حضرت مولانا قاری سیّدمحمدعثمان منصورپوریؒ

حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث ومعاون مہتمم حضرت مولانا قاری سیّدمحمدعثمان منصورپوری نوراللہ مرقدہ کی وفات کا حادثہ ایسا ہے جس کی سنگینی سے خود دارالعلوم اور اس کے متعلقین اور جمعیة علماء ہند اوراس کے خدام بے پناہ متاثر ہوئے۔ ذاتی طور پر راقم سطور کے لیے بھی یہ بہت بڑا حادثہ ہے، دارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا ریاست علی بجنوری نوراللہ مرقدہ کے علاوہ جن اساتذئہ کرام سے زیادہ استفادہ کا موقع ملا اُن میں حضرت مولانا نورعالم صاحب اور حضرت قاری صاحب نوراللہ مرقدہما سرفہرست ہیں؛ اس لیے ضروری تھا کہ احقر، تفصیلی تاثرات پیش کرتا؛ لیکن یہاں بھی مضامین کی کثرت اور صفحات کی تنگی کا سامنا ہے؛ اس لیے سردست چند سطور پر ہی اکتفاء کررہا ہوں اور جلد ہی ان شاء اللہ اس کی تلافی کی کوشش ہوگی۔

            حضرت قاری صاحب کی شخصیت پر نظر ڈالی جائے تو بے ساختہ، مرد مومن کے بارے میں اقبال کے اشعار ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں:

نرم، دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو

رزم ہو یا بزم ہو پاک دل وپاک باز

اُس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل

اس کی ادا دلفریب، اس کی نگہ دل نواز

            وہ ایک باکمال استاذ، بے مثال مربی اور دوراندیش وباریک بیں منتظم تھے، انھوں نے دارالعلوم دیوبند اور جمعیة علماء ہند میں اعلیٰ مناصب پر رہ کر جس طرح کام کیا وہ ان کی غیرمعمولی شخصیت کا ثبوت ہے، حضرت قاری صاحب کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی فعالیت ہے وہ کتنے شعبوں میں کام کرتے تھے، اس کا تجزیہ ہی ایک تفصیلی تحریر کا متقاضی ہے، دارالعلوم میں تدریس کے علاوہ اُن کی سرگرمی کا سب سے بڑا میدان شعبہٴ تحفظ ختم نبوت تھا، اس کے پلیٹ فارم سے حضرت نے پورے ملک میں جس طرح کام کیا وہ ایک پوری تاریخ ہے، وہ طویل عرصہ تک دارالعلوم کے نائب مہتمم کے منصب پر فائز رہے اور آخر میں دوبارہ معاون مہتمم کی حیثیت سے انتظام میں شریک ہوئے۔ ان تمام تر ذمہ داریوں کے ساتھ تدریس کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش، اسی طرح طلبہ کی تربیت اوراُن کی انجمنوں کی نگرانی، النادی الادبی اور مدنی دارالمطالعہ کی بھرپور سرپرستی اور نہ جانے کتنے کام تھے جو اُن کی ذات سے متعلق تھے اور خاص بات یہ کہ وہ کوئی بھی کام سرسری انداز میں کرنے کا مزاج ہی نہیں رکھتے تھے۔ اس کی برکت تھی کہ انھوں نے اپنے صاحبزادوں کی کامیاب تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ بے شمار افراد مختلف میدانوں کے لیے تیار کیے۔

            اپنی تمام تر منصبی اور خاندانی عظمتوں کے باوجود اُن کی تواضع وانکساری اور خوش اخلاقی ان کی عظمت کا ایسا نشان ہے جس کی مثالیں ملنا مشکل ہے۔

            اللہ رب العزت حضرت کی مغفرت فرمائے اور دارالعلوم دیوبند اور ملت اسلامیہ ہندیہ کو اُن کا نعم البدل عطا فرمائے۔

————————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :9،    جلد:105‏،  محرم الحرام – صفر المظفر 1443ھ مطابق   ستمبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts