از: مولانا محمد عارف مبارکپوری
(۱۸) فرمان باری: واتقوا یوما لا تجزی نفس عن نفس شیئا ولا یقبل منہا شفاعة ولا یُوخذ منہا عدل ولاہم ینصرون․ (آیت:۴۸)
”اور ڈرو اس دن سے کہ نہ کام آئے کوئی شخص کسی کے کچھ بھی اور نہ قبول ہو اس کی طرف سے سفارش اور نہ لیا جائے اس کی طرف سے بدلہ اور نہ اس کو مدد پہنچے۔“
یہاں پر (لا تجزی نفس عن نفس شیئا) سے بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ان کی مدد نہیں کرے گا،اس کے باوجود آیت کے اخیر میں فرمایا (ولاہم ینصرون) اس کی کیا وجہ ہے؟
امام رازی نے اس کاجواب دیتے ہوئے فرمایا:
”سوال اول: (لا تجزی نفس عن نفس شیئا) کا مفاد بعینہ وہی ہے جو (ولاہم ینصرون) کا ہے تو اس تکرار کا مقصد کیا ہے؟
جواب: (لا تجزی نفس عن نفس) سے مراد یہ کہ دوسرا کوئی بھی اس جزاء کو اس کی طرف سے نہیں اٹھائے گا، جو اس پر لازم ہوگی۔ اور مدد کا مطلب یہ ہے کہ سزا دینے والے کے حکم سے اس کو چھڑانے کی کوشش کرے۔(۷۱)
(۱۹) فرمان باری: واذ قال موسٰی لقومہ: یاقوم! انکم ظلمتم أنفسکم باتخاذکم العجل فتوبوا الی بارئکم․ (آیت:۵۴)
”اور جب کہاموسیٰ نے اپنی قوم سے اے قوم! تم نے نقصان کیااپنا یہ بچھڑا بناکر، سو اب توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف۔“
جب ہم کو معلوم ہے کہ توبہ باری تعالیٰ کی طرف ہی ہوتی ہے، کسی اور کی طرف نہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لفظ ”باری“ کے ذکر میں کیا حکمت ہے، جب کہ وہ متعین ہے؟
امام رازی نے یہ سوال اٹھاکر اس کاجواب دیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
”سوال دوم: (فتوبوا الی بارئکم) کا مطلب کیاہے جب کہ توبہ، باری تعالیٰ ہی کے لیے ہوتی ہے؟
جواب: اس سے مراد توبہ میں ریاکاری سے ممانعت ہے۔ گویا ان سے یوں فرمایاکہ اگر تم نے صرف توبہ کااظہار کیا اور دل سے توبہ نہیں کی تو تم نے اس اللہ کی طرف توبہ نہیں کی، جو تمہارے ضمیر کو جانتا ہے؛ بلکہ تم نے لوگوں کے سامنے توبہ کی اور اس سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے کہ جب تم نے اللہ کے حق میں جرم کیا ہے تو توبہ بھی اللہ ہی کی طرف ہونی چاہیے۔“(۷۲)
ابوحیان وغیرہ نے اس موقع پر لفظ ”باری“ کے ذکر کی جو توجیہ لکھی ہے، وہ اس قول سے زیادہ واضح ہے۔ ابوحیان لکھتے ہیں:
”چوں کہ سامری نے بنی اسرائیل کے لیے، زیورات سے ایک بچھڑا بنایاتھا تو ان سے کہاگیا کہ اپنے باری (یعنی اپنے پیداکرنے والے اور عدم سے وجود میں لانے والے) کی طرف توبہ کرو؛ اس لیے کہ اعیان (ذوات) کو پیدا کرنے والا ہی حقیقت میں، وجود میں لانے والا ہے، رہا بچھڑا بنانا تو یہ کسی ذات کو عدم سے وجود میں لانا نہیں ہے؛ بلکہ جوڑنا ترکیب دینا ہے، ذات کو پیدا کرنا نہیں۔ لہٰذا لفظ ”باری“ کے ذریعہ ان کو ”صانع“ کی یاد دلائی گئی یعنی جس نے تم کو وجود بخشا ہے وہی عبادت کا مستحق ہے، نہ کہ وہ جس کا عمل دوسرے کی تخلیق ہو جیسے وہ خود دوسرے کی تخلیق ہے۔ اسی وجہ سے یہاں پر لفظ ”باری“ ذکر کیاگیا۔ واللہ اعلم(۷۳)
