آہ!حضرت الاستاذ قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوریؒ

از: مولانا محمد تبریز عالم

خادمِ تدریس دارالعلوم حیدرآباد

            عجب قیامت کا حادثہ ہے،اور غموں کی برسات ہے،اساتذہٴ کرام کی مسلسل بیماری اور وفات کی خبروں نے دلوں کو مغموم کررکھا ہے۔آج حضرت الاستاذ قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری نور اللہ مرقدہ کی وفات ہوگئی۔خبر سن کر بہت افسوس ہوا۔حضرت قاری صاحب میرے موطا امام مالک کے موقر استاذ تھے۔

            اس وقت (۲۰۰۶ء) دارالعلوم میں آپ کا درس عموماً جمعہ کے دن ہوتا تھا، ٹھہر ٹھہر کر پڑھاتے تھے۔کبھی کوئی اہم بات ہوتی تو کاغذ پر لکھ کر لاتے تھے اور حوالہ کے ساتھ طلبہ کو مستفید فرماتے تھے۔ عربی ادب کے سال میری ترتیب میں آپ کا کوئی گھنٹہ نہیں تھا ؛لیکن آپ النادی الادبی کے ذمہ دار اعلی بھی تھے؛ اِس لیے ہفتہ یا مہینہ میں شرفِ دید نصیب ہوجاتا تھا۔اسی سال جمعرات کو بعد نماز ظہر گاہے گاہے ردِ قادیانیت پر محاضرات ہوتے تو وہ نورانی رُخِ انور نگاہوں کے سامنے ہوتا تھا۔ قادیانیت پر اچھا مطالعہ تھا،احاطہٴ دارالعلوم میں فاتحِ قادیانیت سے بھی شہرت تھی۔ قادیانیت اور ختم نبوت کے حوالہ سے آپ کی زبردست خدمات تاریخ دارالعلوم کا خوب صورت حصہ ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کو باطنی خوبیوں کے ساتھ ظاہری حسن وخوبصورتی سے بھی خوب نوازا تھا۔

            غالباًتین سال قبل دارالعلوم حیدرآباد کی دعوت پر مدرسہ تشریف لائے تھے۔مہمان خانے میں یادگار ملاقات رہی۔بخاری کی آخری حدیث کا درس اساتذہ اور طلبہ نے بہت پسند کیا تھا۔

            جب جمعیت علماء ہند کے تحت ادارة المباحث الفقہیہ نے فقہی سیمنار کا دوبارہ آغاز کیا تو بحیثیت صدرِ جمعیت آپ کا پرمغز صدارتی خطاب ہوتا تھا۔ہر سال استفادہ اور ملاقات کا موقع ملتا تھا۔ جمعیت علماء ہند دہلی میں اپ کے کمرے میں جب بھی ملاقات کے لیے حاضری ہوتی تھی تو بہت تواضع اور خاکساری کے ساتھ ملتے تھے،خیر خیریت پوچھتے۔ایک بار ناشتے کے وقت حاضری ہوئی تو اس طالب علم کو بھی شرکتِ دسترخوان کا اعزاز بخشا۔امسال جمعیت کے سیمینار میں فقہی تجاویز کی نشرواشاعت اور اس کی افادیت کے حوالہ سے بہت فکرمند تھے۔اصاغر علماء کو بہت قیمتی نصیحت فرمایا کرتے تھے۔امسال ۱۴۴۲ء کے فقہی اجتماع کی اختتامی نشست میں شرکائے اجتماع سے کہا تھا کہ آپ مولانا علی میاں صاحب کی کتاب : ”تاریخ دعوت وعزیمت“ کا بالاستیعاب مطالعہ کریں۔

            ملکی اور عالمی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔تاریخ دارالعلوم دیوبند اور تاریخ جمعیت علماء ہند پر آپ کا مطالعہ اور آپ کی معلومات مثالی تھی۔کئی جلسوں میں اس کا مشاہدہ ہوا۔جب آپ نائب مہتمم تھے تو اکثر اہتمام میں جاتے یا وہاں سے لوٹتے ہوے کچھ فائل اور کاغذات کے ساتھ دِکھتے تھے۔خاموش طبیعت ضرور تھے ؛لیکن طلبہ اور عملہ پر رعب بھی تھا۔غلطی پر تنبیہ فرماتے تھے۔ ہمارے سال النادی کے جلسہ میں دورانِ مکالمہ کچھ نامناسب پیش کش پر ایسے بپھر گئے کہ مکالمہ بس وہیں موقوف کرادیا۔کیا مجال کہ کوئی اجرائے مکالمہ کی درخواست کرتا۔یہی حال دیگر جلسوں میں بھی دِکھتا تھا، ایسی ہمت وجرت سب میں کہاں؟

            لباس صاف ستھرا زیب تن کرتے تھے، حسبِ موقع شیروانی بھی پسند تھی،شیروانی کے ساتھ سر پر عربی رومال میں آپ بے انتہا جاذب نظر لگتے تھے۔کھانے پینے میں عمدہ ذوق آپ کو عطا ہوا تھا۔آپ کی چائے ہر شخص نہیں بنا سکتا تھا۔چائے کے سلسلے میں آپ کا ذوق ہم جیسوں سے بالکل الگ تھا،مہمان نوازی بلکہ خردنوازی میں اپنی مثال آپ تھے۔

            اندرونِ خانہ آپ کے معمولات دینیہ کا مجھے علم نہیں ؛لیکن نماز باجماعت کی پابندی آج بھی نگاہوں کے سامنے ہے۔دیوبند کی چھتہ مسجد میں پہلی صف میں عین امام کے پیچھے بیٹھنے کا معمول تھا۔

            ۲۰۱۸ء میں دارالعلوم وقف دیوبند میں حضرت مولانا محمد سالم صاحب نور اللہ مرقدہ کی حیات وخدمات پر ایک سیمینار ہورہا تھا،راقم الحروف کو بھی مقالہ نگاری کی دعوت ملی تھی۔”حضرت خطیب الاسلام کے نامور تلامذہ“ کے عنوان سے مقالہ لکھنا تھا۔معلوم ہوا حضرت الاستاذ قاری صاحب بھی حضرت خطیب الاسلام کے شاگرد ہیں۔میں نے قاری صاحب کو فون کیا اور صورت حال بتائی۔ آپ نے مجھ سے سوالات معلوم کیے اور مجھے ایک وقت دیا۔میں نے اس وقت متعینہ پر فون کیا تو آپ بالکل تیار بیٹھے تھے اور مجھے بنیادی معلومات فراہم کرائی۔مجھے آپ کے ایفائے وعدہ اور وقت کی قدردانی دیکھ کر رشک آیا اور فخر محسوس ہوا کہ مجھے ایسے موقر اور نیک انسان کی شاگردی کا شرف ملاہے۔ وہ مقالہ شائع ہوچکا ہے۔قاری صاحب کے حالات زندگی پر مشتمل وہ حصہ اسی تحریر کے ساتھ اخیر میں شامل ہے۔اسی میں ضروری معلومات درج ہیں۔

            آپ کے دو صاحبزادے:مفتی محمد سلمان منصور پوری مدظلہ مفتی مدرسہ شاہی مرادآباد و مدیر ماہنامہ ندائے شاہی اور مفتی محمد عفان منصور پوری مدظلہ صدرالمدرسین جامع مسجد امروہہ؛ علمی دنیا کے ایسے ہیرے جواہر ہیں جنھیں دیکھ کر حضرت الاستاذ کے کمالِ تربیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

            آپ کی رحلت قضا وقدر کا حصہ ہے جس پر کچھ تعجب نہیں ہونا چاہیے؛ لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ ہندوستان میں سرمایہٴ ملت کا نگہبان:دارالعلوم دیوبند نے قوم وملت کی جوبے مثال اور بروقت نگہبانی اور رہبری کی ہے اس میں قاری صاحب جیسے عبقری اشخاص کی خدمات کا بہت عمل دخل ہے۔ایسے نامورافراد کا اس دنیا سے رخصت ہوجانا بلاشبہ وابستگان دارالعلوم دیوبند کے لیے نہ صرف یہ کہ ناقابل تلافی نقصان ہے؛ بلکہ باعث رنج و غم بھی ہے۔قاری صاحب کے علمی وعملی نقوش بہت حد تک محفوظ ہیں؛ اس لیے انھیں مشعل راہ بنانا آسان ہے، بلکہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔علمی دنیا میں انسان کی زندگی اگر اخلاص اور جہد مسلسل سے عبارت ہو اور کام دینی ہو تو اس دنیا میں بھی خدا کا انعام اس مخلص اور محنتی انسان کو ضرور ملتا ہے؛ چنانچہ لوگ اسے سر پر بیٹھاتے ہیں،دل میں بساتے ہیں اور اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔یہ محبت کا تعلق اس دنیا میں خدا کا وہ قیمتی تحفہ ہے کہ مادیت اپنے تمام کروفر اور فانی جاہ و جلال کے ساتھ بے حیثیت اور بے وزن نظر آنے لگتی ہے۔حضرت قاری صاحب کی زندگی اس کی ایک مثال ہے اور وہ زندگی ہمیں بھی علمی وعملی میدان میں اخلاص اور جہد مسلسل کی دعوت دیتی ہے۔

مختصر سوانحی خاکہ

            حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری بن نواب سید عیسی کی تاریخ ولادت ۱۲/اگست ۱۹۴۴ء اور جائے ولادت منصورپور ہے، جو مظفرنگر (یوپی) کا مشہور قصبہ ہے۔ آپ سادات کے ایک معزز اور زمین دار گھرانے کے چشم وچراغ ہیں۔ فارسی سے دورہٴ حدیث تک مکمل تعلیم دارالعلوم دیوبند میں حاصل کی۔ ۱۹۶۵ء میں دورہٴ حدیث میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم رہے ہیں۔ ۱۹۶۶ء میں دیگر فنون کی تکمیل کی۔ شیخ القراء قاری حفظ الرحمن صاحب سے تجویدوقراء ت کا علم حاصل کیا۔ ۱۳۸۴ھ میں مولانا محمد سالم صاحب سے شرح عقائد پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ فراغت کے بعد پانچ سال جامعہ قاسمیہ، گیا (بہار) میں اور گیارہ سال جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں بہ حیثیت مدرس خدمت انجام دی۔ ۱۹۸۲ء میں آپ کا تقرر دارالعلوم دیوبند میں ہوا، اس وقت سے لے کر تا وفات درس وتدریس کے ساتھ مختلف انتظامی ذمہ داریاں بہ حسن وخوبی انجام دیتے رہے۔ ۱۹۸۶ء میں آپ کو تحفظ ختم نبوت کا ناظم مقرر کیا گیا۔۱۹۹۴ء سے ۱۹۹۶ء تک دارالعلوم میں ناظم دارالاقامہ بھی رہے ہیں۔ ۱۹۹۷ء تا ۲۰۰۸ء نیابتِ اہتمام کے پر وقار عہدے پر فائز رہتے ہوئے نمایاں خدمات انجام دیں۔ دارالعلوم دیوبند میں جب سے محاضرات کا سلسلہ شروع ہوا، اس وقت سے اس شعبہ کے ناظم بھی رہے۔ انجمن النادی الادبی کے ذمہ دار اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے آپ کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں ملک کی سب سے بڑی تنظیم جمعیت علماء ہند کے صدر منتخب کیے گئے، تاوفات اس عہدے کو زینت بخشی۔ آپ کو حسن وجمال، فضل وکمال، شرافت ونجابت اور دیگر بہت سی خصوصیات کے ساتھ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے داماد ہونے کا شرف حاصل ہے۔برسہا برس سے ہفتم، دورہٴ حدیث اور عربی ادب کی مختلف اور اہم کتابیں زیر درس رہی ہیں۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9،    جلد:105‏،  محرم الحرام – صفر المظفر 1443ھ مطابق   ستمبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts