بہ قلم: محمد عارف جمیل مبارک پوری، شارجہ، متحدہ عرب امارات
(۱) فرمان باری: (أفتطمعون أن یوٴمنوا لکم وقد کان فریق منہم یسمعون کلام اللّٰہ ثم یحرفونہ من بعد ما عقلوہ وہم یعلمون) (بقرہ:۷۵)
”اب کیا اے مسلمان! تم توقع رکھتے ہو کہ وہ مانیں تمہاری بات، اور ان میں ایک فرقہ تھا کہ سنتا تھا اللہ کاکلام پھر بدل ڈالتے تھے اسکو جان بوجھ کر اور وہ جانتے تھے“
سوال یہ ہے کہ (عقلوہ) اور (وہم یعلمون) ؛ دونوں ہم معنی ہیں پھر (وہم یعلمون) کے ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے؟
امام رازی نے یہ سوال اٹھانے کے بعداسکا جواب قفال کے حوالے سے دیتے ہوئے لکھا ہے:
اول: اللہ تعالیٰ کی مراد کو سمجھنے کے بعد انھوں نے اس کی غلط تاویل کی، اور انہیں یہ معلوم تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں ہے۔
دوم: انھوں نے اللہ تعالیٰ کی مراد کو سمجھا اور انہیں یہ معلوم تھا کہ غلط تاویل کرکے وہ گنہ گار ہوں گے اوراللہ تعالیٰ کی سزا کے حق دار۔ اور چوں کہ گناہ کا علم ہوتے ہوئے، جان بوجھ کر انھوں نے تحریف کی؛ اس لیے یہ ان کی نہایت سخت قلبی اور حددرجہ دلیری کی بات ہے۔ اورچوں کہ اس کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا اور ان کی سرتابی پر صبر کی تلقین کرنا ہے اس لیے ان کی سرکشی جس قدر زیادہ ہوگی، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی زیادہ ہوگی۔(۱)
(۲) فرمان باری ہے: ”فویل للذین یکتبون الکتاب بأیدیہم ثم یقولون: ہذا من عند اللّٰہ لیشتروا بہ ثمنا قلیلا فویل لہم مما کتبت أیدیہم وویل لہم مما یکسبون) (بقرہ:۷۹)
”سوخرابی ہو ان کو جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھ سے، پھر کہہ دیتے ہیں: یہ خدا کی طرف سے ہے، تاکہ لیں اس پر تھوڑا سا مول، سو خرابی ہے ان پر اپنے ہاتھوں کے لکھے سے اور خرابی ہے ان کو اپنی کمائی سے۔“
اس آیت میں دو جگہوں پر بدیہیات ہیں:
۱- لازمی بات ہے کہ لکھنا ہاتھ ہی سے ہوتا ہے پھر (بایدیہم) کے ذکر میں کیا حکمت ہے؟
اس میں کئی اقوال ہیں:
اول: یہ تاکید کے لیے ہے، اس سے مجاز کا احتمال ختم ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ جب آپ یہ کہیں کہ زید لکھتا ہے تو اس کا ظاہری معنی یہ ہے کہ بذات خود لکھتا ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ زید کی طرف لکھنے کی نسبت بہ طور مجازہو، زید محض لکھنے کا حکم دینے والا ہو، جیساکہ حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا۔ اس کا مطلب یہی تو ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا حکم فرمایا؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی امی تھے اورامی وہ ہوتا ہے جو لکھناپڑھنا نہ جانے۔ فرمان باری ہے: (وما کنت تتلو من قبل من کتاب ولا تخطہ بیمینک اذا لارتاب المبطلون) (عنکبوت:۴۸) (اور توپڑھتا نہ تھا اس سے پہلے کوئی کتاب، اور نہ لکھتا تھا اپنے داہنے ہاتھ سے، تب تو البتہ شک میں پڑتے یہ جھوٹھے)۔
اس تاکید کی نظیر یہ فرمان باری ہے: ولا طائر یطیر بجناحیہ (اور نہ کوئی پرندہ کہ اڑتا ہے اپنے دو بازووں سے“۔
نیز فرمان باری: ”یقولون بأفواہہم“ (کہتے ہیں اپنے منھ سے)
نیز شاعر کہتا ہے: نظرت فلم تنظر بعینیک منظرا․ ”تم نے دیکھا تو اپنی دونوں آنکھوں سے ایسا منظر نہیں دیکھا۔“
ان تمام الفاظ کے ذکر کرنے کا مقصد اس مفہوم کی تاکید ہے جس کے ظاہری الفاظ متقاضی ہیں اور ممکنہ مجاز کا احتمال بھی ختم ہوجاتا ہے۔ یہ قول ابوحیان، ابن عاشور، رازی اور آلوسی نے ذکرکیا ہے۔(۲)
دوم: یہ ان کے عمل کی قباحت بیان کرنے کے لئے ہے؛ اسلئے کہ انھوں نے صرف یہ نہیں کیا کہ تخلیق و تحریف کا حکم دیتے؛ بلکہ بذات خود انھوں نے اسے انجام دیا اوراس کو اپنے ہاتھوں سے کیا۔ یہ قول ابوحیان اور ابن عاشور نے نقل کیا ہے(۳)
سوم: ابن سراج نے کہا : ”ایدی“ کا ذکر اس بات سے کنایہ ہے کہ انھوں نے اس کو بذات خود اور اپنی طرف سے گھڑا ہے، ان پر یہ بات اتری نہیں ہے۔“
ابوحیان نے اس کو نقل کرنے کے بعد کہا:
”یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی؛ اس لیے کہ کسی کام کو ہاتھ سے انجام دینا اس کو گھڑنے اور ایجاد کرنے کا متقاضی نہیں؛ لہٰذا ایک حال محذوف مقدر ماننا ہوگا، جس پر اگلا حصہ دلالت کرتا ہے۔ تقدیر عبارت کچھ اس طرح ہوسکتی ہے: وہ اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے تھے اس حال میں کہ وہ محرف ہے۔ یا اس طرح کی کوئی اور عبارت، جس کی دلیل آیت کریمہ کا اگلا حصہ ہے (ثم یقولون ہذا من عند اللّٰہ) ؛ اس لیے کہ بذات خود اپنے ہاتھوں سے کتابت و تحریر قابل نکیر تبھی ہے جبکہ غلط ہو؛ اسی لیے ہم نے یہ حال مقدر مانا ہے۔(۴)
ابن عاشور کہتے ہیں: ”یکتبون الکتاب بایدیہم“ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی باتیں لکھتے ہیں، جو ان کو رسولوں سے نہیں پہنچیں بلکہ وہ ان کو ایجاد کرنے والے ہیں اس کی دلیل آیت کا یہ ٹکڑا ہے: (یقولون ہذا من عند اللّٰہ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے اپنے منھ سے نکلی ہوئی بات ہے، حقیقت کے مطابق نہیں۔(۵)
۲- اس میں لفظ ”ویل“ دو مرتبہ آیا ہے، جبکہ اول الذکر کافی تھا پھر اس میں کیا حکمت ہے؟
امام رازی نے یہ سوال اٹھایا اوراس کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:
”فویل لہم مما کتبت ایدیہم“ سے مراد یہ ہے کہ انھوں نے جو لکھا ہے، یہ لکھنا مستقل ایک بڑا گناہ ہے، اسی طرح اس پر مال و صول کرنا بھی گناہ ہے؛ اسی لیے لفظ ”ویل“ کو ”یکسبون“ کے ساتھ دوبارہ لائے، ورنہ یہ کہا جاسکتا تھا کہ دونوں مجموعی طور پر سخت وعید کے متقاضی ہیں، انفرادی طور پر نہیں۔ اسی اشتباہ کو اللہ تعالیٰ نے دور کردیا۔ اس کو ابوحیان نے بھی لکھا ہے۔(۶)
(۳) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ثم تولیتم الا قلیلا منکم وأنتم معرضون) (بقرہ:۸۳)
”پھر تم پھرگئے مگر تھوڑے سے تم میں ، تم ہوہی پھرنے والے“۔
یہاں پر ”تولی“ اور ”اعراض“ دونوں ہم معنی ہیں، اول الذکر، دوسرے پر دلالت کرتا ہے، پھر اس کے ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے؟
اس کے کئی جواب دئیے گئے ہیں:
اول: دوسرا پہلے کی تاکید ہے، یہ دونوں ہم معنی ہیں۔ دوسرا جملہ پہلے جملے کے لیے حال تاکیدی ہے۔
دوم: ”تولی“ اور ”اعراض“ الگ الگ ہیں، لہٰذا تکرار نہیں، اور یہ حال بیانی ہے۔
سوم: دونوں ہم معنی ہیں؛ لیکن دونوں کے متعلقات الگ الگ ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ تم اپنے عہد و میثاق سے پھرگئے اور تم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منھ پھیرنے والے ہو۔(۷) (البحرالمحیط۱/۴۶۴)
(۴) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (ولما جاء ہم کتاب من عند اللّٰہ مصدق لما معہم وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا فلما جاء ہم ما عرفوا کفروا بہ فلعنة اللّٰہ علی الکافرین) (بقرہ: ۸۹)
”اور جب پہنچی ان کے پاس کتاب، اللہ کی طرف سے، جو سچا بتاتی ہے اس کتاب کو جو ان کے پاس ہے اور پہلے سے فتح مانگتے تھے کافروں پر، اورجب پہنچا ان کو جس کو پہچان رکھا تھا تو اس سے منکر ہوگئے، سو لعنت ہے اللہ کی منکروں پر“۔
یہاں بدیہی بات ہے کہ (ولما جاء ہم کتاب من عند اللّٰہ الخ) کا معنی وہی ہے جو (فلما جاء ہم ما عرفوا) الخ کا ہے، پھر دوسرے جملہ کے ساتھ (لما) دوبارہ لانے میں کیا حکمت و مصلحت ہے؟
ابن عاشور اس کا جواب دیتے ہیں:
”دوسرے جملہ کے ساتھ لما کا اعادہ (یعنی یہ نہیں کہا: وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا فجاء ہم ما عرفوا) کا مقصد، ان دونوں جملوں (میں جو ”لما“ سے شروع ہورہے ہیں) کے معنی میں اتحاد کا اظہار ہے۔ اور دونوں معانی میں مزید ربط پیدا کرنا ہے؛ کیوں کہ جملہ حالیہ سے فصل پیداہوگیا تھا۔ ”معمول“ کے ایک ہوتے ہوئے، ”عامل“ کا تکرار، ایک فصیح عربی اسلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ولا تحسبون الذین یفرحون بما اَتوا ویحبون أن یحمدوا بما لم یفعلوا فلا تحسبنہم بمفازة من العذاب) (آل عمران:۱۸۸)
”اور جو لوگ خوش ہوتے ہیں اپنے کیے پر اور تعریف چاہتے ہیں بن کیے، سو مت سمجھ ان کو چھوٹ گئے، عذاب سے، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے“
نیز فرمایا: ایعدکم أنکم اذا متم وکنتم ترابا وعظاما أنکم مخرجون (مومنون:۳۵)
”کیا تم کو وعدہ دیتا ہے کہ جب تم مرجاؤ اور ہوجاؤ مٹی اور ہڈیاں تو تم کو نکلنا ہے“۔
یہاں پر ”أنکم“ کو دوبارہ ذکر کیا حالاں کہ پہلے کی خبر ابھی نہیں آئی تھی۔(۸)
(۵) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وللکافرین عذاب مہین․ (آیت:۹۰)
”اور کافروں کے واسطے عذاب ہے ذلت کا“۔
یہ بدیہی بات ہے کہ عذاب میں ذلت واہانت ہوتی ہے پھر ”ذلت کا عذاب“ کہنے میں کیا حکمت ہے؟
اس کی کئی وجوہات ہیں:
۱- امام رازی کہتے ہیں کہ عذاب اہانت کے ساتھ ہوگا اس کی دلیل کی ضرورت تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے دلیل کے طورپر اس کا ذکر فرمایا۔(۹)
۲- اہانت آمیز وہ عذاب ہوتا ہے، جس سے آدمی کو ذلت اور رسوائی ملے، جس میں ہمیشہ رہے اور اس ذلت سے نکل کر کبھی بھی اسے عزت نہ مل سکے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ عذاب کافروں کیلئے خاص کررکھا ہے، لیکن جس عذاب میں انسان کی ذلت نہیں؛ بلکہ اس کو پاک و صاف کرنا ہوتا ہے، مثلاً ایک مسلمان چوری کرتا ہے،اور اس پر شرعی سزا نافذ کرتے ہوئے، اسکا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے، یا کسی مسلمان سے بدکاری ہوجاتی ہے، تو اسکو شرعی سزا دے دی جاتی ہے اوراس طرح کی دوسری سزائیں جو دراصل گناہوں کا کفارہ ہیں، یا گناہ کبیرہ کے مرتکب مسلمانوں کو، جرائم کے لحاظ سے، آخرت میں جو سزا ہوگی، اس کا مقصد، یہ ہے کہ ان کو گناہوں سے پاک کردیا جائے پھرجنت میں داخل ہوں۔ یہ ہرچند کہ عذاب ہے لیکن اہانت آمیز نہیں، کیوں کہ اس عذاب الٰہی کا مقصد گناہوں سے پاک و صاف کرکے جائے عزت وکرامت میں پہنچانا ہے، جہاں آدمی، جنت کی نعمتوں میں، ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ یہ قول: طبری، ابوحیان، قرطبی، آلوسی اور بیضاوی نے نقل کیاہے۔(۱۰)
(۶) فرمان باری: (ولتجدنہم أحرص الناس علی حیاة ومن الذین اشرکوا) (بقرہ:۹۶)
”اور تو دیکھے گا ان کو، سب لوگوں سے زیادہ حریص زندگی پر، اور زیادہ حریص مشرکوں سے بھی“
یہ بات بدیہی ہے کہ ”الناس“ کے تحت (الذین اشرکوا) داخل تھے پھر دوبارہ ان کو ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
امام رازی اس کا فائدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ان کو الگ سے ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کو زندگی کی حرص بہت ہے، اور اس میں سخت توبیخ ہے؛ اس لیے کہ مشرکین، جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں، اگر وہ زندگی کے حریص ہوں تو کچھ بعید نہیں؛ کیوں کہ یہی ان کی جنت ہے۔ اب اگرکوئی اہل کتاب، جو جزا کا اقراری ہو، ان لوگوں سے زیادہ زندگی کا حریص بن جائے تو وہ سخت ترین توبیخ کا حق دار ہے۔ رہا یہ سوال کہ یہ مشرکوں سے زیادہ حریص کیوں ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں یہ معلوم ہے کہ وہ لامحالہ جہنم میں جائیں گے۔ مشرکوں کو اس کا علم نہیں۔ یہ فائدہ طبری اور ابوحیان نے بھی نقل کیا ہے۔(۱۱)
(۷) فرمان باری: (من کان عدواً للّٰہ، ملائکتہ، رسلہ، وجبریل ومیکال فان اللّٰہ عدو للکافرین) (بقرہ:۹۸)
”جو کوئی ہو دشمن اللہ کا اوراس کے فرشتوں کا اوراس کے پیغمبروں کا اورجبریل کا اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے ان کافروں کا“
کھلی ہوئی بات ہے کہ لفظ ”ملائکہ“ کے تحت جبریل ومیکائیل داخل تھے پھر ان کو دوبارہ ذکر کرنے کا کیا فائدہ ہے؟
اس کے دو جواب ہیں:
۱- ان دونوں فرشتوں کے فضل و کمال کے سبب ان کو الگ سے ذکر کیا، گویا اپنے فضل وکمال کے سبب وہ فرشتوں سے الگ جنس بن گئے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: (فیہما فاکہة ونخل ورمان) (سورہ رحمان:۶۸)
”ان میں میوے ہیں اور کھجوریں اور انار“
یہ جواب رازی اور قرطبی نے نقل کیاہے۔(۱۲)
۲- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودیوں کے مابین ان ہی دونوں فرشتوں کا ذکر ہوا تھا، اورآیت کریمہ ان ہی دونوں کی وجہ سے نازل ہوئی تھی؛ اس لیے ان کا ذکر ضروری تھا مبادا یہودی یہ کہیں کہ ہم اللہ کے سارے فرشتوں کے دشمن نہیں؛ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی تصریح فرماکر، ان کی طرف سے تخصیص کے احتمال کو ختم کردیا۔ یہ جواب طبری، رازی اور قرطبی نے نقل کیا ہے۔(۱۳)
(۸) فرمان باری (کتاب اللّٰہ وراء ظہورہم) (بقرہ: ۱۰۱)
”کتاب اللہ کو اپنی پیٹھ کے پیچھے“
سوال : ”ظہور“ اور ”وراء“ ایک معنی میں ہیں، پھر دونوں کے ساتھ لانے میں کیا حکمت ہے؟
ابن عاشور نے یہ سوال اٹھایا، اور اس کاجواب دیتے ہوئے لکھا ہے:
”لفظ ”وراء“ کو لفظ ”ظہور“ کی طرف مضاف کرنے میں اس بات کی تاکید ہے کہ جس چیز کو انھوں نے چھوڑ دیا وہ اس قدر دور ہے کہ اس کے بعد مل نہیں سکتی۔ اس لیے ”ظہر“ کے لیے ”وراء“ قرار دیا، گوکہ یہ یہاں یہ ”وراء“ ہی کے معنی میں ہے۔
یہی جواب اس اشکال کا دیا جاسکتا ہے، جو ابن عرفہ نے فقیہ ابوالعباس احمد بن عبلون کی طرف سے نقل کیاہے موصوف نے کہا کہ ان الفاظ کا تقاضا ہے کہ انھوں نے اللہ کی کتاب کو اپنے آگے ڈال دیا؛ اس لیے کہ پشت کی پشت، چہرہ ہے، جیسا کہ پشت چہرہ کے پیچھے ہے، اسی طرح چہرہ پشت کے پیچھے ہے، ابن عرفہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ ”ظہر“ کا ذکر ”وراء“ کے مفہوم کی تاکید کے لیے ہے جیسے کہتے ہیں: وراء وراء“ یعنی نہایت پیچھے۔(۱۴)
(۹) فرمان باری (ومن ذریتنا أمة مسلمة) (بقرہ: ۱۲۸)
” اور ہماری اولاد میں بھی ایک جماعت، فرماں بردار اپنی“۔
اس سے پہلے ”لاینال عہدی الظالمین“ (میرا قرار ظالموں کو نہیں پہنچے گا) سے معلوم ہوچکا تھا کہ ان کی اولاد میں کچھ ظالم ہوں گے اور کچھ غیر ظالم بھی۔ لہٰذا ان کی بعض اولادکا فرماں بردار ہونا معلوم ہوچکا تھا۔ پھر دوبارہ دعا کے ذریعہ اس کے مطالبہ میں کیا حکمت ہے؟
امام رازی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ دلالت قطعی نہیں تھی اور صاحب شفقت کے دل میں خدشات پیدا ہوتے ہیں۔(۱۵)
(۱۰) فرمان باری (قالوا نعبد الٰہک والٰہ آبائک ابراہیم واسماعیل واسحاق الٰہا واحدا) (بقرہ:۱۳۳)
”بولے: ہم بندگی کریں گے تیرے رب کی، اور تیرے باپ دادوں کے رب کی جوکہ ابراہیم، اسماعیل اوراسحاق ہیں“
سوال یہ ہے کہ ”الٰہا“ دوبارہ ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے جب کہ ”الٰہک“ کے تحت اس کا ذکر آچکا تھا؟
اس کے کئی جواب دئیے گے ہیں:
۱- ”الٰہا“، ”الہک“ سے حال ہے، لفظ اور معنی کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوصف حال ہونا اس لیے جائز ہوگیا کہ یہ اس پر ”وحدانیت“ کا وصف جاری کرنے کے اعتبار سے ہے، حال درحقیقت وہ وصفِ تاکید ہے۔ صفت ”واحدا“ پر اکتفا کرنے کے بجائے لفظ ”الہا“ کو دوبارہ اس لیے لایا گیا تاکہ مزید وضاحت ہوسکے؛ اس لئے کہ یہ مقام، اطناب و تفصیل کا مقام ہے۔ اعادہ میں معاد کی اہمیت بتانا اور ماسبق کی تاکیدہے۔ یہ فصاحت کا ایک اسلوب و انداز ہے؛ اس لیے کہ لفظ کا اعادہ کرکے اس پر صفت یا متعلق قائم کیا جاتا ہے اوراس کے ساتھ تابع ہوکر، سابقہ لفظ کی تاکید ہوجاتی ہے۔ اوراس کا مقصد محض تاکید نہیں ہوتا۔ اسی باب سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: (واذا مرو باللغو مروا کراما) (فرقان:۷۲) ”اور جب گذرتے ہیں کھیل کی باتوں پر تو نکل جائیں بزرگانہ“۔
نیز فرمان باری: (ان أحسنتم أحسنتم لأنفسکم وان أسأتم فلہا) (اسراء:۷)
”اگر بھلائی کی تم نے تو بھلا کیا اپنا“
نیز فرمان باری: (واتقو الذي أمدکم أمدکم بما تعلمون، أمدکم بأنعام وبنین) (شعراء:۱۳۳) ”اور ڈرو اس سے جس نے تم کو پہنچائیں وہ چیزیں جو تم جانتے ہو، پہنچائے تم کو چوپائے اور بیٹے“
ان میں فعل کا اعادہ ہے۔
اسی قبیل سے احوص کا یہ شعر ہے:
فاذا تزول تزول عن متخمط تخشی بوادرہ علی الأقران
ابن جنی شرح الحماسہ میں لکھتے ہیں: ”یہ کہنا کسی طرح ممکن نہیں: ”اذا قمت قمت“؛ اس لیے کہ دوسرے جملہ میں کوئی ایسی بات نہیں جو پہلے میں نہ ہو، یہاں پر ”تزول تزول“ کہنا اس لیے درست ہوگیا کہ دوسرے کے ساتھ حرف جرلاحق ہے جس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: (ہولاء الذین أغوینا أغویناہم کما غوینا) (قصص:۶۳)
”یہ لوگ ہیں جن کو ہم نے بہکایا، ان کو بہکایا جیسے ہم آپ بہکے“۔
لہٰذا ”الہا“ حال تمہیدی ہے، اسم ذات کو صفت کی تمہید کے لیے لایاگیا ہے۔(۱۶)
اس میں بدل ہونے کا بھی امکان ہے، لہٰذا یہ باوصف نکرہ، معرفہ سے بدل ہوگا۔(۱۷)
۲- ابوحیان کہتے ہیں کہ اس حال یا بدل کا فائدہ، اس بات کی تصریح ہے کہ ان کا معبود فرد واحد ہے؛ کیوں کہ کسی چیز کی، بہت ساری چیزوں کی طرف اضافت سے، مضاف کے متعدد ہونے کا وہم ہوتا ہے، لہٰذا اس حال یا بدل کے ذریعہ، اس وہم کی، بہ تصریح نفی کردی۔(۱۸)
(۱۱) فرمان باری: (تلک أمة قد خلت لہا ما کسبت ولکم ما کتسبتم ولا تسألون عما کانوا یعملون) (بقرہ:۱۴۱)
”وہ ایک جماعت تھی جو گذرچکی، ان کے واسطے ہے جو انھوں نے کیا، اور تمہارے واسطے ہے جو تم نے کیا، اور تم سے کچھ پوچھ نہیں ان کے کاموں کی“۔
یہ آیت کریمہ مکرر آئی ہے، اس تکرار میں کیا فائدہ ہے؟
مفسرین نے اس کے کئی جواب نقل کیے ہیں:
۱- امام رازی کہتے ہیں: ”پہلی آیت سے مراد: ابراہیم اور وہ لوگ ہیں جن کا ذکر ان کے ساتھ آیا ہے، اور دوسری آیت سے مراد یہودیوں کے اسلاف ہیں۔ جبائی کہتے ہیں کہ قاضی نے کہا: یہ بعید ہے؛ اس لیے کہ یہود ونصاریٰ کے اسلاف کا بہ تصریح ذکر نہیں آیا۔ اس سلسلہ میں شبہ یہاں سے پیداہوا کہ ان لوگوں نے جب ابراہیم اور ان کی اولاد کے بارے میں کہا کہ وہ یہودی تھے تو گویا انھوں نے یہ کہا کہ یہ لوگ ہمارے یہودی اسلاف جیسے طریقہ پر تھے، لہٰذا ان کے اسلاف مذکورہ لوگوں کے حکم میں ہوگئے، اس طرح ممکن ہوگیا کہ ”تلک امة قد خلت“ اس ان کو مراد لیا جائے؛ لیکن یہ نا انصافی ہے؛ اس لیے کہ ماسبق میں ابراہیم اور ان کی اولاد کا ذکر آیا ہے؛ لہٰذا (تلک أمة) کا مرجع لازما یہی لوگ ہوں گے۔
یہ قول ابوحیان، ابوسعود اورآلوسی نے نقل کیا ہے۔ آلوسی نے اخیر میں کہا کہ اس میں جو کھلی ہوئی نا انصافی ہے، مخفی نہیں۔(۱۹)
۲- اوقات، حالات اور مقامات کی تبدیلی کے بعد تکرار بے سود نہیں ہوتا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تو بشرہی ہیں، ان انبیائے کرام کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ اسی دین پر تھے جن پر تم ہو، اس باب میں تقلید کا جواز پیدا نہیں کرتا۔ لہٰذا تم ان لوگوں کے بارے میں گفتگو چھوڑو، انھوں نے جو کیا ان کو ملے گا، تمہیں تو یہ دیکھنا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس بات کی دعوت دے رہے ہیں، اسی میں تمہارا نفع اور فائدہ ہے، تم اپنے اعمال کے جواب دہ ہو۔ یہ قول امام رازی نے نقل کیا ۔(۲۰)
۳- انسان کی طبیعت میں، اپنے آباء واجداد پر فخر ومباہات راسخ ہے اسی سے بچانے میں مبالغہ کے لیے اس آیت کریمہ کومکرر لایاگیا جیسے کہا جاتاہے: اتق اللّٰہ، اتق اللّٰہ (اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو) یاوعید کی تاکید و توثیق کے لیے مکرر لایاگیا یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ تم کو تمہارے اعمال کا بدلہ دے گا، تمہارے آبا و اجداد تمہارے کام نہیں آئیں گے، قیامت کے دن تم ان کے اعمال کے نہیں؛ بلکہ اپنے اعمال کے جواب دہ ہوگے۔ یہ قول ابوسعود اور آلوسی نے نقل کیا ہے۔(۲۱)
۴- پیچھے اہل کتاب مخاطب تھے اوراس آیت میں، ہم کو ان کی پیروی سے روکاگیا ہے۔ یہ قول ابوسعود اورآلوسی نے نقل کیاہے۔(۲۲)
۵- ابن عاشور لکھتے ہیں: تکرار کی وجہ، سننے والوں کے دلوں میں اس مفہوم کو، اس کی اہمیت کے پیش نظر، مزید راسخ کرنا ہے، اس لیے کہ مخاطب نے اس سے پہلے اس کو نہیں سنا تھا، لہٰذا ایک بار تذکرہ کو ناکافی سمجھا گیا، اس طرح کاتکرار عربی کلام میں موجود ہے، لبید کا شعر ہے:
فتنازعا سبطا یطیر ظلالہ کدخان مشعلة یشب ضرامہا
مشمولة غلثت بنابت عرفج کدخان نار ساطع اسنامہا
(یہ غبار ایک دوسرے سے الگ کرسیدھے اوپر چلے، اس کے سایے اڑ رہے تھے جیسے آگ کا دھواں جس کو خوب بھڑکادیاگیا ہو۔ جس پر شمالی ہوا آئی ہو، اس میں ”عرفج“ ملادیاگیا ہو، جیسے وہ دھواں جس کی لپٹیں اوپر جارہی ہوں)
شاعر نے اڑنے والے غبار کو بھڑکتی آگ کے مشابہ قرار دیا، اس آگ کے بارے میں بتایاکہ اس پر شمالی ہوا اٹھی اوراس نے دھویں میں اضافہ کردیا، اور یہ آگ تروتازہ ”عرفج“ (ایک نازک پودا جو تیزی سے آگ پکڑتا ہے اورجلدہی ٹھنڈا ہوجاتا ہے) لگائی گئی ہے، اس لیے کہ اس میں دھواں بہت ہوتاہے، تو اس نے تشبیہ کا اعادہ کیا اس لیے کہ یہ غیرمعروف، اچھوتی تشبیہ تھی۔(۲۳)
$$$
مراجع
(۱) تفسیر کبیر:۳/۱۰۵۔ (۲) البحرالمحیط: ۱/۴۴۷، ابن عاشور:۱/۵۷۷، رازی:۳/۱۰۵، آلوسی:۱/۳۰۲۔ (۳) البحرالمحیط: ۱/۴۴۷، ابن عاشور:۱/۵۷۷۔ (۴) البحر المحیط:۱/۴۴۷۔ (۵) ابن عاشور:۱/۵۷۵۔ (۶) تفسیر رازی:۳/۱۵۰؛ البحرالمحیط:۱/۴۴۸۔ (۷) البحرالمحیط:۱/۴۶۴۔ (۸) ابن عاشور:۱/۶۰۲؛ آلوسی :۱/۳۲۰۔ (۹) تفسیر کبیر:۳/۹۹۱۔ (۱۰) طبری:۱/۲۳۳، ابوحیان، قرطبی:۱/۲۳؛ آلوسی :۲/۲۹، بیضاوی:۱/۳۹۵، تفسیر طبری:۱/۲۳۳؛ معارف القرآن:۱/۲۰۴۔ (۱۱) رازی:۳/۲۰۸؛ طبری:۱/۳۳۹؛ ابوحیان؛ قرطبی:۲/۳۶-۳۷۔ (۱۲) رازی: ۲۱۴۳؛ قرطبی:۲/۳۶۔ (۱۳) طبری:۱/۳۴۹؛ وازی: ۳/۲۱۴؛ قرطبی:۲/۳۶۔ (۱۴) ابن عاشور: ۱/۶۲۶۔ (۱۵) رازی:۴/۶۷۔ (۱۶) ابن عاشور: ۱/۷۳۴، ابوحیان:۱/۶۴۲۔ (۱۷) ابوحیان: ۱/۶۴۲۔ (۱۸) ابوحیان:۱/۶۴۲۔ (۱۹) رازی: ۴/۱۰۰؛ ابوحیان تفسیر آیت؛ ابوسعود آلوسی:۱/۴۰۱۔ (۲۰) رازی: ۴/۱۰۰۔ (۲۱) ابوسعود تفسیر: ۱/۱۷۶، آلوسی:۱/۱۰۴۔ (۲۲) ابوسعود تفسیر: ۱/۱۷۶، آلوسی:۱/۱۰۴۔ (۲۳) ابن عاشور:۱/۷۴۸۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد: 91 ، صفر 1428 ہجری مطابق مارچ2007ء