قافلہٴ علم وادب کے عظیم سالار

حضرت مولانا نور عالم صاحب خلیل امینیؒ

(۱۳۷۲ھ/۱۹۵۲ء=۱۴۴۲ھ/۲۰۲۱ء)

از: مولانا مصلح الدین قاسمی

استاذ تفسیر وادب دارالعلوم دیوبند

شب سیاہ میں گم ہوگئی ہے راہِ حیات

قدم سنبھل کے اٹھاؤ بہت اندھیرا ہے

            شبِ دو شنبہ ۲۰/رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ مطابق ۳/می ۲۰۲۱ء بوقت سحر معروف عالم دین درجنوں عربی واردو کتابوں کے مصنف ومترجم، صدرِجمہوریہ ایوارڈ یافتہ دارالعلوم دیوبند کے استاذِ ادبِ عربی وچیف ایڈیٹر ماہنامہ ”الداعی“ حضرت مولانا نورعالم صاحب خلیل امینی اِس جہانِ آب وگل سے روپوش ہوکر اپنے رب کے جوارِ رحمت میں چلے گئے۔ انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون․

شفقتِ پدری ومہرمادری کا مجموعہ

            حضرت مولانا مرحوم نہ صرف یہ کہ راقم الحروف کے استاذ تھے؛ بل کہ زمانہٴ طالب علمی میں شفقتِ پدری ومہرمادری کا مجموعہ تھے ۱۴۱۵ھ مطابق ۱۹۹۵/ میں دورئہ حدیث شریف سے فراغت کے بعد اساتذئہ کرام کے مشورے سے ماہِ شوال میں جب شعبہٴ ادبِ عربی میں داخلے کے ارادے سے دارالعلوم حاضر ہوا تو میرے نہایت مشفق استاذ محترم جناب حضرت مولانا اسعدصاحب(۱)[1] ناظم دارالعلوم الاسلامیہ/ بستی نے حضرت مولانا مرحوم کے نام ایک تحریر لکھ کر دیا جس کا مضمون غالباً کچھ اس طرح تھا:

”حاملِ رقعہ عزیزم مولوی مصلح الدین دارالعلوم الاسلامیہ بستی کے ابنائے قدیم میں سے ہیں عربی ادب میں داخلے کے خواہش مند ہیں، سلیقہ مند اور محنتی ہیں، اپنی تربیت میں رکھ کر توجہ فرمائیں۔“

            بہت دنوں تک یہ تحریر میں اپنے پاس رکھے رہا، تکمیل ادب کے لیے منتخب طلبہ کی لسٹ آویزاں ہوجانے کے بعد ایک دن وہ تحریر لے کر بعد نمازِ عصر حاضر خدمت ہوا، بس ملاقات وتعارف کا وہ دن تھا کہ جب تک دارالعلوم دیوبند میں بہ حیثیت طالب علم ومعین مدرّس رہا آپ کی شفقتوں کا تسلسل قائم رہا؛ بل کہ بعض دفعہ شفقت ومحبت کے ایسے مظاہر بھی دیکھنے میں آئے جوشفقتِ پدری اور مہرمادری کے مترادف رہے جنھیں احقر تازندگی فراموش نہیں کرسکتا، رب کریم آپ کو اس کا بہتر صلہ عطا فرمائے، آمین!

            حقیقت یہ ہے کہ والدین اور افرادِ خانہ کے درمیان رہ کر جب بچہ تعلیم کی بسم اللہ کے لیے مکتب کا رخ کرتا ہے تب ہی سے اس کا احساس جاگنے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اسے تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے والے اساتذئہ کرام ہیں اس کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں، اس کی زندگی کا رخ متعین کرتے ہیں اور وہی اس کی ذات پر ایسے گہرے نقوش ثبت کرتے ہیں جنھیں نہ تو زمانہ مٹاسکتا ہے اور نہ فراموش کرسکتا ہے؛ بل کہ ہر ذی شعور انسان یہ یقین کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اگر اس کے اساتذئہ کرام اس پر محنت نہ کرتے تو اس کی وہ شخصیت اور حیثیت نہ ہوتی جو ہے، اس کا دائرئہ نظر تنگ ہوتا، راہِ حیات میں اس کے قدم سست ہوتے اورہر بلند مقصد کے حوالے سے وہ ہمیشہ پس روی کا شکار ہوتا، ایسا ہی کچھ احساس آج احقر کو اِن سطور کے قلم بند کرتے وقت ہورہا ہے:۔#

دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر

آتا نہیں ہے فن کوئی استاذ کے بغیر

            ویسے تو انسان بہت سے اساتذہ سے پڑھتا اور علم حاصل کرتاہے اور بہ حیثیت استاذ ہر ایک سے نہ صرف یہ کہ محبت کرتا ہے؛ بل کہ ان کی تعظیم وتکریم بھی کرتا ہے؛ مگر کچھ خاص اساتذہ ایسے ہوتے ہیں جن کی شاگردپر چھاپ پڑجاتی ہے اور وہی اساتذہ اس کے مرکز ومحور بن جاتے ہیں، تعلیمی دورانیے میں جن چند اساتذئہ عظام کی احقر پر چھاپ پڑی اور جن سے بہت کچھ سیکھنے اور برتنے کا شعور پیدا ہوا ان میں ایک جلی نام استاذ گرامی مرتبت حضرت اقدس مولانا نورعالم خلیل امینی صاحب رحمہ اللہ رحمةً واسعہ کا ہے۔#

تمہارے نقشِ قدم سے ہم نے، ہزاروں اچھے خیال پائے

تمہارا دستِ شفیق تھاما، تو خود کو پھر ہم سنبھال پائے

تدریس وتربیت کا منفرد اسلوب

            جس طرح آپ اپنے طرزِ بودوباش، رہن سہن، لباس وپوشاک اور تحریر واسلوبِ نگارش میں یکتا تھے ایسے ہی اندازِ تدریس وتربیت میں بھی بالکل منفرد تھے، کہنے کو تو آپ سے شعبہٴ ادب عربی (تکمیل ادب) کا صرف ایک سبق ”النشر الجدید“ متعلق تھا؛ مگر وہ اتنا جامع سبق ہوتا تھا کہ ادب عربی سے متعلق طلبہ اس ایک گھنٹے کے لیے صبح سے تیار رہتے اور وہی گھنٹہ سب طلبہ کے دلوں پر حاوی رہتا تھا، تکمیلِ ادب میں داخل طلبہ کے علاوہ استفادے کے لیے دیگر طلبہ کی اتنی بڑی تعداد آجاتی کہ پوری درس گاہ پُرہوجاتی، چوکھٹ اور باہر کے حصّے میں بھی طلبہ بیٹھے ہوئے نظر آتے۔

            گھنٹہ شروع ہوتے ہی آپ درس گاہ میں داخل ہوجاتے اور سبق شروع فرمادیتے، باوجود اس کے کہ ہر طالب علم حتی الوسع عبارت کی بھرپور تیاری کرکے آتا، تاہم آپ کے آتے ہی ہر ایک سراسیمہ نظر آتا، نہیں معلوم عبارت خوانی کے لیے کس کا نام آجائے، آپ کے یہاں عبارت خوانی کے لیے ضروری تھا کہ ہر لفظ بالکل واضح، اعراب اور وجہِ اعراب پر پوری نظر رہے، اگر کسی لفظ کے اعراب میں غلطی ہوگئی تو پھر اللہ اکبر! امینی جاہ وجلال کا منظر قابلِ دید ہوتا، ہر ایک پر یہی خوف سوار ہوتا کہ کہیں میں زد میں نہ آجاؤں، اسی غیظ وغضب کے عالم میں کبھی فرمایا کرتے تھے: ”میراجی چاہتا ہے کہ میں ارکانِ شوریٰ کے سامنے یہ تجویز رکھوں کہ صرف انھیں فضلاء کو سندِ فضیلت دی جائے جو قرآن کریم کے کم از کم دوپارے (۲۹-۳۰) تجوید کے ساتھ پڑھنے اور لاعلی التعیین کسی عربی کتاب سے صحیح اعراب وترکیب کے ساتھ سنانے پر قادر ہوں، بقیہ کو صرف یہ تصدیق نامہ دے دیا جائے کہ دارالعلوم سے ان کا مرور ہوا ہے۔“

            آپ درس کیا دیتے، عربی زبان وادب کا دریا بہادیتے، ایک ایک جملے کو مختلف تعبیرات میں ڈھال کر اِس انداز سے سمجھا دیتے کہ ہم طلبہ کے سامنے جدید تعبیرات کے کئی باب وا ہوجاتے، ہمیشہ کیفیت اور زبان سکھانے، تعبیرات استعمال کرنے کی باریکیوں پر آپ کازور ہوتا، کوشش ہوتی کہ طلبہ کو کچھ لکھنا اور بولنا آجائے، کبھی فرماتے ”کسی زبان کو سیکھنے اور سکھانے کے لیے مقدار اورنصاب کا پابند نہیں کیا جانا چاہیے۔“

            چوں کہ حضرت مولانا نورعالم اپنے گرہ کُشا ورجال ساز شفیق استاذ حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب کیرانوی (متوفی ۱۴۱۵ھ/۱۹۹۵/) کے مشفقانہ ومربّیانہ گود میں پلے بڑھے تھے اور انھیں کے سانچے میں ڈھلے تھے اس لیے آپ کا درس تعلیم اور تربیت دونوں کا مجموعہ ہوا کرتا تھا، آپ اپنے استاذ محترم کی طرح کتابِ علم کے ساتھ کتابِ حیات بھی پڑھادیا کرتے تھے اور موقع بہ موقع حضرت کیرانوی کا حوالہ بھی دیتے تھے، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ نے ابھی سبق شروع کیا اور کسی مناسبت سے جورخ بدلا تو پورا گھنٹہ بامقصد زندگی کے اصول وآداب بتلانے میں گذر گیا، بے ہنگم اور شائستہ دونوں طرح کی زندگی گذارنے والوں کی ایسی تصویر کشی کرتے کہ آپ کے حلقہٴ درس میں بیٹھنے والے سعادت مند طلبہ کی عملی تربیت ہوجاتی؛ چناں چہ وہ حلقہٴ درس سے اِس حال میں اٹھتے گویا ان کی زندگی کا دھارا بدل گیاہو اور شائستہ وبااصول زندگی گذارنے کے لیے نہ صرف انھیں آمادہ کردیاگیا ہو؛ بل کہ ان کی روح کو تڑپا اور قلب کو گرمادیا گیا ہو، سچ ہے۔#

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں

سعیِ پیہم پر زور

            احقر کو تکمیل ادب اور تخصص فی الادب دو سال آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور آپ کی توجہِ خاص سے بہت کچھ سیکھنے اور برتنے کا موقع ملا، آپ کی طرف سے ہمیشہ یہ تاکید رہتی کہ ہر نئی تعبیر پر متعدد جملے لکھتے اور یاد کرتے رہو، آج اِن تعبیرات کو یاد کرلوگے تو کل یہی تمہارے الفاظ ہوجائیں گے، طلبہ سے کام لینے میں کبھی سخت گیر ہوجاتے، تمرین کی کاپیوں کی جانچ کرتے، جس دن کاپیاں طلب کرتے وہ دن بڑی آزمائش کا ہوتا، کوتاہی اور سستی کرنے والے سہمے ہوئے ہوتے، مطلوبہ کام پورا نہ ہونے کی صورت میں کاپیاں چاک کردیتے، سخت لب ولہجے میں ان پر برستے اور گاہ بہ گاہ اسی ناراضگی کے عالم میں درس گاہ سے اٹھ کر چلے جاتے، کلاس روم میں سنّاٹا چھا جاتا، یہ تنبیہ انتہائی موٴثر ہوتی، کوتاہی کرنے والے سارے طلبہ نئی کاپیاں لاکر راتوں رات بیدار رہ کر اپنے کاموں کی تکمیل کرتے اور پھر حضرت الاستاذ کو سال بھر اِس انداز سے تنبیہ کی ضرورت پیش نہ آتی۔

            تخصّص فی الادب کے سال پڑھاتے وقت اپنے استاذ محترم حضرت کیرانوی علیہ الرحمہ کا بارہا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے کہ تخصص صرف عربی زبان پڑھنے لینے کا نام نہیں ہے؛ بل کہ میرے طرزِ عمل اور انداز کو بھی دیکھو کہ میرے لکھنے کا طریقہ کیا ہے؟ میں وقت کو کیسے کام میں لاتا ہوں؟ میرے مطالعہ گاہ میں لکھنے کے دوران کون کون سی معاون کتابیں اور لغات رہتی ہیں؟ نیز فرماتے: ”کسی بھی مضمون اور تحریر کو مرتب کرتے اور لکھتے وقت یہ بات پیش نظر رہے کہ بار بار لغت کی مراجعت ہو، خواہ وہ لفظ تمہیں یاد ہی کیوں نہ ہو“ اور مزاحاً فرماتے: ”جو لفظ یاد ہو اور جس پر اعتماد ہو اُسے تو ضرور دیکھو خواہ وہ لفظ دیکھو یا نہ دیکھو جو یاد نہ ہو اور جس میں شبہ ہو“ اس لیے کہ جس لفظ میں انسان کو شبہ ہوتا ہے اور جو یاد نہیں ہوتا اُسے تو دیکھتا ہی ہے۔

            جہدمسلسل اور دقّت نظر پیدا کرنے پر بہت زور دیتے اور فرماتے: ”لاپرواہ طلبہ سبق سے اٹھنے کے بعد کمروں میں جاکر طرح طرح کے منصوبے تو بناتے ہیں مگر کام وہی کرتے ہیں جن میں اطاعت اور محنت کا فطری جذبہ ہوتا ہے“ اسی انداز کی ایک درسی تقریر میں تخصص فی الادب کے سال تمرین کے لیے کچھ اس طرح کے جملے لکھوائے:

”کسی مقصد کے حصول کے لیے محض شیریں تمنّائیں کافی نہیں؛ بل کہ جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے، بے پناہ کوشش، صبر اور توکل کے ذریعے ہی کسی مقصدکو حاصل کیاجاسکتا ہے، بہت سے نوجوان بڑے بڑے مقاصد کے حصول کی محض تمنّا تو کرتے ہیں؛ لیکن سعی وعمل سے جی چراتے ہیں، کیوں کہ عمل ایک تلخ کھونٹ ہے جو ہر ایک کو پسند نہیں آتا، جب کہ آرزو ایک خوشنما جنت ہے جس کی سیر ہر ایک کے لیے آسان ہے؛ لیکن خدائے حکیم نے اِس کائنات کے نظام کو حرکت وعمل سے مربوط کیا ہے، خواب وآرزو پر اس کی اساس قائم نہیں کی۔“۔#

منزل کی تمنّا ہے تو کر جہدِ مسلسل

میراث میں تو چاند ستارے نہیں ملتے

تحقیق و تصنیف میں بے نظیر

            قسّام ازل کی طرف سے آپ کو تحقیق وتصنیف کا بے نظیر ذوق اور وافر حصہ ملا تھا، اِس میدان میں حضرت مولانا مرحوم نے اپنے آپ کو بہت کھپایا تھا، جس کی وجہ سے عالم اسلام کے نامور اور صاحبِ طرز ادباء واصحابِ قلم میں آپ کا شمار ہوتا تھا، آپ کی نظر نہ صرف ہندوستانی سیاست اور متعصب ہندوؤں کی جانب سے پیش آنے والے مظالم پر تھی؛ بل کہ عالم اسلام میں رونما ہونے والے واقعات پر بھی آپ کی گہری نظر رہتی تھی اور اپنی تحریروں میں ہمیشہ اس پر روشنی ڈالتے تھے، سیاسی، اسلامی اور تعلیمی و تربیتی عناوین پر لکھنے کے ساتھ ہندوستان، فلسطین، مسجد اقصیٰ، امریکہ وعراق اورامریکہ و افغانستان کے مابین ہونے والی جنگوں کی صورت حال پر ”لیعلمنّ بوش تاجر الحروب أنّ الظّلم مرتعہ وخیم“ (جنگوں کے بیوپاری بش کو ضرور بالضرور پتہ چل جائے گا کہ ظلم کا انجام براہوتا ہے) اور ”سجِّلْ یا تاریخ واشہَدْ یا زمان“ (اے تاریخ! نوٹ کر اور اے زمانہ!گواہ رہ) جیسے حسّاس موضوعات پر لکھ کر اپنی دینی حمیت کا ثبوت پیش کیا۔#

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

            آپ کی تمام تحریریں نفاستِ زبان، برجستگی، روانی اور حلاوت وجاذبیت کا نمونہ ہوتی تھیں، جس موضوع پر بھی لکھتے بڑی تحقیق وجستجو کے بعد ہی قلم اٹھاتے، مضامین میں ذکر کردہ تاریخ اور سن وغیرہ کو بڑی دقت نظری سے دیکھتے اور لکھتے، علم وتحقیق کے باب میں عرق ریزی آپ کا لذّت انگیز مشغلہ تھا، اِس راہ آپ جتنا پریشان ہوتے اتنا ہی آپ کو مزہ آتا، چناں چہ تحقیق وجستجو کا پرپیچ اور دشوار گذار سفر آپ کے لیے آسان ہوگیا تھا، آپ کی ہر تحریر آپ کی دقیقہ رسی اور ژرف نگاہی پر غماز ہے۔

عالم اسلام میں دارالعلوم کی بے مثال ترجمانی

            دارالعلوم دیوبند میں آپ کی خدمت کا دورانیہ تقریباً چالیس سال ہے، اِس دوران عربی زبان کی نہایت کامیاب اور مثالی تدریس کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کے عربی ماہنامہ ”الداعی“ کے پلیٹ فارم سے آپ نے جو خدمات انجام دیں اور اپنی تحریر و تعریب کے ذریعے پورے عالم اسلام کو نہ صرف یہ کہ اکابر دیوبند کے علوم ومعارف سے روشناس کرایا اور مسلکِ دارالعلوم کی ترجمانی کی؛ بل کہ دارالعلوم دیوبند اور ملّت اسلامیہٴ ہند پر گذررہے احوال وکوائف سے بھی ہمیشہ باخبر رکھا، آپ کا یہ کارنامہ اور بے نظیر کوشش دارالعلوم کی نشأة ثانیہ کا ایک اہم باب ہے۔

            ماہنامہ ”الداعی“ کے مشمولات کو عمدہ سے عمدہ تر بنانے میں آپ کو ازحد دلچسپی تھی، حالات اور وقت کے تقاضے کے مطابق اسے ظاہری ومعنوی اعتبار سے سنوارنے اور دیدہ زیب بنانے پر پوری توجہ دیتے تھے، عالم اسلام کے ابھرتے ہوئے مسائل اس انداز سے لکھتے اور ترتیب دیتے کہ باذوق قارئین کو رسالے کا انتظار رہتا تھا، آپ نے ماہنامہ ”الداعی“ کو عربی وعلمی مجلات کے مابین دارالعلوم دیوبند کے شایانِ شان مقام عطا کیا، نتیجتاً عرب علماء ودانشوران بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، چناں چہ سعودی عرب کے وزیرتعلیم عبدالعزیز بن عبداللہ الخویطر نے ”الدّاعی مجلّةٌ تستحق أن تُقرأ“ کے عنوان سے ایک مفصل مضمون لکھ کر نہ صرف یہ کہ رسالے کی اہمیت کا اقرار کیا؛ بل کہ دیگر لوگوں کو بھی پڑھنے کی تاکید کی، موصوف کا یہ مضمون محرم الحرام ۱۴۲۳ھ کے شمارے میں شائع بھی ہوا۔

اکابر دارالعلوم سے سچی عقیدت

            حضرت مولانا مرحوم کو دارالعلوم اور اکابرِ دارالعلوم سے بے پناہ عقیدت تھی، بالخصوص حضرت تھانوی علیہ الرحمہ کا تو تذکرہ کرتے وقت آپ کی حالت بدل جاتی، سلسلہٴ کلام دراز ہوجاتا، فرماتے کہ: ”علماء کو حضرت تھانوی علیہ الرحمہ کو ضرور پڑھنا چاہیے“ حضرت تھانوی کے بے شمار ملفوظات واقوال زبان زد تھے، سناتے اور باریکیوں پر روشنی ڈالتے، بانیینِ دارالعلوم کے اخلاص وللہیت کا تذکرہ غایتِ عقیدت ومحبت سے کرتے، لکھتے تو قلم رواں ہوجاتا، آج بھی ”الداعی“ کے ”دارالعلوم نمبر“ میں آپ کے قلم کی روانی اور جولانی کو دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔

            دارالعلوم دیوبند کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے: ”رقبے کے اعتبار سے دنیا میں نہیں ہندوستان ہی میں اس سے بڑے ادارے مل جائیں گے؛ مگر دارالعلوم کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں کے داخلے کے لیے جتنی آہیں بھری جاتی ہیں اور جتنے آنسو بہائے جاتے ہیں دنیا کے کسی بھی ادارے کو مثال میں پیش نہیں کیا جاسکتا“ کبھی فرماتے: ”دارالعلوم دیوبند کے فضلاء کو جو عقیدت دارالعلوم سے ہے وہ دوسرے ادارے کے فضلاء کو اپنے اداروں سے نہیں ہوسکتی“ ایک مرتبہ فرمانے لگے: ”میرا جی چاہتا ہے کہ میں لکھوں کہ دارالعلوم کی کچی اینٹوں میں جو شہنشاہیت پوشیدہ ہے وہ بادشاہوں کے محلات میں بھی نہیں مل سکتی“ سچ ہے۔#

عابد کے یقیں سے روشن ہے سادات کا سچا صاف عمل

آنکھوں نے کہاں دیکھا ہوگا اخلاص کا ایسا تاج محل

کہسار یہاں دب جاتے ہیں طوفان یہاں رک جاتے ہیں

اِس کاخِ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں

اوقات کی پابندی

            پابندیِ اوقات آپ کا شیوہ اور آپ کی شخصیت کی شناخت تھی، دارالعلوم میں ظہر کے بعد کے دوگھنٹوں (ساعتِ پنجم وششم) کاسبق آپ سے متعلق تھا، احقر تخصص فی الادب کے سال معمولاً آپ کو لینے کے لیے جاتا، ہمیشہ آپ کپڑے، پالش دار جوتے، موزے اور شیروانی پہن کر تیار رہتے، کبھی اس میں تخلّف نہیں دیکھا، وقت پر سبق شروع کرتے اور ٹھیک وقت پر پورا کردیتے، طلبہ کو بھی سختی سے وقت پر پہنچنے اور وقت کو کام میں لانے کی تاکید کرتے اور فرماتے: ”زندگی میں اگر وقت کی پابندی کروگے تو خود بھی مشقت و پریشانی سے محفوظ رہوگے اور دوسروں کو بھی اس سے راحت رہے گی“۔

            وقت کو زندگی کا عظیم سرمایہ سمجھنے کی وجہ سے ہی بڑی گراں قدر اور نادر کتابیں تصنیف کیں جو بلاشبہ آپ کے لیے ذخیرئہ آخرت ہیں۔

تدریسی وتصنیفی خدمات

            حضرت مولانا مرحوم کی تدریسی و تصنیفی فتوحات واکتسابات کا دائرہ بہت وسیع ہے، ۱۹۷۲/ سے ۱۹۸۲/ تک دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ اور ۱۹۸۲/ سے اپریل ۲۰۲۱/ تک دارالعلوم دیوبند میں عربی زبان وادب کے مثالی معلّم کی حیثیت سے آپ نے درس وتدریس کا جو جام لنڈھایا اور اپنی علمی وادبی تحریروں سے جس طرح تشنگانِ علوم کو سیراب کیا وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔

            آپ نے متنوع موضوعات پر مقالات ومضامین لکھنے کے ساتھ عربی زبان میں ”الصحابة ومکانتہم في الاسلام، مجتمعاتنا المعاصرة والطریق الی الاسلام، الدعوة الاسلامیة بین الأمس والیوم، العالم الہندي الفرید: الشیخ المقریٴ محمّد طیب، فسلطین فی انتظار صلاح دین، مفتاح العربیة (جزئان)“، اور اردو زبان میں: ”وہ کوہ کن کی بات، حرف شیریں، صحابہٴ رسول اسلام کی نظر میں، موجودہ صلیبی صہیونی جنگ․․ حقائق اور دلائل، عالم اسلام کے خلاف حالیہ جنگ․․ کیا اسلام پسپا ہورہا ہے؟ فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں، خط رقعہ کیوں اور کیسے سیکھیں“۔ جیسی اہم اور کارآمد کتابوں سے اسلامی کتب خانے کو مالامال کیا۔

            آج ہر چند کہ حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ ہمارے درمیان نہیں رہے؛ لیکن آپ کی تصانیف کی میراث بہرحال ہمارے درمیان باقی ہے جو آپ کے لیے بہترین صدقہٴ جاریہ ہیں، یہی وہ حقیقی میراث ہے جس سے نہ صرف یہ کہ ہم سب فائدہ اٹھاسکتے ہیں؛ بل کہ ان کی یاد کو قائم ودائم رکھ سکتے ہیں اوران سے مستفید ہوکر تعلیم و تربیت کے میدان میں مفید سے مفید تر بن سکتے ہیں۔

            رب کریم حضرت مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، لغزشوں کو درگذر فرمائے اور علّیین میں مقام بلند عطا فرمائے، آمین!

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :6-7،    جلد:105‏،  شوال المكرم – ذی الحجہ 1442ھ مطابق   جون-جولائی 2021ء

٭           ٭           ٭


[1] (۱)               مولانا محمد اسعد صاحب: بانیِ دارالعلوم الاسلامیہ/بستی حضرت مولانا باقرحسین صاحب نوراللہ مرقدہٗ کے بڑے فرزند ہیں، ۱۹۷۷/ میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ”جامعة الملک سعود/ریاض“ میں عربی زبان وادب کی تعلیم حاصل کرکے ۱۹۷۹/ میں ”مدرسہ امدادیہ / مرادآباد میں استاذ مقرر ہوئے۔ ۱۹۸۲/ سے تاہنوز ”دارالعلوم الاسلامیہ/بستی“ سے درجہٴ علیا کی کتابیں پڑھانے کے ساتھ بحیثیت ناظم انتظامی امور دیکھ رہے ہیں، وہاں سے شائع ہونے والے سہ ماہی رسالے ”فکر اسلامی“ کی ادارت بھی آپ ہی سے متعلق ہے، احقر کے نہایت مشفق اساتذہ میں سے ہیں، مطالع، تصنیف وتالیف اور نئی ونادر کتابوں کے حصول کے دلدادہ ہیں۔

Related Posts