سیّدالصلحاء حضرت اقدس مولانا محمد عبدالغنی رحمہ اللہ تعالیٰ

از:سید کفایت بخاری

جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اِس دنیا سے رخصت ہوئے تو ایک ایسی جماعت موجودتھی جو حیاتِ طیبہ اور اوصافِ حمیدہ کی کامل نمائندہ کہلانے کی صحیح حقدار تھی۔ اِس مقدس جماعت کا ہر فرد بعد میں آنے والی امت تک نبوی طرزِ زندگی کو منتقل کرنے کا اہل اور امت کی تربیت و سرپرستی کے لئے نائبِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کا حامل تھا۔ ان حضرات کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معزز لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اِس امانت کا صحیح حق ادا کیا اور انہی اوصاف کی حامل ایک جماعت تیار کی، جس کے افراد کو تابعین کہاجاتا ہے۔ اس طرح قرناً بعد قرنٍ اور نسلاً بعد نسلٍ امت کی سرپرستی اور تربیت کے لئے انسان سازی کا کام کرنے والے نائبین رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ پورے تسلسل سے قائم رہا۔

برعظیم پاک وہند میں حضرات اکابرِ دیوبند اسی اہل حق گروہ کے نمائندہ تھے، جن میں شیخ العرب والعجم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ انھوں نے عقیدہ و عمل، علم وتحقیق، سیاست وجہاد اور تزکیہ و تربیت ہر میدان میں امامت و سیادت کا حق ادا کیا۔ حضرت مدنی کی تیار کردہ جماعت کے ایک نمائندہ فرد اور آپ کے مرید خاص حضرتِ اقدس مولانا محمد عبدالغنی رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں۔

آپ دھوگڑی نام کے ایک گاؤں میں، جو تحصیل و ضلع جالندھر میں واقع ہے، ۱۳۲۶ھ / ۱۹۰۸/ کے نصفِ اوّل میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندان ارائیں برادری کا حصہ ہے۔

ناظرہ قرآن کریم آبائی گاؤں کی مسجد میں پڑھا۔ وہیں کے پرائمری اسکول میں رجب ۱۳۳۴ھ / اپریل ۱۹۱۶/ میں داخلہ لیا اور وہاں سے چار جماعتیں پاس کیں۔ پھر ایک قریبی گاؤں عَلَاوَل پور کے اسکول میں پانچویں جماعت میں داخل ہوگئے، جہاں سے ۱۳۴۴ھ/ ۱۹۲۶/ میں میٹرک پاس کیا۔ پھر محکمہ ٹیلی فون میں ملازم ہوگئے، اور دورانِ ملازمت ہی پرائیویٹ طور پر پہلے منشی فاضل کیا۔ پھر صرف انگریزی پاس کرکے ایف ۔ اے، پھر بی۔ اے کیا۔

آپ ۱۳۶۶ھ / ۱۹۴۷/ میں پاکستان آگئے اور لاہور میں اقامت اختیار فرمالی۔ یہاں آپ نے محکمہ ٹیلی فون میں اپنی ملازمت جاری رکھی، تاآنکہ ۲۳/جمادی الثانیہ ۱۳۸۷ھ / یکم جولائی ۱۹۶۷/ کو بطور کنسٹرکشن آفیسر ریٹائرہوئے۔ تقریباً چار پانچ سال تک ایک پرائیویٹ کمپنی یوکراس (Ukaras) میں بھی بطور ایڈوائزر کام کیا۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی سے تعلق

آپ ابتدا ہی سے اکابر کے ساتھ محبت اور تعلق خاطر کی نعمت سے مالا مال تھے۔ جالندھر کے ایک گاؤں بنگہ کے مولانا محمد یوسف مرحوم اور اپنے بہنوئی علی محمد مرحوم کے ساتھ آستانہٴ مدنی پر حاضری کا موقع ملا تو پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ چنانچہ جب آپ ملازمت کے سلسلہ میں ہوشیارپور میں مقیم تھے تو ہفتہ وار چھٹی ہمیشہ آستانہٴ مدنی پر گذارتے۔ بارہا سفر میں بھی حضرت مدنی کی معیت اور خدمت کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے۔

شیخ الاسلام حضرت مدنی کا اگر کبھی دورانِ سفر ہوشیارپور سے گزرنا ہوتا تو جاتے یا آتے آپ کے مکان پر ضرور تشریف لاتے۔ آستانہٴ مدنی کے خدام کو خبر مل جاتی تو وہ بھی فوراً وہاں پہنچ جاتے اور یوں بعض اوقات بڑی بڑی طویل مجلسیں جمتی تھیں۔

آپ کی دوسری شادی حضرت مدنی کے اصرار پر ہوئی اور آپ کے بچوں کے نام بھی زیادہ تر شیخ الاسلام حضرت مدنی نے ہی تجویز فرمائے۔

عائلی زندگی

آپ جماعت نہم میں پڑھتے تھے جب آپ کی پہلی شادی ہوئی۔ اہلیہ محترمہ نہایت متقی خاتون تھیں اور شیخ الاسلام حضرت مدنی سے بیعت بھی ہوگئی تھیں۔ وہ شادی کے بعد سات آٹھ سال زندہ رہیں اور ۷/شوال ۱۳۵۴ھ / ۲/جنوری ۱۹۳۶/ بروز جمعہ کو فوت ہوگئیں۔ اللہم اغفر لہا وارحمہا۔

آں مرحومہ سے آپ کے دو بچیاں اور دو بچے ہوئے۔ لیکن وہ سب بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔

شیخ الاسلام حضرت مدنی کے بار بار اصرار پر آپ نے دوسری شادی کی۔ نکاح حضرت مدنی نے پڑھایا اوراس موقع پر اپنے بیان میں انگریزی تہذیب کے خوب پرخچے اڑائے۔ اہلیہ محترمہ آپ کی ہم عمر تھیں۔ وہ بہت عابدہ زاہدہ خاتون تھیں اور خصوصاً تلاوت بہت کثرت سے کرتی تھیں۔ کچھ عرصہ بیمار رہ کر ۴/ربیع الاوّل ۱۴۲۶ھ / ۱۳/اپریل ۲۰۰۵/ کو انتقال فرماگئیں۔ اللہم اغفرلہا وارحمہا۔

آں مرحومہ سے آپ کے تین بیٹے ہوئے:

۱-     حضرت صاحبزادہ محمد طلحہ خالد مدظلہ

۲-    حضرت صاحبزادہ محمد زبیر مدظلہ

۳-    حضرت صاحبزادہ محمد خالد مدظلہ

آپ کے تینوں صاحبزادے ماشاء اللہ بہت نیک اور ذاکر شاغل ہیں۔ نیز تینوں اپنے عظیم والد سے اجازت و خلافت کی سعادت سے بھی بہرہ یاب ہیں۔

حج اور بیرونی اسفار

سفرحج: آپ نے تین مرتبہ حج ادا فرمایا۔ دوسرے سفرِ حج میں اہلیہ مرحومہ بھی ساتھ تھیں۔ تینوں مرتبہ آپ کا قیام حضرت مولانا صوفی محمد اقبال مہاجر مدنی کے ہاں رہا اور وہاں آپ کا زیادہ وقت انہی کی رفاقت میں گزرا۔

سفر ہند: ۱۳۶۶ھ / ۱۹۴۷/ میں پاکستان آجانے کے بعدآپ شیخ الاسلام حضرت مدنی کی زیارت وملاقات کی خاطر سفرِ ہند کے لئے بہت بیتاب رہتے لیکن کوئی صورت بن نہ آتی۔ کیونکہ اُس دور میں سرکاری ملازمین کے لئے سفر ہند پر پابندی تھی۔ چنانچہ آپ حضرت مدنی کی حیات میں انڈیا کا سفر نہ فرماسکے۔ تاہم ریٹائر ہوجانے کے بعد آپ نے دو مرتبہ انڈیا کا سفر کیا۔ ایک سفر میں رفیق قدیم حضرت مولانا محمد یٰسین بھی آپ کے ساتھ تھے۔

سفر یورپ و امریکا: آپ کے بھانجے محمد خالد صاحب اور محمد نذیر صاحب برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ اُن کے اِصرار پر ۱۴۱۸ھ / ۱۹۹۸/ میں اُن سے ملنے کے لیے برطانیہ جانا ہوا۔ وہاں سے اپنے چھوٹے صاحبزادے حضرت صاحبزادہ محمد خالد مدظلہ سے ملنے کے لئے امریکا بھی تشریف لے گئے۔

دینی تعلیم اور تدریس

جب آپ نے ترکِ ملازمت فرمایاتو دو دوسرے ساتھیوں کے ساتھ حضرت مولانا سید حامد میاں کے ہاں جامعہ مدنیہ میں باقاعدہ طور پر علم دین کی تحصیل شروع فرمادی۔ ۱۳۹۶ھ / ۱۹۷۶/ میں دورئہ حدیث شریف مکمل ہوا۔ اور آپ جامعہ بھر میں اوّل آئے۔ چنانچہ حضرت مولانا سیّد حامد میاں نے آپ کو خصوصی انعام سے نوازا۔ آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا سیّد حامد میاں، حضرت مولانا محمدکریم اللہ، حضرت مولانا مفتی عبدالحمید سیتاپوری، حضرت مولانا قاری عبدالرشید (بن حضرت سیتاپوری) حضرت مولانا عبدالرشید کشمیری، حضرت مولانا مرزا گل، حضرت مولانا غازی شاہ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا ظہورالحق مدظلہ شامل ہیں۔

آپ نے فراغت کے بعد جامعہ مدنیہ میں ہی تدریس شروع فرمادی۔ کچھ عرصہ دو دیگر مدرسوں میں بھی پڑھاتے رہے۔

صوفیانہ مسلک

آپ ۲۸/جمادی الاولیٰ ۱۳۵۳ھ / ۹/ستمبر ۱۹۳۴/ کو شیخ الاسلام حضرت مدنی کے دست مبارک پر بیعت ہوئے۔ آپ نے حضرت مدنی سے ہی سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے اسباق پورے کئے اور اُن کے زیر نگرانی سلوک چشتیہ صابریہ طے فرمایا۔

حضرت مدنی کے بعد آپ نے کہیں بھی تجدید بیعت نہیں فرمائی۔ البتہ اصلاحی تعلق حضرت مدنی کے تلمیذ رشید و خلیفہ مجاز حضرت مولانا سیّد حامد میاں سے رکھا۔

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا صوفی محمد اقبال نے ۱۹/ذیقعدہ ۱۴۰۰ھ / ۳۰/ستمبر ۱۹۸۰/ کو جبکہ حضرت مولانا سیّدحامد میاں نے ۵/شوال المکرم ۱۴۰۴ھ / ۴/جولائی ۱۹۸۴/ کو آپ کو خلافت واجازت سے نوازا۔ آپ کو شیخ الاسلام حضرت مدنی سے بھی بطرز اویسیّہ اجازت حاصل ہے۔

آپ اپنے ان اکابر ثلاثہ کی محبت میں خوب سرشار تھے اور تادمِ آخر اس تعلق کو خوب نبھایا۔

خانقاہی تربیتی خدمات

آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں سالکین کی تربیت فرماتے تھے۔ آپ کے گھر کے ساتھ آپ کا مہمان خانہ ایک ایسی خانقاہ کی حیثیت رکھتا تھا جس کے دروازے بلامبالغہ ۲۴/ گھنٹے کھلے رہتے تھے۔ خصوصاً آخری چند سالوں میں سالکین بہت کثرت سے آنے لگے تھے۔ آپ شدتِ ضعف اور بڑھاپے کے باوجود کبھی کسی کی وقت بے وقت آمد سے پریشان نہ ہوئے۔ رات ہو یا دن، جس وقت بھی کوئی سالک آجاتا، آپ کو وہاں موجود اور تربیت و خدمت کے لیے تیار پاتا۔ آپ نے کبھی اس کا اظہار نہیں فرمایا کہ یہ میرے آرام کا وقت ہے، یاآپ فلاں وقت تشریف لائیں وغیرہ۔

