از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون
اکتوبر ۲۰۰۵/ میں آئے تباہ کن زلزلہ کی تباہ کاریوں اور ہلاکتوں سے نمٹنے میں حکومتیں جس طرح ناکام ہوئی ہیں کم سے کم ابتدائی مرحلہ میں اس نے ایک بہت بڑا انسانی ہمدردی سے متعلق سوال کھڑا کیا ہے۔ کیا دنیا قدرتی آفات سے نمٹنے کی اہل نہیں ہے؟ اس کے پاس ذرائع نہیں ہیں؟ یااس کے پاس ترجیحات صحیح نہیں ہیں؟ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے لیے کہ آخر زلزلہ کے بعد دنوں نہیں بلکہ ہفتوں تک بھی ملبہ میں دبے لوگوں کو نکالنے کا سامان نہیں ملا۔ بیماروں کو طبی مدد نہیں ملی، بھوکوں کو کھانا نہیں ملا اور بے گھر بار لوگوں کو آشیانہ نہیں ملا، کیوں جب راجدھانی ”اسلام آباد“ میں منہدم بلڈنگ سے زخمیوں کو نکالنے میں اتنا عرصہ لگا اور وہاں ضروری آلات اتنی دیر سے پہنچے تو ۷-۵ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع منہدم کچے پکے مکانوں کے مکینوں پر کیا گذری ہوگی وہ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ گئیں تو پہنچنے کے لیے ذرائع نہیں تھے مگر کیا پورے ملک یا پوری انسانیت دوست دنیا کے پاس کل ملاکر ۲۰۰ ہیلی کاپٹر بھی نہیں تھے کہ ہزاروں زخمیوں کی جانیں بچائی جاسکتیں؟ پوری دنیا کے پاس اتنے ٹینٹ نہیں تھے کہ لاکھوں زخمیوں ، بے گھروں کو اذیت ناک زندگی اور مجبوری کی موت سے بچایا جاسکتا؟ ایتھنز اولمپک کے صرف حفاظتی انتظامات پر ایک ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرنے والی ”انسانیت دوست“ دنیا کے پاس اقوام متحدہ کے ذریعہ باز آبادکاری کے کل کام پر درکار رقم ۵ /ارب ڈالر نہیں ہیں کہ وہ ۳۰ لاکھ لوگوں کو برف باری اور بارش کے طویل موسم میں صفر سے کم درجہٴ حرارت پر بے کسی کی زندگی گذارنے سے روک سکے؟ اس سے پہلے سپرپاور ملک میں آئے سمندری طوفان کی تباہ کاریوں نے بھی انسانی ترجیحات کی پول کھولی تھی کہ ملک کے کالے اورکمزور طبقہ پر مشتمل علاقوں میں احتیاط،امداد، باز آبادکاری ہرچیز میں تساہل اورلاپرواہی برتی گئی۔ متاثرین کئی کئی دنوں تک مکانوں کی چھتوں اور بالائی کمروں میں بھوک اور پیاس سے بے حال منتظر رہے کہ بچانے والے آئیں مگر وہ نہیں آئے۔ یا انہیں پہنچنے میں کم از کم ہفتہ لگ گیا۔ اس سے پہلے سونامی کی تباہ کاری کے وقت بھی حکومتوں کا ”انسانی چہرہ“ (Human Face) اچھی طرح اصل صورت میں سامنے آیا تھا۔ حکومتیں کہتی ہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، مگر یہی حکومتیں انسانوں کی بربادی اور ہلاکت کے انتظامات بہت پختہ رکھتی ہیں۔ پڑوسی ملک پاکستان میں اس بات پر بہت بحث چل رہی ہے کہ زلزلہ کے متاثرین کی مکمل مدد کے لیے درکار ۶-۵/ارب ڈالر کے بدلہ کیا اس معاہدہ کو ختم کردیا جائے جن کے تحت وہ امریکہ سے تقریباً اتنی ہی مالیت کے F-16لڑاکا طیارہ خرید رہا ہے۔
دراصل یہی وہ سوال ہے جس پر تمام انسانیت دوستوں اور دردمند دل رکھنے والوں کو غور کرنا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے کہ غریب سے غریب اورامیر سے امیر ممالک اپنی کل قومی آمدنی کا بڑاحصہ عوام کی خوش حالی، فلاح اور ترقی کے بجائے امریکہ اور اسلحہ پیدا کرنے والے چند دوسرے بڑے ممالک کی اسلحہ کی فیکٹریوں کو چلاجاتا ہے۔اور یہی وہ اصل مجرم ہیں جو اپنی فیکٹریوں کو چلائے رکھنے کے لیے بڑی خطیر رقمیں سیاستدانوں، حکمرانوں اور جنرلوں کو دیتے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ الیکشن میں چندہ دینے میں اور پالیسیاں بنانے میں اِن کے تاجروں کا نام سب سے اوپر ہوتاہے۔ جنگ دراصل ان ممالک کے لئے نفع کا سودا ہوتا ہے۔ ہر جنگ کے بعد اسلحہ کی تجارت بڑھتی ہے۔ امریکی کانگریس کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۰/ میں ہتھیاروں کی فروخت ٪۸ سے بڑھ کر ۴۰/ارب ڈالر ہوگئی جس کا آدھا حصہ امریکہ کے حصہ میں آیا۔ اس سال پوری دنیا نے اپنے دفاع پر تقریباً ۸۰۰/ ارب ڈالر خرچ کئے۔مگر یہی دنیا سال بھر میں اقوام متحدہ کو مطلوبہ ۵/ارب ڈالر کی رقم نہیں دے سکتی۔ دنیا کی سب سے بڑی دفاعی تنظیموں میں سے ایک آکسفام کے ڈائرکٹر باربرا اسٹاکنگ کا کہنا ہے کہ ”اسلحہ کا پھیلاؤ کنٹرول سے باہر ہے اور یہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے دنیا کے غریب افراد سخت مشکلات کا شکارہوگئے ہیں۔ غریبوں کو محفوظ رکھنے کے لئے اسلحہ کی روک تھام کا ایک عالمی سمجھوتہ کیا جائے۔ سروے پورٹ میں کہا گیا ہے کہ افریقہ میں جاری جنگ کی وجہ سے ہر سال ۱۰/ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ اسلحہ کی سب سے زیادہ تجارت برطانیہ سمیت دنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک کرتے ہیں اور یہ ممالک غریب ممالک کو اسلحہ بیچ کر اپنی دفاعی صنعتوں کو بچاتے ہیں۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ۱۱/ستمبر کے بعد سے اسلحہ کی فروخت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ واشنگٹن نے ۱۵/ دوست ممالک کے لئے فوجی مدد میں اضافہ کرلیا ہے۔ (ایجینال لندن ۱۰/اکتوبر ۲۰۰۵/)
امریکی کانگریس کی رپورٹ برائے فروخت اسلحہ دوران سال ۲۰۰۴/ کے مطابق ۲۰۰۰/ کے بعد ۲۰۰۴/ میں سب سے زیادہ اسلحہ کی فروخت ہوئی جو ۳۷ /ارب ڈالر تھی جس میں امریکہ کا حصہ 12.4 ارب ڈالر کا تھا۔ اور خریدنے والوں میں چین، سعودی عرب اور بھارت سرفہرست ہیں۔ اکیلے چین میں ۱۱۰-۲ ارب ڈالر کی اور بھارت میں تقریباً ۸/ارب ڈالر کے ہتھیار خریدے۔ سعودی عرب تیسرے نمبر پر رہا۔ (ٹائمس آف انڈیا ۳۱/۸/۲۰۰۵/ نیویارک ٹائمز کے حوالہ سے)
۱۱/ستمبر ۲۰۰۵/ کی بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق عراق پر امریکی حملہ کے نتیجہ میں امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے افسروں کی تنخواہ میں ٪۲۰۰ کا اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ میں دفاع کی مد میں ٪۲۵ اضافہ ہونے کیوجہ سے بجٹ تقریباً ۴۴۰/ارب ڈالر کا ہوگیا۔ جس کا تقریباً نصف پرائیویٹ اسلحہ ساز کمپنیوں کو گیا۔ ان کمپنیوں کے افسروں اور مزدوروں کی تنخواہوں میں جو فرق 1:300کا تھا اب وہ 1:400 کا ہوگیاہے۔ اس طرح جنگ اِن کیلئے نفع کا سودا ہوگئی ہے۔ (بی بی سی اردو ڈاٹ کام ۱۱/ستمبر ۲۰۰۵/)
اقوام متحدہ کے باز آبادکاری محکمہ کے سربراہ یان ایجلینڈ نے ۱/دسمبر ۲۰۰۵/ کو اپنی اپیل میں کہا کہ سوڈان، یوگنڈا اور پاکستان کے ۳ کروڑ متاثرین کے لئے جو رقم درکار ہے وہ پوری دنیا کے دفاع پر ۴۸ گھنٹہ میں کئے گئے خرچ کے برابر ہے۔ یا کافی پینے والے ممالک کے لوگوں کے ۲کپ کافی کے خرچ کے برابر ہے۔ مگر اسی رقم سے ہم ۳/کروڑ متاثرین کی جانیں بچاسکتے ہیں اور ان کی زندگی کو آسان بناسکتے ہیں۔ پاکستان میں زلزلہ زدگان کی ریلیف کے لئے ہوئی بین الاقوامی کانفرنس میں اقوام متحدہ نے ۵/ارب ڈالر کی رقم مانگی اسکا 3/4 حصہ ان کو قرضوں کی شکل میں ملا مدد کا حصہ بہت کم ہے۔ جبکہ صرف پاکستان میں ہی متاثرین کی تعداد ۳۰ لاکھ بتائی جارہی ہے۔ ٹینٹ کے اندر سردیوں کی بارش اور برف باری کے دوران کیسے انسان زندہ رہ سکے گا؟ سماجی فلاح و بہبود کی مد میں خرچ کرنے میں حکومتوں کا رویہ کتنا مجرمانہ غفلت کا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں برڈ فلو نام کی بیماری کی تشخیص کے لئے ایک بھی لیب نہیں ہے۔ اس کا نمونہ انہیں باہر بھیج کر جانچ کرانی ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں دوران سال برسات کے موسم کی بارش نے مہانگری ممبئی کے انتظامات اور سرکار کے ریلیف اور ایمرجنسی امداد کی پول کھول دی۔ برسات کے موسم میں ہی یوپی کے مشرقی اضلاع میں دماغی بخار کے وائرس کے ہاتھوں ہزاروں لوگ متاثر ہوئے ہزاروں ہلاک و معذور ہوئے مگر یوپی سرکار کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بچاؤ کے لئے ضروری ویکسین باہر سے منگوانے کے لئے وسائل نہیں ہیں۔ ہر ایمرجنسی کے وقت یہی ہوتا ہے جس وقت مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے اسی وقت مدد مہیا نہیں ہوتی۔
اس مجرمانہ غفلت یا مجبوری کی وجہ کیا ہے؟
یہ دنیا جس ورلڈ آرلڈر کے تحت چلائی جارہی ہے اس میں جو اقتصادی، سیاسی،معاشی پالیسیاں لاگو کی جارہی ہیں WEF, G-8 ورلڈ اکنامک فورم G-4: ورلڈ بینک بین الاقوامی مالیاتی ادارہ GATT; IMF اور پیٹنٹ کے قوانین تیز ترقی یافتہ ممالک کا اپنی صنعتوں کو سبسڈی وغیرہ کے ذریعہ محفوظ رکھنے کا رحجان بنایاگیا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ دنیا کو اپنی مرضی اور فائدہ کے لحاظ سے چلانے کے لئے جو G-co- politics ہورہی ہے جس طرح دوستیاں، دشمنیاں اور گھیرا بندیاں اور دوسرے ممالک میں مختلف خوبصورت ناموں (دہشت گردی مخالفت، حقوق انسانی، جمہوریت، حقوق نسواں، حقوق محنت کشاں) سے مداخلت کی جارہی ہے اس سے ہر ملک اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھتا ہے اور اسی عدم تحفظ کے جذبہ کو دن رات کی ریشہ دوانیوں (کشمیر، پختونستان، تمل ایلم، عیسائی سوڈان) کے نام پر ابھارا جارہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اسلحہ کی بکری کو یقینی بنایا جاسکے۔ یعنی کہ اگر کمزور ترقی پذیر ممالک چاہیں بھی تو اپنی محدود آمدنی کو اپنے عوام کی خوشحالی پر خرچ نہیں کرسکتے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ترقی پذیر ممالک کاحکمراں طبقہ اور خوشحال طبقہ ان بیرونی سازشوں کی مدد کرتا ہے وہ اسلحہ کے کمیشن کے حصول کے لئے ”ملک خطرہ میں ہے“ کا راگ الاپتا ہے عام فوجی مرتا ہے عام عوام تکلیفیں برداشت کرتی ہے، اسلحہ بیچنے اور خریدنے والے اپنے منافع اور کمیشن لیکر ”امن مذاکرات“ میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں کوئی سنجیدہ اور ایمان دار حکمراں کچھ کرنا چاہے بھی تو اُس کو بم وبارود کے تاجر اپنے بے پناہ سرمایہ کے بدولت یا تو ختم کرادیتے ہیں یا اندرونی مسئلوں میں الجھادیتے ہیں۔ اگر مندرجہ بالاحقائق غلط ہیں تو اس سوال کا کیا جواب ہے کہ تمام دنیا کے ہر ملک میں انفرادی طور پر اور پوری دنیا کا مجموعی طور پر اپنی آمدنی کا سب سے بڑا حصہ ہتھیار یافوجی اخراجات پر خرچ کیوں ہوتا ہے؟ اور یہ خرچ لگاتار بڑھ رہا ہے ۱۹۹۰/ سے ۲۰۰۴ کے درمیان ۱۵/ سال کے عرصہ میں دنیا کے ۷-امیرترین ملکوں میں دفاعی خرچ فی کس ۱۶۸ ڈالر سالانہ بڑھ کر ۹۷۸ ڈالر سالانہ ہوگیا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں آبادی کا ٪۳۵ یعنی ۳۶۰ لاکھ لوگ ایک ڈالر روزانہ سے کم کی آمدنی حاصل کرپاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے ۲۰۰۵-۲۰۰۴/ کے بجٹ میں صحت، پینے کے پانی، دیہی روزگار، غریبی کے خاتمہ، ابتدائی تعلیم اور ناخواندگی کے خاتمہ کا مجموعی بجٹ 12835 کروڑ کا تھا۔ جوکہ محکمہ پولیس پر ہونے والا خرچ اس سے تھوڑا زیادہ تھا۔ اسی دوران دفاع اور مرکزی و ریاستی پولیس کابجٹ 1,15000 کروڑ تھا جبکہ دیہی روزگار وغریبی کے خاتمہ کے لیے بجٹ محض 841.68 کروڑ تھا۔ کل دیہی غریبوں کی تعداد حکومت کے نزدیک 6.7کروڑ ہے۔ اس طرح دیہی غریبوں پر ہونے والا خرچ 125.25روپئے سالانہ فی کس یا ۳۵ پیسہ فی کس یومیہ آتا ہے۔ (جسویر سنگھ ، ٹائمس آف انڈیا ۲۲/۲/۲۰۰۵)
جب ہمارے اتنے بڑے اورمضبوط ملک کا یہ حال ہے چاہے وہ جس وجہ سے ہو تو افریقی ممالک اور کمزور ممالک کا کیا حال ہوگا؟ وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود پرکتنا خرچ کرپاتے ہوں گے۔ جبکہ صرف ایک سال ۲۰۰۴ میں سیلاب سے دنیا بھر میں تقریباً ۱۳/ کروڑ ۲۰ لاکھ افراد متاثرہوئے۔ مختلف قدرتی آفات میں ۲ لاکھ ۴۲ ہزار سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئیں۔ اور 94 ارب امریکی ڈالر کے برابر نقصان ہوا۔ (پی ٹی آئی بحوالہ راشٹریہ سہارا، اردو ۲۹/۹/۲۰۰۵/)
افریقہ میں ریلیف و ترقیاتی کاموں کے لئے ۳- ارب ڈالر نہیں مل پاتے مگر افریقہ میں جاری مختلف خانہ جنگیوں سے ہر سال ۱۰- ارب ڈالر کا سالانہ نقصان ہورہا ہے۔ یہ رقم مہیا کی جارہی ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ ہتھیار کی سپلائی کی کمی کی بات کبھی سننے میں نہیں آتی۔ زلزلہ آیا تو دنیا بھر میں ٹینٹ نہیں تھے، ہیلی کاپٹر نہیں ملے مگر خانہ جنگیاں اور جنگیں جاری رہیں مگر ۲۰ – ۲۰ سال جنگیں چلنے پر بھی ہتھیاروں کی سپلائی متاثر نہیں ہوتی کیوں؟ جبکہ ہتھیار بنانے اور فروخت کرنے والے گنتی کے ۷-۵ قابل ذکر ملک ہیں ان میں سے اہم تو ۵-۴ ہی ہیں اور چاروں ممالک امریکہ، روس، جاپان، فرانس، برطانیہ اور اسرائیل (امریکہ 12.4 ملین ڈالر، روس 6.1ملین ڈالر، برطانیہ 3.2 ملین ڈالر، اسرائیل 1.2ارب ڈالر، فرانس 1ارب ڈالر) یہ سارا اسلحہ ترقی پذیر ممالک کو سال ۲۰۰۴ کے دوران فروخت کیاگیا۔ (ٹائمس آف انڈیا ۳۱/۸/۲۰۰۵)
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ہی وہ چار امن کے ٹھیکیدار اور دہشت گردی کے خلاف اہم ملک ہیں جو امن کی بربادی اور دہشت گردی میں معاون اسلحہ کی تجارت کی بھی ٹھیکیداری کرتے ہیں۔ اب ہم دیکھیں گے کہ یہ تہذیب مغرب کے علمبردار لاشوں کے نوچنے والے قبر بجّو کس طرح امن کے مسیحا بنتے ہیں:
اب مسئلہ کا ہم اور تیسرا رخ بھی دیکھتے ہیں وہ ”مدد‘ کے ڈھول کاپول ہے:
نومبر کے آخری ہفتہ میں پاکستان میں زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے ہوئی بین الاقوامی کانفرنس میں ۵- ارب ڈالر مدد کی پکار لگائی گئی مگر وعدہ ہوئے، ۶- ارب ڈالر کے جس میں تقریباً ۴- ارب ڈالر قرض ہوگا اور مدد ہوگی صرف ڈھائی ارب ڈالر کی۔ پاکستانی ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ اگر یہ قرض ہوگا تو ہم اسے کیسے ادا کریں گے؟ ظاہر سی بات ہے مزید ٹیکس لگے گا اور مزید مہنگائی بڑھے گی اور آخر میں عام پاکستانی عوام کو ہی یہ بوجھ اٹھانا ہوگا۔ اور اس پر سود بھی اداکرنا ہوگا۔ مدد کے نام پر حاتم طائی بھی بن گئے اور کمائی کی کمائی ہوگئی۔ مدد کے ذریعہ خارجہ پالیسی کی راہ ہموار کرنا تو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا مگر مدد کے ذریعہ لوٹ اور استحصال کی نئی پستیاں اس تہذیب نو میں امریکی ورلڈ آرڈر کے تحت ہی دیکھی جارہی ہے۔ جان سیموئیل جو ”ایکشن ایڈ“ کے بین الاقوامی ڈائیریکٹر اور گلوبل کال ٹوایکشن اگینٹیاورثی (غریبی کے خلاف عالمی تحریک) کے معاون موٴسس ہیں نے انکشاف کیا ہے کہ مدد دینے والے ممالک کی مدد کا ٪۶۰ حصہ دراصل انہیں ممالک میں رہ جاتا ہے جسے وہ فینٹم ایڈ (Phantom aid) کہتے ہیں۔ خاص طور سے فرانس اورامریکہ اس معاملہ میں سب سے آگے ہیں۔ ۲۰- ارب ڈالر مدد کرنے والوں کی خود کی جیب میں چلاگیا۔ G-7 کے سب سے خراب مدد کرنے والے ممالک اپنی مدد کا ٪۸۹ حصہ حیلہ بہانوں سے اپنے ہی لئے استعمال کرلیتے ہیں۔ ۲۰۰۳ میں G-7 نے اپنے وعدہ اپنی آمدنی کے ٪۷ کی مدد کے بجائے ٪۰۷ کی ہی مدد کی۔ اوراس کا بھی بڑا حصہ اپنے پہلے سے ہی خوشحال طبقہ میں واپس بانٹ دیا۔ (ٹائمس آف انڈیا ۹/۷/۲۰۰۵)
یہ ہوتا ہے کیسے ؟ حال ہی میں شائع ایک سروے کے مطابق زیریں صحارا کے ممالک کے لیے ۲۰۰۲/ میں کی گئی مدد کے ہر ۳۰ ڈالر میں سے ۵ ڈالر مدد دینے والے ممالک کی مشورہ فیس میں چلاگیا۔ ۵ ڈالر ہنگامی مدد میں لگا اور ۹ ڈالر قرض کی ادائیگی میں چلاگیا جوکہ انہیں ممالک کو گیا اوراس میں ظاہر ہے کہ سود شامل ہے۔ ایک امریکی ویب سائٹ میں بتایاگیاہے کہ امریکی مدد سے سب سے زیادہ امریکی ہی مستفید ہوتے ہیں۔ تقریباً ٪۸۰ مدد کا پیسہ جو یوایس ایڈ خرچ کرتی ہے وہ امریکی کمپنیوں کو ہی جاتا ہے۔ دنیا کے سب سے غریب ملک ایتھوپیا کی ۲۰ لاکھ ڈالر کی امریکی مدد میں خوبصورتی بنائے رکھنے کیلئے پلاسٹک سرجری پر مبنی کتاب کی ۲۱ کاپیاں اور امراض چشم کی ایک کتاب کی ۲۴ جلدیں شامل ہیں جبکہ پورے ایتھوپیا میں ایک بھی پلاسٹک سرجن نہیں ہے۔ وہاں جو امراض ہوتے ہیں ان پر کتابیں نایاب ہیں۔ اسکے علاوہ مدد کے ذریعہ جو سیاسی اور معاشی فوائد حاصل کئے جارہے ہیں ان کی لمبی داستان ہے۔ (جارج مان بوائٹ بحوالہ گارجین)
ایک اور مثال عراق سے وولکر کمیٹی کی رپورٹ تیل کے بدلہ خوراک پروگرام میں 69.4 ارب امریکی ڈالر منافع ہوا۔ اس میں 38.6ارب ڈالر انسانی مدد کے لئے استعمال ہوئے۔ اس میں 18ارب ڈالر امریکہ نے جنگ کے معاوضہ کے طورپر ہڑپ لیے۔ تیل برآمد کا خرچ 5.3 ارب ڈالر بھی اسی مد سے لیاگیا۔ ہتھیار معائنہ کا خرچ .40 ارب ڈالر اسی میں سے لیاگیا۔ عراق کی ترقی کے لئے 9.3ارب ڈالر اور انتظامی امور کے خرچہ کے لئے 1.4 ارب ڈالر امریکہ نے الگ سے اسی مد میں لئے۔ خود وولکر کمیٹی کا ۱۸ ماہ کا خرچ ۳ کروڑ ڈالر اسی تیل کے بدلہ خوراک کی آمدنی سے لیاگیا۔ (سندھیا جین بحوالہ پنچ جنیہ بحوالہ امر اجالا ۲۴/۱۱/۲۰۰۵) یہاں یہ بھی واضح رہے کہ خود امریکی کانگریس نے عراق کے لئے جو رقم ۲۰ ارب ڈالر مختص کی تھی اس دوران اُس میں سے صرف ۲ – ارب ڈالر خرچ کئے گئے۔ اور اس ۲۰- ارب ڈالر کی مدد کا بڑا حصہ امریکہ کی بڑی تعمیراتی اور تیل کمپنیوں اور دفاعی ٹھیکیداروں کو دیاگیا۔ یعنی گھی ادھرہی بہہ گیا جدھر ڈھال تھی۔ اور تو اور خود امریکہ میں آئے طوفانوں کیٹرینا اور ریٹا کی مدد کا ٪۸۰ یعنی 1.5 ارب ڈالر ہیلی برٹن اور کیلاگ براؤن اینڈ اوٹ KBG کو چلاگیا۔ اس فرم کے سابق سربراہ ڈک چینی جارج بش کے نائب صدر بنے ہیں۔ اس کمپنی کے لئے ماحول بنانے والا جو الاباغ کیبنٹ کی الیکشن مہم کا منیجر تھا۔ اسی نے زیادہ تر ٹھیکہ بغیر ٹنڈر کے الاٹ کئے ۔ یہ ہے اس ”انسانیت دوست“ ، ”جمہوری“ ، ”ہمدرد“ ترقی پسند ”سیکولر تہذیب“ کا اصل (چدانندراجگھاٹا ۵/۱۰/۲۰۰۵) مکروہ وخبیث چہرہ جس کو چھپانے کے لئے دنیا کو غیر ضروری معاملہ میں الجھایا جاتا ہے۔ تاکہ دنیا اِن خون آشام بھیڑیوں کی حقیقت کو نہ جان سکے۔ مگر ایسا کب تک ؟
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ1، جلد: 90 ،ذی الحجہ1426 ہجری مطابق جنوری2006ء