از: غلام رسول دیشمکھ، انجمن روڈ، بھساول
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو تمام شعبہٴ زندگی پرمحیط ہے۔ زندگی کے تمام امور و معاملات میں اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اطاعت کا نام اسلام ہے۔ اللہ کی نازل کردہ ہدایات اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دونوں مل کر شریعت بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”جو لوگ اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ نہ کریں ایسے ہی لوگ دراصل کافر ہیں۔“ (سورة المائدہ)
یعنی کسی مسلمان کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ اللہ کی نازل کردہ تعلیمات کی خلاف ورزی کرے۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس شریعت کے تابع نہ ہوجائے جسے میں لے کر آیا ہوں۔“ (حدیث)
ہر اہل ایمان کو اپنے تمام امور ومعاملات کو اسی شریعت کے تابع کردینا لازمی ہے ، اگروہ مسلمان رہنا اور مسلمان ہی مرنا چاہتاہو۔
اسے جاہلانہ اور غیراسلامی رسوم و رواج اورطورطریقوں کو چھوڑ دینا ہوگا جو شریعت اسلامی کے خلاف ہوں اوراسلامی تعلیمات سے ٹکراتے ہوں۔ یہی ترک جاہلیت اسلام میں مطلوب ہے اوراسکے خلاف عمل حرام ہے۔
شادیوں میں جن جاہلانہ اور غیر اسلامی رسوم کا رواج ہوچکا ہے، ان میں ایک ”جہیز“ ہے۔ جو مہر کی ضد میں شریعت اسلامی کے خلاف پروان چڑھ چکی ہے۔
شریعت میں لڑکی پرکوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے۔ مرد کو اپنی حسب حیثیت ضروری امور میں مال خرچ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بناء پر کہ وہ اپنے اموال خرچ کرتے ہیں۔“ (سورة النساء)
مال خرچ کرنے میں کپڑے، زیور، مہر، ولیمہ اورنفقہ شامل ہے۔ ان میں مہر فرض ہے۔ اس کی ادائیگی اگر نقد (معجل) ادا کردی جائے تو یہ افضل ہے۔ ورنہ اگرادھار (موٴجّل) ہو تو وعدہ کرنا چاہیے کہ وہ کب اور کس طرح ادا کرے گا۔ لیکن اگر نیت یہ ہو کہ لکھ لیا جائے کون دیتا ہے۔
توایسے شخص کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
”جس نے ایک مال مہر کے عوض کسی عورت سے نکاح کیا اورنیت یہ رکھی کہ اس مہر کوادا نہ کرے گا وہ دراصل زانی ہے“۔ (حدیث)
غور فرمائیں، مہر ادا نہ کرنے کی نیت کتنا سنگین گناہ ہے۔ اس وقت معاشرہ میں مہر کی حیثیت جہیز نے ثانوی کردی یا گھٹادی گئی ہے۔ مہر برائے نام اور سادگی سے رکھ لیا جاتا ہے۔ جب کہ جہیز جوحرام ہے نقد وصول ہوتا ہے۔ اس مالِ حرام کی نمائش ہوتی ہے جسے لوگ دیکھنے کے لیے آتے ہیں، اور اس کا چرچا ہوتاہے۔ مال جس قدر ملتا ہے حرص اور لالچ میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقوں سے مت کھاؤ۔“ (سورة النساء)
جہیز کی رسم کو رواج دینے اور پروان چڑھانے میں دینی رہنماؤں اور دانش وروں کا خاص کردار رہا ہے۔ یہ حضرات جہیز کے خلاف دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں، اس کی برائیاں بھی بیان کرتے ہیں اور دوسری ہی سانس میں اس کو سنت ثابت کرتے ہیں۔ اور دلیل میں حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے نکاح کی مثال پیش کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو نکاح کے وقت یہ جہیز دیاتھا اور اس کی تفصیلات یہ بتائی جاتی ہے کہ ”چادر، تکیہ، مشک، بستر، چکی وغیرہ۔“
اگرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چیزیں جہیز میں دی ہیں تو وہ سنت رسول اور شریعت اسلامی کا ایک جزء بن گئیں۔ اس کے خلاف بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؛ بلکہ اس بات کو عام کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ یہ واقعہ بیان کرکے ایک جاہلانہ رسم کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کمالِ حکمت سے بنادیاجاتا ہے۔
اصل واقعہ اس طرح ہے:
ابوطالب معذور، کثیرالاولاد اور تنگ دست تھے۔ اس لئے ان کی اولاد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان بنوہاشم میں تقسیم کردیا تھا۔ اور حضرت علی کو اپنے پاس رکھا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے کرنے کا فیصلہ کیا تو حضرت علی سے دریافت کیا کہ آپ کے پاس کیاہے؟ حضرت علی نے فرمایا کہ گھوڑا اور زرہ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زرہ بیچ دو۔ حضرت عثمان نے یہ زرہ ۴۸۰ درہم میں خریدی تھی۔اس رقم سے مندرجہ بالا چیزیں خریدی گئیں جواس وقت کی ضرورت اور معیار زندگی تھا۔ بقیہ رقم مہر اور ولیمہ وغیرہ میں استعمال کی گئی۔اگرنبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ چیزیں اپنے پاس سے دیتے بھی تواس کی حیثیت جہیز کی نہ ہوتی کیوں کہ حضرت علی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرپرورش تھے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک گروہ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ اوران کی اولاد کو مرکزِ دین بناکر سارا نظامِ دین انہی کے گرد گھمادیا ہے۔ اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر صاحب زادیوں کو بھلادیاگیا، یا ان کا ذکر نہیں آتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کیا جہیز دیاتھا۔اگر تاریخ پرنظر ڈالیں تو خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نکاح کیے، اپنی دیگر صاحب زادیوں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت امّ کلثوم کی شادیاں کیں۔ اس کے علاوہ صحابہ کرام، خلفائے راشدین، تابعین، سلف صالحین، قرون اولیٰ اور وسطیٰ میں کہیں دور دور تک یہ رسم جاہلانہ جہیز نظر نہیں آتی۔ اگر جہیز سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے تو ان ادوار میں اس کے نمونے اورمثالیں ملنی چاہئے تھیں۔
پھر یہ بات لڑکے کی مردانگی کے بھی خلاف ہے کہ وہ صنف لطیف کے دئیے ہوئے لباس پہن کر عقد کرے، اس کی لائی ہوئی چیزوں پر عیش کرے، ہونے والی شریک حیات سے مانگے یا لے۔ تو یہ اسکے فقیر ہونے کی علامت ہے۔
لڑکیوں پر دوسرا ظلم ان کے والدین کرتے ہیں۔ وہ جاہلانہ رسم جہیز کو تو خوش دلی سے ادا کرتے ہیں لیکن وراثت میں لڑکی کا حصہ ادا نہیں کرتے ہیں جو حقوق العباد میں سے ہے جسے دنیا میں نہیں ادا کیاگیا تو آخرت میں نیکیوں کی شکل میں ادا کرنا ہوگا۔
آخر ان باتوں کے ذمہ دار کون ہیں․․․․․؟
(۱) معاشرہ کی وہ لڑکیاں جو عدم جہیز کی وجہ سے بوڑھی اور برباد ہورہی ہیں؟
(۲) کیا وہ والدین ․․․․ جو لڑکی کی پیدائش کے وقت سے ہی جہیز کے تصور سے پریشان اور بعد میں جہیز کے لئے رقم جٹانے میں مقروض اور تباہ ہوجاتے ہیں؟
(۳) کیا مسلم معاشرہ ․․․․ جو بے حسی کا شکار ہے۔
(۴) کیا وہ دولت مند لوگ ․․․․․ جو دولت کی نمائش کرنا چاہتے ہیں؟
(۵) کیا وہ واعظ ․․․․ جو جہیز کے خلاف وعظ اور تقریریں کرتے تو ہیں لیکن اس ”لینے اور دینے“ میں ”وسعت قلب“ رکھتے ہیں؟
(۶) کیا وہ دینی رہنما ․․․․ جنھوں نے کمالِ حکمت سے جہیز کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت کا جزء بنادیا ہے؟
اللہ ہم سبھی کو شریعت اسلامی سے کھلواڑ کرنے سے باز رکھے۔ آمین
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد: 90 ،ذیقعدہ 1427 ہجری مطابق دسمبر2006ء