محمد سلمان بجنوری

            ۱۷/تا ۱۹/دسمبر ۲۰۲۱/ ہری دوار میں ہونے والے دھرم سنسد میں کچھ ہندو مذہبی رہنماؤں نے جس زبان میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ ہر ہندوستانی کوتشویش میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہے، انھوں نے مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کرتے ہوئے ہندوؤں سے کروڑوں جانوں کی قربانی کے لیے تیار رہنے کو کہا اور طرح طرح سے اپنے ذہن میں پلنے والے فاسد خیالات کا اظہار کیا۔ ان لوگوں میں وہ بدقسمت شخص بھی شامل تھا جو کچھ وقت پہلے تک ضابطہ میں مسلمان شمار ہوتا تھا اور اب اس نے باضابطہ مذہب تبدیل کرکے ہندو نام اختیار کرلیا ہے۔

            ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس قسم کے اشتعال انگیز پروگرام کو درمیان میں ہی روک دیا جاتا اوراشتعال انگیزی کرنے والوں کو فوری طور پر گرفتار کرلیا جاتا؛ لیکن اس معاملہ میں پولیس اور حکومت نے جس غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا وہ بجائے خود ایک تشویش انگیز معاملہ ہے جس سے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد اُن میں سے دو تین لوگوں کو گرفتار کیاگیا؛ مگر اُن کو ضمانت دینے میں جس عجلت سے کام لیاگیا ہے، وہ ایسے شرپسندوں کے تئیں حکومت وانتظامیہ کے ہمدردانہ رویہ کو اُجاگر کرتا ہے۔

            اس پورے واقعہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس ملک میں فرقہ پرست ذہن کس حد تک طاقت ور ہوچکا ہے اور نفرت و اشتعال انگیزی کا سلسلہ کہاں تک پہنچ چکا ہے۔ باخبر لوگ جانتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ خصوصاً سوشل میڈیا کو جس تیزی اور چابک دستی سے، مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے، گزشتہ کئی سالوں سے استعمال کیا جارہا ہے، یہ واقعہ اور اس جیسے اور واقعات، اُسی کا شاخسانہ ہیں۔ اب آئین وقانون کا احترام اس ذہن کے لوگوں میں باقی نہیں رہا ہے اور وہ بے جھجک آئین اور ملک کے اتحاد کی علامتوں کا مذاق اڑارہے ہیں۔

            ان حالات میں سب سے پہلی اپیل تو ہمیں حکومت سے ہی کرنا ہوگی کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے سمجھے اور اس ذہنیت پر قدغن لگائے جو ملکی سالمیت واتحاد ہی کے لیے خطرہ ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے تمام شہریوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ کرے اوراُن کی جان ومال، عزت وآبرو کے لیے خطرہ بننے والے عناصر پر سخت کارروائی کرے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ کچھ لوگوں کے ساتھ صرف اس لیے ہمدردانہ رویہ رکھنا کہ وہ اکثریت سے تعلق رکھتے ہیں، ملک کے ساتھ وفاداری نہیں ہے اوراس طرز عمل کا نقصان کسی اقلیت یا کسی خاص قوم کو نہیں پورے ملک کو پہنچتا ہے اور عالمی سطح پر بھی ملک کی بدنامی کا سبب بنتا ہے۔

            اسی کے ساتھ ہم اہل ایمان کو اس ملک میں باعزت رہنے کے لیے اپنے حالات کو سدھارنا ہوگا اور خاص طور سے ایمان پراستقامت اور مذہب اسلام کے تمام احکام کی حقانیت پر پختہ یقین کا سبق پڑھنا اور اپنی نسلوں کو پڑھانا ہوگا؛ اس لیے کہ جب کسی ملک یا علاقہ میں مسلمانوں کے لیے اس قسم کے حالات پیدا کیے جاتے ہیں تو وہاں اصل نشانہ جان نہیں ایمان ہوتا ہے، پھر ایمان کو متزلزل کرنے کے مقصد سے جان ومال کے لیے بھی خطرات کھڑے کیے جاتے ہیں، ایسے حالات میں سب سے بڑا فریضہ ایمان کی حفاظت کا ہوتا ہے۔

            یہ بات کسی مسلمان کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہماری سب سے قیمتی متاع ہمارا ایمان ہے اور ایمان کے بدلے ہمیں ساری دنیا کی دولت بھی منظور نہیں ہوسکتی۔ ہر حال میں ایمان کی حفاظت کی کوشش کرنا ہی دنیا وآخرت میں سرخ روئی کا ذریعہ ہے۔

            اسی کے ساتھ اس بات کا دھیان رکھنا بھی ضروری ہے کہ ان حالات سے ہمیں خوف یا مایوسی کا شکار بھی نہیں ہونا ہے؛ اس لیے کہ ہمارا مسلمان ہونا یا اپنے ایمان پر قائم رہنا کوئی جرم نہیں ہے؛ بلکہ ہمارا حق ہے اور سب سے بڑا حق ہے اوریہ حق ہر مذہب کے لوگوں کو حاصل ہے اور ملک کے تمام باشندوں کو یہ حق دلانے اور اسے محفوظ بنانے میں خود ہمارا بہت بڑا کردار ہے؛ اس لیے کہ ہم نے اس ملک کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں اور یہاں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرکے اس سرزمین کو چار چاند لگائے ہیں، آزادی سے پہلے بھی اور آزادی کے بعد بھی ہمارا کردار بالکل صاف ہے؛ اس لیے خوف زدہ نہ ہوں، مایوس نہ ہوں اور اپنے مستقبل کے لیے صحیح رُخ طے کرکے ہمت سے کام لینے کی کوشش کریں، ملت کے تمام طبقات خواہ قائدین ہوں یا عام مسلمان، اپنے اور اپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کو اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھ کر کام کریں ان شاء اللہ یہ تاریکیاں دور ہوں گی اور مستقبل روشن ہوگا۔

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2،  جلد: 106 ‏، جمادی الثانی۔رجب المرجب 1443ھ مطابق جنوری۔فروری 2022ء

#         #         #

Related Posts