہ شاہ صاحب لکھنوٴ سے ہٹ کر شاہ جہان پور پہنچے۔ شاہزادہ فیروز، جنرل بخت خاں، تجمل حسین خاں رئیس فرخ آباد، جنرل اسمٰعیل خاں (فتح گڈھ)، نانا راؤ پیشوا، غرض تمام ہی سرغنہ جنھوں نے بار بار شکست اُٹھانے کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری تھی اورجو پورے عزم کے ساتھ طے کرچکے تھے           ع

یا جاں رسد بجانا یا جاں زتن برآید

            یہ سب جمع ہوگئے۔ شاہ جہان پور میں جو معرکے ہوئے، اُن کا مختصر تذکرہ واقعات شہاہجہان پور کے سلسلہ میں پہلے گذرچکا ہے،اور جب یہاں بھی ناکامی ہوئی تو شاہ صاحب اپنے بچے کچھے ساتھیوں کے ساتھ قصبہ محمدی پہنچے اور یہاں ازسرِ نو تنظیم کی۔ ایک عارضی حکومت بھی قائم کرلی۔ جس کی کابینہ کے ارکان یہ تھے:

            جنرل بخت خاں                 وزیر جنگ

            مولانا سرفراز علی صاحب      قاضی القضاء (جیف جسٹس)

            ناناراؤ پیشوا                                   دیوان (وزیر مال)

            مولانا لیاقت علی صاحب الہ آبادی، ڈاکٹر وزیر خاں صاحب اکبرآبادی، مولانا فیض اللہ صاحب بدایونی، شاہزادہ فیروز شاہ ارکانِ حکومت۔

سکّہ زد برہفت کشور خادم محراب شاہ

حامیِ دین محمد احمداللہ بادشاہ

            پھر کیاہوا؟ تاریخ شاہ جہان پور اور صحیفہٴ زریں کے حوالہ سے مفتی انتظام اللہ شہابی تحریر فرماتے ہیں:

ابھی شاہ صاحب پوری طرح جمنے نہ پائے تھے کہ سرکالن کیمبل نے قصبہ محمدی پر حملہ کردیا۔ خوب خوب مقابلہ رہا۔ شاہ صاحب کے ہٹتے ہی محمود خاں(۲۵) معہ حضرت محل اور ناناراؤ، عظیم اللہ خاں اور بخت خاں وغیرہ نیپال کی طرف چلتے ہوئے۔

            لیکن شاہ صاحب نے پوائیں کا رُخ کیاجو بنڈیل کھنڈ اوراودھ کی سرحد پر شاہ جہان پور سے شمال مشرق تقریباً ۱۸ میل ہے۔ راجہ پوائیں اگر تعاون کے لئے آمادہ ہوجاتا تو شاہ صاحب کو پھر سانس لینے کا موقع مل سکتا تھا۔ مگر اُس نے غداری کی۔ اوّل وہ آپ سے گفتگو کے لئے آمادہ ہوا، اور جب شاہ صاحب گفتگو کے لئے پہنچے تو راجہ نے اپنی گڈھی کا پھاٹک بند کرلیا اور اُوپر سے گولیوں کی پوچھاڑ کرکے شاہ صاحب کو شہید کردیا۔ اب مفتی انتظام اللہ صاحب شہابی کا بیان ہے کہ:

راجہ بلدیوسنگھ نے سرمبارک جسم اطہر سے اُتارا، اور صاحب کلکٹر بہادر شاہ جہانپور کے سامنے پیش کردیا جو عرصہ تک کوتوالی پر لٹکا رہا۔ نعش کو آگ میں پھونک دیا۔ اس پر سرکار برطانیہ نے پچاس ہزار روپیہ نقد اور خلعتِ فاخرہ راجہ پوائیں کو عطا کیا۔ یہ واقعہٴ شہادت ۵/جون ۱۸۵۸/ مطابق ۱۳/ذی قعدہ ۱۲۷۵ھ کو پیش آیا۔ دریا پار محلہ جہاں آباد متصل احمد پور مسجد کے پہلو میں سردفن کردیاگیا۔ مولوی سیّد طفیل احمد صاحب (علیگ مصنف روشن مستقبل وحکومت خود اختیاری) نے کتبہٴ تاریخ نصب کرادیا۔(۲۶)

            شاہ صاحب کے متعلق جو لکھا گیا،اس کی تصدیق کے لئے چند انگریز موٴرخین کے بیانات ملاحظہ فرمائیے۔ چارلس نال لکھتا ہے:

ایک لمبا، لاغر مگر مضبوط آدمی، دُبلے جبڑے، لمبے پتلے ہونٹ، اُونچا بانسہ، بڑی بڑی آنکھیں، تیغ نما ابرو، لمبی داڑھی، سخت کالے بالوں کی زُلفیں دونوں کانوں پرپڑی رہتی تھیں۔

            چارلس نال حلیہ بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے:

اودھ کے باغیوں کی تجاویز اور سازش کی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس مولوی کوانگریزی حکام بحیثیت احمد شاہ فقیر اور صوفی عرصے سے جانتے تھے۔ شمال مغربی صوبجات میں ظاہرًا مذہبی تبلیغ کی خاطر دورہ کرچکے تھے۔ لیکن فرنگیوں کے لئے یہ راز ہی رہا۔

            اپنے سفر کے دوران وہ ایک عرصے تک آگرہ میں مقیم رہے۔ حیرت انگیز اثر شہر کے مسلم باشندوں پر تھا۔ شہر کے مجسٹریٹ ان کی جملہ نقل وحرکت پر نظر رکھتے تھے۔ عرصہ بعد یقین ہوگیا، کہ وہ برطانوی حکومت کے خلاف ایک سازش کررہے ہیں لیکن پھر بھی اُن کو کسی باغیانہ جرم میں ملوث نہ پایاگیا۔ وہ آزاد رہے۔ آخر کار جب بغاوت رونما ہوئی اور فیض آباد کے فوجیوں میں بھی یہ لوگ پہنچے تو یہ مولوی جو سابقاً غیرمنظم طریقے پر اپنے مریدوں کو اُبھار رہا تھا، گارڈ کی نگرانی میں تھا۔ ہنگامہ کرنے والوں نے اُن کو چھڑاکر اپنا سردار بنالیا۔ اس طرح مولوی صاحب ایک طاقت ور فوج کے سپہ سالار بن گئے۔اگرچہ کچھ عرصہ تک دوسرے باغی سرداروں کی طاقت چھپی رہی لیکن اس شخص کا اثر باغیوں پر بھرپور تھا لیکن یہ قابل آدمی تھا،اور ظلم کے دھبے سے پاک تھا جونانا صاحب کے انتقامی جوش کی خصوصیت تھی، اس سے یہ بالکل پاک صاف تھا۔ اس لئے برطانیہ بھی ایک حد تک ان کو اچھا اور قابل نفرت نہیں سمجھتی تھی۔(۲۷)

            جرنل ٹامسن جو ایک بہادر انگریز تھا اور ہنگامہٴ ۱۸۵۷/ میں شریک تھا، شاہ صاحب کی بابت لکھتا ہے:

مولوی احمد اللہ شاہ بڑی لیاقت وقابلیت رکھتا تھا۔ وہ ایسا شجاع تھا کہ خوف اُس کے نزدیک نہیں آتا تھا۔ یہ عزم کا پکا، ارادہ کا مستقل تھا۔ باغیوں میں اس سے بہتر کوئی سپاہی نہیں تھا۔ یہ فخر اسی کو حاصل ہے کہ اُس نے دو مرتبہ سرکالن کیمبل کو میدانِ جنگ میں ناکام رکھا۔ وہ بہ نسبت اور باغیوں کے خطاب شاہ کا زیادہ مستحق تھا۔ اگر محب وطن ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اپنے ملک کی آزادی کے لئے جو غلطی برپا ہوگئی ہو، سازشیں کی جائیں اور لڑائیاں لڑی جائیں، تو مولوی یقینا اپنے ملک کا محب صادق تھا۔ اُس نے کبھی تلوار کومخفی اور سازشی قتل سے خون آلود نہیں کیا وہ بہادرانہ اور معجزانہ طورپر ان سے معرکہ آرا ہوا جنھوں نے اُس کا ملک چھین لیا تھا۔ دنیا کی ساری قومیں اس کو تعظیم و ادب کے ساتھ جو شجاعت و صداقت کے لئے لازمی تھیں اور جن کا مستحق تھا، اس کو یاد کریں گی۔(۲۸)

            فارسٹر کا ایک اور نذرانہٴ عقیدت ملاحظہ فرمائیے:

جن کو فیض آبادی مولوی کہا جاتاہے، اُن کے متعلق یہ بتادینا ضروری ہے کہ وہ عالم باعمل ہونے کی وجہ سے مولوی تھا۔ رُوحانی طاقت کی وجہ سے صوفی اور جنگی مہارت کی وجہ سے سپاہی اور سپہ سالار تھا۔ اس کی طبیعت ظلم سے پاک تھی۔ ہر انگریز اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔(۲۹)

رفقاء

            مفتی انتظام اللہ صاحب شہابی نے چند اسماء گرامی اس عنوان کے تحت نقل کیے ہیں۔ ان فداکارانِ حریت کے نام ہم بھی زیبِ صحیفہ کرتے ہیں:

            امیر احمد، شاہ آفاق، قطب شہید، رستم علی، اسمٰعیل خاں، غلام محمد خاں، کفایت اللہ تلہری، فرقان علی، محمد شاہ خاں شہید، سعد اللہ خاں شہید، نور احمد، احمد یار خاں تحصیل دار، نواب غلام قادر خاں (بٹول) عبدالرؤف خاں۔

            اکثرانڈمان بھیجے گئے۔ کچھ کو دار نصیب ہوئی۔ کچھ گوشہ گیر ہوئے۔

نہ شیشہ ، نہ مے ، نہ ساقی رہا

فقط شکوئہ بخت باقی رہا

$ $ $

حواشی:

(۱)                   واقعات ۱۸۵۷/ کے ممتاز موٴرخ مفتی انتظام اللہ صاحب شہابی جن کی مشہور اورمسلّم تصنیفات سے اس مضمون میں خوشہ چینی کی گئی ہے، چنیا پٹن کی تاریخ اس طرح بیان فرماتے ہیں:

                        ”پامان گھاٹ“ کے راجہ رانل کے زمانہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارندوں نے کاسری کے زمیندار اوراُس کے دیوان سے اتحاد و اتفاق کرکے دریائے شور کے کنارے تجارت گاہ تعمیر کرنے کے لئے ایک موضع ”مکدراس کویم“ حاصل کیا۔ جو تعلقہ ”پوناملی“ سے متعلق تھا۔ راجہ نے اس کی سند طلائی لوح پر کندہ کراکے کارندوں کے حوالہ کی اورایک ہزار دو سو ”ہون“ سالانہ اس کا پیش کش مقرر کیا، اور موضع کی مناسبت سے اس کا نام ”مدراس“ رکھا۔ کچھ دنوں بعد چند مواضع اورحاصل کرلئے گئے۔ چم، نایک، کویم، ارپوکم اورپیل پنہ۔ یہ بھی تعلقہ پونا ملی سے متعلق تھے۔ چم، نایک، کویم چونکہ مدراس کی آبادی میں شامل کرلئے گئے تھے، اسلئے قدیم نام کی مناسبت سے اس کا نام ”چنیاپٹن“ رکھا گیا۔

(۲)                  جی، ڈبلیو، فارسٹر کی شہادت ملاحظہ فرمائیے:

                        وہ عالم باعمل ہونے کی وجہ سے مولوی تھا۔ روحانی طاقت کی وجہ سے صوفی تھا اور جنگی مہارت کی وجہ سے وہ سپاہی اور سپہ سالار تھا۔ احمد شاہ نام تھا۔ ظلم طبیعت میں نہیں تھا۔ ہر انگریز اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ (ہسٹری دی انڈین نیوٹی)

(۳)                 ۱۶۸۷/ میں اورنگ زیب عالمگیر نے ”گولکنڈہ“ پر قبضہ کرکے قطب شاہی خاندان کا خاتمہ کیا۔ آخری بادشاہ ابوالحسن تانا شاہ تھے جو عبداللہ قطب شاہ کے داماد تھے۔ جب اس خاندان میں حکومت نہ رہی تو ابوالحسن کے پوتے ”چنیاپٹن“ جابسے اور وہاں کے نواب کہلائے۔ اس خاندان کے نامور بزرگ سیدجلال الدین عادل تھے۔ رحمة اللہ (مفتی انتظام اللہ شہابی)

(۴)                 مولوی احمد اللہ شاہ اور پہلی جنگ آزادی، از مفتی انتظام اللہ شہابی۔

(۵)                 ایضاً،ص:۱۰۔

(۶)                  ایضاً،ص:۱۰۔

(۷)                 نواب وزیر الدولہ نے حضرت سید احمد شہید اور مولانا اسمٰعیل صاحب شہید سے تربیت پائی تھی۔ یہ بزرگ سماع کے سخت مخالف تھے۔ پھرنواب صاحب موصوف حضرت مولاناسید نصیرالدین صاحب دہلوی سے بیعت ہوئے تھے۔ مولانا نصیرالدین صاحب بھی حضرت سید صاحب شہید سے تربیت یافتہ اور اُن کے خلفاء میں سے تھے۔ جس کی تفصیل پہلے گذرچکی ہے۔

(۸)                 منشی ذکاء اللہ خاں صاحب کی شہادت پہلے گذرچکی ہے کہ ۱۸۵۷/ کے جہاد میں شریک ہونے والے وہابی مجاہدین سب سے زیادہ ٹونک سے آئے تھے جن کی تعداد دو ہزار تھی۔

(۹)                  آپ گوالیار کے ایک رئیس کے یہاں پیادوں میں ملازم تھے۔ رئیں کا نام سردار ستولے تھا۔ (ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء،ص:۹)

(۱۰)                مولوی احمد شاہ اور مفتی انتظام اللہ صاحب۔

(۱۱)                 چند صفحات بعد آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ آگرہ میں مولانا سید احمد اللہ شاہ کے ہم نواؤں پر ایک مقدمہ چلایا گیا تھا۔ مارچ ۱۸۵۰/ میں ابتدائی عدالت سے اس کا فیصلہ سُنایاگیا۔ مولانا سیداحمد اللہ شاہ صاحب دہلی سے آگرہ تشریف لے گئے تھے۔ آگرہ پہنچ کر حلقہٴ اثر قائم کرنے اور اس درجہ رسوخ حاصل کرنے میں (کہ حکومت اُن کے اُن ہمنواؤں پر جو حکومت کے اعلیٰ منصبوں پر فائز تھے مقدمہ چلانے پرمجبور ہوئی) تین چار سال یقینا صرف ہوئے ہوں گے۔

(۱۲)                مفتی انتظام اللہ صاحب شہابی آگرہ کے قدیم باشندے تھے۔ آپ سے زیادہ آگرہ کے حالات اورماضی قریب کی تاریخ سے کون واقف ہوسکتاہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:

                        جاٹوں اور مرہٹوں کے زمانہ میں آگرہ کی حالت بیحد زبوں ہوچکی تھی۔ (۱) مُلا ولی محمد شاہ کی درس گاہ محلہ بالوگنج میں تھی۔ مولوی شمس الضحیٰ اور مولوی بدرالدّجیٰ اورمیراعظم علی اعظم اسی درسگاہ کے فارغ التحصیل عالم تھے۔ (۲) مولوی محمد معظم جن ے مکتب میں مرزا غالب نے پڑھا۔ (۳) میاں نظیر کا مکتب محلہ مائی تھان میں تھا۔ یہاں ہندوؤں کے چند بچے تعلیم پاتے تھے۔ حکیم غلام قطب الدین خاں باطن (صاحب نغمہٴ عندلیب) وخلیفہ گلزار علی اسیر یہ اُن کی درسگاہ کے تعلیم یافتہ تھے۔ (۴) مولوی امجد علی اصغر کا مدرسہ محلہ تاج گنج میں تھا۔ یہ تھی کل کائنات اکبر آباد کے درس و تدریس کی۔ گنتی کے چند لوگ پڑھے لکھے تھے قاضی سید باسط علی خاں ہمدانی آگرہ کے قاضی القضاة تھے۔مرہٹوں نے اُن کو معزول کرکے لَلّو بھٹ کو قاضی القضاة بنادیا۔ باسط علی خاں مرافعہ کرنے شاہ عالم ثانی کے پاس دلی پہنچے۔ البتہ مرہٹوں نے کچھ خانقاہوں کو جاگیریں ضرور دیں۔ بہرحال حکمران طبقہ کا اثر یہ تھا کہ مسلمان شعائر اسلامی سے دُور ہٹ گئے تھے۔ نماز روزہ کی طرف سے تغافل برتا جاتا تھا۔ متولیانِ مسجد جامع اکبری نے مسجد کی زیریں دکانیں ہندوؤں کے ہاتھ رہن رکھ دی تھیں۔ جامع مسجدکا مصرف صرف یہ رہ گیا تھا کہ اس کے صحن میں کبوتروں کی قلقلیں کھڑی کی جاتی تھیں اور سوتی رسی بٹنے کے کرگھے لگے ہوئے تھے۔ بیچ کے در میں چند چٹائیاں پڑی رہتی تھیں۔ گنتی کے لوگ نماز پڑھتے تھے۔ جمعہ کی نماز میں بیس پچیس مسلمان شریک ہوتے تھے۔ امیرالامراء ذوالفقار الدولہ نجف خاں کے زمانہ سے البتہ تعزیہ داری کا رواج بڑھ گیا تھا۔ تعزیوں پر عرضیاں چڑھتیں۔ چڑھاوا صدہا روپیہ کا چڑھتا۔ تعزیہ کا ساتویں اور نویں کی شب میں ”ناف شہر“ کا گشت کرایا جاتا تھا۔ عمائد شہر باندھ کر ساتھ ساتھ تعزیہ کے ساتھ چلتے اور کاندھا دیتے۔ دسویں کی صبح الوداع پڑھی جاتی۔ ہزارہا مسلمان عورت مرد جمع ہوتے تھے حتیٰ کہ مولانا غلام امام شہید الوداع پڑھتے تھے۔ بچوں کو تعزیہ پر رہن رکھا جاتا وغیرہ وغیرہ۔ مسلمانوں میں عام طور سے ہندوانی رسوم کی گرم بازاری تھی۔ دیوالی اور ہولی میں برابر ہندوؤں کے شریک ہوتے۔ اس کیفیت کا پورا نقشہ میاں نظیر نے اپنی نظمیات میں کھینچا ہے۔ اُن کے پوتے سوانگ بھرتے تھے اور شہر کا گشت لگاتے۔ سیتلا کے مندر کے ہندو اورمسلمان ہر دو مجاور اور مہنت چڑھاوے کے برابر کے حصہ دار ہوتے تھے۔ یہی حال کمال خاں کے کنویں کا تھا۔ یہ تھی عام حالت مسلمانوں کی۔ صدر نظامت ۱۸۲۵/ میں الہ آباد سے آگرہ آیا تو علماء جو وابستگانِ صدر تھے وہ بھی ساتھ آئے۔ تب یہاں علماء کی صورتیں نظر آنے لگیں۔ پہلے جمعہ میں مولی سراج الاسلام پیش کار نے نماز جمعہ پڑھائی تو اَسّی(۸۰) آدمی اس میں شریک تھے۔ تمام شہر میں یہ شہرہ تھا کہ عظیم الشان جمعہ ہوا (مولوی احمد اللہ شاہ از مفتی انتظام اللہ شہابی، ص:۱۲ تا ۱۴)

(۱۳)                مولوی احمد اللہ شاہ از مفتی انتظام اللہ شہابی،ص:۱۵۔

(۱۴)                مفتی انتظام اللہ صاحب شہابی راوی ہیں کہ شاہ صاحب کے یہاں محفل سماع کا خاص اہتمام ہوتا تھا۔ مریدین پر توجہ ڈالی جاتی۔ ادھر لوہے کے کڑاہوں میں کوئلہ کے انگارے بھرے رہتے تھے۔ وہ مجلس میں پھیلادئیے جاتے تھے۔ اُن پرمریدین لوٹتے تھے۔ آگ اُن پر بالکل اثر نہ کرتی تھی۔ میری پھوپھی محترمہ عمدة النساء زوجہ خواجہ غلام غوث خاں بہادر ذوالقدر بیخبر الہ آبادی فرمایا کرتی تھیں کہ اُن کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر الہام اللہ مرحوم پر شاہ صاحب کی خاص توجہ تھی اور وہ اُن کے مرید تھے۔ وہ بھی شریک محفل سماع ہوتے اور دہکتے ہوئے کوئلوں پر مثل ماہی بے آب تڑپتے، مگرجسم پر نشان تک نہ پڑتا۔ (ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء،ص:۲۳)

(۱۵)                روشن مستقبل ،ص:۸۰ (بار چہارم)

(۱۶)                سعد الاخبار،ص:۱۴۸ جلد اوّل مورخہ ۱۷/جمادی الاوّل ۱۲۶۶ھ مطابق مارچ ۱۸۵۰/۔

(۱۷)                خان بہادر مفتی انعام اللہ ابن مفتی محمد اسحاق سہروردی ابن مفتی محمد ولی نبیرہ ملاّ وجیہ الدین (یکے از ترتیب دہندگان فتاویٰ عالمگیری) ۱۲۰۶ھ میں پیدا ہوئے۔ والد ماجد سے علومِ عربی کی تحصیل کی۔ فراغت کے بعد لکھنوٴ گئے۔ عرصہ تک نظامت کی تمنا میں رہے۔ ناکامی پر مرشدآباد گئے۔ پھرکلکتہ پہنچے۔ وہاں سرایڈورڈ کولبرک سے تعلق ہوگیا۔ ان کا لڑکا مسٹرشیران اُن سے فارسی پڑھتا تھا۔ کولبرک دلی کے ریزیڈنٹ مقرر ہوئے تو مفتی صاحب اس کے ہمراہ دلّی آئے۔ اُس نے اپنے محکمہ کا سررشتہ کردیا۔ عرصہ تک وہاں رہے۔ محکمہ قضا میں بعہدہ وکالت (مفتی) مقرر ہوئے۔ جس زمانہ میں صدر نظامت الہ آباد میں قائم ہوا، محکمہ قضا شکست ہوگیا۔ آپ الہ آباد آئے اور محکمہ صدر میں وکیل مقرر ہوئے۔ صدر آگرہ آیا توآپ بھی اس کے ہمراہ آگرہ آگئے۔ ۱۲۶۶ھ عہدہ دارانِ صدر پر رشوت کا مقدمہ چلایا گیا، تو آپ کو بھی اس الزام میں معطل کردیاگیا کہ آپ کے یہاں سے کچھ خطوط برآمد ہوئے تھے۔ اپیل میں آپ بحال کردئیے گئے لیکن آپ اس تعلق سے خاطر برداشتہ ہوچکے تھے۔ بحالی کے بعد آپ نے استعفیٰ دیدیا۔ پھر آپ نواب وزیرالدولہ کے پاس ٹونک چلے گئے۔ وہاں آپ کو بندوبست کا مہتمم بنادیاگیا۔ وہیں سے آپ حضرت مولانا احمد اللہ شاہ صاحب کو امداد پہنچاتے رہے۔ انقلاب ۱۸۵۷/ کے بعد ۲۱/ذی الحجہ ۱۲۷۵ھ /۱۸۵۸/ کو آپ کاانتقال ہوا۔ (ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء، ص:۲۷ و ۲۸)

