حرفِ آغاز

حبیب الرحمن اعظمی

عصر حاضر کو تحقیق و ترقی اور تہذیب و تمدن کا دور کہا جاتا ہے۔ نت نئی ایجادات و اکتشافات نے آج کے انسان کے حوصلے بہت بلند کردئیے ہیں اور وہ زمین کی پنہائیوں اور سمندر کی گہرائیوں کو ناپنے کے بعد آفتاب و ماہتاب پر کمند یں ڈالنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ علم وفن کے ذریعہ دھات کے بے جان پرزوں سے انسانی دماغ کا کام لیا جارہا ہے۔ مہینوں کی مسافت کو گھنٹوں میں طے کرلینا ایک معمولی بات ہے۔ ابلاغ و ارسال کے ایسے کامیاب ذرائع مہیا کرلئے گئے ہیں کہ چند لمحوں میں اپنی بات پوری دنیا میں پھیلائی جاسکتی ہے۔آرام و آسائش اور تزئین و آرائش کے ایسے ایسے سامان تیار ہوگئے ہیں کہ ایک صدی پہلے کا انسان ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اوراب تو تمدن کا معیار اس قدر بلند ہوگیا ہے کہ آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں اور ہواؤں کا پرکترتی میسریز کاریں اپنا عروج اور وقار کھوتی جارہی ہیں، ماکولات، ملبوسات کی اتنی قسمیں بنالی گئی ہیں کہ انھیں شمار میں لانا بھی مشکل ہے۔ غرضیکہ آرام و راحت، اطمینان و سکون، تہذیب تزئین اور زیبائش و آرائش کے اسباب کی اس درجہ فراوانی اور کثرت کہ آج کے کوردہ اور پسماندہ دیہات بھی پہلے کے قصبات اور شہروں سے کہیں زیادہ پر تکلف اور بارونق نظر آتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس مادی عروج وترقی، ظاہری چمک دمک اور سامانِ راحت کی اس کثرت سے انسان کو چین و سکون اور امن واطمینان حاصل ہوگیا ہے؟ قلب کو تسکین اور روح کو آسودگی مل گئی ہے؟ اور کیا واقعی تہذیب و تمدن کے اُن پر شور نعروں کی بدولت آج کا انسان پہلے سے زیادہ سائستہ اور مہذب ہوگیاہے؟ اگر آج کی متمدن اور ترقی یافتہ دُنیا کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو ان سارے سوالوں کا جواب آپ کو مایوس کن نفی میں ملے گا اور مشاہدہ اور تجربہ گواہ ہیں کہ آرام و راحت کے یہ اسباب جس قدر بڑھتے جارہے ہیں قلب کے اضطراب اور روح کی بے چینی میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا جارہا ہے اور فریب تمدن کے دام صدرنگ میں گرفتار انسانیت تڑپ رہی ہے، چیخ رہی ہے اور تلاشِ سکون میں در در کی ٹھوکریں کھارہی ہے۔ مگر یہ متاع گم شدہ کہیں سے ہاتھ لگ نہیں رہی ہے۔ عدل و امانت، صبر و قناعت، عفت و حیا، صدق و صفا، اخلاص و محبت، شرافت و مروّت، لحاظ و پاسداری، سیرچشمی و خودداری وغیرہ اعلیٰ قدریں جن سے انسانیت عبارت تھی ایک ایک کرکے رخصت ہوگئی ہیں۔ اور انسان اندر سے بالکل بے مایہ اور کھوکھلا ہوکر رہ گیا ہے۔

علم و فن، تحقیق و جستجو اور عروج و ترقی کے اس دور میں آخر انسانیت کیوں تباہ ہورہی ہے، اس کی خلش روز بروز کیوں بڑھتی جارہی ہے اور اس کے اضطراب وانتشار میں آئے دن کیوں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگرحقیقتاً ہمیں سچے سکون کی طلب ہے اور ہم روح کی آسودگی اور قلب کے چین کے متلاشی ہیں تو ہمیں ان اسباب و عوامل کی کھوج لگانی چاہئے جن کے ذریعہ جنس گرانمایہ حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہم نے ایک طویل عرصہ تک دھات و بھاپ پرمحنت کرکے دیکھ لیا۔ زمین کے پوشیدہ خزانوں کی تحقیق کرڈالی۔ آفتاب کی کرنوں اور بجلی کی لہروں کو بھی آزماچکے ہیں۔ ان سب کے دامن اس گوہر نایاب سے خالی ہیں۔ ہم نے استعماریت و اشتراکیت کا بھی تجربہ کرلیا ہے مگر ان آستانوں سے بھی یہ متاع عزیز ہمیں دستیاب نہیں ہوسکی۔

مگر ان مسلسل محرومیوں اور تجربات کی پیہم ناکامیوں سے مایوس ہوکر ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں ابھی ایک تجربہ اور کرنا چاہئے۔ حاضر کے ان پُرفریب وپرشور نعروں کے درمیان حق و صداقت کی ایک مدھم سی آواز بھی سنائی دے رہی ہے۔ آئیے کان لگاکر سنیں ممکن ہے روح کو تسکین اور قلب کے آرام کا سامان یہیں سے فراہم ہوجائے۔ قرآن حکیم بھٹکی ہوئی انسانیت کو دعوت دے رہا ہے کہ اے گم کردہ راہ انسانو! دُنیا کے ان گورکھ دھندوں میں پھنس کر اپنے آپ کو ضائع مت کرو اگر تمہیں سکونِ قلب کی تلاش ہے تو آؤ میرے پاس آؤ تمہارے گوہر مقصود کا پتہ میں اور صرف میں ہی بتاسکتا ہوں کیونکہ اس بیش بہا امانت کا امین و محافظ میں ہی ہوں۔ کان کھول کر غور سے سن لو ”اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنَّ الْقُلُوْبُ“ اللہ تعالیٰ ہی کی یاد سے قلوب چین پائیں گے۔ یعنی دولت و حکومت، منصب و جاگیر، مادی ایجادات واکتشافات، ظاہری عروج و ترقی، اسباب راحت کی فراوانی ان میں سے کوئی چیز بھی انسان کو حقیقی سکون و اطمینان سے ہم آغوش نہیں کرسکتی۔ صرف یاد الٰہی اور ذکر اللہ کا نور ہی دلوں سے ہرطرح کی وحشت، گھبراہٹ اور اضطراب وانتشار کو دور کرسکتا ہے۔

یہ اس کتاب مقدس کا اعلان ہے جس کی صداقت اور سچائی کو چودہ سو سال کی طویل مدت گذر جانے کے باوجود آج تک چیلنج نہیں کیا جاسکا ہے۔ ابتدائے نزول سے آج تک اس کا ہر اعلان اور ہر پیشین گوئی حرف بحرف درست ہوتی رہی ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ایک بار صدق دل سے اس کا بھی تجربہ کرلیاجائے۔

_____________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد: 89 ‏،    ذیقعدہ 1426ہجری مطابق دسمبر 2005ء

Related Posts