علم وفضل کے جامع ،اخلاق ومروت کے پیکر، اسلاف کے جانشین
حضرت مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلیؒ
از: مفتی اسعد قاسم سنبھلی
صدر شعبہ ادب وافتاء جامعہ شاہ ولی اللہ مرادآباد
دنیا ایک دھوکہ ہے، یہاں کسی کو قرار نہیں، اس کاروان میں ہر روز نہ معلوم کتنے مسافر شامل ہوتے ہیں اور بے شمار اپنی منزل پر پہنچ کر ابدی نیند سوجاتے ہیں؛ اس لیے کسی فرد کا کوچ کرجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ،یہاں تو ہر ایک پیدا ہی مرنے کے لیے ہوا ہے؛ لیکن اللہ کے جو بندے غیرمعمولی سعادت وتوفیق سے بہرور ہوں ،علم واخلاق میں ان کا پایہ نہایت بلند ہو ، موٴمنانہ خصائل ان میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوں اور ان کی ذات ستودہ صفات محبت وعقید ت کا مرکز بن گئی ہو تو ایسے نابغہٴ روزگار علماء کی رحلت واقعی اتنی تکلیف دہ ہوتی ہے کہ آنکھیں غم سے بہہ پڑتی ہیں ؛ حزن و ملال کی شدت دلوں کو پاش پاش کردیتی ہے اور دیکھتے دیکھتے ہر طرف رنج و غم کے بادل چھا جاتے ہیں۔
حضرت مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی ایک ایسی ہی عظیم المرتبت شخصیت تھے ، ۱۹ /ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ مطابق ۳۰/جولائی ۲۰۲۱ء کو جمعہ کے دن انھوں نے ہمیں داغ مفارقت دیا اور علماء وطلبہ کو روتا بلکتا چھوڑ کر وہ مولیٰ کے دربار میں پہنچ گئے ، مولانا مرحوم دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث ونائب مہتمم ،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن اور ہندوستان کے ایک نامور عالم دین تھے ،ان کی ولادت تاریخی شہر سنبھل میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد درس نظامی کا آغاز دارالعلوم المحمدیہ روضہ والی مسجد دیپا سرائے سنبھل میں کیا، جہاں امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ کے شاگرد مولانا عابد حسین سنبھلی کی مسند درس بچھی تھی، انھیں اللہ تعالی نے پختہ صلاحیت کے ساتھ فارسی زبان وادب کے بھی بلند ذوق سے نوازا تھا، یہاں ایک سال خوشہ چینی کے بعد مرحوم نے شمس العلوم سرائے ترین میں داخلہ لیا اور مسلسل پانچ برسوں تک معروف عالم دین حضرت مولانا مفتی آفتاب علی خاں صاحب سے تعلیم حاصل کی ، ۱۹۶۸ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہوا اور ۱۹۷۲ ء میں موصوف نے دورہٴ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی ، اگلے سال تخصص فی الادب العربی سے وابستہ رہے مولانا سنبھلی بڑے ذہین ،ہونہار اور سعادت مند طالب علم تھے؛ اس لیے ان کے درسی رفیق مولانا ابو العاص وحیدی کے خلاف جب عدم اعتماد کی تحریک چلی تو موصوف کو برخاست کرکے حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی نے مولانامرحوم کو ہی النادی کا معتمد بنایاجو عربی زبان وادب کے میدان میں دارالعلوم کے طلبہ کی قیادت وسربراہی کا یقینا ایسا اعزاز تھا جس نے ان کے حوصلوں کو جلا بخشی اور وہ بلند عزم لے کر پھر مستقبل کی راہوں پر گامزن ہوگئے۔
تکمیل ادب سے فراغت کے بعد موصوف نے چھ سال تک خادم الاسلام ہاپوڑ میں تدریسی خدمات انجام دیں ، ۱۹۷۹ ء میں وہ جامع الہدی مرادآباد تشریف لا ئے جہاں ان کا قیام تین سال رہا اور ۱۹۸۲ء میں جب دارالعلوم دیوبند کی نشأة ثانیہ ہوئی تو حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب سنبھلی کی تحریک پر انھوں نے انٹر ویو دیا اور مادرعلمی میں تدریسی خدمات پر مامور ہوگئے ۲۰۰۷ء میں ان کا نیابت اہتمام کے لیے انتخاب ہوا اور تدریس کے ساتھ انتظامی ذمہ داریوں کو بھی انجام دینا شروع کردیا ،تمام حالات درست سمت جارہے تھے اور مولانا کے نشاط کو دیکھ کر اہل تعلق بڑے مطمئن؛ بلکہ بے فکر تھے کہ اچانک سال گذشتہ کولہے میں فریکچر ہوا اور ان کی صحت پھربتدریج گرتی ہی چلی گئی بالآخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ ضعف کی بنا پر ایک دن صبح کو غشی آگئی ،علاج شروع ہوا تو مرض کی تشخیص کے لیے دہلی کے ”راجیو گاندھی ہاسپیٹل“ میں چیک اپ کرایا گیا ،میڈیکل رپورٹ آئی تو وہ گویا کسی دھماکے سے کم نہ تھی، اس نے تو واقعی سب کو سکتہ میں ڈال دیا، معلوم ہوا کہ کینسر آخری اسٹیج پر ہے اور اب کوئی علاج کارگر نہیں ہوسکتا ،اہل تعلق نے یونانی اطباء سے رجوع کیا کہ شاید افاقہ کی کوئی صورت نکل آئے لیکن وقت پورا ہوچکا تھا؛ اس لیے مولانا ہمیں داغ مفارقت دیکر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
وطنی رشتہ کے علاوہ راقم کو مولانا سے تلمذ کا بھی شرف حاصل تھا، اس نے موصوف سے دارالعلوم دیوبند میں ”تاریخ الادب العربی“ ، ”دیوان حماسہ“، اور ”سبعہ معلقہ“ پڑھنے کے ساتھ عربی مشق وتمرین بھی کی تھی؛ اس لیے وہ مرحوم کے اوصاف وکمالات سے اچھی طرح واقف ہے ، اس نے ان کی کتاب حیات کا ہر باب پڑھا ہے ، ان کی خلوت وجلوت کا مشاہدہ کیا ہے ،اورعائلی زندگی سے مسند اہتمام تک آنے والے ہر سنگ میل پر مولانا کے اخلاق وکردار کے ایسے دلربا مناظر دیکھے ہیں جو اس عہد جفا میں بس خال خال ہی کہیں نظر آتے ہیں، ان کے ذاتی حالات ،تعلیم وتدریس کے مراحل اور ولادت سے وفات تک سوانح حیات کی تمام کڑیوں کا صحیح تعارف تو فرزندان وعزیزواقارب ہی کراسکتے ہیں؛ اس لیے ان عائلی موضوعا ت کو نظر انداز کرکے ہم صرف ان عناصر ترکیبی کو قلم بند کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے مولانا کی شخصیت کو حد درجہ عظمت ووقار عطا کیا اور پھر علمی حلقوں میں وہ ایسے موٴثر و ہر دل عزیز عالم بن کر ابھرے جس کی مثال دیکھنے کے لیے آئندہ نسلوں کو معلوم نہیں کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔
مدارس وجامعات کی دنیا میں تعارف و تعظیم کی پہلی شرط امتیازی صلاحیت واستعداد ہوا کرتی ہے؛ چنانچہ تاریخ کے کینوس پر جو شخصیات ہمیں متحرک وفعال نظر آتی ہیں ان میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو علم ومعرفت کی چوٹی سر کیے بغیر زمانے کا مقتدا بن گیا ہو اور معاصرین محض اس کے ظاہری کروفر سے ہی مرعوب ہوگئے ہوں ،نہیں بالکل نہیں، وہ سب ذہانت کے پیکر ،علم وفضل کے جامع اور سعادت وتوفیق سے سرشار تھے، مولانا سنبھلی کا تعلیمی ریکارڈ شہادت دیتا ہے کہ اسلاف کی یہ میراث ان کے حصے میں بھی آئی تھی، انھوں نے اپنی طبعی شرافت ،ذہنی یکسوئی اور بلند ذوق کی بدولت زمانہٴ طالب علمی میں ایک مقام پیدا کیا، وہ اساتذہ کے منظور نظر اور طلبہ کے نزدیک ایک مثالی طالب علم تھے؛ چنانچہ پختہ صلاحیت، ٹھوس استعداد اور عربی زبان پر قدرت حاصل کرنے کے بعد طائر لاہوتی نے جب اپنے چمن سے نکل کر منزل کی تلاش شروع کی تو سب سے پہلے اس نے جامعہ عربیہ خادم الاسلام ہاپوڑ کی سرسبز وادی میں اپنا نشیمن بنایا ، پھر جامع الہدی مرادآباد کے بلند گنبد پر بسیرا کیا اور یہاں سے جب اڑان بھری تو پھر ”ازہرہند“ کے فلک بوس منارے پر پہنچ کر ہی دم لیا ،قاسمی چمن اس کے خوابوں کی آخری تعبیر تھی؛ اس لیے وہاں کی معطر فضاوٴں میں دل کی کلیاں کھل گئیں اور چالیس سال تک اس نے وہ نغمہ سرائی کی کہ بلبلیں وقُمریاں سب نغمہ سرا ہوگئیں۔
صلاحیت واستعداد کے بعد شخصیت کا سب سے زیادہ موٴثر پہلو عمل کی پختگی ہے؛ چنانچہ دعوت وعزیمت کے جن کرداروں نے کارہائے نمایاں انجام دے کر تاریخ کے صفحات پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے وہ سب عبادت وریاضت کا بلند ذوق رکھتے تھے، خلوتوں میں تڑپنا اور پھڑکنا ان کا دائمی معمول تھا ، وہ دعائے نیم شبی اور آہ سحر گاہی کے خوگر تھے اور مولیٰ کے دربار میں آنسوٴوں کا غسل کیے بغیر انھیں چین نہ ملتا تھا؛ چنانچہ تاریخ ہمیں آج تک ایسے کسی عالم کا نام بتانے سے قاصر ہے جس کی کتاب حیات کا یہ صفحہ خالی ہو؛ لیکن اس کے باجود زمانے پر اس نے اپنی عظمت کا سکہ بٹھادیا ہو، مولانا سنبھلی کو اللہ تعالی نے جس نشاط وچستی سے نوازا تھا اس کی بدولت وہ عمل کے میدان میں بھی فائق تھے اور سنن ونوافل کے ساتھ انہوں نے نماز باجماعت کی ہمیشہ ایسی پابندی کی کہ اہل تعلق کو یاد نہیں کہ حضر کی حالت میں کبھی فرائض پر ہی اکتفا کیا ہو، الحمدللہ وفات تک ان کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا ، علماء کی یہی شان ہوتی ہے کہ رخصت کے بجائے وہ عزیمت پر عمل کرتے ہیں اور ان کا تعلق مع اللہ ہر دور میں عوام کے لیے قابل رشک ہوتا ہے؛ لیکن افسوس ہماری گناہ گار آنکھیں آج ان لوگوں کو اہل علم کی صفوں میں دیکھ کر نم ہوجاتی ہیں، جو نمائش کے موقع پر تو کبھی نوافل بھی نہیں چھوڑتے؛ لیکن جب ان کے خشوع کو تاکنے والاکوئی نہ ہوتو فرائض بھی پھربآسانی وہ گول کردیتے ہیں۔
علم وفضل میں بلند مقام ہونے کے بعد معاشرہ میں سب سے زیادہ اہمیت وسعت اخلاق کی ہوتی ہے ،یہ لفظ ان پھیکی مسکراہٹوں تک محدود نہیں جو واردین پر صدقہ کردی جاتی ہیں؛ بلکہ اس کے مفہوم میں محبت و اخلاص ،نصح وخیر خواہی اور ایثار وقربانی کے ساتھ مخالفین کی ایذا رسانیوں پر صبر واعراض سے کام لینا بھی داخل ہے، اگر کوئی عبقری شخصیت تمام تر لیاقتوں کے باوجود اس وصف سے خالی ہے تو عوامی مقبولیت تو دور اس کا فیض تک جاری نہیں ہوپاتا اور مخلصین ہمت کرکے اگر استفادے کے لیے کمر بھی کس لیں تو مزاج کی خشکی، طبیعت کی درشتی اور زبان کی تیزی دیر یا سویر اس طرح انھیں دل برداشتہ کردیتی کہ ہر سمت پھر لانفضوا من حولک کا منظر ہی نظر آتا ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے اسلاف اخلاق نبوت کے سچے وارث تھے اور آج بھی مشائخ کی زندگیوں میں اس کی بڑی واضح جھلک نظر آتی ہے ،مولانا مرحوم بھی ہمارے نزدیک اسی صف کے عالم تھے، اللہ تعالی نے انھیں ایسے شیریں اخلاق سے نوازاتھا جو دنیا میں بہت کم لوگوں کو ملا کرتا ہے، ان کا سینہ محبت سے بھرا تھا ،دل آئینہ کی طرح بے غبار تھا، اپنا ہو یا بیگانہ وہ ہر ایک کے خیر خواہ تھے، انھیں حاسدوں کی جفاوٴں پر غم تو ہوتا لیکن طبعی شرافت منفی جذبہ کو کبھی سر نہ اٹھانے دیتی ،وہ ہر زیادتی پر بس صبر کرکے رہ جاتے ،مزاج کی اسی نرمی کی بنا پر طلبہ ان کے پاس آنے میں قطعاً تکلف نہ کرتے اور ہر ایک اپنے سفارش نامے پر دستخط کرانے میں کامیاب ہوجاتا ، الغرض مدارس کے اساتذہ ہوں یا مساجد کے ائمہ ، علماء و طلبہ ہوں یا مخلصین وعقیدت مند ! مولانا کے یہاں کوئی بھید بھاوٴ نہ تھا، وہ اپنے دامن میں سب کو سمو لیتے، ایک عالم کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ بلاتفریق محبت کی چاندنی کو بانٹے اور اس کی دہلیز سے کوئی مخالف بھی منفی تاثر لے کر واپس نہ ہو؛ لیکن افسوس اب اخلاق کا مفہوم ہی الٹ گیا، اصحاب ثروت کے لیے تو ہر وقت دروازے کھلے ہیں؛ لیکن عام مخلصوں کو نظام الاوقات کا حوالہ دیکر بڑی خوبصورتی سے ٹال دیا جاتا ہے۔
