از: مولانااخلاق حسین قاسمی دہلوی
حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ کے فارسی ترجمہ ”فتح الرحمن“ کے اکثر مطبوعہ نسخوں میں شاہ صاحب کے تحریر کردہ مختصر فارسی حواشی درج نہیں ہیں حالانکہ ان مختصر حواشی میں شاہ صاحب نے بڑے اجتہادی علمی نکتے بیان کیے ہیں۔ اس ناچیز نے بتوفیق خداوندی ان بیش قیمت فارسی حواشی کو بعض نادر نسخوں سے نوٹ کرکے مرتب کیا ہے جو اہل علم کے استفادہ کیلئے پیش ہے۔
سورہ بقرہ – (۲)
الفتنة اشد من القتل (آیت : ۱۹۱) یعنی ترویج شرکت، یعنی شرکت کی تبلیغ و اشاعت قتل وغارت گری سے زیادہ بری ہے۔
شاہ عبدالقادر صاحب نے ترجمہ کیا:
اور دین سے بچلانا مارنے سے زیادہ ہے، یہی ترجمہ اس سے آگے کے جملہ، اکبر من القتل میں کیا ہے۔ (آیت: ۲۱۷)
شاہ عبدالقادر صاحب نے اپنے تفسیری حاشیہ (فوائد) میں آیت ذیل پر لکھا وقاتلوہم حتی لا تکون فتنة (۱۹۲)
اور لڑو ان سے جب تک باقی نہ رہے فساد۔ فائدہ میں لکھتے ہیں:
یعنی لڑائی کافروں سے اس واسطے ہے کہ ظلم موقوف ہو اور دین سے گمراہ نہ کرسکیں اور حکم اللہ کا جاری رہے۔ اور ایمان تو دل پر موقوف ہے، زور سے مسلمان کرنے سے کیاحاصل۔ (موضح القرآن : ۳۷)
شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ شرک و کفر کی تبلیغ و اشاعت کے خلاف جہاد نہیں توحید کی راہ سے لوگوں کو ہٹانے اور بچلانے پر جہاد ہے جو دراصل فساد اور ظلم (فتنہ) ہے۔
قل العفو (۲۱۹) یعنی از حاجت ضروری، یعنی جو ضروری حاجت سے زیادہ ہو وہ راہ خدا میں خرچ کرو۔
شاہ عبدالقادر صاحب نے ترجمہ کیا
تو کہہ جو افزود ہو۔ شاہ صاحب نے فارسی لفظ افزود (زیادہ) کالفظ تحریر کیا اور قرآن کریم کا مفہوم واضح کردیا۔
لیطمئن قلبی (۲۶۰) یعنی عین الیقین مے خواہم (میں عین الیقین کا طالب ہوں)
شاہ عبدالقادر صاحب نے لکھا: لیکن اس واسطے کہ تسکین ہو میرے دل کو (اطمینان قلب مراد ہے)
شاہ ولی اللہ نے عین الیقین کالفظ لکھا جواصطلاحی ہے۔
یقین کی تین قسمیں ہیں: (۱)علم الیقین، (۲)عین الیقین، (۳)حق الیقین
مطالعہ یا تعلیم و تبلیغ کے ذریعہ حاصل شدہ یقین علم الیقین ہے، مشاہدہ کے ذریعہ حاصل شدہ عین الیقین ہے اور آخرت کے مشاہدہ سے جو علم حاصل ہوگا وہ حق الیقین ہے۔ ناچیز نے ایک مستقل مضمون میں تفصیل سے بحث کیا ہے۔
لیس علیکم ہداہم (۲۷۲) یعنی ایصال الی مطلوب، یعنی ہدایت اس مرتبہ کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری نہیں تھی، یعنی کسی کو منزل مقصود پر پہنچانا آپ کے ذمہ نہیں تھا۔ آپ کے ذمہ راہ دکھانا اور راہ بتانا تھا۔
شاہ عبدالقادر صاحب نے ترجمہ کیا۔
تیرا ذمہ نہیں انکو راہ پر لانا، یہ ایصال الی المطلوب ہی کا مفہوم ہے۔ شاہ صاحب نے سورہ قصص کی آیت (۵۶)
انک لا تہدی من احببت، میں بھی راہ پر لانا ترجمہ کیا ہے۔ یعنی توراہ پر نہیں لاتا جس کو چاہے۔
سورہ قصص کی آیت مذکورہ میں رسول پاک کو مخاطب کیا گیا ہے، اس خطاب کا تقاضا ہے کہ یہاں ایصال الی المطلوب کے مفہوم میں ہدایت کو لیا جائے اور اس تقاضے کو شاہ عبدالقادر صاحب نے پورا کیا ہے۔
آپ کے علاوہ تمام اہل تراجم نے (اراء ة الطریق) راہ بتانے اور راہ دکھانے کا ترجمہ کرکے اس تقاضے کو نظر انداز کردیا ہے۔
(سورہ بقرہ آیت:۱) ہدی للمتقین میں ہدایت کے تراجم یہ ہیں:
راہ نمائندہ (جرجانی)، رہنما امت (شاہ ولی اللہ) راہ دکھاتی ہے (شاہ رفیع الدین) راہ بتاتی ہے (شاہ عبدالقادر)
مولانا تھانوی نے ترجمہ کیا: راہ بتلانے والی ہے۔ یعنی شاہ رفیع الدین صاحب کے ترجمہ کا اسلوب بدل دیا۔
فی السلم کافة (۲۰۸) یعنی اُصول مختلف مشوید، یعنی اصول دین میں اختلاف پیدا نہ کرو۔
شاہ صاحب نے بڑے اجتہادسے کام لیا ہے، آیت یہ ہے اے ایمان والو! داخل ہوجاؤ اسلام میں پورے۔
شاہ صاحب نے سلم اور اسلام سے اسلام کے بنیادی اصول مراد لیے ہیں، کیونکہ فروع اورجزئیات میں اختلاف کی گنجائش خود شارع علیہ السلام نے رکھی ہے ۔
کان الناس امة واحدة (۲۱۳)
مترجم گوید حاصل آنست کہ سنة اللہ جاری شدہ است کہ بعد بعثت ہر پیغامبر درامت دعوت اختلاف واقع شود، ازاں تنگ دل نباشد یعنی پیش او آمدن ہرپیغمبر کہ باشد متفق بودند بایک دگر در دین اختلاف نداشتند۔
مترجم (شاہ ولی اللہ) کہتا ہے کہ اس آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ خدا کی سنت جاریہ اور اس کا عام معمول یہ رہا ہے کہ ہر پیغمبر کی بعثت کے بعد اس کی مخاطب قوم (امت دعوت) کے اندراختلاف رونما ہوا ہے لہٰذا اے رسول ! آپ اپنی قوم کے اختلاف سے دل برداشتہ نہ ہوں؛ یعنی ہر رسول کے آنے سے پہلے اس قوم میں اختلاف نہ تھا۔ اورجس دین پر وہ تھے اس میں آپس کے اندر اختلاف نہیں رکھتے تھے۔
شاہ عبدالقادر صاحب نے اس آیت پر حسب ذیل فائدہ تحریر کیا۔
یعنی اللہ نے کتابیں اور نبی متعدد بھیجے، اس واسطے نہیں کہ ہر فرقہ کو جدا راہ فرمائی، اللہ کے ہاں سے سب خلق کو ایک ہی راہ کا حکم ہے، جس وقت لوگ اس راہ کی طرف سے بچلے ہیں اللہ نے نبی بھیجا کہ سمجھائے اور کتاب بھیجی کہ اس پر چلے جاویں، پھر کتاب والے کتاب میں بچلے تب دوسری کتاب کی حاجت ہوئی، سب نبی اور سب کتابیں اسی ایک راہ کے قائم کرنے کو آئی ہیں۔
اس کی مثال جیسے تندرست ایک ہے اور امراض بے شمار، جب ایک مرض پیدا ہوا، ایک دوا اور پرہیز اس کے موافق فرمایا، جب دوسرا مرض پیدا ہوا دوسری دوا اور پرہیز اس کے موافق فرمایا۔
اب خدا کی آخری کتاب میں ایسی راہ فرمائی کہ ہرمرض سے بچاؤ ہے، یہ سب کے بدلے کفایت ہوئی (موضح القرآن: ۴۱)
لا اکراہ فی الدین (۲۵۷) یعنی حجت اسلام ظاہر شد پس گویا جبر کردن نیست اگرچہ فی الجملہ جبر باشد۔
شاہ صاحب نے فی الجملہ سے اشارہ جہاد اسلامی کی طرف کیا ہے۔ جہاد اسلامی دین قبول کرنے کے لیے کسی کو مجبور کرنے کی غرض سے برپا نہیں ہوتا البتہ جو اہل کفر دوسروں کو قبول اسلام سے روکنے کے لیے جبر و تشدد کرتے ہیں۔
جہاد اسلامی ان کے جبر و تشدد کے خلاف عملی اقدام کرنے کا حکم دیتا ہے اس عملی اقدام کو فی الجملہ یعنی ایک طرح کے جبر سے تعبیر فرمارہے ہیں۔
سورہ آل عمران- (۳)
ان اللّٰہ یرزق من یشاء بغیر حساب (۳۷) در امر ایں دعاء بشارت است بمغلوب شد می کافراں۔
یعنی اس آیت میں رزق و روزی کے لیے بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بے شمار اور بے قیاس روزی عطا کرتا ہے۔
یہ حضرت مریم کا قول خدا تعالیٰ نے نقل کیا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ رزق و روزی میں یہ بشارت اس طرح اشارہ کررہی ہے کہ خدا تعالیٰ اہل کفر کو اسلام کے مقابلہ میں مغلوب کرے گا۔
عندہا رزقا (۳۷) یعنی میوہ زمستاں در تابستاں ومیوہ تابستاں در زمستاں․
یعنی جاڑہ کا میوہ گرمی میں اور گرمی کا میوہ جاڑے میں عطا کیا جاتا ہے۔ علماء اہل عقل کا ایک طبقہ (اصلاحی حضرات) حضرت مریم کے اس کرامتی واقعہ میں رزق سے روحانی رزق مراد لیتے ہیں لیکن شاہ صاحب نے عند اللہ (اللہ کے پاس سے) کے الفاظ سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس سے مادی رزق مراد ہے۔
ولکن کان حنیفًا مسلما (۶۷) مترجم گوید حنیف آس را مے گویند کہ استقبال کعبہ کند وحج گذارد وختنہ نماید واز جنابت غسل کند حاصل آں کہ نام کسے بود کہ شریعت ابراہیمی متدین باشد۔
مترجم (شاہ ولی اللہ) کہتا ہے کہ حنیف وہ ہے جو کعبہ کی طرف رخ کرے حج بیت اللہ ادا کرے اور ختنہ کرائے اور غسل جنابت کرے حاصل یہ کہ حنیف وہ ہے کہ شریعت ابراہیمی کی پابندی کرے۔
یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان میں کہا گیا ہے۔
اخذتم علی ذلکم اصری (۸۱) یعنی از بنی آدم پیماں گرفت برائے پیغمبراں یعنی بنی آدم سے عالم ازل میں تمام رسولوں پر ایمان لانے کا عہد لیاگیا۔
شاہ عبدالقادر صاحب نے اس آیت کے فائدہ میں دوسرا مطلب لیا، لکھتے ہیں:
اللہ نے اقرار لیا نبیوں کا یعنی نبیوں کے مقدمہ میں بنی اسرائیل سے اقرار لیا۔
تفسیر کا ایک قول یہ ہے کہ تمام رسولوں سے یہ عہد لیاگیا کہ تم ہر رسول کی تصدیق کروگے، البتہ نبیوں کے واسطے سے یہ عہد ان کی امتوں پر عائد ہوا۔
ثم ازدادوا کفرا (۹۰) یعنی اصرار کردند تا وقت غرغرہ۔
یعنی ان کا کفر اتنا دراز ہوا کہ وہ موت کے غرغرہ (سکرات موت) تک پہنچ گئے۔ اوراس وقت کی توبہ بھی قبول نہیں۔
حبل اللّٰہ (۱۰۳) یعنی بدین خدا یعنی اللہ کی رسی سے اللہ کا دین مراد ہے۔
تہتدون (۱۰۳) یعنی تفرق دراصول دین حرام است کہ جمع معتزلی باشد و جمع شیعہ و علی ہذا القیاس۔
یعنی اور تم لوگ آگ کے کنارہ پہنچ چکے تھے اللہ نے تمہیں اس سے بچایا، اس طرح اللہ بیان کرتا ہے تمہارے لیے اپنی آیات تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اصول دین میں اختلاف حرام است جیسے فرقہ معتزلہ اور شیعہ فرقہ کی حالت ہے اسی طرح دوسرے گمراہ فرقے۔
واولئک ہم المفلحون (۱۰۴) یعنی واجب الکفایہ است کہ جمع بامر معروف ونہی از منکر قیام نمایند۔
ولتکن منکم امة یدعون الخ یعنی واجب کفایہ ہے کہ ایک جماعت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قائم رکھے۔
اخرجت للناس (۱۲۰) یعنی مقررکردہ شد – یعنی اے مسلمانو! تم خیر امت ہو اور تمہیں امر بالمعروف اور نہی عند المنکر کے لیے مقرر کیاگیاہے۔
کتب علیہم القتل (۱۵۴) یعنی ایں کار برائے آں کردہ شد کہ در علم الٰہی مقدر بود۔
غزوہ احد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اے صحابہ ! تم سے میدان احد میں یہ کام (غلطی) اس لیے سرزد ہوا کہ یہ بات علم الٰہی میں طے تھی۔ لہٰذا وہ صحابہ اس غزوہ میں شہید ہوئے۔
ما خلقت ہذا باطلا (۱۹۱) یعنی بغیر تدبیر بلیغ، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس عالم کائنات کو تدبیرکامل کے بغیر پیدا نہیں کیا بلکہ بے شمار حکمتوں اور مصلحتوں کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔
دوسری جگہ باطل کے بجائے عبث کا لفظ لایاگیا ہے۔
أفحسبتم انما خلقناکم عبثا وانکم الینا لا ترجعون ․
اے منکرو! کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے مقصد اور فالتو اور بے کار پیدا کیاہے؟ ایسا نہیں بلکہ تم ایک مقصد و مشن کے تحت پیدا کئے گئے ہو اوراس کی جوابدہی کے لیے تمہیں موت کے بعد دوبارہ زندہ کرکے عدالت الٰہی میں کھڑا کیاجائے گا۔
سورہ مائدہ- (۵)
لایضرکم من ضل (۱۰۵) یعنی اگر شما صلاح کردید و شرط امر بالمعروف بجا آوردید مخالفت مخالفاں ضرر نمے کند۔
یعنی اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو اور اپنی ذاتی اصلاح کرو، جو لوگ گمراہی میں مقید ہیں وہ تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
شاہ صاحب شرط لگاتے ہیں کہ اگر مسلمان نیکی پر قائم رہیں اور ساتھ ہی اپنا فرض امر بالمعروف ادا کرتے رہیں اس وقت مخالفین کی مخالفت سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
کچھ لوگ تبلیغ و دعوت کے کام کو بے ضرورت کہتے ہیں اور ذاتی اصلاح کو کافی قرار دیتے ہیں۔ شاہ صاحب نے اس کی تردید کی ہے۔
فلما توفیتنی (۱۱۷) یعنی برآسمان بروی مرا ۔
یعنی حضرت عیسیٰ نے فرمایا، اے خدا جب تونے مجھے آسمان پر اٹھالیا تو اس کے بعد میری قوم کا توہی نگہبان تھا، اس وقت کے بارے میں میری ذمہ داری کیا تھی؟
جو لوگ اس آیت میں لفظ وفات سے موت مراد لیتے ہیں شاہ نے اس خیال کی تردید کی۔
شرکائہم (۱۳۸) یعنی شیاطین کہ وسوسہ کردہ اند یا پیشوایاں کہ مذہب قرار دادہ اند۔
یعنی اسی طرح اکثر مشرکین کے لیے اولاد کو زندہ درگور کرنے کے فعل کو ان کے شرکاء نے خوشنما فعل بنادیا ہے۔
شاہ صاحب فرماتے ہیں، شیاطین نے وسوسہ کے ذریعہ خوشمنابنادیا یا ان کے گمراہ رہنماؤں نے اس فعل ظلم کو دین قرار دیدیا۔
قل ہَلُمّ شہداء کم (۱۵۰) یعنی بگوبیارید علماء خودرا۔
آپ کہیے کہ اپنے گواہوں کو بلاؤ وہ گواہ جو گواہی دیں کہ ان مذکورہ چیزوں کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔
شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ گواہوں سے مراد ان کے علماء ہیں، ان علماء ضلالت کو گواہی کے لیے چیلنج کیاگیاہے۔
سورہ انعام-(۶)
یعرفونہ (۲۰) مے شناسد حقیقت ایں قول را یعنی حکم توحید۔
یہ اہل کتاب کلمہ توحید کی حقیقت کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کو جانتے اور پہچانتے ہیں۔
بعض مفسرین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے تعلق قائم کرتے ہیں شاہ صاحب نے توحید کے عقیدہ سے قائم کیاہے۔
الا ساء ما یزرون (۳۱) یعنی عمل بد بشکل چیزے درنہایت زشتی و ناخوشی شدہ بر پشت او بنشیند۔
یعنی ان کافروں پر یہ بوجھ بہت براہوگا، شاہ صاحب کے نزدیک برے اعمال کا بوجھ مراد ہے جو ان کافروں کی پیٹھ پر نہایت تکلیف و مصیبت کے ساتھ سوار ہوں گے۔
فتحنا علیہم ابواب السماء (۴۴) یعنی باستدراج نعمتہا فراواں دادیم ۔ یعنی ہم مہلت کے طورپر ان کافروں کو فراوانی کیساتھ اپنی نعمتیں عطا کرتے ہیں۔
آسماں کے دروازے کھولنے کا مطلب یہاں کیاہے۔
مفاتیح الغیب (۵۹) یعنی انواع علم غیب۔یعنی غیب کی کنجیاں اسی کے قبضہ میں ہیں۔ کنجیوں سے مراد غیب کی مختلف قسمیں ہیں۔
ویذیق بعضکم باس بعض (۶۵) یعنی افواج متعدد پیدا شود وبایک دگر جنگ کنید۔
آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی جنگ و پیکار کا مزا چکھیں گے۔
شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ مختلف فوجی طاقتیں پیدا ہوجائیں گی اور یہ مختلف فوجی قوتیں آپس میں جنگ کریں گی۔
یہ صورت ہوگی عذاب الٰہی نازل ہونے کی۔
فبہداہم اقتدہ (۲۱) یعنی چنانکہ انبیاء صبر کردند برایذاء کفار تو نیز صبر کن۔
اے نبی پاک ! آپ ان مذکورہ رسولوں کے نقش قدم اور ان کے طریقہ پر عمل کریں، اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح کفار کی ایذاء رسانی پر سابق رسولوں نے صبر کیا آپ بھی صبر کریں، کیونکہ شریعت میں اتباع کا حکم آپ کو نہیں دیا جاسکتا، آپ کی شریعت مکمل ہے۔
ولتنذر ام القری (۹۲) یعنی انذار اول عرب را کردہ باشد کہ زبان عربی مے فہمند و ثانیا جمیع اہل ارض را بواسطہ ترجمہ۔
پس ایں جا انذار اول مراد است مانند آیت ہوالذی بعث فی الامیین رسولا وآیت ما ارسلناک الا رحمة للعالمین اعم از اول و ثانی۔
مطلب یہ ہے کہ پہلے اہل عرب کو تبلیغ کیجئے کیونکہ وہ عربی زبان جانتے ہیں اور پھر دوسرے مرحلہ میں تمام اہل زمین کو ترجمہ کے ذریعہ پیغام دیجئے۔
پس اس آیت میں پہلے مرحلہ کی تبلیغ مراد ہے جیسے کہ اس آیت میں کہا گیا ہو الذی بعث فی الامیین رسولاً – یعنی عرب کے امیوں کے لیے رسول بناکر بھیجا گیا۔
رہی یہ آیت ما ارسلناک ! ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمة بناکر بھیجا تو یہ آیت عام ہے پہلی اور دوسری آیت سے۔
یعنی اس آیت میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم گیر مرتبہ کا بیان ہے یہ مرتبہ و منصب عہد انسانی اور بین الاقوامی عہد کا تقاضا ہے۔
یعلمون انہ منزل (۱۱۵) وہ یہود جانتے ہیں کہ قرآن خدا کی طرف سے آیا ہے۔
انعام مکی سورة ہے – مکی سورتوں میں کہا گیا ہے کہ یہود قرآن کی تصدیق کرتے ہیں اور مدنی سورتوں میں کہا گیا ہے کہ انکارکرتے ہیں، شاہ ولی اللہ اس کی توجیہ فرماتے ہیں: ”وجہ تطبیق آنست کہ چوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در مکہ بود ہنوز دعوت یہود نکردہ بود وہمہ بصدق قرآن معترف بودند کہ حکم آں بر عرب لازم است و ہیچ کس از ایشاں انکار نہ کردہ و چوں ہجرت فرمود ایشاں را دعوت کرد، بعناد درآمدند (فتح)
تطبیق کی صورت یہ ہے کہ مکہ معظمہ کے اندر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو دعوت نہیں دی اس لیے یہودی قرآن کریم کی صداقت کو تسلیم کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ قرآن اہل عرب کی ہدایت کے لیے آیا ہے، انہیں اسکی تصدیق کرنی چاہیے، لیکن جب حضور نے مدینہ منورہ تشریف لاکر یہود کو دعوت دینی شروع کی تو وہ یہود عناد و عداوت پر اتر آئے۔
یشرح صدرہ (۱۲۶) یعنی بفہماندش حقیقت اسلام ومحاسن آں۔
سینہ کھول دیتاہے یعنی اسلام اوراسکے محاسن کو سمجھنے کے لیے ان کا سینہ کھول دیتا ہے۔
الا ماشاء اللّٰہ (۱۲۹) یعنی درحق اہل نجات۔
یعنی اے منکرو ! تمہارا ٹھکانا جہنم ہے، جس میں تم ہمیشہ رہوگے، مگر جب اللہ چاہے یہ استثناء اہل نجات اور اہل ایمان کے حق میں ہے۔
شاہ صاحب نے یہ بات صاف کردی کہ جہنم سے نجات کا استثناء اہل کفر کے حق میں نہیں ہے بلکہ یہ استثناء اہل ایمان و اہل نجات کے حق میں ہے جو اپنے گناہوں کی سزا پاکر اور پاک صاف ہوکر جنت میں داخل کردئیے جائیں گے، اس تشریح میں شیخ ابن عربی کے نظریہ کی تردید ہے۔
مولانا شبیر احمد عثمانی نے یہ تشریح کی ہے:
یہ جو فرمایا جب چاہے اللہ – اس واسطے کہ دوزح کا عذاب دائمی ہے تو اسی کے چاہنے سے ہے وہ جب چاہے موقوف کرنے پر قادر ہے لیکن وہ ایک چیز چاہ چکا اور اس کی خبر پیغمبروں کی زبانی دی جاچکی وہ اب ٹل نہیں سکتی۔ (صفحہ ۱۹۲)
واہلہا غافلون (۱۳۱) یعنی قبل از بعثت رسل عقوبت نمے آید۔
یعنی یہ اس لیے کہ آپ کا پروردگار نافرمان بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں، اس صورت میں کہ ان کے رہنے والے غفلت میں ہوں۔
شاہ صاحب فرماتے ہیں رسولوں کی بعثت سے قبل عذاب نہیں آتا۔
مطلب یہ کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ پہلے وہ رسولوں کے ذریعہ توحید کا پیغام بدرجہ اتمام حجت پہنچاتا ہے، پھر سرکشی پر اَڑنے والی قوم کو ہلاک کرتا ہے۔
یعنی رسول ان کی غفلت دور کرتے ہیں اور ان پر خدا کی حجت قائم کرتے ہیں۔
رسول آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام الٰہی (توحید) کی حجت قیامت تک کے لیے قائم کردی، لیکن اسی کے ساتھ قرآن نے یہ بھی اعلان کردیا کہ اب قوموں کی سرکشی پر عذاب نازل نہیں ہوگا۔
یہ مسئلہ بڑا پیچیدہ ہے کہ طبعی حوادث سیلاب، زلزلہ اور طوفان برق باد ہو یا ذاتی زندگی میں واقع ہونے والے مصائب، بیماریاں وغیرہ ہوں، کا تعلق انسانی اعمال سے جوڑنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں اس سلسلہ کی مختلف آیات وارد ہوئی ہیں اور ان کے درمیان تطبیق دینا ایک اہم علمی کام ہے اس لیے ہم نے اس مسئلہ کی الگ تحقیق کی ہے۔
سورہ نساء – (۴)
ان تجتنبوا کبائر الاثم (۳۱) یعنی گناہ کبیرہ آنست کہ برآں حد شرع شد یا وعدہ دوزخ کردہ آمد یا بکفر مسمی شد در قرآن یا سنت صحیح وہرکہ از کبائر اجتناب کند صغائر اورا نماز و روزہ و صدقہ نابود مے سازد۔
یعنی گناہ کبیرہ وہ ہے کہ اس پر شرعی حد قائم ہوتی ہو یا اس کے حق میں دوزخ کا اعلان کیاگیا ہو یا اسے کفر کہا گیا ہو قرآن کریم یا احادیث صحیحہ کے اندر اور اس کاحکم یہ ہے کہ جو شخص گناہ کبیرہ سے دور رہتاہے اس کے صغیرہ گناہ عبادات، نماز، روزہ، صدقہ و خیرات کے ذریعہ مٹادئیے جاتے ہیں۔
نولہ ماتولی (۱۱۵) مترجم گوید یعنی قساوت قلبی بیفزانیم۔
اور جو شخص ہدایت آجانے کے بعد رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا ہے اور اہل ایمان کی راہ سے الگ چلے تو ہم اسے اسی راہ کے حوالہ کردیتے ہیں۔
نولہ کا ترجمہ شاہ عبدالقادر صاحب نے حوالہ کریں (سپرد کریں) کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے دل میں قساوت اور سختی پیدا کردیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ رجوع وتوبہ کی توفیق سے محروم ہوجاتا ہے۔
فلیغیرن خلق اللّٰہ (۱۱۹) یعنی خصی کردن وسوزن زدن بریدن تا سرخ یاکبود گردانند، یعنی شیطان نے جس قسم کے تغیر پیدا کرنے کا اعلان کیا ہے ا س سے اس کی مراد یہ ہے کہ مردوں کو نامرد بننے (زنانہ بننے) کی ترغیب دوں گا اور وہ میری ترغیب پر اپنا جسم گدوائیں گے اور نیلے یا زرد رنگ کے نشان بنوائیں گے یہ گدوانے کا رواج بہت سے ملکوں میں پایا جاتا ہے۔
ولن یجعل للّٰہ (۱۴۱) یعنی نشود کہ اسلام رامستاصل گردانند۔
یعنی اللہ تعالیٰ کافروں کو ایمان والوں پر غلبہ نہیں دے گا، اس سے مراد یہ ہے کہ کافر اسلام کو ختم کرنے کی طاقت کبھی نہیں پائیں گے۔
مسلمانوں پر کافروں کے غلبہ کی بہت سی تاویلات کی گئی ہیں کیونکہ دنیا میں یہ ممکن ہے کہ اہل ایمان پر اہل کفر کا سیاسی غلبہ ہوجائے۔
اس لیے بعض مفسرین نے اسے قیامت کے دن سے متعلق کیا ہے، بعض نے کہا ہے کہ غلبہ سے ایسا غلبہ مراد ہے جس سے مسلمانوں کا خاتمہ ہوجائے۔ شاہ ولی اللہ نے اس بحث سے بچتے ہوئے اس کا مطلب بیان کیا کہ اس غلبہ سے اسلام پر ایسا غلبہ مراد ہے جس سے اسلام معاذ اللہ ختم ہوجائے۔ ہم نے مستند موضح القرآن کے حاشیہ پر یہ ساری بحث تحریر کی ہے۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ1، جلد: 90 ،ذی الحجہ1426 ہجری مطابق جنوری2006ء