از: مولانا بدرعالم، رفیق ندوة المصنّفین دہلی
امام ترمذی نے حدیث افتراقِ امت روایت کرنے والوں میں چار صحابہ کا ذکر کیا ہے جس میں حضرت ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمر کی روایت تفصیل کے ساتھ پیش کی ہے اور حضرت سعد اور عوف بن مالک کا صرف حوالہ دے کر چھوڑ دیا ہے۔ پھر اول الذکر صحابی کی حدیث پر صحت کا حکم لگایا ہے اور ثانی الذکر(1)کی حدیث کو غریب قرار دیا ہے۔
ابوہریرہ کی حدیث
عن ابی ہریرة ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال تفرقت الیہود علی احدی و سبعین او اثنین و سبعین فرقة والنصاری مثل ذلک وتفترق امتی علی ثلاث و سبعین فرقة (ترمذی)
ابوہریرہ روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں منقسم ہوئے اور نصاریٰ بھی اتنے ہی فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں منقسم ہوجائے گی۔
حافظ سخاوی نے بھی مقاصد حسنہ میں اس حدیث کی صحت کو تسلیم کیاہے اور شیخ محمد طاہر نے تذکرة الموضوعات میں اسے نقل فرماکر کوئی اختلاف رائے ظاہر نہیں کیا۔ امام شاطبی نے کتاب الاعتصام میں ابوہریرہ کی روایت پر کئی جگہ صحت کا حکم لگایا ہے۔(2)
حدیثِ افتراق کے پندرہ راویوں کے نام
شارح سفر السعادة نے امام ترمذی کے پیش کردہ ناموں پر گیارہ صحابہ کا اوراضافہ کیا ہے۔ (۱) انس، (۲) جابر، (۳) ابوامامہ، (۴) ابن مسعود، (۵) علی، (۶) عمروبن عوف، (۷) عویمر، (۸) ابوالدرداء، (۹) ابومعاویہ(3)، (۱۰) ابن عمر، (۱۱) واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔ اس طرح اس حدیث کے رُواة کی تعداد پندرہ تک پہنچ جاتی ہے جن میں ابوہریرہ کی روایت کے متعلق جہاں تک ہمیں معلوم ہے کسی نے کوئی قابلِ ذکر رد و قدح نہیں کی۔ بعض دوسرے صحابہ کی روایات میں البتہ کچھ کلام کیاگیا ہے جو مختصراً درج ذیل ہے:
حضرت انس کی روایت
شیخ جلال الدین سیوطی حضرت انس کی روایت عقیلی اور دارقطنی کے حوالہ سے پیش کرکے تحریر فرماتے ہیں والحدیث المعروف، واحدة فی الجنة وہی الجماعة یعنی معروف حدیث کے الفاظ یہ ہیں(ایک فرقہ جنت میں جائے گا اور وہ مسلمانوں کی جماعت ہوگی) پھر بطریق ابن عدی نقل کرکے کہتے ہیں والمحفوظ فی المتن (یعنی اس متن کے جو الفاظ محفوظ ہیں یہ ہیں) ”تفترق امتی عن ثلاث و سبعین فرقة کلہا فی النار الا واحدة“ (4)
اہل علم جانتے ہیں کہ معروف و محفوظ، منکر و شاذ کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے اور شاذ و منکر میں صرف راوی کے ثقہ اور غیر ثقہ ہونے کا فرق ہے گویا پہلے الفاظ کے خلاف روایت کرنے والے راوی ثقہ نہیں ہیں اور دوسرے متن کے خلاف راوی اگرچہ ثقہ ہیں مگر ان کے الفاظ میں شذوذ ہے۔ بہرحال معروف محفوظ کہہ کر حافظ سیوطی نے حضرت انس کی روایت کے متعلق اپنی رائے ظاہر کردی ہے۔
حافظ نورالدین ہیثمی نے اس مقام پر قدرے مبسوط کلام کیا ہے اوراس حدیث کے طرق سنن مشہورہ کے علاوہ مسند ابویعلی، مسند بزار اور طبرانی سے پیش فرماکر ہر صحابی کی روایت پر تنقید کی ہے۔ چنانچہ حضرت انس کی روایت کو بطریق مسند ابویعلیٰ ایک طویل سیاق کے ساتھ نقل فرماکر لکھتے ہیں۔
وبزید الرقاشی ضعفہ الجمہور و فیہ توثیق لین و بقیة رجالہ رجال الصحیح(5)
اس میں ایک راوی یزید رقاشی ہے جس کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے اور ہلکے درجہ پر اس کی توثیق بھی کی گئی ہے بقیہ تمام راوی صحیح کے راوی ہیں۔
ایک جگہ اسی حدیث کا دوسرا طریقہ پیش کرکے اس پر حسب ذیل کلام کرتے ہیں:
رواہ ابو یعلی وفیہ ابو معشر نجیح و فیہ ضعف(6)
اس حدیث کو ابویعلیٰ نے روایت کیا ہے اور اس میں ایک راوی ابومعشر نجیح ہے اس میں قدرے ضعف ہے۔
حضرت ابواُمامہ کی روایت
حضرت ابوامامہ کی روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
رواہ ابن ماجہ والترمذی باختصار و رواہ الطبرانی و رجالہ ثقات(7)
اس کو ابن ماجہ اور ترمذی نے مختصراً روایت کیا ہے اور طبرانی نے بھی روایت کیاہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔
ساتویں جلد میں اتنی تفصیل اور مذکور ہے۔
رواہ الطبرانی فی الاوسط والکبیر بنحوہ وفیہ ابوغالب وثقہ یحیی بن معین وغیرہ وبقیة رجال الاوسط ثقات وکذلک احدی اسناد الکبیر․(8)
اس حدیث کو طبرانی نے معجم اوسط میں روایت کیا ہے اور معجم کبیر میں بھی اسی کے قریب قریب الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اس میں ایک راوی ابوغالب(9) ہے۔ یحییٰ بن معین وغیرہ نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے بقیہ معجم اوسط کے سب راوی ثقہ ہیں اور اسی طرح معجم کبیر کی ایک اسناد کا حال ہے۔
حضرت سعد بن وقاص کی روایت
حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت مسند بزار سے نقل کرکے لکھتے ہیں:
رواہ البزار وفیہ موسٰی بن عبیدة الزبدی وہو ضعیف․(10)
مسند بزار میں اس کو روایت کیا ہے اور اس میں ایک راوی موسیٰ بن عبیدة زبدی ضعیف ہے۔
حضرت ابن عمر کی روایت
پھر اسی جلد میں حضرت ابن عمر کی روایت کے متعلق حسب ذیل ارشاد ہے:
رواہ ابویعلیٰ وفیہ لیث بن ابی سلیم وہو مدلس وبقیة رجالہ ثقات (11)
اس کو ابویعلیٰ نے روایت کیا ہے اس میں ایک راوی لیث بن ابی سلیم ہے(12)جو مدلس ہے۔ بقیہ راوی ثقہ ہیں۔
حضرت ابوالدرداء وواثلہ کی روایت
پھر حضرت ابوالدرداء، ابواُمامہ، واثلہ اور انس کی روایات کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
رواہ الطبرانی وفیہ کثیر بن مروان وہو ضعیف جدًا(13)
اس کو طبرانی نے روایت کیاہے اور اس میں ایک راوی کثیر بن مروان ہے اور وہ بہت ضعیف ہے۔
حضرت عمروبن عوف کی روایت
اس کے بعد حضرت عمرو بن عوف کی روایت بحوالہٴ طبرانی نقل کرکے اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر کی ہے۔
رواہ الطبرانی وفیہ کثیر بن عبداللہ وہو ضعیف وقد حسن الترمذی لہ حدیثا وبقیة رجالہ ثقات․(14)
اس میں ایک راوی کثیر بن عبداللہ ضعیف ہے۔ ترمذی نے اس کی ایک حدیث کی تحسین بھی کی ہے بقیہ تمام راوی ثقہ اور قابلِ اعتبار ہیں۔
بلاشبہ کثیر بن عبداللہ کے بارے میں محدثین کی رائے اچھی نہیں ہے اوراسی وجہ سے امام ترمذی کی تحسین کو بھی قابل اعتراض سمجھا گیا ہے مگر اہلِ علم و تجربہ جانتے ہیں کہ ترمذی اگر ضعیف راویوں کی روایات کی تحسین کرتے ہیں تو بیشتر ایسی جگہ کرتے ہیں جہاں تعامل یا خارجی دلائل سے روایت کی قوت ثابت ہوجاتی ہے صرف اس ضعیف طریقہ ہی پر ان کی نظر نہیں ہوتی۔ بنابریں اگر ابوہریرہ کی روایت کی صحت کے بعد اس طریقہ کی بھی تحسین کردی جائے تو گنجائش نکل سکتی ہے۔
حضرت ابن مسعود کی روایت
باب افتراقِ امت کے خاتمہ پر حافظ نورالدین نے حضرت ابن مسعود کی حدیث تحریر فرماکر لکھا ہے:
رواہ الطبرانی باسنادین ورجال احدہما رجال الصحیح غیر بکیر بن معروف وثقہ احمد وغیرہ وفیہ ضعف․
اس حدیث کو طبرانی نے دو سندوں سے روایت کیا ہے جس میں ایک سند کے راوی وہی ہیں جو صحیح کے راوی ہیں سوائے بکیر بن معروف کے کہ وہ صحیح کاراوی نہیں ہے مگر امام احمد وغیرہ نے اس کی توثیق کی ہے اوراس میں کچھ ضعف ہے۔
حضرت عوف بن مالک کی روایت
عوف بن مالک کی روایت مستدرک حاکم میں موجود ہے اوراسکے متعلق حاکم کے الفاظ یہ ہیں:
ہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین(15)
یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
حاکم کی تصحیح کو عام طور پر علماء بنظر اعتبار نہیں دیکھتے مگر یہاں حافظ ذہبی نے بھی سکوت کیا ہے اور ان کے خلاف کوئی نکتہ چینی نہیں کی اس سے ظاہرہوتا ہے کہ ذہبی کو بھی ان سے اتفاق ہے ورنہ وہ حسب عادت یہاں بھی اپنا اختلافِ رائے ظاہر کرتے۔
حضرت علی کی حدیث
علامہ شاطبی نے حضرت علی کی روایت نقل کرکے لکھا ہے لا أضمن عہدة صحتہ ”میں اس کی صحت کی ذمہ داری نہیں لیتا“(16) مگر کوئی خاص جرح بھی نہیں فرمائی۔
حدیث معاویہ
اور ابوہریرہ کی حدیث نقل کرکے حاکم فرماتے ہیں:
ہذہ اسانید تقام بہا الحجة فی تصحیح ہذا الحدیث(17)
یہ اسانید ایسی ہیں کہ ان کی بناپر حدیث کو صحیح کہا جاسکتا ہے۔
اتنی بات کو ذہبی نے بھی تسلیم کیا ہے۔
پندرہ صحابہ میں سے تیرہ صحابہ کی احادیث پر علماء کے یہ خیالات ہیں ان میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو،اَنس،ابواُمامہ، عمروبن عوف، معاویہ، ابن عمر، عوف بن مالک کی روایات صحیح یا حسن کے درجہ پر آسکتی ہیں۔ بقیہ روایات کی اسانید اگرچہ ضعیف ہوں مگر تعددِ طرق کالحاظ رکھتے ہوئے وہ بھی قاطبةً نظر انداز کرنے کے لائق نہیں۔ اب اس مجموعہ روایات کو سامنے رکھ کر انصاف کیجئے کہ جو حدیث اتنے صحابہ سے مختلف صحیح اور حسن طریقوں سے مروی ہو کیا محض چند شبہات کی وجہ سے اس سے صرفِ نظر کرلینا درست ہوگا۔
کسی حدیث پر اجمالی حکم اس کے مجموعہٴ طرق پر حکم نہیں
مذکورہ بالا بیان سے مختصراً یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ایک حدیث کتنے کتنے صحابہ سے روایت کی گئی ہے۔ پھر ایک ایک صحابی کی حدیث کے کتنے کتنے طریقے ہیں۔ اس لئے کسی حدیث کے متعلق ضعف یا صحت کاحکم دیکھ کر پہلے یہ تحقیق کرلینا چاہئے کہ یہ حکم اس کے تمام طریقوں پر حاوی ہے یا کسی خاص صحابی کی حدیث یا اس کے کسی خاص طریقے سے متعلق ہے پھر یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ایک ایک حدیث کے تمام طریقے ہر محدث کے پیش نظر ہو۔
امام ترمذی جیسا جلیل القدر امامِ حدیث یہاں صرف چارصحابہ کاپتہ دیتا ہے حالانکہ ان کے علاوہ گیارہ صحابہ اور بھی ہیں جو اس کو روایت کرنے والے ہیں۔ پس اگر کوئی محدث کسی حدیث پر کوئی اجمالی حکم لگاتا ہے تو یہ صرف اس کے علمی استحضار کے لحاظ سے ہے۔ اب اگر خارجی ذرائع اور تحقیقات سے کسی خاص طریقہ کا ضعف و صحت ثابت ہوجائے تو یہ اس کے مبہم حکم کے ہرگز معارض نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کے علم میں یہ طریق نہ ہو ہاں اگر ان طرق کے علم کے بعد بھی اس کی رائے وہی رہتی ہے تو اب اس کو مخالف یا موافق کہنا درست ہوگا اس کے بعداختلافِ رائے کا مرحلہ پھر زیر بحث رہے گا۔ راویوں اور روایات کے سلسلہ میں تضعیف و توثیق کا معاملہ اہل علم کے نزدیک دن رات کی بات ہے۔ ایک ناواقف ایک محدث کی رائے نقل کرکے اسے سارے طریقے پر حاوی بنادیتا ہے اوراس ایک رائے کو سارے محدثین کی رائے سمجھ بیٹھتا ہے اور واقفِ حال کو تحقیق کے بعد غور کرنا پڑتا ہے کہ دلائل کا پلہ کس طرف بھاری ہے۔ یہی حدیث جس کے متعلق آپ نے یہ تفصیل پڑھی۔ اب آئیے اس کے مخالف آراء کا حال دیکھئے علامہ مجدالدین فروزآبادی ”سفر السعادة“ کے خاتمہ پراس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں۔
لم یثبت فیہ شیٴ اس باب میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہوئی۔
احادیث پر تنقید کی تین تعبیرات اور ان کا فرق
ان الفاظ کو دیکھ کر بعض لوگ تو یہاں تک غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ مصنف کے نزدیک یہ حدیث گویا موضوع ہے۔ کاش ان حضرات نے اگراس کتاب کی ذرا ورق گردانی کی ہوتی تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ مصنف نے احادیث پر حکم لگانے کے لئے مختلف تعبیرات اختیار کی ہیں کہیں ”باطل موضوع“ اور کہیں ”لم یصح فیہ حدیث“ اور کہیں ”لم یثبت“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ان تینوں الفاظ میں بڑا فرق ہے ۔ پہلی تعبیر کا مطلب یہ ہے کہ اس مضمون کو حدیثِ رسول کہناہی غلط ہے اور دوسرا لفظ صرف صحت کی نفی کرتا ہے خواہ کسی درجے میں حدیث ثابت ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ قنوت، جہر بسم اللہ اور وضوء بالنبیذ کی احادیث پر بھی مصنف نے یہی حکم لگایا ہے، کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سب حدیثیں بے اصل ہیں۔ اسی طرح ”لم یثبت“ کا لفظ ضعیف طرق کی نفی نہیں کرتا۔ اگر ان تعبیرات کے فروق کی رعایت کی جائے تو پھر بہت سے مواضع پر مصنف کے کلام سے اعتراض اٹھ جائے گا۔ (18)
علاوہ ازیں شارح ”سفر السعادة“ لکھتے ہیں کہ علامہ مجد الدین کا یہ حکم صرف ان الفاظ پر ہے جو جہاں انھوں نے نقل کئے ہیں یعنی ۷۲ فرقوں میں امت کا افتراق۔کوئی شبہ نہیں کہ یہ لفظ تمام طریقوں کے خلاف ہے۔ حافظ سیوطی نے حضرت انس کی روایت کے صرف ایک طریقہ میں یہ لفظ پیش کیاہے بقیہ سب طرق و روایات میں ۷۳ کا لفظ ہے مگرمشکل یہ ہے کہ ”سفرالسعادة“ کے بعض نسخوں میں دو کی بجائے تین کا لفظ بھی موجود ہے اس کے متعلق شارح فرماتے ہیں ”اگر ایں چنیں است محل سخن است“ اگر ۷۳ کی روایت کے متعلق بھی مصنف کی یہی رائے ہے تواس میں کلام ہے۔
ابن حزم بھی زیر عنوان ”الکلام فیمن یکفر و من لایکفر“ اس حدیث کے ساتھ ایک اور حدیث نقل کرکے لکھتے ہیں:
ہذان حدیثان لایصحان اصلا عن طریق الاسناد (19)
یہ دونوں حدیثیں اسنادی لحاظ سے بالکل صحیح نہیں۔
یہاں بھی صحت کی نفی ہے اب ان دونوں حضرات کا یہ مجمل حکم دیکھئے اور اس کے مقابلہ میں وہ ساری تفصیلات سامنے رکھئے جہاں ایک ایک روایت کی پوری چھان بین کی گئی ہے۔
ابن حزم کی رائے فیصلہ کن نہیں ہے
ہمیں معلوم نہیں ہے کہ ان حفاظِ حدیث کے سامنے وہ سب طرق موجود بھی ہیں یا نہیں اور اگر موجود بھی ہیں تو کیا اصولِ حدیث کا یہ کوئی ضابطہ ہے کہ جس طرف ابن حزم ہوجائیں بس راہِ صواب اسی میں منحصر ہوجائے گی اگر ایک طرف حافظ ابن جوزی کا تشدد امت میں ضرب المثل ہے تواس کے ساتھ ہی ابن حزم کی زبان کا سیف(20)حجاج ہونابھی مشہور ہے۔
بہرحال حدیث کا معاملہ ما و شما کے تابع نہیں ہے۔ حدیث کے اسانید اب بھی موجود ہیں۔ ان مبہم اور مجمل کلمات کو چھوڑ کر اس کے رجال پر تفصیلاً نظر کرلینا چاہئے اس کے بعد بھی اگر رجحان ابن حزم اور علامہ مجدالدین کے ساتھ رہتا ہے توامر دیگرہے۔(21) پھر یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ حافظ ابن حزم اپنی وسعت نظر کے باوجود خود امامِ ترمذی اوران کی کتاب الجامع سے ناواقف ہیں اس لئے ان کا ”لایصح“ کہنا اور بھی بے اثر ہوجاتا ہے۔
حدیث کی صحت پر معنوی قرائن
حنیفیة اور یہودیة و نصرانیة کا تقابل
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی دنیا میں دین حنیف کے حریف صرف دو مذہب ہیں یہودیة اور نصرانیة عہد نبوة میں بھی حریفانہ جنگ ان ہی دو کے درمیان نظر آتی ہے اوراحادیث صحیح بھی ان ہی دو کے درمیان مستقبل میں کشمکش کاپتہ دیتی ہیں۔ آیاتِ ذیل کو بغور پڑھئے اوراس جذبہ کا اندازہ کرلیجئے۔
قَالُوْا کُوْنُوْا ہُوْدًا اَوْ نَصَارٰی تَہْتَدُوْا قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا․
کہتے ہیں کہ یہودی بن جاؤ یا نصرانی بن جاؤ تو راہ یاب ہوگے آپ اُن سے کہہ دیجئے بلکہ میں حضرت ابراہیم کی ملت کا متبع ہوں جو ایک طرف ہوجانے والاتھا۔
مَاکَانَ اِبْرَاہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَلاَ نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا․
حضرت ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ایک طرف ہوکر خدا کے فرمانبردار نبی تھے۔
غیر المغضوب علیہم میں اتباع یہود ونصاریٰ کی طرف ایک لطیف اشارہ
غالباً اسی لئے قرآن کریم نے صراطِ مستقیم کی تفسیر کرتے ہوئے اثباتی پہلو میں منعم علیہم کا اور سلبی پہلو میں مغضوب علیہم اور ضالین ہی کا ذکر کیا ہے اوراس اہتمام سے کیاہے گویا جب تک یہ سلبی پہلو ذکر نہ کیاجائے اس وقت تک صرف صراط الذین انعمت علیہم اس کے پورے مفہوم کو ادا ہی نہیں کرتا پھر اس دعاء کے پنجوقتہ تعلیم کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ ملت حنفیہ پر سب سے زیادہ خطرہ ہے تو شاید ان مغضوب علیہم اور ضالین کی اتباع کا ہے جس کا دوسرا نام یہودیة و نصرانیة ہے۔
مشرکین و یہود کے تعلقات
کتب سیرت کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیة ونصرانیة بھی گو آسمانی دین تھے مگر مشرکین کے ساتھ ان کے برادرانہ تعلقات قائم تھے جونہی اسلام نے دنیا میں قدم رکھا سب سے پہلے مشرکین کے ساتھ اس کے مدمقابل یہی یہودی و نصرانی تھے حالانکہ دین سماوی میں اشتراک کا تقاضا یہ تھا کہ ان کو دین حنیفی کے ساتھ پوری ہمدردی ہوتی اور بجائے مشرکین کے ان کا رُخ اسلام کی طرف ہوجاتا لیکن جیسے جیسے اسلام ترقی کرتا رہا اسی قدر یہودیة و نصرانیة بڑھ بڑھ کر اسی کے مقابلہ پرآتی رہی یہاں تک کہ جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو مشرکین عرب نے اسلام کے سامنے سپر ڈالدی اور ان کی طرف سے شریعت مطہرہ کو اتنا اطمینان میسر ہوا کہ صاف لفظوں میں یہ اعلان کردیاگیا۔
ان الشیطان قدأیس ان یعبدہ المصلون فی جزیرة العرب (مشکوٰة شریف)
شیطان اب اس بات سے نامید ہوچکاہے کہ نمازی مسلمان پھر کبھی جزیرئہ عرب میں اس کی عبادت کریں گے۔
پیغمبر اسلام کا یہودونصاری کی طرف سے خطرہ کا آخری الارم
لیکن یہودیة و نصرانیة کا عَلَمِ جنگ اسلام کے بالمقابل برابر لہراتا رہا اورکسی وقت بھی اسلام کو ان کی دسیسہ کاریوں سے اطمینان میسر نہ ہوا حتی کہ صاحب شریعت کے آخری لمحاتِ حیات کی وصیتوں میں ایک مہتم بالشان وصیت یہ تھی۔
اخرجوا الیہود والنصاری من جزیرة العرب ․
یہود و نصاریٰ کو جزیرئہ عرب کے چپے چپے سے باہر نکال دینا۔
اسی حریفانہ کشمکش کا نتیجہ تھا کہ جب حنیفیة کا زمین پر اقتدار ہوا تو یہودیة ونصرانیة مغلوب ہوگئیں اور جب کبھی یہودیة و نصرانیة کا غلبہ ہوا تو حنیفیة کو مغلوب ہوجانا پڑا۔
یہود ونصاریٰ سے جزیہ قبول کرنے کی وجہ
اس سلسلہ میں واضح رہنا چاہئے کہ یہودیة و نصرانیة کے مسخ ہوجانے کے باوجود اسلام نے محض دین سماوی ہونے کے باعث ان کی بڑی رعایت رکھی ہے۔
موافقت اہل کتاب کی عام سنت فتح مکہ تک تھی
چنانچہ اسلام فتح مکہ سے قبل تک جن امور میں جدید ہدایات نازل نہ ہوتیں بہ نسبت کفار کے ان کی موافقت کو ترجیح دیتا رہا لیکن جب اس سلوک کے بعد بھی ان کا دل نہ پسیجا تو یہ ثابت ہوگیا کہ اب ان کے سینہ پر کینہ سے اسلام کی عداوت نکلنے والی نہیں ہے اس لئے مخالفت کا حکم دیدیاگیا اورآئندہ ان تمام مواقع پر جہاں جہاں سے حنیفیة کو یہودیة و نصرانیة سے خطرہ ہوسکتا تھا امت کو خبردار کردیاگیا۔
مشترکہ حدود کی نگرانی میں اسلام کی خیر مضمر ہے
روزہ، نماز، شکل و شباہت، دعاء و سلام میں غرض جہاں بھی اسلامی حدود اُن کے حدود سے ملتے نظر آتے تھے ملت حنیفیہ کے حلقہ بگوشوں کو تنبیہ کردی گئی کہ اپنے حدود کی نگرانی رکھیں۔ اس کے باوجود صاحب نبوة کی دوربیں نظروں نے تاڑلیا تھا کہ اس حریف کاایک دن پھر غلبہ ہوگا اور پھرپیروانِ ملت حنیفی یہودیة ونصرانیة کے پیچھے چل پڑیں گے۔ اسی عہد نامسعود کا نقشہ صحیح بخاری کی اس حدیث میں کھینچا گیا ہے۔
اس امت میں یہود ونصاری کی اتباع کی پیشگوئی
قال لتتبعن سنن الذین من قبلکم شبرا بِشبرٍ و ذراعاً بذراع حتی لو دخلوا فی حجر ضب لاتبعتموہ قلنا یارسول اللّٰہ الیہود والنصاری قال فمن ․
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم ضرور گذشتہ لوگوں کے قدم بقدم چل کر رہوگے حتی کہ اگران میں کوئی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا ہوگا تو تم بھی ضرور داخل ہوگے ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیاآپ کی مرادیہود و نصاریٰ ہیں آپ نے فرمایا کہ پھر اورکون۔
دوسرے الفاظ میں اس مجنونانہ اتباع کی غایت یہاں تک بیان کی گئی ہے کہ اگران میں کسی نے اپنی ماں سے علانیہ زناء کیاہوگا تو تم میں بھی ایسے افراد ہوں گے جو یہ روسیاہی کرکے رہیں گے۔
بعض نومسلموں کو مشرکین کی نقالی کی تمنا اور آپ کی سرزنش
جب تک اسلام کا ضعیف دور رہا بعض نومسلموں کے قلوب میں ہرمعمولی اور غیر معمولی امور میں یہ ہی جذبہٴ اتباع اُبھرتا رہا۔
”ابوواقد لیثی فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ خیبر کی سمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے اُس وقت ہم نو مسلم تھے وہاں مشرکین نے ایک درخت اپنے ہتھیار لٹکانے کے لئے مقرر کررکھا تھا ہم نے اُسے دیکھ کرکہا یا رسول اللہ ہمارے لئے بھی ایک ایسا ہی درخت ہتھیار لٹکانے کے لئے مقرر کردیجئے آپ نے تعجباً تکبیر کہی اور فرمایا یہ تو وہی بات ہوئی جیسا بنی اسرائیل نے (سمندر عبور کرنے کے بعد کچھ بت پرستوں کو پوجا کرتے دیکھ کر کہہ دیاتھا) اے موسیٰ جیسا خدا ان کا ہے ہمارے لئے بھی ایک ایسا ہی خدا بنادیجئے۔ تم ضرور یہود و نصاریٰ کی نقالی کرکے رہوگے۔“
لیکن جتنی اسلام کو قوت حاصل ہوتی گئی اس کے یہ جذبات فنا ہوتے رہے حتی کہ کچھ دن بعد ہی اب ان کا نقشہ یہ تھا کہ
”حضرت مقداد بن الاسود جنگ بدر کی تیاری کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں کہتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم وہ نہیں ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ کہہ دیں۔اے موسیٰ جا تواور تیرا رب لڑ آ۔ ہم تو آپ کے دائیں بائیں آگے اورپیچھے رہ کر آپ کے ساتھ جنگ کریں گے۔“ (بخاری شریف)
اب ان دونوں جذبات کا موازنہ کیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہی بات یعنی حرصِ اتباع جو دورِ ضعف میں غیر اختیاری طور پر منہ سے نکل رہی تھی اب انتہائی قابل نفرت وعار بن رہی ہے مگر دونوں جگہ نقطئہ تجاذب وہی بنی اسرائیل ہیں۔ اسلامی دورِ انحطاط میں وہی اتباعِ بنی اسرائیل کا جذبہ پھر لوٹ آئے گا۔ اور بنی اسرائیل کی جو مشابہت پہلے انتہائی قابل نفرت وحقارت معلوم ہوتی تھی پھر لائق رغبت بن جائے گی۔ امت محمدیہ کے اسی رجعت قہقریہ کو صحیح بخاری کی حدیث بالا میں بیان کیاگیا ہے یعنی وہی بات جو آپ کے زمانہ میں قابل تعجب تھی آئندہ دور میں ناگزیر طور پر ہونے والی بات ہوگی۔ حتی کہ اگریہود و نصاری میں کسی نے ماں سے زنا کیا ہوگا تواس بے حیائی میں بھی یہ امت ان کی اتباع کرکے رہے گی۔
امت محمدیہ شغفِ اتباع ہی کی بدولت صفتِ افتراق میں بھی اتباع کریگی
اس شغفِ اتباع سے یہ مترشح ہورہا ہے کہ یہ امت جب ہرمعقول اور نامعقول بات میں ان کے نقش قدم پر چلے گی تو یقینا ضلالت اور گمراہی کی وہ سب راہیں جو یہود ونصاریٰ نے اختیار کی تھیں یہ بھی اختیار کرے گی۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جتنے گمراہ فرقے ان میں نمودار ہوئے تھے اس میں بھی نمودار ہوں گے لیکن افسوس یہ ہے کہ بلند تر جب گرتا ہے تو یہاں بھی فروتر رہتا ہے اس لئے امتِ محمدیہ جب دورِ عروج و کمال میں بلند تر تھی تو اپنے دورِ انحطاط میں اُسے فروتر ہی رہنا چاہئے اور اسی لئے وصفِ افتراق میں یہود ونصاری سے آگے آگے نظر آناچاہئے۔ آخر جو مسند اعلیٰ علیین پرجلوہ نما تھا جب ایمان اور عمل صالح سے محروم ہوا تواس کا ٹھکانا اسفل السافلین ہی ٹھہرا۔
شدتِ اتباع اور حدیثِ افتراق کا تناسب
غالباً اسی گہری مناسبت کی وجہ سے صحیح بخاری کی اس حدیث کو جامع ترمذی میں حدیثِ افتراق کے لئے بطور مقدمہ ذکر کیاگیا ہے یابالفاظِ دیگر اس شدید افتراق کو اس مبالغہ آمیز اتباع کا ثمرہ اور نتیجہ قرار دیاگیاہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو باتیں بنی اسرائیل میں ہوئیں وہ ٹھیک ٹھیک سب میری امت میں ہوں گی حتیٰ کہ اگر ان میں کسی نے بے محابااپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی کوئی ایسا بدبخت ہوگاجو اس بے حیائی کا ارتکاب کرے گا اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹے تھے (آخر حدیث تک)
