آہ!قاری محمدعثمان منصورپوریؒ (بالائے سرش زہوشمندی)

بہ قلم: ڈاکٹرراحت مظاہری قاسمی

            ازہرہنددارالعلوم دیوبند کے معاون مہتمم حضرت الحاج قاری محمدعثمان منصورپوری کے سانحہٴ اِرتحال پرنِڈر مجاہد وقت اورہندستانی مسلمانوں کے مسیحاصاحبزادہ شیخ الاسلام حضر ت مولاناسید ارشدمدنی حفظہ اللہ کا وہ تعزیتی مکتوب جو کہ متعدد نیوز چینل سوشل میڈیا اور اخبارات میں شائع ہواہے واقعی سوفیصد درست اورمبنی برحقیقت ہے۔

            ”یہ میرے لیے بہت دکھ کی گھڑی ہے، میری سمجھ نہیں آرہا ہے کہ اپنے دکھ کا اظہار کن لفظوں میں بیان کروں، قاری صاحب کے انتقال سے علمی وملی دنیامیں جو خلاپیداہوا اس کی تلافی مشکل ہے،،

            واقعی اس مصیبت کی گھڑی میں کہ جس وقت منحوس کُورونا، وباکی چپیٹ میں ملت اسلامیان ہند کے ایک سے ایک سرخیل اٹھتے جارہے ہوں قاری صاحب موصوف کے سانحہ وفات نے ہندستانی مسلمانوں کو جھنجوڑ کررکھدیاہے ،اس پر جتنابھی افسوس کیاجائے وہ کم ہے۔

            نیزیہ بات توسبھی جانتے ہیں کہ قاری صاحب شیخ الاسلام کے دامادوہندستان میں سادات کے ایک مشہور قصبہ منصور پور ضلع مظفرنگر کے چشم وچراغ نیزجمعیة علمائے ہند(محمود)کے صدر اور ازہرہند دارالعلوم دیوبند کے معاون مہتمم تھے۔

            شاید ان نکات پر توبہت سارے لوگ گفتگوکریں ،یانایاب سے نایاب تحریریں قلم بند ہوں؛ لیکن میں حضرت مرحوم کے اس پہلوپر چندے روشنی ڈالناچاہوں گا جو میں نے دیکھا اورسمجھاہے۔

            حضرت کا تعارف وتذکرہ میریذہن میں دوران طالب علمی اس وقت ہی آگیاتھاکہ جب یادش بخیر احقر دارالعلوم جامع الہدیٰ مرادآباد میں مدرسہ جامع مسجد امروہہ کے ایک طالب علم مسیح الزماں پورنوی ندوی سلمہ(فی الحال معتمد مالیات دارا لعلوم ندوة العلما لکھنو )نے عربی زبان کی ایک ابتدائی جماعت میں داخلہ لیا تووہ ”القرائة الواضحہ“،کے تعلق سے قاری صاحب کے انداز تدریس، آپ کی عربی زبان کی ہمہ دانی اس پر مضبوط بہت گرفت کی تعریف کیاکرتے تھے۔

            نیز آپ کے حسنِ اخلاق، کم گوئی ، خاموش طبعی، طلبہ کے ساتھ خلوص، تعلق، اورشرافت نفس کے تذکرے بڑے ہی والہانہ انداز میں کیاکرتے تھے،اسی وقت سے بنازیارت کیے ہی یہ احقر آپ کی ذات والاصفات کا گرویدہ ہوگیاتھا۔

            ا ب تو یہ بھی یاد نہیں رہاکہ ہم مسیح الزماں پورنوی کی زبانی یونہی قاری صاحب کے شیریں تذکروں کے چٹخارے نہ جانے کتنے برس تک لیتے رہے۔

            لیکن زندگی میں ایک دن وہ وقتِ سعید بھی آیاکہ کویتی شیوخ کاایک وفد ہندستان آیا ہوا تھا اس کا ایک پروگرام ”جماعت اسلامی ہند“ اوکھلا دہلی کے مرکز مسجد اشاعت الاسلام میں قبل نماز جمعہ طے تھا، وقت اور تاریخ کے لحاظ سے احقر بھی الاستاذ الشیخ ابواحمدافتخارحسین مدنی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث مدرسہ عبدالرب، دہلی)کے ساتھ شریک بزم رہا اورقاری صاحب کی پہلی باراتنی قریب سے زیارت ہوئی واقعی جیساسناتھااس سے درجہااعلیٰ وبالاپایا، بقول سعدی ۔#

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

سراپا

            نورانی چہرہ، کشادہ پیشانی، روشن آنکھیں خدائے سخن حضرت میر #کے لفظوں میں گلاب کی پنکھڑیوں جیسے باریک ہونٹ، سُتواں کھڑی ناک ،نرم ونازک روئی جیسی ہتھیلیاں،میانہ قد،باوقار رفتار،باسلیقہ گفتار، گفتگومیں ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ،پھرتقریباً اسی زاویہ کومزید دلکش بنانے کے لیے آنکھوں پر ہلکے سے خوبصوت فریم کا چشمہ،کھڑی ناک،سرپر چمکتا سفید عربی رومال ،یہ تھا آپ کا سراپا گویاکہ زنانِ مصر کے خیال کے مطابق ”اِنْ ھٰذا اِلّا ملک کریم“۔