مزاج میں عاجزی و انکساری اور شفقت کے غلبہ اور سکھانے کی غایتِ حرص کے ساتھ ساتھ ہمہ وقتی تربیتی مصروفیات کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک عالم آپ سے مستفید ہوا۔ کثیر تعداد میں علماء و عوام نے آپ سے ذکر سیکھا اور تزکیہ وتصفیہ باطن کرایا۔ جن سعادت مندوں کو آپ نے اجازت و خلافت سے نوازا، اُن کی تعداد کم از کم ستر ہے۔ اُن میں اِس دور کے بعض بڑے مشائخ بھی شامل ہیں، جو اپنے روحانی امور میں آپ سے مشورہ فرماتے رہے اور انھوں نے آپ کی اجازت و خلافت کو اپنے لئے سعادت سمجھ کر قبول فرمایا۔ بعض حضرات کو تبرکاً اجازت عنایت فرمائی۔ آپ کے خلفاء کی تعداد ستر (۷۰) ہے، جن میں سے چوّن (۵۴) علماء ہیں اور ان میں آپ کے دو عظیم استاذ حضرت مولانا مفتی عبدالحمید سیتاپوری اور شیخ الحدیث حضرت مولانا ظہورالحق مدظلہ بھی شامل ہیں۔ چند دیگر حضرات کے اسماء گرامی بطور مثال مندرجہ ذیل ہیں:

۱-حضرت مولانا صوفی محمد سرور مدظلہ                    جامعہ اشرفیہ لاہور

۲-حضرت مولانا عبدالرحمن اشرفی مدظلہ              جامعہ اشرفیہ لاہور

۳-حضرت مولانا مفتی حمید اللہ جان مدظلہ               جامعہ اشرفیہ لاہور

۴-    حضرت مولانا مفتی عبدالستار مدظلہ               صدر مفتی خیرالمدارس ملتان

۵-حضرت مولانا محمد حنیف مدظلہ                          مہتمم خیرالمدارس ملتان و ناظم اعلیٰ وفاق المدارس پاکستان

۶-حضرت مولانا مفتی مختار الدین شاہ مدظلہ            کربوغہ شریف، کوہاٹ

۷-حضرت مولانا رشید میاں مدظلہ                        مہتمم جامعہ مدنیہ لاہور

۸-حضرت مولانا محمودمیاں مدظلہ                        مہتمم جامعہ مدنیہ جدید لاہور

۹-حضرت مولانا نعیم الدین مدظلہ                         استاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور

۱۰-حضرت مولانا حافظ نثار احمد الحسینی مدظلہ         حضرو، اٹک

۱۱-حضرت مولانا مفتی عبدالواحد مدظلہ                 جامعہ مدنیہ لاہور

۱۲-حضرت مولانا محمد حسن مدظلہ                          جامعہ محمودیہ چوبرجی لاہور

مکمل فہرست خلفاء آپ کی سوانح کے ساتھ شامل اشاعت ہوگی ان شاء اللہ ۔

ذکر اللہ سے شغف

آپ اپنا ذکر سحری کے وقت پورا فرماتے تھے۔ دن میں جب کوئی ساتھی آجاتا تو اُس کے ساتھ پھر سے ذکر میں مشغول ہوجاتے۔ یوں آپ دن میں کئی مرتبہ ذکر جہری فرمالیتے اور اس طرح آپ کا سارا وقت ذکر اللہ میں گزرتا تھا۔ بلکہ آپ کا وجود مسعود سراپا ذکر تھا۔ ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جناب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتی ہیں کہ:

کَانَ یَذْکُرُ اللّٰہ عَلٰی کُلِّ اَحْیَانِہ

ترجمہ: نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتے تھے۔

آپ کو دیکھ کر یہی حدیث مبارکہ یاد آجاتی تھی۔ تنہا ہوتے تو ذکر و تلاوت فرماتے رہتے اور ساتھی آجاتے تو انہیں ذکر اللہ سکھانے میں اور اُن پر ذکر کی اہمیت واضح کرنے میں مشغول ہوجاتے تھے۔ کسی لمحہ فارغ نہیں رہ پاتے تھے۔

                                          تیری یاد ہے یا ہے تیرا تصوّر

                                                                          کبھی داغ کو ہم نے تنہا نہیں دیکھا

سلوک چشتیہ صابریہ

سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں سالک کو مندرجہ ذیل اسباق کے ذریعہ سلوک طے کرایا جاتا ہے:

(۱) تسبیحات ستہ   (۲) پاسِ انفاس         (۳) بارہ تسبیح ذکر جہری

(۴) ذکر قلبی                      (۵) مراقبہٴ معیّت۔

سالک کی طبعی مناسبت اور ضرورت کے مطابق ان اسباق میں تقدیم و تاخیر ممکن ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی توفیق، ترکِ گناہ کے التزام، ذکر اللہ کی کثرت اور صحبتِ شیخ کی برکت سے سالک کے لئے منزلِ مقصود تک رسائی آسان ہوجاتی ہے۔

اندازِ تربیت

آپ کو اپنے مشائخ سے جملہ سلاسل میں اجازت حاصل تھی لیکن آپ سالکین کی تربیت سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں فرماتے تھے۔ آپ نے سلسلہ عالیہ کے مذکورہ بالا اسباق کو مکتوباتِ شیخ الاسلام سے الگ نقل فرماکر ہر سبق کو الگ الگ چھپوالیا تھا۔ سالک کو جو سبق سکھانا ہوتا، وہ مطبوعہ کاغذکی صورت میں عنایت فرماتے، حضرت مدنی کے اصل الفاظ مبارکہ پڑھاتے، حسب ضرورت اُس کی وضاحت فرماکر اچھی طرح سمجھا دیتے اور پھر عملی طور پر خود بھی ذکر کراتے۔

جب ساتھی اکٹھے بیٹھ کر ذکر جہری کررہے ہوتے تو آپ اُن سے تھوڑا پیچھے ہوکر بیٹھ جاتے اورہر ایک کو بغور دیکھتے رہتے۔ جہاں کسی ساتھی سے غلطی ہوجاتی، آپ اٹھ کر اُس کے پاس جاتے اور بڑی نرمی و ملائمت سے اُسے سمجھاتے کہ یوں کرو۔ مثلاً نئے سیکھنے والے احباب اکثر سر کی حرکت اور ضرب لگانے میں غلطی کرجاتے ہیں۔ آپ ان کا سرپکڑ کر ہلاتے اور فرماتے کہ یوں کرو۔

آپ وعظ نہیں فرماتے تھے۔ آپ کی مجلس ذکر میں ذکر کے بعد حضرات اکابر کی تصانیف سبقاً سبقاً پڑھ کر سنائی جاتی تھیں۔ کوئی بات مشکل آجاتی تو آپ اُس کی وضاحت فرمادیتے تھے۔

معمولات

آپ رات کو بمشکل دو اڑھائی گھنٹے سوتے تھے۔ پھر اٹھ کر تہجد پڑھتے اور سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے اسباق پورے فرماتے۔ اذان فجر سے کچھ پہلے پھر سوجاتے۔ نمازِ فجر کے بعد اگر کوئی ساتھی موجود ہوتا تو اُس کے ساتھ مصروف ہوجاتے ورنہ اشراق تک مراقب رہتے۔

نماز اشراق کے بعد ہلکا سا ناشتہ فرماکر چند مخصوص سورتیں، حزب الاعظم، حزب البحر اور چہل حدیث درود شریف پڑھتے۔ پھر تلاوت شروع فرمادیتے، حتی کہ نماز چاشت کا وقت ہوجاتا۔

موسم کے مطابق کبھی نمازِ چاشت کے بعد کھانا کھاکر ظہر تک آرام فرماتے اور کبھی ظہر کے بعد کھانا کھاکر تھوڑی دیر آرام فرماتے۔ علاوہ ازیں عصر تک مسلسل مصروفِ تلاوت رہتے۔ آپ کو تلاوت کا بہت خاص ذوق تھا۔ آپ کے دنیا میں آخری رمضان کے بعد میری حاضری ہوئی تو میرے پوچھنے پر ارشاد فرمایا کہ ۱۳-۱۴ پارے روزانہ بآسانی پڑھ لیتاہوں۔

عصر کی نماز میں سالکین کی آمد شروع ہوجاتی اور آپ رات گئے تک اُن کے ساتھ مصروفِ تربیت و ارشاد رہتے۔ اگر کسی دن درمیان میں کچھ وقت مل جاتا تو کچھ مطالعہ فرمالیتے، ورنہ رات کو سالکین سے فراغت کے بعد مطالعہ فرماتے تھے۔

دھان پان سا بدن رکھتے تھے اور خوراک بالکل معمولی سی تھی، جو ہوتے ہوتے آخر میں بالکل برائے نام رہ گئی تھی۔

وفات

وفات سے تقریباً چار سال پہلے ہرنیا کی تکلیف ہوگئی تھی، لیکن ڈاکٹروں نے کمزوریٴ صحت کی بنا پر آپریشن نہیں کیا۔ کمزوری مسلسل بڑھتی جارہی تھی، لیکن بفضلہ تعالیٰ آپ آخر تک اپنے معمولات پورے فرماتے رہے۔

۶/ذوالقعدہ ۱۴۲۶ھ /۹/دسمبر ۲۰۰۵/ بروز جمعہ کو نمازِ عصر کے بعد طبیعت عالی ناساز ہوئی۔ سالکین اُس وقت بھی موجود تھے اور آپ ناسازیٴ طبع کے باوجود اُن کے ساتھ مصروفِ ارشاد رہے، یہاں تک کہ رات کے آٹھ بجے وہ وقت آگیا جس سے کسی کو مفر نہیں اور آپ کی روح مبارک عالمِ بالا کو پرواز کرگئی۔ انّا للّٰہ وانا الیہ راجعون․ اللہم اغفرہ وارحمہ وادخلہ فی الجنة الفردوس بغیر حساب، آمین ․

ہفتہ کو صبح نوبجے حضرت مولانا سیّد نفیس الحسینی مدظلہ نے نماز جنازہ کی امامت فرمائی اور آپ کو قبرستان میانی شریف میں امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے جوار میں سپردِ خاک کردیاگیا۔

رفتی و از رفتنِ تو عالمے تاریک شد !

زہد و تقویٰ

اللہ تعالیٰ کا آپ پر خاص فضل تھا۔ ابتدا ہی سے سنجیدہ مزاج پایا تھا۔ جوانی میں شیخ الاسلام حضرت مدنی کے دامنِ عاطفت و تربیت سے وابستہ ہوئے اور پھر حضرت مدنی ہی کے ہوکر رہ گئے۔ فطرت سلیم پائی تھی۔ ان عوامل نے سونے پر سہاگے کا کام دیا اور آپ کی زندگی زہد و تقویٰ کا مثالی نمونہ بن گئی۔

ہرکام میں اتباعِ سنت کا اہتمام فرماتے۔ معاملات کی صفائی کا حددرجہ خیال رہتا اور بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی صفائی معاملات کا بہت خیال فرماتے۔ عبادت و تلاوت کا غیرمعمولی شغف تھا۔ چنانچہ کوئی سانس عبادت اور ذکر و تلاوت سے خالی نہ ہوتا تھا۔

پہلی شادی سے ہی گھر میں شرعی پردے کا اہتمام فرمایا۔ گو اس پر بڑی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ شیخ الاسلام حضرت مدنی نے بھی ہمت افزائی فرمائی اور دعا و توجہ سے نوازا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا اور استقامت کا مظاہرہ کرنا آسان فرمادیا۔

ابتدا سے یہ اہتمام رہا کہ کسی داڑھی منڈے کی مجلس میں نہیں بیٹھتے تھے۔ کبھی کسی کو تلخ یا سخت سست نہیں کہا۔ حضرت صاحبزادہ محمد زبیر مدظلہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں آپ سے کوئی تلخ لفظ نہیں سنا۔

دینداری کو ہمیشہ تمام تعلقات اور رشتوں پر ترجیح دی بلکہ دینداری کو ہی اصل رشتہ سمجھا اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں فرمایا۔

مطالعہ اور تحقیق کا ذوق

آپ نے اپنے اکابر کو بہت قریب سے دیکھا تھا اور آپ اکابر کے علمی و تحقیقی کارناموں کے خوب شناسا اور زبردست مداح تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنے ذاتی کتب خانہ میں اکابر کی تصانیف کو نہایت اہتمام سے جمع فرمایاتھا جو گھر کے بطور خانقاہ استعمال ہونے والے کمرہ میں ہی ایک خاص ترتیب سے رکھی تھیں۔ آپ نئی نئی چیزیں لکھنے سے زیادہ مصنّفاتِ اکابر کو پھیلانے میں دلچسپی لیتے اور اسے وقت کی ضرورت قرار دیتے تھے۔ چنانچہ آپ اپنی مجالسِ ذکر میں ذکر کے بعد ترغیبی بیان کے موقع پر اکابر کی مختلف تصانیف سبقاً سبقاً پڑھواتے اور مشکل مقامات کی ساتھ کے ساتھ وضاحت فرمادیتے تھے۔ اس طرح آپ کے ہاں مکتوباتِ امام ربانی، تصانیف حضرت نانوتوی، مکتوباتِ حضرت گنگوہی، شیخ الاسلام حضرت مدنی کی تصانیف ومکتوبات، امداد السلوک، شریعت و طریقت کا تلازم، اکمال الشیم، صراطِ مستقیم اور اصلاحی نصاب وغیرہ سبقاً سبقاً پڑھی جاتی رہی ہیں۔

حضرات اکابر دیوبند کی تصانیف کے مطالعہ کا نہایت شغف تھا اور روزانہ اس سلسلہ کی کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ فرماتے تھے۔

ترجمہ شیخ الہند و تفسیر عثمانی کے گویا عاشق تھے اور باقاعدگی سے اس کا بہت زیادہ مطالعہ فرماتے تھے۔ آپ اپنے متعلقین کو حضرات اکابر کی تصانیف کا تعارف کراتے اور انہیں پڑھنے کے لئے اپنے ذاتی کتب خانہ سے مستعار بھی دیتے تھے۔ آپ کے بعض خلفاء کے متعلق دیکھنے میں آیا کہ انہیں اجازت و خلافت سے نوازتے وقت جہاں اذکار و اشغال کی پابندی کاحکم فرمایا وہیں حضرات اکابر کی تصانیف کے روزانہ مطالعہ کا حکم بھی فرمایا۔

تاہم آپ کے بعض تحقیقی و تحریری کام بھی ہیں جن کا مختصر تعارف مندرجہ ذیل ہے:

(۱) مکتوبات شیخ الاسلام (تصوف وسلوک) پر کام:

یہ کتاب پاکستان میںآ پ کی مساعی سے طبع ہوئی۔ آپ نے اس کی ترتیب اور عنوانات پر بھی محنت فرمائی۔ نیز اسی کتاب پر آپ کا مندرجہ ذیل کام غیر مطبوعہ ہے:

(الف) بعض مکتوباتِ مبارکہ کا متن سہوکاتب سے نامکمل رہ گیا تھا۔ آپ نے اسے مکتوباتِ شیخ الاسلام کی مدد سے مکمل فرمایا۔

(ب) بعض مقامات پر آیاتِ مبارکہ اور عربی اشعار کا ترجمہ حاشیہ کی صورت میں لکھا۔

(۲) آپ کے پاس مکتوبات شیخ الاسلام کا ہندی نسخہ تھا،جس کی جلد چہارم کے ساتھ فہرست نہیں۔ آپ نے بڑی محنت سے اس کی مفصل فہرست تیار فرمائی اور اسے اپنے نسخہ کے ساتھ مجلد کروایا۔

(۳) تخریج چہل حدیث درود شریف (حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا):

آپ نے حضرت مولانا صوفی محمد اقبال مہاجر مدنی کے حکم پر مذکورہ چہل حدیث درود شریف کے حوالوں کی تخریج فرمائی۔

(۴) تسہیل مسئلہ طہر متخلل:

فقہ کا مشہور مشکل مسئلہ طہر متخلل شرح وقایہ پڑھنے پڑھانے والوں کے لئے بطور خاص پیچیدگی اور معمہ کی مثال بنا رہتا ہے۔ آپ نے اسے آسان فرماکر بطور ضابطہ لکھا، جو فقہ میں آپ کی شانِ تحقیق اور مدرسانہ مہارت کا عمدہ نمونہ ہے۔

(۵) ضابطہ دھوپ گھڑی :

اوقاتِ نماز کی تحقیق کے سلسلہ میں کتب فقہ کی تدریس کے دوران دھوپ گھڑی پر بھی بحث کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بالعموم اس کے دو طریقے سکھائے جاتے ہیں، لیکن دونوں طوالت کے حامل اور کئی احتیاطوں کے متقاضی ہیں جن کی وجہ سے طلبہ کچھ سمجھ نہیں پاتے۔ آپ نے اسے آسان فرماکر نہایت مختصر انداز میں لکھا۔

مزاجِ عالی کے چند نمایاں اوصاف

آپ کے مزاج گرامی میں عاجزی و انکساری بہت ہی زیادہ نمایاں تھی۔ دُور دُور سے لوگ ملنے آتے تو آپ رو دیتے اور فرماتے: مجھ جیسے نکمّے اور ناکارہ کے لئے آپ نے اتنی تکلیف اٹھائی۔ آپ کی بڑی محبت ہے، آپ کا بڑا احسان ہے۔

