جمعیة علماء ہند کی مسند صدارت کے تاجور، امیرالہند، استاذ گرامی قدر

حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری نورالله مرقدہ

معاون مہتمم و استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند

از: مفتی ریاست علی قاسمی رام پوری

جامع مسجد، امروہہ

            گزشتہ چودہ پندرہ مہینوں سے ملت اسلامیہ ہند بلکہ برصغیر کے مسلمان عظیم ترین علمی، دینی، ملی اور روحانی شخصیات سے محروم ہوتے جارہے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور کب تک یہ تسلسل برقرار رہے گا کچھ کہنا مشکل ہے، خدا ئے علیم وخبیرہی کو اس کا حقیقی علم ہے۔ علمی، دینی اور روحانی شخصیات کا فقدان اور دنیا کا ان کے وجود مسعود سے محروم ہونا بلاشبہ عالم اسلام اور ملتِ اسلامیہ کا عظیم ترین خسارہ ہے اور علامات قیات میں سے ہے بلکہ قرب قیامت کی طرف واضح اشارہ ہے۔

            ماہ رمضان المبارک سے اب تک ملت اسلامیہ ہند یہ کا دھڑکتا ہوا دل، ام المدارس دارالعلوم دیوبند کو بھی اپنے صف اول کے علماء کبار اور اساتذہ کرام اور متعدد خدام کے سانحہٴ ارتحال سے دوچار ہونا پڑا، ماہ رمضان المبارک کے عشرہ دوم میں عربی زبان و ادب کے معروف اسلامی اسکالر، دارالعلوم دیوبند کے عربی ادب کے ممتاز استاذ و مربی بلکہ موجودہ دور کے شیخ الادب، معروف عربی مجلہ ”الداعی“ کے مدیر، حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی نورالله مرقدہ کا سانحہٴ ارتحال پیش آیا، ابھی موصوف کی رحلت کا غم تازہ ہی تھا کہ ماہ رمضان کے عشرہ ثانیہ کے اختتام پر بالکل آخر دن مشہور محدث، فن اسماء الرجال اور تمام حدیثی علوم و فنون کے ماہر اور رموز شناس بلکہ موجودہ دور کے ابن حجر ثانی، معروف موٴرخ اور مصنف حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمیکی وفات حسرت آیات کا صدمہ دارالعلوم دیوبند کو جھیلنا پڑا۔ اس طرح دارالعلوم دیوبند کے دیگر انتظامی شعبہ جات کے معتمد کارکنان کا سانحہٴ ارتحال بھی اسی ماہ مبارک میں پیش آیا۔ دارالعلوم دیوبند کے پیشکار جناب سید محمد عدنان صاحب عثمانی، مولانا مفتی محمدقاسم صاحب میرٹھی استاذ شعبہٴ فارسی دارالعلوم دیوبند کی رحلت بھی اسی ماہ مبارک میں ہوئی۔

            ان تمام ہموم و غموم کے ساتھ موٴرخہ ۸/شوال المکرم ۱۴۴۲ھ مطابق ۲۱/مئی ۲۰۲۱ء بروز جمعہ عین نماز جمعہ کے وقت ہمارے مشفق و مہربان استاذ؛ بلکہ پدر روحانی، عظیم مرشد و مربی، بے شمار محاسن و کمالات کا مرقع، اور ان گنت مدارس و دینی تنظیموں و اداروں کے روح رواں امیرالہند حضرت الحاج مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری نورالله مرقدہ صدر جمعیة علماء ہند و معاون مہتمم و استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند کی وفات حسرت آیات کا اندوہناک اور جاں گداز صدمہ پیش آیا ہے، جو بلاشبہ ملت اسلامیہ کا عظیم خسارہ ہے۔ آج کی تحریر میں حضرت الاستاذ الموٴقر کے حالات زندگی پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے ۔

نام ونسب، وطن اور ولادت

            آپ کا اسم گرامی محمد عثمان اور والد محترم کا اسم گرامی نواب سید محمد عیسیٰ مرحوم ہے۔ خاندان سادات بارہہ سے آپ کا تعلق ہے، وطن مالوف منصورپور ضلع مظفرنگر صوبہ اترپردیش ہے جو مظفرنگر سے میرٹھ ہائی وے پر چند کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے جہاں ۱۲/اگست ۱۹۴۴ء کو آپ کی ولادت ہوئی۔

            آپ کے والد محترم انتہائی متمول اور زمیندار اور صاحب اثر و رسوخ شخصیت کے مالک، شریف الطبع شخص تھے۔ صلاح و تقوی اور اتباع شریعت، ان کی طبیعت ثانیہ تھی۔خلا ف شرع امور کی ان کی طبیعت میں گنجائش نہیں تھی، اپنی اولاد کو علم و عمل سے آراستہ کرنے کا جذبہ صادق اور عزم راسخ ان کی طبیعت میں موجزن تھا۔اسی جذبہ صادق کی تکمیل کے لیے مع اہل و عیال دیوبند اقامت اختیار فرمائی اور دیوبند اقامت کے زمانہ ہی میں ۱۹۶۵ء میں موصوف نے عالم فانی سے عالم جاودانی کی جانب رحلت فرمائی اور ”قبرستان قاسمی“ میں محو استراحت ہیں۔

 تعلیم و تربیت

            ممدوح حضرت الاستاذ الموٴقر نے ابتدائی تعلیم ناظرہ قرآن اور دینیات وغیرہ اپنے وطن مالوف منصورپور میں حاصل کی اور حفظ قرآن کریم کی تعلیم و تکمیل اپنے والد محترم المغفور کے پاس کی۔

دارالعلوم دیوبند میں داخلہ

            جیسا کہ گزشتہ سطور میں مرقوم ہوا کہ آپ کے والد محترم نے اپنی اولاد کو زیور علم و عمل سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لیے دیوبند اقامت اختیار فرمائی تھی۔ اسی دیوبند قیام کے زمانہ میں غالباً ۱۹۵۸ء یا ۱۹۵۹ء میں آپ نے درجات فارسی میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا، فارسی کی تکمیل کے بعد درجات عربیہ کی تعلیم کا آغاز فرمایا اور سال عربی اول سے درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے دورہٴ حدیث شریف میں داخل ہوئے اور ۱۹۶۵ء میں دورہٴ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی اور دورہٴ حدیث شریف کے سالانہ امتحان میں اول پوزیشن سے کامیاب ہوئے۔

            اس کے بعد ۱۹۶۶ء میں فنون کی تکمیل فرمائی اور ساتھ ہی قرأة سبعہ عشرہ کی تکمیل بھی فرمائی۔

اساتذہٴ دارالعلوم دیوبند

            جن اساطین علم و فضل اور نابغہٴ روزگار شخصیات کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہہ کرکے علوم متداولہ میں کمال اور درک حاصل کیا ان کے اسماء گرامی اس طرح ہیں: فخرالمحدثین حضرت مولانا سید فخرالدین صاحب مرادآبادی نورالله مرقدہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی مہتمم دارالعلوم دیوبند، فخرالعلماء حضرت مولانا سید فخرالحسن صاحب مرادآبادی، حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب بلندشہری، حضرت مولانا عبدالاحد صاحب دیوبندی، حضرت مولانا معراج الحق صاحب دیوبندی، حضرت مولانا اسلام الحق صاحب اعظمی، حضرت مولانا محمد حسین صاحب بہاری، حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری، حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی، حضرت مولانا خورشید عالم صاحب دیوبندی، حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب کیرانوی، حضرت مولانا قاری حفظ الرحمن صاحب پرتاپ گڑھی، حضرت مولانا قاری محمد عتیق دیوبندی، حضرت مولانا سید اختر حسین صاحب دیوبندی۔ اس کے علاوہ بعض دیگر اساتذہ کرام سے بھی آپ نے کسب فیض کیا جن کی تفصیل ہمارے علم میں نہیں۔

            ادیب زماں حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب کیرانوی سے عربی زبان و ادب میں مشق و تمرین کرکے کمال حاصل کیا۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا قاری حفظ الرحمن صاحب پرتاپ گڑھی سے فن تجوید قر أت سبعہ عشرہ کی تکمیل فرمائی اور اس فن میں اس قدر کمال اور مہارت حاصل کی کہ لفظ ”قاری“ آپ کا وصف خاص اور آپ کے اسم گرامی کا جزء لازم بن گیا۔

تزکیہ و سلوک

            آپ نے تزکیہ و سلوک کے حصول کے لیے سب سے پہلے شیخ المشائخ حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنی نورالله مرقدہ و بردالله مضجعہ کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی اور آپ کے تلقین کردہ اوراد و وظائف پر پابندی سے عمل پیرا رہے پھر حضرت شیخ الحدیث نورالله مرقدہ کے نو آپ کو حضرت فدائے ملت جانشین شیخ الاسلام امیرالہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی نورالله مرقدہ صدر جمعیة علماء ہند کے حوالہ کر دیا پھر حضرت فدائے ملت ہی کے زیر نگرانی آپ نے سلوک و معرفت کی تکمیل فرمائی اور حضرت فدائے ملت کی جانب سے ہی آپ اجازت بیعت و ارشاد اور خرقہٴ خلافت سے سرفراز ہوئے۔ پھر حضرت فدائے ملت کے وصال کے بعد آپ نے اس سلسلہ کو وسعت دی اور کثیر تعداد میں عوام و خواص آ پ کے دامن تربیت سے وابستہ ہوئے اور انھوں نے اپنے باطن کی اصلاح فرمائی۔بہت سے لوگوں کو آپ کی جانب سے اجازت بیعت و ارشاد اور خلافت کی دولت عظمیٰ بھی حاصل ہوئی جس کی تفصیل ہمارے علم میں نہیں ہے، کوئی صاحبِ قلم آپ کی حیات طیبہ کے اس گوشہ کو بھی ان شاء الله واضح کرے گا۔

