ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی، ۵۱/گاندھی روڈ، دہرہ دون
انسانیت کے نام نہاد رہنما اپنی ناقص عقل وعلم اور مفاد پرست ایجنڈہ کے تحت پوری نوع انسانیت کو عموماً اور خواتین کو کس منظم اور مربوط انداز میں ذلیل کررہے ہیں وہ حالیہ دنوں کے سیکس اسکنڈلوں اور موبائیل کیمروں کے ذریعہ فحش مناظر کی فروخت سے ظاہر ہے۔ اس میں سب سے خطرناک رجحان اورمشترکہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی تمام ذلیل حرکتوں کے جال کے تانے بانے میں سماج کا اعلیٰ ترین طبقہ ملوث ہے۔ سری نگر کا سیکس اسکنڈل اور اترانچل کا سیکس اسکنڈل اس کی بہترین مثال ہے۔ جس میں سماج کو کنٹرول کرنے والی تمام طاقتوں عدلیہ، پولیس، بی․ ایس․ ایف، سرمایہ دار، لیڈران، وزراء سبھی شامل تھے اور سبھی قوم کی بیٹیوں کی عصمت وعزت کی دھجیاں مل کر بکھیر رہے تھے۔ اترانچل میں بھی ایک ایسے ہی اسکنڈل میں وزیراعلیٰ کا آفس بھی ملوث ہے ایسا خود ملزم ڈاکٹر آنند سمن شگو نے بیان دیا ہے۔ اور اس نے تو مبینہ طورپر بالواسطہ خود بزرگ وزیر اعلیٰ کو بھی گھسیٹ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ بیماری یا برائی ہے تو سماج کا ہر طبقہ اس میں کیوں ملوث ہے؟ یہ اتنا عام کیوں ہورہا ہے؟ گذشتہ سالوں میں اس طرح کے اسکنڈلوں تمام بڑی سماجی، سیاسی، فلمی ہستیوں کے نام آئے ہیں کچھ دن ہنگامہ رہا اور بعد میں سب نارمل ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ فحش ومنکرات، بے حیائی کے جس عالمی شیطانی ایجنڈہ پر کام ہورہا ہے وہ کافی کامیابی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ اور سماج میں ایک بڑے موثر طبقہ میں اس کو ایک طرح کے ”شوق“ کے طور پر قبول کرلیاگیا ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اسے اب ترقی، اور روشن خیالی کے ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے۔ ایسا نہ کرنے والے اب دھیرے دھیرے ”جاہل“ ، ”غیر تہذیب“ اور تہذیبی انتہا پسند بتائے جاتے ہیں۔ اس برائی کو قبول عام بنانے میں سب سے بڑا ذریعہ ہندی فلموں، ٹی․ وی سیریل اور انگلش اور ہندی پرنٹ میڈیا کا ہے۔ خصوصاً انگلش میڈیا کے لئے اور ہندی مڈیا کے لئے یہ تو”مقدس“ مشن کا درجہ رکھتا ہے کہ ایک طرف وہ ان سیکس اسکنڈلوں کو چٹخارہ لے کر شائع کرے دوسری جانب اپنے اخباروں کے کئی صفحات خصوصاً سرورق کم سے کم ایک قوم کی بیٹی کا انتہائی ”فحش“ اور ہیجان انگیز فوٹو بھی شائع کرے۔ ظاہر ہے کہ شیطان کے ان کارندوں کی دن رات کی کاوشوں اور جہدمسلسل نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا ہے اور سماج کے موثر اوراعلیٰ طبقہ کی اکثریت اب اِن سب بے حیائیوں کو برائی سمجھتی نہیں ہے۔ خصوصاً حرام کمائیوں اور کمیشنوں اور رشوتوں کے ذریعہ امیر ہونے والے نودولتیے طبقہ کے لئے تو یہ ایساہی ہے جیسے ہررات نئی بوتل کھول لی ویسے ہی ہر رات کسی غریب، مجبور کی عزت کو تار تار کردیا۔ حالیہ دنوں میں شائع ہونے والے بہت سے اخبارات میں رائے عامہ کے جائزے اس کڑوی حقیقت کو ثابت کرتے ہیں کہ اعلیٰ طبقہ اور درمیانہ طبقہ تیزی سے غیر اخلاقی جنسی تعلقات کو صرف (Fun) اور (Pleaduse) موج مستی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا کے ایک جائزہ کے مطابق ٪۶۵ نوجوان لڑکیوں نے رائے دی کہ اگر انہیں اپنا کام نکالنے کے لئے کسی کو اپنا جسم پیش کرنا پڑے تو انہیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں معلوم ہوتا۔
بات اور اخلاقی گراوٹ کامعاملہ اتنا سنگین ہوگیاہے کہ بھارت سرکار کے پالیسی ساز اداروں کے ذمہ دار بھی اب جسم اور عزت و عصمت کی خرید و فروخت کو باقاعدہ ایک پیشہ کے طور پر قبول کرنے کی سوچ رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ پلاننگ کمیشن کی ۱۱ ویں پنج سالہ تجاویز میں اس بابت ایک سفارش سرکاری سطح پر ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے۔ جس کو پیش کرنے میں کمیشن کی خاتون رکن ڈاکٹر سیدہ حمیدین پیش پیش ہیں۔ نیشنل ایڈس کنٹرول آرگنائزیشن اور بہت سی غیرسرکاری رضاکار تنظیمیں اس کی پہلے سے ہی مانگ کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس عصمت فروشی کو باقاعدہ دھندا بنانے سے اس پر ”کوالٹی کنٹرول“ رکھنا ممکن ہوگا جس سے ایڈس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملے گی (بحوالہ شاہ ٹائمس ۲۰/۶/۲۰۰۶/اپندرپرساد)۔
حالانکہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ افریقہ اور کشمیر میں ایڈس کے خلاف لڑائی میں سب سے موثر رول مذہب اور مساجد نے ادا کیا ہے اوراُن کے اس رول کو عالمی تنظیم برائے صحت نے قبول بھی کیاہے۔ اس وقت دنیاکے کچھ ممالک فرانس، کینیڈا، ہالینڈ، اسرائیل اور ایک امریکی ریاست میں جسم فروشی کو باقاعدہ قانونی پیشہ مان لیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ اب اس پیشہ میں بھی ”بین الاقوامیت“ آگئی ہے۔ آج امریکہ، کینیڈا اور فرانس کی منڈیوں میں ایشیائی خصوصاً وسط ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکی ممالک کی عورتوں کی ”سپلائی“ بڑھ گئی ہے۔ہمارے ملک سے بھی نیپال اور بنگلہ دیشی ”خواتین“ کی سپلائی جاری ہے۔ مگر یہ دھندہ غیرقانونی مانا جاتا ہے۔ اس لئے ہمارے ملک پر قحبہ گری کو بڑھاوا دینے والے ”مہذب ممالک“ کا دباؤ ہے کہ وہ اس ”پیشہ“ کو قانونی پیشہ مان لے۔ تاکہ جنوبی ایشیاء کی خواتین کو قانونی طور سے ان ممالک کو سپلائی کیا جاسکے۔ یعنی کہ اب ایک بار پھر ترقی کے نام پر عورت جنس انسانی نہ ہوکر ”مال“ بن گئی ہے۔ بھارت سرکار نے سرکاری طورپر کچھ نہیں کہا ہے مگر پلاننگ کمیشن کے ذریعہ اس معاملہ کو ایجنڈہ میں رکھنا بہت معنی خیز ہے کیونکہ پلاننگ کمیشن کا صدر خود وزیر اعظم ہوتے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا جسم فروشی کو قانونی درجہ دلوانا نئی معاشی پالیسیوں کا ہی حصہ ہے؟ جو اب بہت تکلیف دہ ہے کہ ہاں! عالمی بینک، عالمی فنڈ، عالمی مرد لیبر آرگنائزیشن اس پیشہ کو قانونی بنانے کی وکالت عرصہ سے کرتے رہے ہیںI. L. O. انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن نے تو ۱۹۹۸/ کی اپنی رپورٹ میں اِس کی وکالت کی تھی۔ اس نے یہ مان لیا کہ جسم فروشی ”سیکس ورک“ Sex Work ہے اور ایسی عورتیں ”سیکس ورکر“ Sexworker ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ جسم فروشی میں ملوث خواتین کا استیصال روکنے کے لئے اسے قانونی دھندہ کاجواز دینا ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ قانونی منظوری ملنے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انہیں سرکاری ایجنسی میں رجسٹریشن کرانا ہوگا ، ان کے ٹھکانہ یا ”کوٹھے“ کے مالک کو رجسٹریشن ولائسنس کی تجدید کرانی ہوگی دونوں کو اس کے لئے سرکار کو ٹیکس اداکرنا ہوگا۔ اور جو خواتین ابھی تک صرف پولیس کو ہی خوش رکھتی ہیں اب انہیں سرکاری عملہ کی ایک لمبی فوج کو خوش کرنا ہوگا۔ ورنہ ان کا لائسنس اوراس کی تجدید سب خطرہ میں رہے گا۔ تب تو ان کا استیصال اور بڑھ جائے گا۔
مگر ان قانونی اڑچنوں کے قطع نظر اخلاقی اور سماجی مسائل ہوں گے جن کے بارے میں یہ تمام تنظیمیں نہیں سوچ رہی ہیں۔ کیوں؟ ایک بار پھر تاریخ میں یہ سیاہ کارنامہ دہرایا جائے گا کہ عورت کا جسم و عزت پھر بازار کی جنس یا سودا، قرار پائے گی۔ غلامی کے دور کا پرانا عمل پھر ہر شہر و قریہ میں حکومت کی اجازت سے فروغ پائے گا کہ بنت حوا سجا دھجا کر بٹھائی جائے گی اور دلال عزتوں اور عصمتوں کے لالچی لٹیروں کو لیکر آئے گا اور ان کی بولی لگائے گا اور اس کے عوض چند کاغذ کے نوٹ پھینک کر چلا جائے گا۔ اس لعنت اور برائی کو قانونی پیشہ قرار دینے کی مہم کے پیچھے سب سے مضبوط دلیل یہ ہے کیونکہ ہم اس کے غیرقانونی بازار کو روک نہیں سکتے اس لئے اسے قانونی بنادیں تو ہی اچھا ہوگا۔ جیساکہ شراب اورجوئے کے معاملہ میں ہوا کہ اسی لنگڑی دلیل اور نفس کی اتباع کے لئے دونوں برائیوں کو اکھاڑنے کے بجائے اور اس سے ہونے والے جانی، مالی، سماجی، اخلاقی نقصانات سے بچنے کے بجائے اِن دونوں لعنتوں شراب اورجوا کو قانونی بنادیا۔ جس کے نتیجہ میں انسانیت کو کروڑوں افراد کی صحت، جان، مال و سماجی مسائل کی شکل میں بے اندازہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اور شیطان کو اسی پر بس نہیں ہے اس نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے وہ یہ کہ عورت کے جسم کو ”سامان“ (Commodity) بنادیا ہے۔ جوکہ قابل فروخت ہے۔ ”احسن تقویم“ کو ”اسفل سافلین“ میں بدلنے کی اس سے بہترین مثال ملنی مشکل ہے۔ عجیب المیہ یہ ہے کہ میڈیا کی سرگرم حصہ داری نے اس عیب کو ہنر بنادیا ہے۔ اب یہ ترقی کی علامت ہے کہ وہ اپنے جسم کو تقریباً برہنہ ہوکر اسٹیج پر آئے اداؤں کے ساتھ فوٹو کھنچوائے جتنا بھی ممکن ہوسکے اتنا ہیجان انگیز پوز دے اور یہ پوز لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں چھپ کر سماج میں بے حیائی کو عام کرے۔ عورتوں کی آزادی اور ترقی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اس سوال کو کیوں گول کرجاتے ہیں کہ یہ عورتوں کے جسم اور حیا کی قیمت یا ان کی صلاحیت اور قابلیت کی۔ اگر صلاحیت اور قابلیت کی قیمت ہے تو جسم کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ ان ستاروں کو گہن کیوں لگنے لگتا ہے؟ یہاں تک 34-40 تک پہنچتے پہنچتے ان کی مانگ بالکل ختم کیوں ہوجاتی ہے؟ پھر آج سے ایک ہزار سال پہلے ڈیڑھ ہزار سال پہلے پانچ ہزار سال پہلے کی عورت کی حیثیت میں کیا ترقی اور تبدیلی آئی؟ کیا یہی وہ ”ترقی“ اور ”آزادی“ ہے جس کی طرف مشرق کو بالعموم اور مسلم کو بالخصوص مدعو کیا جارہا ہے اور فطرت سے بغاوت نہ کرنے والوں ”حافظ ناموس زن“ ملت کو جاہل، کٹّر اور انتہا پسند بتایا جارہا ہے؟ ”عورت“ کو خود فیصلہ کرکے اپنی عقل و فراست کا ثبوت دینا ہے کہ وہ اپنے لئے زندگی گذارنے کی کون سی راہ پسند کرتی ہے عزت کی یا ذلت کی؟؟
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8، جلد: 90 ،رجب 1427 ہجری مطابق اگست2006ء