شیخ الاسلام حضرت مدنی سے والہانہ محبت تھی۔ اُن کا نامِ نامی سنتے ہی گریہ طاری ہوجاتا تھا۔ فرماتے ہمارے حضرت کی بہت شفقت تھی، بڑا ہی احسان تھا، لیکن میں نکمّا ویسے کا ویسا ہی رہا، کچھ نہیں کرسکا۔

بڑی عمر میں تحصیل علم فرمائی۔ فرماتے تھے کہ ہمارے حضرت مدنی کی دعا تھی جس کی برکت سے اللہ نے توفیق دی اور بڑی عمر میں داخلہ لے کر بچوں کے ساتھ ضَرَبَ یَضْرِبُ کی گردان سے شروع کیا۔ بڑی عمر میں تحصیل علم فرمانے کی وجہ سے عصری اور دینی تعلیم کی تقسیم کے اثرات سے بخوبی واقف تھے، دینی تعلیم کے بغیر عصری تعلیم کے مفاسد کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اُن کے تدارک کے لئے پریشان رہتے تھے۔

آپ علم دین سیکھنے کی بہت زیادہ ترغیب دیا کرتے تھے۔ دینی مدارس کا کوئی طالب علم آجاتا تواُس کی بہت حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ خود محقق عالم ہونے کے باوجود مسائل میں علماء سے مشورہ فرماتے اور اپنے متعلقین و متوسلین میں موجود علماء سے مسلسل استفسار فرماتے رہتے تھے۔

اگر کوئی خلافِ شرع بات دیکھ لیتے تو فوراً تنبیہ فرمادیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان آیا تو باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ وہ بینک ملازم ہے۔ آپ نے اُسے بڑے درد اور شفقت سے سمجھایا کہ یہ سودی ادارے ہیں۔ ان کی ملازمت حرام ہے۔ ہمیں دنیا کی بجائے آخرت کو مدنظر رکھ کر کام کرنا چاہیے۔ اُس نے کٹ حجتی کی تو آپ پر بہت اثر ہوا۔ اُسے بھی سمجھایا اور بعد میں بھی رات گئے تک بار بار فرماتے رہے اب کوئی گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتا، حرام کو حرام ہی نہیں سمجھتا۔ اب کیاہوگا۔؟

آپ کوشش فرماتے تھے کہ انتہائی ضعف وکمزوری کے باوجود بھی آنے والے ساتھیوں کی خدمت اپنے ہاتھوں سے کریں۔ اُن کے لئے خود تکیے لگاتے اور فرماتے آپ مہمان ہیں، اس لئے یہ میرا فرض ہے۔

مہمان نوازی تو گویا آپ پر ختم تھی۔ بار بار اصرار کرتے کھانا کھانے کے لئے روکتے اور فرماتے اگر کھانا نہ کھایا تو میں ناراض ہوجاؤں گا۔

ساتھیوں کو الوداع کہنے کے لئے بڑے اصرار کے ساتھ گھر کے بیرونی دروازے تک تشریف لاتے اور ساتھی جب تک گاڑی یا رکشے وغیرہ میں بیٹھ کر روانہ نہ ہوجاتے، آپ وہیں کھڑے رہتے۔

آپ سیاسیات میں شیخ الاسلام حضرت مدنی کی فکر کے پرجوش حامی تھے اور حضرت مدنی کی اس فکر کی اتباع پورے شرحِ صدر کے ساتھ فرماتے تھے، حتیٰ کہ آپ کے متعلقین و متوسلین کو بھی اس معاملہ میں حضرت مدنی کی اصابت رائے میں کوئی تردد نہ رہا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کی شخصیت میں بہت زیادہ جذب و کشش اور تاثیر کی قوت رکھی تھی۔ آپ سے ملنے والا آپ کی روحانیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ جو بھی خلوصِ نیت کے ساتھ آپ سے تعلق رکھتا،اُس کی زندگی میں واضح تبدیلی محسوس ہوتی اور وہ اتباعِ سنت کا شیدائی بن جاتا۔ چنانچہ آپ کے فیض صحبت سے ہزارہا انسان توبہ تائب ہوکر قربِ الٰہی کے متلاشی ہوئے جو آپ کے لئے بہترین صدقہ جاریہ ہیں، ان شاء اللہ ۔

زبان ز نطق فرو ماند رازِ من باقیست

بضاعتِ سخن آخر شد و سخن باقیست

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 90 ‏،جمادی الاول1427 ہجری مطابق جون2006ء

Related Posts