از: حضرت شیخ المشائخ مولانا الشاہ عبدالغنی پھولپوری
پہلی صفت
”وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا“ اور حضرت رحمن کے خاص بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اُن کے مزاج میں تواضع ہے، تمام امور میں اور اسی کا اثر چلنے میں بھی ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ یہ حق تعالیٰ کی عظمت سے باخبر ہیں، عظمت الٰہیہ کی معرفت اور اس کے استحضار سے دبے ہوئے چلتے ہیں، ہر وقت دھیان بندھا ہوا ہے، کہ میاں دیکھ رہے ہیں، ان کے سامنے چل رہا ہوں، اس احسانی کیفیت کے اثر سے ان کی چال سے غلامی کی شان ظاہر ہوتی ہے، ان کی رفتار کا ہون، یعنی تذلل اس امر پر مخبری کرتا ہے کہ انھوں نے اپنی بندگی اور حق تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کو پہچان لیا ہے، عَلَی الْاَرض فرمایا ہے، جس میں لطیف اشارہ یہ ہے کہ زمین تو چلنے کے لئے پیدا ہی کی گئی ہے، تمہارے قدموں سے اس کی پائمالی ہوتی ہی ہے، لیکن تم نیت اس کی پائمالی کی نہ کرو، ورنہ زمین کا تو کوئی نقصان نہ ہوگا، لیکن تمہاری عبدیت کو نقصان پہنچ جائے گا، زمین کے مقابلہ میں تمہاری چال سے اس کی حقارت نہ ظاہر ہو، جیسا کہ متکبرین اکڑکر اینٹھ مروڑ کے ساتھ چلتے ہیں جس کو حق تعالیٰ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں ”وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا“ ”اور زمین پر اتر اتے ہوئے اکڑ کر مت چلو۔“یہاں فِی الْاَرْضِ فرمایا ہے، جس سے متکبرین کی چال کا اندازِ قدم بتایا گیا ہے کہ تکبر سے زمین پر ایسی قوت سے قدم مارتے ہیں، کہ اگر ان کا قابوچلے تو زمین کے اندر قدم پہنچادیں۔
آگے فرماتے ہیں ”اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً“ (اے متکبر تو زمین پر اتراتا ہوا مت چل، کیونکہ تو زمین پر زور سے پاؤں رکھ کر نہ زمین کو پھاڑسکتا ہے، اور نہ بدن کو تان کر پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکتا ہے) پھر اس عاجزی اور ضعفِ قوت کے ساتھ اترانا عبث ہے۔
حق تعالیٰ کے خاص بندے اپنی چال سے پہچان لئے جاتے ہیں، انسان چال چلن سے پکڑلیا جاتا ہے، بُرے بھی چال چلن سے پکڑلئے جاتے ہیں، اور اللہ والے بھی پکڑلئے جاتے ہیں، مگر نیکی کے ساتھ خواہ وہ اپنے کو کتنا ہی چھپائے اور مٹائے ہوئے ہوں، مگر مردِ حقانی کی پیشانی کا نور کب چھپا رہتا ہے، پیش ذی شعور۔
اسی کو حضرت عارف رومی فرماتے ہیں۔
گُفت سِیْمَاہُم وُجُوْہٌ کردگار
کہ بود غمَّاز باراں سبزہ زار
گر ببارد شب نہ بیند ہیچ کس
کہ بود درخواب ہر نفس و نفس
تازگیٴ ہر گلستانِ جمیل
ہست بر باران پنہانی دلیل
مولانا فرماتے ہیں: (۱) ”کہ جب انوار و برکات کسی شخص میں دیکھو تو سمجھ لو کہ یہ صاحب نسبت ہے کہ آبِ نسبت سے یہ پھول کھلے ہیں، اسی کی نسبت پروردگار عالم نے حضرات صحابہ کی تعریف میں ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے: سِیْمَاہُمْ فی وُجُوْہِہِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ”یعنی صحابہ اپنے چہروں کے نور سے اور لوگوں میں پہچانے پڑتے ہیں تہجد کی نمازوں سے صاف نیت سے ان کے چہروں پر نور ہے۔“ (موضح القرآن)
(۲،۳) ”جس طرح بارش کا مخبر سبزہ زار ہوتا ہے، اگر شب کو مثلاً بارش ہو اور کوئی نہ دیکھے، کیونکہ نیند میں سب سوئے ہوئے ہوتے ہیں، اس وقت میں ہر باغ باجمال کی تازگی جو صبح کو نظر آوے گی، باران مخفی پر علامت ہوگی۔“ (از کلید مثنوی، دفتر ششم، ص:۶۶)
ہون کے معنی لغت میں ذلت کے ہیں، اسی ہون کو مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے اس شعر میں بیان فرمایا ہے:
نفس از بس مدحہا فرعون شد
کُنْ ذلیل النفس ہَوَنًا لاَ تسُرَّ
نفس اپنی تعریفوں سے فرعون ہوجاتا ہے، علاج کیا ہے؟ فرماتے ہیں کہ ذلیل النفس ہوجاؤ یعنی جب بندے ہو تو غلام کی خُوبُو تمہارے اندر سے نکلنی چاہئے، بڑائی تو صرف خدا تعالیٰ کی شان ہے، ایک بوند پانی سے جو پیدا ہوا ہو اس کے لئے تو اور بھی تکبر زیبا نہیں، خبردار! وہ ہَوْن جو عباد الرحمن کی خاص صفت ہے اس کو ہاتھ سے نہ جانے دینا، اور اپنی طرف سے کبھی سرداری مت چاہنا۔
ایک بار مولانا الیاس صاحب رحمة اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ حضرت آپ کی طرف روز بروز ایک خلق متوجہ ہوتی جارہی ہے، مولانا نے عجیب جواب ارشاد فرمایا جو بہت قابل عبرت ہے، فرمایا کہ بھائی مجھے تو ازدحامِ خلقت سے خوف معلوم ہوتا ہے کہ کہیں یہ استدراج نہ ہو۔ اللہ اکبر، اللہ والوں کی ہی شان ہوتی ہے کہ کرتے رہتے ہیں اور ڈرتے رہتے ہیں۔
حق تعالیٰ نے اپنے باخبر بندوں کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تو یہ بیان فرمائی ہے کہ اُن کی چال اور بندوں کی چال سے ممتاز ہوتی ہے، اور یہ تواضع تو ان کا طرز خاص اپنے اعمال میں ہے۔
دوسری صفت
اور دوسروں کے ساتھ ان کا طرزِعمل یہ ہے کہ وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْحَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلاَمًا ۔ اور ان سے جہالت والے لوگ جہالت کی بات چیت کرتے ہیں تو وہ رفع شر کی بات کرتے ہیں۔
مطلب یہ کہ اپنے نفس کے لئے انتقام قولی یا فعلی نہیں لیتے اور جو خشونت تادیب و اصلاح و سیاست شرعیہ یا اعلاء کلمة اللہ کے لئے ہو اس کی نفی مقصود نہیں۔ (بیان القرآن)
ظاہر ہے کہ جاہل کی بے تمیزی پر کس قدر انسان کو غصہ آتا ہے، خصوصاً جبکہ مخاطبت کے ساتھ ہو، پس باخبر بندے جاہل کی چھیڑ چھاڑ میں اپنے کو نہیں الجھاتے ہیں، تاکہ حق تعالیٰ کی یاد کے لئے فراغِ قلب سے مشغولی کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت میسر ہو، اللہ تعالیٰ کے باخبر بندے اپنے وقت کی بہت قدر کرتے ہیں، ہرلمحہٴ زندگی کو امانت الٰہیہ سمجھتے ہیں پھر اُن کی شدت محبت اس امر پر ان کو مضطر رکھتی ہے، کہ ۔
بفراغِ دل زمانے نظرے بماہ رُوئے
بہ ازاں کہ چتر شاہی ہمہ روز ہائے وہوئے
یعنی ان کا مذاق یہ ہوتا ہے کہ محبوب حقیقی پر ایک بار نظر کرلینا یعنی ذکر حق میں مشغول ہونا اس امر سے بہتر ہوتا ہے کہ سرپر شاہی چتر ہو اور ہمہ وقت ہائے و ہو یعنی شور وغل ہو۔
خلوت مع اللہ کی ترغیب ایک حدیث سے
یہ خلوت پسندی برائے ذکر دوست ہوتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
حَقِیْقٌ بِالْمَرْءِ اَنْ یَّکُوْنَ لَہ مَجَالِسُ یَخْلُوْا فِیْہَا وَیَذْکُرُ ذُنُوبَہ فَیَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ منہا، (ہب) عن مسروق مرسلاً․
”ہر شخص کو ضروری ہے کہ اس کے لئے متفرق طور پر ایسی مجلسیں بھی ہونی چاہئیں جس میں خلوت اختیار کرے اور ان میں اپنے گناہوں کو یاد کرکے ان سے استغفار کرے۔“
ہمارے مرشد پاک حضرت رحمة اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرات اہل طریق اس کا فعلاً سخت التزام اور قولاً سخت اہتمام رکھتے ہیں کہ خاص خاص اوقات خلوت کیلئے خاص رکھتے ہیں، اور ان میں ذکر اور فکر میں مشغول رہتے ہیں، اور تجربہ سے اس کی خاصیت بیان فرماتے ہیں کہ مَنْ لاَ وِرْدَ لَہ لاَ وَارِدَ لَہ (جس کے کچھ وِرد نہیں اس کے پاس کوئی وارد نہیں)
نیز تجربہ ہوا کہ القاء فی الجلوة مشروط ہے تلقی فی الخلوة کے ساتھ، (یعنی جلوت میں مضامین انہی کو القاء ہوتے ہیں جو خلوت میں اپنا معتد بہ وقت ذکر و فکر میں گذارتے ہیں)۔
اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں اللہ تعالیٰ کی محبت سے یا خوف سے بہہ پڑیں تو قیامت کے دن جبکہ شدتِ تپش سے لوگوں کے سر کھولتے ہوں گے۔
حق تعالیٰ پکاریں گے کہ کہاں ہیں وہ بندے جو مجھے تنہائی میں یاد کرکے رویا کرتے تھے، وہ میرے عرش کے سایہ میں آجائیں، رَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ․
حضرت مولانا رومی فرماتے ہیں۔
عارفاں زانند دائم آمنوں کہ گذر کردند از دریائے خوں
امن شاں از عین خوف آمد پدید لاجرم باشند ہردم درمزید
ترجمہ (۱) عارفین اسی سبب سے ہمیشہ بے خوف ہیں کہ وہ دریائے خون سے گذرچکے ہیں۔ دریائے خون سے مراد ان کے مجاہدات نفس ہیں جس کو ہمارے خواجہ صاحب نے بھی فرمایا ہے کہ۔#
مے یہ ملی نہیں ہے یوں دل اور جگر ہوئے ہیں خوں
کیوں میں کسی کو مفت دوں مے مری مفت کی نہیں
(خواجہ صاحب مجذوب)
ترجمہ (۲) ”ان کا امن عین خوف سے ظاہر ہوا (یعنی خشیت حق سے) اس لئے وہ ہردم لطف اور امید کی ترقی ہی میں رہتے ہیں“ عجیب تصرف اور عجیب قدرت ہے کہ خوف میں امید کو رکھ دیا ہے، حالانکہ دونوں متضاد امر ہیں۔
حق تعالیٰ کے تصرفات عجیبہ
انہی تصرفاتِ عجیبہ کے سلسلہ میں مولانا نے یہاں ایک عجیب اور مفید بات بیان فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کی قدرت کو دیکھو کہ۔
گمرہی را منہج ایمان کند کژروی را مقصد احساں کند
وہ بعض اوقات گمراہی کو طریق ایمان کا کردیتے ہیں اور اخلاص سبب کجروی کا ہوجاتا ہے، اس طرح سے کہ گمراہی مثلاً سبب ہوئی کسی مقبول شخص کے ایذاء پہنچانے کے لئے اس کے پاس جانے کا اور وہاں پہونچنا سبب ہوگیا اس کے کسی کمال کی طرف دل منجذب ہونے کا اور وہ سبب ہوگیا ایمان کا اور اس کا عکس اس طرح کہ کبھی اخلاص پر نظر کرکے عُجب میں مبتلا ہوگیا، اور عجب کی نحوست سے قرب سلب کرلیاگیا۔ (کلید مثنوی، جلد۶، ص۴۵۴)
صاحب گلزار ابراہیم حق تعالیٰ کے انہی تصرفات عجیبہ کو بیان فرماتے ہیں۔
لاوے بُت خانہ سے وہ صدیق(۱) کو
کعبہ میں پیدا کرے زندیق کو(۲)
اہلیہٴ لوط نبی ہو کافرہ
زوجہٴ فرعون ہووے طاہرہ(۳)
زادہٴ آذر خلیل اللہ ہو،
اور کنعاں نوح کا گمراہ ہو
یعنی آذر بت پرست کا بیٹا ابراہیم خلیل اللہ ہو اور نوح پیغمبر کا کنعان کافر ہو۔
حضرت عارف رومی ان تصرفاتِ عجیبہ کی منجملہ اور حکمتوں کے ایک حکمت یہ بیان فرماتے ہیں کہ۔#
تانبا شد ہیچ محسن بے وجا
تا نہ گردد ہیچ خائن بے رجا
یعنی حق تعالیٰ ایسا اس لئے کرتے ہیں تاکہ کوئی نیکی کرنے والا بے خوف نہ رہے اور کوئی گنہگار ناامید نہ رہے (کلید مثنوی جلد۶، ص ۴۵۴)۔
بادشاہی زیید آں خلاّق را
بادشاہاں جملگی عاجزدرا
بادشاہی اسی خلاق کو زیبا ہے، تمام بادشاہ اس کے سامنے عاجز ہیں۔
بادشاہاں مظہر شاہی حق
فاضلاں مرآت آگاہی حق
تمام بادشاہ مظہر ہیں بادشاہی حق کے تمام فاضل آئینہ ہیں علم حق کے۔ (کلید مثنوی دفتر۶ص۱۷۴)
مسئلہ قضاء و قدر
لیکن حق تعالیٰ کسی کو کافر اور جہنمی بناکر نہیں پیدا فرماتے، اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ظلم سے پاک ہے، فرماتے ہیں وَمَا اَنَا بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ (اور میں بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں) (پ:۲۶، سورئہ قٓ)
تقدیر کا مسئلہ نہایت آسان ہے، حق تعالیٰ نے حضرت رحمة اللہ علیہ کی برکت سے مجھے اس مسئلہ میں شرح صدر عطا فرمادیا ہے، میں اس مسئلہ کو ایک سوال سے سمجھاتا ہوں۔
وہ سوال یہ ہے کہ بندے دنیا میں پیدا ہوکر جو اعمال اور افعال اپنے ارادہ اور اختیار سے کرنے والے تھے ان کا علم خدا تعالیٰ کو تھا یا نہیں؟ اگر نہیں تھا تو وہ خدا ہی کیسا جس کا بندوں کے اعمال سے بے خبر اور جاہل ہونا ثابت ہوجاوے، جہل تو شان خدا وندیت کے منافی ہے۔
پس لامحالہ یہی جواب دینا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کو اپنے تمام بندوں کے تمام اعمال کا علم تھا، پس اِسی علم الٰہی کا نام تقدیر ہے، جس کے متعلق حق تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ یہ اپنے ارادہ اور اختیار سے مرتے دم تک کفر اور شرک سے تائب نہ ہوگا، اس کو جہنمی لکھ دیا۔
لوگوں کو یہ دھوکہ ہوجاتا ہے کہ وہ علم الٰہی کو امر الٰہی سمجھ لیتے ہیں، حق تعالیٰ نے کفر کا امر نہیں فرمایا کہ تم کافر ہوجاؤ، البتہ تمہارے کفر کا علم ضرور تھا، کہ تم ایسا کروگے وہی لوح محفوظ میں لکھ دیا، علم الٰہی اور چیز ہے امر الٰہی اور چیز ہے۔
پھر تقدیر کی دو قسمیں ہیں، ایک تقدیر معلق دوسری تقدیر مُبرم، تقدیر مبرم بدون کسی شرط کے ہوتی ہے، اور تقدیر معلق مشروط ہوتی ہے کسی شرط سے اور شرط کا علم حق تعالیٰ ہی کو ہوتا ہے، اسی کو فرماتے ہیں:
یَمْحُو اللّٰہُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہ اُمُّ الْکِتَاب․
”خدا تعالیٰ جس حکم کو چاہیں موقوف کردیتے ہیں اور جس حکم کو چاہیں قائم رکھتے ہیں اور اصل کتاب انہی کے پاس ہے۔“(پ:۱۳، سورئہ رعد)
یعنی بعض تقدیر کو اللہ تعالیٰ کسی خاص شرط پر معلق رکھتے ہیں، جب وہ شرط علم الٰہی کے مطابق وجود میں آجاتی ہے، تو اس کو مٹا دیتے ہیں، مثلاً کسی کو جہنمی لکھ دیا اور علم الٰہی میں یہ قضا مشروط تھی، کہ مثلاً جب ہمارا فلاں بندہ اس کے لئے دُعاء کرے گا، تو اس کی اس تقدیر کو مٹاکر جنتی کردوں گا، یہ ایک تمثیل ہے تاکہ بات واضح طور پر سمجھ میں آجائے۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: ”خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ“ (اللہ نے مہر لگادی کافروں کے دلوں پر) تو اس شبہ کا جواب حق تعالیٰ ہی نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے: ”بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ“ (پ۶)
اس میں حق تعالیٰ نے اس مہر کی وجہ بیان فرمادی کہ ان کی مسلسل سرکشی جب اس حد تک پہنچ گئی کہ ان کے دل بالکل سیاہ ہوگئے اور علم الٰہی میں قبولِ ہدایت کی صلاحیت انہوں نے اپنی اختیاری طغیانی اور سرکشی سے مفقود کردی، تو حق تعالیٰ نے سزاءً ان کے دلوں پر مہر بھی فرمادی، اور یہ ظلم نہیں ہے، ظلم تو اس وقت تھا جبکہ پہلے ہی سے مہر کردی جاتی، لیکن حق تعالیٰ کی رحمت نے ایک صلاحیت تو عالم ازل میں اَلَسْتُ بَرَبِّکُمْ کے سوال کے وقت ارواح میں پیدا فرمائی، پھر اس صلاحیت اور استعداد کی ترقی کے لئے عقل کو بالغ فرمایا، بالغ کے معنی عربی میں پہنچنے والے کے ہیں، پس عقل کے بالغ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب عقل کی استعداد اس درجہ کو پہنچی کہ احکامِ شریعت کا بار اٹھاسکتی ہے، اسی سے پتہ چلتا ہے کہ احکامِ شریعت سب عین عقل ہیں، کوئی امر خلافِ عقل نہیں، اگر خلاف عقل ہوتے تو ان کا بار نابالغوں پر بھی رکھا جاتا، عقل کا بلوغ جس عالم سے آتا ہے اسی عالم سے احکام شرعیہ بھی آتے ہیں، پس مَا بِہِ التَّکْلِیْفُ یعنی عقل بالغ میں حق تعالیٰ ایک استعداد خاص پیدا فرماکر اس پر مَابِہِ التَّکْلِیْفُ یعنی اپنے احکام کا بار رکھ دیتے ہیں، لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَہَا، ”اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا ہے، مگر اسی کا جو اس کی طاقت میں ہو“ پھر اس عقل بالغ کی مدد کے لئے حق تعالیٰ نے ہر زمانہ میں نبی اور رسول بھیجا، وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلاّخَلاَ فِیْہَا نَذِیْرٌ۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”اور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گذرا ہو۔“ (پ۲۲، سورئہ فاطر)
پھر ان کی نبوت و رسالت کی معرفت کے لئے ان کو معجزے اور آسمانی کتابیں اور صحیفے عطا فرمائے، پیغمبر آخر الزماں کے بعد قیامت تک ہر صدی میں ایک مجدد پیدا ہوتا رہے گا، جو امت کے ہر شعبہٴ دین کی گمراہی کی اصلاح کرتا رہے گا، حق تعالیٰ کو نعوذ باللہ کافر بنانا مقصود ہوتا تو ہدایت کے اتنے اسباب پیدا فرمانے کی کیا ضرورت تھی۔ فرعون، نمرود، شداد کو ا گر حق تعالیٰ جہنمی پیدا فرماتے تو ان کے لئے ان کی جنت کیوں پیدا فرماتے ۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ ہر شخص کے لئے اس کی جنت اور اس کی جہنم کو حق تعالیٰ نے پیدا فرمایا، کافر جہنم میں داخل کیا جائے گا تو اس کی جنت دکھائی جائے گی اور کہا جائے گا اگر تو مومن ہوتا تو تیرا ٹھکانا یہاں ہوتا۔
اسی طرح مومن جب جنت میں داخل ہوگا تو اس کی جہنم دکھائی جائے گی، اور کہا جائے گا اگر تو کافر ہوتا تو تیرا ٹھکانا یہاں ہوتا۔ کافروں کے خلود فی النار یعنی دائمی عذاب کی سزا پر بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ ان کا کفر اور شرک تو ایک محدود زندگی تک تھا پھر سزا غیرمحدود کیوں تجویز ہوئی؟
تو حضرت رحمة اللہ نے اس کا عجیب جواب فرمایا ہے، فرمایا کہ کفر اور شرک کی حقیقت بغاوت ہے، اور قاعدہ سلاطین دنیاوی کا بھی یہ ہے کہ باغی کو جلاوطن عبور دریائے شور عمر کے لئے کردیتے ہیں، جس سے ظاہر ہوا کہ بغاوت کی سزا غیرمحدود ہے، اور یہ امر بمقتضائے عقل ہے، دوسرے یہ کہ حق تعالیٰ کے تمام صفات غیرمتناہیہ ہیں، اور کافر حق تعالیٰ کی ذات اور تمام صفات غیر متناہیہ کا حق ضائع کرتا ہے انکار سے، پس سزا بھی غیرمتناہی ہونی چاہئے۔
نیز کافر کا ارادہ ہمیشہ اپنی طرف سے کفر ہی پر قائم رہنے کا ہوتا ہے، اگر ہمیشہ زندہ رہے تو ہمیشہ باغی رہنے کا عزم رکھتا ہے، اور مومن اس کے برعکس ہمیشہ اطاعت کا ارادہ رکھتا ہے۔
حق تعالیٰ کی ذات پاک ظلم سے پاک ہے، بعض لوگوں کو اس آیت سے شبہ ہوا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْہِمْ ءَ اَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لاَیُوٴْمِنُوْنَ․
”اے ہمارے رسول ان کے حق میں آپ کا ڈرانا یا نہ ڈرانا، دونوں برابر ہیں، یہ کسی حالت میں بھی ایمان نہ لاویں گے۔“
تو اس آیت میں حق تعالیٰ نے کافر ہونے کا حکم نہیں فرمایا ہے، اپنا علم ظاہر فرمایا ہے، اگر یہ علم نہ ہو تو مرتبہٴ ذات میں جہل لازم آجائے، پھر ایسا خدا، خدا ہی نہیں بن سکتا ہے۔
بعض لوگوں کو اس آیت پر شبہ ہوا کہ یُضِلُّ بِہ کَثِیْرًا وَّ یَہْدِیْ بِہ کَثِیْرًا ”گمراہ کرتے ہیں بہتوں کو اس مثال کی وجہ سے اور ہدایت کرتے ہیں اس کی وجہ سے بہتوں کو۔“ تو اس کا جواب اسی آیت کے بعدہی موجود ہے، فرماتے ہیں:
وَمَا یُضِلُّ بِہ اِلاَّ الْفَاسِقِیْنَ o اَلَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہ وَ یَقْطَعُوْنَ مَا اَمَرَ اللّٰہُ بِہ اَنْ یُّوصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٓئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ․
