مرتب: مولانا سید احمد رضا صاحب بجنوری
ائمہ حنفیہ اور محدثین
حافظ ابن حجر عسقلانی کا مستقل شیوہ ہے کہ وہ حنفیہ کے عیوب نکالتے ہیں اور مناقب چھپاتے ہیں اور شوافع کے ساتھ معاملہ برعکس کرتے ہیں، ایک جگہ حافظ نے ابن عبداللہ کی طرف اختیارِ رفع یدین کی نسبت کی ہے، حالانکہ وہ قول ابن عبدالحکم کا ہے، جیسا کہ اس کی تفصیل میں نے رفعِ یدین کے رسالہ میں کی ہے، اسی طرح اور جگہ بھی حافظ نے نقل میں غلطی کی ہے، یہ رجالِ حدیث کی غلطیاں ہیں۔
پھر فرمایا کہ محمد بن جعفر (غندر) نے امام زفر کی کتابیں دیکھ کر فقہ حاصل کیا ہے، اُنکی عبادت و زہد کو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوتے تھے، محدثین نے ان کا حال بھی چھپایا ہے۔ بصرہ والے امام ابوحنیفہ سے متنفر تھے، لیکن جب یہ گئے تو لوگ ان کی طرف بہت مائل ہوئے اور دسرے محدثین کا رنگ پھیکا پڑگیا۔
حدیثیں اور مسائل تحقیقی سناکر کہہ دیتے تھے کہ یہ سب امام ابوحنیفہ سے ہیں، اس طریقہ کی وجہ سے لوگ بہت مانوس ہوئے،فرمایا کہ بخاری و مسلم میں تو غزوئہ خندق میں صرف ایک نمازِ عصر کے فوت ہونے کا ذکر ہے، مگر امام طحاوی نے معانی الاآثار میں امام شافعی سے روایت کیا کہ ظہر، عصر، و مغرب تین نمازیں فوت ہوئی تھیں اوراس کی سند قوی ہے، اس پر فرمایا کہ حافظ ابن حجر نے رجال میں حنفیہ کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے، حتیٰ کہ امام طحاوی کے عیوب بھی نکالے ہیں، حالانکہ امام طحاوی جب تک مصر میں رہے، کوئی محدث نہیں پہنچتا تھا جو ان سے حدیث کی اجازت نہ لیتا ہو اور وہ حدیث کے مسلّم امام ہیں۔ امام طحاوی کا سوواں حصہ رکھنے والوں کی بھی حافظ نے تعریف کی ہے۔
حافظ عینی حافظ ابن حجر سے عمر میں بڑے تھے اور بعد تک زندہ رہے ہیں، حافظ نے حافظ عینی سے ایک حدیث صحیح مسلم کی اور دو حدیثیں مسند احمد کی سنی ہیں یعنی اجازت حاصل کی ہے۔
ایک دفعہ فرمایا: حافظ کی عادت ہے کہ جہاں رجال پر بحث کرتے ہیں کہیں حنفیہ کی منقبت نکلتی ہوتو وہاں سے کتراجاتے ہیں، دسیوں بیسیوں جگہ پر یہی دیکھا، ایک روز فرمایا کہ ہمارے یہاں حافظ زیلعی سب سے زیادہ متیقظ ہیں۔ حتیٰ کہ حافظ ابن حجر سے بھی زیادہ ہیں، مگر کاتبوں کی غلطیوں سے وہ بھی مجبور ہیں۔
ایک دفعہ دوسرے محدثین کے تذکرہ میں فرمایا کہ ابوداؤد امام صاحب کی دل بھر کر تعظیم کرتے ہیں، امام بخاری مخالف ہیں، امام ترمذی معتدل ہیں، ان کے یہاں نہ تحقیر ہے نہ تعظیم۔
امام نسائی بھی حنفیہ کے خلاف ہیں، امام مسلم کا حال معلوم نہیں ہوا، ان کے شافعی ہونے کی بھی نقل موجود نہیں ہے، صرف ان کے ایک رسالہ سے استنباط کیا گیا ہے کہ شافعی ہیں۔
ابونعیم صاحبِ حلیہ بھی امام ابوحنیفہ کے مخالف نہیں ہیں، اور ایک روایت بھی امام صاحب کی سند سے لائے ہیں۔ امام صاحب کا مسند بھی مرتب کیا ہے، خطیب بغدادی ائمہ حنفیہ کے مخالف ہیں۔
راقم الحروف مندرجہ بالا تصریحات کے بارے میں کچھ عرض کرتا ہے یہ بات سب کو معلوم ہے کہ امام صاحب تمام ائمہ متبوعین میں علم و فضل کے اعتبار سے مقدم اور افضل ہیں جیسا کہ کتب تاریخ و مناقب سے ثابت ہے کہ امام مالک سے عمر میں بڑے تھے، امام صاحب نے متعدد صحابہ کو دیکھا، مگر امام مالک کو باوجود مدینہ طیبہ میں ولادت و سکونت کے یہ شرف حاصل نہیں، جب امام صاحب مدینہ طیبہ حاضر ہوتے تھے، امام مالک ان سے علمی مذاکرات کرتے تھے، متعدد دفعہ پوری پوری رات اسی میں گذر جاتی تھی، اور امام مالک ان کے علم و فضل کے بے حد معترف و مداح ہیں۔ امام مالک نے امام صاحب سے روایت بھی کی ہیں اور اسی لئے علامہ ابن حجر مکی وغیرہ نے ان کوامام صاحب کے تلامذہ میں شمار کیا ہے اوراس میں تو شک نہیں کہ غیرمعمولی استفادہ کیا ہے۔
امام شافعی امام محمد کے شاگرد تھے اورامام صاحب کے بارے میں فرماتے تھے کہ یہ سب لوگ فقہ میں امام صاحب کے خوشہ چیں ہیں، امام احمد، امام ابویوسف کے شاگرد اور امام محمد سے مستفید ہیں۔
پھر امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی وغیرہ سب امام صاحب کے شاگردوں کے شاگرد ہیں، امام بخاری نے بہت بڑا علم اسحق بن راہویہ سے حاصل کیا ہے، جو عبداللہ بن مبارک کے خاص تلمیذ ہیں اور عبداللہ بن مبارک امام صاحب کے خاص تلمیذ ہیں۔
امام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو بہت زیادہ حقیر و بے بضاعت بجز ابن مدینی کے اور کسی کے سامنے نہیں پایا، مگر یہ ابن مدینی مع امام احمد اور یحییٰ بن معین تینوں یحییٰ بن سعید القطان کے شاگرد ہیں، اور اس شان سے کہ وہ عصر سے مغرب تک پڑھایا کرتے تھے، مسجد کے ایک ستون سے کمر لگاکر بیٹھ جایا کرتے تھے، یہ تینوں سامنے دست بستہ کھڑے ہوکر ان کا درس سنتے اوراحادیث و مسائل کے اشکالات حل کرتے تھے۔
مورخین نے لکھا کہ یحییٰ القطان کے علم و فضل کا رعب وجلال اس قدر تھا کہ نہ وہ خود ان تینوں کو بیٹھنے کے لئے فرماتے تھے اور نہ یہ خود بیٹھتے تھے۔
پھر دیکھئے یحییٰ القطان کو علامہ کردری نے امام صاحب کے اصحاب میں اور امام صاحب کے مذہب کے اہل شوریٰ میں ذکر کیا ہے،امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور استفادہ کرتے تھے اورامام صاحب ہی کے مذہب پر فتویٰ دیا کرتے تھے۔ تاریخِ رجال کے سب سے پہلے مصنف ہیں، امام صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
”خدا گواہ ہے کہ ہم جھوٹ نہیں بول سکتے، ہم نے امام ابوحنیفہ سے زیادہ کسی کو صائب الرائے نہیں پایا، اور ہم نے اکثر اقوال ان کے اختیار کئے ہیں۔“
حافظ حدیث مکی بن ابراہیم بلخ کے امام الحدثین اورامام بخاری کے استاذ ہیں، اور بخاری شریف میں ان کی روایات سے امام بخاری نے بہت سی روایات لی ہیں، حتیٰ کہ بخاری شریف میں سب سے اعلیٰ درجہ کی ۲۲ احادیث جو ثلاثیات ہیں، ان میں سے بیس حدیثوں کے راوی حنفی ہیں، اور گیارہ تو صرف مکی بن ابراہیم کی ہیں، گویا بخاری شریف کی اس بہت بڑی فضیلت کا باعث اکثر حنفی رواة ہیں۔
یہ بھی امام صاحب کے ان شاگردوں میں سے ہیں جو امام صاحب کی خدمت میں رہ پڑے تھے اور رات دن استفادہ کرتے تھے، وہ فرمایا کرتے تھے کہ امام ابوحنیفہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم تھے اور عالم کی اصطلاح محدثین کے یہاں یہ ہے کہ اس کو احادیث کے متون و اسناد دونوں پوری طرح یاد ہوں۔
مناقب کردری میں اسماعیل بن بشر سے نقل کیاہے کہ ایک دفعہ ہم امام مکی کی مجلس میں حدیث کا درس لے رہے تھے، امام نے فرمانا شروع کیا، یہ حدیث روایت کی ہم سے امام ابوحنیفہ نے،اتنا ہی کہا تھا کہ ایک مسافر اجنبی شخص چیخ پڑا کہ ہم سے ابن جریج(۱) کی حدیث بیان کرو، ابوحنیفہ سے روایت مت کرو۔
محدث مکی نے جواب دیا کہ ”ہم بیوقوفوں کو حدیث سنانا نہیں چاہتے، میں ہدایت کرتا ہوں کہ تم میری حدیث مت سنو اور میری مجلس سے نکل جاؤ۔“
چنانچہ جب تک وہ شخص اٹھ کر نہیں چلاگیا۔ شیخ نے حدیث کی روایت نہیں کی،اس کے جانے کے بعد پھر امام ابوحنیفہ سے ہی روایت بیان کی۔
یہاں یہ بات بھی ذکر کردینی مناسب ہے کہ امام بخاری اور دوسرے بعد کے محدثین کے یہاں ثلاثیات بہت کم ہیں اوراس سے اندازہ کرلیجئے کہ امام بخاری کی ساری بخاری میں ۲۰-۲۲ سے زیادہ نہیں اور امام صاحب چونکہ متقدم اور تابعین سے ہیں ان کی اکثر روایات ثلاثی ہیں بلکہ ثنائیات بھی ہیں، اسی لئے علامہ شعرانی شافعی نے لکھا ہے کہ ”میں نے امام ابوحنیفہ کی مسانید ثلاثہ کے صحیح نسخوں کا مطالعہ کیا، جن پر حفاظِ حدیث کی تصدیق تھی، میں نے دیکھا کہ ہر حدیث بہترین عدول و ثقات تابعین سے مروی ہے مثلاً اسود، علقمہ، عطا، عکرمہ، مجاہد، مکحول، حسن بصری وغیرہ سے، پس امام صاحب اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تمام راوی عادل، ثقہ عالم اور بہترین بزرگ جن میں کوئی کذاب یا متہم بالکذب نہیں۔
اور اسی لئے ائمہ حدیث اور علماء نے فیصلہ کیا ہے کہ ائمہ متبوعین مجتہدین نے جن احادیث سے فقہ مرتب کی ہے وہ بعد کی احادیث سے زیادہ اوثق و معتمد تھیں۔کیونکہ اول تو وہ حضرات ان سب محدثین،متاخرین کے اساتذہ تھے، پھر عہدِ رسالت و صحابہ سے زیادہ قریب تھے، جھوٹ کا شیوع بھی خیرالقرون میں نہیں تھا، اس لئے جوکچھ ضعف رواة کی وجہ سے پیدا ہوا وہ بعد کی پیداوار ہے۔
اسی پر حضرت شاہ صاحب قدس سرہ تعجب کا اظہار فرمارہے ہیں، اگر امام بخاری کو امام صاحب کے عقائد کے بارے میں کچھ تشفی نہیں تھی تو یہ کیابات ہے کہ امام صاحب نے جن حضرات سے علم حاصل کیا جنھوں نے ان کو خود جانشین کیاتھا، مثلاً حماد نے اور پھر حماد کے بعد سب ہی نے متفقہ طور سے امام صاحب ہی کو ان کی مسند کا مستحق قرار دیا ہے، ان سے تو امام بخاری روایت کرتے ہیں اور امام صاحب سے نہیں کرتے، امام صاحب کے عقائد وہی تھے جو ان کے استاد حماد، علقمہ، ابراہیم نخعی وغیرہ کے تھے، مگر امام بخاری نے اپنی کتاب الضعفاء میں امام صاحب کو مرجئی کہہ دیا ہے، اور باقی سب اساتذہ و تلامذہ امام صاحب کے جن سے وہ روایت کرتے ہیں، ان کے نزدیک وہ اچھے تھے۔
کہا جاتاہے کہ امام بخاری کو جو رنجش امام صاحب کے متبعین سے پہنچی تھی، اس کی وجہ سے امام صاحب پر مرجیہٴ میں سے ہونے کی تہمت لگادی، مگر ہم امام بخاری کی جلالتِ قدر سے اس کی توقع بھی نہیں کرتے اور اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کو کسی غلط فہمی کی بنا پر ایسا خیال ہوا۔
یہ بھی خیال رہے کہ اس قسم کی سختی امام بخاری کے مزاج میں اپنے بعض شیوخ حمیدی وغیرہ کی صحبت میں رہ کر پیداہوئی۔ کیونکہ شیخ حمیدی کے بارے میں منقول ہے کہ وہ فقہائے عراق کے بارے میں شدت و عصبیت سے کام لیتے تھے، پھر یوں بھی مزاج میں بہت سختی تھی، اگر کوئی شخص ان کی مرضی کے خلاف بات کہہ دیتا تو سخت کلامی پراُتر آتے تھے،اس کو بے آبرو کردیتے تھے اور غصہ کے وقت اپنے اوپر قابو نہ رکھتے تھے۔
طبقاتِ سبکی میں ہے کہ ایک دفعہ امام شافعی کی مجلس میں ابن عبدالحکم اور بویطی کا جھگڑا ہوا۔ امام شافعی نے بویطی کی حمایت کی، ابن عبدالحکم نے کہا کہ آپ نے جھوٹ کہا، اس پرحمیدی بولے ”کہ تم بھی جھوٹے اور تمہارے باپ اورماں بھی۔“
امام احمد نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حمیدی، بشر بن السری سے ناراض ہوگئے اور کہا کہ ”جہمی“ ہے، اس سے حدیث لینا جائز نہیں“ بشر نے حلف اٹھاکر حمیدی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ وہ جہمی عقیدہ نہیں رکھتے تب بھی ان سے صاف نہ ہوئے اور وہی بات کہتے رہے۔
یحییٰ بن معین کا بیان ہے کہ میں نے خود بشر کو دیکھا کہ بیت اللہ کا استقبال کئے ہوئے ان لوگوں کے لئے بددعا کیاکرتے تھے جنھوں نے ان کو جہمی کہہ کر بدنام کیاتھا اور کہتے تھے کہ خدا کی پناہ اس سے کہ میں جہمی ہوں۔
چنانچہ دوسرے ائمہ نے حمیدی کے خلاف بشر کی توثیق کی ہے اور احادیث بھی ان سے روایت کی ہیں، امام بخاری نے فقہ شیخ حمیدی سے پڑھی ہے جو امام صاحب کی جلالتِ قدرسے ناواقف تھے یاجان بوجھ کر امام صاحب کی تنقیص کیاکرتے تھے۔
علامہ قسطلانی اور حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ امام بخاری فرمایاکرتے تھے کہ میں نے بخاری میں کسی ایسے شخص سے روایت نہیں لی جس کا عقیدہ یہ نہیں تھا کہ ”ایمان قول و عمل دونوں کا نام ہے“
حالانکہ اس کی وجہ سے بخاری میں روایات نہ لینا بڑا ہی کمزور پہلو تھا جیسا کہ حضرت شاہ صاحب نے ملفوظات بالا میں بھی فرمایا کہ امام بخاری بھی اس کو احادیث صحیحہ قویہ کے پیش نظر قائم نہ رکھ سکے،اگرچہ کتاب الایمان میں ان کو نہ لائے اور دوسری جگہ ان کولانا پڑا۔
پھر یہ کہ اعمال کو عقائد کا درجہ دینا یا ان کو جزو ایمان بتانا یوں بھی کسی طرح درست نہیں ہوسکتا، احناف سے قطع نظر شوافع اور دوسرے محققین ائمہ و سلف کا بھی یہ مسلک نہیں۔
امام رازی شافعی نے کتاب ”مناقب الشافعی“ میں لکھا ہے کہ امام شافعی پر بھی ایمان کے بارے میں متناقض باتوں کے قائل ہونے کا اعتراض ہوا ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ ایمان کو تصدیق و عمل کا مجموعہ کہتے ہیں اور دوسری طرف اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ترک عمل سے کوئی شخص کافر نہیں ہوتا، حالاں کہ مرکب چیز کا ایک جزو نہ رہا تو وہ مرکب بھی من حیث المرکب باقی نہ رہا، اسی لئے معتزلہ جس عمل کوجزو ایمان کہتے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عمل نہ ہو تو ایمان بھی نہیں، پھر امام شافعی کی طرف سے جواب دیاگیا کہ اصل ایمان تواعتقاد و اقرار ہی ہے، باقی اعمال وہ ایمان کے توابع و ثمرات ہیں، لیکن امام رازی اس جواب سے مطمئن نہ ہوئے اور کہا کہ اس جواب سے تو امام شافعی کا نظریہ باقی نہیں رہ سکتا۔
امام الحرمین جوینی شافعی نے اپنی عقائد و کلام کی مشہور تصنیف ”کتاب الارشاد الی قواطع الادلة فی اصول الاعتقاد“ کے صفحہ ۳۹۶ سے ۳۹۸ تک ایمان کی تحقیق کی ہے اور دوسرے نظریات کے ساتھ اصحابِ حدیث کا نظریہ۔ ایمان مجموعہ معرفت قلب، اقرار لسان اور عمل بالارکان بتلاکر اس کی غلطی بتلائی ہے اور مذہب اہل حق یہی بتلایا ہے کہ حقیقة الایمان تو صرف تصدیق قلبی ہی ہے، لیکن تصدیق چونکہ کلام نفسی ہے، اس لئے جب تک اس کا اظہار لسان سے نہ ہو اس کا علم نہیں ہوسکتا اس لئے وہ بھی ضروری ہوا، لیکن اعمال و عبادات کو جزء الایمان کسی طرح قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پھر دوسروں کے دلائل کے جوابات دئیے ہیں۔
اور یہی امام صاحب اور دوسرے ائمہ احناف کابھی مسلک ہے، جیسا کہ تمام کتب عقائد وکلام میں مشرح ہے اس بحث کے متعلق امام اعظم کی ایک تحریر موجود ہے جوعثمان بتی کے خط کا جواب ہے اس سے امام صاحب کی دقت نظر اور ان کے مدارجِ اجتہاد کی برتری معلوم کی جاسکتی ہے، ہم نے اس قسم کے ابحاث ․․․․ ”انوارالباری“ کے مقدمہ میں نقل کردئیے ہیں۔
امام اعظم نے فقہ اکبر میں مرجیہٴ فرقہ کی تردید کی ہے تمام علماء نے لکھا ہے کہ حنفیہ مرجیہٴ کوناری کہتے ہیں، ان کے پیچھے نماز جائز نہیں سمجھتے۔
لیکن امام بخاری اپنے شیخ حمیدی کی طرح ان کو مرجیہٴ میں سے ہی کہے جارہے ہیں،امام یحییٰ بن معین (امام بخاری کے استاد) سے امام صاحب کے بارے میں دریافت کیاگیا تو فرمایا کہ:
ثقہ ہیں۔ میں نے کسی ایک شخص کو بھی انھیں ضعیف کہتے نہیں سنا (الخیرات الحسان) غرض جس طرح کہ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ امام احمد کے ابتلاء سے قبل ائمہ حنفیہ پرکوئی جرح نہیں تھی، دوسری صدی کے آخر تک جتنے بھی بڑے بڑے حضرات تھے، سب ہی امام صاحب کی مدح و توصیف کرتے ہیں، پھر قرون مشہود لہا بالخیر کے گذر جانے پر کذب و افتراء اور غلط و جھوٹے پروپیگنڈے کے دور کا آغاز ہوا تو ایسے لوگ نکل آئے جو ائمہ متبوعین پر بھی افتراء کرکے ان کو مجروح کرنے کی سعی کرتے رہے اوراس سے ہمارے اکابر محدثین امام بخاری وغیرہ بھی متاثر ہوگئے۔
خود حافظ ابن حجر نے باوجود تعصب حنفیت و شافعیت کے مقدمہ فتح الباری میں امام صاحب کی توثیق کی ہے اوراسی طرح کتب رجال میں بھی،اگرچہ اصحاب امام کے حالات میں اس اعتدال کو باقی نہیں رکھا، جس کی تفصیل مقدمہ انوار الباری میں پیش ہوچکی ہے۔
کتبِ اصول حدیث۔ کتاب المغنی شیخ محمد طاہر صاحب مجمع البحار۔ الکفایہ فی علم الروایہ، خطیب شافعی التقریب نووی شافعی، مقدمہ ابن صلاح شافعی اور طبقات الشافعیہ، علامہ سبکی شافعی میں جو اصولِ جرح و تعدیل بیان ہوئے ہیں، ان کو ہر وقت دیکھا جاسکتا ہے۔
انکی رو سے امام صاحب پر جرح صحیح نہیں اور صاحب مجمع البحار نے تو پوری صراحت کے ساتھ امام صاحب کی طرف منسوب شدہ اقوال کی تردید کی ہے اور عقل و نقل سے ان کا غلط ہونا ثابت کیا ہے،اسی طرح کتب رجال و مناقب میں امام ذہبی شافعی، امام نووی شافعی، حافظ صفی الدین خزرجی، امام یافعی شافعی، فقیہ ابن العماد حنبلی، حافظ ابن عبدالبر مالکی، شیخ ابن حجر مکی شافعی، امام سیوطی شافعی وغیرہ نے بھی امام صاحب کے صرف مناقب لکھے ہیں کوئی جرح نقل نہیں کی جس سے معلوم ہوتاہے کہ بروئے اصولِ روایت امام صاحب ہرطرح ثقہ ہیں، ان کے بارے میں کوئی جرح لائق اعتبار نہیں۔
اس قسم کی اہم نقول بھی ہم ”انوار الباری“ کے مقدمہ میں شائع کرچکے ہیں۔ اس کے بعد عقلی طور سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ جرح کا بڑا سبب امام صاحب کے کمالات کی وجہ سے حسد تھا جس کا کچھ علاج نہیں تھا یا جہل تھا کہ امام صاحب کے صحیح نظریات سے واقفیت نہ ہوئی جیسا کہ امام اوزاعی (شام کے محدثِ اعظم) کو غلط فہمی ہوئی۔ اور جب حضرت عبداللہ بن مبارک (شاگرد امام صاحب) کے ذریعہ صحیح حالات کا علم ہوا تو وہ نادم ہوئے،اور معذرت کی۔
اورایک وجہ یہ بھی تھی کہ امام صاحب کے مدارکِ اجتہاد معاصرین کی فہم سے بالاتر تھے، لہٰذا فہم کی نارسائی اختلاف کا سبب بن گئی، پھراختلاف نے جرح کا رنگ لے لیا۔ واضح ہوکہ امام صاحب کی غیرمعمولی دقت نظر وبلندی فکر اور آپ کے مدارک اجتہاد کی برتری و تقوی کا اعتراف اس زمانہ کے اجلہ معاصرین و محدثین امام اعمش، شعبہ، ابوسلیمان،ابن مبارک، خارجہ بن مصعب وغیرہ نے کیا ہے۔ اس کی تفصیل بھی ہم ”انوارالباری “ شرح بخاری میں کریں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
حسن بن صالح کا قول ہے کہ امام ابوحنیفہ ناسخ و منسوخ احادیث کا سختی سے تفحص کرنے والے تھے اوراس میں وہ لائق اتباع و پیروی تھے، اس لئے جس بات تک اہل کوفہ نہیں پہنچ سکتے تھے، امام صاحب اسے معلوم کرلیتے تھے۔
علی بن عاصم کا قول ہے کہ آدھی دنیا کی عقل ترازو کے ایک پلہ میں اور امام ابوحنیفہ کی عقل دوسرے پلہ میں رکھی جاتی تو امام صاحب کا پلہ بھاری ہوتا۔
خارجہ بن مصعب کا قول ہے کہ میں کم و بیش ایک ہزار عالموں سے ملا ہوں ان میں صاحبِ عقل صرف تین چار دیکھے، ایک ان میں امام ابوحنیفہ تھے۔
محمدانصاری کا قول ہے کہ امام ابوحنیفہ کی ایک ایک حرکت یہاں تک کہ بات چیت اُٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں بھی دانشمندی کا اثر پایا جاتا ہے۔
درحقیقت امامِ عالی مقام کی انتہائی دانش مندی یہی تھی کہ اپنے سیکڑوں فضلائے نامدار شاگردوں سے چالیس اجلہ فقہاء و محدثین کی ایک مجلس بناکر تیس سال مسلسل لگے رہ کر ایک ایسی فقہ مرتب کرگئے جو دوسری تمام فقہوں پر ہزار بار فائق ہے، جس کا ہرہر مسئلہ قرآن مجید، احادیث،آثار اوراجماع و قیاس صحیح پر مبنی ہے اوراس کی مقبولیت عند اللہ وعند الناس کاثبوت اس سے زیادہ کیا کہ ہر دور میں نصف یا دو ثلث امت محمدیہ اس کا متبع رہا۔
امام صاحب نے اپنے زمانہ میں سیاسی و علمی فتنوں کی روک تھام بھی صرف اپنی عقل خداداد سے کی جو اس زمانہ میں انتہائی دشوار مرحلہ تھا۔
دیکھئے خلق قرآن کا مسئلہ کس قدر نازک تھا،اورامام صاحب کی کمالِ فراست کہ اپنے ہزارہا تلامذہ پر ایسا کنٹرول کیا کہ کسی نے بھی ایسی بات نہ کہی جس سے فتنہ ہو۔
علامہ ابن عبدالبرمالکی نے اپنی کتاب ”الانتقاء فی فضائل الثلاثة الائمہ الفقہاء“ میں ص۱۶۵ و ۱۶۶ پر امام ابویوسف سے واقعہ نقل کیا ہے کہ امام صاحب مکہ معظمہ میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص جمعہ کے روز کوفہ کی مسجد میں ہمارے پاس آیا اور سب حلقوں میں چکر لگاکر قرآن مجید کے بارے میں سوال کرنے لگا اور ان لوگوں نے مختلف جوابات دئیے ، میں سمجھتا ہوں کہ انسان کی صورت میں مجسم شیطان تھا، وہ پھر ہمارے حلقہ میں بھی آیا اور سوالات کئے، ہم سب نے جواب دیا کہ ہمارے شیخ و استاد موجود نہیں ہیں اورہم بغیر ان کے ان سے پہلے کوئی جواب دینا پسند نہیں کرتے۔
پھر جب امام صاحب واپس ہوئے تو ہم نے قادسیہ جاکر ان کا استقبال کیا۔ امام صاحب نے شہر کوفہ اور لوگوں کے حالات پوچھے، ہم نے بتائے، پھر دوسرے وقت اطمینان و سکون سے ہم نے عرض کیا کہ ہم سے ایک مسئلہ پوچھا گیا تھا،آپ کی کیا رائے ہے؟ ابھی وہ مسئلہ ہم نے ان سے بیان بھی نہیں کیا تھا اور دل ہی میں تھا کہ امام صاحب کے چہرئہ مبارک پر ناخوشی کے آثار دیکھے۔
آپ سمجھ گئے کہ کوئی خاص مسئلہ موجب فتنہ سامنے آیا ہے اور خیال کیا کہ ہم اس کا جواب دے چکے ہیں، یہی خیال برہمی کا سبب بنا۔ فرمایا: وہ مسئلہ کیاہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اس طرح ہے،اس کو سن کر امام صاحب کچھ دیر کے لئے خاموش ہوئے۔ پھر فرمایا: تم نے کیاجواب دیا؟ عرض کیا: ہم نے کچھ جواب نہیں دیا اور ہم اس سے ڈرتے تھے۔کوئی جواب دیدیں جو آپ کو پسند نہ ہو۔
اتنا سن کر امام صاحب پرمسرت و بشاشت کے آثار ظاہر ہوئے اور فرمایا خدا تمہیں جزائے خیر دے۔ میری وصیت یاد رکھو، اس بارے میں ہرگز کوئی بات نہ کہنا، اور نہ دوسروں سے اس کے بارے میں سوال و جواب کرنا، بس اتنی ہی بات کافی ہے کہ وہ خدا کا کلام ہے اس پر ایک حرف بھی نہ بڑھانا میرا خیال ہے کہ اس مسئلہ کی وجہ سے اہل اسلام سخت فتنہ میں پڑیں گے کہ ان کے لئے نہ جاءِ رفتن نہ پائے ماندن کی صورت ہوجائے گی۔
خدا ہمیں اور تمہیں شیطان رجیم کے مکائد سے محفوظ رکھے۔
امام صاحب کے اس قسم کی پیش بینی، دور بینی اور دینی و دنیاوی معاملات میں غیرمعمولی احتیاط کے واقعات بہت ہیں، ایک دفعہ امام صاحب کی وفات کے بعد امام ابویوسف کے سامنے خلیفہ ہارون رشید نے بھی اعتراف کیا کہ امام صاحب پر اللہ رحمت کرے، وہ عقل کی آنکھوں سے وہ کچھ دیکھتے تھے جو ظاہر آنکھوں سے ہم کو نظر نہیں آتا۔
خلق قرآن کے مسئلہ سے جو فتنہ عظیم آئندہ رونما ہونے والا تھا اس کو بھی امام صاحب نے مدت پہلے دیکھ لیاتھا۔ اور خود کو اور نیز اپنے سب اصحاب کو اس فتنہ سے بچالے گئے،اگرچہ معاندین نے پھر بھی بدنام کرنا چاہا کہ امام صاحب خلق قرآن کے قائل تھے مگر امام احمد وغیرہ نے ہی اس کی صفائی بھی امام صاحب اوران کے اصحاب کی طرف سے کردی ہے۔ اس سلسلہ میں معاندین و حاسدین نے امام صاحب پر جو الزامات و اتہامات گھڑے ہیں اور جھوٹی سندیں تک بنائی ہیں، ان کی شیخ کوثری نے ”تانیب الخطیب“ اور ”حاشیہ الاختلاف فی اللفظ“ میں پوری طرح قلعی کھول دی ہے جو قابل دید ہے، ہم ان سے بھی ضروری نقول مقدمہٴ شرح بخاری اردو میں پیش کریں گے۔
مگر یہی مسئلہ امام احمد کے سامنے آیا،اور اس وقت چونکہ حکومت نے بزور ایک غلط چیز کو منوانا چاہا، اس کو امام احمد کیسے برداشت کرسکتے تھے۔ پھریہی مسئلہ امام بخاری کے سامنے آیا، اورامام بخاری کے سامنے اس مسئلہ کی ساری نزاکتیں امام احمد کے ابتلاء کی وجہ سے پیش آچکی تھیں۔ جب وہ ۲۵۰ھ میں نیشاپور پہنچے ہیں تو شہر سے باہر جاکر امام ذہلی نے بڑی کثیر تعداد علماء، صلحاء و عوام کے ساتھ ان کا استقبال کیا اور امام بخاری کو دارالبخاریین میں ٹھیرایا، امام ذہلی نے اسی وقت لوگوں سے کہا کہ مسائل کلام میں سے کوئی مسئلہ ان سے نہ پوچھنا۔
اس پر اگر لوگ احتیاط نہ کرتے تو خود امام بخاری کو محتاط رہنا چاہئے تھا، مگر منقول ہے کہ دوسرے یا تیسرے ہی روز ایک شخص نے لفظ ”بالقرآن“ کے بارے میں سوال کیا امام بخاری نے جواب دیا:
”ہمارے افعال مخلوق ہیں اور ہمارے الفاظ ہمارے افعال سے ہیں۔“
فوراً اسی جگہ لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں،بعضوں نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں کہا، یہاں تک کہ لوگوں میں اس سے کافی جدال و نزاع پھیل گیا اور گھر کے مالکوں نے آکر لوگوں کو نکالا۔ تاہم یہ قضیہ بڑھتا رہا اور امام ذہلی نے اعلان کردیا کہ: ”قرآن خدا کا کلام غیر مخلوق ہے اورجو شخص کہے کہ میرا لفظ بالقرآن مخلوق ہے، وہ مبتدع ہے، اس کے پاس بیٹھنا اوراس سے بات کرنا درست نہیں،اور جو شخص اس کے بعد امام بخاری کے پاس جائے اس کو بھی متہم سمجھا جائے گا کیونکہ وہی شخص وہاں جائے گا جو ان کے عقیدہ کا ہوگا۔“
چنانچہ سوائے ایک دو آدمیوں کے سب نے امام بخاری کے پاس جانا چھوڑ دیا اور وہ تنگ ہوکر نیشاپور سے چلے گئے اور خرتنگ جاکر مقیم ہوئے اور وہیں ۲۵۶ھ میں وفات پائی۔ زیادہ تحقیقی بات یہ ہے کہ امام بخاری کو پہلی بار بخارا سے مسئلہ حرمت رضاع بلبن شاة کی وجہ سے نکلنا پڑا، دوسری بار مسئلہ خلق قرآن کی وجہ سے بخارا سے نکلے، تیسری بار نیشاپور سے امام ذہلی کی وجہ سے مسئلہ مذکور میں اور چوتھی بار امیر بخارا کی وجہ سے نکلنا پڑاجس کا قصہ مشہور ہے۔ واللہ اعلم
حاشیہ
(۱) واضح ہو کہ یہ محدث ”ابن جریج“ امام صاحب کے بڑے مداح اور معترفِ علم و فضل تھے، ان کو جب امام صاحب کی خبر وفات پہنچی تو نہایت غمگین ہوئے اور فرمایا کہ: ”کیسا بڑا علم جاتا رہا۔“
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد: 89 ، ذیقعدہ 1426ہجری مطابق دسمبر 2005ء