۱۰/مئی۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کےکچھ بھلادئیے گئے حقائق

ترتیب: ڈاکٹر اجمل فاروقی

۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

۱۸۵۷مولوی احمد اللہ شہید فیض آبادی

مدراس کے رہنے والے مولانا عرصے سے فیض آباد میں رہتے تھے۔ بڑے جاگیردار تھے۔ ان کی جائیداد ضبط کرکے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ عوام نے ودروہ کرکے انہیں جیل سے نکال لیا۔ بریلی، شاہ جہاں پور میں انگریزوں سے لڑے۔ انھوں نے دوبار سرکولن کیمبل کو نیچا دکھایا۔ انگریزوں نے راجا پون سے غداری کراکر انھیں راجا کے ہاتھوں شہید کروایا۔ ہومس نے لکھا کہ ”اگر اس وقت ہندوستان میں کوئی ماہر شاسک تھا تو وہ مولوی صاحب تھے۔ اگر وہ بادشاہ بنتے تو یہ ان کا حق تھا۔ پنڈت سندرلال نے کہا دنیا میں آزادی کے شہیدوں میں ان کا نام ہمیشہ عزت سے لیا جائے گا۔ ان کے علاوہ مولانا امداد اللہ مہاجر مکی، حافظ ضامن شہید، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا عبدالجلیل امام جامع مسجد علی گڑھ، مولوی لیاقت علی الٰہ آبادی، مولانا جعفر تھانیسری، مولانا محمد یحییٰ علی، مولانا شفیع مبالوی، مولانا مملوک علی، مولانا پیر محمد، مولانا سرفراز علی بھی لاکھوں ہندوستانیوں کی اگوائی کررہے تھے جو دیش کی عزت آزادی اور فخر کے لیے جان و مال کی قربانی دے رہے تھے۔

انگریزوں کا ظلم

ڈاکٹر ولیم نے باقی انگریز شاسکوں کی طرح مسلمانوں کو غدر کا ذمہ دار ٹھہراکر انہیں ظلم اور لوٹ پاٹ و تباہی کا نشانا بنایا۔ ۱۵/دنوں میں ۲ لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ داڑھی، لمبا کرتا باغی کی پہچان تھی۔ باغی کا دوسرا نام مسلمان بتایاگیا۔ کل ۵۱ہزار علماء کو شہید کیاگیا۔ (Thomson) تھومسن نے یہ تعداد تین سالوں میں ۱۴ہزار بتائی ہے۔ چاندنی چوک سے خیبرتک کوئی پیڑ ایسا نہ تھا کہ عالم کی لاش نہ لٹکی ہو۔

بادشاہ ظفر کے شہزادوں : مرزا خضر سلطان، مرزا مغل، مرزا ابوبکر اور مرزا عبداللہ کو (Hudson) ہڈسن نے خود گولی ماری اور خون پیا۔ علماء کو بڑے پیمانے پر کالا پانی کی سزا دی گئی۔ جامع مسجد دہلی کو فوج کا اصطبل بنادیا۔ ہزاروں عورتوں نے کنوؤں اور باولیوں میں کود کر عزت بچائی۔ ۱۸۵۷/ سے ۱۸۶۱/ تک تین لاکھ قرآن جلائے گئے تاکہ مسلمانوں میں سے جہاد کا خیال نکالا جاسکے۔ الٰہ آباد، فتح پور، بریلی جہاں بھی انگریزوں نے جیت حاصل کی بستیوں کو جلادیا۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں سب کو مار دیا۔ گھروں کو تباہ کرنا ان کی خاص سزا تھی۔ دہلی میں آج بھی جمنا پل کے پاس سوتنترا سینانی اسمارک میں وہ بوڑھا برگد موجود ہے جس پر ۱۴۰۰ مسلمانوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ اسی پیڑ کے پاس کنوؤں میں اندھیری کوٹھریاں موجود ہیں جس میں مسلمان قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ منشی ذکاء اللہ نے لکھا ہے کہ ۱۸۵۷/ کے بعد ایک انگریز افسر لوگوں کو پوچھتا تھا کہ وہ ہندو ہے کہ مسلمان اور جواب میں مسلمان سنتے ہی گولی ماردیتا تھا۔ لارڈ رابرٹ (Lord Robert) نے اپنی کتاب (41-Years in India) میں لکھا کہ دہلی کی فتح کے بعد انگریزوں نے قتل عام کی منادی کرادی اور سات دنوں تک دہلی جلتی لٹتی رہی۔ ۲۷۰۰۰ مسلمانوں کو عدالتوں نے پھانسی دی اور قتل عام میں جو مارے گئے ان کا کوئی حساب نہیں۔ رڑکی میں سنہرا گاؤں میں برگد کا پیڑ آج بھی موجود ہے جہاں ۲۵۰ ہندوستانیوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ نوح میں نیم کے درخت پر ۵۲ میواتیوں کو اور فیروز پور جھرکا میں املی کے پیڑ پر سیکڑوں متوالوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔ مرادآباد کے نواب مجو خان شہید کی لاش کو ہاتھی کے پیر سے باندھ کر شہر میں گھسیٹا گیا۔ بعد میں چونے کے پانی میں ڈال کر جلایا گیا۔ The other side of the Medal میں Lt.Robertson نے لکھا: ”ہم لوگ پیشاور سے جہلم تک پیدل سفر کرتے ہوئے پہنچے راستے میں کچھ ضروری کام کرتے آئے۔ باغیوں سے اسلحہ چھینا؛ انہیں پھانسی پر لٹکایا۔ تو پ سے اڑانے کا جو طریقہ ہم نے استعمال کیا اس سے ہمارا ڈر لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گیا۔ فوجی عدالت کے حکم سے باغیوں کے سرقلم کردئیے گئے اوریہی پالیسی اس وقت تمام چھاونیوں میں عمل میں لائی جارہی ہے۔“ جھجھر کے نواب عبدالرحمن شہید کو پھانسی دی گئی کیونکہ وہ باغیوں کی مدد کرتے تھے۔ اکبر آبادی مسجد میں شاہ ولی اللہ کا مدرسہ برباد کردیا گیا۔ صرف دہلی میں ایک لاکھ گھر اور مسجدیں زمین سے ملادیں۔

اردو اور آزادی کا سفر

آزادی کی جنگ میں انقلابیوں کے دہلی میں جمع ہونے کے بعد سے وہاں سے تمام ملک کی چھاونیوں اور شہروں کو اردو میں خط لکھ کر ابھارا گیا۔ نانا صاحب، خان بہادر خان، بیگم حضرت محل سب نے اردو میں خط بھیج کر جہاد کے لیے لوگوں کو اکسایا۔ اردو کے اخباروں طلسم لکھنوٴ، صادق الاخبار ، دہلی گزٹ، اردو اخبار دہلی، سراج الاخبار دہلی، اردو معلی دہلی، حبیب الاخبار بدایوں اردو کے لئے فخر کی بات ہے کہ ”دہلی اردو اخبار“ کے ایڈیٹر محمد باقر کو گولی ماری گئی۔ بہادر شاہ ظفر کے نواسے مرزا بیدار بخت نے ”پیامِ آزادی“ کے نام سے رسالہ میں آزادی کا Manifesto چھاپا۔ مرزا بیدار بخت کو انگریزوں نے ان کے جسم پر سور کی چربی مل کر شہید کیا۔ اس اخبار کے ایڈیٹر عظیم اللہ خان تھے۔ انہیں پھانسی دی گئی۔

مآخذ:

(۱)         ۱۸۵۷/ میں پہلی جنگ آزادی میاں محمد شفیع۔

(۲)        تحریک آزادی ہندو اور مسلمان محمد احمد صدیقی۔

(۳)        تاریخی منظر نامہ عطاء الرحمن وجدی۔

(۴)        شبیر احمد عرفان حبیب اخبار خبر دار جدید۔

(۵)        فروزبخت احمد راشٹریہ سہارا اردو، دہلی۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10-11، جلد: 91 ‏، رمضان-ذی قعد 1428 ہجری مطابق اکتوبر -نومبر2007ء

Related Posts