(۱۸)                ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء ،ص۲۷۔

(۱۹)                 ایضاً،ص:۳۳۔

(۲۰)               مولانا رحمان علی صاحب مصنف تذکرہ علماء ہند نے آپ کا پورا نام امیرالدین علی لکھا ہے۔ وطن عزیز امیٹھی تھا۔ یہی اجودھیا جہاں ۱۹۵۰/ سے بابری مسجد کاقصہ چل رہا ہے کہ ہندوؤں نے اس بناء پر کہ اس مسجد کے ایک حصہ کو وہ رام چندر جی کا رسوئی گھر کہتے ہیں،اس پر قبضہ کرکے اس میں مورتی رکھ دی ہے، مسلمان اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پرمجبور ہیں۔ چنانچہ مقدمہ چل رہا ہے۔ اسی اجودھیا میں ایک قطعہ کا نام ہنومان گڑھی ہے جہاں عالمگیر کی بنوائی ہوئی ایک قناتی مسجد تھی۔ سو سال پیشتر ۱۸۵۵/ میں بھی یہاں یہی شورش ہوئی تھی۔ چنانچہ اس قناتی مسجد پر اور ساتھ ہی بابری مسجد پر ہندوؤں نے قبضہ کرلیا تھا۔ واجد علی شاہ کا دَورِ حکومت تھا۔ وہ بذاتِ خود کمزور ہو یا مضبوط۔ مگر اس کی حکومت کے ساتھ انگریزی ریزیڈنٹ کے غیرمعمولی اقتدار اور جابیجا مداخلت نے جو دو عملی کررکھی تھی، اُس کا قدرتی اورلازمی نتیجہ یہ تھا کہ نظامِ حکومت معطل اور مفلوج ہوکر رہ گیا تھا۔ اجودھیا اور اس کے قرب و جوار کے ہندوؤں نے بذاتِ خود یا کسی کے ایما سے اس کمزوری کا فائدہ اُٹھایا اور من مانی کا رروائی کرلی۔ واجد علی شاہ کے عُمّال نے اس دست درازی کو ختم کرنا چاہا تو آس پاس کے زمیندار اور با اثر ہندو مقابلہ پر آگئے۔ واجد علی شاہ کے افسروں کے پاس مصالحت کے سوا چارئہ کار نہ تھا۔ لیکن مسلمان ایسی صلح پر راضی نہ تھے جس کے نتیجہ میں اُن کومسجد سے دستبردار ہونا پڑے۔ چنانچہ غلام حسین شاہ کی زیر قیادت مسلمانوں کی ایک جماعت خانہٴ خدا کو دوبارہ اذان و نماز سے آباد کرنے کے لئے وہاں پہنچی۔ اُن کے رفقاء اورمعاونین میں مولوی محمد صالح، حسن علی خاں ابن احسان علی خاں رسالدار، رستم علی خاں و بہادر علی خاں کسی قدر ذی حیثیت اور نمایاں تھے۔ باقی ساتھی وجاہت دُنیا سے بے نیاز، شوقِ شہادت سے سرشار تھے۔ انگریز اور ہندوستانی افسر بھی پولیس اور فوج کی جمعیت کے ساتھ وہاں پہنچے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان سب کی موجودگی میں ان تمام مسلمانوں کو جو مسجد میں دو تین روز سے بھوکے پیاسے پڑے تھے، ذبح کردیاگیا۔ ان کی تعداد ۲۶۹ بتائی جاتی ہے (قیصرالتواریخ جلد دوم ،ص:۱۱۲ وتاریخ اودھ جلد ۵،ص:۲۰۶) عذر یہ کیاگیا کہ حملہ آوار ہندوؤں کی تعداد زیادہ تھی جس پر پولیس اور فوج کی موجودہ تعداد قابو نہیں پاسکتی تھی۔ یہ حادثہ ۱۲/ذی قعدہ ۱۲۷۱ھ، ۲۸/جولائی ۱۸۵۵/ کو پیش آیا۔ بلغ الُعلیٰ بکمالہ (۱۲۷۱ھ) سے اس کی تاریخ نکالی گئی۔ بہرحال اس ہنگامہ سے پورے ہندوستان میں بے چینی پھیل گئی۔ واجد علی شاہ کی حکومت نے کچھ ہندوؤں سے معذرت کراکر اور کچھ تحقیقات کا سلسلہ شروع کراکر اس قصہ کو رفع دفع کرانا چاہا۔ مگر دوسری طرف عام اضطراب جو دن بدن بڑھ رہاتھا۔ بقول سیّد کمال الدین حیدر حسنی الحسینی مصنف قیصر التواریخ، جب فساد وہنگامہٴ ہنود بڑھااور بظاہر ثابت و متحقق ہوا کہ رعایت و پاسداری ہنود بطمع دنیا اراکین دولت کو منظور ہے۔ مولوی سیّد امیر علی بندگی میاں کے پوتے ساکن قصبہ امیٹھی نسبتی بھائی شیخ حسین علی کارندہ راجہ نواب علی خاں رئیس محمود آباد، بہ سبب جوشِ حرارت اہلِ اسلام چاہا کہ دفع توہین اسلام کریں۔ چنانچہ پہلے سندیلہ میں اہلِ اسلام نے مولویوں کی تحریک سے بعد مشورہ اجماع کمر جہاد پر باندھی۔ (قیصر التواریخ،ص:۱۲۰)۔ بہرحال یہ پس منظر تھا مولوی امیر علی شہید کے جہاد کا۔ مولانا امیر علی رحمة اللہ علیہ نے جب علم جہاد بلند کیا تو مولانا رحمان علی کے الفاظ میں، علماء سُنّی و شیعہ بہ پس و پیش افتادند کسے بفقدانِ شرائطِ فرضیتِ جہاد لب کشادہ، دیگرے شرط امامت پیش نہادہ۔ علماء کی یہ پس و پیش اور واجد علی طفل تسلّی اور لیت ولعل جاری رہی۔ مگر جو موت کو زندگی پر ترجیح دے چکاتھا۔ جس کو مولانا رحمان علی صاحب امیر المجاہدین فرماتے ہیں وہ ”عزم بالجزم بسوئے مقصود کردہ روانہ شد“۔ واجد علی شاہ اب بھی پس و پیش ہی میں تھے۔ ریزیڈنٹ نے کپتان بار لوگی کو حکم دیا وہ لشکرِ جرّار اور توپ خانہ لے کرپہنچا۔ شجاع گنج میں تمام مجاہدین کا محاصرہ کرکے توپ دم کردیا۔ مجاہدین کی تعداد چھ سو تھی۔ سب ہی شہید ہوگئے۔ مگر مقابلہ بھی ایساکیا کہ توپوں کی زد میں ہونے کے باوجود اپنے سے دو چند ۱۲۵۰) کو مقتول و مجروح کردیا۔ خاص معرکہ کے وقت کسی ارادت مند نے حضرت شاہ امیر علی سے عرض کیا۔ حالات اچھے نہیں۔ کسی محفوظ مقام پر نکل چلئے۔ شہید کی زبانِ حق ترجمان نے فوراً جواب دیا۔ ”سرِمیدان کفن بردوش دارم“۔ عجیب اتفاق، شہادت کے بعد تاریخ کی جستجو ہوئی تو یہی مصرعہ موزون ہوا منشی ظہیرالدین خلف منشی مسعود بلگرامی نے اس کی تظمین کرکے یہ قطعہ بنادیا۔

