نابغہ روزگار ہستی جو اَب مرحوم ہے مولانا سید اسعد مدنیؒ

از: عادل صدیقی

۶/فروری ۲۰۰۶/ بروز دوشنبہ شام پونے چھ بجے اپولو ہسپتال نئی دہلی میں امیرالہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی کی وفات ہوگئی۔ بظاہر یہ ایک سال کا عرصہ ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ابھی کل کی ہی بات ہے۔ آپ نے اپنی زندگی کے شب و روز جس انداز پر نوع انسانی کی خدمت کے لئے وقف کررہے تھے اس کی وجہ سے وہ حیات جاودانی کے مالک بن گئے۔ اصلاح معاشرہ کا پروگرام ہو، دینی مدارس کے حوالے سے مسلمان بچوں کو صراط مستقیم پر لانے کا عمل ہو، ترقی نسواں ہو، تحفظ ختم نبوت ہو، امارت شرعیہ کا قیام ہو، دین اسلام کی اشاعت کے لئے جدید ذرائع ابلاغ کی ضرورت یا بحث ہو، راجیہ سبھا میں اقلیتوں کے مفادات کی نمایندگی ہو، ہندومسلم اتحاد کا موضوع ہو غرضیکہ دین ودنیا کاکوئی گوشہ ایسا نہ تھا جو آپ کا مرکز توجہ نہ بن سکا ہو۔ مختصراً یہ کہ آپ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع وعریض تھا۔

            مولانا سید اسعد مدنی کی پیدائش ۲۷/ اپرایل ۱۹۲۸/ مطابق ۶/ذی قعدہ ۱۳۴۶ھ بروز جمعہ دیوبند میں ہوئی۔ آپ نے مشہور عالمی ادارے دارالعلوم دیوبندسے ۱۹۴۵/ میں فراغت حاصل کی۔ بچپن میں ۱۹۴۵/ سے ۱۹۵۰/ تک آپ نے مدینہ منورہ میں قیام کیا ۱۹۵۰/ میں مدینہ منورہ سے واپسی ہوئی اور دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہوگئے۔ ۱۹۵۰/ سے ۱۹۶۲/ تک تقریباً بارہ سال آپ نے دارالعلوم میں درس و تدریس کی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۶۰/ میں ہی آپ جمعیة علماء اترپردیش کے صدر بن گئے اور چار سال تک یہ ذمہ داری نبھائی۔ ۹/اگست ۱۹۶۳/ کو آپ جمعیة علماء کے ناظم عمومی بن گئے اور دس سال تک اس منصب پر فائز رہے۔

            ۱۱/اگست ۱۹۷۳/ کو آپ جمعیة علماء کے صدر بنے اور ۳۳ سال تک اس منصب عظیم پر فائز رہے۔ ۱۹۶۸/ میں آپ کو راجیہ سبھا کی رکنیت مل گئی۔ آپ تین بار راجیہ سبھا کے رکن بنے۔ تقریباً ۱۸/ سال تک اس منصب پر فائز رہے۔ اس کے علاوہ مختلف تنظیموں اور ادارہ سے بھی آپ کی وابستگی نے آپ کو ہمہ وقت مصروف رکھا۔ آپ مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند کے موثر رکن تھے۔ اس کے علاوہ مسلم یونی ورسٹی کورٹ سے بھی وابستہ رہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے وابستہ ہوکر مسلمانوں کے تعلیمی و اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی موثر کوشش انجام دیں، لیکن امارت شرعیہ کا قیام آپ کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ اس ادارے کے توسط سے آپ نے اپنی قوت فیصلہ اور جہد مسلسل کا ایسا بیش قیمت کارنامہ انجام دیا جس کی وجہ سے آپ نے ایسی تاریخ مرتب کرڈالی جو آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ مولانا اسعد مدنی نے ۱۸ سال تک راجیہ سبھا میں مسلمانوں کے تعلق سے آواز بلند کی اور حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسلمانوں کے تعلیمی و اقتصادی، ثقافتی مسائل کے حوالے سے گفتگو کی۔

            اصلاح معاشرہ کے نقطئہ نظر سے آپ نے ٹی، وی اور ویڈیو کے مہلک اثرات سے قوم کو آگاہ کرایا ، آپ کا نظریہ یہ تھا کہ اس ملک میں جب انگریزوں نے قدم جمائے تو انھوں نے مسلمان بچوں کے دلوں سے مذہبی جذبات نکالنے کی اسکیم بنائی۔ مسلمان بچوں کو زبان اور لباس وغیرہ کے ذریعے عیسائی بنانے کی اَن تھک کوششیں کی گئیں۔ انگریز مشینری ہمیشہ سے اس بات پر حیران ہیں کہ مسلمان زبان، لباس، خوراک وغیرہ میں ہمارے ہم نوا بن جاتے ہیں مگر تبدیلی مذہب کے حوالے سے ان پرکوئی اثر نہیں ہوتا اس کے لئے وہ مدارس اسلامیہ کی تعلیم کو ذمہ دار مانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بھی امریکہ میں اسلام کے مطالعے کا شوق بڑھا ہوا ہے، وہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کیا فلسفہ ہے کہ انسان اس دنیا میں آکر عیش و آرام حاصل کرنے کے لئے تمام آسائشیں مہیا کرنے پر دن رات زور لگاتا ہے مگر مسلمانوں کو موت کا تصور ہر وقت ان کو ان آسائشوں سے دور رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ٹی وی ، صحت کے لئے بھی تباہ کن ہے جیسا کہ مشہور جرنلسٹ اور عیسائی مشن کی معزز رکن ڈاکٹر این ویگھور نے لکھا ہے۔ آپ لکھتی ہیں کہ ”سچائی تو یہ ہے کہ ٹیلی ویژن ایک طرح کی ایکسرے مشین ہے۔ انسان کے نازک اعضا پر اس کے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لڑکے لڑکیاں ٹی، وی سیٹ کے سامنے بیٹھ کر پروگرام دیکھتے ہیں۔ امریکہ کے بوسٹن نامی شہر کے صرف ایک ہسپتال میں خونی کینسر کا شکار چھ سو لڑکے اور لڑکیاں زیر علاج ہیں۔“

            مولانا سید اسعد مدنی کی تقاریر میں عورتوں کی ترقی اور بہبود پر خاص زور ہوا کرتا تھا آپ بخاری شریف کے حوالوں سے اولاد کی تعلیم و تربیت اور ان کے اخلاق و کردار کی ذمہ داری کے سلسلے میں عورتوں کی ذمہ داریوں پر بخوبی روشنی ڈالتے تھے۔

            مختصرا یہ کہ مولانا سید اسعد مدنی نے اپنی زندگی کے پچپن سال ملک و قوم کی بلالحاظ مذہب ونسل خدمت کے لئے وقف کئے۔ آپ کی شخصیت شجر سایہ دار تھی جس کے تحت معاشرہ کے سبھی لوگ فیض حاصل کرتے تھے۔ دسمبر ۱۹۵۷/ میں حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کی وفات کے بعد جو خلا ہوگیا تھا، اس کا پورا ہونا محال دکھائی دے رہا تھا۔ کسی کو گمان نہ تھا کہ اسعدمدنی کا فیض اس قدر عام ہوجائے گاکہ آپ کی قائدانہ صلاحیتیں عوام الناس کو اتنے بڑے پیمانے پر فائدہ پہنچائیں گی کہ فی الواقعی وہ مولانا حسین احمد مدنی کے صحیح جانشین کہلائیں گے۔

            آپ کی وفات پر ملک و بیرون ملک ہربڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے شخص نے جس طرح افسوس ظاہر کیا اس سے آپ کی مقبولیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ نرائن دت تیواڑی نے کہا کہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی کی روایت کی پاسداری کرکے مولانا اسعدمدنی نے جس طرح اپنی زندگی کو عملی نمونہ بناکر پیش کیا وہ قابل تحسین ہے۔ اس خاندان نے جدوجہد آزادی میں علماء کے ساتھ مل کر جو قربانیاں دیں، اس کے لئے ہم ہمیشہ ان کے مقروض رہیں گے۔

            صدرجمعیة علمائے پاکستان مولانا فضل الرحمن صاحب نے فرمایا کہ:

            عالم اسلام ایک ممتاز اوراہم شخصیت سے محروم ہوگیا۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے چلے جانے سے جو خلا پیداہوا ہے اس کا پر ہونا مشکل ہے۔

            یہی نہیں وزیر اعظم ہند ڈاکٹر من موہن سنگھ، صدر کانگریس محترمہ سونیاگاندھی اور ملک کے سبھی دانشوروں نے اس حادثہ فاجعہ پر اپنے دلی غم کا اظہار کیا۔

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد: 91 ‏، صفر 1428 ہجری مطابق مارچ2007ء

Related Posts