اخلاق ومروت کا فطری نتیجہ مہمانوں کی ضیافت واکرام کی صورت میں نکلتا ہے جسے حدیث میں انبیاء کی سنت اور ایمان ویقین کی علامت قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ اللہ تعالی نے اس وصف سے امت محمدیہ کواس قدر نوازا ہے کہ دوسری قومیں اس کے آس پاس بھی کہیں نظر نہیں آتیں، چودہ صدیوں کے علماء کی زندگی اس کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی اور آج بھی ہمارے مدارس وخانقاہوں میں تمام ترسادگی کے باوجود ضیافت کا خاصا اہتمام پایا جاتاہے ،ہر ایک مہمانوں کی تواضع کو اپنا فرض سمجھتا ہے خواہ قلت اسباب کی بناء پر وہ ماحضر تک ہی کیوں نہ محدود ہو، مولانا سنبھلی کو اللہ تعالی نے اس وصف سے بھی خوب نوازا تھا، وہ بڑی مسرت کے ساتھ اپنے مہمانوں کا استقبال کرتے تھے ،ان کے درسی رفقاء ہوں یا دارالعلوم کے قدیم طلبہ ،مدارس ومساجد سے وابستہ علماء ہوں یا احباب واعزہ ! ہر ایک بلا تکلف ان کا مہمان بن جاتا اور مرحوم کو ادنی گرانی نہ ہوتی، الحمدللہ ہمارے علماء ومشائخ کی آج بھی یہی شان ہے کہ ان کے دروازوں سے کوئی مایوس ہوکر واپس نہیں جاتا، اور ہر ایک کو انشراح صدر کی دولت نصیب ہوتی ہے، ہاں مادہ پرستی نے کچھ لوگوں کے معیار ضرور بدل ڈالے ہیں؛ چنانچہ زائرین کے جسموں پر اگر ثروت کی قبا ہے تو مسکراہٹیں ان کا استقبال کرتی ہیں اور آنا فانا ضیافت کے جام بھی گردش میں آجاتے ہیں ، رہے عام مخلصین وعقیدت مند تو ان سے پلہ جھاڑ نے کے لیے بہت سے خود ساختہ ا صول موجود ہیں۔
علمی رسوخ ،عملی استقامت اور اخلاقی وسعت سے لیس ہوکر جب کوئی عالم تدریس کی سنگلاخ وادی میں قدم رکھتا ہے تو بہت جلد اپنا مقام بناکر وہ ہر دلعزیز بن جاتا ہے اور اس کی آواز کی لہروں پر پھر طلبہ کے دل دھڑکتے ہیں؛ کیونکہ درسگاہ میں زبان پر قدرت، بیان کی نیرنگی اور تفہیم کی ایسی صلاحیت درکاہوتی ہے جو مشکل سے مشکل مضمون کو پانی کرکے ہر سطح کے طالب علم کو مطمئن کردے اگر خدا نخواستہ استاذ اس وصف سے خالی ہو تو اپنی تمام لیاقت کے باوجود وہ ناکامی کا طو ق لٹکا کر ہی تدریس کے کوچے سے واپس ہوگا، مولانا مرحوم نے تقریباً نصف صدی تک تدریسی خدمات انجام دیں اور چار دھائیاں تو ان کی مادر علمی میں گذریں، دارالعلوم میں وہ شروع ہی سے ایک لائق وکامیاب مدرس کی شناخت رکھتے تھے، جن حضرات کو مرحوم سے شرف تلمذ حاصل ہے ان کا ہر فرد ضرور یہ گواہی دیگا کہ مولانا کا درس نہایت مفید اور قیمتی ہوتا تھا ،حل عبارت ، مسئلہ کی وضاحت اور سیاق وسباق کی تشریح کے دوران وہ بلبل کی طرح چہکتے، پر لطف واقعات سناتے اور درس گاہ کے ماحول کو ایسا خوش گوار بنادیتے کہ طلبہ اپنی ساری تکا ن بھول جاتے، ایک کامیاب مدرس کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ تفہیم کے لیے گرد وپیش کے واقعات کی مثال تو ضرور دے؛ لیکن یہ سلسلہ اتنا دراز نہ ہو کہ اصل موضوع تو پس پشت چلا جائے، اور پورا وقت قصہ گوئی میں گذر جائے، اس میں سبق ہے ان حضرات کے لیے جو فحش ومضحکہ خیز واقعات کا سہارا لے کر اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں؛ لیکن دیر یا سویر طلبہ کو اندازہ ہوہی جاتا ہے کہ تدریس کی بلند مسند پر ان کا ورود مطلوبہ شرائط کی بدولت نہیں؛ بلکہ خوش طبعی ،ملنساری اور خدمت وتواضع کی بنیاد پر ہوا ہے؛ اس لیے موضوع سے انحراف ان بے چاروں کی علمی مجبوری ہے ۔
شہرت ہویا گمنامی اہل معرفت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا اور وہ بدستور اپنی زندگی میں آداب واخلاق برتتے ہیں؛ لیکن جو لوگ عزت ووقار کی وادی میں پہلی مرتبہ قدم رکھتے ہیں ملک گیر تعارف حاصل کرنے کے بعد ان کا ایک مزاج تجاہل عارفانہ کا بھی بنتا ہے، اپنے سے کمتر کو نہ پہچاننا، مخلصین کو یکسر نظرانداز کرنا، از خود ملاقات سے احتیاط برتنا ، عوام کے سلام کا لیادیا جواب دینا اور ہر وقت اپنی وقعت وعظمت کا احساس کرانا ہی ان کی زندگی کا محور بن جاتا ہے؛ لیکن مولانا سنبھلی اس لحاظ سے بھی ہمیں علماء ومشائخ کے سچے وارث نظر آتے ہیں کہ ہندوستان کے طول وعرض میں وسیع تعارف کے باوجود ان کے مزاج میں قطعاً کوئی فرق نہیں آیا ،وہ چھوٹوں کو فوراً پہچان لیتے ،سلام وکلام میں بھی خود پہل کرتے، متعلقین کے ذاتی مسائل دریافت کرتے، اپنے شاگردوں کا بھی مجلس میں تعارف کرادیتے اور ہر خاص وعام سے اس طرح دل کھول کر ملتے کہ وہ ان کے لہجے کی مٹھاس اور محبت وخلوص کی حرارت برسوں تک فراموش نہ کر پاتا، اس میں عبرت ہے ان لوگوں کے لیے جو معمولی شہرت کے بعد ہی گویا چرخ پر جھولنے لگتے ہیں۔
انسان خطا کا پتلا ہے؛ اس لیے انفرادی نہ صحیح اجتماعی زندگی میں تو اس سے لازماً چوک ہوتی ہے اور وہ معاصرین کی بابت کہیں نہ کہیں حسد ورقابت کا شکار ہوجاتا ہے پھر آج کی مہذب دنیا نے تو دلوں پر مادہ پرستی کا ایسا خول چڑھادیا کہ ہرایک خود پسندی میں مبتلاہے، اب تعریف وستائش تو دور لوگ کسی کے حق میں کلمہٴ خیر کہنے کو بھی کوئی تیار نہیں اور دوسروں کو کمتر وشکستہ حالت میں دیکھنا ان کے دلوں کو بڑی فرحت عطا کرتا ہے،یہ بظاہر تو معمولی سی باتیں ہیں؛ لیکن یہی درحقیقت باطن کی وہ خطرناک بیماریاں ہیں جو دنیا وآخرت دونوں برباد کرڈالتی ہیں اور مشائخ انھیں کا ازالہ کرنے کے لیے سالکین سے سالہا سال تک مجاہدے کراتے ہیں؛ تاکہ ان گندگیوں کا صفایا ہو، اور ضمیر نور ایمان سے جگمگااٹھے، مولانا سنبھلی کی سوانح کا یہ باب بھی بڑا روشن وتابناک ہے، اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسا قلب سلیم عطا کیا تھا کہ وہ طبعاً ان آلائشوں سے بالکل پاک تھے ،معاصرین کی ترقی سے انھیں بڑی خوشی ہوتی، علماء کے کارناموں کو فخر سے بیان کرتے ،اپنے چھوٹوں کی کاوشوں کو خوب سراہتے ،زبان پر کبھی منفی تاثر نہ آتا اور کوئی ہم نشین غیبت شروع کرتا تو اسے بڑی خوبصورتی سے ٹال دیتے اور فوراً دوسرے موضوعات پر گفتگو کرنے لگتے، علماء کی واقعی یہی شان ہوتی ہے، اللہ تعالی مرنے سے پہلے ہم سب کواپنی اصلاح کی توفیق عطا فرمائیں۔
ملک وملت کے بلند اسٹیج پررونق افروز ہونے کے بعد اعتدال پر قائم رہنا بڑا مشکل ہوتا ہے اور اللہ کی توفیق اگر شامل حال نہ ہوتو ذہن میں اتنی تیزی سے خود پسندی کا سودا سماتا ہے کہ انسان اخلاق ومروت سب کچھ بھول کر بس اپنی شخصیت ہی میں گم ہوجاتا ہے ، پھر مخلصین کو ڈانٹنا ،مہمانوں کو جھڑکنا اور عوام کو پھٹکارلگانا اس کے نزدیک تعلیم وتربیت کا شعبہ بن جاتا ہے، معاملہ اگر یہیں تک محدود ہوتا تب بھی غنیمت تھا بعض حضرات کے مقربین بھی اتنے جاہل و متکبر ہوتے ہیں کہ ملاقات کے لیے آنے والے مخلصین کو بھی ریمانڈ پر لینا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے؛ تاکہ وہ خود کو حضرت کا سچا جانشین ثابت کرسکیں؛ حالانکہ یہ اصول ممکن ہے ماضی میں مفید ثابت ہوئے ہوں؛ لیکن آج اگر ان پر زیادہ زور دیا گیا تو عوام کا تھوڑا بہت علماء سے جو تعلق باقی ہے اس کی ڈور بھی بہت جلد ٹوٹ جائے گی اور انھیں دین سے جوڑنا پھربڑا مشکل ہوگا ،مولانا سنبھلی اس وصف میں بھی ان مشائخ کے جانشین تھے جو علماء وطلبہ کو ضرور اصول وآداب کی تعلیم دیتے ہیں؛ تاکہ مستقبل میں وہ تربیت کے فرائض بخوبی انجام دے سکیں؛ لیکن عوام کو ملاقاتی ضابطوں کا زیادہ پابند نہیں بناتے کیوں کہ دور فساد میں انھیں قریب کرنے کے بجائے اگر اصول جھاڑ ے گئے تو لوگ بد دل ہوکر علماء کے فیض سے محروم ہوجائیں گے، تدریس کے بعد جب مولانا نیابت کے اہتمام پر فائز ہوئے تو ان کا قد کافی بلند ہوگیا اور ملک وبیرون ملک ہر سطح پر انھیں اعزاز دیا گیا ،کہیں کلیدی مقرر تو کہیں صد ر مجلس ،کہیں مہمان خصوصی تو کہیں شمع انجمن! غرض ہر گام پر استقبال ،ہر قدم پر عقیدت کے نذرانے ! ایسے دلربا مناظر جب زندگی کا معمول بن جائیں تو مزاج میں بڑا فرق واقع ہوتا ہے اور کوشش کے باوجود بھی لوگ خوش اخلاق نہیں رہ پاتے؛ لیکن واہ رے سنبھلی !! تیرے لہجے میں کوئی فرق آیا نہ ہی تونے اپنی خوبدلی، وہی تواضع ومسکنت ،وہی سادگی ومعصومیت اور وہی بے تکلفی ومروت !! مسند کی بلندی دیوانے کا کچھ بھی نہ بدل سکی؛ چنانچہ چالیس سال کے طویل عرصے میں اپنے کو تو شکایت کیا ہوتی کوئی بے گا نہ بھی ان سے بدمزہ نہ ہوا، دارالعلوم کے محبوب وموٴقر استاذ حضرت مولانا عبد الخالق صاحب مدراسی مد ظلہ العالی نے دہلی کے تعزیتی اجلاس میں اس کی شہادت دیتے ہوئے فرمایا کہ مادر علمی میں اگر کوئی فرد ایسا تھا جس کے طرز عمل سے کبھی کسی کو شکایت نہ ہوئی تو وہ میرے ہم نام حضرت مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی کی ذات ستودہ صفات تھی ، بظاہر تویہ ایک چھوٹا سا جملہ ہے؛ لیکن جو لوگ اہتمام وتدریس کی نزاکتوں پر گہری نظر رکھتے ہیں ان کے نزدیک یہ محض اخلاقی بلندی نہیں بلکہ مولانا مرحوم کی زندہ کرامت تھی۔
مولانا پر مختصر مضمون لکھنے کا ارادہ تھا لیکن قلم ہاتھ میں لیا تو وہ بے لگام گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑنے لگا،سوار نے بھی چار وناچار مہار ڈھیلی چھوڑدی کہ شاید قدرت کا ارادہ بھی تفصیل کا معلوم ہوتا ہے آخر میں اہل خانہ ، دارالعلوم کے ذمہ داران واساتذہ اور مخلصین وطلبہ کی تعزیت کرتے ہوئے ہم سنبھل کے ان علماء کا تذکرہ بھی ضروری سمجھتے ہیں جو قرابت وجوار کی بنا پر مولانا سے بہت قریب تھے ، خصوصاً ان کے عم محترم حضرت مولانا عبد المعید صاحب ، بزرگ عالم دین حضرت مولانا ظریف صاحب، مخلص دوست حضرت حضرت مولاناعبد الستارسلام قاسمی ، اسی طرح مفتی مہر الٰہی صاحب، مفتی رفاقت حسین صاحب ،مفتی محمد عثمان اور مولانا عریف وغیرہ ،اللہ تعالی انھیں بھی صبر جمیل عطا فرمائے، ہمیں خوشی ہے کہ مرحوم کی نماز جنازہ دارالعلوم دیوبندکے مہتمم وشیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم صاحب مدظلہ العالی نے پڑھائی جو ایک سربراہ کی حیثیت سے ان کا حق تھا ورنہ اکابر علماء کی موجودگی میں آج بے نام ومقام صاحب زادے جس طرح آگے بڑھ بڑھ کر اپنے اعزہ کے جنازوں کی نمازیں پڑھا رہے ہیں وہ اہل علم کے لیے بڑی گرانی کا باعث ہے، ولایت کے پیش نظر ممکن ہے اس کی کچھ گنجائش نکلتی ہو؛ لیکن شرعی اصول وضوابط کی رو سے یہ بات زیادہ درست معلوم نہیں ہوتی؛کیونکہ نماز جنازہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک سفارش ہے اور دربارالٰہی میں سفارش اسی کی قبول ہوتی ہے جو صلاح وتقویٰ میں مرجعیت کا مقام رکھتا ہو، اسی لیے تو فقہاء نے خلفاء وامراء اور سلاطین وقضاة کے ساتھ محلہ کی مسجد کے امام کو بھی غیر افضل ولی پر مقدم کیا ہے، سقوط خلافت کے بعد گویہ مقدس مناصب باقی نہ رہے؛ لیکن ان کے لائق شخصیات تو موجود ہیں؛ ا س لیے اکا بر علماء کو نظر انداز کرکے اصاغر کا امامت کے منصب پر کھڑا ہونا صریح بے ادبی وگستاخی ہے جس سے احتراز لازم ہے،راقم کے ذہن میں ان اکابر کی فہرست خاصی طویل ہے جن کے ورثاء خودبلند پایہ علماء تھے لیکن اپنے مرحومین کا جنازہ پڑھانے کے لیے انھوں نے وقت کے اولیا ومقبولین کو زحمت دی اور خود عام مقتدیوں کی طرح ان کے پیچھے صف باندھ کر کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت کے آداب وتقاضوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں!
———————————————
دارالعلوم ، شمارہ :12، جلد:105، ربیع الثانی – جمادِی الاول 1443ھ مطابق دسمبر 2021ء
٭ ٭ ٭