یگانہ روز ادیب مولانا نور عالم خلیل امینی کی رحلت
آسمان ادب کا نیر تاباں غروب ہوگیا
(۱۹۵۲-۲۰۲۱ء)
از: مفتی محمد ذیشان احمد قاسمی
خادم مدرسہ امداد العلوم، ٹین پوش، نامپلی، حیدرآباد
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
میر تقی میر #
دوشنبہ ۲۰ /رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ=۲/۳/مئی۲۰۲۱ئکی درمیانی شب تقریباً ایک بجے حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمة اللہ علیہ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور رب کریم کے جوار رحمت میں پہنچ گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
۲۰/رمضان المبارک ہی کو بعد نمازِ ظہر دار العلوم دیوبند کے معروف احاطے ”مولسری“ میں ان کی نماز جنازہ اداکی گئی، جس کی امامت استاذ حدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم نے کی۔بعدازاں ”قربرستان قاسمی“ میں آپ کے جسد خاکی کو سپرد لحد کیا گیا اور اس طرح علم وادب کا ایک ماہتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔
ع آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
ادبی خدمات واعزاز
آپ عربی زبان وادب کے حوالے سے بہت معروف تھے، چنانچہ آپ نے بے شمار عربی مضامین کے علاوہ، ایک درجن مفید ترین عربی کتابیں تصنیف کی، جن میں ”فلسطین فی انتظار صلاح دین“، ”مفتاح العربیہ“ بہت مشہور و مقبول ہوئی اور آپ نے معروف عربی رسالہ ”الداعی“کی تقریباً چالیس سالہ ممتاز ادارت سے عرب وعجم میں بزبان عربی اپنی مہارت کا لوہا منوایا، اور عربی زبان کی لیے عظیم ترین خدمات پیش کیں، ان ہی خدمات کے صلے میں آپ کو صدرِ جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے حکومت ہند کی جانب سے ۴/اپریل ۲۰۱۹ء کو صدر جمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز کیا تھا۔
مولانا مرحوم جہاں عربی کے مایہ ناز ادیب تھے، وہی اردو زبان وبیان کے بھی ایک بے تاج بادشاہ تھے؛ چنانچہ اردو ادب میں بھی آپ کی ممتاز خدمات رہی ہیں۔ آپ کی اردو تحریروں میں بلا کی روانی، چاشنی اور جستگی تھی۔ مزید کہ آپ جتنی خوبصورت اردو لکھتے تھے اتنی ہی شستہ اور شگفتہ اردو بولتے بھی تھے۔ آپ کے الفاظ دل میں اترتے، اور آپ کے تخلیق کردہ مرکبات، و تعبیرات دل و دماغ میں پیوست ہوجاتے ۔
عربی اور اردو دونوں زبانوں پر آپ کو اس قدر دسترس حاصل تھی کہ کہنے والوں کا کہنا بالکل حق بجانب تھا :
”دونوں زبانوں میں آپ کے قلمی شاہکار کو دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہے کہ آپ عربی زیادہ اچھی لکھتے ہیں یا اردو ؟“۔
”وہ کوہ کن کی بات․․․“
ویسے تو اردو زبان میں آپ کی دوسری تصنیفات بھی اپنے عمدہ اسلوب کی بنیاد پر اہل ادب کے درمیان اپنی پہچان رکھتی ہیں؛ لیکن اردو زبان و ادب کے حوالے سے آپ کی سب سے پہلی تصنیف جو آپ کی شناخت بن کر سامنے آئی وہ ”وہ کوہ کن کی بات․․․“ تھی، یہ دراصل حضرت مولانا وحیدالزمان صاحب کے سوانح پر لکھی گئی انوکھی و البیلی کتاب ہے، اس کتاب نے زبان کی شگفتگی، تعبیر کی شستگی، اور طرز نگارش کی عمدگی کی وجہ سے علمی وادبی حلقوں میں بے پناہ مقبولیت، اور داد تحسین حاصل کی۔ حتی کہ بڑے بڑے ممتاز اہل قلم بھی آپ کی اس شاہکار تصنیف کی تعریف وتوصیف کیے بغیر نہ رہ سکے؛ چنانچہ معروف نقاد پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے لکھا ہے :
آپ کی کتاب نے مجھے متاثر ہی نہیں مرعوب بھی کیا ہے۔
اور قاضی اطہر مبارک پوری لکھتے ہیں :
”کتاب اس قدر دلچسپ اور موٴثر انداز میں لکھی گئی ہے کہ ملتے ہی ہاتھ میں لیا تو ختم کرکے ہی رکھا، اس میں نہ انشائیہ ہے نہ سوانحی خاکہ اور نہ سوانح عمری؛ بلکہ اس میں مختصر ہونے کے باوجود سب کچھ ہے“۔
اور معروف موٴرخ مولانا اسیر ادروی ایڈیٹر ترجمان الاسلام بنارس نے کتاب پر اپنے تاثرات کا اظہار اس طرح کیا ہے :
”مولانا مرحوم (وحید الزماں کیرانوی)کے انداز تعلیم و تربیت کی اچھی عکاسی کی گئی ہے، ان کے طریقہ تدریس، جس نے بہت جلد طلبہ میں ذہنی و فکری انقلاب برپا کر دیا، اس کی بہترین منظر کشی کی گئی ہے کہ سارا منظر نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے جو خوبصورت بھی ہے اور دلکش بھی، کہیں کہیں بالکل شاعرانہ انداز ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے کتاب میں دلکشی بڑھ گئی ہے۔“
اور اردو عربی کے شہرت یافتہ ادیب ڈاکٹر شمس تبریز پروفیسر لکھنوٴ یونیورسٹی اپنے تاثراتی مضمون میں لکھتے ہیں :
”کتاب اپنے ظاہری و معنوی خوبیوں کے لحاظ سے ”عروسِ جمیل در لباس حریر کی مصداق ہے“ میں مدیر الداعی کی عربیت کا تو قائل تھا ہی، ماشاء اللہ اردو بھی بہت رواں دواں اور شستہ و شگفتہ ہے۔“ (بحوالہ وہ کن کی بات ص:۳۶۰ تا ۳۷۰ )۔
یہ اور اِن جیسے بیسیوں تاثرات اور مدح سرائیاں اس کتاب کے نصیب میں آئی اور آرہی ہیں، جن کی وہ بجا طور پر مستحق ہے۔
دیگر اہم اردو تصنیفات
نیز آپ کے قلمِ سیال سے سر کردہ دینی و ملی شخصیات پر تعزیتی و تعارفی مضامین کا مجموعہ جب کتابی شکل میں بنام ”پسِ مرگ زندہ“، منظر عام پر آیا تو بہت مقبول ہوا، اور بڑی پذیرائی حاصل کی، اور اب اسی حسین، ادبی سلسلہ کی اور دو کڑیاں”رفتگان نا رفتہ“، اور ”خاکی مگر افلاکی“، زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آیا چاہتی ہیں۔
ترجمہ نگاری
بے شمارعربی و اردو مضامین، اور دونوں زبانوں میں بیش بہا تصنیفات کے ساتھ ساتھ آپ نے پچیسسے زائد مشہور اہل قلم اور بر صغیر کے معروف مفکرین و علماء دین، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، و مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی، جیسے بڑے بڑے مصنّفین کی اردو کتابوں کا عربی میں شاندار ترجمہ بھی کیا۔
آپ کی تحریروں کی مقبولیت کا راز
