غنیة المتملی شرح منیة المصلی
(تحقیق و تعلیق :مفتی محمد اسد اللہ آسامی)
ایک تعارف
بہ قلم: مفتی امانت علی قاسمی
استاذو مفتی دار العلوم وقف دیوبند
فقہ وفتاوی سے وابستہ افراد اس حقیقت سے واقف ہیں کہ فقہ حنفی میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں،امام محمد کی ظاہر الروایت سے لے کر متقدمین و متاخرین نے فقہ حنفی کی عظیم لائبریری تیار کررکھی ہے؛ لیکن چند کتابوں کو اس قدر قبولیت و مرجعیت حاصل ہے کہ کوئی مفتی ان سے بے نیاز اور کوئی بھی صاحب فتوی ان سے پہلو تہی نہیں کرسکتاہے، ان میں علامہ شامیؒ کی مشہور و معروف کتاب ”ردالمحتار حاشیہ علی الدر المختارشرح تنویر الابصار“ ہے،جسے ”حاشیہ ابن عابدین“ اور” فتاوی شامی“ جیسے ناموں سے بھی یاد کیا جاتاہے، علامہ شامی کی یہ کتاب اس قدر مقبول ہے کہ حاشیہ ہونے کے باوجود اس کو فتاوی کی اہم کتابوں میں شمار کیا جاتاہے اور دارالافتاء میں سب سے زیادہ مراجعت کی جانے والی کتاب سمجھی جاتی ہے۔
غنیة المتملی شرح منیة المصلی کا تعارف
اسی طرح طہارت و نماز کے مسائل میں ایک مفصل معتبراور اہم کتاب علامہ حلبی کی” غنیة المتملی شرح منیة المصلی“ ہے، جسے ”غنیة المستملی“، ”حلبی کبیر“، ”الشرح الکبیر“اور” کبیری“ جیسے ناموں سے بھی یاد کیاجاتاہے۔ یہ منیة المصلی کی شروحات میں سب سے زیادہ قابل اعتماد اور معتبر ہے۔ طہارت و نماز کے باب میں سب سے زیادہ جزئیات کا احاطہ اس میں پایا جاتا ہے؛ بلکہ اس کتاب میں وہ جزئیات موجود ہیں جو عام طورپر دیگر کتب فقہ میں نہیں ہیں۔ علامہ طاش کبری زادہ(م ۹۶۸ھ)کا قول ہے کہ” علامہ حلبی نے نماز کے مسائل میں سے کسی مسئلے کو ترک نہیں کیا۔ فقہ و فتاوی سے دل چسپی رکھنے والے حضرات واقف ہیں کہ جس طرح علامہ ابراہیم حلبی نے اپنی کتاب میں فقہ حنفی کی معتبر کتابوں مثلا امام محمد کی” الاصل“، ”کتاب الآثار“، ”المحیط البرہانی“، ” المبسوط للسرخسی“ اور ”فتاوی قاضی خاں“ سے بھر پور استفادہ کیا ہے؛ اسی طرح بعد کے لوگوں نے نماز کے مسائل کے لیے ”غنیة المتملی“ پر بہت زیادہ اعتماد و اعتناکیا ہے، معروف فقیہ علامہ شامی کی کتاب ردالمحتار بھی اس کتاب کے حوالے سے بھر پری ہے، علامہ طحطاوی نے بھی اس سے خوب استفادہ کیاہے۔خود اکابر علما ئے دیوبند کی تحریروں اور فتاوی میں” غنیة المتملی“ کے حوالے کثرت سے ملتے ہیں۔ اس کتاب کی مقبولیت کے دیگر ا سباب میں ایک سبب یہ بھی ہے کہ علامہ حلبی نے صرف مسائل کے بیان پر اکتفا نہیں کیا؛بلکہ عام طورپر ائمہ اربعہ کے مذاہب مع دلائل بیان کیے ہیں اور فقہ حنفی کی وجوہ ترجیح بھی ذکر کی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے احادیث کا بڑا ذخیرہ اپنی کتاب میں جمع کردیاہے صرف طہارت و نماز کے مسائل پر محیط اس کتاب میں کم و بیش دو ہزار احادیث مذکور ہیں، انھیں خصوصیات کی بنا پر یہ کتاب اہلِ علم کے درمیان کافی مقبول ہے۔
صاحب غنیة المتملی کا تعارف
”غنیة المتملی شرح منیة المصلی“ کے مصنف، علامہ ابراہیم بن محمد بن ابراہیم حلبی حنفی (م۹۵۶ھ ) ہیں۔ یہ حلب(شام) کے رہنے والے ہیں، ابتدائی تعلیم حلب میں حاصل کرنے کے بعد مصر کا سفر کیا اور وہاں علامہ سیوطی اور ابن حجر مکی وغیرہ سے استفادہ کیا، پھر قسطنطنیہ چلے آئے اور وہاں جامع سلطان محمد خان میں امام و خطیب رہے، آپ کو تفسیروحدیث، علوم قرأت وغیرہ میں مہارت تھی اور فقہ حنفی میں ید طولی حاصل تھا،فقہ حنفی کی کلیات اور مسائل پر استحضاراس قدر تھا کہ آپ لوگوں میں ”امام الفقہ“ سے معروف تھے ؛اسی لیے آپ کی کتابوں میں جزئیات کی کثرت پائی جاتی ہے، آپ کی تصنیفات میں ”غنیة المتملی شرح منیة المصلی “ کے علاوہ ”ملتقی الابحر“ اہم کتاب ہے جو فقہ حنفی کا معروف متن ہے جس میں فقہ حنفی کے راجح اقوال کو ذکر کیا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کے درمیان یہ کتاب بہت مقبول ہے اور بعض مدارس کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ آپ نے ”غنیة المتملی“ کا اختصار بھی کیا تھا جو” حلبی صغیر“ کے نام سے معروف ہے۔ دیگر تصنیفات میں” تلخیص الجواہر المضیئة“، ”تلخیص شرح ابن ہمام“، ” تلخیص الفتاوی التاتارخانیہ“،”تحفة الاخبار علی الدر المختار شرح تنویر الابصار“،”حاشیہ علی المطول للتفتازانی“، ” شرح الفیة العراقی “،”نعمة الذریعة فی نصرة الشریعة“ وغیرہ شامل ہیں۔
تحقیق و تعلیق کی ضرورت
کتاب اپنی معنوی خصوصیات کے اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے؛ لیکن اس کی طباعت قدیم زمانے سے جس انداز پر ہورہی تھی، اس سے موجودہ دور میں استفادہ دشوار ہوگیاتھا، دارالافتاء کا کوئی بھی طالب علم جب بھی کسی مسئلے کی تلاش کے لیے” غنیة المتملی“ کی طرف رجوع کرتا تو اس کو یہ احساس ہوتا کہ اس کتاب پر کام کی ضرورت ہے؛ اس لیے کہ اس کتاب میں کوئی فہرست نہیں تھی، ابواب وفصول کے عنوانا ت نہ کے برابر تھے، دیگر ذیلی عنوانات نہیں تھے، قدیم نسخے میں اغلاط وتصحیفات کی کثرت تھی،قدیم کتابت کی وجہ سے اس کے حرو ف بہت باریک اور ملے ہوئے تھے جو قاری کے لیے تشویش کا باعث ہوتے تھے،عبارت کا تسلسل اس درجہ تھا کہ پیراگراف وغیرہ بنیادی چیزیں بھی اس میں نہیں تھیں، رموز املا کی بالکل رعایت نہیں کی گئی تھی، کسی مسئلہ کو تلاش کرنا ہو تو کہاں دیکھا جائے اس کے لیے کوئی ممکنہ رہنمائی نہیں ملتی تھی؛ اس کی وجہ سے ہر مفتی کی خواہش تھی کہ اس پرعصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر کام ہوجاتا تو علمی حلقے کی بڑی ضرورت پوری ہوجاتی۔
اس وقت دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند میں تخریج فتاوی کا کام چل رہاہے اور یہ مرحلہ اس وقت کتاب الصلوٰة میں ہے؛ اس لیے” غنیة المتملی“ کی طرف رجوع کی کثرت رہتی ہے اور ہر دن کسی نہ کسی کی زبان سے یہی نکلتاتھا کہ کاش اس پر کام ہوجاتا تو اس سے استفادہ آسان ہوتا۔ اللہ تعالی جناب محمدمفتی اسد اللہ صاحب آسامی (معین مفتی دارالعلوم دیوبند )کو جزائے خیر عطافرمائے کہ انھوں نے اس اہم کا م کو انتہائی باریک بینی اور غیر معمولی دلچسپی اور بڑے اہتمام و تندہی سے انجام دیااور نہ صرف کتاب کو قابل استفادہ بنادیا؛ بلکہ اس کے حسن میں چار چاند لگا دیا، ان کی تحقیق و تعلیق کی وجہ سے کتاب کی قدر وقیمت میں اضافہ ہوا ہے، اب پڑھنے والا نہ صرف علامہ حلبی کو دعائیں دے گا؛ بلکہ یقینا مفتی صاحب کو بھی اپنی دعا میں شامل کرے گا۔
صاحب تحقیق کا تعارف
جناب مفتی محمداسد اللہ بن جنا ب نور محمد صاحب صوبہ آسام سے تعلق رکھتے ہیں، آ پ دارلعلوم دیوبند کے قابل اور باصلاحیت فاضل اور مفتی ہیں، میں زمانہ طالب علمی سے ہی انہیں جانتا ہوں، کتابوں کے شوقین ہیں، مطالعہ او رتحقیق کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں، فقہی موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی، حفظ کی تکمیل اور عربی ششم تک کی تعلیم مدرسہ نور العلوم ہرہر پور پرتاب گڈھ یوپی میں حاصل کی، پھر۲۰۰۸ء میں دارالعلوم دیوبند سے دورئہ حدیث کے دونوں امتحانوں میں پوزیشن سے فراغت حاصل کی، ۲۰۰۹ء میں تکمیل ادب سے اول پوزیشن سے کامیابی حاصل کی، ۲۰۱۰ء میں افتا کی تکمیل کی اور پھر چارسال تدریب افتا کے ذریعہ فقہ و فتاوی میں مہارت حاصل کی،دارالعلوم دیوبند میں تدریب افتا دو سالہ کورس ہے؛ لیکن آپ کی محنت و لگن اور فقہ و فتاوی کی دلچسپی کی وجہ سے حضرات مفتیان کرام بالخصوص متعلقہ استاذحضرت مفتی زین الاسلام صاحب الہ آبادی (مفتی دارالعلوم دیوبند)کی سفارش پر ارباب شوری نے مزید دوسال کا اضافہ کردیا، اس کے بعد آپ دارالعلوم دیوبند میں ہی ”معین مفتی“ مقرر ہوگئے، مفتی صاحب کو فقہ وفتاوی میں دلچسپی کے ساتھ عربی زبان و ادب میں بھی مہارت حاصل ہے، جدید عربی نثر میں ان کی کتاب ”دروس فی االعربیة المعاصرة“ جو بعض جگہ نصابی طورپر بھی پڑھائی جانے لگی ہے، اس کے علاوہ آپ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے عربی میں ایم اے بھی کیا ہے۔
تحقیق و تعلیق کاپس منظر
مفتی صاحب کے اہم کاموں میں؛ بلکہ کارناموں میں ”غنیة المتملی“ کی تحقیق و تعلیق ہے۔ اس کتاب کے پس منظر پر مفتی صاحب نے اپنے مقدمے میں روشنی ڈالی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ تدریب افتا کے دوران متعلقہ استاذ حضرت مفتی زین الاسلام صاحب الہ آبادی (مفتی دارالعلوم دیوبند ) کے مشورے سے آپ نے ”غنیة المتملی“ کا بالاستیعاب مطالعہ شروع کیا،مطالعہ کے دوران محسوس ہواکہ یہ کتاب جس قدر مفید اور اہم ہے اس سے اس کی موجودہ طباعت کی وجہ سے فائدہ نہیں ا ٹھایاجاسکتاہے؛ اس لیے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے ؛چنانچہ اس ارادے کا تذکرہ اپنے استاذ مفتی زین الاسلام صاحب الہ آبادی دامت برکاتہم سے کیا انھوں نے اس رائے کو استحسان کی نظر سے دیکھا اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس پر کام کرنے کا مشورہ دیا اور پھر مفتی صاحب کے ہی مشورہ سے انھوں نے اس کام کا خاکہ دارالعلوم دیوبند کی موٴقرشوری میں پیش کیا، ارباب شوری نے کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے دارالعلوم دیوبند سے اشاعت کی منظوری دے دی،اور ساتھ میں دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین و شیخ الحدیث حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالنپوری سے مشورہ کرنے اور ان کی آرا کی روشنی میں کام کرنے کا مشورہ دیا۔ محقق محترم نے شوری کی ان تجویزوں کو بھی اپنے مقدمے میں ذکرکیا ہے۔ شوری کی تجویز اشاعت کے بعد محقق محترم نے حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالن پوری اور مفتی زین الاسلام صاحب الہ آبادی کے ملاحظات کی روشنی میں از سر نو مطالعہ شروع کیا اور قریب آٹھ سال کی مسلسل جد جہد کے بعد کام تکمیل کو پہونچا اورتین ضخیم جلدوں میں مکتبہ دارالعلوم دیوبند سے اس کی اشاعت ہوئی ہے، کتاب کے شروع میں دارلعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم کی تقدیم اور مفتی زین الاسلام صاحب الہ آبادی دامت برکاتہم (مفتی دارالعلوم دیوبند) کا کلمةالاشراف بھی ہے، جس میں ان دونوں اکابر نے کام کی اہمیت اور محقق کی جد وجہدکو وقیع کلمات میں سراہا ہے۔
غنیة المتملی پر تحقیقی کاموں کا جائزہ
یہ کتاب تحقیق و تعلیق کے بعدطہارت و نماز کے مسائل کا اہم ماخذ بن گئی ہے، واقعہ یہ ہے کہ جس نے بھی پہلے اس کتاب کا مطالعہ کررکھاہے اب جب اس نئے نسخے کودیکھے گا یقین جانئے دل سے مفتی صاحب کو دعا دے گا، میں نے جب یہ کتاب دیکھی تو مجھے غیر معمولی خوشی ہوئی اور بے پناہ مصروفیات کے باوجود اس کا تعارف لکھنے پر مجبورہوگیا؛ اس لیے کہ یہ اس عظیم کام کا لازمی حق تھا،ا س کتاب میں صرف تحقیق و تعلیق کے نام کے لیے کام نہیں کیا گیاہے؛ بلکہ واقعی محنت کرکے تحقیق کے تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
اس کتاب میں جو کام کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(۱) رموز املاء کی بھر پوررعایت کے ساتھ کمپیوٹر ائزکتابت کی گئی ہے۔
(۲)عبارت کی تصحیح اور سقط و اغلاط کی اصلاح کی گئی ہے، انھوں نے اغلاط کا نمونہ بھی مقدمہ میں پیش کیا ہے۔
(۳)قابل اشتباہ یا مشکل کلمات پر اعراب لگا دیا گیا ہے۔
(۴) بعض مسائل پر توضیحی نوٹ بھی دیا گیاہے جس سے محقق محترم کے فقہی ذوق کا بھی پتہ چلتاہے اور کتاب کے سمجھنے میں آسانی بھی ہوتی ہے، اس طرح کا کام بابصیرت اور فن سے گہری مناسبت رکھنے والا شخص ہی کرسکتاہے۔
(۵)پیراگرافنگ کی گئی ہے جس کی وجہ سے استفادہ میں سہولت ہوگئی ہے۔ قدیم طباعت میں پچاس پچاس صفحات تک کوئی پیراگراف نہیں تھا، جس کی وجہ سے قاری کو پڑھنے میں الجھن محسوس ہوتی تھی۔
(۶)کتاب میں بڑا اہم کام تقابل و موازنہ کاکیا گیاہے؛ اس لیے کہ موجودہ نسخوں میں اغلاط وتصحیفات کی کثرت تھی، صاحب تحقیق نے” کبیری“ کے مختلف مخطوطہ و مطبوعہ نسخوں سے مقابلہ و موازنہ کیاہے۔ مطبوعہ ومخطوطہ نسخوں میں سے سات نسخے جو ان کے پیش نظر رہے ہیں ان کا تعارف انہوں نے اپنے مقدمے میں کیا ہے۔
(۷)حاشیہ میں مشکل الفاظ کی توضیح کی گئی ہے۔ اس سے قاری کے لیے مطلب کو حاصل کرنا آسان ہوجاتا ہے اور مزید کسی طرف رجوع کی ضرورت نہیں رہ جاتی، اس کے لیے مفتی صاحب نے دیگر کتب فقہیہ، شروحات حدیث کے علاوہ کتب لغت سے بھی استفادہ کیا ہے۔ مثلا کتاب میں حضرت علی کا قول نقل کیا گیاہے : التشویس بالمسبحة و الابہام سواک، اس میں التشویس پر حاشیہ لگاکر لکھاہے: مصدر من شوَّسَ الأسنان اذا نظفہا و غسلہا (انظر: معجم لغة الفقہاء وغیرہ)۔ اسی طرح ایک جگہ ایک لفظ”الزاج“آیا ہے، اس پر حاشیہ میں لکھا ہے: الزاج (الزاج الابیض) کبریتات الخرصین (والزاج الازرق) کبریتات النحاس (الزاج الأخضر) کبریتات الحدید (زیت الزاج) حمض الکبریتیک (مج) انظر: المعجم الوسیط) ویقال لہ فی الاردیة: پھٹکری (انظر: مصباح اللغات)
(۸) یہ کتاب احادیث کے ذخیرے کے اعتبار سے بڑی اہم کتاب ہے، صاحب کتاب نے اپنی کتاب میں تقریبا دو ہزار احادیث درج کی ہیں، محقق محترم نے ان تمام احادیث کی تخریج کی ہے اور جو حدیث تلاش بسیار کے باوجود انھیں نہیں مل سکی، اس پر انھوں نے ”لم اجدہ “لکھ دیا ہے۔جو حدیثیں مکمل نہیں تھیں یا الفاظ میں فرق تھا حاشیے میں عموماً اس کی تکمیل یا وضاحت کردی ہے۔ حوالہ دینے میں بھی جدید اسلوب کی رعایت کی ہے، کتب حدیث کے حوالے میں باب اور حدیث نمبر زیادہ اہم مانا جاتاہے نسخوں کے اختلاف کی وجہ سے جلد و صفحات میں عموماً فرق پڑتاہے اس لیے حدیث کے حوالے میں کتاب، باب، اور حدیث نمبر درج کیا ہے، صرف جلد و صفحہ کو درج نہیں کیا ہے۔ اور کتاب کا مکمل بیانیہ مصادر و مراجع کے عنوان کے تحت تیسری جلدکے اخیر میں درج کردیا ہے۔
(۹)اس کتاب کی قدیم طباعت میں ذیلی عنوانات نہیں تھے اور مرکزی عنوانات بھی نہ کے برابر تھے، جس سے قاری کو پڑھنے میں الجھن محسوس ہوتی تھی، محقق محترم نے اس ضمن میں بڑا اچھا کام کیا ہے اورقریب ایک ہزار مرکزی اور ذیلی عنوانات لگائے ہیں۔دارالعلوم دیوبند کے سابق صدر مفتی فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی نے کبیری کے عناوین پر مشتمل تفصیلی فہرست تیار کی تھی،وہ فہرست اب تک مخطوطہ شکل میں موجود تھی، محقق محترم نے جب اپنے کاموں کا خاکہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ فہرست گجرات کے کسی عالم سے حاصل کرکے محقق محترم کو فراہم کردی انھوں نے اس فہرست کو بھی حذف و اضافہ کے ساتھ اس میں شامل کردیا ہے جس سے کتاب سے استفادہ مزید آسان ہوگیا ہے۔
(۱۰) ایک اہم کام یہ کیا گیا ہے کہ کتاب میں جن شخصیات یا کتابوں کا تذکرہ آیا ہے ان تمام کا مختصر تعارف حاشیہ میں دے دیاگیا ہے۔ اس میں انھوں نے بڑی ہمت او رعرق ریزی سے کام لیا ہے اورمعتبر تراجم کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔ بطورنمونہ ملاحظہ فرمائیں : کتاب میں ہے: روی عن ابی القاسم الصفار اس پر محقق محترم نے حاشیہ لگاکر لکھا ہے : ہو احمد بن عصمة أبوالقاسم الصفار البلخی الفقیہ المحدث، تفقہ علی أبی جعفر الہندوانی وسمع منہ الحدیث، روی عنہ أبو علی الحسن بن صدیق الفتح الوزغجنی، مات سنة ست وعشرین و ثلاثمائة وہو ابن سبع و ثمانین سنة (الطبقات السنیة فی تراجم الحنفیة ۱/۱۱۷)
(۱۱)یہ کتاب شرح ممزوج ہے جس میں متن اور شرح کی عبارت ایک ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے اس کے قدیم نسخوں میں متن اور شرح کی عبارت ساتھ ساتھ ہے۔ محقق محترم نے اصل کتاب کی نوعیت کو باقی رکھتے ہوئے ایک بوکس بناکر متن کو اس میں درج کردیا ہے اور متن کی تصحیح کا بھی اہتمام کیاہے۔ متن کے بوکس کے اوپر عنوان قائم لگادیا ہے جس سے مسئلے کو تلاش کرنا بہت سہل ہوجاتاہے۔
(۱۲)یہ کتاب فہرست سے خالی تھی؛ لیکن اب اس کتاب کو فہرست کے اعتبار سے جامع کتاب بنادیا گیا ہے، اس کتاب کی پہلی جلد کی ابتداء میں تینوں جلد کی ایک اجمالی فہرست دی گئی ہے، جس سے اجمالی طورپر ابواب کا تعارف اور مسائل کی نشان دہی ہوجاتی ہے، پھر ہر جلد کے اخیر میں ”الفہارس العلمیہ“ کے عنوان سے تین فہرستیں دی ہیں، ایک آیات قرآنیہ کی فہرست جس میں کتاب میں مذکور تمام آیات کی فہرست ہے، دوسری احادیث نبویہ کی فہرست، جس میں مذکورہ جلد میں موجود تمام احادیث کی فہرست دی گئی ہے، تیسری تمام مسائل و جزئیات کی فہرست ہے، جس سے مسائل کو تلاش کرنا بہت آسان ہوگیاہے۔ آخری جلد میں ان تین فہرستوں کے علاوہ مزید دو فہرستیں دی گئی ہیں، ایک مصادر و مراجع کی فہرست ہے جس میں حروف تہجی کی ترتیب رکھی گئی ہے اوردوسری الفبائی فہرست جس میں پوری کتاب کی حروف تہجی کے اعتبار سے فہرست مرتب کی گئی ہے۔ الفبائی فہرست محقق محترم کا بڑا دقت طلب اور حیرت انگیز کام ہے، اس طرح انھوں نے اس فقہی کتاب کو” فقہی معجم“ میں تبدیل کردیا ہے، اس الفبائی فہرست (موسوعی فہرست )کے ذریعہ اب آسانی سے یہ معلوم کیا جاسکتاہے کہ مطلوبہ مسئلہ اس کتاب میں ہے یانہیں۔ محقق محترم نے اپنے مقدمے میں لکھاہے کہ یہ الفبائی فہرست انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری (سابق صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند)کے مشورے سے مرتب کی ہے، کاش حضرت الاستاذ باحیات ہوتے اور اس تحقیقی کام کو دیکھتے توخوش ہوکر محقق محترم کی حوصلہ افزائی کے لیے ضرور وقیع کلمات تحریر فرماتے اور دعاوٴں سے نوازتے!
مقدمہ تحقیق
مفتی صاحب نے کتاب کے آغاز میں ایک وقیع اور قیمتی مقدمہ تحریر کیا ہے، جس میں انھوں نے غنیة المتملی کی خصوصیات، غنیةپر اہل علم کا اعتماد و اعتنا، تحقیقی عمل کے مراحل، غلطی کی اصلاح کا طریقہ کار، غنیة المتملی کے بعض مخطوطہ و مطبوعہ نسخوں کی تصاویر، اسی طرح فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی کی مخطوطہ فہرست کی تصویر اور غنیةالمتملی اور متن منیة المصلی،اور ان کے مصنف وشارح کا تعارف پیش کیا ہے۔ اس مقدمہ میں صاحب تحقیق نے تحقیق کے پس منظر پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے کاموں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ اس طرح یہ مقدمہ ایک اہم علمی مقدمہ ہوگیا ہے، جس میں قاری کو مذکورہ چیزوں کے تعلق سے اہم معلومات فراہم ہوجاتی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ کتاب پہلے جس قدر قاری کے لیے الجھن اور دقت کا باعث تھی اسی قدر اب یہ کتاب پڑھنے والے کے لیے آسان اور جاذب نظر ہوگئی ہے میں محقق محترم، نگراں اور دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ کو ان کے اس عظیم علمی و تحقیقی کام پر دل کی گہرائی سے مبارک باد پیش کرتاہوں اور ان کے لیے دعا گوہوں کہ اللہ تعالی مفتی صاحب کو اس طرح کے علمی و تحقیقی کام کی مزید توفیق عنایت فرمائے او راس کتاب کو شرف قبولیت بخشے!
——————————————
دارالعلوم ، شمارہ :11، جلد:105، ربیع الاول – ربیع الثانی 1443ھ مطابق نومبر 2021ء
٭ ٭ ٭