از: مفتی عمرفاروق لوہاروی، شیخ الحدیث دارالعلوم لندن (یوکے)
۱۲تمہید:
دھاگے دانوں کی مروجہ تسبیح کو عربی میں ”سُبْحہ“ اور ”مِسْبَحہ“ کہا جاتا ہے۔ اور ہمارے عرف میں ذو ا لاٰلہ کا اطلاق اٰلہ پر کرتے ہوئے ”تسبیح“ کہا جاتاہے۔ بعض حضرات اس کے استعمال کو بدعت قرار دیتے ہیں، اور استعمال کرنے والوں کو موردِ طعن ٹھہراتے ہیں، اس لیے مناسب معلوم ہوا، کہ اس سلسلے میں ایک مختصر سی تحریر شائع کی جائے، جس سے مسئلہ کی حقیقت واضح ہوجائے۔
ذکر اللہ کی اہمیت:
”ذکر اللہ“ اللہ تعالیٰ کے قرب و رضاء اورانسان کی روحانی ترقی اور ملاءِ اعلیٰ سے اس کے ربط کا خاص الخاص وسیلہ ہے۔ شیخ ابن القیم رحمہ اللہ نے ”مدارج السالکین“ میں ذکر اللہ کی عظمت و اہمیت اوراس کے اثرات و برکات پر ایک بڑا بصیرت افروز اور رُوح پرور مضمون لکھا ہے۔ قرآن مجید نے دس مختلف ومتنوع اسالیب و پیرایوں سے ذکر اللہ کی تاکید وترغیب اور تخصیص وتلقین فرمائی ہے۔ چنانچہ:
(۱) بعض آیات میں اہلِ ایمان کو تاکید کے ساتھ اس کا حکم دیاگیا ہے۔
(۲) بعض آیات میں اللہ کو بھولنے اور اسکی یاد سے غافل ہونے سے شدت سے منع فرمایاگیا ہے۔
(۳) بعض آیات میں فرمایاگیاہے، کہ فلاح اور کامیابی اللہ کے ذکر کی کثرت کے ساتھ وابستہ ہے۔
(۴) بعض آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہلِ ذکر کی تعریف کی گئی ہے، اور بتایاگیاہے کہ ذکر کے صلہ میں ان کے ساتھ رحمت و مغفرت کا خاص معاملہ کیاجائے گا، اور ان کو اجرِ عظیم سے نوازا جائے گا۔
(۵) بعض آیات میں آگاہی دی گئی ہے، کہ جو لوگ دنیا کی بہاروں اور لذّتوں میں منہمک اور مست ہوکر اللہ کی یاد سے غافل ہوجائیں گے، وہ ناکام اور نامراد رہیں گے۔
(۶) بعض آیات میں فرمایاگیا، کہ جو بندے ہمیں یاد کریں گے، ہم ان کو یاد کریں گے اور یاد رکھیں گے۔
(۷) بعض آیات میں فرمایاگیا ہے، کہ اللہ کے ذکر کو ہر چیز کے مقابلے میں عظمت و فوقیت حاصل ہے، اور اس کائنات میں وہ ہر چیز سے بالا تر اور بزرگ تر ہے۔
(۸) بعض آیات میں بڑے اونچے درجہ کے اعمال کے بارے میں ہدایت فرمائی گئی ہے، کہ ان کے اختتام پر اللہ کا ذکر ہونا چاہیے، گویا ذکر اللہ ہی کو ان اعمال کا خاتمہ بنانا چاہیے۔
(۹) بعض آیات میں ذکر اللہ کی ترغیب اس عنوان سے دی گئی ہے، کہ دانش مند اور صاحبِ بصیرت وہی ہیں، جو ذکر اللہ سے غافل نہیں ہوتے۔
(۱۰) بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے ، کہ اونچے سے اونچے اعمالِ صالحہ کی روح ذکر اللہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے قول وعمل سے ذکر اللہ کی ترغیب و تلقین فرمائی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے؛ آپ نے فرمایا:
جاء اعرابیان الٰی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال احدہما: یا رسول اللّٰہ، اخبرنی بامرٍ اتثبت بہ قال: لایزال لسانک رطبا من ذکر اللّٰہ ․ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ۲/۹۲، حدیث: ۸۱۱۔ ورواہ الترمذی وقال: حدیث حسن غریب ورواہ ایضا ابن ماجہ والحاکم وقال: صحیح الاسناد ولم یخرجاہ واقرہ الذہبی)
”دو اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان میں سے ایک نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے کوئی ایسی بات بتادیجئے، جس کو میں مضبوطی سے تھام لوں، اور اس پر کاربند ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا: تمہاری زبان اللہ کے ذکر سے تررہے۔“
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
سألت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ایّ الاعمال احبّ الٰی اللّٰہ تعالٰی؟ قال: ان تموت ولسانک رطب من ذکر اللّٰہ․ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ۲/۹۳ حدیث:۸۱۵)
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، کہ اعمال میں سے کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسندیدہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تمہاری موت اس حال میں آئے، کہ تمہاری زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو۔“
اذکار و تسبیحات کا شمار کرنا:
”ذکر اللہ“ اپنے وسیع معنی کے لحاظ سے نماز، تلاوتِ قرآن اور دعاء وغیرہ سب ہی کو شامل ہے، لیکن مخصوص عرف واصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس، توحید وتمجید، اس کی عظمت و کبریائی اور اس کی صفاتِ کمال کے دھیان وبیان کو ”ذکر اللہ“ اور ”تسبیح“ کہا جاتا ہے۔ جس طرح شریعتِ اسلامیہ میں ذکر اللہ کی ترغیب و تاکید وارد ہوئی ہے، اسی طرح اس کے خاص کلمات بھی تلقین فرمائے گئے ہیں۔ تسبیح و تقدیس اور توحید و تمجید وغیرہ کے جو کلمات اور اذکار و تسبیحات منقول ہیں، ان میں سے بعض کی خاص تعداد روایات میں وارد ہوئی ہے۔ جیسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من قال سبحان اللّٰہ وبحمدہ فی یوم مائة مرة حطت (عنہ) خطایاہ، وان کانت مثل زبد البحر․ (صحیح بخاری ۲/۹۴۸ کتاب الدعوات، باب فضل التسبیح)
”جو شخص روزانہ ”سبحان اللہ و بحمدہ“ سو مرتبہ کہے، تو اس کی لغزشیں معاف کردی جائیں گی، گو وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔“
خارجِ صلاة ان اذکار و تسبیحات کو شمار کرنے کے بارے میں کل تین اقوال ہیں:
(۱) ضعفاء اور کمزوروں کے لیے کراہت نہیں ہے، اقویاء کے لیے کراہت ہے۔
(۲) مطلقاً یعنی اقویاء اور ضعفاء ہر ایک کے لیے مکروہ ہے۔
(۳) کسی کے لیے مکروہ نہیں، جبکہ وہ ریاء کو مستلزم نہ ہو۔
ان تین اقوال میں صحیح اور صواب قول تیسرا ہے، کہ جب اذکار و تسبیحات کا شمار کرنا ریاء اور دکھاوے کو مستلزم نہ ہو، تو مطلقاً مکروہ نہیں، نہ ضعفاء کے لیے کوئی کراہت ہے نہ اقویاء کے لیے۔ پہلے اور دوسرے قول کے لیے کوئی قابلِ اعتماد اور قوی دلیل نہیں ہے، جب کہ تیسرے قول کے لیے دلیل اور مضبوط ترین دلیل یہ ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً و عملاً اور نصّاً واشارتاً احادیثِ صحیحہ میں اذکار کا شمار کرنا ثابت ہے، اسی لیے امام ترمذی، امام ابوداود اور امام نسائی جیسے حضرات محدثین رحمہم اللہ نے اپنے اپنے مجموعہٴ احادیث میں مستقل باب قائم کرکے تسبیحات کے شمار کا جواز ثابت فرمایاہے۔
واضح ہو، کہ اذکار کا شمار کرنا فعلِ عبث نہیں ہے؛ بلکہ اس میں جہاں ایک طرح کا اہتمام پایا جاتا ہے، وہیں اس میں ایک نفع بھی پایاجاتا ہے۔ چنانچہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اس کا نفع یہ ہے، کہ نفس سے شروع میں جب کوئی عمل کرایاجاتاہے، تو اس پر سخت گراں ہوتا ہے، اور اس کو خوش رکھنا ضروری ہے، تاکہ کام کرے، اور سست ہوکر بے کار نہ ہوجائے۔ پس جب (تسبیحات) شمار کی جائے گی، تو نفس کو خوشی ہوگی، کہ میں نے آج اس مقدار میں کام کیا، اور اتنے اجر کا مستحق (امیدوار) ہوا۔ کل کو اور زیادہ کام کروں، تاکہ ثواب زیادہ ملے۔ اور جو بے شمار پڑھ لیا، نفس کو تکان تو ہوجائے گا، لیکن مسرّت نہ ہوگی، پس دوسرے روز فرائض بھی اداکرنا دشوار ہوگا۔“ (المسکی الذکی یعنی تقریر ترمذی از حضرت تھانوی رحمہ اللہ ۲/۶۶۲)
شیخ عبداللہ بن احمد بن محمود النسفی رحمہ اللہ مذکورہ بالا اقوالِ ثلثہ میں سے تیسرے قول کی تصحیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وہو الصحیح، لانہ اسکن للقلوب، واجلب للنشاط․ (مجموعة رسائل اللکنوی ۱/۱۵۱)
”یہی (عدم کراہت والاتیسرا قول) صحیح ہے، اس لیے کہ یہ شمار کرنا قلوب کے لیے زیادہ باعثِ سکون اور زیادہ نشاط آور ہے۔“
انگلیوں کے پوروں پر اذکار کا شمار کرنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اذکار و تسبیحات کا انگلیوں کے پوروں پر شمار کرنا ثابت ہے؛ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا، کہ آپ کے قول و فعل سے تو پوروں ہی پر شما ر کرنا ثابت ہے۔ اس سلسلے کی دو احادیث حسب ذیل ہیں:
(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعقد التسبیح – قال ابن قدامة – بیمینہ ․ (سنن ابی داود، ابواب الوتر، باب التسبیح بالحصی ۱/۲۱۰ وسکت عنہ ابوداود، ونقل المنذری تحسین الترمذی واقرہ واخرجہ الترمذی وفی روایتہ: بیدہ، واخرجہ ابن حبان ایضا بلفظ بیدہ)
”حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، کہ آپ تسبیح شمار فرمارہے تھے – اس سند کے امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے شیخ ثانی ابن قدامہ نے اس روایت میں ”بیمینہ“ (دائیں ہاتھ مبارک سے) کا اضافہ نقل کیا ہے – اب معنی یہ ہوں گے کہ آپ اپنے دائیں دست مبارک سے تسبیح شمار فرمارہے تھے۔“
(۲) عن یسیرة وکانت من المہاجرات قالت: قال لنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: علیکن بالتسبیح والتہلیل والتقدیس واعقدن بالانامل فانہن مسئولات مستنطقات ولا تغفلن فتنسین الرحمة․ قال الترمذی: ہذا حدیث انما نعرفہ من حدیث ہانی بن عثمان ․ (جامع الترمذی، ابواب الدعوات، احادیث شتّی ۲/۱۹۹ سنن ابی داود، کتاب الصلاة، ابواب الوتر، باب التسبیح بالحصی ۱/۲۱۰ الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ۲/۱۰۳ حدیث: ۸۳۹، مسند احمد ۶/۴۰۲ حدیث: ۲۷۱۵۴، وحسّنہ النووی فی ”الاذکار“ ص:۲۲ وابن حجر فی ”نتائج الافکار“ ۱/۸۴)
”حضرت یسیرہ (بنت یاسر) رضی اللہ عنہا سے جو مہاجرات میں سے ہیں، روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ارشاد فرمایا، کہ تم تسبیح (سبحان اللہ کہنا)، تہلیل (لا الہ الا اللہ کہنا)، اور تقدیس (جیسے ”سبحان الملک القدوس“ یا ”سبوح قدوس رب الملائکة والروح“ کہنا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں تقدیس سے مراد ”تکبیر“ یعنی ”اللہ اکبر“ کہنا ہو) کو لازم پکڑو، اور ان کو انگلیوں کے پوروں سے شمار کرو، اس لیے کہ (دیگر اعضاء کی طرح) پوروں سے بھی (قیامت کے دن ان سے کیے گئے اعمال کے بارے میں) سوال کیا جائے گا، اور ان میں گویائی پیدا کرکے ان کو بُلوایا جائے گا۔ اور ذکر سے غافل مت ہوؤ یعنی ذکر کو مت چھوڑو، ورنہ تم رحمت کو یعنی سبب رحمت کو چھوڑنے والی ہوں گی۔“
یہاں یہ ملحوظ رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اذکار و تسبیحات کے شمار کرنے کا طریقہ آج کل کے معروف طریقے (پے درپے انگلیوں پر گننا) کی طرح نہیں تھا؛ بلکہ ایک خاص طریقہ اور متعین کیفیت تھی۔
کنکریوں اور گٹھلیوں پر اذکار کا شمار کرنا:
جیساکہ ماقبل میں ذکر کیاگیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل سے تو اذکار کا انگلیوں کے پوروں ہی سے شمار کرنا ثابت ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سے یہ بات بھی ثابت ہے، کہ کنکریوں اور گٹھلیوں پر بھی شمار کیا جاسکتا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الروایات فی التسبیح بالنوی والحصی کثیرة عن الصحابة وبعض امہات الموٴمنین؛ بل رآہا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم واقرہا․ (مجموعة رسائل اللکنوی ۱/۱۳۲)
”حضرات صحابہ کرام اور بعض امہات المومنین سے کھجور کی گٹھلیوں اور کنکریوں کے ذریعہ تسبیح کے سلسلہ میں روایات بہت ہیں؛ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا،اور (نکیر نہیں فرمائی؛ بلکہ) اس کو برقرار رکھا۔“
ذیل میں اس سلسلے کی چند روایات پیش کی جارہی ہیں:
(۱) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
انہ دخل مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علٰی امرأة وبین یدیہا نوی اوحصی تُسبِّحُ بہا، فقال: (الا) اخبرک بما ہو ایسر علیک من ہذا او افضل، فقال: سبحان اللّٰہ عدد ما خلق فی السماء وسبحان اللّٰہ عدد ما خلق فی الارض وسبحان اللّٰہ عدد ما خلق بین ذلک وسبحان اللّٰہ عدد ما ہو خالق، واللّٰہ اکبر مثل ذلک، والحمد للّٰہ مثل ذلک، ولا الہ الا اللّٰہ مثل ذلک، ولا حول ولاقوة الا باللّٰہ مثل ذلک․ (سنن ابی داود، ابواب الوتر، باب التسبیح بالحصی ۱/۲۱۰، جامع ترمذی، احادیث شتّی من ابواب الدعوات وقال الترمذی: حسن غریب ۲/۱۹۷، واخرجہ ابن حبان: الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ۲/۱۰۱ حدیث: ۸۳۵ والحاکم وقال الحاکم: صحیح الاسناد ووافقہ الذہبی: المستدرک للحاکم ج:۱، ص:۵۴۷، ۵۴۸، والطبرانی فی الدعاء ۳/۱۵۸۴ حدیث: ۱۷۳۸)
”حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ایک خاتون کے پاس پہنچے (ممکن ہے وہ خاتون ام المومنین حضرت جویریرہ رضی اللہ عنہا ہو، یا ممکن ہے کہ کوئی محرم خاتون تھیں۔ اگر اجنبیہ تھیں تو ممکن ہے کہ یہ واقعہ نزولِ حجاب سے قبل کا ہو یا یہ کہیے کہ دخول فی البیت، روٴیت کو مستلزم نہیں) دراں حالیکہ اس خاتون کے سامنے کھجور کی گٹھلیاں یا سنگریزے تھے، وہ ان گٹھلیوں یا کنکریوں پر تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم کو وہ نہ بتادوں،جو تمہارے لیے اس سے زیادہ آسان ہے یا فرمایا کہ اس سے افضل ہے، پھر آپ نے فرمایا: (کہ تم اس طرح کہو:) سبحان اللّٰہ عدد ما خلق فی السماء و سبحان اللّٰہ عدد ما خلق فی الارض وسبحان اللّٰہ عدد ما بین ذلک و سبحان اللّٰہ عدد ما ہو خالق (سبحان اللہ ساری آسمانی مخلوق کی تعداد کے مطابق، سبحان اللہ ساری زمینی مخلوقات کی تعداد کے مطابق، سبحان اللہ زمین و آسمان کے درمیان کی ساری مخلوقات کی تعداد کے مطابق، سبحان اللہ اس ساری مخلوقات کی تعداد کے مطابق، جس کو ابد الآباد تک پیدا فرمانے والے ہیں) اللہ اکبر اسی طرح (اللہ اکبر عدد ما خلق فی السماء واللہ اکبر عدد ما خلق فی الارض ․․․) الحمد للہ اسی طرح، لا الہ الا اللہ اسی طرح اور لاحول و لاقوة الا باللہ اسی طرح۔“
(۲) ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
دخل علیّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبین یدی اربعة آلاف نواة اسبح بہا (بہن) قال: لقد سبّحت بہذہ، الا اعلمک باکثر ممّا سبحت بہ فقلت: بلی علمنی فقال: قولی: سبحان اللّٰہ عدد خلقہ․ (جامع الترمذی، ابواب الدعوات، باب بلا ترجمة قبیل احادیث شتّی من ابواب الدعوات، وقال الترمذی: ہذا حدیث غریب لانعرفہ من حدیث صفیة الا من ہذا الوجہ من حدیث ہاشم بن سعید الکوفی ولیس اسنادہ بمعروف ۲/۱۹۵ و اخرجہ الحاکم فی المستدرک ۱/۵۴۷ وقال: ہذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ، ووافقہ الذہبی)
”حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، دراں حالیکہ میرے سامنے کھجور کی چار ہزار گٹھلیاں تھیں، جن کے ذریعہ میں تسبیح پڑھ رہی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ان کے ذریعہ جتنی تسبیح پڑھی، میں اس سے زیادہ تم کو نہ بتلاؤں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! مجھے سکھائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم کہو: سبحان اللہ عدد خلقہ“۔
مروجہ تسبیح کے عدمِ جواز کے اثبات میں ابوزیدبکر بن عبداللہ نے ”السبحة تاریخہا وحکمہا“ نامی ایک رسالہ لکھا ہے، اس میں موصوف نے حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما کی مذکورہ دونوں حدیثوں کے متعلق اولاً لکھا کہ ”وفی ثبوت سند کل منہما نظر“ (السبحة ص:۱۶) (ان دونوں میں سے ہر ایک کی سند کے ثبوت میں نظر ہے) لیکن جب سنداً ومتناً تفصیلی بحث کی ہے، وہاں موصوف نے دونوں حدیثوں کی اسنادی حیثیت کے بارے میں اعتراف کیا ہے کہ : واما حدیث صفیة وحدیث سعد بن ابی وقاص فیشہد کل واحد منہما للآخر، اذ لیس فی اسناد احدہما من قُدح فیہ من جہة عدالتہ․ (السبحة ص:۲۲) (بہرحال حضرت صفیہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما کی حدیثوں میں سے ہرایک دوسرے کے لیے شاہد ہے،اس لیے کہ ان دونوں میں سے کسی کی سند میں ایسا راوی نہیں ہے، جس کے متعلق عدالت کی جہت سے کوئی نقد کیاگیا ہو)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم میں کنکریوں اور گٹھلیوں پر اذکار و تسبیحات کو شمار کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً:
(۱) ابونضرہ سے مروی ہے:
حدثنی شیخ من طفاوة قال: تثویت اباہریرة بالمدینة، فلم أر رجلا من اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اشد تشمیرا ولا اقوم علٰی ضیف منہ، فبینما انا عندہ یوما، وہو علی سریرلہ، معہ کیس فیہ حصی او نوی، واسفل منہ جاریة لہ سوداء، وہو یسبح بہا، حتی اذا نفد ما فی الکیس القاہ الیہا، فجمعتہ فاعادتہ فی الکیس، فدفعتہ الیہ ․․․ (سنن ابی دواود، کتاب النکاح، باب مایکرہ من ذکر الرجل ما یکون من اصابتہ اہلہ ۱/۲۹۵، واخرجہ الترمذی فی الادب، باب طیب الرجال ۲/۱۰۷ مختصرا بقصة الطیب، وقال الترمذی: ہذا حدیث حسن الا ان الطفاوی لانعرفہ الا فی ہذا الحدیث، ولا نعرف اسمہ، واخرجہ ابن ابی شیبة فی مصنفہ، کتاب الصلاة، باب فی عقد التسبیح وعدد الحصی ۲/۱۶۳ حدیث: ۷۶۶۰)
”ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ ایک شیخ طُفاوی نے مجھ سے بیان کیا، کہ میں مدینہ منورہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مہمان بنا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو ان سے زیادہ عبادت میں کوشش کرنے والا اور ان سے زیادہ مہمان کی خدمت کرنے والا نہیں دیکھا، اس دوران کہ میں ایک دن ان کے پاس تھا، اور وہ اپنی ایک چارپائی پر تھے، ان کے پاس ایک تھیلی تھی، جس میں کنکریاں یا کھجور کی گٹھلیاں بھری ہوئی تھیں، چارپائی سے نیچے ان کی ایک سیاہ رنگ کی باندی بیٹھی تھی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان کنکریوں یا گٹھلیوں پر تسبیح شمار کرکے پڑھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب تھیلی کی وہ سب کنکریا گٹھلیاں ختم ہوجاتیں، تو وہ اس تھیلی کو اس باندی کی طرف ڈال دیتے، وہ ان کنکریوں یا گٹھلیوں کو جمع کرتی اور پھر تھیلی میں بھرکر ان کو دے دیتی۔ (وہ پھر ان پر تسبیح شروع کردیتے)
(۲) مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
عن ابی سعید انہ کان یأخذ ثلاث حصیات فیضعہن علٰی فخذہ، فیسبّح ویضع واحدة، ثم یسبّح ویضع اخری، ثم یسبّح ویضع اخری، ثم یرفعہن ویصنع مثل ذلک، وقال: لا تسبّحوا بالتسبیح صَفِیرًا․ (المصنف لابن ابی شیبة ۲/۱۶۳ حدیث: ۷۶۵۹)
”حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے، کہ آپ تین کنکر لے کر اپنی ران پر رکھتے تھے، پھر تسبیح پڑھتے اور ایک کنکر رکھتے تھے، پھر دوسری مرتبہ تسبیح پڑھتے اور دوسرا کنکر رکھتے تھے، پھر تیسری مرتبہ تسبیح پڑھتے اور تیسرا کنکر رکھتے تھے، پھر ان سب کنکرکو اٹھاتے، اور دوبارہ اسی طرح کرتے تھے۔ اور آپ فرماتے تھے، کہ تسبیح پڑھنے میں سیٹی نہ بجاؤ۔“ (مراد یہ ہے کہ تسبیح پڑھنے میں اس طرح جلدی نہ کرو کہ مسلسل جلد جلد حرفِ سین کی ادائیگی سے سیٹی کی آواز آئے)
(۳) یونس بن عبید اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں؛ ان کی والدہ نے فرمایا:
رأیت ابا صفیة رجلا من اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قالت: کان جارنا ہہنا، فکان اذا اصبح یسبح بالحصی او النوی․ (الطبقات الکبری لابن سعد ۷/۴۳)
”یونس بن عبید کی والدہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک آدمی حضرت ابوصفیہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا – راویہ فرماتی ہیں کہ وہ یہاں ہمارے پڑوسی تھے – جب صبح ہوتی، تو وہ سنگریزے یا گٹھلیوں پر تسبیح پڑھتے تھے۔
مذکورہ بالا احادیث و آثار سے انگلیوں کے پوروں، کھجور کی گٹھلیوں اور کنکریوں پر تسبیحات و اذکار کا شمار کرنا قولاً یا عملاً یا تقریراً ثابت ہورہا ہے، لہٰذا اس طرح اذکار و تسبیحات کے شمار کرنے کاجواز بلاشبہ قطعی ہے۔ چنانچہ امام ابوداود رحمة اللہ علیہ نے اپنی ”سنن“ میں مستقل ایک باب قائم فرمایا ہے: ”باب التسبیح بالحصی“ (سنن ابی داود، ابواب الوتر ۱/۲۱۰) اسی طرح شیخ محمد بن علی بن محمد الشوکانی رحمة اللہ علیہ نے ”نیل الاوطار“ میں باب قائم فرمایا ہے: ”باب جواز عقد التسبیح بالید وعدّہ بالنوی ونحوہ“ (نیل الاوطار ۲/۳۱۶)
دھاگے دانوں کی مروّجہ تسبیح پر اذکار کا شمار کرنا:
عہدرسالت میں دھاگے دانوں کی مروّجہ تسبیح کا وجود تو نہیں تھا، لیکن ماقبل میں مذکور احادیث و آثار سے انگلیوں کے پوروں، کھجور کی گٹھلیوں اور سنگریزوں پر اذکار کے شمارکرنے کا جواز ثابت ہوگیا، اور یہ بات ظاہر ہے، کہ جو گٹھلی وغیرہ منثور ومنتشر اور متفرق و الگ ہوں، ان سے شمار کرنے میں اور جو گٹھلی اور تسبیح کے دانے وغیرہ منظوم اور دھاگے میں پروئے ہوئے ہوں، ان سے شمار کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ منظوم یعنی مروجہ تسبیح دراصل پہلی صورت ہی کی ترقی یافتہ اور سہل شکل ہے۔جب پہلی صورت کا جواز ثابت ہوگیا، تو دوسری صورت کا جواز بھی نکل آیا۔
علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
والحدیثان الاخران (حدیث سعد بن ابی وقاص الذی اخرجہ ابوداود والترمذی وغیرہما وحدیث صفیة الذی اخرجہ الترمذی والحاکم وصححہ السیوطی) یدلاّن علٰی جواز عدّ التسبیح بالنوی والحصی وکذا بالسبحة لعدم الفارق لتقریرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم للمرأتین علٰی ذلک وعدم انکارہ․ (نیل الاوطار ۲/۳۱۶)
شیخ محمد عبدالرحمن بن عبدالرحیم مبارکپوری رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
ویدلّ علٰی جواز عدّ التسبیح بالنوی والحصی حدیث سعد بن ابی وقاص․․․ وحدیث صفیة ․․․ پھر آگے علامہ شوکانی رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا کلام نقل فرمایا ہے۔ (تحفة الاحوذی بشرح جامع الترمذی ۹/۳۲۲)
حضرت موصوف جب شرح کرتے ہوئے حدیثِ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ پر پہنچے، تو تحریر فرمایا:
وفیہ دلیل علٰی جواز عدّ التسبیح بالنوی والحصی وکذا بالسبحة لعدم الفارق لتقریرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم للمرأة علٰی ذلک وعدم انکارہ ․․․ (تحفة الاحوذی ۱۰/۱۲)
شیخ محمد شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ ”عون المعبود شرح سنن ابی داود“ میں حدیث سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وہذا اصل صحیح لتجویز السبحة بتقریرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فانہ فی معناہا، اذ لا فرق بین المنظومة والمنثورة فیما یعدّبہ، ولا یعتد بقول من عدّہا بدعة․ (عون المعبود ۴/۲۶۹)
”بذل المجہود شرح سنن ابی داود“ میں بعینہ مذکورہ بالا عبارت ہے۔ (بذل المجہود۶/۲۲۹ دارالبشائر الاسلامیہ)
شیخ محمود محمد خطاب السبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومثل النوی فیما ذکر السبحة اذ لا تزید السبحة علٰی ما فی ہذا الحدیث (ای حدیث سعد بن ابی وقاص) الا بضم نحو النوی فی خیط، ومثل ہذا لا یعدّ فارقا․ (المنہل العذب المورود ۸/۱۶۴)
”انوار المحمود علیٰ سنن ابی داود“ میں ہے:
یجوز التسبیح بالانملة والحصی والنوی، ولا فرق بین المنظومة والمنثورة فیما یعدّ بہ، ولا یعتدّ بقول من عدّہا بدعة․․․ وبالجملة فی الحدیث دلیل لتجویز السبحة بتقریر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذ لافرق بین المنظومة والمنثورة․ (انوارالمحمود ۱/۴۶۰،۴۶۱)
علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لم ینقل عن احد من السلف ولا من الخلف المنع من جواز عدّ الذکر بالسبحة؛ بل کان اکثرہم یعدّونہ بہا ولایرون ذلک مکروہا․ (المنحة فی السبحة ص:۶)
مروّجہ تسبیح کے استعمال میں ایک خاص ہدایت اور تنبیہ:
صاحب المنہل نے صاحب المدخل کے حوالہ سے ایک ہدایت و تنبیہ ذکر فرمائی ہے، جو اپنی جگہ بالکل بجا اور درست ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ تسبیح کو قاعدہ میں استعمال کیا جائے، اس کو قلادہ کی طرح گلے میں لٹکانا یا جس طرح خواتین اپنے ہاتھوں میں کنگن استعمال کرتی ہیں، اس طرح تسبیح کوہاتھ پر لپیٹنا اور لوگوں کے ساتھ علمی یا غیر علمی گفتگو کے ساتھ ساتھ اس کو گھماتے رہنا گویا تسبیح بھی پڑھ رہے ہیں اور باتیں بھی ہورہی ہیں، یہ سب ریاء، شہرت طلبی اور بدعت کی باتیں ہیں۔ اسی طرح علامہ علی عدوی کے حوالہ سے مزید بات یہ ذکر فرمائی ہے، کہ معتاد طریقے سے ہٹ کر بہت بڑی بڑی تسبیح بنوانا بھی ریاء اور شہرت طلبی کے امور ہیں، جو بالاتفاق حرام ہے، لہٰذا جو آدمی معتاد طریقے پر تسبیح استعمال کرے، اس کو عجب، ریاء اور شہرت طلبی کے امور سے گریز اختیار کرنا چاہیے۔
قال صاحب المدخل : من البدع الشنیعة التی تصدر من متصوفة ہذا الزمان ما یفعلہ بعضہم من تعلیق السبحة فی عنقہ، و قریب من ہذا ما یفعلہ بعض من ینسب الٰی العلم فیتخذ السبحة فی یدہ کاتخاذ المرأة السوار فی یدہا ویلازمہا وہو مع ذلک یتحدث مع الناس فی مسائل العلم وغیرہا ویرفع یدہ ویحرکہا فی ذراعہ وبعضہم یمسکہا فی یدہ ظاہرة للناس ینقلہا واحدة واحدة کانہ یذکر علیہا وہو یتکلم مع الناس فی القیل والقال وما جری لفلان وما جری علی فلان، ومعلوم انہ لیس لہ الا لسان واحد، فعدّہ علٰی السبحة علی ہذا باطل لما علمت انہ لیس لہ لسان آخر حتی یکون بہذا اللسان یذکر و باللسان الآخر یتکلم فیما یختار، فلم یبق الا ان یکون اتحاذہا علٰی ہذہ الصفة من الشہرة والریاء والبدعة اھ وقد سئل العلامة شیخ المشایخ علی العددی عن اتخاذ السبح (فاجاب) بأن اتخاذ السبح الکبار من خشب او عظم او غیر ذلک حرام یجب التباعد عنہ باتخاذ سبحة من السبح المعتادة ممّا لا یحصل بہا شہرة الا انہ بعد اتخاذہا علی الوجہ المذکور لایکون واضعا لہا فی رقبتہ او نحو ذلک ممّا یقتضی أن حاملہا من اولاد الفقراء فیوٴول امرہ الٰی الریاء المحرم بالاجماع، ویحذر ایضاً ممّا یفعلہ بعض الناس من کونہ یتکلم مع الناس فی اللہو واللعب ویدیر السبحة من أولہا الی آخرہا یوہم انہ یسبح فی تلک الحالة، والحاصل انہ اذا تعاطی السبحة علی الوجہ المعتاد یتباعد عن الامور المقتضیة للشہرة والعجب والریاء، لان ذلک کلہ محبط للعمل․ اہ (المنہل العذب المورود ۸/۱۶۴،۱۶۵)
انگلیوں پرشمار کرنا اولیٰ ہے:
دھاگے دانوں کی مروجہ تسبیح پر اذکار و تسبیحات شمار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جبکہ اس کا استعمال قاعدہ کے مطابق ہو، تاہم اس حیثیت سے کہ انگلیوں کے پوروے قیامت کے دن ان کے ذریعہ اذکار و تسبیحات شمار کرنے والوں کے بارے میں شہادت دیں گے، اور اپنا عمل ظاہر کریں گے، کہ ہم بھی شریک تسبیح رہے تھے، افضل اوراولیٰ یہی ہے کہ اذکار و تسبیحات انگلیوں پر شمار کرنا چاہیے۔ حدیث یُسیرہ رضی اللہ عنہا کے ذیل میں ”المنہل“ میں لکھا ہے:
وفی الحدیث الحث علٰی الذکر والترغیب فی عدّہ علٰی الانامل، لتشہد لہ یوم القیامة، ولتعود برکة الذکر علیہا، وأن العدّ علیہا اولٰی من عدّہ علٰی نحو السبحة․ (المنہل ۸/۱۶۵)
علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
والحدیث الاول (ای حدیث یسیرة) یدلّ علٰی مشروعیة عقد الانامل بالتسبیح ․․․ وقد علّل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم دلک فی حدیث الباب بأن الانامل مسئولات مستنطقات یعنی انہن یشہدن بذلک، فکان عقدہن بالتسبیح من ہذہ الحیثیة اولٰی من السبحة والحصیٰ․ (نیل الاوطار ۲/۳۱۶)
شیخ عبدالرحمن مبارکپوری نے بھی تقریباً یہی بات تحریر فرمائی ہے۔ (تحفة الاحوذی ۹/۳۲۲)
کیا شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ مروّجہ تسبیح کے بدعت ہونے کے قائل تھے؟
بعض حضرات کہتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ مروجہ تسبیح کے بدعت ہونے کے قائل تھے۔ چنانچہ بعض ویب سائٹ پر ”مجموع فتاوی شیخ الاسلام لابن تیمیہ“ کی طرف منسوب کرکے یہ بات لکھی ہوئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مروجہ تسبیح کے سلسلے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے اپنے فتاویٰ میں کل تین مختلف مواقع میں کلام کیاہے۔ دو مقامات میں ضمناً اور ایک مقام میں مستقلاً۔ تینوں فتاویٰ ذیل میں درج کیے جاتے ہیں، تاکہ قارئین کو صحیح صورتِ حال سمجھنے میں آسانی ہو:
(۱) جامع مسجد میں سجادہ بچھاکر اس پر نماز پڑھنا بدعت ہے یا نہیں: اصلاً اس مسئلہ پر کلام کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
وربما تظاہر احدہم بوضع السجادة علٰی منکبہ، واظہار المسابح فی یدہ، وجعلہ من شعار الدین والصلاة، وقد علم بالنقل المتواتر أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم واصحابہ لم یکن ہذا شعارہم، وکانوا یسبحون ویعقدون علٰی اصابعہم، کما جاء فی الحدیث: ﴿اعقدن بالاصابع فانہن مسوٴلات مسنطقات﴾ وربما عقد احدہم التسبیح بحصی او نوی․ والتسبیح بالمسابح من الناس من کرہہ، ومنہم من رخّص فیہ، لکن لم یقل احد: ان التسبیح بہ افضل من التسبیح بالاصابع وغیرہا․ (مجموع الفتاوی قدیم ۲۲/۱۸۷ باب شروط الصلاة)
اس عبارت میں جو لوگ سجادہ کو کندھے پر رکھنے اور ہاتھوں میں تسبیح کے ظاہر کرنے کو شعارِ دین وصلاة میں سے خیال کرتے ہیں، ان کی تردید کی ہے، اذکار کو شمار کرنے کے لیے تسبیح کے استعمال کی تردید نہیں فرمائی ہے؛ بلکہ خود کوئی حکم لگانے کی بجائے دوسروں کے نظریات کو ظاہر فرمایا ہے، کہ بعض نے مکروہ قرار دیا ہے اور بعض نے اجازت دی ہے۔ (تیسرے فتوے میں بھی ان نظریات کو ذکر کیا ہے اور وہاں اپنی رائے کو بھی ذکر فرمایا ہے، جیساکہ آگے آرہا ہے)
(۲) وسئل عمّا اذا قرأ القرآن ویعد فی الصلاة بسبحة ہل تبطل صلاتہ ام لا؟
فاجاب: ان کان المراد بہذا السوٴال أن یعدّ الآیات او یعدّ تکرار السورة الواحدة، مثل قولہ ﴿قل ہو اللّٰہ احد﴾ بالسبحة فہذا لا بأس بہ، وان ارید بالسوٴال شیء آخر فلیبینہ، واللّٰہ اعلم․ (مجموع الفتاوی قدیم ۲۲/۶۲۵ کتاب الصلاة، باب ما یحرم او یکرہ فی الصلاة)
اس فتوی میں اثناءِ صلوة آیاتِ قرآنی کا یا ایک ہی سورة کو بار بار پڑھنے کی صورت میں اس کے اعداد کا مروجہ تسبیح کے ذریعہ شمار کرنے کا جواز بیان کیاہے۔
(۳) وعدّ التسبیح بالاصابع سنة، کما قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم للنساء: ”سبّحن واعقدن بالاصابع فانہن مسئولات مستنطقات․“ واما عدّہ بالنوی والحصی ونحو ذلک فحسن، وکان من الصحابة رضی اللّٰہ عنہم من یفعل ذلک وقد رأی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ام الموٴمنین تسبح بالحصی، واقرہا علٰی ذلک، وروی أن اباہریرة کان یسبح بہ․
واما التسبیح بما یجعل فی نظام من الخرز ونحوہ، فمن الناس من کرہہ، ومنہم من لم یکرہہ، واذا احسنت فیہ النیة فہو حسن غیر مکروہ، واما اتخاذہ من غیر حاجة، او اظہارہ للناس مثل تعلیقہ فی العنق، او جعلہ کالسوار فی الید او نحو ذلک، فہذا اما ریاء للناس او مظنة المراء اة ومشابہة المرائین من غیر حاجة: الاول محرم، والثانی اقل احوالہ الکراہة، فان مراء اة الناس فی العبادات المختصة کالصلوة والصیام والذکر وقرأة القرآن من اعظم الذنوب․․․ (مجموع الفتاویٰ قدیم ۲۲/۵۰۶)
اس فتوی میں انگلیوں سے اذکار و تسبیحات شمار کرنے کو ”سنت“ قرار دیا ہے، اور کھجور کی گٹھلی اور کنکر وغیرہ سے شمار کرنے کو ”حسن“ قرار دیا ہے، اور مروجہ تسبیح کے متعلق ذکر فرمایا، کہ بعض لوگ اس کو مکروہ قرار دیتے ہیں، اور بعض مکروہ قرار نہیں دیتے۔ آگے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اپنی رائے اور نظریہ مذکور ہے، کہ جب اس میں نیت اچھی ہو تو ”حسن اور غیر مکروہ“ ہے، لیکن بلاضرورت تسبیح بنوانا یا گلے میں لٹکانے اور ہاتھ میں کنگن کی طرح لپیٹنے جیسی صورتوں کے ذریعہ لوگوں کے سامنے اس کا اظہار کرنا یا تو ریاء ہے یا مظنہٴ ریاء اور بلاضرورت ریاکاروں کی مشابہت ہے۔ اگر ریاء ہے، تو حرام ہے۔ اوراگر مظنہٴ ریاء اور بلا ضرورت ریاکاروں کی مشابہت ہے، تواس میں کم از کم حکم کراہت کا ہے۔
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے تینوں فتاوی میں سے کسی میں بھی مروجہ تسبیح کے مطلقاً بدعت ہونے کا قول نہیں کیا ہے؛ بلکہ مروجہ تسبیح کے بنانے اور رکھنے میں اگر نیت اچھی ہو، تو اس کو بلا کراہت ”حسن“ قرار دیا ہے۔ (باقی)
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10-11، جلد: 91 ، رمضان-ذی قعد 1428 ہجری مطابق اکتوبر -نومبر2007ء