حرفِ آغاز
حبیب الرحمن اعظمی
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی حسبِ ذیل بیان کئے ہیں: (۱) تلاوت آیات (۲) تعلیم کتاب (قرآن) وحکمت (سنت) (۳) تزکیہٴ قلوب۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہ عَلَی الموٴمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیٰتِہ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ الآیة․
(اللہ تعالیٰ نے موٴمنین پر احسان فرمایا کہ ان میں بھیجا ایک رسول انھی میں سے پڑھتا ہے ان پر اس کی آیتیں اورانھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے)
خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے مقصد بعثت کی تشریح ان الفاظ میں کی ہے: ”بُعِثْتُ مُعَلِّمًا“ اور ”بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“ یعنی میں اس لئے بھیجا گیا ہوں تاکہ اللہ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام وفرمان سے باخبر کروں اور انسانوں کو تمام مراتب شرک، معصیت اور نفسانی آلائشوں سے پاک و صاف کرکے انھیں اخلاق و کردار کے بلند مقام پر پہنچادوں۔
قرآن وحدیث کی ان تشریحات سے پتہ چلتا ہے کہ ”اسلام“ اور تعلیم وتزکیہ کی تاریخ ساتھ ساتھ چلتی ہے اسلام کا آغاز ہی تعلیم وتزکیہ کی ابتداء ہے اور ان میں باہم چولی دامن کا ساتھ ہے، اس لئے اسلام بغیر علم و تزکیہ کے ایک جثہ بے روح ہے اور تزکیہ و تعلیم کا تصور بغیر اسلام کے ایک فریب محض ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی تبلیغ و دعوت کے ساتھ تعلیم وتزکیہ کا بھی پوراپورا اہتمام فرماتے تھے، مکہ کی زندگی جہاں مالک حقیقی کا نام لینا ہی سب سے بڑا گناہ اور فکر ورائے کی آزادی سنگین جرم تھا، شرک و کفر اور ظلم و جبر کی اس گھٹی ہوئی فضا میں آپ جہاں ایک طرف چل پھر کر اسلام کی دعوت کا فریضہ انجام دیتے تھے وہیں دوسری طرف دارارقم میں بیٹھ کر مسلمانوں کو کتاب وسنت کی تعلیم اور تزکیہٴ اخلاق کا کام بھی انجام دیتے تھے۔
ہجرت مدینہ کے بعد جب یک گونہ اطمینان نصیب ہوا اور آزادی کا ماحول میسر آیا مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ مسجد سے متصل جانب شمال الگ سے ایک مدرسہ اور تربیت گاہ بھی تعمیر کرائی جو اسلامی تاریخ میں ”صفة المسجد“ اور مختصر لفظوں میں ”صفہ“ کے نام سے معروف و مشہور ہے، یہ اسلام کی اولین اقامتی درسگاہ تھی جہاں طالبانِ علوم و تزکیہ کا ہمہ وقت قیام رہتا تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت سے مستفیض ہوتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرات خلفاء نے اس سلسلے کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس کو مزید آگے بڑھایا بالخصوص خلیفہٴ ثانی حضرت فاروق اعظم نے تو اسے مستقل نظام بنادیا، حکومتی سطح پر اس کوشش کے ساتھ ساتھ حضرات صحابہ بطور خود بھی اپنی اپنی جگہوں پر تعلیم وتربیت اور تزکیہٴ اخلاق کی خدمات انجام دیتے تھے گویا جو صحابی جہاں پہنچ جاتا تھا وہیں ایک مدرسہ اور خانقاہ قائم ہوجاتی تھی، چنانچہ ان حضرات کے تلامذہ یعنی حضرات تابعین حدیث، تفسیر، فقہ اور مغازی و سیر کے امام ہونے کے ساتھ زہد و تقویٰ اور مکارم اخلاق کے بھی پیکر ہوتے تھے، امام حسن بصری، امام محمد بن سیرین، سعید بن المسیب، امام زہری، امام اوزاعی وغیرہ حضرات تابعین کے تذکرے پڑھ کر دیکھ لیجئے ان کا ہر ہرفرد علمی عبقریت کے ساتھ اعمال واخلاق کا مجسمہ ملے گا۔
پھر یہ زریں سلسلہ حضرات تابعین ہی پر ختم نہیں ہوگیا بلکہ تراجم اور تذکروں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چوتھی صدی ہجری تک علماء میں بالعموم یہی جامعیت موجود رہی کہ وہ بیک وقت محدّث، مفسّر، متکلم، ادیب اور مورّخ ہونے کے ساتھ اعلیٰ درجے کے متقی و پارسا اوراصطلاحی الفاظ میں صوفی وشیخ ہوتے تھے، چوتھی صدی کے بعد اس جامعیت میں اضمحلال آنا شروع ہوگیا جو دھیرے دھیرے اس حد تک پہنچ گیا کہ علماء مختلف طبقات میں تقسیم ہوگئے اور ہر طبقہ کسی ایک فن کے ساتھ مخصوص ہوگیا لیکن علم وعمل میں توافق اور یکسانیت پہلے کی طرح قائم رہی، اگر کہیں اس میں تضاد یا کمی نظر آتی ہے تو وہ بالعموم انفرادی اور شخصی حد تک ہے جسے معاشرئہ علماء نے برداشت نہیں کیا اور ایسے شخص کو وہ اپنی جماعت میں شمار نہیں کرتے تھے۔
علم وعمل یا تعلیم وتزکیہ کا یہ باہمی ارتباط اسلامی ہند کے آخری عہد تک قائم رہا چنانچہ مسند ہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا خانوادہ جو اسی آخری دور کی یادگار ہے اس کا ایک ایک فرد علوم و فنون اور سلوک و تصوف کا جامع تھا بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ اس گنج گرانمایہ اور متاع گم گشتہ کو اگلی نسلوں تک پہنچانے میں اس خاندان نے تاریخی کردار ادا کیاہے۔
۱۸۵۷/ (۱۲۷۴ھ) کے سیاسی انقلاب نے مسلمانوں کی قوت وشوکت کے مناروں کے ساتھ ان کے تعلیمی و تربیتی مراکز کو بھی تہہ وبالا کردیا، اس اتھل پتھل کے وقت اسی خانوادئہ ولی اللّٰہی کے چند حاشیہ نشینوں اور فیض یافتوں نے اسلام اور اس کی روایات کی حفاظت کیلئے نہایت خاموشی کے ساتھ ”دیوبند“ جیسے کو ردہ مقام میں ایک ایسے مدرسہ کی بنیاد رکھ دی جو بیک وقت مدرسہ اور خانقاہ دونوں کی ضرورت پوری کرے اور اسلام کے ایسے مبلغ و سپاہی تیار کرے جو ”فی اللیل رہبان، وفی النہار فرسان“ کے نمونہ ہوں، اور حضرات بانیین کے اخلاص نیت کی برکت سے تھوڑی ہی مدت میں یہ قصباتی مدرسہ اسلامیہ ایک عظیم بین الاقوامی دارالعلوم بن گیا اور اسکے علماء و فضلاء کو ایسی مقبولیت ومرجعیت حاصل ہوئی کہ ان کے سامنے کسی کا چراغ روشن نہ رہ سکا، حالانکہ علماء دیوبند کے علاوہ دیگر علمی حلقوں میں ایسے علماء فضلاء کی تعداد خاصی اس وقت موجود تھی جو تبحرعلمی میں علماء دیوبند سے کسی طرح فروتر تھے لیکن علم وعمل یا عالمیت ومشیخت کی وہ جامعیت جو علماء دیوبند کی خصوصیت تھی ان میں یہ حضرات ہمارے علماء کا مقابلہ نہ کرسکے اس لئے پیچھے رہ گئے۔
علم وعمل کی جامعیت ہی ”دارالعلوم دیوبند“ کی وہ خصوصیت ہے جس نے اسے ماضی میں چہار دانگ عالم میں شہرت ومقبولیت سے ہم کنار کیا اورآج بھی اس کی نیک نامی اسی جامعیت پر موقوف ہے، دارالعلوم کا یہ وہ منہاج اور نصب العین ہے جو اسے دیگر علمی اداروں سے ممتاز بناتا ہے، مقام شکر ہے کہ دارالعلوم کی موجودہ انتظامیہ اس بات کو پورے طور پر محسوس کرتی ہے اور اسی جامعیت کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں پوری طرح کوشاں ہے، بایں ہمہ ضرورت ہے کہ اس جانب مزید توجہ دی جائے اور اس سلسلے میں دیگر مسائل کے ساتھ اخلاقی تربیت کے لئے بطور خاص محاضرات کا نظم کیا جائے، ملک و بیرون ملک علماء ومشائخ کی خدمات حاصل کی جائیں تو یہ صورت مناسب حال اور بہت مفید ہوگی، انشاء اللہ، ہمت مرداں مدد خدا۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8، جلد: 91 ، رجب -شعبان 1428 ہجری مطابق اگست2007ء