اسی کے قریب شوکانی کی رائے ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”یہاں لفظ باری کے ذکر میں ان کے خطرناک جرم کی طرف اشارہ ہے یعنی اس ذات کی طرف توبہ کرو جس نے تم کو پیداکیا اور تم نے اس کے ساتھ دوسرے کی عبادت کردی۔“(۷۴)
اسی طرح آلوسی لکھتے ہیں:
”اس مقام پر اس کے تذکرہ میں ان کو اپنے کیے پر جھڑکی دینا ہے کہ انھوں نے علیم و حکیم ذات کی عبادت کو چھوڑ دیا، جس نے ان کو اپنی لطیف حکمت سے پیدا کیا بالآخر انھوں نے خود کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا نشانہ بنایا۔“(۷۵)
یہاں لفظ باری کے ذکر میں یہ اشارہ ہے کہ جس کے اندر یہ صفت ہے اور اس نے ان لوگوں کو پیدا کیا وہی عبادت اور شکر کا مستحق ہے تو اس کے مقابلہ میں اس کی ناشکری اور دوسرے کی عبادت کیسے کی جائے گی؟ بلاشبہ ایسا عمل توبہ، استغفار اور اس سے معذرت کا متقاضی ہے۔ مثلاً آپ کسی کو دیکھیں کہ وہ اپنے محسن کے ساتھ زیادتی کا معاملہ کررہا ہے، تو کراہت کے انداز میں اس سے کہیں گے کہ تم نے اپنے محسن کے ساتھ بدسلوکی کی ہے۔ آپ نے اس کی ایسی صفت بیان کی جس کی وجہ سے وہ شکریہ کا مستحق ہے، ساتھ میں اس حق ناشناسی کی زجر و توبیخ بھی کی۔ واللہ اعلم(۷۶)
(۲۰) فرمان باری: ولا تعثوا فی الأرض مفسدین (آیت:۶۰)
”نہ پھرو ملک میں فساد مچاتے“
یہاں (مفسدین) بدیہیات میں سے ہے کہ اس کا علم (ولا تعثوا) سے ہوچکا تھا؛ کیوں کہ ”عثو“ کے معنی سخت فساد کے ہیں، لہٰذا (ولا تعثوا) کے بعد (مفسدین) ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے؟
اس کے کئی جواب دئیے گئے ہیں:
اول: محمد بن ابوبکر رازی نے یہ اشکال اور اس کا جواب نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
”سوال یہ ہے کہ (ولا تعثوا فی الأرض مفسدین) میں ”عثو“ کے معنی فساد کے ہیں تو آیت کا معنی یہ ہوگا کہ ملک میں فساد نہ کرو فساد کرتے ہوئے۔
اس کاجواب یہ کہ اس کامعنی یہ کہ ملک میں، کفر کے ذریعہ فساد نہ کرو اور تم سارے معاصی کے ذریعہ فساد کرنے والے ہو۔“(۷۷)
دوم: ابن عطیہ کی رائے ہے کہ معنی میں تکرار، لفظ میں تکرار کی وجہ سے ہے۔ (۷۸)
موصوف نے اس کی کوئی اور وضاحت نہیں کی۔
سوم: انصاری اور ابن عطیہ کی رائے ہے کہ (مفسدین)، (تعثوا) کے فاعل سے حال ہے۔ اور یہ حال تاکیدی ہے، جیساکہ فرمان باری: (ثم ولیتم مدبرین) (سورہ توبہ:۲۵) میں ہے۔(۷۹)
سمین کہتے ہیں کہ لفظ میں اختلاف کی وجہ سے اس میں حسن آگیا ہے۔ (۸۰)
چہارم: یہ رائے بھی سمین اور انصاری کی ہے۔ انھوں نے مفسدین کے تعلق سے حال تاکیدی والی بات لکھنے کے بعد یہ کہا:
”یا یہ حال تاسیسی ہے؛ کیونکہ ”عثو“ (جس کے معنی فساد میں آگے بڑھنا ہے) نفس فساد سے خاص ہے۔ لہٰذا معنی یہ ہوگا (جیسا کہ زمخشری نے کہا)(۸۱) اپنی فسادی حالت میں آگے نہ بڑھو۔“(۸۲)
پنجم: یہ رائے مفسرین کی ایک جماعت کی ہے، انھوں نے ”عثو“ کی تفسیر فساد کے علاوہ دوسرے معنی سے کی ہے۔ چناں چہ ابوحیان نے نقل کیا کہ حضرت ابن عباس اور ابوالعالیہ نے فرمایا: نہ دوڑو۔ قتادہ نے کہا: نہ چلو۔ ایک قول ہے: مفسدوں کے ساتھ میل جول نہ رکھو۔ ایک دوسرا قول ہے: اپنے فساد میں آگے نہ بڑھو۔ ایک اور قول ہے: سرکشی نہ کرو۔
آگے ابوحیان نے کہا کہ یہ سارے اقوال ایک دوسرے سے قریب ہیں۔(۸۳)
(۲۱) فرمان باری: واذقلتم یا موسٰی لن نصبر علی طعام واحد فادع لنا ربک یخرج لنا مما تنبت الأرض من بقلہا وقثائہا وفومہا وعدسہا وبصلہا․(آیت:۶۱)
”اور جب کہا تم نے اے موسیٰ ہم صبر نہ کریں گے ایک ہی طرح کے کھانے پر، سو دعا مانگ ہمارے واسطے اپنے پروردگار سے کہ نکال دے ہمارے واسطے جو نکلتا ہے زمین سے: ترکاری، ککڑی، گیہوں، مسور اور پیاز“
یہ بدیہی بات ہے کہ اگانا اور نکالنا زمین ہی سے ہوگا پھر اس کے متعین ہوتے ہوئے ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے؟ یوں کیوں نہ کہا گیا کہ جو اگتا ہے؟ بدیہیات کی یہ قسم اس فرمان باری کی طرح ہے:
أو کصیب من السماء (سورہ بقرہ:۱۹)
”جیسے زور سے مینہ پڑرہاہو آسمان سے۔“
اس لیے کہ بارش آسمان ہی سے ہوگی۔
نیز فرمان باری: فخر علیہم السقف من فوقہم (سورہ نحل:۲۶)
”پھر گرپڑی چھت ان پر اوپر سے“
چھت اوپر ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح یہاں پر (مما تنبت الارض) ہے کہ اگانا، زمین ہی میں ہوگا۔
ڈاکٹر فہد رومی کہتے ہیں:
”مفسرین میں سے کسی نے بدیہیات کے اس مقام کی طرف اشارہ کیا اور نہ اس پر توقف کیا۔ میرے ذہن میں اس کی ایک توجیہ آتی ہے اور خود مفسر نہ ہونے کے باوجود اس کے لکھنے کی جسارت کررہا ہوں۔ مجھے اس توجیہ کے ذکر کرنے میں اس سے انسیت محسوس ہوئی کہ ابن عاشور نے (من بقلہا) کی تفسیر میں لکھا ہے:
”من تبعیضیہ ہے؛ اس لیے کہ وہ ساری ترکاریاں نہیں؛ بلکہ بعض مانگ رہے تھے۔“
آگے لکھتے ہیں:
”اس میں جس سے مانگ رہے تھے اس کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔“(۸۴)
اسی نقطہ کو مدنظر رکھ کر میں نے دیکھا کہ قومیں جب اپنے نبیوں سے ثبوت کا مطالبہ کرتی ہیں تو یہ یا تو ان کو عاجز کرنے کے لیے ہوتا ہے اور ان کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ ہونہ سکے یاکسی مطلوبہ خواہش یا مقصود آرزو کے لیے ہوتا ہے، جس کی تکمیل کی تمنا ہوتی ہے۔
پہلی نوعیت کے مطالبہ میں، قومیں سخت شرائط رکھتی ہیں اور اس قدر لمبے لمبے مطالبے کرتی ہیں کہ ان کو ان کی تکمیل محال نظر آتی ہے۔ مثلاً یہ مطالبہ:
”أو تسقط السماء کما زعمت علینا کسفا أو تأتی باللّٰہ والملائکة قبیلا․ أو یکون لک بیت من زخرف أو ترقی فی السماء ولن نوٴمن لرقیک حتی تنزل علینا کتاباً نقروٴہ“ (سورہ اسراء: ۹۲-۹۳)
”یا گرادے آسمان ہم پر جیسا کہ تو کہاکرتا ہے ٹکڑے ٹکڑے یا لے آ اللہ کو اور فرشتوں کو سامنے یا ہوجائے تیرے لیے ایک گھر سنہرا یا چڑھ جائے توآسمان میں اور ہم نہ مانیں گے تیرے چڑھ جانے کو جب تک نہ اتار لائے ہم پر ایک کتاب جس کو ہم پڑھ لیں۔“
انھوں نے آسمان ٹکڑے ٹکڑے گرانے کا مطالبہ کیا!! اللہ اور فرشتوں کو اپنے سامنے لانے کا مطالبہ کیا!! نبی کے لیے سونے کا گھر ہونے کا مطالبہ کیا!! اور آسمان پر چڑھ جانے پر بھی ایمان نہیں لائیں جب تک وہاں سے ایک کتاب نہ اتار لائیں جس کو یہ پڑھ سکیں!!
اسی طرح یہ مطالبہ
واذ قالوا اللّٰہم ان کان ہذا ہو الحق من عندک فأمطر علینا حجارة من السماء․ الآیہ (سورہ انفال:۳۲)
”اور جب وہ کہنے لگے یا اللہ! اگر یہی دین حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر برسادے پتھر آسمان سے۔“
انھوں نے شرط لگائی کہ بارش پتھر کی ہو!! اس کے علاوہ اور بھی دوسری آیات ہیں۔
دیکھنے کی بات ہے کہ ان کے مطالبات اپنے خیال میں کس قدر بے بس کرنے والے تھے!!
لیکن اگر مطالبہ ایسا ہو جس کی وہ تکمیل کے خواہش مند ہوں تواس انداز سے کرتے ہیں کہ نبی کے لیے وہ آسان ہے، مشکل نہیں، اس کاایک یا کئی ایک فائدہ بتاتے ہیں؛ بلکہ اس کے لیے اپنی سخت ضرورت کا اظہار کرتے ہیں، مثلاً یہاں پر انھوں نے کہا:
(یا موسی لن نصبر علی طعام واحد) ”اے موسیٰ! ہم ایک طرح کے کھانے پر صبر نہیں کریں گے“۔
پہلے انھوں نے اپنی ضرورت اور طلب کاذکر کیا پھر کہا:
(فادع لنا ربک) (سودعا مانگ ہمارے واسطے اپنے پروردگار سے)
اس میں اللہ تعالیٰ کو ایسی صفت سے ذکر کیا جو قبولیت کی داعی ہے، اس کے بعد کہا
(مما تنبت الأرض) (جونکلتا ہے زمین سے)
اس میں یہ اشارہ ہے کہ ایساہونا آسان ہے، اس میں کوئی مشقت نہیں۔ جیسے آپ کسی سے کہیں کہ برائے مہربانی وہ کتاب دیدیں جو آپ کے برابر میں ہے۔ تو آخری جملہ میں اس درخواست کی تکمیل کو آسان بنانا ہے۔
اسی طرح انھوں نے کہا (جیسا کہ قرآن نے اس کو نقل کیا ہے)
وقالوا لن نوٴمن لک حتی تفجر لنا من الأرض ینبوعا․ أو تکون لک جنة من نخیل وعنب فتفجر الأنہار خلالہا تفجیرا․ (سورہ اسراء:۹۱)
”اور بولے: ہم نہ مانیں گے تیرا کہا جب تک تو نہ جاری کردے ہمارے واسطے زمین سے ایک چشمہ یا ہوجائے تیرے واسطے ایک باغ کھجور کا اور انگور کا پھر بہائے تواس کے بیچ نہریں چلاکر“
یہاں بھی اپنے مطالبہ میں انہوں نے کوئی تعجیزی شرط نہیں رکھی؛ کیوں کہ وہ اس کے خواہشمند تھے۔
حتی کہ اگرکوئی چیز آسمان سے بھی مطالبہ کرتے ہیں تو اس کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ آسان ہے اور اس کے ملنے پر کیا آثار مرتب ہوں گے اسے بھی بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ جب انھوں نے آسمان سے خون اتارنے کا مطالبہ کیا تو اس کے چار فائدے گنوائے۔ قرآن کریم میں اسے نقل کیاگیا ہے:
قالوا نرید أن ناکل منہا و تطمئن قلوبنا ونعلم أن قد صدقتنا ونکون علیہا من الشٰہدین․ (سورہ مائدہ:۱۱۳)
”بولے کہ ہم چاہتے ہیں کہ کھائیں اس میں سے اور مطمئن ہوجائیں ہمارے دل اور ہم جان لیں کہ تونے ہم سے سچ کہا اور رہیں ہم اس پر گواہ“
ان سب کے پیش نظر مجھے بظاہر معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم) کہ (مما تنبت الارض) میں زمین کے ذکر میں، یہ بتانا ہے کہ مطالبہ آسان ہے اوراس کا ہونا مشکل نہیں۔
یہ رائے صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہے اوراگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے۔ اللہ معاف کرے۔ (۸۵)
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد: 90 ،ربیع الاول1427 ہجری مطابق اپریل2006ء