امیرالہند حضرت قاری سید محمد عثمان منصورپوری ؒ

زندگی کے نقوش تاباں

از: مولانا اشرف عباس قاسمی

دارالعلوم دیوبند

            ۸/شوال۱۴۴۲ھ مطابق۲۱/مئی۲۰۲۱ئنماز جمعہ کے معاً بعد اس خبر صاعقہ اثر نے انتہائی مضمحل کردیا کہ ہمارے ایک اور بزرگ استاذ،دارالعلوم دیوبند کے معاون مہتمم امیر الہندحضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری بھی طویل علالت کے بعد رفیق اعلیٰ سے جاملے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون․ ان للّٰہ ما أخذ ولہ ما أعطی۔

حوادث کا تسلسل

            وبا کے ان قریبی ایام میں جب کہ دار العلوم دیوبند ،ادیب العصر حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی اور محدث و محقق حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی  جیسے قابل قدر اساتذہ کی خدمات سے محض دس دن کے وقفے سے محروم ہوچکا ہے، صرف ایک ہفتے کے بعداس حادثہ فاجعہ سے دارالعلوم کو اور پوری ملت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ان پے درپے حادثات کی وجہ سے دارالعلوم کے طلبہ اور وابستگان جس کربناک کیفیت سے گزر رہے ہیں،اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

اوصاف واخلاق

            حضرت الاستاذقاری سید محمد عثمان منصورپوری اسلامیانِ ہند کا قیمتی سرمایہ اور کاروانِ ملت اسلامیہ کے قافلہ سالاروں میں تھے۔جمعیة علماء ہند کے صدر عالی قدر اور دارالعلوم دیوبند کے کئی شعبوں کے روحِ رواں تھے۔وہ خانوادہ نبوت سے تعلق رکھنے والے ایک خوش اخلاق، اعلی اقدار اور باکردار انسان تھے۔ ان کے ایک ایک عمل،ظاہری رکھ رکھاؤ اور چہرے بشرے سے شرافت ونجابت عیاں تھی۔ وہ ایک اصول پسند مہتمم،طلبہ سے بے انتہا محبت کرنے والے اور ان کی بہتری وراحت کے لیے اپنے آرام کو تج دینے والے مشفق استاذ،ماتحتوں کا خوب خیال رکھنے والے منتظم ،ملت کی زبوں حالی اور معاشرے کے بگاڑ پر تڑپنے اور اس کی بہبود کے لیے ہمہ وقت منصوبہ بندی کرنے والے مدبرومفکراور بالغ نظر وبابصیرت عالم دین تھے،آپ کی رحلت سے دارالعلوم دیوبند اور اس کے مختلف شعبوں کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔

            حضرت قاری صاحب سے ۱۹۹۹ء میں ہمیں ”موطا امام مالک“ پڑھنے کا موقع ملا،اس وقت آپ استاذ حدیث ہونے کے ساتھ دار العلوم کے نائب مہتمم بھی تھے،ہمارے رفقاء درس میں آپ کے فرزند گرامی جناب مفتی محمدعفان صاحب بھی تھے،جو شرافت ونجابت اور صلاح وصلاحیث میں والدگرامی قدر کا عکسِ جمیل ہیں۔

طلبہ پر شفقت اور انداز تربیت

            طلبہ کے لیے آپ کی شفقت مثالی تھی،معمولی طالب علم بھی اپنا دکھڑا لے کر حاضر ہوتا تو اس کی بات بڑی توجہ سے سنتے جس سے اس کا دل بڑا ہوجاتا تھا،طلبہ کی تقریری وتحریری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے؛چنانچہ طلبہ دارالعلوم کی دو مرکزی انجمنوں ”النادی الادبی“ اور ”مدنی دارالمطالعہ“ کے تا دمِ آخر نگراں وسرپرست رہے،اور آپ کے یہاں اعزازی یا رسمی نگرانی یا کسی مقالے اور کتاب پر سرسری نظر ثانی کا کوئی گزر نہیں تھا؛بلکہ نظر ثانی اور نگرانی کا حق ادا فرماتے تھے، انجمنوں کے پروگراموں کی جزئیات تک پر آپ کی گہری نظررہتی تھی۔ دار الحدیث میں پیرانہ سالی ، ضعف اور مشغولیت کے باوجود دو دو بجے رات تک پروگرام سماعت فرماتے اور کسی بھی طرح کی اصلاح وتربیت سے دریغ نہ کرتے۔

عربی زبان سے والہانہ محبت

            کتاب وسنت کی زبان عربی سے آپ کو خاص شغف تھا، اپنے استاذگرامی قدر حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی کے بے انتہا مداح،ان کے اسلوب تعلیم وتربیت سے متاثر اور اپنے تلامذہ کو آگے بڑھانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے۔ طلبہٴ دارالعلوم کا عربی مجلہ النھضة الادبیة آپ ہی کی تحریک پر شائع ہورہاہے،النادی کے پروگرام میں عربی میں آپ کا کلیدی خطاب ضرور ہوا کرتا تھا،نصف شب گزرجانے کے باوجود بھی آپ کا عربی خطاب سامعین بہ گوش ہوش سنتے؛کیوں کہ آپ روایتی انداز کی تقریر نہیں کرتے تھے؛بلکہ سامع طلبہ سے سوالات بھی کرتے جاتے،جن کا انھیں بروقت کھڑے ہو کر عربی میں ہی جواب دینا ہوتا تھا، حضرت والا کی یہ مستعدی اور فکرمندی ہم جیسے کسل مندوں کے لیے اکسیر کا کام کرتی تھی۔

نشاط کار سے سرشار کرنے والی شخصیت

            اخیر تک پروگرام میں آپ کی فعال شرکت ہمارے لیے بھی پیروں کی زنجیر بن جاتی تھی۔واقعہ یہ ہے کہ حضرت والا کی مغتنم اور متحرک شخصیت بہ طور خاص ہم سہولت پسندوں کے لیے ہمت و حوصلہ اور فکر ونظر کو انتہائی حد تک حرکت دینے اور جمود وکسل مندی سے ہٹا کر نشاط کار سے سرشار کردیتی تھی۔میرے مشاہدے کے مطابق اتنے بڑے استاذ اور اتنے بڑے عہدے دار کی حیثیت سے طلبہ کی تربیت وتشجیع کے لیے سب سے زیادہ آپ ہی وقت فارغ کرتے تھے؛اس لیے اس حوالے سے طلبہ کے درمیان آپ کو غیر معمولی عظمت و جلالت حاصل تھی۔ دوسرے طلبہ کے لیے اس درجہ اخلاص،کڑھن اور فکر کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو صاحبزگان عطا کیے،علم وعمل اور صلاح و قابلیت کے اعتبار سے انھیں خاص امتیاز عطا کیا،مفتی محمدسلمان صاحب ہوں یا مفتی محمدعفان صاحب، دونوں ہی قابلِ فخر باپ کے قابلِ رشک سپوت اور علم و عمل کے آفتاب و ماہتاب ہیں۔ حفظہما اللّٰہ من کل سوء․

بندہ نوازی

            بندے کوبھی حضرت والا کی بڑی شفقتیں اور عنایتیں حاصل رہی ہیں۔۲۰۰۵ئمیں جب پہلی بار جامعہ مظہرسعادت ہانسوٹ میں ”موطا امام مالک“ کا درس احقر سے متعلق ہوا تو سب سے پہلے اس کی اطلاع حضرت والا کو دی، حضرت والا نے بے انتہا مسرت کا اظہار کیا اور فون پر ہی بیس منٹ تک گراں قدر نصیحتوں سے نوازا۔دارالعلوم آنے کے بعد آپ کی عنایتیں اور بڑھ گئیں،النادی کے ہیئة الإشراف میں شامل کرلیا،اور عربی سے متعلق بعض کام سپرد کرنے لگے،میری دونوں بچیاں حضرت کی صاحبزادی کے پاس پڑھتی رہی ہیں؛اس لیے ان کی تعلیم وتربیت کی بابت بھی دریافت کرتے رہتے تھے،صدسالہ بلڈنگ میں منتقلی کے بعد ایک بار عشائیہ پر بندے نے اپنے اساتذہ کرام اور احباب کو مدعو کیا،مغرب کے بعد کا وقت تھا،اس وقت آپ طحاوی شریف کا درس دیتے تھے؛ لیکن کمالِ شفقت دیکھیے آپ نے فرمایا میں دیر سے سہی؛ لیکن تمہارے یہاں ضرور آؤں گا؛ چنانچہ عشاء کے بعد آپ تشریف لائے اور بڑی بشاشت سے جو کچھ پیش کیا جاسکا، تناول فرمایا،بچوں کے سروں پر دست شفقت پھیرا اور اپنی خردنوازی،مروت اور شفقت کے لازوال نقوش دلوں پر ثبت کرگئے۔ جزاہ اللہ عنا خیر الجزاء۔

معاونت اہتمام اور فعالیت

            لاک ڈاؤن کے سبب طویل تعلیمی تعطل کے دوران معزز اراکین مجلس شوریٰ نے جب آپ کے کاندھوں پر مساعدتِ اہتمام کی ذمہ داری ڈال دی تو آپ نے بڑی مستعدی اور تن دہی کے ساتھ اس خدمت گرامی کو انجام دیا، حضرت مہتمم صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ کے لیے بڑا سہارا ثابت ہوئے،حضرت کے مشورے سے آپ نے سارے انتظامی شعبوں کو انتہائی متحرک وفعال بنادیا،تعلیمی تعطل کے ایام کو کارآمد بنانے کے لیے ”تحقیق وتصنیف“ اور ”اصلاح معاشرہ“ کی کمیٹیاں تشکیل دیں اور سارے اساتذہ کو کام میں لگادیا اور روزانہ کی بنیاد پر کارکردگی کا جائزہ لیتے رہے جس سے دارالعلوم کے اساتذہ اور عامة المسلمین کو خاطر خواہ فائدہ پہنچا،مستقبل میں بھی دارالعلوم اور بہی خواہان دارالعلوم کو آپ سے بڑی توقعات وابستہ تھیں؛ لیکن تقدیر ہر تدبیرپر غالب رہتی ہے۔

کلام الٰہی سے عشق اور جشن تکمیل حفظ

            آخری بار آپ سے ملاقات ماہ شعبان کے اواخر میں دیوبند کی تقریب گاہ فردوس گارڈن میں ہوئی،جہاں آپ نے انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ اپنے پوتے حافظ محمد ہشام سلمہ بن جناب مفتی محمد عفان صاحب کے تکمیل حفظ کا پروگرام رکھا تھا اور شاندار پُر تکلف عشائیہ کا بھی نظم تھا،اس مختصر اور باوقار پروگرام میں مخدوم گرامی حضرت مولانا سید ارشد مدنی حفظہ اللہ سمیت علم و عمل کی پوری ایک کہکشاں موجود تھی،میں نے اپنی زندگی میں تکمیلِ حفظ پر حضرت قاری صاحب کی طرح کسی اور کو اس قدر اہتمام اور دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ واقعی حضرت قاری صاحب کو قرآنِ مقدس سے خاص لگاؤ تھا،آپ خود بھی اچھا قرآن پڑھتے تھے اور دونوں فرزندانِ گرامی اور پوتوں کی ایسی تربیت کی ہے کہ ان کی تلاوت سن کر سامعین کی روح سرشار ہوجاتی ہے۔ اس تقریب کے موقع پر علمی و دینی تحفہ کے عنوان سے چند ورقی مضامین بھی سامعین میں تقسیم ہوئے جن میں آپ نے اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے بعض اہم انعامات اور ان کی ترغیب و تحریص پر انتہائی موثر اور متواضعانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ اس پروگرام کے بعد مجھے ایک سفر میں جانا تھا،میں نے ملاقات کی اور سفر کی بابت عرض کیا تو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ دعاؤں سے نوازا؛لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ آخرت اور رب کریم سے ملاقات کے سفر پر تو در اصل آپ روانہ ہونے والے ہیں۔

حیات و خدمات کا مختصر جائزہ

            حضرت قاری صاحب اپنے وطن مالوف منصور پور ضلع مظفر نگر میں ۱۲/اگست ۱۹۴۴ئکو سادات کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔والدہ صاحبہ مرحومہ خان جہاں پور کے موٴقر خاندان سادات سے تھیں،اس طرح آپ نجیب الطرفین تھے۔نانامرحوم حضرت مولانا سید محمد نبیہ صاحب دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ کے رکن رکین رہے ہیں۔ابتدائی تعلیم وطن ہی میں حاصل کی ، والد محترم جناب سید عیسیٰ صاحب نے آپ کی تعلیم و تربیت کی غرض سے دیوبند میں ہی سکونت اختیار کر لی تھی،اس لیے فارسی اور عربی کی مکمل تعلیم دارالعلوم دیوبند سے ہی ہوئی،ابتدامیں دوسال فارسی کی کتابیں پڑھیں،پھر درجہ عربی میں ۱۳۷۹ھ میں داخلہ لیا۔اور شعبان ۱۳۸۵ھ مطابق ۱۹۶۵ئمیں دورئہ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی۔دورہ حدیث شریف کے امتحان سالانہ میں تمام طلبہ میں پہلی پوزیشن آپ کی ہی تھی،حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی آپ کے درسی ساتھیوں میں تھے،دوسری پوزیشن حضرت مولانا رحمانی کی تھی۔ اس کے بعد دیگر فنون کی تکمیل کے ساتھ حضرت قاری حفظ الرحمن صاحب سے تجوید و قرات میں اور حضرت مولانا وحید الزمان کیرانوی سے ادب عربی میں مہارت حاصل کی۔

            اولاً جامعہ قاسمیہ گیا میں پانچ سال تدریسی خدمات انجام دیں، پھر جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں گیارہ سال تک مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھائیں۔

            شوال۱۴۰۲ھ۱۹۸۲ء میں دار العلوم دیوبند میں مدرس مقرر ہوئے، عربی درجہ وسطیٰ ب میں آپ کا تقرر عمل میں آیا،درس و تدریس کے ساتھ مختلف انتظامی ذمہ داریاں بھی آپ سے متعلق رہیں، ۱۹۸۶ئمیں عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت کے موقع پر آپ کو ”کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت“ کا ناظم مقرر کیا گیا، ۱۹۹۹ء میں تدریس کے ساتھ نیابتِ اہتمام کا عہدہ تفویض ہوا ،اور نو سال تک اس اہم عہدہ پر فائز رہے،۲۰۰۸ء میں جمعیت علماء ہند(میم)کے قومی صدر منتخب کیے گئے ۔دارالعلوم کی مجلس شوریٰ منعقدہ صفر ۱۴۴۲ھ مطابق اکتوبر۲۰۲۰ء نے آپ کو دارالعلوم دیوبند کا ”معاون مہتمم“ منتخب کیا۔

            ۸/شوال المکرم ۱۴۴۲ھ مطابق۲۱/مئی ۲۰۲۱ء عین جمعہ کی نماز کے وقت سوا ایک بجے انگریزی تقویم کے حساب سے76سال کی عمر میں آخری سانس لی۔ دہلی اور دیوبند میں جم غفیر نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ دارالعلوم کے احاطے میں میں نمازِ جنازہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے پڑھائی اور نم آنکھوں کے ساتھ ”قبرستان قاسمی“ میں اپنے بزرگوں کے پہلو میں دفن کیے گئے۔

            اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ خاص لطف وکرم کا معاملہ فرمائیں،جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کریں اور آپ کی تربت پر انوار و عنایات کی بارش برسائیں۔ آمین یارب العالمین!

———————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :9،    جلد:105‏،  محرم الحرام – صفر المظفر 1443ھ مطابق   ستمبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts