حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            اس وقت انسانی دنیا عموماً اورہمارا وطن عزیز خصوصاً، کورونا کے نئے حملے کی زد میں ہے اور حالات نے وہ صورت اختیار کی ہے جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا، اموات کی وہ کثرت کہ تدفین یا آخری رسوم کی ادائیگی کے لیے بہت سے مقامات پر لائن لگ رہی ہے، انتظار کرنا پڑرہا ہے۔ علاج میں وہ دشواریاں کہ دس گنا قیمت پر بھی اسبابِ علاج مہیا نہیں ہورہے ہیں اور مریض آکسیجن کا انتظار کرتے ہوئے موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔ پھر احتیاطی تدابیر کے طور پر مختلف شہروں میں لاک ڈائون کے سلسلے شروع ہوچکے ہیں ، جن سے غریب طبقے کے لیے مزید مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ جیساکہ سال گذشتہ بیماری سے زیادہ اسی قسم کے مسائل نے بڑی تعداد کو متاثر کیاتھا، ان حالات کا مقابلہ سبھی مذاہب کے لوگ مل جل کر کررہے ہیں اور اچھے لوگ ایک دوسرے کی مدد بھی کررہے ہیں ، جب کہ وبا کے خوف سے، مریضوں یا مُردوں کے ساتھ غیرمناسب سلوک کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں ۔

            ان حالات کا ایک پہلو اور ہے جس کا تعلق لوگوں کے ذہن وفکر اور اُنکی سوچ سے ہے۔ عام طور پر چاروں طرف مریضوں اوراموات کی کثرت دیکھ کر لوگ گھبراہٹ اور مایوسی کا شکار ہورہے ہیں ، منفی سوچ میں مبتلا ہورہے ہیں اور اُن کا حوصلہ ٹوٹ رہا ہے۔ یہ صورت حال اگر اُن لوگوں کو پیش آئے جو ایمان سے محروم ہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں کہ وہ تواسباب سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے؛ لیکن خود ہمارے لوگ بھی اس طرح کی سوچ میں مبتلا ہورہے ہیں ، یہ افسوس کی بات ہے۔ سردست اپنے اہل ایمان بھائیوں ہی سے اس سلسلے میں نہایت اختصار کے ساتھ کچھ عرض کرنا ہے۔

            (۱) ہم سب کا اس بات پر پختہ ایمان ہے کہ دنیا میں جو کچھ پیش آتا ہے وہ اللہ رب العزت کے ارادہ واختیار کے تحت پیش آتا ہے، اگر ہمارے لیے کچھ ناگوار حالات یا مشکلات پیش آئیں تو ہمارے لیے سب سے پہلے اس پر غور کرنا ضروری ہے کہ اللہ نے ان حالات کو ہمارے لیے کیوں پسند کیا؟ اس سوال جواب جو قرآن کریم کی آیت میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے وہ یہ ہے کہ اس قسم کے حالات درحقیقت انسانوں کے اپنے غلط کاموں کا نتیجہ ہوتے ہیں ؛ اس لیے ہمیں ایسے حالات میں سب سے پہلے اپنے احوال واعمال کا جائزہ لے کر انھیں سُدھارنے کی فکر کرنی چاہیے، گناہوں سے مکمل پرہیز کی کوشش اور اپنے کرنے کے تمام ضروری کام کرنے کا اہتمام اور پوری دیانت وامانت اور قوت کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کرنا، یہ فریضہ ہے ہر صاحب ایمان کا اور ہم سب کو اسی پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

            (۲) یہ بات بھی ہمارے پختہ عقیدے کا حصہ ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے، جو ایک لمحہ آگے یا پیچھے نہیں ہوسکتا۔ بے شک یہ بات بھی صحیح ہے کہ اکثر وپیشتر، موت کے لیے کوئی ظاہری سبب وجود میں آتاہے؛ لیکن حقیقت میں وہ موت کو لانے والا نہیں ہوتا، موت تو اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے تحت مقررہ وقت پر آتی ہے، چنانچہ بہت سے لوگ شدید بیماری یا خطرناک حالات سے بھی بعافیت نکل آتے ہیں اور زندہ رہتے ہیں اور بہت سے لوگ کسی ظاہری خطرے کے بغیر رخصت ہوجاتے ہیں ، اس لیے چاروں طرف اموات کی کثرت سے گھبراہٹ اورمایوسی کا شکار ہونے کے بجائے اپنے یقین وایمان کومضبوط کرنا چاہیے۔

            (۳) تمام مشکلات کا حل اللہ کی مدد ہے؛ اس لیے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ رجوع الی اللہ اور دعائوں کا اہتمام کیا جائے، اس کے لیے رمضان المبارک کو خوب استعمال کیا جائے۔

            (۴) ان حالات میں مایوس ہوکر اپنے کام چھوڑ کر نہیں بیٹھیں ؛ بلکہ حالات جس قدر اجازت دیں ، اپنے کام کرتے رہیں ؟ البتہ جو احتیاطی تدابیر ضروری ہیں اُن سے غفلت نہ برتیں ۔

            (۵) ان تمام کاموں کے ساتھ اہل ایمان کو اپنی ایک اور ذمہ داری پر متوجہ ہونا چاہیے جو اللہ کے غضب کو دور کرنے اور رحمت کو متوجہ کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے، یہ عمل ایسا ہے جو صرف ہنگامی حالات ہی میں نہیں ؛ بلکہ ہر حال میں ہماری مسلسل اور اہم ترین ذمہ داری ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی بساط بھردنیا سے برائیوں کے خاتمہ اور اچھائیوں کو عام کرنے کے لیے کام کریں ، یہ وہ کام ہے جس کو قرآنی زبان میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کہا جاتا ہے اور قرآن وحدیث میں اس موضوع پر جو کچھ رہنمائی ہے اس کی روشنی میں یہ کہنا بھی قطعاً درست ہوگا کہ ہم انفرادی اوراجتماعی اعتبار سے جن حالات کا شکار ہیں ان کی اصل بنیاد اسی فریضہ سے غفلت ہے، خصوصاً برائیوں کو روکنے کے سلسلے میں ہماری بے عملی بہت خطرناک ہے۔ یہ موضوع چند جملوں میں سمیٹنے کا نہیں ہے؛ لیکن اس وقت اتنا کیے بغیر رہا نہیں جاسکتا کہ ہماری یہ کوتاہی اپنے گھروں اور ماحول کے انفرادی اعمال سے لے کر، قومی اوراجتماعی معاملات تک عام ہے اوراس پر پوری ذمہ داری کے ساتھ، اس کے حدود وشرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے۔ کاربند ہونا ہمارے اور دنیا کے حالات بدلنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔

            نوٹ: اس عرصہ میں بڑی تعداد میں علماء ومشاہیر اور متعلقین واحباب، دنیا سے رخصت ہوئے ہیں ان میں سے کچھ حضرات کا ذکر آئندہ شمارے میں  ہوگا ان شاء اللہ۔ سردست سبھی مرحومین کے لیے دعاء مغفرت کی درخواست ہے۔

——————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :4-5،    جلد:105‏،  شعبان المعظم – شوال المكرم 1442ھ مطابق   اپریل-مئی 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts