از: محمد عطاء اللہ بندیالوی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
(۱) اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا․ (سورہ مائدہ پ۶)
آج ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا،اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کیا۔
(۲) مَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا․
جو چیز تم کو رسول دے اس کو لے لو۔ اورجس چیز سے منع کرے اس سے باز آجاؤ۔
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم
(۱) مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِ ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ (بخاری ومسلم)
جس نے ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی نئی چیز گھڑی تو وہ مردود ہوگی۔
(۲) عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنَ المَہْدِیِّیْن․ (ترمذی، ج:۲، ص: ۹۲، ابوداؤد، ج۲، ص: ۲۷۹)
تم پر لازم ہے کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرو۔
صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْم وَصَدَقَ النَّبِیُّ الْاَمِیْنُ الْکَرِیْمُ․
اللہ رب العزت کا ان گنت اور بے شمار مرتبہ شکر ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا،اور یہ بھی اس کا بے پایاں اور عظیم احسان اور انعام ہے کہ اس نے ہمیں ایمان اور اسلام کی دولت سے مالا مال فرمایا․․․․ اور خداوندِ قدوس کا سب سے اعلیٰ اور بھاری احسان اور انعام یہ ہے کہ ہمیں افضل الانبیاء، امام المرسلین، خاتم النّبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بناکر کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کا سہرا ہمارے سروں پر سجایا․․․․
دین کی تکمیل خاتم الانبیاء پر ہوئی
جو دینِ اسلام لے کر حضرت آدم آئے تھے، حضرت نوح آئے تھے، حضرت ابراہیم و اسماعیل آئے تھے، حضرت موسیٰ و ہارون آئے تھے، حضرت داؤد و سلیمان آئے تھے ․․․․ ہاں جو دین حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک تمام انبیاء کا متفقہ دین تھا، اس دین کی تکمیل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر ہوئی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دین کو مسلسل تیئس برس اپنے وجودِ مقدس کالہو بہاکر، طرح طرح کی تکلیفیں سہہ کر، ایذائیں برداشت کرکے، مصائب و مظالم کے پہاڑ اٹھاکر، لوگوں کے طعنے اور گالیاں سن کر مخلوقِ خدا تک پہنچایا۔
پھر ۹ھء میں حجة الوداع کے موقعہ پر جب آپ عرفات کے میدان میں ایک لاکھ سے زائد صحابہ کے سامنے تاریخی خطبہ ارشاد فرمارہے تھے، کہ لوگو! مجھ سے دین حاصل کرلو! لوگو! میری باتیں غور سے سنو! ․․․․․ لَعَلِّیْ لاَ اَرَاکُمْ بَعْدَ عَامِیْ ہٰذَا ․․․․․․ ہوسکتا ہے میں آئندہ سال تمہیں نہ دیکھ سکوں۔
(جو لوگ نبی اکرم کو حاضر وناظر سمجھتے ہیں وہ اس ارشاد پر غور فرمائیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کتنے واضح اور صاف الفاظ میں فرمارہے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ میں اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں اور پھر تم کو نہ دیکھ سکوں،نیز معلوم ہوا کہ قبر پر آنے والوں کو بھی نہیں دیکھتے)
اس موقع پر اللہ ربّ العزت کی طرف سے اعلان ہوا۔
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا․
آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا، اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی، اوراسلام کو تمہارے لئے بطورِ دین پسند کیا ہے۔
اس آیت کریمہ سے واضح ہوگیا کہ اسلام دین کامل ہے۔ اوراسلام جامع دین ہے۔ دینِ اسلام نے زندگی گزارنے کے جتنے گوشے ممکن ہوسکتے تھے، ان سب کے لئے کچھ اصول، کچھ قوانین،اور کچھ ضابطے بیان کرکے انسان کو دوسرے طور طریقوں سے بے نیاز کردیا۔
قرآنِ مقدس نازل کرکے اعلان فرمایا: ․․․․․ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ کہ قرآن میں اصولِ دین کو کھول کر بیان کیاگیا ہے․․․․ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرماکے اعلان کیا:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ․
کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
تمام انبیاء اور امامُ الانبیاء بشر تھے تاکہ اُمت کیلئے نمونہ بن سکیں
امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے تمام انبیاء کرام بشر اور آدمی تھے۔ اور وہ اس لئے کہ امت کے لئے نمونہ بن سکیں، اور اپنے عمل کو امت کے سامنے بطورِ نمونہ پیش کرسکیں․․․․․ آپ ذرا غور فرمائیں ․․․․․ اگر پیغمبر نوری ہوتا تو نہ کھاتا نہ پیتا، نہ شادی نہ غمی، نہ اس کے گھر مرن نہ پرن نہ بیمار ہوتا نہ زخمی ہوتا، نہ اس کی بیوی ہوتی نہ بچے ہوتے، نہ وہ کسی کا سسر ہوتانہ کسی کا داماد بنتا، نہ تجارت کرتا․․․․ پھر وہ انسانوں کیلئے قابل تقلید نمونہ کس طرح بن سکتا تھا؟
وہ لوگوں سے کہتا بیوی سے اچھا سلوک کرو․․․․ لوگ کہتے تیرے گھر بیوی ہے جو نہیں، تب ہی ایسی باتیں کررہے ہو، اگر تیری بیوی ہوتی تو تجھے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوتا۔
پیغمبر کہتا تجارت، امانت و دیانت سے کیاکرو، اس میں جھوٹ نہ بولو، کم تولنا نہ ہو، ملاوٹ نہ ہو ․․․․․ لوگ کہتے ، ہاں بھائی تم ٹھیک کہتے ہو، تیرا نہ کوئی کھانے والا نہ پہننے والا، نہ تجھے اولاد کی فکر، نہ اُن کی شادیوں کے دھندے․․․․ تمہیں کیا معلوم کہ تجارت کس طرح کی جاتی ہے۔
اسی حقیقت کے پیش نظر اللہ ربّ العزت نے انسان اور بشر کو نبی اور پیغمبر بناکر بھیجا، تاکہ وہ شادی بھی کرے، اور ان کے گھر غمی بھی ہو ․․․ مرَن بھی ہواور پرَن بھی ہو ․․․ اسکے گھر بیوی بھی ہو اور بچے بھی ہوں ․․․․ وہ کسی کا داماد بنے اور کسی کا سسر․․․․ وہ تجارت بھی کرے اور عبادت بھی ․․․․ غرضیکہ انسانی زندگی کے تمام عوارضات اور لوازمات اسکو پیش آئیں، اوراس طرح عملی طور پر وہ اپنے آپ کو امت کیلئے بطورِ نمونہ پیش کرے،اور امت کے افراد اس نبی کے اُسوہ حسنہ کو دیکھ کر زندگی گزارسکیں۔
اِمامُ الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کیلئے اُسوہٴ حسنہ
اب آپ اپنے پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ فرمائیے،احادیث و سیرت کی کتابوں میںآ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ایک ایک لحظہ محفوظ ہے ․․․․․ اُمت کا ہر آدمی جو کام بھی کرنا چاہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی میں اس کیلئے نمونہ موجود ہے․․․․․ شادی ہو یا غمی، صحت ہو یا بیماری، سفر ہویا حضر، جنگ ہو یاصلح، سسر ہو یاداماد، والدین ہوں یا اولاد، سربراہِ مملکت ہو یا مزدور، مسجد ہو یا بازار، عبادت ہو یاتجارت، نماز ہو، روزہ ہو، اذان ہو، تکبیر ہو، جنازہ ہو، حج ہو، قربانی ہو، عمرہ ہو، غرضیکہ زندگی کے نشیب و فراز میں اور زندگی کے ہر ہر موڑ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ایک مسلمان کیلئے کامل نمونہ ہے۔ حتیٰ کہ اس شفیق و مہربان پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کرنے اور تھوکنے تک کے طریقے اور آداب امت کو سکھادئیے۔ فرمایا کعبہ کی طرف منہ کرکے نہ تھوکنا۔ کعبہ کی طرف منہ کرکے اور پیٹھ کرکے قضائے حاجت نہ کرنا۔ راستے میں بیٹھ کر پیشاب نہ کرنا، جس طرف سے ہوا آرہی ہو اس طرف منہ کرکے پیشاب نہ کرنا۔
جس شفیق پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوکنے تک کے، بال کٹوانے اور ناخن ترشوانے تک کے ․․․․ ہاں جس مشفق پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کرنے تک کے آداب اور طریقے امت کو سکھائے، کیا اس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دین و دنیا کے دوسرے معاملات میں راہنمائی نہ کی ہوگی؟ کیا اس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت و تجارت، شادی و غمی، اذان و تکبیر، نماز و روزہ کے آداب اور مسائل نہیں سکھائے ہوں گے؟ لازماً سکھائے ہوں گے، اور زندگی گزارنے کے طور طریقے، عبادت و تجارت کے آداب ضرور بتائے ہوں گے۔
جو کام آنحضرت، خلفاءِ راشدین اور صحابہ سے ثابت نہیں وہ بدعت ہوگا
اگر یہ بات صحیح ہے۔ اگر ہمارے رسُول ․․․ رسُول کامل ہیں، کہ ان پر دین کی تکمیل ہوئی۔ اگر ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیرت کا ایک ایک لحظہ محفوظ اور قابل عمل ہے۔ اگر ان کی اتباع اور پیروی کا نام ہی دین ہے۔ اگر سنت رسول سے اعراض بے دینی ہے۔ تو پھر یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ زندگی گزارنے کا ہرہرگوشہ اورہر ہر شعبہ اسوئہ رسول اور سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہوگا، تو وہی دین ہوگا۔
اور اگر کوئی شخص عبادت و نیکی اور ثواب کا کوئی ایساکام کرے گا جس کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دَور میں نہیں تھا۔ اور خلفاء راشدین کا سنہرا دور بھی اس کام سے خالی نظر آتا ہے۔ اور اصحابِ رسول بھی وہ کام نہیں کرتے تھے، آج کوئی شخص اس کام کو نیکی اور دین سمجھتا ہے تو وہ سراسر فریب اور دھوکہ اور غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ وہ کام ثواب اور دین نہیں ہوگا بلکہ بدعت ہوگا۔
حضرت حذیفہ بن یمان فرماتے ہیں
کُلُّ عِبَادَةٍ لَمْ یَتَعَبَّدْہَا اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی عَلَیْہِ وَسَلَّمْ فَلاَ تَعَبَّدُوہَا فَاِنَّ الْاَوَّل لَمْ یَدَع لِلْآخر مَقَالاً فَاتَّقُوا اللّٰہَ یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْن وَخُذُوْا طَریْقَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ․ (الاعتصام علامہ شاطبی، ص: ۳۱۰، ج:۲)
عبادت کا جو کام اصحاب رسول نے نہیں کیا، وہ کام تم بھی نہ کرو کیونکہ پہلے لوگوں نے پچھلوں کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس کو یہ پچھلے پوراکریں۔ پس اللہ تعالیٰ سے ڈرو اے مسلمانو! اور پہلے لوگوں کے طریقے اختیار کرو۔
بدعتی دین کو ناقص اور امامُ الانبیاء کو (معاذ اللہ) خائن تصور کرتا ہے
آج اگر کوئی شخص ایسا کام کرتاہے جو کام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے مبارک دَور میں نہیں تھا، اور پھر وہ شخص اس کام کو نیکی اور دین اور ثواب سمجھتا ہے وہ عملی طور پر اس بات کا دعویدار ہے کہ (معاذ اللہ) اللہ کابھیجا ہوا دین ناقص ہے جس میں نیکی اور ثواب کا یہ کام بیان نہیں ہوا۔ جو آج میں نے سمجھا ہے۔
اسکے علاوہ وہ شخص اس بات کا بھی مدعی ہے کہ نیکی کی جس بات کا اور ثواب کے جس کام کا آج مجھے علم ہوا ہے۔ (معاذ اللہ) آنحضرت اور اصحاب رسول کی قدوسی جماعت کو بھی نیکی کے اِس کام کا علم نہیں تھا۔ یا ان کو علم تو تھا ، مگر امت کو بتانے میں بخل کرگئے۔ اور اللہ کے پیغام پہنچانے میں کوتاہی بھی کی اور خیانت بھی اور اس طرح کاگمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں رکھنا واضح کفر ہے۔
حضرت امام مالک نے اسی طرح فرمایاہے
مَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً یَرَاہَا حَسَنَةً فَقَدْ زَعَمَ اَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم خَانَ الرَّسالة لِاَنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ ”اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ“ فَمَالَکُمْ یَوْمَئِذٍ دِیْنًا لاَیَکُوْنُ الْیَوْمَ دِیْنًا․ (الاعتصام علامہ شاطبی، ص: ۴۸، ج:۱)
جو شخص بدعت کا کام کرتا ہے، اور اسے نیکی سمجھتا ہے وہ گمان کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ رسالت میں خیانت کی ہے پس جو کام اس زمانے میں دین نہیں تھا، وہ کام آج بھی دین نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا ہے۔
میری اس گفتگو کانتیجہ اور خلاصہ یہ ہے کہ عبادت و نیکی اور دین کا ہر کام کرتے ہوئے پرکھنا ہوگا۔ اور دیکھنا ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب پیغمبر کا اس بارے میں کیا عمل تھا۔ اگر اس کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے دور سے مل جائے تو وہ کام سنت ہوگا۔ ثواب ہوگا، نیکی ہوگا، دین ہوگا، خدا کی رضامندی کا موجب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کا سبب ہوگا۔ اگر اس کام کا ثبوت اور نام ونشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سنت میں بھی نہ ہو، اصحاب رسول کے اعمال سے بھی نہ ہو، تو پھر وہ کام بظاہر کتنا ہی خوشنما کیوں نہ ہو۔ بظاہر نیکی معلوم ہو وہ سنت اور دین نہیں ہوگا بلکہ بدعت، ضلالت اور گمراہی ہوگا، وہ کام غضب خداوندی کا موجب ہوگا، رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا سبب ہوگا۔
بدعت ہمیشہ نیکی کے پردے میں؟ جس طرح
زہر پر سنہرا کیپسول چڑھا دیا جائے
جب بھی بدعت کی تردید کی جائے، جب بھی امورِ بدعات سے منع کیا جائے جب بھی بدعات کے خلاف آواز اٹھائی جائے، اور لوگوں کو سمجھایا جائے، تو اہلِ بدعت سادہ لوح عوام کو ورغلانے کے لئے بھڑکا دیتے ہیں، کہ دیکھو جی! یہ وہابی ہمیں نیکی سے روکتے ہیں۔ لو جی! یہ درود نہیں پڑھنے دیتے۔ یہ سلام نہیں پڑھنے دیتے، یہ وہابی ہمیں کلمہٴ طیبہ کا ورد نہیں کرنے دیتے۔ دیکھو جی ہم کوئی برا کام کررہے ہیں۔ ہم کسی کو گالیاں دے رہے ہیں ہم نیکی کا کام ہی تو کررہے ہیں۔ جب یہ مسئلہ بیان کیا جائے کہ اذان سے اول آخر بلند آواز سے صلوٰة و سلام پڑھنا بدعت ہے،اس لئے کہ قرونِ اولیٰ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ بلال جو عاشق صادق تھا اُس نے تقریباً دس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اذان دی۔ مگر اس اذان میں اوّل آخر بلند آواز سے یہ صلوٰة و سلام نہیں ملے گا۔ پھر سیدنا ابوبکر کا سنہرا دور دیکھئے۔ سیدنا فاروقِ اعظم کا مبارک زمانہ دیکھئے۔ سیدنا عثمان کی خلافت کا دور دیکھئے۔ سیدنا علی کا دَورِ حکومت دیکھئے۔ حسنین کریمین کا زمانہ دیکھئے۔ سیدنا معاویہ کا دَور دیکھئے۔ باقی اصحابِ رسول ہیں۔ عشرہ مبشرہ ہیں۔ اصحاب بدر ہیں۔ تابعین اور تبع تابعین ہیں، ائمہ مجتہدین ہیں، محدثین و مفسرین ہیں، امام بخاری ہیں، امام مسلم ہیں، امام ابوحنیفہ ہیں، امام مالک ہیں، امام شافعی ہیں،امام احمد بن حنبل ہیں، امام محمد، ابویوسف اور امام زفر ہیں۔ پھر اولیاء اللہ ہیں، شیخ عبدالقادر جیلانی ہیں، بایزید بسطامی ہیں، علی ہجویری ہیں، بہاؤالحق ملتانی ہیں، سلطان باہو ہیں، معین الدین چشتی ہیں، مگر ان میں سے کسی کے دور میں بھی آپ کو نہیں ملے گا کہ اذان سے اول آخر بلند آواز سے صلوٰة و سلام پڑھا جاتا ہو۔
لوگو! اتنا تو سوچو کہ اگر یہ کام ثواب اور نیکی ہوتا تو بلال اسے کبھی نہ چھوڑتے۔ اگر یہ صلوٰة و سلام اذان سے اوّل و آخر دین ہوتا تو صحابہ اس پر ضرور عمل کرتے، تابعین اسے کبھی نہ چھوڑتے، ائمہ اربعہ اس پر ضرور عامل ہوتے۔ اس لئے یہ کام اب دین اور ثواب نہیں بلکہ بدعت ہوگا، جب کوئی توحیدی اور اشاعت توحید و سنت کا کوئی مبلغ اس نکتے پر گفتگو کرتا ہے، اور بدعات سے روکتا ہے اور اہل بدعت اس مبلغ کے فولادی دلائل کا جواب جب نہیں دے سکتے تو پھر اپنی بدعات کو ثابت کرنے کے لئے ان کے پاس ایک ہی ہتھیار ہوتا ہے۔ کہ ہم درود ہی تو پڑھ رہے ہیں۔اور درود پڑھنے کا اللہ نے خود حکم دیا ہے․․․․․․․․ دیکھو جی! یہ وہابی ہمیں درود سے روکتے ہیں، یہ وہابی درود کے ہیں ہی منکر!
میں کہتا ہوں درود شریف کا پڑھنا کار ثواب ہے۔ ایک مرتبہ درود پڑھاجائے تو دس نیکیاں ملتی ہیں، دس گناہ معاف ہوتے ہیں، اور جنت میں دس درجے بلند ہوتے ہیں ․․․․ درود شریف پڑھنا نیکی ہے، مگرجس جگہ اور جس مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درود نہیں پڑھا، اور نہ پڑھنے کا حکم دیا، اورجس مقام پر اصحاب رسول نے درود نہیں پڑھا اور نہ پڑھنے کا حکم دیا اس جگہ اور اس مقام پر درود پڑھنا ثواب اور نیکی نہیں، بلکہ بدعت ہوگا۔
مثال کیطور پر ایک شخص مرغی ذبح کرتا ہے، اور بسم اللہ اَللہ اکبر کی جگہ درود شریف پڑھ کر چھری چلاتا ہے۔ بتائیے وہ مرغی حلال ہوگی یا حرام؟ یقینا آپ کا جواب ہوگا، کہ مرغی حرام ہوجائے گی۔ اگر میں کہوں کہ اس شخص نے درود شریف پڑھ کر مرغی ذبح کی ہے پھر مرغی حرام کیوں ہے؟ تم سب لوگ درود کے منکرہو، گستاخ ہو۔
آپ جواب میں کہیں گے کہ جناب ! ہم درود کے منکر نہیں ہیں، مگر جس مقام پر اور جس جگہ پر اس شخص نے درود پڑھا ہے وہ مقام درود پڑھنے کا نہیں تھا، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہ کرام نے اس مقام پر درود نہیں پڑھا۔
اسی طرح ایک شخص چار رکعت نماز کی نیت باندھتا ہے۔ دو رکعت کے بعد التحیات تشہد تک پڑھنے کے بعد اس نے تیسری رکعت کے لئے اٹھنا ہے مگر وہ شخص کہتا ہے کہ میرا دل نہیں کرتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے بغیر میں اٹھوں۔ اس لئے میں تو درود پڑھ کر اٹھوں گا۔
آپ بتائیں جس نے جان بوجھ کر یہاں درود پڑھ لیا، اس شخص کی نماز ہوئی یا نہیں؟ یقینا آپ کا جواب ہوگا کہ نماز مکمل نہیں ہوئی۔ اور اگر اس مقام پر اس نے بھول کر درود پڑھ لیا تو سجدہ سہو لازم آئے گا․․․․ کیوں؟
اس لئے کہ جس مقام پر اس شخص نے درود پڑھا ہے، اس مقام پر شریعت نے درود پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔ اور درود پڑھنا وہاں ثواب اور نیکی ہوگا جہاں شریعت نے حکم دیا ہے۔
اس لئے یاد رکھئے ! بدعت ہمیشہ نیکی کاروپ دھار کر آتی ہے، بدعت ہمیشہ دین کے رنگ میںآ تی ہے۔ بدعت بدترین اور گھناؤنا گناہ ہے مگر اس پر کیپسول سنہرا چڑھا دیا جاتا ہے۔ اسی لئے بدعتی اس کام کو نیکی، ثواب، قربِ خداوندی کا ذریعہ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کا سبب سمجھتا ہے۔ جب تک بدعت نیکی کا رنگ نہ اپنائے تو اس وقت تک لوگ اسمیں ملوث کس طرح ہوں۔
بدعتی کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی
اسی لئے ہر گنہگار کو توبہ کی توفیق نصیب ہوجاتی ہے مگر بدعتی کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ اسلئے کہ ہر گنہگار گناہ کرتا ہے گناہ سمجھ کر، زانی زنا کرتا ہے تو زنا کو گناہ سمجھتا ہے، چور چوری کرتاہے گناہ سمجھ کر، قاتل قتل کرتا ہے تو قتل کو گناہ سمجھتا ہے، ڈاکو ڈاکہ مارتا ہے گناہ سمجھ کر، جھوٹا شخص جھوٹ بولتا ہے، کوئی غیبت کرتا ہے، کوئی چغل خوری کرتا ہے، تو اسے گناہ سمجھتا ہے۔ غرضیکہ ہر گناہ جو انسان کرتا ہے وہ اسے گناہ سمجھتا ہے، اس لئے زندگی کے کسی موڑ پر اُسے توبہ کی توفیق نصیب ہوجاتی ہے۔ مگر بدعتی شخص بدعت کا عظیم اور گھناؤنا گناہ کرتا ہے،مگراسے دین اور نیکی سمجھتا ہے تو اب وہ نیکی سے توبہ کس طرح کرے، توبہ تو گناہوں سے ہوتی ہے۔
امام الانبیاء سرورِ کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حقیقت کو بیان فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ حَجَبَ التَّوْبَةَ عَنْ کُلِّ صَاحِبّ بِدْعَةٍ (طبرانی)
بے شک اللہ تعالیٰ ہر بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند کردیتا ہے۔
دین وہ ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر ہو
میرے عرض کرنے کا مقصدیہ ہے کہ ہر نیکی کا کام نیکی نہیں ہوگا۔ اور وہ کام بھی دین اور نیکی نہیں ہوگا جسے ہم نے از خود نیکی اور ثواب سمجھ لیا ہے، بلکہ نیکی وہ ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر لگی ہو، جو اصحابِ رسول سے ثابت ہو۔
انسان کا ہر عمل اور ہر عبادت چاہے کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، بظاہر وہ عمل کتنا ہی خوشنما کیوں نہ ہو، وہ کام اور وہ عمل اس وقت تک عبادت اور نیکی نہیں ہوگا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول سے ثابت نہیں ہوگا۔
تین صحابہ کا ایک نصیحت آموز واقعہ
تین صحابہ کا وہ مشہور واقعہ آپ کے ذہن میں ہوگا جو ازواجِ مطہرات کے ہاں آئے تھے، اور پوچھا تھا!
کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کس طرح بسر کرتے تھے؟ کس طرح اورکتنی دیر عبادت کرتے تھے؟ روزے کس طرح رکھتے تھے؟ جب ازواجِ مطہرات نے انہیں بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت سوتے بھی تھے، اور عبادت بھی کیا کرتے تھے، روزے بھی رکھتے تھے،مگر کئی کئی دن روزے ترک بھی کردیتے تھے۔
ان پوچھنے والے صحابہ نے آپس میں طے کیاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ہماری آپس میں کیا نسبت ہے، وہ تو امام الانبیاء ہیں، محبوبِ خدا ہیں، لہٰذا ہمیں عبادت و ریاضت زیادہ کرنی چاہئے، ایک نے کہا! میں قسم اٹھاتا ہوں کہ ساری زندگی رات کو سویا نہیں کروں گا، بلکہ پوری رات عبادت میں گزاردوں گا۔ دوسرے نے کہا! میں ساری زندگی شادی نہیں کروں گا تاکہ بال بچوں کا جھنجھٹ نہ ہو، اورمیں یکسوئی سے اللہ کی عبادت کرتا رہوں۔ تیسرے نے کہامیں ہمیشہ روزے رکھوں گا، درمیان میں کبھی افطار نہیں کروں گا۔
حضراتِ گرامی! دیکھئے بظاہر ان تینوں کاارادہ بھی نیک ہے،اور قسم بھی نیکی کے کام کے لئے اٹھارہے ہیں۔ مگر جانتے ہیں آپ! کہ رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان حضرات کے بارے میں معلوم ہوا تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا!
کیا تم مجھ سے بڑھ کر متقی اور پرہیزگار بنتے ہو؟ کیا تم مجھ سے زیادہ خوفِ خدا رکھتے ہو؟ مجھے دیکھو میں رات کو سوتا بھی ہوں، اور جاگ کر عبادت بھی کرتا ہوں، میں روزے بھی رکھتا ہوں اور درمیان میں افطار بھی کرتاہوں، میں نے شادیاں بھی کی ہیں۔ اس لئے تم اپنی اپنی قسمیں توڑ کر ان کاکفارہ ادا کرو۔
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ نیکی کا ہر کام جو انسان خود تجویز کرتا ہے وہ نیکی نہیں بنتا، بلکہ وہی کام نیکی اور ثواب ہوگا جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر تصدیق ثبت ہوگی۔
حضرت علی نے کتنی خوبصورت بات کہی
بات کو سمجھنے کے لئے ایک اور واقعہ سنئے، خلیفہ رابع، دامادِ نبی حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ ایک شخص نمازِ عید سے پہلے نفل پڑھ رہا ہے (اور یہ مسئلہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ نمازِ عید سے پہلے گھر میں اور عیدگاہ میں نفل نہیں پڑھے جاسکتے ہیں، ہاں عید کی نماز کے بعد عیدگاہ میں نوافل ادا کرنا جائز نہیں البتہ گھر میں پڑھے جاسکتے ہیں)
حضرت سیدنا علی نے اس شخص کو نوافل پڑھنے سے روکا، تو اس شخص نے کہا:
یَا اَمِیْرُالْمُوٴْمِنِیْن اِنِّی اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ لاَیُعَذِّبُ عَلَی الصَّلوٰةِ ․
امیر المومنین آپ نماز پڑھنے سے روکتے ہیں! میں کوئی برائی کاکام کررہاہوں! میرا خیال ہے کہ اللہ رب العزت مجھے نماز پڑھنے پر سزا نہیں دے گا۔
(اس شخص کو وہی غلط فہمی تھی جو آج کل کے بدعتیوں کو ہے کہ میں نفل پڑھ رہا ہوں،نیکی کا کام کررہا ہوں،آپ مجھے نیکی کے کام سے ․․․․ نمازپڑھنے سے روکتے ہیں)
سیدنا علی نے اس شخص کی یہ دلیل سن کر کتنی خوبصورت اور گہری بات فرمائی: فرمایا
اِنِّیْ اَعْلَمُ لاَ یَثِیْبُ عَلیٰ فِعْلٍ حَتّٰی یَفْعَلَہ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوْ یحِثُّ عَلَیْہِ․
تو کہتاہے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں،اور نماز پڑھنے پراللہ مجھے سزا نہیں دے گا۔ کان کھول کے سن! اللہ تعالیٰ کسی ایک کام پر کبھی ثواب نہیں دے گا، جس کام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو یا اس کے کرنے کی ترغیب نہ دی ہو۔
اس لئے فَتَکُوْنُ صَلوٰتُکَ عَبَثًا والعَبَثُ حَرَامٌ فَلَعَلَّہ تَعَالٰی یُعَذِّبُکَ بِہ لِمُخَالِفَتِکَ لِرَسُوْلِہ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم (نظم البیان، ص:۷۳)
تیری یہ نماز فضول فعل ہے،اور فضول فعل شریعت میں حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ تجھے اس نماز پر سزا دے گا،اس لئے کہ تونے رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے، تواس نماز کو نیکی اور ثواب سمجھ رہاہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم نیکی کے ایک ایسے کام پر مطلع ہوگئے ہو جس کام پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی مطلع نہیں ہوئے۔ اللہ تعالیٰ تجھے اس بدعت کے کرنے پر سزا دے گا۔ تم نے رسول اللہ کی مخالفت کی ہے۔ (بدعتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف اور دشمن ہوتا ہے) ایسے کام کو نیکی اور ثواب سمجھ رہے ہو، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً و فعلاً ثابت نہیں ہے۔ یا درکھو! ہر نیکی کاکام دین نہیں ہے، بلکہ دین اور نیکی کا کام وہ کام ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ رسول کی مہر تصدیق ثبت ہوگی۔
حضرت سعید بن المسیب رحمة اللہ علیہ کا فرمان
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فرمان سے ملتا جلتا ایک فرمان اور قول حضرت سعید بن المسیب رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے۔ جب انھوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ عصر کی نماز کے بعد دو رکعت نمازِ نفل ادا کرتا ہے۔ آپ نے اُسے روکا کہ تیرا یہ عمل درست نہیں ہے۔ اس شخص نے کہا: اَیُعَذِّبُنِیَ اللّٰہُ عَلَی الصَّلوٰةِ کیا اللہ تعالیٰ مجھے نماز پڑھنے پر سزا دے گا۔ (گویا کہ وہ شخص آج کے اہل بدعت کی طرح یہ کہنا چاہتا ہے کہ نماز پڑھنے میں حرج ہی کیا ہے؟ نفل پڑھنا کوئی گناہ تو نہیں! میں کوئی برائی کا عمل کررہا ہوں کہ اللہ مجھے سزا دے گا۔ آپ مجھے نیکی سے اور نوافل سے روکتے ہیں۔
حضرت سعید نے اس شخص کے جواب میں فرمایا:
لاَوَلٰکِنْ یُّعَذِّبُکَ بِخِلاَفِ السُّنَّةِ (دارمی، ص:۶۲)
لا یہ میں مانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے نمازپڑھنے پر سزا نہیں دے گا۔ وَلٰکِنْ یُّعَذِّبُکَ بِخِلاَفِ السُّنَّةِ ․
لیکن اللہ تعالیٰ تجھے اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت کی وجہ سے ضرور عذاب دیگا۔ (کہ تونے ایک ایساکام کیا ہے، اور اُسے نیکی سمجھ رہاہے جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، وہ کام اور وہ عمل ہر گز نیکی نہیں ہوسکتا، جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت نہ ہو)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا فرمان اور تقویٰ
میں قرون اولیٰ، خصوصاً اصحاب رسول کے واقعات پیش کرکے یہ ثابت کررہاہوں کہ بدعت ہمیشہ نیکی کا روپ دھار کر آتی ہے۔ اس لئے ہر کام اورہر عمل جو بظاہر نیکی اور ثواب معلوم ہورہا ہو، یہ ضروری نہیں کہ وہ دین بھی ہو۔ بلکہ وہ کام اور وہ عمل نیکی، ثواب اور دین ہوگا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر ہوگی۔ اور جو رحمتِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہوگا! ورنہ وہ کام بدعت، ضلالت اور موجبِ عذابِ خداوندی ہوگا!
آئیے مشہور صحابیٴ رسول، امیر المومنین حضرت سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے لائق ترین فرزند ارجمند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے چند ارشادات اور چند واقعات بھی سن لیجئے۔ تاکہ مسئلہ ذرا اور نکھر جائے، اور بات واضح ہوجائے۔
(۱) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے شاگرد حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میرے استاذ ابن عمر زندگی کے آخری حصہ میں نابینا ہوگئے تھے، میں انہیں پکڑ کر مسجد میں لے جاتا تھا،ایک دفعہ ہم ایک مسجد میں داخل ہوئے اذان ہوچکی تھی کہ ایک شخص نے اذان کے بعد اَلصَّلوٰة اَلصَّلوٰة کے ساتھ تثویب شروع کردی، یعنی وہ لوگوں کو نماز کی طرف دعوت دے رہاتھا۔ لوگوں کو نماز کی طرف بلا رہا تھا۔ حضرت ابن عمر نے سنا تو اس شخص سے فرمایا: ارے تم پاگل ہو! تیری اذان میں نماز کی جو دعوت تھی کیا وہ لوگوں کو بلانے کے لئے کافی نہیں تھی؟ حضرت مجاہد کہتے ہیں پھر ابن عمر نے مجھ سے فرمایا: اُخْرُجْ بِنَا فَاِنَّ ہٰذِہ بِدْعَةٌ (ابوداؤد، ج:۱، ص: ۷۹۰) مجھے اس مسجد سے لے چل اس لئے کہ یہ بدعت ہے۔ (اور جہاں بدعت کا ارتکاب ہو میں وہاں نماز نہیں پڑھنا چاہتا)
ترمذی کی روایت میں ہے کہ فرمایا: اُخْرُجْ بِنَا مِنْ عِنْد ہٰذَا الْمُبْتَدِعْ وَلَمْ یصل فِیْہِ․ (ترمذی، ص: ۲۸، ج:۱) مجھے اس بدعتی کے ہاں سے لے چل اور ابن عمر نے اس مسجد میں نماز نہ پڑھی۔
سامعین کرام! دیکھا آپ نے جس شخص نے اذان کے بعد اَلصَّلوٰة اَلصَّلوٰة کے ساتھ لوگوں کو نماز کی طرف بلایاتھا، اُس نے کسی کو گالی تو نہیں دی تھی، اس نے کسی کو برا بھلا نہیں کہا تھا، اس نے بظاہر کوئی براکام نہیں کیاتھا، نماز جیسی افضل ترین عبادت کے لئے لوگوں کو بلایاتھا اور وہ اَلدَّالُ عَلَی الْخَیْر کَفَاعِلِہ (کہ بھلائی کی دعوت دینے والابھلائی کرنے والے کی طرح اجر و ثواب پاتا ہے) کا مصداق تھا۔ دیکھنے میں اس کا یہ عمل نیکی اور ثواب کا لگ رہا ہے،مگر حضرت ابن عمر نے اس شخص کو بدعتی اوراس عمل کو بدعت فرمایا! اور پھر اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے رُکے بھی نہیں۔
(۲) یہی حضرت مجاہد رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں ایک روز مسجد نبوی میںآ یا تو دیکھا کہ حضرت ابن عمر حجرئہ عائشہ کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ وَالنَّاسُ یُصَلُّوْنَ الضُّحٰی فِی الْمَسْجِد اور کچھ لوگ مسجد میں چاشت کی نمازپڑھ رہے تھے۔ ہم نے ابن عمر سے اِن لوگوں کی نماز کے بارے میں پوچھا! (کہ چاشت کی نماز کے لئے مسجد میں اجتماعی ہیئت سے خاص اہتمام کے ساتھ جمع ہونا کیسا ہے) ابن عمر نے فرمایا: بِدْعَةٌ یہ بدعت ہے۔ (بخاری، ص: ۲۳۸، ج:۱، مسلم، ص:۴۰۹)
حضرت ابن عمر کے اس ارشاد اور فتویٰ کی تشریح کرتے ہوئے امام نووی نے فرمایا:
مَرَادُہُ اَنَّ اِظہَارَہَا فِی الْمَسْجِد والاِجْتِمَاعَ لَہَا بِدْعَةٌ لاَ اَنَّ اَصْلَ صَلوٰةِ الضُّحٰی بِدْعَةٌ (نووی شرح مسلم، ص: ۴۰۹)
ابن عمر کی مراد یہ ہے کہ چاشت کی نماز کو مسجد میں ظاہر کرکے پڑھنا، اور اس کے لئے اجتماع اور اہتمام کرنا یہ بدعت ہے۔ ابن عمر کا یہ مقصد نہیں تھا کہ چاشت کی نماز ہی بدعت ہے۔
(۳) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ایک شاگرد حضرت نافع رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عمر کے پہلو میں چھینک ماری، اور کہا! اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّہِ․
حضرت ابن عمر نے یہ جملہ سنا تو فرمایا: اَنَا اَقُوْلُ اَلْحَمُدُ لِلّٰہِ وَالسَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ! یہ مبارک کلمات تو میں بھی کہتاہوں،یہ کلمات خوبصورت بھی ہیں دلپذیر بھی، آنکھوں کی ٹھنڈک بھی ہیں،اور دل کاسرور بھی؛ لیکن لَیْسَ ہٰکَذَا عَلَّمَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ․
جس موقع پر تم نے یہ کلمات ادا کئے اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات نہیں سکھائے؛ بلکہ عَلَّمَنَا اَنْ نَّقُوْلَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ (ترمذی، ص:۹۸، ج:۲)
ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہرحال میں اَلْحَمْدُ للِہ کہیں۔
حضرات گرامی! اندازہ کیجئے ”وَالسَّلاَمُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ“ جیسا پاکیزہ اور پیارا جملہ، مگر چھینکنے کے بعد ابن عمر نے یہ جملہ پسند نہیں فرمایا۔ کیوں؟ صرف اس لئے کہ چھینک کے بعد صرف الحمد للہ کہنا،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ اوراسی پر اکتفاکرنا دین کا تقاضا ہے۔ اب چھینکنے کے بعدکوئی جملہ الحمد للہ سے زائد کہنا ثواب اور نیکی نہیں بنے گا۔ بلکہ بدعت اور گمراہی ہوگا۔
معلوم ہوا کہ ہر کام اورہر عمل نیکی اور دین نہیں ہوگا، بلکہ وہ کام اور وہ عمل دین اور نیکی ہوگا جس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر تصدیق ثبت ہوگی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد اور فتویٰ
آئیے آپ کو ایک اور واقعہ سناتا ہوں۔ اور یہ واقعہ مشہور صحابیٴ رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے۔ ان کو کسی نے اطلاع دی کہ فلاں مسجد کے نمازی نماز کے بعد تسبیح و تہلیل اور تکبیر بلند آواز سے پرھتے ہیں۔ اب دیکھئے کہ وہ لوگ سُبْحَانَ اللّٰہ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ پڑھتے تھے، اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد ان کلمات کے پڑھنے کا حکم بھی دیا ہے۔ یہ کلمات، ان کی تعداد، پڑھنے کا وقت سب شریعت اور سنت رسول سے ثابت ہے۔ مگر ان لوگوں نے زیادتی صرف اتنی کی تھی، کہ بجائے پست آواز کے بلند آواز سے پڑھنے لگے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس مسجد میں پہنچے تو اتفاق سے وہ لوگ کنکریوں پر یہ کلمات بلند آواز سے پڑھ رہے تھے۔ (جس طرح آج بعض مساجد میں نماز کے بعد بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا ذکر ہوتا ہے)
ابن مسعود نے پوچھا! تم ان سنگریزوں پر کیا پڑھ رہے ہو! انھوں نے کہا، خداوند قدوس کی تسبیح و تحمیداور تکبیر و تہلیل کرتے ہیں۔
ان کا یہ جواب سن کر ! عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مَنْ عَرَفَنِیْ فَقَدْ عَرَفَنِیْ وَمَنْ لَمْ یَعْرِفْنِیْ فَاَنَا عَبدُ اللّٰہِ بنُ مَسْعُوْدٍ ․
تم میں سے جو مجھ کو جانتا ہے، سو وہ تو جانتا ہے۔ اورجو نہیں جانتا تو سن لے کہ میں عبداللہ بن مسعود ہوں۔
(محمد عربی کا غلام ہوں، جب تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا،مسواک اور وضو کا سامان اورمصلیٰ میرے پاس ہوتا تھا، میرے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ابن مسعود کی کمزور اور نحیف پنڈلیاں قیامت کے دن اُحد پہاڑ سے زیادہ وزنی ہوں گی۔ میرے متعلق آقائے نامدار نے فرمایا تھا کہ مَا حَدَّثَکُمْ اِبْنُ مَسْعُوْدٍ فَصَدِّقُوْہُ (ترمذی) جو بات ابن مسعود کہے اس کی تصدیق کیا کرو)
اپنا تعارف کروانے کے بعد فرمایا:
وَیْحَکُمْ یَا اُمَّةَ مُحَمَّدٍ مَا اَسْرَع ہَلَکْتُکُمْ ہٰٓوٴُلَآءِ صَحَابَة بَیْنکُمْ مُتَوَافِرُوْنَ وَہَذَا ثِیَابُہ لَمْ تبلّ وَاٰنِیَتُہ لَمْ تکسر․ (مسند دارمی، ص:۲۸)
تعجب اور افسوس ہے تم پر اے امت محمد! تم کتنی جلدی ہلاکت، بربادی کے کاموں میں پڑ گئے ہو، ابھی تک تمہارے درمیان اصحابِ رسول کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔ اورابھی تک رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پرانے نہیں ہوئے اور ابھی تک آپ کے برتن نہیں ٹوٹے۔ پھر فتویٰ لگاتے ہوئے فرمایا:
فَوَالَّذِیْ لاَ اِلٰہَ غَیْرُہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا معبود اور مشکل کشا کوئی نہیں لَقَدْ جِئْتُمْ بِبِدْعَةٍ ظَلْماء ! تم نے ایک تاریک اور سیاہ بدعت ایجاد کی ہے۔ (مجالس الابرار، ص: ۱۳۳) تَعْلَمُوْنَ اَنَّکُمْ لاَہْدیٰ مِنْ مُّحَمَّدٍ وَّ اَصْحَابِہ ! تم نے یہ کام کرکے ثابت کیا ہے، کہ تم محمد عربی اور ان کے صحابہ سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہو! پھر فرمایا ! لَقَدْ جِئْتُمْ بِبِدْعَةٍ عُظمٰی ! تم نے ایک بہت بڑی بدعت ایجاد کی ہے وَلَقَدْ فَضَّلْتُمْ اَصْحَابَ مُحَمَّدٍ عِلْمًا کیا تم علم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے بڑھ گئے ہو! (احکام الاحکام، ص: ۵۲، ج:۱)
اندازہ لگایا آپ نے! سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر اور لآ اِلٰہ اِلاَّاللہ کے کتنے فضائل ہیں، یہ کلمات کتنے بابرکت ہیں! ان کلمات کوپڑھنے پر کتنا اجر اور ثواب ملتا ہے۔مگر جب اُن لوگوں نے ان کلمات کو پڑھنے کے لئے ایک مخصوص ہیئت اور مخصوص صورت، اور مخصوص شکل بنائی، اور بجائے پست آواز سے پڑھنے کے بلند آواز سے پڑھنا شروع کیا، تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کے اس عمل اور فعل کو گمراہی سمجھا، تاریک بدعت اور بدعت عظمیٰ کافتویٰ لگایا۔ کیوں؟ اس لئے کلمات کتنے ہی بابرکت اور مبارک کیوں نہ ہوں! فعل اور عمل کتنا ہی خوشنما اور دیدہ زیب کیوں نہ ہو! لیکن جب تک اس کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول کی قدوسی جماعت سے نہیں ہوگا، وہ نیکی اور ثواب نہیں ہوسکتا، بلکہ بدعت ہوگا، گمراہی ہوگی، ضلالت ہوگا، مخالفت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے ایک اور روایت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک جماعت کو دیکھا جو مسجد میں بلند آواز سے لآ اِلٰہ اِلاّ اللہ اور درود شریف بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ ابن مسعود نے ان لوگوں پر فتویٰ لگایا! مَا اَرَاکُمْ اِلاَّ مُبْتَدِعِیْن میں تم کو بدعتی سمجھتا ہوں! پھر آپ نے ان بدعتیوں کو مسجد سے نکال دیا، کہ تم کلمہ کا ذکر اور درود شریف بلند آواز سے کیوں پڑھتے ہو، جب کہ اس کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اوراصحاب رسول سے نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں گنگا اُلٹی بہتی ہے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے کلمے کا ذکر کرنے والوں کو اور بلند آواز سے درود پڑھنے والوں کو بدعتی کہہ کر مسجد سے نکال دیاتھا! اورآج جو شخص مسجد میں بلند آواز سے ذکر نہیں کرتا، اور بلند آواز سے درود نہیں پڑھتا، اُسے گستاخ کہہ کر مسجد سے نکال دیتے ہیں۔
تمام واقعات کا خلاصہ
اصحاب رسول کے جتنے واقعات اور جتنے فتوے میں نے بیان کئے ہیں۔ ان سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ جو شخص بھی دین کا اور نیکی کا کوئی کام کرنا چاہتا ہے اُسے دیکھنا اور پرکھنا ہوگا کہ آیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اوراصحابِ رسول نے یہ کام کیا تھا؟ یا اس کام کے کرنے کاحکم دیا تھا؟ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی اور اصحابِ رسول کی زندگیوں میں وہ کام ہوا، انھوں نے وہ کام کیا، یاکرنے کا حکم دیا تو پھر وہ کام دین بھی ہوگا، ثواب بھی ہوگا اور باعث رحمت بھی ہوگا۔
لیکن اگر وہ کام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں! آپ نے اس کام کے کرنے کا حکم نہیں دیا! اور اصحابِ رسول کے زمانے میں وہ کام نہیں ہوا۔ حالانکہ سبب موجود تھا اور وہ یہ کام کرسکتے تھے مگر انھوں نے نہیں کیا! تو وہ کام بظاہر کتنا ہی خوبصورت اور خوشنما کیوں نہ ہو ! وہ کام بظاہر نیکی اور ثواب کا کام لگ رہا ہو! وہ نیکی اور ثواب نہیں ہوگا؛ بلکہ بدعت اور ضلالت ہوگا!! باعث ذلت اور موجب عذاب ہوگا۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد: 89 ، ذیقعدہ 1426ہجری مطابق دسمبر 2005ء