”اور گمراہ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ اس مثال سے کسی کو مگر جو توڑتے رہتے ہیں اس معاہدہ کو جو اللہ تعالیٰ سے کرچکے تھے اس کے استحکام کے بعد اور قطع کرتے رہتے ہیں ان تعلقات کو کہ حکم دیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو وابستہ رکھنے کا اور فساد کرتے رہتے ہیں یہ لوگ زمین میں، بس یہ لوگ ہیں پورے خسارے میں پڑنے والے۔“
ان آیتوں کے اندر حق تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ ہم انہی لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں جن پر اتنے مقدمات قائم ہوجاتے ہیں:
(۱) اللہ تعالیٰ کے معاہدے کو توڑتے رہنا۔
(۲) جن تعلقات کو قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا اس کو قطع کرتے رہنا۔
(۳) زمین پر فساد کرتے رہنا۔
کرتے رہنے کا خوب ترجمہ حضرت نے فرمایا ہے جس سے یہ ثابت ہوا کہ سرکشی اور طغیانی کو اپنا شیوہ ہی بنالیتے ہیں، اپنے کرتوت سے انھوں نے اپنے کو اندھا، گونگا، بہرہ بنالیا، فرماتے ہیں: اَنُلْزِمُکُمُوْہَا وَاَنْتُمْ لَہَا کَارِہُوْنَ، حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک تبلیغ کی اس طویل مدت میں صرف ۸۰ یا ۸۲ انسان مسلمان ہوئے تو فرماتے ہیں کہ کیا میں اس ہدایت کو چپکادوں، درآنحالیکہ تمہیں ہماری باتیں ناگوار معلوم ہوتی رہیں، اور میں ایسا شیدائی ہوں کہ ساڑھے نو سو برس تک تبلیغ سے تھکا نہیں، کفار کہتے تھے سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا، ”سن لیا لیکن نافرمانی کریں گے۔“ جب ان کے دل سرکشی کرتے کرتے سیاہ اور زنگ آلود ہوگئے اور کسی کام کے نہ رہے تب حکم ہوا کہ اب تالا چڑھا دو، اب اللہ کے تالے پر کون کنجی لگاسکتا ہے۔
کلاّ بَلْ، رَاْنَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَّا کَانُوا یَکْسِبُوْنَ ط بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ․
حق تعالیٰ فرماتے ہیں ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ بیٹھ گیا ہے یہ تالہ انہی کے کفر کے سبب سے چڑھا ہے۔ کافر بناکر نہیں پیدا کئے گئے تھے۔
وحَاقَ بِہِمْ مَا کَانُوْا بِہ یَسْتَہْزِءُ وْنَ․
اور جس کی وہ ہنسی کیا کرتے تھے اسی نے ان کو آن گھیرا۔
خلاصہ یہ کہ تقدیر نام ہے علم الٰہی کا جو کچھ ہم اپنے ارادے سے خیر وشر کرنے والے تھے انہی کو حق تعالیٰ نے لکھوادیا، کیونکہ علم الٰہی سے ایک ذرّہ بھی غائب نہیں ہوسکتا۔
پس تقدیر کے اس صحیح مفہوم کی بنیاد پر نہ تو کوئی بندہ شرپر مجبور ہے نہ خیر پر۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ایک پیر اٹھاؤ اس نے اٹھالیا پھر فرمایا کہ دوسرا پیر بھی اٹھاؤ، اس نے مجبوری ظاہر کی، پس فرمایا کہ سمجھ لو کہ بندہ اتنا مختار ہے اور اتنا مجبور ہے۔ حضراتِ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ جنتی اور جہنمی کی پہچان کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ ”جس کے اعمال اچھے دیکھو تو سمجھ لو کہ یہ جنت کے راستہ پر چل رہا ہے، اور جس کے اعمال برے دیکھو تو سمجھ لو کہ جہنم کے راستہ پر چل رہا ہے۔“
ہمارے حضرت مرشد پاک رحمة اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ خیر اور شر دو نسبتیں ہیں ایک خلق کی دوسرے کسب کی، خیر میں تو مراقبہ ان کی طرف کی نسبت کا کرے، کسب کا استحضار نہ کرے اور شر میں مراقبہ اپنی طرف کی نسبت کا خلق کا نہ کرے، غرض خیر میں تو نسبت خلق کو مستحضر کرو، اور شر میں نسبت کسب کو مستحضر کرو، یعنی ادب یہ ہے ہر خیر کی نسبت خدا کی طرف کرنا چاہئے، اور ہر شر کی نسبت اپنی طرف کرنی چاہئے۔
مَا اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَا اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِکَ ․
”اے انسان تجھ کو جو کوئی خوشحالی پیش آتی ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور جو کوئی بدحالی پیش آوے وہ تیرے ہی سبب سے ہے۔“
اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس آیت سے قبل قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدَِ اللّٰہِ فرمایا ہے، یعنی آپ فرمادیجئے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ راحت اور تکلیف کا پہنچانے والا درحقیقت اللہ ہے جو راحت کسی کو پہنچتی ہے وہ اس کا احسان ہے، اور جو تکلیف پہنچتی ہے وہ تمہارے گناہوں کی نحوست ہے، اس صورت میں آیت کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ اور وَمَا اَصَابَکَ مِنْ سَیْئَةٍ دونوں میں مطابقت ہوگئی، یعنی سختی کی نسبت آدمی کی طرف اس لئے ہوئی ہے کہ اس کے گناہوں کی نحوست پہنچتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے نسبت کی گئی کہ ہر چیز میں اس کا حکم چلتا ہے۔
حضرت شاہ عبدالقادر صاحب محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں کہ بندہ کو چاہئے نیکی کو اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھے اور تکلیف اپنی تقصیر سے۔
بعض لوگوں کو وَمَا تَشَآءُ وْنَ اِلاَّ اَنْ یَّشَاءَ اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ سے شبہ ہوتا ہے، کیونکہ اس آیت میں حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہاری مشیت ہماری مشیت کے تابع ہے۔
تو اس کا جواب ہمارے حضرت رحمة اللہ علیہ نے یہ دیا ہے، کہ مشیت عباد معلول ہے مشیت ربّ سے، اور بندوں کے افعال بمشیت بندہ کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ مشیت ثانوی افعال عباد کی علت قریبہ ہے اور مشیت ربّ علت بعیدہ ہے، اور یہ نسبت علت قریبہ ہی کی طرف کرتے ہیں، فرقہٴ قدریہ کی نگاہ محض مشیت اولیٰ پر ہوئی، اور جبریہ کی نگاہ مشیت ثانیہ محض پر ہوئی، یہ دونوں فرقے گمراہ ہیں، مذہب حق وہی ہے جو جامع ہے، اور ناظر ہے دونوں مشیتوں پر، یہ ایک علمی تحقیق ہے جو صرف اہل علم کا حصہ ہے۔
تیسری صفت
عباد الرحمن یعنی ان باخبر بندوں کی دو صفتوں کا بیان ہوچکا تھا، ایک صفت تو یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا یعنی زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔
دوسری صفت اِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلاَمًا جب ان سے جہالت والے لوگ بات کرتے ہیں تو وہ رفع شر کی بات کہتے ہیں۔
تیسری صفت حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ان باخبر بندوں کی تیسری پہچان یہ ہے کہ وہ راتوں کو اپنے ربّ کے آگے سجدہ اور قیام یعنی نماز میں لگے رہتے ہیں۔
بندوں کے ساتھ تو ان کا معاملہ وہ تھا جو بیان ہوا کہ کہیں سے عبدیت کی شان میں فرق نہیں آنے پاتا اور اپنے خالق و معبود حقیقی کے ساتھ ان کا یہ معاملہ ہے کہ شدتِ محبت کے سبب رات کے منتظر رہتے ہیں کہ کب سورج ڈوبے اور ہم دن کے جھگڑوں سے فارغ ہوکر فراغِ قلب سے اپنے محبوب حقیقی کی یاد میں لگ جائیں۔