درس و تدریس کا آغاز

            دارالعلوم دیوبند میں موٴقر اساتذہ کرام سے تمام علوم متداولہ سیکھنے اور ان میں درک و مہارت حاصل کرنے کے بعد آپ نے تدریسی میدان میں قدم رکھا اور سب سے پہلے جامعہ قاسمیہ گیا صوبہ بہار میں آپ کا تقرر عمل میں آیا، یہاں آپ نے پانچ سال تدریسی فرائض انجام دئے اور مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھانے کی آپ کو سعادت حاصل ہوئی۔

جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ میں تقرر

            جامعہ قاسمیہ گیابہار کے بعد آپ کا تقرر قاسم العلوم والمعارف حجةالاسلام مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کی قائم کردہ عظیم دینی درس گاہ جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ صوبہ اترپردیش میں عمل میں آیا۔ اس ادارہ میں آپ نے گیارہ سال تک تدریسی فرائض انجام دئے اور علوم نبوت کا فیضان جاری رکھا ۔ امروہہ قیام کے دوران ابتداء سے انتہاء تک درس نظامی کی مختلف علوم و فنون کی کتابیں آپ کے زیر درس رہیں، کتب حدیث شریف میں بطور خاص سنن ابوداوٴد شریف کا درس آپ سے متعلق رہا، یہاں آپ نے جدید عربی زبان و ادب کی مشق و تمرین پر خاص توجہ دی اور اپنے موٴقر و مہربان استاذ شیخ الادب حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی قدس سرہ کی زیرسرپرستی ”النادی العربی“ قائم فرمائی۔ آپ کے دور میں حضرت کیرانوی قدس سرہ ”النادی العربی“ کے سالانہ جلسوں میں بڑے اہتمام سے شرکت فرماتے تھے۔ آج بھی آپ کی قائم کردہ یہ انجمن النادی العربی مدرسہ امروہہ میں قائم ہے اور اس کے سالانہ جلسے بڑے تزک و اہتمام سے منعقد ہوتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کرام بڑے اہتمام سے ان جلسوں میں شرکت فرماتے ہیں۔

            اسی طرح آپ نے امروہہ قیام کے زمانہ میں نظم تعلیمات کو انتہائی فعال اور متحرک بنایا، طلبہ کی تعلیم و تربیت اور اسباق کی حاضری اور تکرار اور مطالعہ کے امور کی جانب خاص طور سے توجہ دی؛ نیز شہر امروہہ اور مضافات میں دینی و اصلاحی پروگراموں میں شرکت کرکے عوام الناس کی اصلاح و تربیت اور رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا۔

دارالعلوم دیوبند میں تقرر

            اجلاس صدسالہ کے بعد جب نئی انتظامیہ کے زیر انتظام دارالعلوم دیوبند نے اپنی نشاةثانیہ کا آغاز فرمایا تو ۱۹۸۲ء مطابق ۱۴۰۲ھ میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں مدرس عربی کے طور پر آپ کا تقرر عمل میں آیا، ابتداء میں وسطی ب کی کتابیں آپ کے زیر درس رہیں اور پھر جلدہی وسطی الف میں آپ کو ترقی حاصل ہوگئی اور وسطی الف کی کتابوں میں جلالین شریف، مشکوٰة شریف، شرح نخبةالفکر، بیضاوی شریف اور شرح عقائد نسفی وغیرہ کتابیں آپ کے زیر درس رہیں۔ شعبہٴ تکمیل ادب میں ”اسالیب الانشاء“ ہمیشہ آپ کے زیر درس رہی۔ راقم السطور کو شرح عقائد نسفی آپ سے پڑھنے کی سعادت حاصل رہی ہے، پھر درجہ علیا میں ترقی کے بعد دورہٴ شریف کی کتابوں میں موطا امام مالک، موطا امام محمد اور طحاوی شریف کی تدریس آپ سے متعلق رہی۔ آپ کا درس حشوو زوائدسے پاک اور انتہائی سنجیدہ اور عالمانہ ہوتا تھا۔ زبان صاف ستھری، ترجمہ انتہائی سلیس اور شستہ ہوتا تھا اور درس کے اوقات کی پوری حفاظت کرتے تھے۔

انتظامی ذمہ داریاں

            تدریسی فرائض کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کے ارباب حل و عقد کی جانب سے مختلف خارجی اور انتظامی ذمہ داریاں بھی آپ کو تفویض کی گئیں جن کو آپ نے بحسن و خوبی پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کی ہمیشہ کوشش فرمائی اور جوذمہ داری بھی آپ سے وابستہ کی گئی۔ اس کو کماحقہ نبھانے کی کوشش فرمائی۔ ہمارے طالب علمی کے زمانہ میں طلبہ دارالعلوم دیوبند کی عربی انجمن النادی الادبی کی نگرانی اور دارالاقامہ کی ذمہ داری آپ سے وابستہ تھی، جس کو آپ نے مکمل خوش اسلوبی کے ساتھ نبھایا۔ طلبہ کے ہفتہ واری پروگراموں کی نگرانی کرنا، حاضر طلبہ کی حوصلہ افزائی اور غیر حاضر طلبہ سے بازپرس کرنا آپ کے فراض میں داخل تھا۔

            اس انجمن میں تکمیل ادب کے طلبہ کے علاوہ دیگر درجات کے باذوق طلبہ کو بھی شرکت کی اجازت ہوتی تھی۔ آپ نے راقم السطور کو بھی دارالعلوم دیوبند میں داخلہ کے پہلے ہی سال النادی الادبی کے ساتھ وابستہ کر دیا تھا اور اس کے بعد بعض پروگراموں میں شرکت بھی کی؛ لیکن بندہ اپنی کاہلی و سستی کی وجہ سے مذکورہ انجمن سے وابستگی برقرار نہ رکھ سکا۔ اسی طرح النادی الادبی کے سالانہ اجلاس کی تیاری میں آپ بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کرتے تھے اور اس کی مکمل نگرانی فرماتے تھے۔

            دارالاقامہ کی نگرانی میں طلبہ کی شکایات کا ازالہ کرنا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا بیمار طلبہ کے علاج و معالجہ کی فکر کرنا آپ کے معمولات میں شامل تھا۔ طلبہ دارالعلوم آپ کے حسن انتظام اور مشفقانہ برتاوٴ سے ہمیشہ خوش رہتے تھے۔

عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت کا انعقاد اور آپ کی ذمہ داری

            ہمارے طالب علمی کے زمانہ میں دارالافتاء کے سال ماہ اکتوبر ۱۹۸۶ء مطابق ۱۴۰۷ھ دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے اہم فیصلہ کے تحت قادیانیت کی بیخ کنی اور اس کی ریشہ دوانیوں پر قدغن لگانے کے لیے احاطہ دارالعلوم دیوبند میں تحفظ ختم نبوت کے عنوان سے عالمی اجلاس منعقد ہوا جس میں رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر عبدالله عمر نصیف اور ہندو پاک، بنگلہ دیش کے کبار علماء اور عمائدین نے شرکت فرمائی۔ دارالعلوم دیوبند کے ارباب انتظام نے اس عالمی اجلاس کے انتظامات کے لیے آپ ہی کو کنوینر منتخب فرمایا پھر مقررہ تاریخوں پر سہ روزہ عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت آپ ہی کے زیر انتظام اور حضرت اقدس مولانا مرغوب الرحمن صاحب بجنوری نورالله مرقدہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کی زیر سرپرستی کامیابی سے ہمکنار ہوا او عالمی طور سے اس اجلاس کے دوررس اثرات محسوس کیے گئے اور عوام و خواص کو قادیانیت کی ہفوات و بکواس سمجھنے کا اس اجلاس کے ذریعہ موقع ملا۔

            عالمی اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ جس طرح ہندوبیرون ہند کے مشائخ اور کبار علماء نے اجلاس میں شرکت فرماکر موضوع سے متعلق مقالات پیش فرمائے اور بعض مندوبین نے خطابات فرمائے، اسی طرح ایک نشست طلبہ دارالعلوم دیوبند کے لیے مختص تھی جس میں طلبہ دارالعلوم دیوبند نے اپنے اپنے مقالات اور تقاریر پیش فرمائیں۔ راقم السطور کو بھی طالب علمی کی حیثیت سے اس اجلاس میں عملی طور سے شرکت کی توفیق حاصل ہوئی اور اپنا تیارکردہ تحریری مقالہ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کا قیام

            عالمی اجلاس کے کامیاب انعقاد کے بعد قادیانیت کی ریشہ دوانیوں پر مستقل نظر رکھنے اور قادیانیت کے تعاقب و بیخ کنی کے لیے مجلس شوریٰ دارالعلوم نے مستقل شعبہ کے قیام کی ضرورت کو محسوس کیا اور کافی غور و خوض کے بعد مستقل شعبہ کے قیام کو منظور فرمایا اور اس شعبہ کا نام کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند رکھا گیا۔

            اور دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور ذمہ داراعلیٰ حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب نورالله مرقدہ کو شعبہ کا صدر اور گرامی قدر استاذ حضرت مولانا مفتی سعید احمدپالن پوری استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند کو ناظم اعلیٰ اور حضرت ممدوح کو ناظم منتخب فرمایا۔

            کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کے قیام کے بعد آپ نے اس شعبہ کی جانب بھرپور توجہ دی، رجال کار کی تیاری، قادیانیت اور مسئلہ ختم نبوت سے متعلق قدیم لٹریچر کی اشاعت اور جدید کتابوں کی ترتیب و اشاعت، ملک بیرون جدید و قدیم کتب کی ترسیل، رجال سازی کے لیے ملک کے متعدد مقامات پر تربیتی کیمپوں اور عظیم الشان کانفرنسوں کا انعقاد، قادیانیوں سے چیلنج کے وقت ملک کے ملک خطوں میں قادیانیوں اور مرزائیوں سے براہ راست مناظرہ کرنا وغیرہ۔ تمام امور کی جانب آپ نے مکمل طور سے توجہ مبذول فرمائی۔

             خود احاطہ دارالعلوم دیوبند میں آپ نے دو عظیم الشان تربیتی کیمپ لگائے جس میں اساتذہٴ مدراس اور فضلاء مدارس نے دلچسپی سے شرکت فرمائی اور مربی حضرات کی نگرانی میں مسئلہٴ قادیانیت اور اس کی ضرورت و اہمیت کو براہ راست سمجھا، احاطہ دارالعلوم میں مندوبین کی تربیت کے فرائض شیر کٹک مناظرہ اسلام حضرت مولانا محمد اسماعیل کٹکی نورالله مرقدہ کا رکن شوریٰ دارالعلوم اور پڑوسی ملک پاکستان سے تشریف لانے والے مشہور و معزز مہمان قاطع قادیانیت، سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد صاحب چنیوٹی نورالله مرقدہ نے انجام دئیے اور دیگر مقامات پر انعقاد پذیر تربیتی کیمپوں میں تربیت کے فرائض اساتذہ دارالعلوم دیوبند بالخصوص حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری نورالله مرقدہ اور حضرت ممدوح نے انجام دئیے، الغرض ختم نبوت کے تعلق سے آپ کی خدمات جلیلہ کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ یہ مختصر سطور ان کی متحمل نہیں ہیں، کوئی موٴرخ اور سوانح نگار اس پر تفصیل سے خامہ فرسائی کرے گا۔

نیابت اہتمام دارالعلوم دیوبند

            مبدأ فیاض نے آپ کو تعلیم و تدریس اور دیگر کمالات کے ساتھ اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا۔ امانت ودیانت، معاملہ فہمی، قوت ارادی اور قوت فیصلہ جو کسی بھی انتظامی عہدہ کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، ان تمام اوصاف کے ساتھ آپ بدرجہ اتم متصف تھے۔

            اس لیے دارالعلوم دیوبند کے ارباب حل و عقد اور موٴقر مجلس شوریٰ کے اراکین نے آپ کو ۱۹۹۷ء مطابق ۱۴۱۸ھ میں حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب نورالله مرقدہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے تعاون کے لیے نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند تجویز فرمایا اور اس وقت آپ کے ساتھ حضرت الاستاذ مولانا عبدالخالق مدراسی مدظلہ کو بھی نائب مہتمم کا عدہ تفویض فرمایا، آپ نے اپنے نیابت اہتمام کے زمانہ میں اپنے امور مفوضہ کو انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا اور حضرت مہتمم صاحب نورالله مرقدہ نے جو بھی کام آپ کو سپرد کیا اور جن شعبہ جات کی ذمہ داری آپ کو تفویض کی ان کو پوری ذمہ داری کے ساتھ آپ نے انجام دیا۔

            آپ دارالعلوم دیوبند کے اندر نیابت اہتمام کے عہدہ جلیلہ پر ۱۴۲۹ھ مطابق ۲۰۰۸ء تک تقریباً ۱۳/سال فائز رہے۔

            اس کے بعد جمعیة علماء ہند کے صدر منتخب ہونے کے بعد آپ نے عہدہ نیابت اہتمام سے علیحدگی اختیار فرمائی۔

معاون اہتمام کا عہدہ

            اس کے بعد ماہ صفر ۱۴۴۲ھ کی منعقدہ مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند نے جب حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کو اہتمام کی ذمہ داری کے ساتھ عہدہ شیخ الحدیث پر بھی تفویض فرمایا اور بخاری شریف کی تدریس بھی موصوف سے متعلق کر دی تو حضرت مہتمم صاحب موصوف کی سفارش پر موصوف کے تعاون کے لیے آپ کو معاون مہتمم کے منصب پر فائز فرمایا اور آپ تقریباً آٹھ مہینہ اس عہدہٴ جلیلہ پر زندگی کے آخری لمحات تک فائز رہے اور آپ نے ملک میں لاک ڈاوٴن کے باوجود تمام شعبہ جات میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ فرمایا۔ اساتذئہ کرام کو تصنیف و تالیف اور ترجمہ و تالیف پر مامور فرمایااور مختلف عنوانات پر تحریری کام کرنے کا پابند فرمایا۔ اس طرح شعبہ اصلاح معاشرہ قائم کرکے متعدد اساتذہ کرام کو اس کام پر لگایا، تین درجن کے قریب اصلاحی کتابچے اردو ہندی زبان میں مرتب کراکر شائع کرائے اور ان کی تقسیم کا نظم بنایا، بعض اساتذئہ کرام کو کتب خانہ کی جدید ترتیب کا کام تفویض فرمایااور تمام کاموں کی آپ خود ہی نگرانی و سرپرستی فرماتے رہے۔ اس کے علاوہ دیگر شعبہ جات پر بھی آپ نے خصوصی توجہ فرماکر کارکنان کو وقت پر حاضری کا پابند بنایا۔حضرت مہتمم صاحب مدظلہ کو آپ کی ذات پر بھرپور اعتماد تھا اور آپ کی ذات گرامی کے اہتمام میں آنے کی وجہ سے حضرت مہتمم صاحب کا بارگراں کافی حد تک ہلکا ہوگیا تھا۔

جمعیة علماء ہند سے وابستگی

            جمعیة علماء ہند سے آپ کا تعلق خاندانی اور پشتینی ہے، جمعیة علماء ہند کے قیام کے ابتدائی زمانہ ہی سے آپ کا خاندان جمعیة علماء ہند سے مربوط رہا ہے، ایک موقع پر آپ نے خود فرمایا کہ میرے والد محترم بچپن ہی سے مجھ کو جمعیة علماء ہند کے پروگراموں میں ساتھ لے جاتے تھے جب کہ آپ کی عمر سات آٹھ سال کی تھی اور خود فرماتے تھے کہ بچپن میں کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ پروگرام میں کیا ہورہا ہے اور کس بزرگ نے اپنی تقریر میں کیا فرمایا؛ لیکن والد صاحب کے ساتھ لے جانے کی وجہ سے عہد طفولیت ہی سے جمعیة علماء ہند سے محبت تھی۔ اس کے بعد جب درس و تدریس کے میدان میں قدم رکھا تو عملی طور سے جمعیة علماء ہند میں شمولیت اختیار فرمائی اور باضابطہ جماعت سے رشتہ استوار اور مستحکم فرمایا، گیا اور امروہہ قیام کے زمانہ میں جمعیة علماء ہند کی ممبرسازی کے کام میں بھی حصہ لیتے تھے اور جمعیة علماء ہند کے تمام پروگراموں میں دلچسپی سے شرکت فرماتے تھے اور جمعیة علماء کے زیر انتظام ملی خدمات میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ ۱۹۷۹ء میں ملک و ملت بچاوٴ تحریک کے پہلے دور کے ایک جتھے کی قیادت فرمائی اور گرفتاری بھی دی اور دس دن تہاڑ جیل میں رہے۔

            حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی کے دور صدارت میں جمعیة علماء ہند کی مجلس عاملہ کے لیے اولاً مدعو خصوصی اور پھررکن عاملہ نامزد ہوئے اور پھر آپ مجلس عاملہ و مجلس منتظمہ کے جلسوں میں پورے اہتمام سے شرکت فرماتے تھے اور اپنی وقیع آراء سے مجلس عاملہ اور منتظمہ کے اراکین کو مستفید فرماتے تھے۔

جمعیة علماء ہند کی صدارت

            ۲۰۰۸ء میں حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی کے انتقال کے تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد غیر متوقع طور سے آپ کو اراکین مجلس عاملہ نے باتفاق آراء جمعیة علماء ہند کی صدارت کے لیے منتخب فرمالیا جسے آپ نے مفاد جمعیة علماء کی خاطر بادل ناخواستہ قبول فرمالیا اور تقریباً ۱۳/سال تک تاحیات آپ اس عہدہٴ جلیلہ پر فائز رہے۔ آپ نے پوری امانت اور ذمہ داری کے ساتھ صدارت کے فرائض انجام دئیے۔

            آپ کے دور صدارت میں جمعیة علماء کے متعددشعبوں کو حیات نو حاصل ہوئی۔ دینی تعلیمی بورڈ جو عرصہ دراز سے غیر متحرک اور غیر فعال تھا، آپ نے اس کی جانب بھرپور توجہ مبذول فرمائی اور اس کو فعال و متحرک کیا، تمام صوبہ جات میں اس کے علیحدہ علیحدہ صدر و ناظم عمومی اور دیگر عہدیداران کا انتخاب فرمایا، مرکزی دینی تعلیمی بورڈ کے لیے حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند کو صدر اور برادرم مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری، مفتی مدرسہ شاہی مرادآباد کو ناظم عمومی تجویز فرمایا، دینی تعلیمی بورڈ کی نصاب کمیٹی متعین فرمائی اور نصاب میں جزوی ترمیم فرمائی اور نونہالانِ ملت کے لیے اس نصاب کو مفید سے مفید بنانے کی بھرپور کوشش فرمائی۔

            ادارةالمباحث الفقیہہ کے آٹھ اجتماعات دیوبند، دہلی، کشمیر، جمبوسر، ممبئی،مدراس وغیرہ مقامات پر منعقد کرائے اور جمعیة علماء ہند کے تاریخ ساز اجلاس ہائے عام دہلی، دیوبند، حیدرآباد اور اجمیر میں آپ ہی کے زیر صدارت منعقد ہوئے۔ اجمیر شریف کے اجلاس عام کے بعد ہ آل انڈیا مشائخ بورڈکے غبارہ کی ہوا نکل گئی ، اس اجلاس میں بطورِ خاص اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے نبیرہ مولانا توقیر رضا خاں اور بہت سی درگاہوں کے سجادگان نے شرکت فرماکر علماء دیوبند کی تائید و توثیق فرمائی۔

            اسی طرح آپ ہی کے دور میں جمعیة حلال ٹرسٹ کی تنظیم نو عمل میں آئی اور اس کو مزید وسعت دی گئی۔

            نیز نوجوانوں کی فکری و جسمانی تربیت کے لیے ”جمعیة یوتھ کلب“ کا قیا م عمل میں آیا اور سرکار کی نئی تعلیمی پالیسی کے پیش نظر ”جمعیة اوپن اسکول“ کے نام سے ایک عظیم عصری تعلیمی نظام قائم ہوا اور تمام امور میں آپ کے مفید مشورے اور قیمتی آراء شامل رہیں۔

            اسی طرح آپ کے دور صدارت میں فرقہ وارانہ فسادات اور قدرتی آفات و بلیات کے موقع پر ریلیف اور بازآبادکاری کا کام عظیم پیمانہ پر انجام دیا گیا اور مختلف علاقوں میں آپ کی ہدایت پر قائد جمعیة مولانا سید محمود اسعد مدنی مدظلہ نے دورے کرکے مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی۔

اوصاف و کمالات

            بیشمار اوصاف حمیدہ اور اخلاق فاضلہ کے ساتھ آپ متصف تھے جو عام طور سے فردواحد میں مشکل ہی سے جمع ہوتی ہیں، حسن و جمال، فضل و کمال، شرافت و نجابت، دیانت و امانت، طہارت و نظافت آپ کے خاص اوصاف میں شامل تھے۔ طالبان علوم نبوت اور ضرورت مندوں کے ساتھ ہمدردی، غم گساری، فریادرسی اور ہر ایک کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آنا آپ کا امتیازی وصف تھا۔ زہد و ورع اور تقوی و پرہیزگاری کے ساتھ حسن تربیت اور نظم و نسق کی اعلیٰ صلاحیت مبدأفیاض کی طرف سے آپ کو خاص طور سے عطا کی گئی تھی، امت مسلمہ کی فکر اور درد و غم کا ہمیشہ استحضار رہتا تھا، اصول پسندی اور قواعد و ضوابط کی پابندی آپ کی طبیعت ثانیہ تھی اور اپنے متعلقین و تلامذہ کو بھی اس کا عادی بنانے کی کوشش کرتے تھے، مہمان نوازی آپ کی فطرت میں داخل تھی، آپ باہر سے آنے والے ہر وارد و صادر کو کھانا کھلانے یا ناشتہ کرانے کی کوشش کرتے تھے اور ہمیشہ آپ کو یہ فکر رہتی تھی کہ باہر سے آنے والا کوئی بھی مہمان ضیافت سے محروم نہ رہے۔ باہر ملنے والے شخص سے اس کی حیثیت اور مرتبہ کے اعتبار سے معاملہ کرتے تھے، شب خیزی اور رات کے آخری حصہ میں نوافل و عبادات اور تلاوت قرآن میں مشغول رہنا، آ پ کا ہمیشہ کا معمول تھا۔ تلاوت قرآن کریم کا بیحد شفقت رکھتے تھے، سفر و خضر میں برابر تلاوت کا معمول تھا، تراویح اور تہجد میں قرآن کریم سنانے کا بھی ہمیشہ معمول رہا۔

            سال گذشتہ بھی ایک طالب علم کو ساتھ لے کر تراویح میں قرآن کریم سنایا، اس سال بھی ماہ رمضان میں قرآن کریم سنانے کا سلسلہ جاری تھا، ۱۹/پارے ہو چکے تھے کہ بیماری لاحق ہوگئی اور اسی مرض میں راہی دارآخرت ہوگئے۔

حرمین شریفین کی حاضری

            آپ کو حرمین شریفین کی حاضری سے خاص انسیت اور لگاوٴ تھا؛ چنانچہ الله تعالیٰ کے فضل و کرم اور توفیق سے آپ کو تین مرتبہ حج بیت الله اور سولہ مرتبہ عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی۔

نکاح اور اولاد

            ۱۹۶۶ء میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نورالله مرقدہ شیخ الحدیث و صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کی دختر نیک اختر سیدہ عمرانہ مدنی حفظہا الله تعالیٰ ورعاہا سے آپ کا نکاح ہوا۔ شیخ المشائخ حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنی شیخ الحدیث مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور نے آپ کا نکاح پڑھایا، دو ہونہار فرزند مولانا مفتی محمد سلمان صاحب اور مولانا مفتی محمد عفان صاحب اور ایک دختر سعیدہ مسماة رشدی خاتون آپ کے باقیات صالحات ہیں۔ آپ نے اولاد کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی؛ نیز اولاد کے علاوہ اپنے خاندان، خاندان مدنی اور رشتہ داروں کے بچوں کی تعلیم وتربیت پر بھی خوب توجہ دی۔ امروہہ قیام کے زمانہ میں بھی اور دارالعلوم دیوبند کے زمانہ میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ مولانا سید اسجد مدنی، مولانا محمد اخلد رشیدی، مولانا سید محمود اسعد مدنی، مولانا سید ازہد مدنی، مولانا مفتی محمد حارث خانجہانپوری، امروہہ قیام کے زمانہ میں آپ کی نگرانی اور تربیت میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔مولانامحمد زید خانجہانپوری، مولانا محمد بشار، مولانا محمد معاذ اور مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب نورالله مرقدہ کے احفاد دیوبند قیام کے زمانہ میں آپ کی تربیت و نگرانی میں زیر تعلیم رہے۔

            آپ کے دونوں صاحب زادگان آپ کی حسنِ تعلیم و تربیت کی بدولت ماشاء الله ہندوستان بلکہ بیرون ہند میں بھی عظیم علمی مقام رکھتے ہیں، اول الذکر صاحب زادہ مولانا مفتی محمد سلمان مدظلہ میرے اچھے دوست ہیں۔ مدرسہ شاہی مرادآباد میں استاذِ حدیث اور مفتی ہیں۔ افتاء و تدریس کی خدمت انجام دیتے ہیں، ماہنامہ ندائے شاہی آپ ہی کی زیر ادارت نکلتا ہے جو آج صحافتی دنیا میں ایک معتبر نام ہے؛ نیز درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔

            ثانی الذکر مولانا مفتی محمد عفان مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ میں صدرالمدرسین کے عہدہ پر فائز ہیں، دونوں ہی صاحب زادگان تدریس و افتاء کے ساتھ قومی، ملی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لتے ہیں۔ جمعیة علماء ہند کی مجلس عاملہ کے رکن ہیں۔ جمعیة کے پروگراموں میں دونوں کی بھرپور حصہ داری رہتی ہے۔ رب ذوالجلال دونوں کی خدمات کوشرف قبول عطا فرمائے! آمین!

علالت اور وفات

            آپ کی حیات مستعار کا بیشتر حصہ بحمدالله صحت و عافیت کے ساتھ گزرا، چند سال سے شوگر کی شکایت رہتی تھی مگر وہ بھی نارمل اور معتدل رہتی تھی۔ سالِ رواں ماہ رمضان المبارک کے نصف ثانی میں معمولی نزلہ کی شکایت ہوئی، دوالیتے رہے پھر بخار کی شکایت ہوئی، مقامی ڈاکٹروں کو دکھایا، انھوں نے وائرل تجویز کیا اور دوا دے دی؛ لیکن کمزوری حد سے زیادہ بڑھ گئی تو مشورہ سے کووڈ ٹیسٹ کرایا، رپورٹ مثبت آئی اور پھر رات کو آکسیجن کی کمی محسوس ہوئی، پھر ڈاکٹروں کے مشورہ سے آکسیجن کا انتظام کرکے گھر پر ہی کووڈ کا علاج شروع کر دیا گیا اور پھر طبیعت میں افاقہ بھی ہوتا رہا اور عید کے بعد کورونا کی رپورٹ بھی منفی آگئی اور تمام ہی اہل خانہ اور رشتہ داروں و متعلقین نے اطمینان کا سانس لیا۔

            لیکن اسی دوران پھیپھڑوں میں انفیکشن کی شکایت ہوئی اور ہلکا بخار بھی ہوگیا؛ اس لیے عیدالفطر کے پانچ دن کے بعد بروزمنگل میدانتا ہسپتال دہلی میں داخل کیا گیا پھر بدھ کے دن طبیعت میں سدھار کی خبر موصول ہوئی اور یہ بھی پتہ چلا کہ کچھ غذا بھی تناول فرمائی؛ لیکن جمعرات کے دن سے طبیعت پھر خراب ہونا شروع ہوگئی۔ بالآخر وقت موعود آپہنچا اور جمعہ کے دن ۸/شوال ۱۴۴۲ھ/۲۱/مئی ۲۰۲۱ء عین نماز جمعہ کے وقت تقریباً سوا بجے آپ کی روح سعید قفس عنصری سے پرواز کر گئی اورآپ نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔

            ہسپتال سے کاغذات کی تیاری کے بعد ساڑھے چار بجے جنازہ ہسپتال سے جمعیة علماء ہند کے دفتر مسجد عبدالنبی بہادر شاہ ظفر مارگ دہلی لایا گیا وہاں سے سنت کے مطابق آپ کو غسل دیا گیا اور تکفین کی گئی اور دفتر میں دہلی و اطراف کے لوگ کافی تعداد میں جمع ہوگئے تھے، اس لیے پہلی نماز جنازہ مولانا حکیم الدین پرتاپ گڑھی کی اقتداء میں دہلی میں اداکی گئی۔

            اس کے بعد قبیل مغرب پونے سات بجے جنازہ دیوبند لایاگیا اور تقریباً ۹/بجے جنازہ دارالعلوم دیوبند پہنچ گیا۔ یہاں لاک ڈاوٴن کے باوجود علماء کرام اور خواص کثیر تعداد میں جمع ہوگئے، احاطہ موسری میں ٹھیک گیارہ بجے حضرت الاستاذ مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کی امامت میں دوسری نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور اس کے بعد قبرستان قاسمی میں آپ کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ آپ کے دونوں صاحب زادگان نے آپ کو قبر میں اتارنے کی سعادت حاصل کی۔ الله تعالیٰ آپ کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔#

سبزہٴ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

آسمان تری لحد پہ شبنم افشانی کرے

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9،    جلد:105‏،  محرم الحرام – صفر المظفر 1443ھ مطابق   ستمبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts