حرفِ آغاز

حبیب الرحمن اعظمی

مغرب بالخصوص امریکہ کی تاریخ گواہ ہے کہ انسانوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر اپنی درازیٴ قد کااظہار و اعلان مغرب کا قومی شیوہ ہے، قاہرانہ تسلط اور موت کی زبان میں گفتگو ان کا تہذیبی مزاج ہے، بہیمیت و درندگی ان کی سرشت میں داخل ہے، دہشت گردی و خون آشامی ان کی قدیم روایت اور دل پسند مشغلہ ہے، ظلم و فساد کی تخم ریزی وآبیاری ان کی پیدایشی خصلت ہے۔

خونِ انسان کے خوگر یہی وہ آدمی نما درندے ہیں جن کے خونی پنجوں سے رہوڈیسیا کی سرزمین رنگین ہوچکی ہے، یہی وہ جورپیشہ قوم ہے جس کے جور مسلسل سے کینیا کا نالہ وشیون تاریخ کے کانوں سے آج بھی سنا جاسکتا ہے۔ یہی وہ سفاک گروہ ہے جس نے جنگ عظیم میں کروڑوں انسانوں کوموت کی وادی میں دھکیل دیا، اور دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے ایٹم بم کا استعمال کرکے ہیروشیما اور ناگاساکی کو جہنم کدہ بنادیا، جس کے زہریلے اثرات سے آئندہ آنے والی نسلیں بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں، انسانی لہو کی رسیا یہی وہ وحشی جماعت ہے جس کا ذوق خوں آشامی تیس سال تک موت وہلاکت کا طوفان بن کر ویتنامیوں پر مسلط رہا۔

انہی تباہی و بربادی کے علمبرداروں کے ہاتھوں آج افغانستان و عراق میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ انسانیت لہو کے آنسو بہارہی ہے، کون نہیں جانتا کہ حیات انسانی کے ان دشمنوں نے افغانستان و عراق پرایسے خطرناک اور عام تباہی مچانے والے ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے کہ انسانی تاریخ میں اب تک لڑی گئی جنگوں میں اس کی کوئی مثال نہیں۔

اسی دہشت نواز اور فساد انگیز قوم کا متبنّیٰ اسرائیل جس کا وجود یہودی نواز دہشت گردیوں کا مرہون منت ہے، ایک طویل عرصہ سے مجبور و نہتے فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہا ہے۔ اب اس نے امریکہ کی شہ پر اپنی دہشت گردیوں کے دائرہ میں مزید وسعت دیدی ہے اور لبنان جو کئی دہائیوں کی خانہ جنگیوں سے کسی طرح نجات حاصل کرکے استحکام اور تعمیر و ترقی کی جانب قدم بڑھا رہا تھا ، تادم تحریر اس کی چیرہ دستیوں اور سفاکیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے ۔ اسرائیل کی بے تحاشا بمباریوں سے لبنان کی شہری تنصیبات، سڑکیں، پل، بجلی گھر، ریلوے اسٹیشن وغیرہ بالکل تباہ ہوگئے ہیں ہزاروں بے گناہ شہری جن میں بچوں اور عورتوں کی خاصی تعداد شامل ہے اب تک اسرائیل کی سفاکیوں کی نذر ہوچکے ہیں۔ لبنان میں اسرائیل کے ہاتھوں انسانی جانوں کی یہ ارزانی کوئی نئی بات نہیں ہے ۱۹۸۲/ میں بھی اس کھلے مہار دہشت گرد نے لبنان پر حملہ کرکے اس کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کرلیا تھا جس پر ۱۸ سال تک قبضہ جمائے رہا اس وقت بہانہ فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کا تھا اورآج بہانہ حزب اللہ اور اس کے ہاتھوں دواسرائیلی سپاہیوں کے اغوا کا ہے، کیا عالمی سیاست میں دوسپاہیوں کا اغوا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی پاداش میں لبنان پر ہوائی حملہ کرکے اسے تباہی کے دہانے پر پہنچادیا جائے؟

اوراس وقت صورت حال یہ ہے کہ سلامتی کونسل اور یورپی ممالک جو اپنے آپ کو جمہوریت اور انسانیت کا بلاشرکت غیرے واحد ٹھیکیدار سمجھتے اور سمجھاتے ہیں اسرائیل کی اس ننگی دہشت گردی کا لطف اٹھارہے ہیں، دوسری طرف عرب لیگ اور تنظیم اسلامی کانفرنس ”ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم“ کا مصداق بنی ہوئی ہے۔ خود ہمارے ملک ہندوستان کی خارجہ پالیسی تذبذب کا شکار ہے اس لئے اس کی آواز میں بھی کوئی دم نہیں۔

لیکن ہم ہندوستان کی بے اثری کا رونا کیا روئیں جبکہ خود مسلم ممالک اس قدر ناتواں بنے ہوئے ہیں کہ ان میں صدائے احتجاج بلند کرنے کا بھی حوصلہ نہیں اس وقت دنیا کے نقشہ میں ۶۱ مسلم ممالک ہیں جن کے پاس مجموعی طور پر ۶۶ لاکھ ۷۶ ہزار پانچ سو ۶۰ ٹرینڈ فوجی ہیں جب اتنی بڑی فوج کے مسلم ممالک کسی ملک کا دفاع نہیں کرسکتے اور امریکہ کو للکار کر نہیں کہہ سکتے کہ آپ نے یا آپ کے لے پالک اسرائیل نے آج کے بعدکسی ملک کی طرف دیکھا تو پوری دنیا ویتنام بن جائے گی۔ امریکہ اور اسرائیل ایک ایک کرکے تمام عرب ملکوں کو افغانستان و عراق بنانے پر تلے ہیں اور تمام عالم چپ چاپ تماشا دیکھ رہا ہے۔ آج کوئی مسلم ملک کسی عیسائی ملک پرحملہ کردے تو پورا امریکہ اور یورپ متحدہوکر اس مسلم ملک کو گھنٹہ دو گھنٹہ میں صفحہٴ ہستی سے مٹادیں۔ افسوس کہ ہم میں ظالم کو ظالم کہنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی، فالی اللّٰہ المشتکیٰ۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8، جلد: 90 ‏،رجب 1427 ہجری مطابق اگست2006ء

Related Posts