از:مولانا شاہ عالم گورکھپوری

نائب ناظم کل ہند ختم نبوت دارالعلوم دیوبند

            میرے مولیٰ مدد فرما! زندگی میں آج اُن پر لکھنے کی باری آئی ہے، جنھوں نے لکھنا سکھایا تھا۔ نہیں معلوم تھاکہ وقت وہاں بھی لاکھڑا کرے گا کہ جس کا کبھی واہمہ تک نہ گذرا ہو اور زندگی کے ایک ایسے حادثے کو بھی لکھنا پڑے گا کہ جس کا کرب والم تعبیر میں لانا ممکن نہیں؛ لیکن کائنات کے اس تانے بانے میں لکھنا لکھانا بھی اپنے مرحومین کو یاد رکھنے کا ایک ذریعہ ہے تو سکون دل کے لیے قلم اٹھانا ہی پڑا۔

آئیں گے آپ یاد سدا ہر بہار میں

صدیوں رہے گا بزم سخن ور میں تذکرہ

            اپنے ذاتی حوادث سے الگ تحفظ ختم نبوت کی خدمات بجالانے کے دوران بھی بے شمار حوادث سے گذرنا پڑا؛ مگر ایسا کبھی نہ ہوا کہ ہمت وحوصلہ نے قلم کا دامن چھوڑ دیا ہو۔ ابھی حضرت کے انتقال سے دوماہ قبل ایک ایسے حادثہ کا شکار ہوا کہ خود اپنی زندگی کی امیدجاتی رہی؛ لیکن ان حالات میں بھی جب حضرت کے پاس اپنی روداد غم سنانے بیٹھا تو حضرت کے، پُراعتماد وحوصلہ بخش چند جملوں نے زندگی کے لیے اکسیر کا کام کیا ”انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہی فرمانے لگے؛ حوصلہ مت ہارو! میں دعا کرتا ہوں سب ٹھیک ہوجائے گا، اطمینان رکھو! لوگوں پر اس سے بڑے بڑے حادثے آتے ہیں“۔ قارئین کرام! یقین مانیے کہ حضرت مخدوم اور اس خادم کے مابین دل کو دل سے جو راہ ہوتی ہے وہ اتنی قوی تھی کہ ان جملوں سے پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی غم کافور ہوتا نظر آیا، آنسو تھم گئے اور زندگی کو حوصلہ ملنے لگا؛ لیکن حضرت کی رحلت سے دل ودماغ پر جو ایک سکتہ طاری ہے وہ دور نہیں ہوتا؛ آج دو ماہ گذرنے کو ہیں؛ لیکن قلم اس لیے چلتا نہیں کہ جنھوں نے اسے چلانا سکھایا؛ نہیں معلوم تھا کہ مجھے ان پر لکھنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے حضرت والا کو اپنا قرب اور کروٹ کروٹ چین و سکون نصیب فرمائے، آمین!

آنکھیں ہیں اشکبار، قلم سوگوار ہے

صدیوں رہیں گی آپ کی یادیں سکون دل

            اکتوبر ۱۹۸۶ء میں جب دارالعلوم دیوبند میں پہلا عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت ہوا تو اپنے ہم جماعت طلباء کے ہمراہ اس ناچیز کو بھی ختم نبوت کے موضوع پر مقالہ لکھنے کا موقع ملا اور وہ مقالہ ہی کسی قدر حضرت قاری صاحب سے متعارف ہونے کا سبب بنا اور یہ میرے عربی ششم کا سال تھا۔ پھر دورئہ حدیث شریف سے ۱۹۸۹ء میں فراغت کے بعد اپنے اساتذہ؛ بالخصوص حضرت مولانا قمرالدین گورکھپوری مدظلہ اور حضرت مولانا مفتی محمدیوسف تاؤلوی مدظلہ کے مشورے سے راقم نے شعبہٴ تحفظ ختم نبوت کو اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے لیے منتخب کیا اور حضرت قاری صاحب سے سابقہ شناسائی مزید گہری ہوتی چلی گئی۔ پھرحضرت قاری صاحب کی شفقت اور مثالی انداز تربیت نے بہت جلد اس حدتک اپنا گرویدہ کیا کہ ۱۹۹۰ء میں خود کو تحفظ نبوت کے لیے وقف کرنے کو ہی اپنی زندگی کا حاصل بنالیا؛ جبکہ قابل اعتماد اداروں میں موقف علیہ تک کی کتابیں تدریس کے لیے مل رہی تھیں، عصری تعلیم میں جانے کے لیے بھی راستے ہموار تھے، بزنس خود اپنے گھر کی تھی؛ لیکن حضرت قاری صاحب کے واسطے سے تحفظ ختم نبوت کی نت نئی خدمات سے ایک لگاؤ تھا جو کہیں جانے نہیں دیتا تھا اورنہ آج تک کہیں جانے دیا۔

            اسی دوران جب میری زبان سے بار بار حضرت قاری صاحب کے تذکرے سن کر بندہ کے والد ماجد (محمدحدیث صاحب رحمة اللہ علیہ) دیوبند ملاقات کے لیے آئے تو حضرت قاری صاحب کی شفقت ومحبت بچشم خود دیکھ کر واپسی میں فرمایا کہ اب دیوبند چھوڑ کر تمھیں کہیں نہیں جانا ہے۔ پھر تو خوشیوں کی اس سے بڑی سوغات دنیا میں اور کیا ہوسکتی تھی کہ روحانی مربی کی خواہش کے مطابق والد محترم کی اجازت بھی مل گئی؛ بلکہ حضرت والد صاحب (اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھردے اوراپنا قرب نصیب فرمائے، آمین) دیوبند میں مکان بنانے کی تدابیر میں تعاون بھی فرمانے لگے ؛ کیوں کہ بندہ اس وقت شادی شدہ بھی ہوگیا تھا۔

            شعبہٴ تحفظ ختم نبوت میں طالب علمی کا دور گذرنے کے بعد ۱۹۹۰ء میں جب عارضی تقرر ہوا تو یہ سب کچھ حضرت قاری صاحب کی شفقت ومحبت کا نتیجہ تھا، خادم کو مجلس سے متعلق مفوضہ امور بجالانے کے سوا دارالعلوم میں تقرر کے نشیب وفراز کو جاننے یا معلوم کرنے سے بھی سروکار صرف اور صرف اس لیے نہ تھا کہ اپنے بڑوں اور بزرگوں سے ملی معمولی سی سہی؛ علم کی بدولت یا حضرت قاری صاحب کی شفقت پدری کے سبب؛ اتنی عقل تو آگئی تھی کہ:

تو بندگی چوں گدایاں بشرط مزدہ مکن

کہ خواجہ خود روش بندہ پروری داند

            حالت یہ تھی کہ اب دارالعلوم دیوبند کا بندہ ملازم ہوگیا تھا؛ لیکن ہمت اتنی نہ تھی کہ تنخواہ کے سارے پیسے اپنے پاس رکھ لیتا۔ تنخواہ ملتے ہی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر جمع کردیتا اور حسب ضرورت خرچ کے لیے لیتا رہتا۔ حضرت نے معاملات میں لین دین کی جو مثالی؛ بلکہ عدیم النظیرتربیت فرمائی، واقعی شریعت اور اسلامی تصوف کا وہ نادر نمونہ ہے جو بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس زمانے میں دس اور پانچ پیسے کی اہمیت گھٹتی جارہی تھی اور باہمی ربط باپ بیٹے جیسا ہوتو اس کی حیثیت اور بھی کچھ نہیں رہ جاتی؛ لیکن حضرت جب پیسے دیتے تو اس کو بھی باضابطہ لکھتے اور لکھواتے اور پھر ادا بھی کرتے اور کھلے پیسے بروقت نہ ہوئے تو کچھ بولے بغیر اٹھ کر گھر میں جاتے اور وہ پانچ پیسے لے کر آتے اور فرماتے ”اس کو رکھو“ انداز میں اگر شفقت ہوتی اجنبیت بھی اس غضب کی ہوتی تھی کہ لینے سے انکار کرنے کی ہمیت ہی نہ ہوسکتی تھی۔ جب کچھ زیادہ بے تکلفی ہوئی تو سفر میں بسا اوقات بندہ بول پڑتا کہ حضرت اس کی ضرورت نہیں۔ ایک دو دفعہ سننے کے بعد فرصت میں جب بھاری بھرکم انداز میں تنبیہ فرمائی تو عقل کھلی کہ لوگ تعلقات میں شریعت کا مذاق بناتے ہیں جب کہ پائی پائی کا حساب لکھنا اور صرف لکھنا ہی نہیں؛ بلکہ اس کے مطابق ادا کرنا اور پوری زندگی کو اس کے مطابق بنانا عین شریعت ہے۔ ایک پیسے کی حیثیت ادائیگی میں وہی ہے جو ایک لاکھ کی ہے۔ ادائیگی کے لیے مقررہ وقت کو بھی حضرت اتنی ہی اہمیت دیتے تھے، یہاں تک کہ اگر دفتر فروخت شدہ کتب کی رقم شام تک مدرسہ میں جمع نہ ہوتی تو سخت تنبیہ فرماتے کہ اس کی ادائیگی یعنی محاسبی میں جمع کرنے میں تاخیر مت کرو۔ یہ عمل دیکھنے میں اگرچہ معمولی سا لگتا ہے؛ لیکن حضرت اس کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ اب یہ عمل اس خادم کی زندگی کا معمول بن گیا۔

            قارئین کرام! مجھے اس وقت یہ احساس شدت کے ساتھ ستا رہا ہے کہ بعض لوگ میری تحریر کو پڑھ کر اُکتارہے ہوں گے اور بے لذت کی راگنی سمجھ کر مجھے یا اس مضمون کے ناشر کو کوسنا بھی شروع کردیں گے؛ لیکن یاد رہے کہ ایسوں کے لیے میں نے یہ لکھنا شروع نہیں کیا ہے؛ یہ تو حقیقت پر مبنی وہ آپ بیتی ہے جو ۱۹۹۰/ سے لے کر مئی ۲۰۲۱/ تک آنکھوں سے دیکھا اور عمل میں برتا ہے، اس میں لفاظی کے ذریعہ چاشنی پیداکرنے کے لیے تصنع بھرے حکایات وواقعات کہاں سے لایا جاسکتا ہے اور معارف کیجیے گا جس نے قلم پکڑنا سکھایاہے وہاس منحوس فن سے کوسوں ہی نہیں؛ بلکہ لاکھوں میل دور تھا، تو مجھ سے اس کی توقع فضول ہوگی۔ ہمارے حضرت جس طرح پائی پائی کا حساب لینا اور دینا سکھا کے ہی نہیں؛ بلکہ ۳۲ سال تک مشق کراکے گئے ہیں اسی طرح الفاظ کے استعمال میں احتیاط اور خواہ مخواہ حکایت آرائی سے اجتناب میں بھی عملی طور پر شریعت کا سبق سکھا، پڑھاگئے ہیں۔ بے محل اور بے جا القابات؛ بلکہ اگر کسی غیرمستحق کے بارے میں لفظ ”حضرت“ لکھ دیا جاتا تو اس پر تنبیہ فرماتے اور جہاں چھوٹ جاتا تو اس پر تنبیہ فرماتے۔ کسی سے سخت سے سخت اختلاف کے دنوں میں بھی ایسے الفاظ استعمال کبھی نہ کرتے تھے کہ فریق مخالف سے معافی مانگنی پڑے یا اپنی عاقبت خراب ہو۔ بہرحال موضوع پر آئیے اور باہمی معاملات کو اس واقعہ کے تناظر میں دیکھیے۔

            دسترخوان پر جب بیٹھتے تو کھانے میں یا مشروب میں کوئی چیز خاص آپ کے لیے آتی تو اس خادم کے لیے بھی اسی مقدار میں آتی حتی کہ افطار میں یا سحر میں دودھ میں پسا ہوا بادام ایک کپ آپ کے لیے آتا تو اس خادم کے لیے بھی اتنا ہی آتا تھا۔ اگراور کوئی مہمان شریک ہوتا تو اس کے لیے بھی یہی نظم ہوتا تھا۔ پورے رمضان سحری میں حضرت کے ساتھ اس طرح شریک رہتا کہ اپنا گھر بھول جایا کرتا تھا۔ رمضان کا مہینہ، سحری کا تنگ وقت، بیٹھنے کی جگہ نہیں، چڑھتے ہوئے زینے کی آخری چوکی پر بیٹھ کر خادم ومخدوم سحری کھاتے، امی جان (اللہ تعالیٰ ان کی عمر دراز کرے اور تاحین حیات سکون وعافیت عطا فرمائے، آمین) جلدی جلدی گھر میں سے گرم گرم روٹی، چائے بادام اور دودھ سے لبریز پیالی وغیرہ تیار کرتیں اور حضرت خود ہی اٹھ اٹھ کر دسترخوان پر رکھتے۔ یہ تھی اس خادم کے ساتھ شفقت ومحبت؛ لیکن معاملات میں ایسی اجنبیت ٹپکتی کہ دس پانچ پیسے بھی ادا کرتے اوراس کو باضابطہ لکھواتے تھے۔

            ۱۹۹۳/ کے اوائل میں کسی وجہ سے بندہ دارالعلوم سے مستعفی ہوگیا۔ حضرت نے بذریعہ خط پوچھا کہ عہدے سے استعفیٰ دیا ہے یا کام سے بھی؟ بندہ نے وضاحت کردی کہ صرف عہدے سے استعفیٰ ہے کام سے نہیں! تو فرمایا کہ رمضان کی تعطیل یہاں دیوبند میں گذارنے کا معمول بناؤ اورجس مدرسے میں ملازم ہو وہاں تدریسی مصروفیات سے جو بھی وقت بچے اس کو تحفظ ختم نبوت کے کام میں لگاؤ، تاکہ کام چلتا رہے؛ چنانچہ ۱۹۹۳/ تا ۱۹۹۵/ تین سال تک مسلسل یہی معمول رہا کہ رمضان کے پہلے عشرے میں دیوبند حاضر ہوجاتا اور رمضان کے معمولات کے علاوہ تمام اوقات دفتر تحفظ ختم نبوت میں صرف ہوا کرتے تھے، حضرت قاری صاحب ان دنوں باضابطہ الاؤنس ادا کرتے اور اس کو بھی لکھواتے، ان میں سے بہت سی تحریریں ابھی راقم کے پاس محفوظ ہیں۔

            پھر ۱۹۹۶/ میں جب دوبارہ تقرر ہوا تو تحفظ ختم نبوت کے شعبے میں تدریسی نظام میں مصروفیت کے ساتھ ملک میں تحفظ ختم نبوت سے وابستہ اسفار کے سلسلے بھی پڑھتے چلے گئے۔ تجربہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ ٹرین کے سفر میں بھوک بھی زیادہ لگتی ہے اور نیند بھی زیادہ آتی ہے۔ حضرت بیشتر اوقات مجھ ناچیز خادم کی رعایت میں کھانے پینے کے سامان خریدتے اور معمولی سا استعمال کرکے سب میرے حوالے کردیتے، بندہ ٹرین میں خوب کھاتا اورنیندبھر سوتا، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ جب پلیٹ فارم آجاتا اور سامان کھڑکی کے پاس لگالیتے اس وقت مجھے نیند سے جگاتے تھے۔ بربنائے شفقت سفر میں خود کو مخدوم اوراس خادم کو خادم سمجھنے کا مزاج ہی نہیں رکھتے تھے۔

            مجھے خوب اچھی طرح سے یاد ہے کہ دیوبند سے دہلی کے لیے صبح ۶بجے ایک اسپیشل بس چلا کرتی تھی جو جمعیة علمائے ہند کے دفتر سے بہت قریب ایک بڑی بلڈنگ کے پاس تک جاتی تھی، جب اس بس سے سفر ہوتا تو دہلی اتر کر کتابوں کا بنڈل اپنے کندھے پر رکھتے اورمجھے اپنا بیگ سامان وغیرہ جو عموماً ہلکا ہوتا تھمادیتے تھے۔ یا ایک بنڈل میرے اوپر لادتے تو دوسرا بنڈل خود اپنے کندھے پر بھی رکھ لیتے، میں بارہا پیش کش کرتا کہ ابھی ایک بنڈل رکھ کر چند منٹ میں واپس دوسرا لے جاؤں گا مگر وہ کبھی اس کے لیے تیار نہ ہوئے؛ بلکہ جب موقع ملتا تواس پر تشجیع فرماتے کہ کتابیں اگرچہ بوجھ ہوتی ہیں اور بعض لوگ ناگوار بھی محسوس کرتے ہیں؛ مگر تم ثواب کی نیت سے ضرور اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ کتابیں رکھا کرو، نہ معلوم کس کو تمہارے ذریعے سے وہاں پہنچنے والی کتاب سے ہدایت مل جائے۔ کبھی کبھی مثال میں حضرت مولانا سیدارشاد احمد صاحب سابق مبلغ دارالعلوم دیوبند اور دیگر علماء کے حوالے دیتے کہ یہ لوگ اتنے بڑے بڑے عالم گذرے ہیں پھر بھی موضوع اور مقصد سے متعلق کچھ نہ کچھ کتابیں اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے اور ضرورت مندوں کو فروخت کردیا کرتے تھے۔

            اگربھاگلپور، پٹنہ وغیرہ کا سفر ہوتا یا وہاں سے ٹرین گذررہی ہوتی تو پھر تو رفقائے سفر کی خوشیاں دوبالا ہوجاتی تھیں؛ کیوں کہ کہیں مولانا محمد قاسم صاحب مرحوم، سبل پور والے اور کہیں دگہی کے حاجی صاحب اور کہیں حافظ محمد صالح صاحب مرحوم اورکہیں مولانا قمرصاحب مدرسہ شاہ جنگی وغیرہ، حضرت سے ملنے آتے تو چاہے رات کے بارہ بج رہے ہوں بہت کچھ کھانے پینے کا سامان ساتھ لاتے اور حضرت کو اس سے بس اتنی سی دلچسپی ہوتی تھی کہ ہم خدام سیرہوکر کھائیں؛ بلکہ ہم خدام ہی کے لیے منگواتے اور خود معمولی سا چکھ لیا کرتے اور بس۔ کبھی کبھی تو مغل سرائے، بکسر وغیرہ اسٹیشن آتے ہی تفریحاً مسکراتے ہوئے فرماتے: اب مت سونا، پٹنہ آنے والا ہے، یا بھاگلپور قریب ہے اور یہ مرحومین بھی (اللہ ان کی قبروں کو نور سے بھر دے،آمین) خدا معلوم اب کس دنیا میں جابسے؛ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا تحفظ ختم نبوت کے وفد کی آمد کے انتظار میں بیٹھے ہوں؛ بس جہاں اطلاع ملی؛ قسم قسم کے کھانے تیار کرکے ٹرین میں پہنچانا ان کے لیے عید کا سماں پیدا کرتا تھا۔

            قارئین کرام! حضرت کی شفقت ومحبت کے یہ چند نمونے راقم سطور نے پیش کیے جو شروع سے اخیر تک اس خادم کے ساتھ رہے۔ بقیہ حضرت کی زندگی جن جن صفات حسنہ کی حامل تھی اس کی روئداد لکھنا مقصد نہیں، اس پر اور لوگ قلم اٹھائیں گے؛ البتہ کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کی خدمات سے وابستہ زندگی کی تاریخ پر ان شاء اللہ ضرور قلم اٹھانے کا ارادہ ہے اور بتوفیق اللہ اس کا ایک بڑا حصہ جو دارالعلوم دیوبند کے پندرہ روزہ اخبار ”آئینہٴ دارالعلوم“ میں مطبوعہ ہے اس کو راقم سطور نے حضرت کی زندگی میں ہی مرتب بھی کردیا ہے جو دو ہزار صفحات پر مشتمل چار جلدوں میں ہے۔ کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کی یہ علمی، قلمی وزریں تاریخ حضرت کی زندگی میں طبع ہونے سے رہ گئی، امید ہے کہ مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی حسب ہدایت جلد ہی منظر عام پر آجائے گی۔ اور ان شاء اللہ کوشش ہوگی کہ اس تاریخ سے متعلق جو حصہ ”آئینہٴ دارالعلوم“ میں طبع ہونے سے رہ گیا ہے وہ بھی قارئین ومتعلقین کے استفادہ کے لیے منظرعام پر آجائے اور حضرت کی زیرنگرانی انجام پانے والے جن خدمات کا تذکرہ ”ماہنامہ دارالعلوم دیوبند“ میں ہے وہ بھی شامل اشاعت ہوجائے۔

            بہرحال حضرت کی زیرنگرانی کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت میں ۳۱ سالہ زندگی کو چند صفحات میں لانا میرے لیے تو بہرحال مشکل ہے، وقت نے وفا کی تو آہستہ آہستہ کچھ نہ کچھ ان شاء اللہ اس لیے لکھتا رہوں گا کہ اپنے بڑوں کی یہ پاکیزہ عملی زندگی شاید اپنے لیے عمل اور نجات کا ذریعہ بن جائے۔ اللّٰہم وفقنا لما تحب وترضی واجعل آخرتنا خیراً من الاولیٰ، آمین بحرمة النبی الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم․

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9،    جلد:105‏،  محرم الحرام – صفر المظفر 1443ھ مطابق   ستمبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts