قادیانیت کا مکروہ چہرہ!(چوتھی قسط)

کینیڈا سے قادیانیوں کے پندرہ سوالات اور ان کا جواب

از: مولانا سعید احمد جلال پوری‏، مدیر ماہنامہ بینات کراچی، پاکستان

سوال:۱۱- ”حضرت محمد نے حلالہ کے قانون میں عورت کو کسی بے جان چیز یا بھیڑ بکری کی طرح استعمال کئے جانے کا طریقہ کار کیوں وضع کیا ہے؟ طلاق مرد دے اور دوبارہ رجوع کرنا چاہے تو عورت پہلے کسی دوسرے آدمی کے نکاح میں دی جائے، وہ دوسرا شخص اس عورت کے ساتھ جنسی عمل سے گزرے، پھر اس دوسرے شخص کی مرضی ہو، وہ طلاق دے تو عورت دوبارہ پہلے آدمی سے نکاح کرسکتی ہے؟ یعنی اس پورے معاملے میں استعمال عورت کا ہی ہوا، مرد کا کچھ بھی نہیں بگڑا، اس میں کیا رمز پوشیدہ ہے؟“

جواب: اگر دیکھا جائے تو قادیانیوں کا یہ اعتراض بھی سراسر بدنیتی اور جہالت پر مبنی ہے، اس لئے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ مروجہ حلالہ کے لئے عارضی نکاح کی آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تعلیم و تلقین نہیں فرمائی، بلکہ اس کی قباحت وشناعت بیان فرمائی ہے، چنانچہ محض پہلے شوہر کے لئے عورت کو حلال کرکے طلاق دینے والے حلالہ کنندہ اور ایسا حلالہ کرانے والے دونوں کو ملعون قرار دیا ہے، جیساکہ حدیث شریف میں ہے:

”عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المحلل والمحلل لہ․“ (مسند احمد،ص:۴۵۰، ج:۱)

ترجمہ: ”اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے لعنت فرمائی ہے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے پر۔“

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تین طلاق دینے کے بعد خاتون اپنے شوہر کے لئے حرام ہوجاتی ہے اور بلا تحلیل شرعی ان دونوں کا آپس میں دوبارہ نکاح اور ملاپ نہیں ہوسکتا، تو یہ قرآن کریم کا مسئلہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے بیان فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

الف: ”الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان․“ (البقرة:۲۲۹)

ترجمہ: ”طلاق رجعی ہے دوبار تک،اس کے بعد رکھ لینا موافق دستور کے یا چھوڑ دینا بھلی طرح سے۔“

ب: ”فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ․“ (البقرہ:۲۳۰)

ترجمہ: ”پھر اگر اس عورت کو طلاق یعنی تیسری بار، تو اب حلال نہیں اس کو وہ عورت اس کے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے اس کے سوا۔“

دراصل اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے نکاح کے اس بندھن کے توڑنے کے حق میں نہیں ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ ایک ہنستا بستا گھرانا طلاق کی وجہ سے اجڑ جائے۔ اسلئے طلاق اگرچہ مباح ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں مباح و جائز چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض و ناپسندیدہ ہے۔ اسلئے اس بندھن کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے تین طلاق کو آخری حد قرار دیا ہے، جبکہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد نکاح ثانی کے بغیر مرد کے دوبارہ رجوع کرنے کے حق کو برقرار رکھا گیا، لیکن اگرکوئی انتہاپسند اپنی عجلت پسندی اور حماقت سے اس حد کو بھی پار کرجائے تواس پر کوئی تعزیر اور تازیانہ ضرور ہونا چاہئے اور وہ تعزیر وتازیانہ یہ مقرر فرمایا کہ تم نے چونکہ اپنی بیوی کو بے قدر چیز اور نکاح کو کھیل بنارکھا تھا، اسلئے تیسری طلاق کے بعد اب تمہارا اس عورت پر کسی قسم کا کوئی حق نہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیسری طلاق کی حد پار کرنے والے پر جب تعزیر وتازیانہ کے طور پر اس کی بیوی کو اس پر حرام قرار دے دیاگیا، تو دوسرے نکاح کے بعد وہ عورت اس کے لئے حلال کیوں قرار دے دی گئی؟ اس سلسلہ میں حافظ ابن قیم نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ”اعلام الموقعین“ میں اس کی نہایت خوبصورت حکمت وعلت بیان فرمائی ہے، چنانچہ حافظ ابن قیم لکھتے ہیں:

”تین طلاق کے بعد مرد پر عورت کے حرام ہونے اور دوسرے نکاح کے بعد پھر پہلے مرد پر جائز ہونے کی حکمت کو وہی جانتا ہے جس کو اسرار شریعت اور مصالح کلیہ الٰہیہ سے واقفیت ہو، پس واضح ہو کہ اس امر میں شریعتیں بحسب مصالح ہرزمانہ اور ہر امت کے لئے مختلف رہی ہیں۔ شریعت تورات نے طلاق کے بعد جب تک عورت دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے، پہلے مرد کا رجوع اس کے ساتھ جائز رکھا تھا اور جب وہ دوسرے شخص سے نکاح کرلیتی، تو پہلے شخص کو اس عورت سے کسی صورت میں رجوع جائز نہ تھا۔ اس امر میں جو حکمت و مصلحت الٰہی ہے، ظاہر ہے، کیونکہ جب مرد جانے گا کہ اگر میں نے عورت کو طلاق دیدی تواس کو پھر اپنا اختیار ہوجائے گا، اور اس کے لئے دوسرا نکاح کرنا بھی جائز ہوجائے گا اور پھر جب اس نے دوسرا نکاح کرلیا تو مجھ پر ہمیشہ کے لئے یہ عورت حرام ہوجائے گی۔ تو ان امور خاصہ کے تصور سے مرد کا عورت سے تعلق و تمسک پختہ ہوتا تھا، اور عورت کی جدائی کو ناگوار جانتا تھا۔ شرعیت تورات بحسب حال مزاج امت موسوی نازل ہوئی تھی، کیونکہ تشدد اور غصہ اور اس پر اصرار کرنا ان میں بہت تھا۔ پھر شریعت انجیلی آئی تواس نے نکاح کے بعد طلاق کا دروازہ بالکل بند کردیا۔ جب مرد کسی عورت سے نکاح کرلیتا تواس کے لئے عورت کو طلاق دیناہرگز جائز نہ تھا۔

پھر شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم  آسمان سے نازل ہوئی جو کہ سب شریعتوں سے اکمل، افضل، اعلیٰ اور پختہ تر ہے اورانسانوں کے مصالح، معاش و معاد کے زیادہ مناسب اور عقل کے زیادہ موافق ہے، خدا تعالیٰ نے اس امت کا دین کامل اور ان پر اپنی نعمت پوری کی، اور طیبات میں سے اس امت کے لئے بعض وہ چیزیں حلال ٹھہرائیں جو کسی امت کے لئے حلال نہیں تھیں، چنانچہ مرد کے لئے جائز ہوا کہ بحسب ضرورت چار عورت تک سے نکاح کرسکے، پھر اگر مرد و عورت میں نہ بنے تو مرد کو اجازت دی کہ اس کو طلاق دے کر دوسری عورت سے نکاح کرلے، کیونکہ جب پہلی عورت موافق طبع نہ ہو یا اس سے کوئی فساد واقع ہو اور وہ اس سے باز نہ آئے تو شریعت اسلامیہ نے ایسی عورت کو مرد کے ہاتھ اور پاؤں اور گردن کی زنجیر بناکر اس میں جکڑنا اور اس کی کمر توڑنے والا بوجھ بنانا تجویز نہیں کیا اور نہ اس دنیا میں مرد کے ساتھ ایسی عورت کو رکھ کراس کی دنیا کو دوزخ بنانا چاہا ہے۔

لہٰذا خدا تعالیٰ نے ایسی عورت کی جدائی مشروع فرمائی اور وہ جدائی بھی اس طرح مشروع فرمائی کہ مرد، عورت کو ایک طلاق دے، پھر عورت تین طہر یا تین ماہ تک اس مرد کے رجوع کا انتظار کرے، تاکہ اگر عورت سدھر جائے اور شرارت سے باز آجائے اور مرد کو اس عورت کی خواہش ہوجائے یعنی خدائے مصرف القلوب عورت کی طرف مرد کے دل کو راغب کردے تو مرد کو عورت کی طرف رجوع کرنے کا دروازہ بھی مفتوح رہے، تاکہ مرد عورت سے رجوع کرسکے اورجس امر کو غصہ اور شیطانی جوش نے اس کے ہاتھ سے نکال دیا تھا، اس کو مل سکے اور چونکہ ایک طلاق کے بعد پھر بھی جانبین کی طبعی غلبات اور شیطانی چھیڑ چھاڑ کا اعادہ ممکن تھا، اس لئے دوسری طلاق مدت مذکورہ کے اندر مشروع ہوئی، تاکہ عورت بار بار کی طلاق کی تلخی کا ذائقہ چکھ کر اور خرابی خانہ کو دیکھ کر دوبارہ اس قبیحہ کا اعادہ نہ کرے جس سے اس کے خاوند کو غصہ آوے اور اس کے لئے جدائی کا باعث ہو اور مرد بھی عورت کی جدائی محسوس کرکے عورت کو طلاق نہ دے۔

اور جب اس طرح تیسری طلاق کی نوبت آپہنچے، تو اب یہ وہ طلاق ہے جس کے بعد خدا کا یہ حکم ہے کہ اس مرد کا رجوع اس عورت مطلقہ ثلاثہ سے نہیں ہوسکتا، اس لئے جانبین کو کہا جاتا ہے کہ پہلی اور دوسری طلاق تک تمہارا آپس میں رجوع ممکن تھا، اب تیسری طلاق کے بعد رجوع نہ ہوسکے گا، تواس قانون کے مقرر ہونے سے وہ دونوں سدھر جائیں گے، کیونکہ جب مرد کو یہ تصور ہوگا کہ تیسری طلاق اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان بالکل جدائی ڈالنے والی ہے، تو وہ طلاق دینے سے باز رہے گا، کیونکہ جب اس کو اس بات کا علم ہوگا کہ اب تیسری طلاق کے بعد یہ عورت مجھ پر دوسرے شخص کے شرعی، معروف اور مشہور نکاح اوراس کی طلاق و عدت کے بغیر حلال نہ ہوسکے گی اور دوسرے شخص کے نکاح سے عورت کا علیحدہ ہونا بھی یقینی نہیں، پھر دوسرے نکاح کے بعد بھی جب تک دوسرا خاوند اس کے ساتھ دخول نہ کرلے، پھر اس کے بعد یا تو وہ مرجائے یا برضا ورغبت خود اُسے طلاق دیدے اور وہ عورت عدت نہ گزارلے، تب تک وہ اس کی طرف رجوع نہ کرسکے گا، تو اس وقت مرد کو اس رجوع کی ناامیدی کے خیال سے اوراس احساس سے ایک دور اندیشی پیدا ہوگی اور وہ خدا تعالیٰ کی ناپسندیدہ ترین مباح یعنی طلاق دینے سے باز رہے گا، اسی طرح جب عورت کو اس عدم رجوع کی واقفیت ہوگی تو اس کے اخلاق بھی درست رہیں گے اوراس سے ان کی آپس میں اصلاح ہوسکے گی، اور اس نکاح ثانی کے متعلق نبی علیہ السلام نے اس طرح تاکید فرمائی کہ وہ نکاح ہمیشہ کیلئے ہو، پس اگر دوسرا شخص اس عورت سے اپنے پاس ہمیشہ رکھنے کے ارادہ سے نکاح نہ کرے بلکہ خاص حلالہ ہی کیلئے کرے تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے اور جب پہلا شخص اس قسم کے حلالہ کیلئے کسی کو رضامند کرے تو اس پر بھی لعنت فرمائی ہے۔

تو شرعی حلالہ وہ ہے کہ جس میں خود ایسے اسباب پیدا ہوجائیں کہ جس طرح پہلے خاوند نے اتفاقاً عورت کو طلاق دی تھی، اسی طرح دوسرا بھی طلاق دے یا مرجائے تو عورت کا عدت کے بعد پہلے خاوند کی طرف بلاکراہت رجوع درست ہے۔

پس اتنی سخت رکاوٹوں کے بعد پہلے خاوند کی طرف رجوع کے جواز کی وجہ مذکورہ بالا تفصیلات سے ظاہر و باہر ہے کہ اس میں عورت اور نکاح کی عزت و عظمت اور نعمت الٰہی کے شکر، نکاح کے دوام اور اس تعلق کے نہ ٹوٹنے کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے، کیونکہ جب خاوند کو عورت کی جدائی سے اس کے دوبارہ ملاپ کے درمیان اتنی ساری رکاوٹیں حائل ہوتی محسوس ہوں گی تو وہ تیسری طلاق تک نوبت نہیں پہنچائے گا۔“ (بحوالہ احکام اسلام عقل کی نظر میں از حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

رہی یہ بات کہ اس سلسلہ میں عورت ہی کو ان تمام مراحل سے کیوں گزاراگیا؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ شوہر ثانی سے نکاح کی شرط میں شوہر اول کو اس مفارقت و جدائی کا مزہ چکھانا مقصود ہے اور یہ بتلانا مقصود ہے کہ بلا کسی ضرورت ومصلحت اور سوچے سمجھے طلاق دینے اور اپنے نفس کی خواہش سے مغلوب ہوکر اپنی بیوی کو علیحدہ کرنے کا یہ عذاب ہے، کیونکہ کوئی باغیرت مرد اس قدر اپنی تذلیل کو برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کے کسی غلط عمل کی وجہ سے اس کی بیوی دوسرے مرد سے نکاح کرے، اس کے بستر کی زینت بنے اور پھر وہ دوبارہ اس کے نکاح میں آئے۔

دیکھا جائے تو اس میں بھی اس خاتون کی عزت و تکریم کا لحاظ رکھا گیا ہے، اس لئے کہ طلاق دہندہ مرد کو باور کرایا جارہا ہے کہ جس کو تم نے بے قدر سمجھا تھا، وہ ایسی بے قدر نہیں ہے، بلکہ وہ تو کسی دوسرے مرد سے نکاح کرکے باعزت زندگی گزار سکتی ہے، لیکن جب دوسرا شوہر اپنی مرضی سے اس کو طلاق دے دے یا وہ مرجائے اور پھر پہلا شوہر اس سے نکاح کی رغبت کرے گا تو آئندہ وہ اس عورت کی پہلے جیسی ناقدری نہیں کرے گا، بلکہ وہ اسے عزت و عظمت کا مقام دے گا۔ اب بتلایا جائے کہ اس میں مرد کی توہین و تذلیل زیادہ ہے یا عورت کی؟

افسوس !!! کہ اس فطری مسئلہ پر اعتراض وہی لوگ کرتے ہیں جن کے ہاں عورت محض شہوت رانی کا ایک ذریعہ ہے، اور وہ اسے کسی شمع محفل اور داشتہ سے زیادہ حیثیت دینے کے روادار نہیں۔ قادیانیوں کی طرف سے یہ سوال دراصل اپنے آباؤاجداد یورپی مستشرقین سے مرعوبیت اور ان کی ہم نوائی کا شاخسانہ ہے اور بس!

سوال:۱۲- ”حضرت محمد نے قصاص و دیت کا قانون کیوں وضع کیا؟ مثال کے طور پر اگر میں قتل کردیا جاتا ہوں، اور میرے اپنی بیوی یا بہن بھائیوں سے اختلافات ہیں تو لازماً ان کی پہلی کوشش یہی ہوگی کہ میرے بدلے میں زیادہ سے زیادہ خون بہا لے کر میرے قاتل سے صلح کرلیں اور باقی عمر عیش کریں، میں تو اپنی جان سے گیا، میرے قاتل کو پیسوں کے عوض یا اس کے بغیر معاف کرنے کا حق کسی اور کو کیوں تفویض کیاگیا؟ کیا اس طرح سزا سے بچ جانے پر قاتل کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی؟ کیا پیسے کے بل بوتے پر وہ مزید قتال کے لئے اس معاشرے میں آزاد نہیں ہوگا؟ پچھلے دنوں سعودی عرب میں ایک شیخ، ایک پاکستانی کو قتل کرکے سزا سے بچ گیا، کیونکہ مقتول کے اہل خانہ نے کافی دینار لے کر قاتل کو معاف کردیا تھا۔ اس قانون کے نتیجے میں صرف وہ قاتل سزا پاتا ہے،جس کے پاس قصاص کے نام پر دینے کو کچھ نہ ہو۔ پاکستان ہی کی مثال لے لیں، قیام سے لے کر اب تک، باحیثیت افراد میں سے صرف گنتی کے چند اشخاص کو قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا ملی ، وہ بھی اس وجہ سے کہ مقتول کے ورثا قاتل کی نسبت کہیں زیادہ دولت مند تھے۔ لہٰذا انھوں نے خون بہا کی پیشکش ٹھکرادی۔ اس قانون کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ جب کوئی باحیثیت شخص کسی کا قتل کردیتا ہے تو قاتل کے اہل و عیال و رشتہ دار مقتول کے ورثا پر طرح طرح سے دباؤ ڈالتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں، جس پر ورثا قاتل کو معاف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیا حضرت محمد نے اس قانون کو وضع کرکے ایک امیر شخص کو براہ راست ”قتل کا لائسنس“ جاری نہیں کیا؟“

جواب: اس سوال کے جواب سے پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ کسی انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کے قتل ہوجانے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ کسی نے جان بوجھ کر کسی کو جان سے ماردیا، دوم یہ کہ وہ کسی شکار وغیرہ کو مارنا چاہتا تھا، مگر غلطی سے اس کے نشانہ پر کوئی انسان آگیا، اور وہ مرگیا، یا اس نے سمجھا کہ سامنے والا ہیولا اور شبیہ کسی جنگلی جانور یا شکار کی ہے، مگر اتفاق سے وہ کوئی انسان تھا جو شکاری کی گولی کا نشانہ بن کر مرگیا، پہلی صورت کو قتل عمل کہتے ہیں جس کی سزا قصاص ہے، اور دوسری صورت قتل خطا کی ہے اوراس کی سزا دیت اور خوں بہا ہے، قتل عمد میں اگر مقتول کے وارث قصاص لینے کی بجائے فی سبیل اللہ، یا خوں بہا لے کر قاتل کی جان بخشی کرنا چاہیں تو شریعت نے ان کو اختیار دیا ہے․․․ مگر اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ اگر بالفرض قاتل، قصاص سے بچ جائے تو حکومت بھی اس کو اس کی اس درندگی پر کوئی سزا نہ دے، یا اس کی درندگی کی روک تھام کے لئے اسے کسی مناسب تعزیر سے بھی بری قرار دے دے ․․․ یہی وہ صورت ہے جس پر قادیانیوں کو اعتراض ہے۔

مگر افسوس! کہ ان کا اعتراض کسی واقعی اور عقلی شبہ کی بناپر نہیں ہے؛ بلکہ محض اپنے یورپی آقاؤں اور عیسائی محسنوں کی ہم نوائی اور خوشنودی حاصل کرنے کی ناکام کوشش ہے۔

اس لئے کہ قانون دیت و قصاص، جو دراصل قتل وغارت گری کے سدباب کا بہترین وموثر ذریعہ ہے، اس میں محض فرضی احتمالات کے ذریعے کیڑے نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اگر بہ نظر انصاف دیکھاجائے تو قصاص و دیت کے اس قانون کے نفاذ اور اس پر عمل درآمد کی صورت میں کسی طالع آزما کو کسی معصوم کی جان سے کھیلنے کی جرأت نہیں ہوسکتی۔

اس لئے کہ اگر گواہوں سے یہ ثابت ہوجائے کہ قاتل نے جان بوجھ کر اس جرم کا ارتکاب کیاہے تو اس کو قصاصاً قتل کیا جائے گا، اوراگر کوئی قاتل اپنے اس جرم کی وجہ سے کیفر کردار کو پہنچ جائے تواس سے پورے معاشرہ کو قتل و غارت گری سے نجات مل جائے گی اورآئندہ کسی قاتل کو اس گھناؤنے جرم کے ارتکاب سے پہلے سوبار سوچنا ہوگا کہ میں جو کام کرنے جارہا ہوں، اس کی سزا میں ، میں خود بھی اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھوں گا، لہٰذا اس جرم کے ارتکاب کا معنی یہ ہے کہ میں اپنی موت کے پروانہ پر دستخط کرنے جارہا ہوں، اسی کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا ہے:

”ولکم فی القصاص حیاة یا اولی الالباب“․ (البقرة:۱۷۹)

ترجمہ: ”اور تمہارے واسطے قصاص میں بڑی زندگی ہے، اے عقلمندو!“

لیکن اگر قتل کی کسی واردات میں شواہد، قرائن اور گواہوں سے ثابت ہوجائے کہ واقعی، قاتل نے عمداً اس جرم کا ارتکاب نہیں کیا، تو اس صورت میں قاتل کو قصاصاً قتل تو نہیں کیا جائے گا، مگر چونکہ قاتل کی ہی غلطی سے مقتول کی جان ضائع ہوئی ہے، اس لئے بطور سزا اس پر یہ تاوان رکھا گیا ہے کہ مقتول کے ورثا کی اشک شوئی کے طور پر وہ مقتول کے وارثوں کو ایک انسانی جان کی قیمت: سو اونٹ یا ان کی قیمت ادا کرے گا، مثلاً : آج اگر ایک اونٹ کی قیمت ۲۵/ ہزار روپے ہے تو سو اونٹ کی قیمت ۲۵ لاکھ روپے ہوگی، بھلا جو شخص ایک بار اپنی غلطی کی سزا ۲۵ لاکھ کی ادائیگی کی شکل میں بھگت لے گا، وہ آئندہ کتنا محتاط ہوجائے گا؟ اوراس کی نگاہ میں انسانی جان کی کتنی قدر و قیمت ہوگی؟

پھر چونکہ کسی مسلمان کا قتل معاشرہ کا انتہائی گھناؤنا جرم ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بہت ہی مبغوض وناپسندیدہ ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

”ومن یقتل مومناً متعمدًا فجزآوٴہ جہنم خالدًا فیہا․“ (النساء:۹۳)

ترجمہ: ”اورجو کوئی قتل کرے مسلمان کو جان کر تو اس کی سزا دوزخ ہے، پڑا رہے گا اسی میں۔“

اگرچہ جمہور علمائے امت اس کے قائل ہیں کہ کفر وشرک کے علاوہ ہر جرم معاف ہوسکتا ہے اور کسی جرم کی سزا ہمیشہ کے لئے جہنم کی شکل میں نہیں ہوگی، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ”اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرمائیں گے، اس کے علاوہ جسے چاہیں گے معاف فرمادیں گے۔“ (النساء:۴۸)

مگر بہرحال اتنا تو ضرور ہے کہ ایسا شخص اگر بغیر توبہ کے مرگیا تواسے کافی عرصہ تک جہنم میں جلنا ہوگا، اور ”خالدًا فیہا“ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ایک عرصہ تک اسے جہنم کی سزا سے دوچار ہونا پڑے گا۔

اس لئے حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قاتل کا قصاصاً قتل ہوجانا یا دیت کا ادا کردینا اس کی آخرت کی سزا کابدل نہیں ہے، لہٰذا اس کو ان دنیاوی سزاؤں کا سامنا کرنے کے بعد آخرت کی سزا سے بچنے کے لئے خلوص و اخلاص اور صدق دل سے توبہ بھی کرنا ہوگی، ورنہ اسے آخرت کی سزا کا بہرحال سامنا کرنا ہوگا۔

مگر چونکہ قتل کے جرم میں حق اللہ کے ساتھ حق عبد بھی شامل ہے، اس لئے دنیاوی طور پر اس حق عبد کی وصولی کا اختیارمقتول کے ورثا کو ہی حاصل ہے، اگر وہ دعویٰ کریں گے تو شریعت ان کو ان کا حق دلائے گی اوراگر وہ اپنے اس حق سے دستبردار ہونا چاہیں، تو عقل و دیانت اور دین و شریعت انہیں اپنے اس حق کی وصولی پر مجبور بھی نہیں کرے گی، بلکہ مہذب دنیا کے کسی قانون میں یہ بات شامل نہیں کہ کوئی آدمی اپنے حق سے دستبردار ہونا چاہے اور قانون اسے دستبردار نہ ہونے دے۔

لہٰذا قادیانیوں اور ان کے ولیانِ نعمت عیسائیوں اور یورپ کے مستشرقین کی جانب سے یہ خدشہ پیش کرکے اس قانون دیت و قصاص پر اعتراض کرنا کہ: ”اگر مقتول کے وارثوں کی مقتول سے لڑائی اور اختلاف ہو تو ان کی پہلی کوشش ہوگی کہ مقتول کے قتل کے بدلے زیادہ سے زیادہ خون بہا لے کر صلح کرلیں اور زندگی بھر مزے کریں“ نہایت سفاہت و دنائت پر مشتمل ہے۔

اس لئے کہ اگرمحض ان مفروضوں کی بنا پر کسی قانون کو مورد الزام ٹھہراکر اس کی افادیت کا انکار کیا جائے، تو بتلایا جائے کہ کون سا قانون اس سے مستثنیٰ ہوسکتا ہے؟

اگر ایسا ہوتو کیا دنیا میں کہیں عدل و انصاف اور جرم وسزا کا قانون روبہ عمل ہوگا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو بتلایا جائے کہ کون سی عدالت، کون سا جج، کون سا وکیل، کون سی عدلیہ بلکہ ملک کا صدر، وزیراعظم یا بڑے سے بڑا عہدیدار اس بدگمانی سے مستثنیٰ یا محفوظ رہ سکتا ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں، تو پھر دنیا میں جرم وسزا کا قانون کیونکر نافذ ہوسکے گا؟ کیا دنیامیں کہیں عدل و انصاف کا وجود ہوگا؟

قادیانیو! ذرا عقل و ہوش کے ناخن لو! اور اپنے یورپی محسنوں کی اندھی تقلید میں اسلام، پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایسے لچر اعتراض نہ کرو کہ خود دنیائے کفر بھی تمہارے منھ پر تھوکنے پرمجبور ہوجائے۔

سوال:۱۳- ”اور اسی طرح کے بے شمار سوالات میرے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ان کے بارے میں پوچھنا توہین رسالت کے زمرے میںآ تاہے؟“

جواب: اس سوال کا جواب سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح پوری مہذب دنیاکا اصول ہے کہ جب تک کسی شخص کا زبان، بیان، اشارے کنائے اور شواہد و قرائن سے مجرم ہونا ثابت نہ ہوجائے، اس وقت تک وہ کسی سزا کا مستوجب نہیں ٹھہرتا، ٹھیک اسی طرح دین اسلام کا بھی یہی اصول ہے کہ جب تک کسی شخص کی گستاخی اور جرم قول، فعل، زبان، بیان، اشارے کنائے اور عمل کا روپ نہ دھار لے، اس وقت تک اسے مجرم باور نہیں کیا جائے گا، چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ:

”․․․ انا نجد فی انفسنا ما یتعاظم احدنا ان یتکلم بہ قال اوقد وجدتموہ قالوا نعم قال ذاک صریح الایمان․“ (مشکوٰة: ۱۸، بحوالہ صحیح مسلم)

یا رسول اللہ! ایسے ایسے بُرے خیالات آتے ہیں کہ گردن کٹانا تو گوارا ہے، مگر ان کا زبان پر لانا برداشت نہیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: یہی تو ایمان ہے۔ یعنی اگر بلااختیار دل میں ایسے خیالات آئیں اور ان کو زبان پر نہ لایا جائے تو نہ تو وہ جرم ہیں اور نہ ہی توہین رسالت کے زمرے میں آئیں گے۔

اس تمہید کے بعد اب سمجھئے! کہ جب تک سائل کے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات نے زبان و بیان کے اظہار کی شکل اختیار نہیں کی تھی، وہ کسی جرم کے دائرے میں نہیں آتے تھے، مگر اب جب کہ سائل نے نہایت توہین و تنقیص کے انداز میں ان خیالات کو اظہار کا جامہ پہناکر، ان کے ذریعہ اسلام اور پیغمبراسلام  صلی اللہ علیہ وسلم  کو تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے تو بلاشبہ یہ انداز توہین رسالت کے زمرے میں آئے گا، جس کا واضح قرینہ سائل کا توہین وتنقیص پر مبنی اگلا چودھواں سوال ہے، جس میں اس نے اس کا برملا اظہار کیاہے کہ:

”حضرت محمد جب ایک رات میں ساتوں آسمانوں کی سیر کرسکتے ہیں، چاند کو دو ٹکڑے کرسکتے ہیں، اتنے بڑے مذہب کے بانی اور خدا کے سب سے قریبی نبی ہیں تو کیا وہ مجھے ان سوالات کی پاداش میں مناسب سزا نہیں دے سکتے؟“

گویا سائل نے نہایت جرأت، ڈھٹائی، بے باکی اور گستاخی کے انداز میں، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے معجزہ معراج، شق قمر، خدا تعالیٰ کے قرب اور اسلام کے بانی ہونے کا صاف انکار کیاہے، اس کے علاوہ سائل نے تضحیک کے انداز میں اپنی اس گستاخی پر براہ راست آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سزا پانے کا مطالبہ کرکے گویا یہ باور کرانے کی ناپاک کوشش کی ہے کہ اس گستاخی پر تم تو کیا تمہارے جلیل القدر نبی بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بتلایاجائے کہ یہ گستاخی اور توہین رسالت کے زمرے میں کیونکر نہیں آئے گا؟ شاید سائل اور اس کے ہم نواؤں کو ہماری گزارشات یوں سمجھ نہ آئیں، تو ہم ان کو یہ معاملہ ایک مثال سے سمجھائے دیتے ہیں مثلاً یہ کہ:

اگر کوئی شخص صدر پاکستان جناب جنرل پرویز مشرف صاحب کے بارے میں کہے کہ: اس نے فلاں کام غلط کیا؟ فلاں معاملہ اس کا درست نہیں تھا، اس نے اقربا پروری سے کام لیا، اس نے اپنے مفادات کی خاطر اور اپنے اقتدار ومقبولیت کی خاطر یہ غلط کام کئے، اور پھر آخر میں یہ کہے کہ اس قسم کے سوالات میرے ذہن میںآ تے ہیں، کیا ان کا زبان پر لانا صدر کی توہین کے زمرے میں آئے گا؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو صدر صاحب اتنے بڑے عہدے کے حامل ہیں اور حاضر سروس جنرل اور پاکستان کے صدر بھی ہیں، تو کیا وہ مجھے ان سوالات و اشکالات کی پاداش میں مناسب سزا نہیں دے سکتے؟ بتلایاجائے کہ کسی منچلے کا ایسا انداز صدر کی گستاخی میں آئیگا یا نہیں؟

سوال: ۱۴- ”جو حضرات ”ہاں“ کہیں گے، ان سے صرف یہی عرض کرسکتا ہوں کہ حضرت محمد جب ایک رات میں ساتوں آسمانوں کی سیر کرسکتے ہیں، چاند کو دو ٹکڑے کرسکتے ہیں، اتنے بڑے مذہب کے بانی اور خدا کے سب سے قریبی نبی ہیں تو کیا وہ خود مجھے ان سوالات کی پاداش میں مناسب سزا نہیں دے سکتے؟ اگر ہاں! تو اے میرے مسلمان بھائیو! مجھ پراور میری طرح کے دیگرانسان مسلمانوں پر رحم کرو اور حضرت محمد کو موقع دو، کہ وہ خود ہی ہمارے لئے کچھ نہ کچھ مناسب سزا تجویز فرمادیں گے۔“

جواب: جیسا کہ تیرھویں سوال کے جواب میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ سائل کا یہ سوال اور سوال کا انداز! نہایت گستاخی، بے ادبی اور ڈھٹائی پرمشتمل ہے،اور یہ بلاشبہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایذا رسانی کے زمرے میں آتا ہے، اور جو لوگ اللہ تعالیٰ اورآنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایذا رسانی کا باعث ہوں، ان پر دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ (الاحزاب:۵۷)

سائل کا یہ کہنا کہ: ”میرے مسلمان بھائیو! مجھ پر اور دیگرانسانوں پر رحم کرو اور حضرت محمد کو موقع دو کہ وہ خود ہمارے لئے مناسب سزا تجویزکریں“ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی گستاخ، کسی ملک کے سربراہ یا صدر کی بدترین گستاخی کاارتکاب کرے اور وہاں کی انتظامیہ اور پولیس سے کہے کہ مجھ پر رحم کرو اور ملک کے صدر یا سربراہ کو موقع دو کہ وہ میرے لئے کوئی مناسب سزا تجویز کرے۔ کیاخیال ہے اس ملک کی انتظامیہ اور پولیس اس کا راستہ چھوڑ دے گی یا یہ کہہ کر اسے کیفرکردار تک پہنچائے گی کہ اس گستاخی کی سزا صدر یا سربراہ مملکت نہیں بلکہ ملکی قانون و دستور کی روشنی میں ہم ہی نافذ کریں گے؟

بتلایا جائے کہ امریکا بہادر کے نام نہاد ”مسلمان باغیوں“ کو افغانستان و عراق سے پکڑ کر اور گوانتاناموبے لے کر ان کی اس ”گستاخی“ کی سزا صدر بش خود دے رہے ہیں یا اس کے آلہٴ کار؟

بلا شبہ توہین رسالت کا قانون آج سے چودہ سو سال پہلے مرتب ہوچکا ہے اور گزشتہ چودہ صدیوں سے اس پر عمل ہوتا آرہا ہے اور پاکستان میں بھی ۱۹۸۴/ کے ایک صدارتی آرڈی نینس کے ذریعہ اس کا نفاذ ہوچکا ہے، لہٰذا اس گستاخ سائل سے ہم کہنا چاہیں گے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی جگہ آپ کے خدام ہی تمہاری خدمت کے لئے موجود ہیں، اپنے شیش محل سے نکل کر سامنے آکر گستاخی کیجئے! اور اپنا تماشا دیکھئے!!!

سوال: ۱۵- ”یا درکھو! ایک مسلمان کا خون دوسرے پر حرام ہے اور کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ ایک مسلمان کو صرف اس کی سوچ اور عقائد کی بنا پر کافر قرار دیدے۔ یہ تو تھا اسلامی فرمان، اب ایک انسانی فرمان بھی سن لیں کہ ”دنیا کے کسی بھی مذہب سے کہیں زیادہ انسانی جان قیمتی ہے۔“ وماالینا الا البلاغ“۔ (نقل مطابق اصل․․․ ناقل)

جواب: جی ہاں! ایک مسلمان کا خود دوسرے مسلمان پر حرام ہے اوراسلام نے ہی اس کی تعلیم دی ہے اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کرے، قرآن کریم نے اس پر سخت وعید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اورجو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر اور ناحق قتل کرے، اسے ہمیشہ (یعنی طویل عرصہ) کے لئے جہنم میں جلناہوگا۔“ رہی یہ بات کہ کسی کو اس کی سوچ اور عقائدکی بنا پر کافر قرار دینے کا کسی کو حق نہیں، تو قادیانیوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی مخالفت کرنے والوں کو کافر، پکا کافراور دائرہ اسلام سے خارج کیوں قرار دیا؟ اسی طرح خود مرزا جی نے اپنے مخالفین کو جنگل کے سور اور ان کی بیویوں کو کنجریوں کا خطاب کیوں دیا؟ اسی طرح اپنے نہ ماننے والوں کو جہنمی کے ”اعزاز“ سے کیوں سرفراز فرمایا؟ اگر مرزائیوں کے مخالف مسلمان، سوچ اور عقائد کے اختلاف کی بنا پر کافر، مرتد، جہنمی اور جنگل کے سور ہیں، تو خود مرزائی پوری امت مسلمہ کی سوچ، چودہ صدیوں کے مسلمانوں اور کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام سے اختلاف کرنے اور ان کی توہین و تنقیص کرنے کی وجہ سے کیونکر کافر نہیں ہوں گے؟

دیکھا جائے تو سائل کا یہ پوراسوال ہی اس کے دجل، تلبیس، دوغلاپن، نفاق اور سراسر جھوٹ پر مبنی ہے، اس لئے کہ اگر سائل کا اپنے اس قول پر اعتقاد ہوتا تو وہ سب سے پہلے اپنے آقاؤں کو اس کی تلقین کرتا، جو فلسطین، بیروت، لبنان، افغانستان، عراق اور کشمیر میں لاکھوں انسانوں کے بے جا قتل عام کا مرتکب ہیں۔ اگر قادیانی اپنے اس موقف میں سچے ہوتے تو بلاشبہ آج وہ دنیائے عیسائیت کی تائید وحمایت کی بجائے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھارہے ہوتے، مگر اخبارات و میڈیا اس پر شاہد ہیں کہ قادیانی، عیسائیت، یورپ اورامریکا کی اس دہشت گردی پر نہ صرف خاموش ہیں، بلکہ در پردہ ان کی حمایت و تائید میں کوشاں ہیں۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7، جلد: 91 ‏، جمادی الثانی 1428 ہجری مطابق جولائی2007ء

Related Posts