حرفِ آغاز
حبیب الرحمن اعظمی
اس بات کی وضاحت بارہا کی جاچکی ہے کہ ہماری دینی درسگاہوں کا اصل موضوع علوم کتاب و سنت ہیں، انھیں کی افہام و تفہیم، تعلّم و تعلیم، توضیح وتشریح، تعمیل و اتباع اور تبلیغ و دعوت اور ایسے رجال کار پیدا کرنا ہے جو اس تسلسل کو قائم رکھ سکیں بس یہی ان مدارس کا مقصود اصلی ہے۔
ماضی قریب میں ان تعلیم گاہوں نے اس عظیم امانت کی حفاظت اور اس قابل صد فخر وراثت کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ ہماری علمی وثقافتی تاریخ کا ایک زریں باب ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف اپنے و پرائے سبھی کرتے ہیں اور آج کے انتشار پذیر اور مادی فروغ کے دور میں بھی یہ اسلامی مدارس اپنے وسائل و ذرائع کے مطابق مصروفِ عمل ہیں اور ملت اسلامیہ کی اولین و اہم ترین بنیادی ضرورت کی کفالت کررہے ہیں۔ اور اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کفر وشرک کے گھٹاٹوپ اندھیرے اور مذہب بیزاری کے اس ماحول میں اسلامی تہذیب و ثقافت اور دینی رسوم عبادت کے جو روشن آثار نظر آرہے ہیں وہ انھیں دینی درسگاہوں کی خدمات کا ثمرہ ہے۔
ظاہر ہے کہ قرآن و حدیث ایک لازوال وغیرمتبدل حقائق ہیں۔ اسی کے ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ زمانہ ہر آن تغیر پذیر ہے اور ہر جدید دور اپنے جلو میں نئے نئے مسائل لے کر آتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ انسانی افکار ونفسیات میں بھی فرق آجاتا ہے، پھر جدید علوم کی ترقیات اور سائنسی ایجادات و اکتشافات دنیا کا رنگ بدلتے رہتے ہیں جس کے زیراثر اس تغیر آباد عالم میں ان لازوال علوم کی امین وحامل امت کو نئے حالات وواقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور علوم نبوت کے داعی ومحافظ ہونے کی حیثیت سے ہر دور کے تقاضوں اور اس کے چیلنج کا مقابلہ اس احتیاط سے کرنا پڑتا ہے کہ اصل مقصود پر آنچ نہ آنے پائے۔ چنانچہ ہر دور میں اساطین امت نے وقت کے تقاضوں کے تحت تعلیمی خانوں میں جو رنگ بھرا اور حذف و اضافہ حک و ترمیم کا جو بھی عمل کیا وہ اس چابکدستی احتیاط اور بالغ نظری کے ساتھ کیا کہ اصل امانت یعنی منصوص و منقول کی پوری پوری حفاظت اور اس کی روح کی بقا کا کلی طور پر اہتمام کیا اور کسی جہت سے بھی علوم دینیہ کی حیثیت اور مقام ومرتبہ کو مجروح نہیں ہونے دیا۔
خود ہمارے اکابر رحمہم اللہ وکثر اللہ امثالہم نے اپنے عہد میں دارالعلوم دیوبند اور دیگر اسلامی درسگاہوں کے لئے نظام تعلیم کا جو نقشہ مرتب فرمایا تو حالات و زمانہ کا لحاظ کرتے ہوئے اس کی اساس اگرچہ رائج الوقت نصاب ”درس نظامی“ ہی پر رکھی مگر اس کمالِ بصیرت کے ساتھ کہ کتاب وسنت کی بالادستی کو نظر انداز نہیں ہونے دیا۔ اسلاف کے اسی طرز فکر اور طریقہٴ کار کی پیروی کرتے ہوئے ابھی ماضی قریب میں دارالعلوم دیوبند کے ارباب حل وعقد نے ملک کے صاحب نظر علماء اور دینی علوم میں مہارت و تجربہ رکھنے والے اصحاب درس فضلاء کے مشورہ اور اتفاق سے مدارس دینیہ کے نصاب درس و نظام تعلیم میں مفید ترمیم اور حذف واضافہ کیا ہے جس میں علوم کتاب و سنت کی بالادستی کو قائم رکھتے ہوئے تقاضائے وقت کے مناسب بعض ایسے علوم و فنون کا ضافہ کیا گیا ہے۔ جو پہلے نصاب میں شامل نہیں تھے۔
ان سب کے باوجود ہمدردان ملت کا ایک طبقہ مدارس دینیہ کے رائج نظام تعلیم کو ناقص، غیرمفید اور ان کے فضلاء کو وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر اور سماج کے لئے غیرنفع بخش بتاتا ہے،اور قوت کے ساتھ یہ تحریک چلا رہا ہے کہ مدارس دینیہ اپنے مقصد وموضوع اور طرز فکر وعمل کے برخلاف کتاب و سنت کو چھوڑ کر یا کم از کم انھیں ثانوی درجہ میں رکھ کر دیگر سرکاری ونیم سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نہج پر اپنا نظام تعلیم ونصاب درس مرتب کریں۔ ہمارے مدارس کے انہی ناصحین کی کرم فرمائیوں سے شہ پاکر موجودہ حکومت مرکزی مدرسہ بورڈ کے عنوان سے مدارس کو یرغمال بنانے کے لئے جال بچھا رہی ہے جس میں پھنس کر مدارس اپنی اسلامی روح کو باقی نہیں رکھ پائیں گے۔ مدرسہ بورڈ کے قیام کا مقصد اصلی بھی یہی ہے کہ ان دین کے سرچشموں کے سوتوں کو بند یا کم از کم کسی طرح گدلا کردیا جائے۔
قدیم وجدید کے اختلاف فکر ونظر کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس کی کڑیاں عہدغلامی سے جڑی ہوئی ہیں اور جاننے والے جانتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اسی اختلاف نظریات کے دو الگ الگ مظہر ہیں۔ اور دونوں نظریوں کے حق میں اب تک اس قدر لکھا اور کہا جاچکا ہے کہ اب کسی جانب سے بھی اس پر اضافہ دشوار ہے اس لئے کیا اچھا ہوتا کہ مسلم اقلیت کے معاش ومعاد کے فکر سے پریشان حکومت اور ہمارے یہ ہمدردان قوم وملت مدارس دینیہ کو مطعون اور ان کے فضلاء کو بے حیثیت کرنے کی جدوجہد کے بجائے اپنے جہدوعمل کا رخ قوم کے ان نونہالوں کی طرف پھیردیتے جو دینی علوم اور عصری فنون دونوں سے برگشتہ ہیں اور آج بھی جب کہ ہر چہار جانب سے تعلیم کی اہمیت کا چرچا ہورہا ہے ایسے بچوں کی تعداد زیادہ ہے جو یا تو سرے سے تعلیم گاہوں کا رخ بھی نہیں کرتے یا ابتدائی و ثانوی مرحلہ میں پہنچ کر تعلیمی سلسلہ کو منطقع کرکے گھر بیٹھ رہتے ہیں۔ جیسا کہ سچرکمیٹی نے اعداد وشمار کے ذریعہ اس کو یوں عیاں کردیا ہے کہ اس سے کسی ذی ہوش کو انکار نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر یہ ہمدردان ملت ، قوم کے ایسے بچوں کو حصول تعلیم کی جانب متوجہ اور راغب کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ قوم کی ایک عظیم خدمت ہوگی اور خود ان کے نقطئہ نظر کے مطابق (ان قدیم دینی درسگاہوں کو ان کے موضوع و منہاج سے ہٹاکر) جو مقاصد و فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں اس صورت میں ملت کے ایک بڑے حصہ کو ذہنی و عملی انتشار میں مبتلا کئے بغیر کئی گنا زائد وہ فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اور اگر اس تگ و دو اور تقریر و تحریر کا مقصد مدارس دینیہ کے خلاف محض پروپیگنڈہ اور قدیم وجدید کے پرانے اور کسی حد تک مردہ مسئلے کو پھر سے زندہ کرنا ہے تو ہمارے ان دانشوروں کو یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ ارباب مدارس اس بارے میں تہی دامن نہیں ہیں ان کے منھ میں بھی زبان اور ہاتھ میں قلم ہے۔ اور محض بلند بانگ دعووں اور سخن طرازیوں کے بجائے ان کی پشت پر علمی، دینی اور معاشرتی اصلاح و خدمات کی ایک مضبوط ومستحکم تاریخ ہے۔ لیکن اس مسئلہ میں الجھ کر انتشار پذیر ملت کو مزید انتشار میں مبتلا کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں اس سلسلے میں ہمارا نظریہ تو بس یہ ہے۔#
لوگ سمجھیں ہمیں محروم وقار و تمکیں
وہ نہ سمجھیں کہ مری بزم کے قابل نہ رہا
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5، جلد: 91 ، ربیع الثانی1428 ہجری مطابق مئی2007ء