اس آیت میں سجدہ کو قیام پر مقدم فرمایا ہے، حالانکہ قیام پہلے ہوتا ہے سجدہ کا وقوع بعد از قیام ہوتا ہے، تو اس تقدیم میں حق تعالیٰ نے ان کی ایک باطنی کیفیت یعنی ان کی شدتِ محبت کو بیان فرمایا ہے، کہ یہ باخبر بندے میرے در پر جبیں سائی کے لئے اور اپنے کو مٹانے کے لئے حالت قیام ہی سے مشتاق اور منتظر رہتے ہیں، یعنی ہیں تو قیام میں لیکن دل سجدہ کا منتظر ہے کہ کب وقت آئے گا کہ اپنے اللہ کے سامنے اپنی پیشانی زمین پر رکھ کر اپنے کو مٹادوں، اور قاعدہ ہے کہ ”انتظار الصلوٰة من الصلوٰة“ یعنی نماز کے انتظار میں جو ہوتا ہے وہ نماز کے اندر شمار ہوتا ہے، اس کو ثواب نماز کا ملتا ہے۔
پس حالت قیام میں انتظارِ سجدہ کے سبب حق تعالیٰ نے ان کو سجدہ ہی کے حکم میں فرمادیا، اس آیت میں میاں نے اپنے باخبر بندوں کی خاطر فرمائی ہے، کہ اگرچہ ابھی سجدہ میں نہیں گئے لیکن سجدہ کے انتظار میں تو ہیں، اس کی رعایت سے سُجَّدًا کو قِیَامًا پر مقدم فرمادیا۔
راتوں میں اللہ والوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جو لطف آتا ہے اس کو دوسرا کیا جان سکتا ہے، کیونکہ وہ لذت ایک مخفی راہ سے حق تعالیٰ عطا فرماتے ہیں۔
درمیان شمس و دین روشن رہے
ہست روز نہا نشد زاں آگہے
اس آفتاب حقیقی اور ان کے قلب کے درمیان میں ایک مخفی راستہ ہے جس سے حق تعالیٰ کے نفحاتِ کرم پے درپے آتے رہتے ہیں، دوسرے لوگ اس دریچہٴ باطنی سے آگاہ نہیں ہیں، حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
تَتَجَافیٰ جُنُوْبُہُمْ عَنِ المَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ o فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ․
ان باخبر بندوں کے اعمال کا حال یہ ہے کہ ”رات کو ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں (خواہ فرض عشاء کے لئے یا تہجد کے لئے بھی، اور اس سے سب روایتیں جمع ہوگئیں، اور خالی علیحدہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اس طور پر علیحدہ ہوتے ہیں کہ) وہ لوگ اپنے ربّ کو ثواب کی امید سے اور عذاب کے خوف سے پکارتے ہیں، (اس میں نماز، اور دعاء اور ذکر سب آگئے) اور ہماری دی ہوئی چیزو ں سے خرچ کرتے ہیں، سو کسی شخص کو خبر نہیں جو جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ایسے لوگوں کے لئے خزانہٴ غیب میں موجود ہے۔
ہر چند کہ اس آیت میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان خزانہٴ غیب میں فرمایاگیا ہے مگر دنیا ہی میں اس ٹھنڈک کا فیض ملنا شروع ہوجاتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں قُرَّةُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوةِ ”میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔“
اور ارشاد فرمایا اِنَّ الْمُصَلِّیْ یُنَاجِیْ رَبَّہ ”مصلِّی نماز میں اپنے رب سے چپکے چپکے سرگوشی کرتا ہے۔“
ان نصوص سے ظاہر ہے کہ نماز محل مناجات اور قرة عین ہے۔
حضرت شاہ فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی رحمة اللہ علیہ نے ہمارے مرشد پاک رحمة اللہ علیہ سے ایک مخصوص مجلس میں ارشاد فرمایا کہ سب سے کہنے کی بات نہیں ہے،مگر تم سے کہتا ہوں کہ جب میں سجدہ میں جاتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ میاں نے ہمارا پیار کرلیا۔
ہمارے حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی دادا پیر رحمة اللہ علیہ بعض راتوں کو تمام رات ایک سجدہ میں گذار دیتے اور حالت سجدہ میں یہی شعر پڑھتے اور روتے۔#
اے خدا ایں بندہ را رسوا مکن
گر بدم من سرِّ من پیدا مکن
اے خدا اس بندہ کو رسوا نہ فرمائیے اگرچہ میں برا ہوں لیکن میرے عیوب کو خلق پر ظاہر نہ فرمائیے۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9، جلد: 90 ،شعبان1427 ہجری مطابق ستمبر2006ء