اس سیاق کو پڑھئے اور بغور پڑھئے اوراس عمیق ربط کی تہ تک پہنچ جائیے جو اس شدید اتباع اور شدید اختلاف کے مابین مستور ہے اگر آپ اس ربط کو پالیں تویقینا اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ حدیث افتراق درحقیقت صحیح بخاری کی حدیث اتباع کا ایک تتمہ تھا جو وہاں رہ گیا تھا وہ یہاں ذکر کردیاگیاہے بہرحال اگر ہمارے پاس صرف صحیح بخاری ہی کی یہی ایک حدیث ہوتی تو افتراقِ امت کی اجمالی داستان پڑھنے کے لئے کافی تھی۔
$ $ $
حواشی
(1)حاکم کہتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن زیاد افریقی ہے وہ ضعیف ہے۔ (مستدرک، ج:۱، ص: ۱۲۸)
(2) دیکھو ج:۲، ص: ۱۶۳ و ۱۷۰ و ۲۰۶۔ اور الموافقات، ج:۴، ص: ۱۷۷۔ حاکم نے حدیث مذکور کو دو جگہ روایت کیا ہے۔ (مستدرک ، ج:۱، ص: ۶ و ۱۲۸) ذہبی فرماتے ہیں علی شرط مسلم یعنی حدیث مسلم کی شرط پر ہے۔
(3) مشکوٰة شریف میں بحوالہ مسند احمد ابوداؤد صحابی کا نام معاویہ ذکر کیا ہے۔ اگر کتب حدیث میں کہیں ابو معاویہ کی روایت مل جائے تو خیر ورنہ بظاہر یہاں راوی معاویہ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ کنزالعمال میں بھی راوی کا نام معاویہ ہے بحوالہ مسند احمد و طبرانی، مستدرک (ج۱، ص: ۵۴) مستدرک میں بھی معاویہ ہے۔ (دیکھو ،ج:۱ ،ص: ۱۲۸)۔
(4) اللآلی ، ص: ۲۴۸ و ۲۴۹۔
(5)مجمع الزوائد، ج:۶، ص: ۲۲۶۔
(6)ایضا، ج:۷، ص: ۲۵۸۔
(7)ایضاً ،ج:۶، ص: ۲۳۴۔
(8)ایضاً، ج:۷، ص: ۱۵۹۔
(9)ابوغالب کے نام میں اختلاف ہے کوئی حزور کوئی سعید بن حزور اور کوئی نافع کہتا ہے۔ تہذیب التہذیب کی بارہویں جلد میں حافظ ابن حجر نے ان کا مفصل تذکرہ کیاہے۔ بعض کتب میں ابوغالب کی بجائے ابن ابی غالب لکھا گیا ہے ہمارے نزدیک اس حدیث کے راوی ابوغالب ہی ہیں اسی طرح کتاب الاعتصام ، ج:۱، ص: ۳۳ میں زاء کی بجائے حرور راء کے ساتھ لکھا ہے وہ بھی کاتب کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔
(10و 11)مجمع الزوائد، ج:۷، ص: ۱۵۹۔
(12) یہ راوی مختلف فیہ ہے بایں ہمہ اس کو ثقہ کہا گیا ہے۔
(13) مجمع الزوائد، ج:۷، ص: ۲۵۹۔
(14)مجمع الزوائد، ج:۷، ص: ۲۶۰ و مستدرک، ج:۱، ص: ۱۲۹۔
(15) مستدرک، ج:۴، ص:۴۳۰۔
(16)الاعتصام،ج:۲، ص: ۲۱۱۔
(17)مستدرک، ج:۱، ص: ۱۲۸۔
(18) مولانا عبدالحئی صاحب نے رسالہ الرفع والتکمیل میں ان فروق کی پوری تشریح فرمادی ہے ملاحظہ ہو:
کثیرا ما یقولون لایصح اولا یثبت ہذا الحدیث ویظن منہ من لا علم لہ انہ موضوع او ضعیف وہو مبنی علی جہلہ بمصطلحاتہم وعدم وقوفہ علی مصرحاتہم․ فقد قال علی القاری فی تذکرة الموضوعات لایلزم من عدم الثبوت وجود الوضع انتہیٰ․ وقال الحافظ ابن حجر فی تخریج احادیث الافکار المسمی بنتائج الافکار ثبت عن احمد بن حنبل انہ قال لا اعلم فی التسمیة فی الوضوء حدیثا ثابتا قلت لایلزم من نفی العلم ثبوت العدم وعلی التنزل لا یلزم من نفی الثبوت ثبوت الضعف لاحتمال ان یراد بالثبوت الصحة فلا ینتفی الحسن و علی التنزل لایلزم من نفی الثبوت عن کل فرد نفیہ عن المجموع۔ وقال نورالدین السمہوری قلت لایلزم من قول احمد فی حدیث التوسعة علی العیال یوم عاشوراء لا یصح ان یکون باطلاً فقد یکون غیر صحیح وہو صالح للاحتجاج بہ اذ الحسن رتبة بین الصحیح والضعیف۔اھ۔ وقال الزرکشی فی نکتہ علی ابن الصلاح۔ بین قولنا موضوع وبین قولنا لایصح لون کثیرا فان الاول اثبات الکذب والاختلاق والثانی اخبار عن عدم الثبوت ولا یلزم منہ اثبات العدم وہذا یجئی فی کل حدیث قال فیہ ابن الجوزی لایصح ونحن اھ ۔ وقال علی القاری مع ان قول السخاوی لایصح لایُنَافی الضعف والحسن اہ ۔ قال الزرقانی ونقل القسطلانی عن ابن رجب ان ابن حبان صححہ فیہ رد علی قول ابن دحیہ لم یصح فی لیلة نصف شعبان شیء الا ان یرید نفی الصحة الاصطلاحیة فان حدیث معاذ ہذا حسن لاصحیح اھ ۔
بسا اوقات محدثین لایصح یا لا یثبت کا لفظ فرماتے ہیں۔ ناواقف اس کا مطلب یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک موضوع یا ضعیف ہے یہ خیال ان کی اصطلاح سے جہالت اور ان کی تصریحات سے ناواقفی کا نتیجہ ہے۔ ملا علی قاری تذکرة الموضوعات میں فرماتے ہیں کہ عدم ثبوت کہنے سے اس کا موضوع ہوجانا ضروری نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر نتائج الافکار میں فرماتے ہیں کہ امام احمد فرماتے تھے کہ میرے نزدیک وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کے متعلق کوئی حدیث ثابت نہیں، میں کہتا ہوں کہ پہلے تو کسی شخص کے نہ جاننے سے اس چیز کا فی الواقع نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا اور اگر یہ بھی تسلیم کرلیا جائے تو پھر نفی ثبوت سے اس کا ضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا اوراگر یہ بھی تسلیم کرلیا جائے تو ہر ہر فرد کے نفی ثبوت سے مجموعہ کا ثبوت نہ ہونا کوئی ضروری امر نہیں ہے۔ نورالدین سمہوری فرماتے ہیں کہ امام احمد کے عاشوراء کی حدیث کے متعلق (لایصح) فرمانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ باطل ہو، ہوسکتاہے کہ صحیح تو نہ ہو مگر قابل استدلال ہو کیونکہ صحیح اور ضعیف کے درمیان ایک مرتبہ حسن کا بھی ہے۔ زرکشی نکت ابن صلاح میں فرماتے ہیں کہ ہمارے (لایصح) اور (موضوع) کہنے میں بہت بڑا فرق ہے کیونکہ موضوع کہنے کا مطلب یہ ہے کہ راوی کا جھوٹ اور وضع ثابت ہوگیا ہے اور لا یصح میں صرف عدم ثبوت کی خبر ہے یہ کوئی ضروری نہیں کہ اس کا عدم ثابت مان لیاجائے یہی بات ان تمام حدیثوں کے متعلق کہی جاسکتی ہے جن کے بارے میں ابن جوزی نے لایصح یا اسی طرح کا کوئی اور حکم لگادیا ہے۔ اھ۔ زرقانی کہتے ہیں کہ قسطلانی نے حافظ ابن رجب سے یہ نقل کیا ہے کہ ابن حبان نے شب نصف شعبان کی فضیلت کی حدیث کو صحیح کہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث کے متعلق ابن دحیہ کا لم یصح کہنا غلط ہے مگر یہ کہ اس کے کلام میں اصطلاحی صحت کی نفی مراد لی جائے کیونکہ معاذ کی یہ حدیث اصطلاحی طور پر یقینا صحیح نہیں ہے گو حسن ہو۔
(19)کتاب الفصل،ج:۳، ص: ۱۳۸۔
(20) اس کی وجہ حافظ ابن حزم نے اپنی تصنیف مداواة النفوس میں خود تحریر فرمائی ہے۔
ولقد اصابتنی علة شدیدة ولدت علی ربوا فی الطحال شدیدا فولد ذلک علی ومن الفجر وضیق الخلق وقلة الصبر والتزق امرا حاسبت نفسی فیہ فانکرت تبدل خلقی واشتد عجبی من مفارقتی لطبعی ․ (توجیہ النظر ص:۳۱ تحت استدراک فی الفائدة السابعہ)
میں ایک شدید بیماری میں مبتلا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میری تلی بہت بڑھ گئی تھی اس لئے میرے مزاج میں تنگی، تیزی و بداخلاقی جلد بازی پیدا ہوگئی ہے جب میں اپنی پہلی زندگی پر غور کرتا ہوں تو مجھے تعجب ہوتا ہے کہ میرے عادات و اخلاق کس قدر تبدیل ہوگئے ہیں اور میں اپنی اصلی طبیعت سے کتنا دور ہوگیا ہوں۔
(21)حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ابن حزم اپنی جلالتِ قدر کے باوجود امام ترمذی جیسے شخص سے بالکل نا آشنا ہیں حتی کہ جب ان کے سامنے امام ترمذی کا تذکرہ ہوا تو تعجب سے فرمایا ”ومن محمد بن عیسی بن سورة؟“ یہ محمد بن عیسیٰ کون شخص ہیں۔ (دیکھو الباعث الحثیث الی معرفت علوم الحدیث)
حافظ ابن حجر امام ترمذی کے تذکرہ میں تحریر فرماتے ہیں واما ابو محمد بن حزم فانہ نادی علی نفسہ بعدم الاطلاع فقال فی کتاب الفرائض من الایصال محمد بن عیسی بن سورة مجہول․ ابن حزم کواس بات کا خود اقرار ہے کہ وہ محمد بن عیسیٰ (ترمذی) سے واقف نہیں ہیں چنانچہ ان کو مجہول لکھتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب)
حافظ ذہبی فرماتے ہیں ۔ ترمذی کے بارے میں ابن حزم کا قول کہ وہ مجہول شخص ہیں کچھ قابل التفات نہیں ہے کیونکہ ان کو نہ امام ترمذی کی کتاب جامع سے واقفیت ہے اور نہ ان کی کتاب العلل کا علم ہے۔ (میزان الاعتدال)
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد: 89 ، ذیقعدہ 1426ہجری مطابق دسمبر 2005ء