            واقعی خداوند قدوس نے جس شخصیت کو ان تمام اوصافِ حسنہ سے نوازاہو تواپھر اس پربھی دانائے شیراز شیخ مصلح الدین سعدی مرحوم کایہ شعر صادق نہ آئے تو پھران کے اس شعرکاکون مصداق ہوسکتاہے ؟

بالائے سرش زہوشمندی

می تافت ستارہ بلندی

حیات وخدمات

            قاری صاحب مرحوم دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد بہرتدریس جامعہ قاسمیہ گیا (بہار) چلے گئے،بعدازاں اکابرکے مشورے سے مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ تشریف لے آئے جب مادرعلمی میں آپ کی ضرورت محسوس کی گئی تو۱۹۸۲ئمیں امروہہ سے دارالعلوم دیوبند آگئے، آپ کوعلمِ ادب کے ساتھ ساتھ علمِ حدیث سے بھی گہرا شغف تھا، دارالعلوم یوبند میں یہی ان کا موضوع بھی رہا ، اسی کے ساتھ ساتھ آپ کے اندرمعاملہ فہمی ، امانت و دیانتداری بدرجہ اتم موجودتھی، تواسی لیے ۱۹۹۹ئسے ۲۰۱۰ئتک وہ دارالعلوم دیوبند کا ”نائب مہتمم“ مقررکیاگیا،نیزجمعیةعلماء ہند (محمود) کاصدر توان کو فدائے ملت کی وفات کے بعد ہی جمعیةکی تقسیم کے قرضیہ نامرضیہ کے وقت ہی بنادیاگیاتھا۔

وفات

            گروگرام کے ”میدانتااسپتال“ میں چندروزہ علالت ونقاہت کے بعد۷۶ سال کی عمر میں جمعہ مبارک کے روز عین وقت نماز جمعہ ۲۱/اپریل ۲۰۲۱ئاللہ کو پیارے ہوگئے۔

            آپ کے انتقال پرملال پر صدرجمعیةعلماء ہند مولانا سیدارشدمدنی وصدرمدرس دارا لعلوم کا بیان قابل ترجیح ہے: یہ میرے لیے بہت دکھ کی گھڑی ہے میرے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ اپنے دکھ کا اظہار کن لفظوں میں بیان کروں، اور قاری صاحب کے انتقال سے علمی وملی دنیامیں جو خلاپیداہوا اس کی تلافی مشکل ہے۔مولانا مدنی نے افسوس کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چند مہینوں میں دارالعلوم دیوبند کے بڑے بڑے اساتذہ چھوڑ کر چلے گئے اور آج قاری عثمان صاحب بھی داغِ مفارقت دے گئے۔

            چونکہ قاری صاحب مدارس کی لائن کے آدمی تھے وہی ان کا اوڑھنا ، بچھوناتھااس لیے بفضل تعالیٰ بہت ہی کامیاب مدرس، منتظم، مہتمم اورمدبر ثابت ہوئے،جیساکہ مشہورہے آپ کا آبائی وطن منصورپور، ضلع مظفرنگر تھا۔ ۲/اگست ۱۹۴۴ئکو سادات بارہہ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد گرامی نواب سیّد محمد عیسیٰ بھی نہایت صالح اور متقی تھے، نواب صاحب شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی  سے بیعت تھے۔ انھیں اولاد کو علم سے آراستہ کرنے کا بے پناہ جذبہ اور انتہائی لگن تھی، اس کی خاطرانھوں نے گھر چھوڑ کر دیوبند میں اقامت اختیار کرلی اور بچوں کو دینی تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند میں داخل کرایا۔ قاری عثمان صاحب مرحوم انھیں کے بیٹے تھے۔ آخری وقت میں قاری صاحب مرحوم کے والد نے کہا کہ یہ نہ سمجھنا کہ میں کسی اور غرض سے دیوبند آیا ہوں، میں تو صرف مزارِ قاسمی میں تدفین کے لیے آیا ہوں۔ میرے انتقال کے بعد میری تدفین یہیں کرنا۔ ۱۹۶۳ئمیں دیوبند ہی میں نواب صاحب کا انتقال ہوااور مزارِ قاسمی میں تدفین عمل میں آئی۔

            قاری صاحب چونکہ جمعیة علمائے ہند کے مقبول وہردل عزیز صدرتھے؛ اس لیے اہل دہلی اورعلمائے دہلی کی یہ نیک خواہش بھی اللہ نے پوی کی، قاری صاحب کے لائق وفائق فرزندوں مفتی محمدسلمان منصورپور، مفتی محمد عفان صاحبان وغیرہ نے اپنے بزرگوں کے مشورہ سے آ پ کے جسد خاکی کو اسپتال سے لاکرقاری صاحب رحمہ اللہ کی پہلی نماز جنازہ عصر کے وقت ”دفتر جمعیت“ دہلی میں اور دوسری نماز ”احاطہ مولسری“ دارالعلوم دیوبند میں بعد عشاء ادا کی اور تدفین اپنے اکابرکے قریب ”قبرستانِ قاسمی“، میں عمل میں آئی۔

            علامہ اقبال کے لفظوں میں۔#

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے!

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :9،    جلد:105‏،  محرم الحرام – صفر المظفر 1443ھ مطابق   ستمبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts