از:مولانا محمد ساجد قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند

وہ کل کے غم وعیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا

جو آج خود افروز وجگر سوز نہیں ہے

وہ قوم نہیں لائقِ ہنگامہٴ فردا

جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے

            مورخہ ۲۰/رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ (مطابق۳/مئی ۲۰۲۱ء) کو دارالعلوم دیوبند کے مایہٴ ناز استاذ، عربی اردو زبان کے ادیب و مصنف، عربی ماہنامہ الداعی کے مدیر حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی اپنے ہزاروں شاگرداور متعلقین کو سوگوار چھوڑ کر جوار رحمت میں منتقل ہوگئے۔ إِنَّا للّٰہِ وإنَّا إِلیہ رَاجِعُونَ۔

            آپ عربی زبان کے ممتاز ادیب وقلم کار، عظیم موٴلف اور ایک کامیاب وباتوفیق مدرس تھے، آپ نے تقریباً نصف صدی عربی زبان و ادب کی خدمت کی اور اس دوران آپ سے ہزاروں شاگردوں نے اکتسابِ فیض کیا، اور عربی واردو میں پچاسوں کتابیں اور سیکڑوں مقالات یاد گار چھوڑے جو یقینا اسلامی لائبریری میں اہم اور قیمتی اضافہ ہیں۔ جہاں آپ نے عربی زبان وادب کو اپنا اختصاصی فن بنایا اور اس میں لکھنے ، بولنے اور اس کی تدریس میں مہارت حاصل کی، وہیں آپ نے عالم عرب کے حالات ومسائل کا بہت گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کیا اور اس پر مستقل کتابیں اور مقالات تحریر کیے۔

            آپ کو عربی کی طرح اردو زبان پر بھی کامل دستگاہ حاصل تھی؛ چنانچہ وہ کوہ کن کی بات، پس مرگ زندہ، کیا اسلام پسپا ہو رہا ہے؟ صلیبی صہیونی جنگ، اور رفتگان نارفتہ وغیرہ اردو ادب کا شاہکار ہیں۔ جس طرح آپ کی تحریریں عربی حلقوں میں دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں، اسی طرح اردو حلقوں میں بھی آپ کی تحریریں ذوق وشوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ مدارس کے فضلاء میں اردو قلم کاروں میں آپ ایک خاص رنگ وآہنگ کے مالک تھے اوراپنی تحریروں میں ادبی چاشنی ، اردو املاء اور قواعد ترقیم وغیرہ کی رعایت کی وجہ سے آپ کو خاصی شہرت حاصل تھی۔

تعلیم وتربیت

            آپ کا بچپن یتیمی میں گزرا، ابھی تین ماہ کے تھے کہ والد کا سایہ سرسے اٹھ گیا ، انھوں نے اپنے پیچھے کوئی قابل ذکر ترکہ بھی نہیں چھوڑا؛ چنانچہ آپ کی نشوٴ ونما یتیمی اور مفلسی کے عالم میں ہوئی ، آپ کی والدہ اور دادی نے آپ کی تعلیم وتربیت کی ذمے داری سنبھالی اور آپ نے اسی حالت میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ آپ کو شروع ہی سے یتیمی کے احساس نے اپنا وقت نہ ضائع کرنے ، خوب محنت کرنے اور زندگی میں اپنی راہ بنانے پر مہمیز کیا۔ تاریخ میں ایسی بہت سی شخصیات گزری ہیں کہ جنھوں نے یتیمی کی حالت میں آنکھیں کھولیں اور اس احساس نے انھیں محنت وجانفشانی پر آمادہ کیا اور انھوں اپنی زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔

            مولانا نے اپنے گاؤں کے مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ، جس میں مولوی ابراہیم نام کے ایک معلم تعلیم دیتے تھے ، جو بہت دیندار، نیک وصالح آدمی تھے، طلبہ کے بڑے ہمدرد اور بہی خواہ تھے ، وہ انھیں کچھ بنانا چاہتے تھے۔ ساتھ ہی وہ بہت اچھے خطاط بھی تھے اور طلبہ کو بھی خوشخطی سکھاتے تھے۔ مولانا امینی نے ان مولوی صاحب کا اپنی تحریروں میں بہت تذکرہ کیا ہے، کہ انھوں نے ہی ہم لوگوں کو لکھنے پڑھنے کے راستے پر ڈالاہے جس پر چل کر ہم یہاں تک پہنچے۔

            مولانا نے اپنے علاقے کے مدارس میں بھی ناظرہ ، پرائمری اور فارسی کی تعلیم حاصل کی جن میں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ قابل ذکر ہے۔مولانا کے ہم وطن نوجوان فاضل مولانا اویس رائے پوری اس مدرسے میں مدرس تھے، آپ کی دادی نے آپ کو مولانا اویس کے ہمراہ بھیج کر اس مدرسے میں داخل کرایا۔ آپ نے اس مدرسے میں فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ مولانا اویس صاحب کا مولانا نے بہت اچھے الفاظ میں تذکرہ کیا ہے کہ موصوف نے اس مدرسے میں آپ کی سرپرستی کی اور اپنے بھائی کے ساتھ اپنے کمرے میں ہی رکھا اور بہت ساری چیزیں سکھائیں: رہن سہن کاطریقہ اورمختلف کام کرنے کے انداز سکھائے۔ مولانا امینی کو زندگی کے مختلف کاموں کے کرنے کا بہت سلیقہ تھا، اور وہ دوسروں کو بھی یہ سلیقہ سکھاتے تھے۔

            اپنے علاقے کے مکاتب ومدارس میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے اپنے ہم وطن طلبہ کے ہمراہ دارالعلوم مئو کے لیے رخت سفر باندھا؛ چنانچہ آپ نے اس مدرسے میں اول عربی میں داخلہ لیا اور چہارم عربی تک اس میں تعلیم حاصل کی ۔ آپ کو یہاں تعلیمی ماحول ملا، نیک و صالح اساتذہ میسر ہوئے ، آپ نے یہاں خوب محنت کی اور ایک استاذ محترم نے تعلیم المتعلم کے ذریعہ عربی جملہ سازی کی خوب مشق کرائی ۔ آپ نے اس کتاب میں علم کا شوق ابھارنے والے اشعار یاد کرلیے؛ نہ صرف وہ اشعار یاد کیے؛ بلکہ ان کے مقتضا پر بھی عمل کیا؛ چنانچہ آپ یہاں رات کو دو بجے سے پہلے نہیں سوتے تھے۔ نیز یہاں جن استاذ سے ”شرح مائة عامل“ پڑھی انھوں نے اس کی عبارتوں کی کئی کئی تراکیب کرائیں۔ اس طرح آپ کو عبارت کی ترکیب وغیرہ پر بڑی قدرت حاصل ہوگئی؛چنانچہ عربی زبان کا شوق آپ کو اسی مدرسے سے ہوا اور دارالعلوم دیوبند پہنچ کر وہ دو آتشہ ہوگیا ۔

            مولانا نے دارالعلوم دیوبند میں سال پنجم عربی میں داخلہ لیا، آپ نے حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی  سے ”مقامات حریر ی“ پڑھی اور ”الصف الثانوی“ میں عربی زبان کی مشق کی، نیز آپ ”النادی الادبی“ سے بھی منسلک ہوگئے جس میں حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی نے آپ کو النادی سے نکلنے والے دیواری ماہنامہ ”النہضة“ کا ایڈیٹر مقرر کیا؛ چنانچہ آپ نے اس ماہنامے میں عربی مضمون نگاری اور عربی تحریر کی مشق کی ۔

            آپ یہاں مولانا کیرانوی کی دلآویز اور مثالی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے ، آپ نے ان سے نہ صرف عربی زبان سیکھی؛ بلکہ زندگی گزارنے کا فن بھی سیکھا۔ مولانا کیرانوی عربی زبان کے بے مثال معلم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مربی بھی تھے اور النادی کے اسٹیج سے عربی لکھنے اور بولنے والے افراد کی ایک کھیپ تیارکی۔ مولانا امینی حضرت مولانا کے ہی تربیت یافتہ تھے آپ نے مولانا سے سلیقہ مندی اور نستعلیقیت بھی سیکھی اور جو چیزیں آپ نے مولانا سے سیکھیں پوری زندگی ان پر عمل پیرا رہے۔ آپ کی شخصیت سازی میں اپنی اخاذ طبیعت اور مولانا کیرانوی کی مردم ساز شخصیت کابڑا کردار تھا۔

عربی زبان کا شوق

            دارالعلوم مئو میں طالب علمی کے زمانے ہی سے آپ کو عربی زبان سے دلچسپی ہوگئی تھی؛ چنانچہ آپ نے وہیں عربی میں جملہ سازی کی مشق کی تھیں، پھر جب آپ دارالعلوم میں آئے تو اس ذوق کو فروغ ملا اور مولانا کیرانوی سے تعلق اور ان سے عربی سیکھنے کا قیمتی موقع بہم پہنچا اور ”النادی الادبی“ کی زیر نگرانی اپنی تقریر وتحریر کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کا خوب خوب موقع ملا اور یہ ذوق ایک قسم کے عربی زبان کے عشق میں تبدیل ہوگیا، اس کی کیفیت یہ تھی جسے کسی شاعر نے کہا ہے:

أتَانی ہَواہَا قَبْلَ أنْ أعرِف الہوی          فصَادَفَ قَلْبًا خالیًا فتَمَکَّنَا

            مولانا امینی کسی وجہ سے دارالعلوم میں تعلیم کی تکمیل نہ کرسکے، مدرسہ امینیہ دہلی میں حضرت مولانا سیّد محمد میاں دیوبندی سے دورئہ حدیث پڑھا اور وہیں سے سند فراغت حاصل کی۔

حضرت مولانا علی میاں ندوی سے تعلق

            مدرسہ امینیہ سے فراغت کے بعد آپ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کرنے کا پروگرام بنایا؛ چنانچہ اس کے لیے آپ نے عربی میں ایک درخواست لکھی جس پر حضرت مولانا علی میاں ندوی سے سفارش لکھوائی اور اسے جامعہ اسلامیہ کے پتے پر بھیج دیا۔ ان دنوں حضرت مولانا سیّد محمد میاں دیوبندی آپ کے سرپرست تھے۔ حضرت مولانا علی میاں ندوی کو آپ کی تحریر اور عربی بہت اچھی لگی اور اس سے بہت متاثر ہوئے اور مولانا محمد میاں کو خط لکھا کہ جامعہ اسلامیہ سے جب تک کوئی جواب نہیں آتا تب تک کے لیے ان کو میرے پاس بھیج دو۔

            آپ حضرت مولانا علی میاں کے پاس تکیہ کلاں رائے بریلی پہنچے، انھوں نے آپ کو وہیں روک لیا؛ تاکہ آپ ان کے پاس رہ کر عربی ادبیات کا مطالعہ کریں اور ان کے علمی کاموں میں تعاون کریں؛ چنانچہ آپ نے وہاں حیاتی از احمد امین اور الامالی از ابوعلی قالی اور وفیات الأعیان از ابن خلکان کا مطالعہ کیا ، اور مولانا نے اپنی کتاب السیرة النبویہ آپ کو املا کرائی ، اس کے بعد آپ نے اسے خط نسخ میں صاف بھی کیا، آپ کا خط بہت خوبصورت تھا، بعض مہمانوں سے مولانا نے آپ کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ہذا کاتب بالمعنیین ۔ نیز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہٴ دینیات کے پروفیسر خسرو صاحب مولانا علی میاں ندوی کے یہا ں آئے تو مولانا نے انھیں السیرة النبویة کا مبیضہ دکھا یا اور پوچھا کہ یہ کتابت ہے یا چھپا ئی تو انھوں نے کہا کہ چھپا ہوا ہے تو مولانا نے کہا کہ یہ ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور انھوں نے لکھا ہے، پروفیسر صاحب بہت متاثر ہوئے۔

دارالعلوم ندوة العلماء میں تدریس اور علمی سرگرمیاں

            مولانا امینی حضرت مولانا علی میاں ندوی کے پاس رہ کر ادب کی کتابوں کامطالعہ کرتے تھے اور مولانا کے علمی کاموں میں مدد کرتے تھے؛ لیکن آپ کے معاشی حالات نے اس طرح زیادہ دنوں تک رہنے کی اجازت نہیں دی؛ چنانچہ ایک دن آپ نے اپنے حالات اور گھر کی معاشی پریشانی مولانا نے کے سامنے تفصیل سے بیان کی۔ مولانا نے آپ کے لکھنے پڑھنے کے ذوق وشوق کو دیکھ کر دارالعلوم ندوة العلماء میں آپ کا تقرر کرادیا؛ چنانچہ آپ سے ادب وانشاء کے مضامین متعلق ہوئے اور آپ کے اسباق کو طلبہ نے کافی پسند کیا؛ چونکہ آپ نے حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی سے عربی پڑھی تھی اور ان سے عربی زبان کی تدریس کا انداز سیکھا تھا؛ اس لیے طلبہ آپ کے انشاء کے مضمون کو پسند کرتے تھے۔ اگر کسی جماعت میں دو سیکشن ہوتے تو طلبہ آپ کے سیکشن میں رہنا پسند کرتے تھے۔ آپ نے دارالعلوم ندوة العلماء میں تقریبًا نو سال گزارے ، اس دوران آپ نے ادب وانشاء کی متعلقہ کتب کی تدریس کاکام انجام دیا اور ”الرائد اور البعث الاسلامی“ میں مضامین لکھے اور اردو مضامین کے ترجمے کیے۔ نیز یہا ں رہتے ہوئے حضرت مولانا علی میاں ندوی کی کتاب أحادیث صریحہ إلی باکستان، التفسیر السیاسی للاسلام، مولانا محمدمنظور نعمانی کی کتاب دعایات مکثفہ ضد الامام محمد بن عبد الوہاب، الثورة الایرانیہ فی میزان الاسلام اور مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی کتاب سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ والوثائق التاریخیہ، اور ما ہی النصرانیہ ؟ کا ترجمہ کیا۔

            ساتھ ہی یہاں رہتے ہوئے آپ کو مولانا محمد الحسنی صاحب مدیر ماہنامہ” البعث الاسلامی“ کے ساتھ بھی رہنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا؛ چنانچہ آپ ان کی شرافت اور زبان وادب سے بہت متاثر تھے اور آپ نے ہی انھیں مشورہ دیا تھا کہ البعث الاسلامی کے اداریوں کو کتابی شکل میں لے آئیں؛ چنانچہ آپ نے وہ اداریے مرتب کیے جن کو دار الاعتصام قاہرہ نے الإسلام الممتحن کے نام سے شائع کیا۔

            مولانا کا کہنا تھا کہ ندوہ میں بہت اچھا وقت گزرا، وہا ں اگر کوئی چیز بری لگی تو وہ بعض لوگوں کی جانب سے دارالعلوم دیوبند پر تنقید اور اس کی توہین وتنقیص تھی۔

دارالعلوم دیوبند میں تدریس وعربی صحافت

            دارالعلوم دیوبند سے جانے کے بعد دہلی میں قیام اور ندوہ میں تدریس کے دوران بھی اپنے مربی ومشفق استاذ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی سے آپ کا مسلسل رابطہ قائم رہا؛ چنانچہ ۱۹۸۲ء میں حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی نے آپ کا دارالعلوم دیوبند میں استاذ ادب اور مدیر جریدہ الداعی کے طور پر تقرر کرادیا۔ آپ نے یہا ں آکر ادب کے مضمون کی تدریس کا کام کیا، آپ سے تکمیل ادب ، تخصص فی الادب کی کتب اور ششم عربی میں دیوان متنبی متعلق رہیں، یہاں آپ سے ہزاروں طلبہ نے اکتسابِ فیض کیا۔نیز پندرہ روزہ جریدہ الداعی کی ذمے داری سنبھال لی اور تقریباً ۳۹ سال اس کی کامیاب ادارت کی۔آپ کے مطالبہ پر دارالعلوم کی مجلس شوری نے ۱۹۹۳ء میں پندرہ روزہ جریدے کو ماہنامہ ”الداعی“ میں تبدیل کردیا؛ چنانچہ آج تک وہ ماہنامے کی شکل میں نکل رہا ہے۔

            آپ کو عربی صحافت اور کسی جریدے یا مجلے کی ایڈیٹرشپ کا بہت شوق تھا ، جریدہ الداعی کی ادارت ملنے سے آپ کی دلی خواہش کی تکمیل ہوئی، آپ نے اس کو معیار ی بنانے کے لیے اپنی صلاحیتیں جھونک دیں اور اسے عربی صحافت میں بلند مقام حاصل تک پہنچایا، جس کا اعتراف خو د عرب قارئین نے کیا ہے ۔آپ کے ”اداریے“ اور ”اشراقے“ قارئین کافی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ آپ نے عالمِ اسلام خصوصاً عالم عرب کے مسائل کے سلسلے میں دراز نفس تحریریں لکھیں اور ان کو خالص اسلامی نقطئہ نظر سے پیش کیا، جن میں مسئلہٴ فلسطین سر فہرست ہے۔ اس مسئلے پر آپ کی تحریروں کا مجموعہ مستقل اور ضخیم کتاب کی شکل اختیار کر گیا جو ”فلسطین فی انتظار صلاح دین“ کے نام سے موسوم ہے۔ آپ نے اردو قارئین کے لیے اس کا ترجمہ بھی کردیا جو ”فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں“ کے نام سے شائع ہوا۔

            نیز عراق کا کویت پر حملہ، پھر امریکی فوج کا سعودی کی سرزمین پر اترنا، امریکہ کا عراق پر حملہ، نیز امریکہ کا افغانستان پر حملہ وغیرہ ان مسائل پر آپ نے بہت لکھا اور ان مضامین کا اردو بھی ترجمہ کیا جن سے کئی کتابیں تیار ہوگئیں۔

            ایک دن عصر کے بعد کی ملاقات میں مجھ سے کہنے لگے کہ میں عالمِ عرب کے مسائل پر بہت لکھتا ہوں ، ایک دن میں نے حضرت مولانا علی میاں ندوی کو خواب میں دیکھا تو انھوں نے میرے ان مسائل پرلکھنے کی تائید کی، مجھے اب اطمینان ہوگیا کہ میں صحیح رخ پر کام کررہا ہوں۔

            آپ کو اپنی عربی اردو زبان پر بہت اعتماد تھا،اکابر دارالعلوم دیوبند کے عاشق تھے بالخصوص حضرت تھانوی کے ۔ دارالعلوم کے مسلک ومشرب کے شیدائی تھے۔حضرت مولانا علی میاں ندوی اور شیخ بن باز کی میں نے آپ کی زبان سے بڑی تعریف سنی ۔

            آپ احمد امین مصری کی تحریروں کو بہت پسند کرتے تھے ساتھ ہی اس کے فکری انحراف پر تنقید بھی کرتے تھے۔ آپ کا کہنا تھا کہ میں علی طنطاوی کی کتاب نہیں پڑھ پاتا ہوں، جب کہ احمد امین کی تحریروں میں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ بعض ادبا کی تحریروں سے کچھ حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے، جب کہ بعض دینے کے حوالے سے بڑے فیاض واقع ہوتے ہیں۔

            آپ کا اسلوب نگارش عربی میں ادبی اور دعوتی ہے، آپ کے پاس الفاظ اورمترادفات کا بڑا ذخیرہ تھا، جس طرح چاہتے تھے، ان میں تصرف کرتے تھے۔ آپ کی تحریروں میں بلا کا تسلسل اور روانی ہوتی ہے ۔ آپ کا کہنا تھا کہ میرا ذوق انشائی ہے، تحقیقی نہیں۔ ”اشراقہ“ آپ کی تحریروں میں شاہ کار کی حیثیت رکھتا ہے؛ کیونکہ اس میں سادگی بے تکلفی اور انشائیت ہوتی ہے اور اس میں آپ کا قلم رواں دواں چلتاہے۔

عادات واخلاق

            مولانا انتہائی ذہین وطباع ، ذکی الحس ، باریک بیں، دور اندیش، ظریف الطبع، مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے، آپ بڑے غیور اور خودار واقع ہوئے تھے، بہت صاف گو بے باک اور نڈر تھے۔ گفتگو بہت صاف کرتے تھے، سننے والے کے لیے آپ کی کوئی بہت مبہم نہیں رہتی تھی۔ وقت کے بہت پابند تھے اسباق اور میٹنگوں میں وقت سے پہلے ہی پہنچتے تھے۔اسباق اور اپنی مجالس میں ظرافت کی باتیں بھی کرتے تھے، جس سے طلبہ کو سبق وغیرہ میں کسی طرح کی اکتاہٹ نہیں ہوتی تھی۔

            آپ میانہ قد، مائل بدرازی تھے، خوش پوشاک، شیروانی اور دیوبندی ٹوپی زیب تن کرتے تھے یہی آپ کا باہر کا لباس تھا۔ نستعلیقیت اور وضع داری آپ کا امتیاز تھی۔ اخیر میں عصا بھی لے لیا تھا، جسے لے کر چلتے تھے۔آپ تعلق کا بہت خیال رکھتے تھے۔ خلافِ مزاج باتوں پر برہم ہوجاتے تھے۔ جس کو وقت دیتے تو اس کا انتظار بھی کرتے۔ میرے ساتھ بارہا ایسا ہوا، اگر مقررہ وقت پر پہنچنے میں تھوڑی تاخیر ہوئی تو آپ خود فون کرتے اور پونچھتے کہ کہاں ہو؟ اشارة یا کنایة اہانت کو کبھی برداشت نہیں کرتے تھے۔

آپ سے میرا تعلق

            میری آپ سے پہلی ملاقات ۱۹۹۴ئمیں ہوئی ، اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ مولانا عبدالرشید صاحب بستوی(سابق استاذ دارالعلوم دیوبند) جو اس وقت مرکز المعارف برانچ دیوبند کے مدیر تھے ، انھوں نے سیرت کے موضوع پر ایک تحریری مسابقہ کرایا، میں نے اس میں عربی میں مقالہ لکھ کر حصہ لیا، میری پہلی پوزیشن آئی ، میرا مقالہ مولانا عبدالرشید صاحب یا مولانانے چیک کیا، اس کے بعد مولانا عبد الرشید صاحب مجھے مولانا سے ملاقات کرانے کے لیے لے گئے۔ مولانا نے مجھ سے معلوم کیا کہ کیا یہ مضمون آپ نے لکھا ہے؟ میں نے کہا :جی ہاں۔ آپ نے(از راہ مزاح )فرمایا کہ اگر آپ نے لکھا ہے تو آپ مجھ سے اچھا لکھتے ہیں۔ میں نے بتایا کہ میں نے اس کی تیاری میں محمدالغزالی کی ”فقہ السیرة“ سے استفادہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: اپنے اندر انشائی صلاحیت بڑھاؤ!

            آپ سے یہ تعلق برقرار رہا ، جب میں دارالعلوم سے فارغ ہو کر چلا گیا تو بھی آپ سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جب میں نے اور مولانا عبد القدوس قاسمی نیرانوی نے مشترکہ طور پر ”القرائة العربیة“ کے سلسلے کا پہلا جزء لکھا تو آپ نے اس پر ”الداعی“ میں تبصرہ کیا اور اس کے سلسلے میں چند مفید مشورے دیے۔جن پر ہم لوگوں نے اگلے حصوں میں عمل کیا۔

            ۲۰۰۱ئمیں دارالعلوم دیوبند میں میرا تقرر ہوا، میں عصر کے بعد آپ کے پاس جاتا تھا ، ایک دن آپ نے مجھ سے معلوم کیا کہ کیا کررہے ہو؟ میں نے بتایا کہ دوم ، سوم کی کتابیں متعلق ہیں۔ ان کے لیے مطالعہ میں کوئی زیا دہ وقت نہیں لگتاہے۔ باقی اوقات خارجی کتابوں کے مطالعے میں لگاتاہوں۔ایک دن مجھے بلایا ، ان دنوں گجرات میں فساد ہوا تھا، مولانا کے سامنے روزنامہ ”راشٹریہ سہارا“ رکھا تھا جس میں مولانا اسرارالحق صاحب کا گجرات فساد پرمضمون تھا ، مجھ سے کہا کہ گجرات فساد پر ایک عربی میں خبر لکھ دو یا مولانا اسرار الحق صاحب کے مضمون کا عربی میں ترجمہ کردو ۔ میں نے کہا: جیسا آپ فرمائیں۔ مولانا نے کہا کہ ترجمہ کردو! میں نے ترجمہ کرکے دے دیا ، تو اس کو ”الداعی“ میں شائع کیا۔ اگلے ماہ مجھے اردو اخبارات دیے اور گجرات فساد پر ایک رپورٹ لکھنے کے لیے کہا؛ چنانچہ میں نے اردو اخبارات کی خبروں کی روشنی میں ایک تفصیلی رپورٹ لکھی جسے الداعی کے اگلے شمارے میں شائع کیا۔ میں نے اگلے چند شماروں میں خبریں لکھیں۔ پھر ایک دن مجھ سے کہا کہ مولانا عبدالرشید بستوی نے حضرت نانوتوی کی کتاب ”حجة الاسلام“ کا عربی میں ترجمہ شروع کیا تھا، جس کی انھوں نے ابھی دو تین قسطیں لکھی تھیں؛ لیکن وہ اب دارالعلوم میں نہیں ہیں؛ اس لیے وہ ترجمہ تم کرو۔ میں نے ہامی بھر لی اور ترجمہ شروع کردیا ؛ چنانچہ میں نے ”حجة الاسلام“ کا ترجمہ ”الداعی“ میں قسطوار لکھ کر مکمل کر لیا۔ اس کے بعد ”انتصار الاسلام“ کا ترجمہ کیا ، پھر ”میلہٴ خداشناسی، مباحثہٴ شاہ جہانپور“ ، ”قبلہ نما“ ، اور ”تصفیة العقائد“ کے ترجمے مکمل کیے اور یہ سب اولاً قسطوار ”الداعی“ میں شائع ہوئے، اس کے بعد ان کوکتابی شکل میں ”شیخ الہند اکیڈمی“ نے شائع کیا۔ مولانا کی تحریک پر میں نے حضرت نانوتویکی مذکورہ چھہ کتابوں کے عربی میں ترجمے کیے ۔ اول الذکر کتاب پر مہتمم صاحب (حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب بجنوری)کی جانب سے آپ نے مقدمہ بھی لکھا۔

            مولانا کے ساتھ طویل عرصہ کام کرنے کا اتفاق ہوا ، کتابوں کے ترجمے کے علاوہ کبھی مہمانوں کی آمد پر ”الداعی“ کے لیے رپورٹ تیار کرنا، یا کلمة التحیة لکھنا یا مضامین وغیرہ لکھنا ہوا، مولانا نے جب بھی مجھ سے کوئی کام کہا اور میں نے اسے کردیا تو بہت خوش ہوئے اور بہت دعائیں دیں۔ الصحابة ومکانتہم فی الاسلام کے اردو ترجمے کی تصحیح میں مجھے ساتھ رکھا ، جب اس کے نام رکھنے کا وقت آیا تو مجھ سے کہا، اس کا کیا نام ہونا چاہیے؟ میں نے چند نام لکھ کر پیش کیے ان میں سے ”صحابہٴ رسول اسلام کی نظر میں“، پسند کیا ۔ اور یہی اس کا نام تجویز کردیا۔

            آپ نے میری چار کتابوں پر مقدمہ لکھا اور بہت اچھا لکھا، وہ کتابیں یہ ہیں: ”حجة الاسلام، اسلام مغربی دانشوروں کی نظر میں، القراء ة العربیة اور تیسیر الانشاء“ ۔

            آپ کی جب بھی کوئی کتاب آئی تو ایک نسخہ مجھے ہدیہ دیا، ابھی دوتین سال پہلے آپ کی دو کتابیں :متی تکون الکتابات مؤثرة؟ اور تعلموا العربیة فإنہا من دینکم، منظر عام پر آئیں، میرا آپ کے پاس جانا ہوا، مجھے دونوں کتابیں ہدیہ دیں ، میں نے کچھ کلمات لکھنے کے لیے کہا تو آپ نے عربی میں لکھا: ہدیة إلی الأخ الفاضل الشیخ محمد ساجد القاسمی حفظہ اللّٰہ لقاء حبہ للمؤلف اور نیچے اپنا نام تحریر کیا۔ ایک دن مجھے بلایا اور کہا ان دونوں کتابوں پر تبصرہ لکھ دو، میں نے کہا :ٹھیک ہے، لکھ دوں گا ۔ میں نے دونوں کتابوں کو بالاستیعاب پڑھا اور دونون پر عربی میں تبصرہ لکھا، جسے آپ نے پسند کیا اور ”الداعی“ میں شائع کیا۔

آپ کے چند اقوال

            مولانا کے تجربات اور پرحکمت اقوال آپ کی عربی تحریروں بالخصوص ”اشراقہ“ میں بکھرے ہوئے ہیں، بہت سی باتیں مجلس میں بھی اس قسم کی کیا کرتے تھے بطور مثال کے دو تین باتیں یہا ں ذکر کی جاتی ہیں۔

            ایک مرتبہ ایک فاضل دارالعلوم کا تذکرہ ہوا جو ایک بڑے ادارے میں مدرس تھے، پھر وہ اسے چھوڑ کر دوسرے ادارے میں چلے گئے ۔ میں نے کہا کہ وہ بڑا ادارہ تھا اسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا۔ تو فرمایا: معلوم نہیں، ان کے کیا حالات رہے ہوں گے؟ جن میں انھوں نے دوسرے ادارے میں جانے کا فیصلہ کیا۔ جب ہمیں ان حالات کا علم نہیں ہے تو ہمیں یہ بھی نہیں کہنا چاہیے۔ عربی کا جملہ فرمایا: وللغائب عذرہ۔ جو ہمارے سامنے نہیں ہے، نہ معلوم اس کے کیا حالات ہوں گے، جن میں اس نے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرمایا : اس اصول سے میں نے بہت فائدہ اٹھایا۔

            ایک بارفرمایا: لوگوں کو ایک دوسرے سے ضرورتیں جوڑے ہوئے ہیں باہمی تعلقات کا نظام اسی پر قائم ہے۔ اگر ایک کی دوسرے سے کوئی غرض وابستہ نہیں ہوگی توپھر تعلق بھی نہیں ہوگا۔

            ایک بار میں نے کہا: فلاں ٹیلر دومہینے میں کپڑے سل کر دیتا ہے اور وہ مہنگا بھی ہے۔ تو فرمایا جانتے ہو وہ کیوں ایسا کرتا ہے؟ وہ اپنی اہمیت جتانے کے لیے ایسا کرتا ہے۔

            پھرآپ نے اپنا ایک واقعہ سنایا: دہلی میں ایک تنظیم کو عربی میں کوئی اہم تحریر لکھوانی تھی، اس نے مجھے دیوبند سے بلوایا(واضح رہے مولانا نے یہ سفر تعلقات کے لحاظ میں کیا ورنہ وہ اس طرح کے کاموں کے لیے سفرنہیں کرتے تھے) وہاں جاکرمیں نے ان کا وہ تحریری کام تھوڑی دیر میں کرکے دے دیا۔ وہاں موجود ایک ملازم نے کہا: مولانا آپ نے یہ کام اتنی جلدی ان کو کر کے دے دیا ، ان لوگوں کے دل میں اس کی قدر کیا ہوگی؟ کہیں گے یہ تو تھوڑی دیر کا کام تھا؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا اس کے بعد میں نے ان لوگوں کی بے التفاتی دیکھی ۔

تالیفات ومضامین

            آپ نے عربی اردو میں کتابوں اور مضامین کا بڑا ذخیرہ یاد گار چھوڑا ہے۔ جو یقینا آپ کے لیے صدقہٴ جاریہ ہے، عربی مضامیں کی ایک بڑی تعداد”الداعی“ کی فائلوں میں موجود ہے، اگر ان کو موضوع وار ترتیب دیا جائے تو بہت سی کتابیں تیار ہوجائیں گی۔

            آپ کی اردو کتابوں میں ”وہ کوہ کن کی بات ، کیا اسلام پسپا ہو رہا ہے؟ صہیونی وصلیبی جنگ، پس مرگ زندہ، فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں، حرف شیریں، رفتگان نارفتہ“ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جب کی عربی میں الصحابة ومکانتہم فی الإسلام، مجتمعاتنا المعاصرة والطریق إلی الإسلام، الدعوة الإسلامیة بین دروس الأمس وتحدیات الیوم، المسلمون فی الہند بین خدعة الدیمقراطیة وأکذوبة العلمانیة، العالم الہندی الفرید: المقریٴ محمد طیب القاسمی، مفتاح العربیة ۱-۲، فلسطین فی انتظار صلاح دین، متی تکون الکتابات مؤثرة؟، تعلموا العربیة فإنہا من دینکم، من وحی الخاطر ۱-۵، اور فی موکب الخالدین (غیر مطبوعہ ) قابل ذکر ہیں۔

            ان کتابوں کے علاوہ آپ نے بہت سی اردو کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا ان کے عربی ترجموں کے نام درج ذیل ہیں:

            الدعایات المکثفة ضدَ الشیخ محمد بن عبد الوہاب از مولانا محمد منظورنعمانی، الثورة الإیرانیة فی میزان الإسلام ازنعمانی، الشیخ محمد إلیاس الکاندہلوی ودعوتہ الدینیة از مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، التفسیر السیاسی للإسلام از مولانا ندوی، سیدنا معاویة فی ضوء الوثائق والحقائق التاریخیة ازمفتی محمدتقی عثمانی، ما ہی النصرانیة؟ ازمفتی محمدتقی عثمانی، قصة شاب ہندوسی اعتنق الإسلام، الاشتراکیة والإسلام ازخورشید احمد پاکستانی، الدعوة الدینیة وأسلوبہا الأمثل از امین احسن اصلاحی، لالیٴ منثورة فی التعبیرات الحکیمة عن قضایا الدین والأخلاق والاجتماع از مولانا اشرف علی تھانوی، الإسلام والعقلانیة ازتھانوی، علماء دیوبند: اتجاہہم الدینی ومزاجہم المذہبی از قاری محمد طیب صاحب، بحوث فی الدعوة والفکر الإسلامی ازمولانا حسین احمد مدنی، اور الحالة التعلیمیة فی الہند قبل عہد الاستعمار الإنجلیزی وفیما بعدہ از مولانا مدنی۔

            آپ کی علمی ودینی خدمات کی بنا پر آپ کو۲۰۱۹ء میں ”صدر جمہوریہ ایوارڈ“ ملا جس میں تمغوں کے ساتھ ایک خطیر رقم بھی پیش کی گئی۔ دنیا کا کوئی اعزاز، تمغہ اور ایوارڈ ایک رمزی چیز ہے۔ خدمات کا حقیقی صلہ تو آخرت میں اللہ تعالی ہی عطا فرمائیں گے۔

            مولانا کی زندگی بہت سبق آموز ہے، آپ نے کس طرح یتیمی اور ناداری کے عالم میں تعلیم کا آغاز کیا، آپ نے محنت کی ، اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کیا اور ترقی کے منازل طے کیے۔ اہل علم نے آپ کی صلاحیت ولیاقت ، آپ کی مہارت واختصاص کا اعتراف کیا اور حکومت نے بھی آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ”صدر جمہوریہ ایوارڈ“ دیا۔

سرخیٴ خارِ بیاباں یہ نشاں دیتی ہے

کہ تیرے دیوانے کہاں سے کہاں تک پہنچے

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :6-7،    جلد:105‏،  شوال المكرم – ذی الحجہ 1442ھ مطابق   جون-جولائی 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts