از: مولانا محمد عارف مبارکپوری‏، شارجہ ، متحدہ عرب امارات

۱۲-   فرمان باری: فمن لم یجد فصیام ثلاثة أیام فی الحج وسبعة اذا رجعتم تلک عشرة کاملة (بقرہ:۱۹۶)

”پھر جس کو قربانی نہ ملے تو روزے رکھے تین حج کے دنوں میں، اور سات روزے جب لوٹو، یہ دس روزے پورے ہوئے“۔

اس آیت میں دو مقام پر بدیہیات ہیں:

مقام اوّل: تین اور سات دس ہوتے ہیں، اس کے بعد یہ کہنا کہ ”یہ دس روزے“ ایک واضح چیز کی وضاحت ہے؟

اس کے کئی جواب دئیے گئے ہیں۔

۱- (وسبعة اذا رجعتم) میں جو ”واو“ ہے وہ جمع کی افادیت میں نص قطعی نہیں؛ بلکہ بسا اوقات ”أو“ کے معنی میں بھی آتا ہے، جیسا کہ (مثنی و ثلاث و رباع) (نساء/۳) نیز جیساکہ جالس الحسن وابن سیرین یعنی اِن کی یا اُن کی مجلس میں رہو۔ لہٰذا (تلک عشرة کاملة) لاکر اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو ختم فرمادیا۔ یہ جواب رازی نے نقل کیا ہے۔(۱)

رازی سے پہلے زمخشری نے بھی یہ جواب نقل کیا ہے وہ لکھتے ہیں:

”واو کبھی کبھی اباحت کے لیے آتا ہے جیسے: جالس الحسن وابن سیرین کہ مخاطب اگر دونوں کی مجلس میں بیٹھ جائے یا کسی ایک کی مجلس میں بیٹھے تو بھی حکم کی بجاآوری کرنے والا شمار ہوگا۔ آخری ٹکڑا لاکر اس اباحت کی نفی کردی گئی۔“(۲)

لیکن ابوحیان اس رائے سے خوش نہیں، وہ اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”اس میں نظر ہے؛ اس لیے کہ یہاں اباحت کا وہم نہیں ہوتا، کیوں کہ سیاق، ایجاب کاسیاق ہے، جو اباحت کے منافی ہے، تخییر (اختیار دینے) کے منافی نہیں، اس لیے کہ تخییر، واجبات میں بھی ہوجاتی ہے۔“(۳)

یہ قول ابن عاشور نے بھی نقل کیا ہے، اور اس کو زجاج سے منسوب کرتے ہوئے، تخییر کے معنی کے منشا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

”یہ معنی اگرچہ واو کی اصل کے خلاف ہے، حتیٰ کہ ابن ہشام کا خیال ہے کہ واو اس معنی میں نہیں آتا، اور تخییر کا فائدہ، امر کے صیغے سے مل رہا ہے نہ اس وہم سے کہ اللہ تعالیٰ نے دو مختلف حالتوں میں دو عدد کا ذکر فرمایا اور مختصر عدد کو دونوں میں سے دشوار تر حالت کے لیے اور بڑے عدد کو ان میں سے خفیف حالت کے لیے خاص کیا۔ اس سے لامحالہ یہ وہم پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف تین روزے فرض کیے، اور سات روزے اس شخص کے لیے رخصت ہے جو تخییر کا خواہش مند ہو۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو دور کرنے کے لیے، اشارہ فرمادیا کہ اللہ کی منشا، دس روزے فرض کرنا ہے، رہا الگ الگ رکھنا، تو محض اللہ کی طرف سے رخصت اور رحمت ہے۔ اب اس سے رحمت الٰہی پر تنبیہ کا فائدہ حاصل ہوگیا۔

اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: (وواعدنا موسی ثلاثین لیلة وأتممناہا بعشر فتم میقات ربہ أربعین لیلة) (اعراف/۱۴۳)

”اور وعدہ کیا ہم نے موسی سے تیس رات کا اور پورا کیا ان کو اور دس سے، پس پوری ہوگئی مدت تیرے رب کی چالیس راتیں۔“

اس لیے کہ منشا یہی تھی کہ موسیٰ علیہ السلام چالیس راتیں سرگوشی کریں؛ لیکن آسانی کی خاطر یہ مدت ان کو متفرق کرکے پہنچائی۔(۴)

یہ جواب ابوسعود اور آلوسی نے بھی نقل کیا ہے۔(۵)

۲- عموماً یہ ہوتا ہے کہ بدل، مبدل منہ (اصل) سے کمزور حالت میں ہوتا ہے،جیسا کہ تیمم اور پانی کا معاملہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ یہاں بدل اس نوعیت کا نہیں؛ بلکہ مبدل (اصل) کے قائم مقام ہونے میں کامل ہے۔ تاکہ جس کو قربانی میسر نہیں اور روزہ کی مشقت اٹھاسکتا ہے، مطمئن رہے کہ اللہ کے یہاں اسے اجر مکمل مل گیا ہے۔ اور (عشرة) کا ذکر اس لیے ہے تاکہ (کاملة) تک رسائی درست ہو؛ کیوں کہ اگر یوں ہوتا: تلک کاملة تو یہ ممکن تھا کہ اس سے، سات چھوڑ کر صرف تین یا تین چھوڑ کر صرف سات مراد لے لیا جائے۔ لہٰذا (عشرة) کا ذکر کرنا ضروری تھا۔ یہ جواب رازی نے نقل کیا ہے۔ اور ابوحیان نے اس کو استاذ ابوالحسن علی بن باذش سے منسوب کیا ہے۔(۶)

۳- اگر اللہ تعالیٰ یوں فرماتے کہ میں نے تم پر روزے دس دن کے فرض کیے تو کچھ بعید نہیں تھا کہ کسی دلیل کی بناء پر، کچھ دن، اس لفظ سے خارج ہوجاتے؛ اس لیے کہ شریعت اور عرف میں عام کی تخصیص کثرت سے پائی جاتی ہے۔ اوراگر یوں فرماتے: ”تین دن حج میں اور سات دن لوٹنے پر“۔ تو یہ احتمال رہ جاتا کہ کسی دلیل مخصص کی وجہ سے یہ مخصوص ہوجائے؛ لیکن جب اس کے بعد یہ فرمادیا کہ ”یہ دس پورے“ تو یہ صراحتاً معلوم ہوگیا کہ کوئی دلیل مخصص ہرگرز نہیں، اس لیے اب اس کی دلالت نہایت قوی ہوگئی اور تخصیص و نسخ کا احتمال حددرجہ بعید ہوگیا۔ یہ قول رازی نے نقل کیا ہے۔(۷)

۴- عدد کے درجے چار ہیں: اکائیاں، دہائیاں، سیکڑے اورہزار۔ اس کے علاوہ عدد یا تو مرکب ہے یا مکسور۔ اس تفسیر کے لحاظ سے دس کو عدد کامل بتانا، تعریف کا محتاج ہے، تقدیر عبارت یوں ہوگئی: میں نے یہ عدد اس لیے واجب کیا کہ اس میں صفت کمال پائی جاتی ہے، اور وہ کسر اور ترکیب سے خالی ہے۔ یہ قول رازی نے ذکر کیا ہے۔(۸)

۵- تاکید عربی زبان کا ایک مشہور اسلوب ہے۔ مثلاً اللہ کا فرمان ہے: ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور (حج/۴۶) (پراندھے ہوجاتے ہیں دل جو سینوں میں ہیں) نیز: ولا طائر یطیر بجناحیہ (انعام/۳۸) (اور نہ کوئی پرندہ جو اڑتا ہے اپنے دونوں بازووں سے) اس کا فائدہ یہ ہے کہ جو بات بہت زیادہ الفاظ میں بیان کیا جائے اور بہت ساری صفات ذکر کردی جائیں، بہ مقابلہ اس بات کے (جو ایک عبارت میں بیان کردی جائے) سہو و نسیان کااحتمال نہایت کم ہوتا ہے، لہٰذا بہت ساری عبارتوں میں کسی بات کا بیان کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اس میں ایسی بہت سی مصلحتیں پوشیدہ ہیں جن کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اگر ایک عبارت میں کوئی بات بیان کردی جائے تو یہ اندازہ نہیں ہوسکے گا کہ اس میں کوئی ایسی اہم مصلحت ہے، جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور جب تاکید میں یہ مصلحت ہے تو یہاں اس کا ذکر، اس بات کی دلیل ہے کہ اس روزہ میں اس تعداد کی رعایت، ایسی اہم چیز ہے کہ اس کو ہرگز نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ یہ قول رازی نے نقل کیا ہے۔(۹)

۶-     اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے مخاطب عرب ہیں،جو حساب کے ماہر نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس انداز سے بیان کردیا کہ کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے۔ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک بار فرمایا کہ مہینہ یوں ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے دونوں ہاتھوں سے تین بار اشارہ فرمایا۔ پھر دوبارہ اسی طرح کیا لیکن تیسری بار انگوٹھا بند کرلیا۔ پہلی بار تیس کا اشارہ فرمایا اور دوسری بار، انتیس کا۔ یہ جواب رازی نے نقل کیاہے۔(۱۰)

ابن عرفہ کہتے ہیں: ”عربوں کا یہ طریقہ ہے کہ جب دو عدد کو ذکر کرتے ہیں تو اس کو اجمالا بھی بیان کردیتے ہیں۔“

زمخشری نے اس قول کی تحسین کرتے ہوئے لکھا ہے: ”کسی بھی حساب میںآ خرمیں نچوڑ بیان کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ وہ عدد اجمالی طور پر بھی معلوم ہوجائے جیسا کہ تفصیلی طور پر معلوم ہوچکا ہے۔اور دو طرح سے احاطہٴ علم میں آجائے اور اس کا پختہ علم ہوجائے۔ عربوں میں یہ مثل مشہور ہے کہ علمان خیر من علم یعنی دوبارہ کا جان لینا ایک بار کے جاننے سے بہتر ہے۔“

ابن عرفہ کہتے ہیں: ”عرب والے ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ ان کو حساب کا زیادہ علم نہیں۔ اور آیا ہے کہ ہم حساب کتاب نہیں جانتے۔ عربی اشعار میں یہ چیز کثرت سے ملتی ہے، ایک مشہور عربی شاعر نابغہ کہتا ہے:

توہمت آیات لہا فعرفتہا                  لست أعوام و ذا العام سابع

میں نے اس (محبوبہ) کی نشانیوں کو تلاش کیا تو میں ان کو پہچان گیا، حالاں کہ چھ سال گذرگئے ہیں اور یہ ساتواں سال ہے۔

اعشی شاعر کہتا ہے:

ثلاث بالغداة فہی حسبی                 وست حین یدرکنی العشاء

تین جام صبح میں یہ میرے لیے کافی ہیں اور چھ جام رات میں۔

فذلک تسعة فی الیوم ریی               وشرب المرء فوق الری داء

یہ دن بھر میں نو جام ہوگئے، اور سیراب ہونے کے بعد آدمی شراب نوشی کرے تو بیماری ہے۔

فرزدق کا شعر ہے:

ثلاث واثنتان وہن خمس       وسادسة تمیل الی شمام

تین اور دو یہ پانچ ہوئے، اور چھٹیں میں، بوس کنار ہوتا ہے۔

ایک اور شاعر کہتا ہے:

فسرت الیہم عشرین شہرا     وأربعة فذلک حجتان

میں ان کی طرف چلا بیس ماہ اور چار ماہ یہ دو سال ہوگئے۔

یہ قول زمخشری، ابوحیان، ابن عاشور، ابوسعود اور آلوسی نے بھی نقل کیا ہے۔(۱۰)

۷-    یہ ٹکڑا، خط و کتابت میں تصحیف اورغلطی سے پیداہونے والے ابہام کو ختم کرنے کے لیے ہے۔ اس لیے کہ (سبعة) اور (تسعة) کتابت میں ہم شکل ہیں۔ اس کے بعد جب (تلک عشرة کاملة) کہہ دیا تو یہ اشتباہ ختم ہوگیا۔ یہ قول رازی اور ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۱۱)

۸-    فرمان باری (فمن لم یجد فصیام ثلاثة أیام فی الحج وسبعة اذا رجعتم) میں احتمال تھا کہ اس سے مراد یہ لیا جائے کہ لوٹنے کے بعد واجب یہ ہے کہ سات دن پورے کیے جائیں اور ان سات میں، سابقہ تین روزے شامل مانے جائیں گے یعنی حج سے واپسی پر اس کے ذمہ سابقہ تین روزوں کو چھوڑکر چار روزے ہوں گے۔ اس میں دوسرا احتمال یہ تھا کہ واپسی کے بعد سابقہ تین روزے چھوڑ کر سات روزے اور واجب ہیں ان دونوں صورتوں کا اس میں احتمال تھا۔ اب اس کے بعد جب (تلک عشرة کاملة) کہہ دیا تو یہ اشکال ختم ہوگیا اور یہ واضح ہوگیا کہ واپسی پر سابقہ تین روزوں کو چھوڑ کر سات روزے اور واجب ہیں۔ یہ قول رازی نے نقل کیا ہے۔(۱۲)

۹-     اللہ تعالیٰ نے حج میں تین اور حج سے واپسی پر سات روزے رکھنے کا حکم دیا تو اس میں یہ وضاحت نہیں کہ یہ اللہ کے نزدیک ایک عظیم اور مکمل طاعت و نیکی ہے، لیکن جب اس کے بعد یہ فرمایا (تلک عشرة کاملة) تو معلوم ہوگیا کہ یہ نیکی میں کمال اور اس کا اعلیٰ درجہ ہے۔ یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کو ”لام“ اختصاص کے ذریعہ اپنی طرف منسوب فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا: ”الصوم لی“ اسی طرح حج کو بھی لام اختصاص کے ذریعہ اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ جیسا کہ فرمایا (وأتموا الحج والعمرة للّٰہ) نیز اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں عبادتوں کا، اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق ہے۔ اور عقلا بھی ایسا معلوم ہوتا ہے۔ روزے کے حق میں تو اس لیے کہ عقل کو اس کی حکمت تک رسائی کی کوئی صورت نہیں۔ پھر بھی یہ نفس کے لیے نہایت ہی شاق ہے،اس لیے اس کی ادائیگی محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوسکتی ہے۔ اور حج بھی ایسی عبادت ہے، جس کی حکمت، عقل کو معلوم ہی نہیں ہوسکتی، پھر یہ نہایت شاق ہے، کیوں کہ اس کی خاطر اہل وعیال اور ملک کو چھوڑنا پڑتا ہے،اور اکثر لذتوں سے کنارہ کشی اختیار کرنی پڑتی ہے، لہٰذا یہ بھی محض اللہ کی رضا ہی کے لیے ادا کی جائے گی۔ مزید براں یہ کہ ان دس دنوں میں سے بعض، حج کے زمانہ میں آتے ہیں، جس کی وجہ سے دوہری مشقت ہوتی ہے اور کچھ روزے حج کے بعد آتے ہیں، جس میں ایک دشواری سے دوسری دشواری کی طرف جانا ہے اور معلوم ہے کہ یہ کثرت ثواب اور رفع درجات کا سبب ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ روزے فرض کیے اور یہ گواہی دی کہ یہ عبادت انتہائی درجہ کامل اور بلند ہے۔ لہٰذا فرمایا (تلک عشرة کاملة) یہاں پر نکرہ لانا، اس کی اعلیٰ حیثیت کی دلیل ہے۔ گویا یوں فرمایا کہ یہ دس ہیں، کون سے دس؟!! وہ دس جو مکمل ہیں۔ یہ حکمت رازی نے نقل کی ہے۔(۱۳)

۱۰-   (عشرة) کا ذکر اس وہم کے ازالہ کے لیے ہے کہ (سبعة) سے مراد تعداد نہیں؛ بلکہ کثرت ہے۔ ابوعمر بن العلاء اور ابن اعرابی نے عربوں کا یہ قول نقل کیا ہے: سبع اللّٰہ لک الأجر یعنی اللہ تم کو زیادہ سے زیادہ ثواب دیں۔ روایات میں: لہ سبع، لہ سبعون، سبع مئة کے الفاظ آئے ہیں۔ ماہر لغت ازہری فرمان باری (سبعین مرة) کی تشریح میں کہتے ہیں کہ یہ (سبع) کی جمع ہے، جس کا استعمال کثرت کے لیے ہے۔ یہ قول ابوحیان اور آلوسی نے نقل کیا ہے۔(۱۴)

۱۱-    عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے۔ اصل یوں ہے: فتلک عشرة : ثلاثة فی الحج وسبعة اذا رجعتم․ (یہ دس روزے ہیں: تین حج میں اور سات حج سے واپسی پر) یہ قول ابوالعباس مبرد سے منسوب کیاگیا ہے، لیکن یہ نسبت درست نہیں۔ قرآن کریم اس سے مبرا ہے۔ یہ قول ابوحیان نے نقل کیا ہے۔ (۱۵)

۱۲-   (عشرة) کا ذکر اس لیے ہے تاکہ یہ وہم نہ ہو کہ (سبعة)، (ثلاثة) کے ساتھ ایسے ہی ہے جیسے یہ فرمان باری (وقدر فیہا أقواتہا فی أربعة أیام) (فصلت/۱۰) (اور ٹھہرائیں اس میں خوراکیں اس کی چار دن میں) یعنی ان دودنوں کے ساتھ جو سابقہ آیت (خلق الأرض فی یومین) (فصلت/۹) (بنائی زمین دو دن میں) یہ قول ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۱۶)

۱۴-  مبرد سے ہی یہ وجہ بھی منقول ہے کہ شاید سننے والا یہ خیال کرے کہ ”سات“ کے بعد کچھ اور ہے۔لہٰذا اس وہم کو ختم کردیا۔ اسے ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۱۷)

۱۵-   ”عشرة“ کو اس لیے ذکر کردیا تاکہ یہ وہم نہ ہو کہ کمال، ان تین روزوں کے ساتھ خاص ہے، جو حج میں ہیں یا ان سات روزوں کے ساتھ خاص ہے، جو حج سے واپسی پر رکھے جائیں۔ یہ دس روزے ہی کمال کیساتھ متصف ہیں۔ اسے ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۱۸)

مقام دوم: ”دس پورے“ کہنے سے یہ وہم ہوتا ہے کہ کوئی ایسا دس بھی ہے جو دس ہونے میں پورا نہیں، حالاں کہ یہ محال ہے؟

اس کے کئی جواب دئیے گئے ہیں:

پہلا جواب: لفظ ”کاملة“ میں تین طرح سے کمال کے بیان کااحتمال ہے: (۱) یہ قربانی کے قائم مقام اور اس کا بدل ہونے میں کامل ہیں۔ (۲) قربانی کرنے والے کو جس طرح مکمل ثواب ملتا ہے اسی طرح اسے بھی مکمل ثواب ملے گا۔ اس لحاظ سے یہ کامل ہیں۔ (۳) یہ اس لحاظ سے مکمل ہیں کہ ”تمتع“ کرنے والے کا حج (اگر وہ روزے رکھ لے) مکمل ہوتا ہے جیسے اس شخص کا حج جو تمتع نہ کرے۔ یہ قول رازی نے نقل کیا ہے۔(۱۹)

دوسرا جواب: یہ تاکید کے لیے ہے ۔ جیسے آپ کہتے ہیں: کتبت بیدی (میں اپنے دونوں ہاتھوں سے لکھا) نیز جیسے اللہ کا فرمان ہے: (فخر علیہم السقف من فوقہم) (نحل/۲۶) (پھر گرپڑی ان پر چھت اوپر سے) زمخشری کہتے ہیں کہ اس (تاکید) میں روزے کی مزید وصیت کرنا ہے۔اور یہ کہ آدمی اس میں سستی نہ کرے اور ان کی تعداد میں کمی نہ کرے۔ جیسے آپ کسی بات کا (جو آپ کے نزدیک اہمیت کی حامل ہے) کا حکم دینا چاہتے ہیں اور آپ کے نزدیک مخاطب کاایک مقام ہے، تو آپ اس سے کہیں کہ اللہ اللہ! دیکھو کوتاہی نہ کرنا۔ یہ جواب ابوحیان اور آلوسی نے نقل کیا ہے۔(۲۰)

تیسرا جواب: یہ صفت دس کے کامل ہونے کو بیان کرنے کے لیے ہے۔ اس لیے کہ دس میں تمام اعداد کی خاصیتیں یک جا ہیں۔ کیوں کہ ایک، ابتداء عدد ہے۔ دو عدد کا شروع ہے، تین پہلا طاق عدد ہے۔ چار پہلا عدد مجزور ہے۔ پانچ پہلا عدد دائرے۔ چھ پہلا عدد تام ہے۔ سات پہلا عدد ہے۔آٹھ، زوج الزوج کا پہلا عدد ہے۔ اور نو پہلا عدد مثلث ہے۔ اور دس کی طرف خود عدد لوٹتے ہیں؛ اس لیے کہ اس کے بعد کا ہر عدد، خود اس سے اور اس سے پہلے والے سے مرکب ہے۔ یہ قول آلوسی نے بعض محققین کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔(۲۱)

چوتھا جواب: یہ مقصد اور ترتیب میں مکمل ہیں؛ لہٰذا اگر اس ترتیب پر روزے نہ رکھے تو کامل نہ ہوں گے۔ اسے ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۲۲)

پانچواں جواب: یہ الفاظ گو کہ خبر کے ہیں؛ لیکن اس سے مراد، امر ہے۔اور تقدیر عبارت یوں ہے: فلتکن الصیامات صیامات کاملة (یہ روزے مکمل روزے ہونے چاہئیں) اس لیے کہ حج جس کاحکم آیا ہے وہ بھی پورا ہی ہونا چاہئے جیساکہ فرمان باری ہے: (وأتموا الحج والعمرة للّٰہ) (بقرہ/۱۹۶) اور یہ روزے، اس حج میں ہونے والی کمی کی تلافی کے لیے ہیں لہٰذا یہ روزے بھی پورے ہونے چاہئیں تاکہ حج (جس کا پورا و مکمل ہونا ضروری ہے) میں ہونے والی کمی کی تلافی ہوسکے۔اور روزوں کے مکمل ہونے سے کیا مراد ہے اس کی وضاحت ہم حج کے مکمل ہونے کی بحث میں کرچکے ہیں۔ رہا یہ کہ امر کے الفاظ استعمال کرنے کے بجائے خبر کے الفاظ کیوں استعمال کیے تو اس لیے کہ جب کسی چیز کا حکم حد درجہ تاکیدی اور قطعی ہوتو بہ مکلف وجود میں لاتا ہی ہے۔اور اسی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ کسی چیز کے وقوع کی خبر کو، اس کے قطعی حکم ہونے اور شریعت کی طرف سے اس کے واجب کرنے میں مبالغہ سے کنایہ قرار دیا جائے۔ یہ جواب رازی اورابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۲۳)

۱۳-  اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فاذا أفضتم من عرفات فاذکروا اللّٰہ عند المشعر الحرام واذکروہ کما ہداکم (بقرہ/۱۹۸)

”پھر جب طواف کے لیے لوٹو عرفات سے، تو یاد کرو اللہ کو مشعرالحرام کے نزدیک اور اس کو یاد کرو جس طرح تم کو سکھلایا۔“

اللہ کے ذکر کا حکم ایک بار آیت کے ابتدائی ٹکڑے (فاذکروا اللّٰہ عند المشعر الحرام) میں آ چکا ہے پھر دوبارہ اگلے ٹکڑے (واذکروہ کما ہداکم) میں اس کاحکم دینے میں کیا حکمت ہے؟

اس کے کئی جواب دئیے گئے ہیں:

پہلا جواب: ہمارا مذہب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء توقیفی ہیں، قیاسی نہیں۔ لہٰذا (فاذکروا اللّٰہ) میں ذکر کا حکم ہے۔ پھر (واذکروہ کما ہداکم) میں ہمیں یہ حکم ہے اللہ کا ذکر اس کے ان اسماء و صفات سے کریں جو اس نے ہمیں بتائے ہیں۔ نہ ایسے ناموں کے ذریعہ جو ہم اپنی طرف سے بنالیں۔ یہ جواب رازی نے نقل کیا ہے۔(۲۴)

دوسرا جواب: پہلے اللہ تعالیٰ نے ذکر کا حکم دیا پھر فرمایا (واذکروہ کما ہداکم) یعنی ہم نے جس ذکر کاحکم دیا ہے اسے بجالاؤ، جیسا کہ اللہ نے تمہیں دین اسلام کی رہنمائی فرمائی۔ گویا اللہ تعالیٰ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ تمہیں اس ذکر کا حکم اس لیے دیاگیا تاکہ تم اس نعمت کے شکرگذار بنو۔ اس کی نظیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان پورا کرنے کے بعد، ”تکبیر“ یعنی اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا حکم دیا ۔

ولتکملوا العدة ولتکبروا للّٰہ علی ما ہداکم (بقرہ/۱۸۵)

”اور اس واسطے کہ تم پوری کرو گنتی اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ تم کو ہدایت کی۔“

اور قربانی کے تعلق سے فرمایا: کذلک سخرہا لکم لتکبروا اللّٰہ علی ما ہداکم (حج/۳۷)

”اسی طرح ان کو بس میں کردیا تمہارے کہ اللہ کی بڑائی پڑھو اس بات پر کہ تم کو راہ سجھائی۔“

یہ جواب امام رازی نے نقل کیا ہے۔(۲۵)

تیسرا جواب: (فاذکروا اللّٰہ عند المشعر الحرام) میں زبان سے ذکر کا حکم ہے اور (واذکروہ کما ہداکم) میں دل سے ذکر کا حکم ہے۔اس کی تشریح یہ ہے کہ عربی میں ذکر دو طرح کا ہے (۱) نسیان اور بھول کی ضد (۲) ذکر قولی۔ نسیان اور بھول کی ضد ذکر، کی مثال اللہ کا فرمان ہے (وما أنسانیہ الا الشیطان أن أذکرہ) (کہف/۶۳) اور ذکر قولی کی مثال اللہ کا فرمان (فاذکروا اللہ کذکرکم آباء کم أو أشد ذکرا (بقرہ/۲۰۰) (اور یاد کرو اللہ کو جیسے تم یاد کرتے تھے اپنے باپ دادوں کو بلکہ اس سے بھی زیادہ یاد کرو) اور (والذکروا اللّٰہ فی أیام معدودات) (بقرہ/۲۰۳) (اور یاد کرو اللہ کو گنتی کے چند دنوں میں) اس سے معلوم ہوا کہ ذکر دونوں معنوں میں وارد ہے۔ پہلے سے مراد زبانی ذکر اور دوسرے سے مراد قلبی ذکر ہے۔ اور انہی دونوں کے ذریعہ مکمل عبودیت کا حصول ہوتا ہے۔ یہ جواب رازی نے نقل کیا ہے۔(۲۶)

چوتھا جواب: ابن انباری نے کہا کہ: (واذکروہ کما ہداکم) سے مراد یہ ہے کہ اللہ کو توحید کے ذریعہ یاد کرو جیسا کہ اس نے تمہیں اپنی ہدایت کے ذریعہ یاد فرمایا۔ اسے رازی اورابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۲۷)

پانچواں جواب: ممکن ہے کہ اس سے مراد مسلسل ذکر کرنا ہو گویا ان سے یوں کہا گیا کہ اللہ کو بار بار یادکرو جیسا کہ اس نے تمہیں بار بار ہدایت دی۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جیساکہ ایک دوسری آیت میں فرمایا گیا (یا أیہا الذین آمنوا اذکرو اللّٰہ ذکرا کثیرا (احزاب/۴۱) (اے ایمان والو! یاد کرو اللہ کی بہت سی یاد) یہ جواب رازی نے نقل کیا ہے اور ابوحیان نے اسے محمد بن قاسم نحوی سے منسوب کیا ہے۔(۲۸)

چھٹا جواب: اللہ تعالیٰ نے مشعرحرام کے پاس ذکر کا حکم دیا ہے۔ اس میں شرعی وظائف و احکام کو بجالانے کی طرف اشارہ ہے۔اس کے بعد اللہ نے فرمایا: (واذکروہ کما ہداکم) اس کا مطلب یہ ہے کہ مشعرحرام پر ذکر کو موقوف کرنے میں شرعی وظائف کی بجا آوری ہے۔ یہ بات سمجھ میں آنے کے بعد تم حقیقت کے مراتب سے قریب ہوجاؤگے۔ اور وہ یہ ہے کہ تمہارا دل مشعرحرام سے منقطع ہوجائے؛ بلکہ اس کے علاوہ ہر چیز سے منطقع ہوجائے، اور اللہ کے جلال کے نور اور اس کی صمدیت میں غرق ہوجائے، اور اس کا ذکر کرے؛ اس لیے کہ وہی اس ذکر کی مستحق ذات ہے، نیز اس لیے کہ یہ ذکر، تمہیں اس کی ذات کے ساتھ باعزت نسبت عطا کرے گا بایں معنی کہ تم اس حالت میں مقام عروج میں پہنچ جاؤگے، اسی کا ذکر کروگے اوراسی کی ثناء میں مشغول ہوگے۔ پہلے ابتدائی حالت کا ذکر کیا پھر بعد والی حالت کا؛ اس لیے کہ بندہ اس حالت میں مقام عروج میں ہوتا ہے اور ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف چڑھتا ہے۔ یہ ایسا شریفانہ مقام ہے، جس کو نہ زبانی بیان کیا جاسکتا ہے اور نہ تصور میں آسکتا ہے۔ جو اس تک رسائی کا خواہاں ہے اسے اس ذات تک پہنچنے والوں میں ہونا چاہیے، نہ کہ اثر و خبر کو سننے پر اکتفا کرے۔ یہ جواب رازی نہ نقل کیا ہے۔(۲۹)

ساتواں جواب: ذکر اوّل سے مراد، اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات حسنیٰ کا ذکر ہے اور دوسرے ذکر سے مراد، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکریہ میں مشغول ہونا ہے۔ شکریہ میں بھی ذکر ہوتا ہے۔ لہٰذا شکر کو ذکر کہنا صحیح ہے۔

دوسرے ذکر سے مراد، شکر ہے اس کی دلیل یہ ہے اس کو ہدایت پر معلق کیا ہے (کما ہداکم) اور کسی نعمت پر جو ذکر مرتب ہو وہ شکر ہی تو ہے۔ یہ جواب رازی نے نقل کیا ہے۔(۳۰)

آٹھواں جواب: اللہ تعالیٰ نے (فاذکروا اللہ عند المشعر الحرام) فرمایا تو کسی کو یہ وہم ہوسکتا تھا کہ ذکر، اسی مقام اور اسی عبادت (حج) کے ساتھ خاص ہے۔ اس شبہ کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (واذکروہ کما ہداکم) یعنی اللہ کا ذکر ہر حالت اور ہر جگہ کرو۔ اس لیے کہ یہ ذکر، ہدایت کے شکریہ میں واجب ہوا ہے اور چوں کہ ہدایت کی نعمت قائم ہے، ختم ہونے والی نہیں، اس لیے اس کا شکریہ بھی لگاتار جاری رہنا چاہیے، اس میں انقطاع نہ ہو۔ یہ جواب رازی نے نقل کیا ہے۔(۳۱)

نواں جواب: (فاذکروا اللّٰہ عند المشعر الحرام) سے مراد مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ ادا کرنا ہے اور (واذکروہ کما ہداکم) سے مراد لا الٰہ الا اللہ اور سبحان اللہ پڑھنا ہے۔ یہ جواب رازی اور ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۳۲)

دسواں جواب: اوّل اور دوم ذکر کے حکم سے مراد ایک ہی ہے البتہ تاکید اور مبالغہ کے لیے دوبارہ لایاگیا؛ اس لیے کہ ذکر تمام عبادتوں میں سب سے افضل ہے۔ یہ جواب ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۳۳)

گیارہواں جواب: اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کا اچھا ذکر کرو جیساکہ اس نے تم کو اچھی ہدایت دی۔ اور اسی طرح سے اس کا ذکر کرو جیسے اس نے تم کو بتایا ہے، اس طریقہ کو نظر انداز نہ کرو۔ یہ جواب زمخشری اور ابوسعود نے نقل کیا ہے۔(۳۴)

$$$

حواشی:

(۱)         رازی ۵/۱۰۹۔                         (۲)                  زمخشری تفسیر آیت۔

(۳)        ابوحیان ۲/۲۶۸۔                                            (۴)                 رازی ۳/۵۰۰؛ ابن عاشور ۲/۲۲۸۔

(۵)        ابوسعود ۲۰۸؛ آلوسی ۲/۸۳۔                           (۶)                  رازی ۳/۵۰۰؛ ابو حیان ۲/۲۶۸۔

(۷)        رازی ۳/۵۰۰۔                                               (۸)                  رازی ۳/۵۰۰۔

(۹)          رازی ۳/۵۰۰۔

(۱۰)       زمخشری تفسیر آیت، ابوحیان ۲/۲۶۸، ابن عاشور ۲/۲۲۸، ابوسعود ۱/۲۰۹، آلوسی ۲/۸۳-۸۶۔

(۱۱)        رازی ۳/۵۰۰؛ ابوحیان ۲/۲۶۸۔

(۱۲)       رازی ۳/۵۰۰۔                                                (۱۳)                رازی ۳/۵۰۰۔

(۱۴)       ابوحیان تفسیر آیت، آلوسی ۲/۸۵۔                 (۱۵)                ابوحیان تفسیر آیت۔

(۱۶)       ابوحیان تفسیر آیت۔                                        (۱۷)                ابوحیان تفسیر آیت۔

(۱۸)      ابوحیان تفسیر آیت۔                                        (۱۹)                 رازی ۳/۵۰۰ نیز دیکھئے آلوسی ۲/۸۳، ابوحیان تفسیرآیت۔

(۲۰)      ابوحیان تفسیر آیت؛ آلوسی ۲/۸۳۔                 (۲۱)                آلوسی ۲/۸۳۔

(۲۲)      ابوحیان تفسیر آیت۔                                        (۲۳)               رازی ۳/۵۰۰؛ ابوحیان تفسیر آیت۔

(۲۴)     رازی ۵/۳۲۸۔                                               (۲۵)               رازی ۵/۳۲۸۔

(۲۶)      رازی ۵/۳۲۸۔                                               (۲۷)               رازی ۵/۳۲۸۔؛ ابوحیان تفسیر آیت۔

(۲۸)     رازی ۵/۳۲۸۔؛ ابوحیان تفسیر آیت۔             (۲۹)                رازی ۵/۳۲۸۔

(۳۰)     رازی ۵/۳۲۸۔                                               (۳۱)                رازی ۵/۳۲۸۔

(۳۲)     رازی ۵/۳۲۸؛ ابوحیان تفسیر آیت۔               (۳۳)              ابوحیان تفسیر آیت۔

(۳۴)     زمخشری تفسیر آیت،ابوسعود ۱/۲۱۲۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10-11، جلد: 91 ‏، رمضان-ذی قعد 1428 ہجری مطابق اکتوبر -نومبر2007ء

Related Posts