بتاریخِ شہیدانِ کفن پوش                                  چہ حاجت تاسنش من برنگارم

کہ خود فرمود آں میرِ شہیداں                            سرِ میدان کفن بردوش دارم

(تذکرہ علماء ہند،ص:۳۰)                                                                                 ۱۲۷۱ھ

(۲۱)                بے شک یہ حضرت شاہ صاحب کی گفتگو اور اُن کی قوتِ ارادی کا اثر ہے کہ حضرت مولانا فضل حق صاحب خیرآبادی کی زندگی میں انقلاب برپا ہوگیا۔ لیکن یہاں حضرت مولانا صدرالدین صاحب آزردہ کی فرزانگی اور دُور اندیشی کی بھی داد دینی چاہئے کیونکہ اگر زمامِ قیادت حضرت مولانا اسمٰعیل شہید کے کسی جانشین کے ہاتھ میں ہوتی،اور مرکز دہلی ہوتا تو شاید مولانا خیرآبادی میں یہ انقلاب اب بھی برپا نہ ہوتا۔

(۲۲)               باغی علماء،ص:۳۸

(۲۳)               لکھنوٴ میں مولانا احمد سعید سبط شاہ غلام علی نے عَلَمِ محمدی اُٹھا رکھاتھا اور عوام میں عام بے چینی پیدا ہوگئی تھی مگر کرتا دھرتا کوئی نہیں تھا۔ حضرت احمداللہ شاہ کے پہنچتے ہی ہر ایک ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگا اور تمام منتشر مجاہدین آ پ کے پاس جمع ہوئے۔ سرہنری لارنس چیف کمشنر لکھنوٴ نے حتی الوسع بغاوت کو فرو کرنا چاہا مگر سعی بے نتیجہ رہی۔ (باغی علماء،ص:۳۸)

(۲۴)               جولائی ۱۸۵۷/ کو رسالدار سیّدبرکات احمد اور راجہ لال سنگھ اور شہاب الدین وغیرہ نے شہزادہ مرزا برجیش قدر خلف واجد علی شاہ کو اودھ کا بادشاہ بناکر تخت پر بٹھادیا۔ مسندنشینی کے وقت جہانگیر بخش صوبہ دار توپ خانہ فیض آباد نے ۲۱ ضرب توپ کی سلامی دی۔ شرف الدولہ محمد ابراہیم علی خاں کو خلعت وزارت عطا ہوا۔ جرنیلی کا خلعت حسام الدولہ کو ملا۔ مگر کل وجزو کے اختیارات ناصرالدولہ علی محمد خاں عرف مموخاں کے ہاتھ میں تھے۔ (باغی علماء،ص:۳۸)

(۲۵)               مموخاں، اصل نام علی محمد خاں، داروغہ دیوان خاص۔ برجیش قدر کو مسند حکومت تک پہنچانے میں ان کی کوشش کو خاص دخل تھا۔ حضرت محل کے خاص معتمد تھے۔ مگر اس عارضی شوکت و اقتدار کے دور میں بھی زیاد ہ ستانی اور خویش پروری کی شکایت رفع نہیں ہوئی، بلکہ زیادہ ہوگئی جس کی بناء پر حضرت مولانا احمداللہ شاہ صاحب کو بار بار مداخلت کرنی پڑی۔ جس کی وجہ سے مموخاں حضرت شاہ صاحب سے بھی برگشتہ ہوگیا تھا۔ حضرت محل کے ساتھ لکھنوٴ سے نکلا اور جب حضرت محل اور برجیش قدر نیپال روانہ ہوئے تو یہ بھی اُن کے ہمراہ تھا۔ دونوں ماں بیٹوں کو نیپال کے افسروں نے اپنے یہاں رہنے کی اجازت دی۔ اُن کے لئے بطور مدد معاش ایک ہزارروپیہ ماہانہ جاری کردیا۔ مگر مموخاں کی آشفتہ مزاجی اور تند خوئی اس نازک موقع پر بھی ختم نہ ہوئی۔ اُس نے نیپالی افسروں سے ایسا انداز اختیار کیا کہ انھوں نے مموخاں کو اجازت نہیں دی۔ دوسرے سپاہیوں کی طرح یہ بھی انگریزوں کی گرفت میں آگیا۔ گرفتار ہوا۔ مقدمہ چلا۔ مموخاں نے انگریزوں کی وفاداری کے ثبوت میں بہت سی چٹھیاں بھی جو بالواسطہ یا بلاواسطہ ملی تھیں، پیش کیں۔ بڑے شدومد سے دعویٰ کیا کہ میر واجد علی جس کو کمپنی نے دس لاکھ روپیہ عطا کیا ہے میرا نائب تھا۔ اُس نے جو کچھ انگریزوں کی وفاداری میں کارروائیاں کیں وہ سب میرے مشورہ سے کیں۔ بہرحال ان تمام صفائیوں کا نتیجہ اتنا ہی برآمد ہوا کہ پھانسی کی سزا منسوخ ہوئی۔ چند سال کی قید تجویز کی گئی۔ مگر آپ نے فرار ہونے کی کوشش کی۔ کوشش ناکام رہی۔ دوبارہ گرفتار ہوئے اور انڈمان بھیج دئیے گئے۔ تقریباً پانچ سال جزیرہ انڈمان میں گذارے۔ پھر سراوک بھیج دئیے گئے۔ وہیں انتقال ہوا۔ (قیصرالتواریخ جلددوم،ص:۳۶۷و ۳۶۸ و تواریخ عجیب،ص:۴۳ و ۴۴)

(۲۶)               ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء،ص:۴۹۔

(۲۷)               انڈین میونٹھ۔ از جی، ڈبلیو فارسٹر اسکولر ، ص:۲۴؛ باغی علماء،ص:۴۳۔

(۲۸)               تاریخِ شاہ جہان پور بحوالہ باغی علماء،ص:۴۹ و ۵۰۔

(۲۹)                ہسٹری دی انڈین نیوئٹی

————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1‏، جلد: 92 ‏، محرم الحرام 1429 ہجری مطابق جنوری 2008ء

Related Posts