کسی بھی تحریر کی مقبولیت کے لیے اخلاص وللہیت کے بعد جہاں وسیع مطالعہ، زبان کی شائستگی، و موضوع کا اچھوتا پن، اور دل آویز اسلوب نگارش کا بڑا دخل ہوتا ہے، وہیں اس بات کی بھی شدید ضرورت ہوتی ہے کہ قلمکار اپنی خامہ فرسائی کو ایک اہم فریضہ سمجھ کر انجام دے؛ چنانچہ مشہور ادیب اور معروف قلمکار مولانا ابن الحسن عباسی رحمہ اللہ کی تحریر سے ایک اقتباس قارئین کے پیشِ خدمت ہے، جس میں انہوں نے قلم کی اہمیت اور قلمکار کے مقصد کے تئیں ایک بہترین راہ نمائی کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
”قلم انمول، اس کی صدائے حق، سدا بہار اور اس کی سچائی ناقابلِ شکست ہے، بشرطے کہ قلمکار کو قلم کی اہمیت کا احساس ہو اور وہ اسے پیشہ سمجھ کر نہیں؛بلکہ ایک مقدس فریضہ سمجھ کر انجام دے“۔(داستان کہتے کہتے، ص:۱۳)
راقم نے زبان و ادب سے اپنی دلچسپی کے باعث یہ مشاہدہ کیا کہ مولانا امینی کی تحریریں مذکورہ دونوں خوبیوں سے تعبیر تھیں، ان کے تحریر کے سطر سطر سے یہ دونوں خوبیاں واضح طور پر مترشح ہوتی تھیں۔ ان کی تحریرات کا باذوق قاری یقینا گواہی دے گا کہ مولانا امینی اپنے قلم کی اہمیت کا احساس بھی رکھتے تھے، اور مضمون نویسی و تصنیف و تالیف کو ایک مقدس فریضہ سمجھ کر انجام دیتے تھے۔
زبان و ادب کا ایک منفرد معلم
راقم الحروف اپنے ناقص تجربے کی روشنی میں یہ یقین کے ساتھ کہ سکتا ہے کہ عربی زبان کی تعلیم و تدریس کا جو ملکہ اور سلیقہ، اللہ نے آپ کو عطا فرمایا تھا، وہ شاید بہت کم افراد کو نصیب ہوتا ہو، بالخصوص عربی سے اردو میں متعدد اچھوتے، و دلفریب، و معنی خیز ترجموں کی جو خوبی آپ کو میسر آئی، وہ دوسروں میں نا یاب نہ سہی، بہت کم یاب ضرور ہے۔ مزید یہ کہ الفاظ وتعبیرات کے بیش بہا خزانے کے آپ مالک تھے، دورانِ تدریس جب مضمون درس کی افہام وتفہیم فرماتے تو اکثر الفاظ کے چار پانچ مترادفات بزبان عربی و اردو بلاتکلف آپ کے زبان سے ادا ہوجاتے، گو وہ شستہ الفاظ و عمدہ تعبیرات و مترادفات، اور انوکھے جملے، قطار میں دست بستہ آپ کے استعمال کے بڑی بیتابی سے منتظر ہوں۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب# کا ہے اندازِ بیاں اور
آپ کے دار العلوم دیوبند کے تقریباً چالیس سالہ تدریسی دور میں بے شمار تشنہ گان علم و ادب نے آپ سے اپنی علمی وادبی پیاس کو بجھایا، اور آپ سے مستفیض ہوئے۔
میدان تدریس میں آپ کی ایک اورخصوصیت (جو آپ کو اپنے مشفق استاذ مولانا وحیدالزماں صاحب سے گو ترکہ میں ملی ہو) یہ تھی کہ عربی کا اردو متبادل، اور اردو کا عربی متبادل اتنا موزوں اور مناسب بتاتے کہ باذوق طالب علم، فرط مسرت سے سرشار ہو جائے۔
اس ”متبادل“کے تذکرہ سے، شاید راقم الحروف کی مرحوم سے سب سے آخری گفتگو (جو آپ کی وفات سے ٹھیک ایک ماہ قبل) بذریعہ فون ہوئی تھی کا ایک مفید حصے کا ذکر مناسب ہو، پیشِ خدمت ہے:
تقریباً گیارہ (۱۱) منٹ کی مختلف موضوعات پر مشتمل گفتگو کا جو ختام المسک تھا وہ یہ کہ راقم نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے گذارش کی:”الواعد“ جس کو عرب حضرات، یا ماہر عربی داں اپنی تحریروں میں ”الشاب الواعد“ یا ”الأقلام الواعدة“ جیسے مرکبات میں استعمال کرتے ہیں، اس کا مناسب اردو متبادل کیا ہوگا؟ وضاحت فرمادیں، توفرمایا، کہ ”الواعد“یعنی”ابھرتا ہوا“، اور ”الشاب الواعد“: ”ابھرتا ہوا نوجوان“، الأقلام الواعدة:”ابھرتے ہوے قلم کار، جن سے مستقبل میں امید ہے کہ وہ اچھا کام کریں گے“۔ اس متبادل کے حضرت کی زبانی سننے سے راقم کی طبیعت باغ باغ ہوگی۔ اتفاق کہ اسی پر ہماری گفتگو اضطراراً تام ہوئی، اور وہاں ایک ماہ بعد آپ کی حیات مستعار تام ہوئی، آپ سے مزید استفادہ کی حسرتیں محض حسرتیں بن کر رہ گئی۔
ع بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
جانے والے تو چلے جاتے ہیں، ان کی خوبیوں کا ذکر ہی ایک ایسا نذرانہ ہوتا ہے جو پیچھے رہنے والوں کے پاس رہ جاتا ہے، جنہیں وہ پیش کرکے اپنی آتش شوق کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔
آے عشاق، گئے وعدہٴ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
آپ کی ایک نمایاں خوبی
آپ رموزِ اوقاف و املا پربہت توجہ فرماتے اور اس کی اہمیت کی جانب توجہ مبذول کراتے، آپ کا یہ عمل اہل علم اور لکھنے والوں میں بڑا مقبول ہوا اور اس کی بھرپور تقلید کی گئی، اس سلسلے میں آپ نے ایک گراں قدر تصنیف ”حرف شیریں“ (جو دراصل آپ کی تقریر کی کتابی شکل ہے) اہل علم میں معروف ہے، اور طلبہ اور اساتذہ دونوں کے لیے بڑی قیمتی سوغات ہے، اور حرز جاں بنانے کے قابل ہے۔
طرز زندگی
آپ بڑے وضع دار انسان تھے، اعلی ذوق کے مالک تھے، خردو ونوش، رکھ رکھاؤ، صفائی ستھرائی اور قدر ومنزلت کا بڑا خیال رکھا کرتے، اور ان ساری چیزوں میں اپنی مثال آپ تھے، اور تہذیب و شائستگی تو گو آپ کا امتیاز ہو، مختصر یہ کہ آپ اپنے مشفق مربی حضرت مولانا وحید الزماں صاحب قاسمی کیرانوی رحمہ اللہ کی تربیت کا ایک حسین و خوش نما مظہر تھے۔
لباس و پوشاک میں تو خاصے نستعلیق اور نفاست پسند تھے، آپ کے لباس کے تذکرے سے یاد آیا کہ شیروانی آپ کا پسندیدہ لباس تھی، پسند دیدگی کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ موسم گرما ہو کہ سرما کبھی آپ عام مجالس میں شیروانی کے بغیر نہیں نظر آئے، اور گھر میں بھی استری کردہ کپڑوں میں ملبوس رہتے، حتی کہ آپ کے چھوٹے فرزند ارجمند مولوی ثمامہ کے بقول مرض الوفات میں بھی آپ اسی عادت پر عمل کے متمنی رہے ۔
اخلاق و اوصاف
آپ اصول پسند ضرور تھے؛ لیکن کریمانہ اخلاق کے مالک تھے، بڑے مہمان نواز، رحم دل، مخلص، فراخ دل، خندہ رو، اور شریف النفس انسان تھے۔ وقت کے نہایت قدر داں، حوصلہ مند، جفا کش، صاحب عزیمت، اور آہ سحر گاہی کے پابند تھے۔
راقم الحروف کی آخری ملاقات
سال گذشتہ ۲۰۲۰ء کے اواخر، ماہ اکتوبر کے وسط میں جب راقم الحروف کی پہلی عربی تصنیف ”السُّلافة من روائع الشعر و بدائعہ“ بفضلہ تعالیٰ مکمل ہوئی، تو راقم اس کا مسودہ لے کر حضرت والا رحمة اللہ علیہ کے دولت کدہ پر حاضر خدمت ہوا، خیر خیریت وتعارف کے بعد، جب کتاب پیش کی، تو لگ بھگ بیس منٹ کے بغور مطالعے کے بعد کافی سراہا، فرمایا اس جیسی کتاب ہماری نظر سے نہیں گذری، آپ نے ایک نیا کام کیا ہے، کتاب مفید ثابت ہوگی، اور اللہ نے چاہا تو چلے گی، اور مقبولیت کے لیے بہت دعائیں دیں، جب راقم نے حضرت والا رحمة اللہ علیہ کے گراں قدر تاثرات، تحریر کرنے کی درخواست کی تو، بے انتہا مصروفیت اور قلّتِ وقت و کثرت امراض کا عذر کیا، پھر بہ مرضی خود آمادگی ظاہر کی، لیکن کہا: ابھی تو ممکن نہیں، جب بھی مہینہ دو مہینے میں موقع ہوگا، لکھ دونگا، تیار ہوں تو ایک نسخہ رکھ جائیے، اور ہفتے میں ایک دفعہ فون کرکے یاد دلاتے رہیے گا، راقم نے بخوشی اپنی رضامندی ظاہر کی، اور مسودہ کا ایک نسخہ ان کے پاس پہنچا کر رخصت ہوا۔
اور واقعتا ایک ماہ بعد موقع نکال کر آپ نے دل کھول کر اپنے تاثرات لکھے، اور راقم کی توقع سے زیادہ سراہا، کتاب مذکور کو مدارس اسلامیہ کے نصاب میں شاملکیے جانے کے قابل قرار دیا، اور ہر تعلیم یافتہ شخص کے لیے اس کو مفید گردانا، اور اس طرح اس کتاب کی اہمیت سے متعلق ایک وقیع مقدمہ تحریر فرمایا؛ حالانکہ کسی کتاب پر تاثرات اور مقدمہ لکھنے میں ان کا ایک خاص مزاج و مذاق، اور احتیاط مشہور تھا۔ ان کے مقدمہ پر راقم کا تاثر کچھ اس طرح رہا، ”کہ انہوں نے پسند فرمایا تو گو کہ کتاب پر مہر استناد لگ گئی“ اور راقم کو اپنی خوش نصیبی پر آپ رشک آگیا۔
پھر وقتاً فوقتاً بذریعہ فون و مراسلت رابطہ رہا، ہمیشہ دعاؤں سے نوازتے اور راقم کی ترقی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار فرماتے اور وفات سے قبل جب آخری دفعہ فون پر گفتگو ہوئی تو بڑے ہشاش بشاش معلوم ہوئے، بیش قیمت نصائح سے نوازا، راقم کو اس وقت بالکلیہ وہم و گمان نہ تھا کہ یہ حضرت رحمہ اللہ سے آخری گفتگو ہوگی اور علم وادب کی یہ نورانیت، بس اب کچھ ہی ایام کی مہمان ہے۔
مرض الوفات
مولانا ویسے تو کئی برس سے شوگر کے مریض تھے، جس کے سبب کئی امراض کے شکار تھے، بڑھتی عمر کے ساتھ جسمانی ضعف میں اضافہ ہورہا تھا، بینائی بھی کمزور ہوچکی تھی، آخر کار جب۱۴۴۲ھ رمضان المبارک سے دودن قبل شدید بخار ہوا، اور ایک ہفتہ مسلسل رہا، پھر سانس لینے میں دشواری، وغیرہ کی شکایت پیدا ہوئی، ہسپتال میں داخل کیے گئے، لگ بھگ ۲۳/۲۴ دن موت وزیست کی کشمکش رہی، آخر کار دوشنبہ ۲۰/رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ/۳/مئی ۲۰۲۱ء کی تقریباً ایک بجے شب زندگی نے ہار مان لی اور آپ مالک حقیقی سے جا ملے۔ حضرت الاستاذ تو اب اس جہان فانی میں نہیں رہے؛ مگر ان کی یادوں کی قندیل ہمارے دلوں میں سدا ضو فشانی کرتی رہے گی۔
اللہ حضرت والا رحمة اللہ علیہ کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کی تربت کو آماجگاہ رحمت بنائے، آپ کے جملہ خدمات کو قبول فرمائے، دار العلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطا کرے۔
مثلِ ایوانِ سحَر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبِستان ہو ترا
—————————————–
دارالعلوم ، شمارہ :10، جلد:105، صفرالمظفر – ربیع الاول 1443ھ مطابق اكتوبر 2021ء
٭ ٭ ٭