تہذیبی مذاکرات کی اسلامی تاریخ

از: ذکی المیلاد

تقریباً پندرہ صدیوں پر محیط اپنے تاریخی ارتقاء کے مختلف مراحل میں اسلامی تہذیب نے مسلمانوں اور دیگر ادیان و مذاہب اور غیر اسلامی تہذیبوں کے پیروکاروں کے مابین مذاکرات کے بہت سے نمونے پیش کیے ہیں۔ یہ غیرمسلم وہ بھی تھے جو دارالاسلام میں سکونت پذیر تھے اور وہ بھی جو اس سے باہر رہتے تھے۔ وہ بھی تھے جن کے اور مسلمانوں کے درمیان خوش گوار اور خیرسگالی کے جذبات پر مبنی تعلقات پائے جاتے تھے، وہ بھی جن سے عداوت تھی یا جن کے ساتھ کشمکش جاری تھی۔ ان تمام حالات میں تہذیبی مذاکرات کی کئی شکلیں سامنے آئیں۔ جن میں نمایاں یہ تھیں:

۱- مسلم حکمرانوں اور دوسری قوموں کے حکمرانوں کے مابین مذاکرات جو دو طرفہ پیغامات کی ترسیل اور ایلچیوں کے باہم تبادلہ کے ذریعہ ہوا کرتے تھے۔

۲- علمی مجلسوں میں علماء کی سطح پر مذاکرات۔

۳- مختلف فلسفیانہ مکاتبِ فکر کے درمیان مذاکرات: یہ زیادہ تر بالواسطہ ہوتے تھے۔

۴- وہ مذاکرات جواسلامی ریاستوں میں رہنے والے یادوسری حکومتوں میں مختلف تہذیبوں کے لوگ روز مرہ کی زندگی میں کرتے تھے۔

اس طرح کی تہذیبی گفتگو کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کی پوزیشن، پیغام اور کردار کو بیان کیا ہے تاکہ اعتدال، توازن، رواداری، فکروعمل کی آزادی اور حق و صداقت کی طرفداری (جہاں سے بھی وہ سامنے آئے) میں وہ دوسری قوموں کے لیے نمونہ بن جائے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: ” اس طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر حق کی گواہی دو اور رسول تمہارے اوپر گواہ بنیں“ (البقرہ: ۳۴۱) اس معتدل اور درمیانی موقف کے باعث مسلمان دیگر اقوام سے مذاکرات کرتے رہے ہیں اور اس سلسلہ میں وہ کبھی انتہا پسندی، تعصب یا غلو کا شکار نہیں ہوئے کیونکہ ان چیزوں سے فریقین کے مابین مذاکرات کا عمل معطل ہوکر رہ جاتا ہے۔ جبکہ گفتگو کا مقصد دوسری تہذیبوں کے تجربوں سے استفادہ اور انسانی ترقی کے لیے ان کی نفع بخش چیزوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اللہ نے فرمایا! ”تم سے پہلے بھی قومیں گزرچکی ہیں زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا“ (قرآن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”حکمت مومن کا گم شدہ سرمایہ ہے جہاں بھی اسے پائے وہ اس کا زیادہ حق دار ہے“ (رواہ الترمذی) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو گذشتہ قوموں کے ان طریقوں کو جو اسلامی قدروں اور اصولوں سے نہ ٹکراتے ہوں اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے تم سے پہلوں کے طریقے بیان کرے اور ان کی طرف رہنمائی کرے اور وہ علیم وحکیم ہے“ (النساء: ۲۶) اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دیگر اقوام کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہوئے فرماتا ہے: ”جب تمہیں سلام کیاجائے تو اس سے بہتر جواب دو یا اسی کو لوٹادو۔ اللہ ہر چیز کا حساب لگاتا ہے“ (النساء:۸۶) اللہ لوگوں کو ان کی صلاحیت و فطرت کے مطابق عمل کی آزادی عطا کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے: ”ہر آدمی اپنے طریقے پر کام کررہا ہے، جو صحیح راستہ پر ہیں ان کو تمہارا رب خوب جانتا ہے“ (اسراء: ۸۴) اس بلند ربانی ہدایت کی روشنی میں اسلامی اور غیراسلامی تہذیبوں کے مابین ہمیشہ مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔

اسلامی تہذیب اور قدیم تہذیبوں کے درمیان مذاکرات:

دعوت اسلامی قدیم دنیا کے دور دراز گوشوں تک پہنچ چکی تھی یعنی مغرب میں اندلس اور مشرق میں چین کی سرحدوں تک۔ ان علاقوں میں قدیم تہذیبیں، مختلف مذاہب نیز زبان، قومیت اور کلچر کے اعتبار سے مختلف قومیں پائی جاتی رہی ہیں۔ ان میں سے بہت سی قومیں اسلام قبول کرکے اسلامی تہذیب و تمدن کا ایک جزء بن گئیں اور کچھ تہذیبیں اسلام سے پہلے کی حالت پر باقی رہیں۔ مگر مسلمانوں نے ان میں سے کسی بھی قوم کو اپنی تہذیب و زبان کو چھوڑنے اور حلقہ اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہیں کیا بلکہ انہیں اس بارے میں فیصلہ اور عمل کی پوری آزادی عطا کی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان تہذیبوں کے آثار و ورثہ کو پوری طرح برقرار رکھا، اس کو ختم کرنے، نقصان پہنچانے یا اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کے بجائے ان کو عبرت کے لیے محفوظ بھی رکھا اور اس تہذیبی ورثہ کی ہر بیش قیمت اور نفع بخش شے سے اپنے تہذیبی ارتقاء میں استفادہ بھی کیا۔

فارسی تہذیب:

اسلام سے پہلے عربوں اور ایرانیوں کے درمیان مختلف سطح پر تہذیبی روابط پائے جاتے تھے جو کبھی مضبوط ہوتے تو کبھی کمزور ہوجاتے۔ چونکہ عرب اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے آزادی پسند واقع ہوئے ہیں وہ کسی کے آگے جھکنا نہیں جانتے، وہ کسی بھی صورت میں ظلم و ذلت کو برداشت نہیں کرتے بلکہ انھیں اپنے آپ اور اپنی قوم پر ہمیشہ فخر رہا ہے لہٰذا وہ بسا اوقات اپنی آزادی، عزت نفس اور سرزمین کی حفاظت کے لیے اس ایرانی حکومت کے مدمقابل کھڑے ہوجاتے تھے جو ان پر جبراً اپنا اقتدار مسلط کرنے کی کوشش کرتی رہتی تھی۔ لیکن اسلام کے بعد یہ صورت حال مکمل طورپر تبدیل ہوگئی۔ ایرانیوں نے اس لیے اسلام قبول کرلیا کیونکہ اسلام نے انہیں آزادی و عزت دی اور ان کے ساتھ عدل و مساوات کا سلوک کیا جبکہ انھیں کے ہم نسل فرمانرواؤں کے دور حکومت میں ان پر طرح طرح کے مظالم کیے جاتے تھے، اس طرح ان کے اور عربوں کے درمیان بھائی چارے کے تعلقات قائم ہوئے۔

اسلامی اور ایرانی تہذیب کا یہ اختلاط مثبت مفاہمت کا ایسا نمونہ پیش کرتا ہے جس سے ہر فریق نے استفادہ کیا، ایک عرب اسکالر کے بقول ”اگرچہ ابن خلدون کی رائے میں مغلوب غالب کی پیروی کرتا ہے تاہم عربوں اور ایرانیوں کے درمیان جو اختلاط ہوا وہ دونوں قوموں کے مابین اقدار کا تبادلہ تھا۔ اس وقت کوئی تعصب کام نہیں کررہا تھا کیونکہ اسلام تمام انسانوں کا دین ہے۔ چنانچہ ایرانیوں نے کھلے دل سے اسلام قبول کیا، عربی زبان سیکھی، اس کے لغوی قواعد میں مہارت حاصل کی اور عربی ادب میں کمال پیدا کیا، قرآن کریم حفظ کیا، اس کے مفہوم و معنی پر عبور حاصل کیا اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔“

اسلام اور اس کی تہذیب کے طفیل ایرانیوں میں بڑے بڑے علماء، ادباء اور شعراء پیدا ہوئے۔ مثلاً ابوحنیفہ النعمان، سیبویہ، ابن المقفع، بشار بن برد وغیرہ۔ عربوں نے ایرانیوں کی بہت سی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا اور ان سے انتظامی معاملات اخذ کیے۔ مثلاً دیوان کا طریقہ جو خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب نے اخذ کیا۔ اسلامی حکومت کے اندر، بطور خاص خلافت عباسیہ کے دور میں، ایرانی وزارت، عدالت اور فوجی کمان جیسے بلند عہدوں و کلیدی مناصب پر فائز ہوئے اور مسلمانوں کی طرح وہ بھی بغیر کسی تفریق کے تمام حقوق سے فیض یاب ہوتے رہے۔

یہ تہذیبی اختلاط نہ صرف تہذیبوں کے درمیان مذاکرات کا ایک مثالی نمونہ پیش کرتا ہے بلکہ تہذیبوں کے تصادم پر مبنی نظریات کو عملاً اور واضح طور پر یکسر مسترد کردیتا ہے۔ اور باوجود اس کے کہ اسلام سے پہلے عربوں اورایرانیوں کے تعلقات پر دشمنی کے بادل منڈلاتے رہتے تھے اسلام کے بعد یہ تعلق بھائی چارہ کے گہرے رشتہ میں بدل گیا جس سے علم، فلسفہ، فکر اور فن و ادب کے میدانوں میں ارتقاء ہوا اور تہذیب و تمدن کو فروغ حاصل ہوا۔

قدیم یونانی تہذیب:

اس تہذیب کے سایہ میں بہت سے علوم و فنون، فلسفے اور ادبی شہ پارے پروان چڑھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یونانیوں نے مشرق و مغرب کی دوسری تہذیبوں کی طرح دیگر ملکوں پر سیاسی توسیع اور آمریت پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ بلکہ ان کی زیادہ سے زیادہ توجہ انسانی علوم اور کائناتی اشیاء و مظاہر میں غور وفکر پر مرکوز رہی۔ ان میں فیثاغورث آرشمیرس، سقراط، افلاطون، ارسطو اور بقراط جیسے عظیم فلاسفر و مفکرین پیدا ہوئے جنھوں نے ایسے زریں نظریات پیش کئے جو بہت سے جدید علوم کی بنیاد بنے۔ اسی طرح انھوں نے علمی تحقیق کے اصول بھی وضع کیے۔ حقائق کی کھوج کے سلسلہ میں مذاکرات کا تصور سب سے پہلے یونانی تہذیب میں ہی پروان چڑھا۔ یونان اور بحرابیض متوسط کے ملکوں، خاص طور پر، مصر، شام، عراق اور ایران کے ساتھ تہذیبی تعلقات ہمیشہ کثیر جہتی اور مضبوط و طاقتور رہے۔ ان تہذیبوں کے مابین مختلف سطح پر مذاکرات جاری رہے۔ یونان کے بہت سے فلسفیوں نے ان ملکوں کا محض اس غرض سے سفر کیا کہ ان کے علوم و فنون سے استفادہ کریں۔

جب اسلام آیا، ان ملکوں میں پھیلا اور اس کی تہذیب کو فروغ حاصل ہوا، تو اسی وقت سے مسلمانوں نے یونانی تہذیبی ورثہ کی ہر ممکن طریقہ سے حفاظت شروع کردی۔اس کے علمی و فکری سرچشمہ کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ بہت سی بیش قیمت کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ خلیفہ مامون عباسی نے دارالحکمت نام کا ادارہ ایک تحقیقی مرکز کے طور پر قائم کیا جس میں بہت سے علماء ومترجمین شب و روز کام کرتے تھے اور یونانی علوم میں بحث و تحقیق اور ترجمہ کی نگرانی کے امور ان کے سپرد تھے۔ یہ عمل بذات خود یونانی و اسلامی دونوں تہذیبوں کے درمیان تہذیبی روابط و مذاکرات کا ایک مظہر ہے۔ بہت سے مسلم فلاسفہ جیسے فارابی، ابن سینا، الکندی اور ابن رشد وغیرہ نے یونانی تہذیبی ورثہ کو پڑھا، اس کی حفاظت کی اوراس میں بیش قیمت اضافے کیے۔ مغرب (جدید) میں ان علوم کی منتقلی کا سہرا انھیں مسلم علماء، محققین و مترجمین کے سرجاتا ہے۔ بلاشبہ یہ علمی کارنامہ اسلامی اور یونانی تہذیبوں کے درمیان تہذیبی مذاکرات کا ہی ایک بہترین ثمرہ ہے۔ ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر مسلمان یہ کارنامہ انجام نہ دیتے تو یونانی تہذیب کے اس شاندار ورثہ کا کوئی گوشہ بھی ضائع ہوئے بغیر نہ رہتا اور یقینا یہ قیمتی تہذیبی سرمایہ پوری طرح تلف ہوجاتا۔

اسلامی تہذیب اور قرون وسطیٰ کی تہذیبوں کے درمیان مذاکرات:

قرون وسطیٰ کے اغاز میں رومن تہذیب اور ساتھ ہی مسیحیت بھی دو حصوں میں منقسم ہوگئی۔ پہلی تقسیم کا مرکز وہ مغرب تھا جس میں مغربی رومن شہنشاہیت کی فرمانروائی تھی۔ اس کا سیاسی اور روحانی صدر مقام روم تھا اور مذہب کیتھولک عیسائیت۔ اس کے جغرافیائی حدود وسطی اور مغربی یورپ میں اٹلی اور جزیرہ نمائے ایبیریا (اندلس) تک پھیلے ․․․․ جغرافیائی حدود مشرقی یورپ سے ترکی تک اور خطہ بلقان تک پھیلی ہوئی تھیں۔

قرون وسطی میں رومی تہذیب کی ان دونوں قسموں کے اور مشرق عربی اورمغرب عربی و اندلس پر غالب اسلامی تہذیب کے مابین تہذیبی روابط قائم ہوئے۔ دونوں کے درمیان مختلف سطح پر مذاکرات ہوئے جن کا دائرہ مذہب، کلچر، سیاست اور سماجی زندگی کے مختلف گوشوں پر محیط تھا۔

مشرق کی رومن تہذیب اور اسلامی تہذیب کے مابین مذاکرات:

باوجود اس کے کہ اسلامی حکومت اور مشرق کی بازنطینی شہنشاہیت کے مابین طویل عرصہ تک کشمکش جاری رہی اور دونوں کے درمیان متعدد جنگیں ہوئی تاہم ان کے درمیان تہذیبی رابطہ کبھی نہیں ٹوٹا۔ بلکہ یہ رابطہ سیاسی، مذہبی، علمی اور ثقافتی سطحوں پر ہمیشہ جاری رہا۔ تاریخ کی کتابیں اس کی شاہد ہیں۔ خطیب بغدادی نے خلیفہ مقتدر باللہ کے زمانہ میں دارالخلافہ بغداد میں قسطنطنیہ کے سفیروں کے استقبال کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھا ہے: ”مقتدر باللہ کے زمانہ میں شاہ روم کا ایلچی آیا تو ایوان میں خوبصورت فرش بچھائے گئے، بہترین آلات سے تزئین کی گئی۔ دربانوں اور خانساماؤں کو محل کے دروازوں، دہلیزوں، محرابوں، برجیوں، صحنوں وغیرہ میں بالترتیب متعین کیاگیا، فوجی دو صفوں میں بہترین کپڑے پہن کر کھڑے ہوئے۔ سفیر کو محل میں گھمانے کے بعد متقدر باللہ کے دربار میں لے جایا گیا جس کے دونوں جانب امراء و شہزادے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے جو کچھ دیکھا اس سے وہ بڑا مرعوب و متاثر ہوا“۔

چوتھی صدی ہجری میں عضد الدولہ نے قسطنطنیہ کے رومی بادشاہ اور عیسائی مذہبی علماء سے مناظرہ کے لیے ایک علمی وفد بھیجا جس کی سربراہی ممتاز عالم و مشہور سائنس داں ابوبکر محمد بن الطیب الباقلانی نے کی۔ استاذ محمود محمد الحضیری اور ڈاکٹر محمد عبدالہادی ابوریدہ نے ”التہمید“ نامی کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے ”یہ مناظرہ شہنشاہ روم باسیلوس ثانی کے دربار میں ہوا جس کا دور حکومت ۳۶۵ھ تا ۴۱۶ھ ہے۔ اگرچہ عضدالدولہ اور شاہ روم کے درمیان باقلانی کی اس سفارت کاری کے پس منظر کے بارے میں تاریخ خاموش ہے تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رومی بادشاہ نے انھیں یا تواسلام سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے یا مسلمانوں کے عقائد کے سلسلہ میں نصاری کے اعتراضات کا جواب دینے کے لیے بلایا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں ان کی گفتگو کی جو تفصیلات درج ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ باقلانی کی یہ مہم علمی و تہذیبی نوعیت کی تھی اوراس کی جھلک موجودہ زمانہ میں تمدنی و مذہبی افکار و نظریات کے تبادلہ کے لیے مختلف سطح پر وفود کے مذاکرات میں ملتی ہے۔ اس تہذیبی ماحول میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مفاہمتی تعلقات قائم ہوئے۔ اور ان کی روز مرہ کی زندگی پر اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ مسلمانوں اور ان کے پڑوسی عیسائیوں کے درمیان یہ تہذیبی تعلقات مغربی اسکالرز اور محققوں کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث رہے ہیں، اس بارے میں الیکس چوراسکی لکھتا ہے ”جدید یورپی مطالعات میں جہاں اسلامی مطالعات کا تذکرہ ہوتا ہے اور اس ضمن میں اسلامی و نصرانی تعلق پر بحث ہوتی ہے تواس سے مراد اجمالی طور پر چودہ صدیوں پر محیط دونوں مذاہب کے درمیان پڑوس اور مشترکہ وجود ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تعلقات پانچ بڑے اور اساسی میدانوں اور سطحوں پر پائے جاتے تھے جو اقتصادی، فوجی و سیاسی بھی تھے اور ثقافتی و مذہبی بھی“ ․․․․ تہذیبی مذاکرات کی ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی تہذیب نے کس طرح قرآن کریم کی روح کی ترجمانی کی تھی جس کی دعوت رواداری، اخوت اور تمام لوگوں کے لیے امن و سلامتی کے جذبات پر مبنی تھی۔

۲- اسلامی تہذیب اور رومن کیتھولک تہذیب کے مابین مذاکرات:

پہلی صدی ہجری (آٹھویں صدی عیسوی) سے ہی اسلامی سلطنت میں توسیع ہوتی گئی چنانچہ جہاں اس کی قلم رو میں جزیرہ نمائے ایبیریا (اندلس) ، جسے آج کل ہسپانیہ و پرتگال کہتے ہیں، آیا وہیں مغرب میں فرانس کی سرحدوں پر ابرانس کے سلسلہٴ کوہ تک اور مشرق میں چین کی سرحدوں تک اس کی جغرافیائی حدود وسیع ہوگئیں۔ اسی طرح اس میں بحرابیض متوسط کے جزیرے مالٹا، سسلی اور قبرص بھی شامل ہوگئے۔ اور بعض اوقات اس کی وسعت جنوبی اٹلی تک جاپہنچی۔ یہ اسلامی فتوحات صرف عسکری پہلو تک محدود نہ تھیں بلکہ بسااوقات ان کے سیاسی، ثقافتی اور مذہبی ثمرات بھی ہوتے تھے۔ مسلمانوں کی یہ رسائی ہی بحرابیض متوسط کے باشندوں، یورپ کے مکینوں، مسلمانوں اور افریقیوں کے مابین تہذیبی تعلقات کی بنیاد بنی۔ مسلمان حکمرانوں اور ان ملکوں کے حکمرانوں کے درمیان سیاسی اور سفارتی رابطے استوار ہوئے، وفود اور ایلچیوں کا تبادلہ ہوا۔ بطور خاص عباسی خلیفہ ہارون رشید اور فرانس کے بادشاہ شارلیمان کے درمیان۔ اسی طرح اندلس کے اموی خلیفہ عبدالرحمان الناصر اور قسطنطنیہ کے رومی بادشاہ کے درمیان رابطے قائم ہوئے۔ تاریخ نے تفصیل سے ان روابط کا ذکر کیا ہے۔ ایک اطالوی مستشرق لکھتا ہے: ’جزیرہ ایبیریا ہی وہ مقام ہے جہاں سے اسلام اوریورپ کی نوخیز تہذیب کے درمیان نتیجہ خیز اور شاندار تعلق قائم ہوا اور سات صدیوں تک یہ تعلق استوار رہا۔“

چونکہ اسلام سماج کے تمام افراد اور مذاہب و طبقات کو آزادی، عدل و مساوات اور رواداری سے بہرہ ور کرتا ہے۔ اسی وجہ سے معاشرہ کے تمام لوگ ہمیشہ محبت، تعاون اورامن و سلامتی کے ماحول میں بقائے باہم کا شاندار نمونہ پیش کرتے رہے ہیں۔ یہ خالص انسانی صفت اسلامی تہذیب کی نمایاں خوبیوں و امتیازات میں سے ایک ہے۔ اس لئے اسلامی مملکت میں نصاری آزادی سے رہ رہے تھے۔ نہ ان پر ظلم ہوا، نہ انہیں غلام بنایاگیا، اور نہ انھیں مذہب چھوڑنے پر مجبور کیاگیا، ان کے عقائد اور مذہبی ادارے سب محفوظ تھے۔ بلکہ انھیں مسلمان معاشرہ میں اس حدتک آزادی حاصل تھی کہ یہودی، جنہیں ہمیشہ زبردست ظلم وجبر کا سامنا کرنا پڑتا تھا، فوج در فوج خلافت اسلامیہ کی قلمرو میں آگئے۔ یہاں اسلامی حکومت کے زیر سایہ ان کو اس حد تک آزادی ملی کہ نہ صرف بغیر کسی روک ٹوک کے انھوں نے اپنی عبادت گاہیں تعمیر کیں بلکہ وہ پوری آزادی سے اپنے بڑے بڑے مذہبی اجتماعات بھی منعقد کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ اشبیلیہ اور طلیطلہ کے اجلاس مشہور ہیں۔ ۸۵۲ کا قرطبہ میں منعقد ہ اجلاس تو خود خلیفہ کی ایماء پر ہوا تھا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ عیسائی پادریوں اور بشپوں کو ان فسادات اورہنگاموں کو روکنے پر آمادہ کیا جائے جو متعصب و متشدد عیسائیوں نے اپنے ہی فرقوں کے خلاف چھیڑ رکھے تھے۔ طلیطلہ کے اجلاس میں مذہبی رہنماؤں اور عالموں نے اسلامی رواداری کو دیکھتے ہوئے اس بات کی کھلی تبلیغ شروع کردی کہ کسی کو بھی اپنا عقیدہ چھوڑنے پرمجبور نہیں کیاجاسکتا۔

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ معاشرہ میں یہ آزادی جس کے تحت مختلف طبقات و مذاہب کے لوگ خوش گوار ماحول میں ایک ساتھ رہتے تھے اسلام کی اسی تہذیب کی برکت تھی جو مذاکرات کی بنیاد پر قائم ہے۔ اسلامی ملکوں میں کشادہ قلبی اور وسعت فکر و نظر نے لوگوں کی زندگی پر کیا اثرات ڈالے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اسلامی مفکر سید امیر علی لکھتے ہیں: ”اسلامی اندلس وہ بہترین نمونہ ہے جو اسلام کے سیاسی پیکر اور مختلف معاشروں اور متنوع سماجوں کے لیے اسلام کی برکتوں کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ جب مسلمان اس ملک میں آئے تو لوگوں نے ایسی آزادی کا احساس کیا گویا زمین جاگیردارانہ نظام سے آزاد ہوگئی ہو۔ عربوں کے قدم جیسے ہی ہسپانیہ کی سرزمین پر پڑے تو مسلمانوں کے ساتھ ہی انھوں نے یہودیوں، رومیوں، گوتھوں، وانڈل، اور سویپیوں کو بھرپور آزادی دی“۔ مختلف مذاہب وادیان، طبقات اور ثقافتوں میں بقاء باہم و خیرسگالی کا یہ تہذیبی نمونہ اسلامی اور نصرانی تہذیبوں کی مفاہمت کا واحد نتیجہ نہ تھا بلکہ دوسرے مظاہر بھی ان میں شامل تھے جن میں خاص طور پر علمی وفکری مطالعات اور تحقیقات قابل ذکر ہیں جن میں مسلم علماء مثلاً ابن رشد، الادریسی، ابن حزم، ابن طفیل وغیرہ نے کارہائے نمایاں انجام دیے اور جن کی کتابوں سے نئے یورپ نے زبردست استفادہ کیا۔ مذاکرات کی اسلامی بنیاد کی تائید بھی اس نمونہ سے ہوتی ہے جو اس اصول پر مبنی ہے کہ آس پڑوس کے تمام لوگوں کو باہمی احترام حاصل ہو، سب کو اختیار کی آزادی اور اپنے حقوق کی حفاظت کا حق ملے، سب عدل وانصاف، مساوات اور رواداری سے فیضیاب ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ پڑوس کا تصور اور اسلام میں افہام و تفہیم کی اساس، تمام مشکلات و اختلافات کے حل کا تہذیبی ذریعہ اور انسانی عمل اورانسانی فکر کے منافع اور فوائد سے استفادہ کا بہترین راستہ ہے۔

اسلامی تہذیب اور جدید تہذیب کے درمیان مذاکرات:

تہذیبی مذاکرات اسلام کے بنیادی اصولوں میں شامل ہیں، کیونکہ وہ مذہبی عقیدہ کی حیثیت سے انسانوں کو اللہ واحد کی عبادت کی طرف بلاتے اور طریقہ زندگی کی حیثیت سے انسانوں کے مابین تعلقات و معاملات کو عدل ومساوات، بھائی چارہ اور آزادی کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں۔ یہ مذاکرات نہ صرف افکار و خیالات اور علوم کے تبادلہ کا اہم ذریعہ ہیں بلکہ ایسے اخلاقی اصولوں کے مترادف ہیں جن کی بنیاد پر انسانی معاشرہ میں زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اسلامی تہذیب کے مقاصد میں سے ایک تہذیبی مقصد ہے جس کا ہدف یہ ہے کہ مادی، معنوی اور اخلاقی اعتبار سے انسان کو بلند کیا جائے۔ تجربوں نے اس کی صحت کو ثابت کردیا ہے۔ چنانچہ مشہور فرانسیسی مصنف گستاؤ لیبان یوں رقمطراز ہیں: ”رومیوں کے بعد عرب ہی وہ تنہا قوم ہے جو مختلف قوموں کو متمدن بنانے میں کامیاب ہوئی اور اپنی تہذیب کے ہر شعبہ یعنی مذہب، نظام اور فنون سے انھیں متاثر کیا۔ حتی کہ سیاسی اثر و نفوذ کے محدود ہوجانے کے باوجود انھوں نے اپنا تہذیبی سفر جاری رکھا، یہی وجہ ہے کہ اپنے سیاسی عروج میں بھی دیگر اقوام و ہاں تک نہ پہنچ سکی تھیں جہاں عرب انحطاط کے ایام میں پہنچ گئے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن اوراس سے مستنبط شدہ اصول و ضوابط اپنی سادگی اور وضاحت کے باعث متمدن قوموں کی ضرورتوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں“۔ سید امیر علی اپنی بات کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”آپ دیکھیں گے کہ اسلام جس سرزمین پر بھی پہنچا وہاں کے مکین اگر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے اور تمدنی سطح پر پیش رفت کرنے کے اہل ہوئے تو اسلام نے وہاں تنقیدی رجحانات کو فروغ دیا، تمدن کو تقویت پہنچائی اور لوگوں کے سامنے دین کی اعلیٰ تصویر پیش کی“۔

چنانچہ اسلام دنیا کی بہت سی قوموں کو جدید تہذیب و تمدن کی نعمتوں سے بہرہ ور کرنے میں پوری طرح کامیاب و کامران ثابت ہوا۔ ان قوموں میں مغل، تاتاری، ترک اور افریقی اقوام شامل تھیں۔ وجہ یہ ہے کہ اسلام علم و عمل پر ابھارتا ہے اور حسن اخلاق کی دعوت دیتا ہے۔ اسی طرح یورپ اور امریکہ کے باشندوں کی بہت بڑی تعداد بھی اسلام میں داخل ہوئی، خاص طور پر تعلیم یافتہ اور سائنس داں طبقہ کثرت سے حلقہ بگوش اسلام ہوا، اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اسلام مادی تہذیب کی مشکلات سے انسان کو نجات دلانے کی عصری دعوت ہے۔ مشرف بہ اسلام ہونے والے ایک فرانسیسی مسلمان ڈاکٹر جرنییہ کہتے ہیں: ”اسلام ابتدا ہی سے دنیا کے تمام انسانوں اور طبقوں کے لیے یکساں طور پر قابل عمل اور مفید ہے۔ اور ہر طرح کی نفسیات اور تمدن کے لیے مینارئہ نور بھی ہے“۔

یہ تہذیبی کردار قوموں کو ترقی دینے اوران کے مابین پیدا ہونے والی مشکلات و مسائل کو حل کرنے تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کا دائرہ علوم کی بحث و تحقیق تک وسیع ہوا۔جس کے باعث اسلامی تہذیب جدید تہذیب اور اس کے علوم کا ماخذ و منبع بن گئی۔ چنانچہ فرانسیسی مستشرق وکٹرڈوری اپنی کتاب ”قرون وسطی کی تاریخ“ میں لکھتے ہیں: ”جب اہل یوروپ جہالت کی تاریکیوں میں سرگرداں تھے، علم و تمدن کی روشنی کا وہاں گذر نہ تھا، ایسے وقت میں وہاں مسلمانوں کی جانب سے علم و فن، ادب و فلسفہ اور صنعت و حرفت کی روشنی کا زبردست ریلا آیا اور یہ حقیقت ہے کہ ٹھیک اسی وقت بغداد، بصرہ، سمرقند، دمشق، قیروان، مصر، ایران، فابی، غرناطہ اور قرطبہ علوم و فنون کے عظیم مراکز سمجھے جاتے تھے۔

تہذیبوں کے درمیان مذاکرات کے احیاء کی ضرورت

مذاکرات کے اس اسلامی تجربہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نوع انسانی میں مذہب،نسل، زبان اور عقیدہ و ثقافت کا اختلاف نزاع و کشمکش کا بنیادی سبب نہیں ہے۔ بلکہ اگر ایک دوسرے کے لیے احترام، آزادی فکر و عمل، انصاف، مساوات اور رواداری کے اصولوں پر عمل ہو تو یہ چیزیں تعاون اور انسانی قدروں کے باہمی تبادلہ و منافع کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کی روح اوراس کا سرچشمہ قرآن کریم ہے جو حسن اخلاق، تعاون اور مذاکرات کی دعوت دیتا ہے نہ کہ رسہ کشی اور طاقت آزمائی کی۔ اسلامی تہذیب نے دوسری تہذیبوں پر تسلط اور غلبہ حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ زندگی کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی انسانی کوششوں سے استفادہ کیا، اس سلسلہ میں اللہ کا یہ قول ہمیشہ اس کے لیے رہنما رہا: ”اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں“۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑجایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ ٹھہرجاتی ہے، اسی طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔ (سورہ الرعد: ۱۷)

قدیم و جدید تاریخ کے تجربات شاہد ہیں کہ جو مملکتیں اور تہذیبیں قوت و طاقت کے بل پر قائم ہوتی ہیں وہ انجام کار تباہی و بربادی سے دو چار ہوتی ہیں۔ قدیم فرعونی تہذیب کی تاریخ اس پر گواہ ہے۔ بابلی اور رومن تہذیبوں کے ساتھ بھی یہی ہوا اور جدید دور میں نازی ہٹلر کے زمانہ میں جرمنی اور کمیونسٹ روس کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ شہرہ آفاق مفکر مصطفی صادق الرافعی کہتے ہیں: ”قومیں موت کے آنے، وباؤں کے پھیلنے اور قوانین کے ٹکرانے سے تباہ نہیں ہوتیں کیونکہ یہ فطری امور اور ضرورتیں ہیں۔ اصل ہلاکت اور بربادی تو اس وقت ہوتی ہے جب مادی و جسمانی کمزوری بھی لاحق ہو اور مومنانہ ضمیر بھی مردہ ہوجائے، جب خواہشات نفسانی کی یلغار ہو اور اخلاقی قدریں بھی روبہ زوال ہوں، جب زندگی معرکوں اور خونریزیوں سے دوچار ہو اور عقائد بھی دم توڑنے لگیں۔

میرا خیال ہے کہ جدید مادی تہذیب کو یہی امراض لاحق ہیں جو اخلاقی قدروں کو نابود کردیتے ہیں اور بھلائی میں تعاون کو مالی منفعت اور خود غرضانہ مفادات کے حصول کی خاطر بھاگ دوڑ میں بدل دیتے ہیں اور قوت و غلبہ کو اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کرنے پر ابھارتے ہیں۔ چنانچہ مادی تہذیب کے انہیں امراض کے مارے مغربی مفکرین نے تہذیبوں کے تصادم کے نظریات پیش کیے اور اختلافات و تنازعات کو اس کا پہلا سبب بناڈالا اور یہ فیصلہ صادر کردیا کہ موجودہ دنیا میں مملکتوں، قوموں اور اکثریت واقلیت کے مابین جو کشمکش، تنازعات اور جنگیں جاری ہیں وہ اسی تصادم کی وجہ سے ہیں۔ لیکن یہ محض ایک مادی اور سطحی توضیح ہے اور جدید مادی افکار کے تنازعات کی روح کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے اور یہی وہ عوامل ہیں جن کا ہم نے گذشتہ سطور میں تفصیل سے ذکر کیا ہے اور درحقیقت انھیں اسباب کی بنا پر قدیم تہذیبیں زوال پذیر ہوئیں اور صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ انگریز مصنف ایڈورڈ گبن نے رومن تہذیب کے زوال کے یہی اسباب بتائے ہیں۔

اسی کی روشنی میں ہم کہتے ہیں کہ اسلامی تہذیب کا کردار اور مشن یہ ہے کہ تہذیبوں کے مابین تصادم و کشمکش کے نظریہ کا مقابلہ کرنے کے لیے گفتگو و مذاکرات کے احیاء کی بات کی جائے۔ یقینی طور پر اسلامی تہذیب اپنے اصول و مبادی، صدیوں پرمحیط اپنے تجربات اور دیرینہ روایات کی بنیاد پر آج بھی مختلف تہذیبوں کے درمیان مذاکرات کی قیادت کرسکتی ہے۔ یہی اسلام کے پیغام کا منشاء بھی ہے جیسا کہ قرآن کریم کہتا ہے: ”ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے“ (انبیاء: ۱۰۷) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں“۔ (احمد و حاکم) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے آپ کے اخلاق کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا: ”آپ بلند اخلاق کے حامل ہیں“۔ سورہ القلم:۴) انگریز مفکر کارلائل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عظیم نفس اور کائنات کے حقائق کے اندر غور و فکر کرنے میں منفرد تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے زندگی اپنی ہولناکیوں، خوبیوں اور ہیبتوں کے ساتھ جلوہ گر ہوگئی تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز فطرت کی آواز تھی چنانچہ جب آپ نے آواز دی تو کان سننے لگے اور دل سمجھنے لگے“۔

مشہور روسی ادیب ٹالسٹائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں: ”بلا شبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان عظیم مصلحین میں سرفہرست ہیں جنھوں نے انسانی سماج کے لیے جلیل القدر خدمات انجام دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہی سرمایہ افتخار کچھ کم نہیں ہے کہ آپ نے پوری قوم کے سامنے حق کو روشن کردیا، اسے امن وآشتی کا خوگر، خونریزی سے باز رہنے والا اور انسانیت کے لیے ایثار و قربانی دینے والا بنادیا۔ آپ کے فخر کے لیے یہ کافی ہے کہ آپ نے ترقی و بلندی کا راستہ کھولا۔ یہ اتنا بڑا کام تھا جسے وہی شخص انجام دے سکتا ہے جو توانائی، دانائی اور علم کی خوبیوں سے بہرہ ور ہو۔ اور ایسا شخص ہر طرح کے احترام و تکریم کے لائق ہے“۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10-11، جلد: 89 ‏،    رمضان‏، شوال 1426ہجری مطابق اکتوبر‏، نومبر 2005ء

Related Posts