از: ہدایت اللہ قاسمی بلرام پوری، مفتی مدرسہ تعلیم الاسلام ممبئی
حق و باطل، صحیح و غلط، سچ و جھوٹ، عدل و انصاف اور ظلم و ستم کی معرکہ آرائی، صف بندی روز اوّل ہی سے رہی ہے؛ حق، صحیح، سچ، انصاف اور عدل، ابتدائے آفرینش ہی سے اپنے حریفوں کی نگاہوں میں کھرکنے والے کانٹے بنے رہے ہیں؛ ان حقائق اور امر واقعی کو صفحہٴ گیتی کا ہر ناحق شناش حسرت بھری یاس کی نظروں سے ہی دیکھنا چاہتا ہے، اور اپنی تمام تر فکری، ذہنی، قوت اور صلاحیت کو حق کے خلاف استعمال کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے؛ اس کو پتہ نہیں کہ انہی حقائق و دقائق کی روشنی سے گم گشتہ افراد کی رہ نمائی ہوتی ہے، اور یہ اعلیٰ مراتب کی طرف محرک ہیں، اگر بالفرض والتقدیر ان کا وجود نہ ہوتا، تو شاید کسی ظالم کو اپنے ظلم، چور کو اپنی چوری، اور قاتل کو اپنے قتل و غارت گری کی سزا ملتی؛ اس حقیقی فلسفہ کو صحیح طور سے سمجھنے کے لیے، آپ ایک سرسری وطائرانہ نظر، اسلام، قرآن اور اس کے خلاف بلند ہونے والی ہر زور و دھیمی آواز پر نظر دوڑائیے؛ آپ کو پتہ چلے گا کہ اسلام کیا ہے؟ اور قرآن جو خدائی قانون و آئین کا مظہر ہے،اس پرکس طرح سے ظلم اور عداوت کی بمباریاں ہورہی ہیں۔
اسلام چوں کہ دنیائے انسانیت کا منفرد و یکتا مذہب ہے، جس نے پوری انسانی برادری کے اقدار کی مکمل رعایت کی ہے؛ اس نے اپنے اور پرائے کا امتیاز کیے بغیر، ہرایک کے حقوق کی پاسداری کی، غیروں کے ساتھ حسن سلوک، اوراچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا، تہذیب و تمدن، اور سلیقہ مندی کا ایسا درس دیا، جس کی مثال ادیان عالم پیش کرنے سے یکسر قاصر ہیں، کیوں کہ اسلام کوئی من گھڑت، اور خودسازی کا مذہب نہیں ہے، بلکہ وہ تواس قانونِ الٰہی اور حکم خداوندی کا نام ہے، جسے اس نے اپنے مخصوص اور برگزیدہ بندوں کو دے کر، پوری عالمی برادری، اور انسانیت کے ساتھ شریفانہ اخلاق پیش کرنے کی طرف محرک ہے، وہیں پر یہ بھی دعوت دیتا ہے کہ دنیا ومافیہا کے اندر موجود، تمام چیزوں کا خالق ومالک، خدا کی ایک ذات ہے، جو وحدہ لاشریک ہے،اس کی کسی ایک ادنیٰ سی صفت میں دنیا کاکوئی بڑا سے بڑا انسان و مخلوق، شریک و سہیم نہیں، خواہ وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو، اس کی برابری اور ہم سری نہیں کرسکتا۔
اسلام سے پہلے ایک دور وہ بھی تھا کہ جب دنیا اور اہل دنیا تاریکی کے ظلمت کدہ میں طرب و مستی کی نیند سورہے تھے، ان کے لیے تاریکی اور ظلمت کی ہر فضا ہم وار ہوچکی تھی، ان کا ہر فرد و بشر، ظلم و جور، تعدی و گناہ کے مضبوط شکنجہ میں جکڑا ہوا تھا، اپنے حقیقی اِلٰہ و معبود سے ان کا دور کا بھی رشتہ نہ تھا، عابد و معبود میں نا آشنائیت اور بیگانگت تھی، ان کی زندگی کا محور ہر طرح کی دنیوی عیش و عشرت میں پلنا ہی رہ گیا تھا، انھوں نے اسی کو حقیقی زندگی تصور کررکھا تھا؛ اس کی حقیقت اس وقت مزید آشکارا ہوجاتی ہے، جب ہم اسلام سے قبل دورِ جاہلیت کا ایک سرسری مطالعہ کرتے ہیں۔
اہل عرب کے اندر اسلام اور قرآن سے پہلے ہر طرح کی برائی موجود تھی، چھوٹی سے لے کر بڑی تک ہر طرح اور ہر قسم و نوع کی برائیاں، ان کا مزاج بن چکی تھیں، خوں ریزی، قتل و غارت گری، شراب نوشی، قمار بازی اور بدکاری ان کی ایک امتیازی صفت تھی، گویا وہ اُسی کے پروردہ و تربیت یافتہ تھے۔ چناں چہ مشہور اردو ادیب، ماہر القادری صاحب اس پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں:
”خوں ریزی اور قتل وغارت گری عربوں کے لیے ایک کھیل تھی، انسانی جان کی ان کی نگاہ میں کوئی قدر و قیمت نہ تھی، جیسے درختوں، ڈالیوں اور گھاس کی پتیاں کاٹ دی اور مسل دی جاتی ہیں، بالکل اسی طرح وہ شقاوت پیشہ بھی ایک دوسرے کا گلا کاٹ کر کسی طرح کی پشیمانی اور ندامت و افسوس کا اظہار نہ کرتے تھے۔ انسانوں کے جسم ان کے نزدیک مٹی کے گھروندے تھے جب چاہا توڑ پھوڑ ڈالا۔“
”شراب ان کی گھٹی میں پڑی تھی، شرابیں پی کر ناچتے، گاتے بجاتے اور بدمستیاں کرتے، ساغر و مینا اور بادہ و شاہد ان کی زندگی بن گئے تھے، ان کے ایک مشہور شاعر کو جب قتل کی سزا تجویز ہوئی اور اس سے پوچھا گیا کہ تم کس طرح قتل ہونا چاہتے ہو، تو اس نے تمنا ظاہر کی کہ خوب شراب پی کر جب میں انتہائی مست و بے خود ہوجاؤں، تو میری فصدیں تیز اور گہرے نشتر سے کھلوادینا، یہاں تک کہ خون ٹپکتے ٹپکتے مجھ میں جان باقی نہ رہے؛ ان میں ایسے شقی القلب بھی تھے، جو اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی کھوپڑیوں میں، مزے لے لے کر انتہائی فخر و غرور کے ساتھ شراب پیتے تھے۔“
قمار بازی اہل عرب کا محبوب مشغلہ تھا، لوٹ مار، چوری، بددیانتی، حیلہ گری، وعدہ خلافی اور دروغ بانی، کو وہ ”آرٹ“ سمجھتے تھے، ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے، جھوٹی قسمیں کھاتے، عہدوپیمان کرتے اور توڑڈالتے، قافلوں کو لوٹتے، یتیموں کا مال ناجائز طریقہ سے دبالیتے، اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان تمام برائیوں کے باوجود ان کا دعویٰ تھا کہ ساری دنیا میں بس وہی شرافت و عزت کے مالک ہیں۔“
”بدکاری اہل عرب میں عام تھی، ہوسناکی کے عملی اظہار میں انھوں نے عاد و ثمود کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، عورت ان کے پاس صرف تسکین ہوس کاذریعہ تھی، چھپی ہوئی آشنائیوں سے لے کر کھلے ہوئے ناجائز تعلقات کی گرم بازاری تھی، سوتیلی مائیں تک ان کی ہوس رانیوں کی آماج گاہ تھیں، اور ان بے حیائیوں پر وہ شرمانے کے بجائے الٹا فخر کرتے، برائیاں ان کا مزاج اور جبلت بن چکی تھیں، عصمت و عفت کی قدر و قیمت پہچاننے کی صلاحیت ہی ان میں باقی نہ رہی تھی، آدمی کے بھیس میں حیوان، درندے اور شیطان بھی! شیطان نے صرف ایک سجدہ سے انکار کیاتھا اور یہاں پر پوری زندگی انکار و الحاد اور عصیان و فجور میں بسر ہوتی تھی۔“
یہ تھی ان کی عائلی، معاشرتی، سماجی، ملّی اور اخلاقی روش جس کے وہ دل دادہ اور خوگر تھے۔ اسلام اور قرآن نے آکر سب سے پہلے اُن کی اِن برائیوں، قباحتوں، فسق و فجور، الحاد و انکار اور ناشکری کی اس کھلی آزادی پر پابندی عائد کی۔ پھر ان کو ایک دوسرے کے حقوق کی پاس داری و لحاظ کا حکم دیا، غیرت و حمیت، تیقظ اور بیداری پیدا کی، اس طرح اسلام اور قرآن نے ان کی زندگی میں انقلاب برپا کیا، اور ان کی حیات و ممات کا رُخ صحیح سمت، اور خط مستقیم کی طرف موڑ کر ان کی زندگی کا کایا پلٹ دیا۔
یہاں پر یہ بات قابل لحاظ ہے کہ کوئی بھی حقیقت اورامر واقعی، اس وقت تک درجہٴ کمال تک نہیں پہنچتا، جب تک کہ وہ معاندین و مخالفین کی زبانِ تبرّا کا شکار نہ ہو۔ اسلام چوں کہ اپنی حقانیت میں عدیم المثال ہے، اس لیے لازمی طور پر اس کے حریف ہونے ہی چاہئیں۔ اس کا ایک خاص ثمرہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی سچائیت میں ہر چند اضافگی کا میدان ہم وار ہوجاتا ہے، اور خوب ٹھوس و دور رس نتائج مرتب ہونے لگتے ہیں، جس سے مخاطبین اور پیروکاروں کے سامنے یقین و اثبات میں خوب نکھار پیداہوجاتاہے۔
اسلام کے حوالے سے اس سرسری مطالعہ کے معاً بعد، غیر شعوری اور بلا اختیاری طورپر ذہن سبقت کرنے لگتا ہے، کہ یہود و نصاریٰ جو دنیائے اسلام کے ساتھ سب سے زیادہ عصبیت رکھنے والی معاند قوم ہے، جو ہمیشہ سے توحید الٰہ کی اسکیم کی مخالف رہی ہے، ہر وقت واجب الوجود کی ذات کے ساتھ ایسے اسباب و عوامل پیدا کرکے، انکار و الحاد اوراس کی معزز و برتر ذات کو مخدوش کرنے کے گھات میں لگی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام کو جتنا نقصان یہود و نصاریٰ سے پہنچا، اتنا دنیا کی کسی دوسری قوم سے نہیں۔ اس وقت میں مغربی تہذیب کے علم بردار، یورپ اورامریکہ اپنی قدیم حرکت، اسلام دشمنی میں پیش پیش ہیں، اور حتی المقدور اپنی قوت و توانائی، سیاسی و نظریاتی فکر سے اسلام کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ اسلام اور اہل اسلام کے ملی، سماجی، خان دانی اور معاشرتی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے کمربستہ ہیں، اور اپنے اس مکروہ مقصد کی بجاآوری کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی سازش رچتے رہتے ہیں۔ اس کی زندہ ترین مثال اس وقت میں امریکہ اور یورپ، نام نہاد امریکی آزادیٴ تہذیب و تمدن کی وہ مذموم ونازیبا حرکت ہے، جسے مغربی تہذیب و کلچر نے قرآن کو محرف کرنے کے حوالے سے ، خدائی حفاظت اور نگہبانی کو چیلنج دے کر اپنی قسمت کا ستارہ ڈبویا ہے۔
یہودیت اور نصرانیت کے دو بڑے منبع و سرچشمے اور مرکز، امریکہ اور اسرائیل جو کہ ہر وقت اسلام کو ہدف ملامت بنانے کے لیے تلے ہوئے ہیں۔ آج کل امریکی و اسرائیلی صہونیت نے اسلام کے خلاف ایک گھناؤنی اور ناپاک سازش کے تحت اسلام اور اہل اسلام کو مرتد و زندیق بنانے کی ایک زبردست منصوبہ بند کوشش رچی ہے۔ اس منصوبہ کے حوالے سے یہودی اور عیسائی اداروں، تعلیم گاہوں نے امریکہ اوراسرائیل میں، خفیہ طور پر ”فرقان الحق“ نامی کتاب ترتیب دے کر تیار کیا ہے، جس کا مقصد قرآن کو مٹانا اوراس کی تعلیم کو ختم کرکے، اہل اسلام کو باور اور تصور کرانا ہے کہ العیاذ باللہ قرآن آسمانی کتاب نہیں ہے؛ بلکہ یہ کسی انسانی محنت اور کاوش کا نتیجہ تھا جو اب تک باقی رہا۔ اب چوں کہ اس میں قدامت کی بو آگئی ہے، اس لیے ماڈرن اور نئی تہذیب کو اس سے خاطر خواہ فائدہ کے بجائے الٹا نقصان ہورہا ہے۔ اس لیے اب اس کی جگہ متبادل کے طور پر ”فرقان الحق“ نامی کتاب رہے گی۔
کتنے حیف و افسوس کی بات ہے کہ آسمانی کتاب قرآن مجید کو ہمیشہ کے لیے ختم کرکے اس کا متبادل پیش کرنے کی جرأت امریکہ و اسرائیل نے کی اور پھر نئے قرآن کو ماننے سے انکار و روگردانی کرنے اور اسلام پر ثابت و مضبوط قدم رہنے والوں کے خلاف سیاسی، اقتصادی، جسمانی، عسکری اور اجتماعی غرض ہر قسم کے تشدد کے سخت طریقے اختیار کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سازش اوردھوکہ دہی کے تحت ایک نیادین، نئی کتاب اور جدید شریعت کو متعارف کرایا جارہا ہے، جو درحقیقت اسلام کے ساتھ کھلی ہوئی عداوت اور ناانصافی ہے، جس کے تحت ایک بہت بڑی مذموم سازش ہے۔
ذرائع ابلاغ اور اخباروں کی سرخیاں، اس بات کی خوب شہادت دیتی ہیں کہ امریکی صدر جارج واکر بش، جو بزعم خود دنیا کے سب سے بڑے ہم نوا اور غم گسار ہیں۔ انھوں نے ہی احکام صادر کیے ہیں کہ مسلمانوں کو بہت جلد مرتد و زندیق بنانے کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ امریکی صدر کے اس اعلان کے بعد سے یہودی تنظیمیں، شدت پسند عیسائی رہنماؤں، مفکروں اور دانشوروں کے ساتھ مل کر امریکی خفیہ ایجنسی C. I. A. اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی ”موساد“ کے اعلیٰ ترین ماہرین کی سرپرستی میں مسلمانوں کے خلاف فکری اور نظریاتی جنگ کرنے کے لیے منصوبہ بند تیاری میں رواں، دواں ہیں، اور ان تنظیموں نے فرقان الحق کے نام سے قرآن کا نعم البدل، نیا قرآن گھڑنے اور اس کی توزیع و اشاعت میں خاطر خواہ کام یابی حاصل کرلی ہے۔ اور صیغہٴ راز میں رکھ کر عمومی طور پر اس کتاب کو بانٹنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔ اس کتاب کے تقریباً بارہ حصے ہیں، لیکن ابھی تک اسکا پہلا ہی حصہ منظر عام پر آیا ہے۔ اس طرح سے اس یہودی اور صہیونی سازش کی تقریباً تین یا چار سال میں مکمل ہونے کی امید ہے۔
اس خفیہ سازش میں امریکہ پیش پیش ہے، اس کو تنظیم نے یہ ذمہ داری دی ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کو کم زور تر بنانے اور اسلامی ملکوں کو بڑے اور خطرناک ہتھیاروں سے پاک کرنے کے نام پر غیرمسلح اور نہتھا کرے۔ اسی طرح اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے کندھے پر یہ ذمہ داری رکھی گئی ہے کہ وہ ہدف ملامت اور نشانہ بناکر، اسلامی قائدین، اور علماء ملت کو قتل کرانے کی منصوبہ بند کوشش شروع کریں، تاکہ مسلمانوں کی طاقت کم زور اور دھیمی پڑ جائے، تو اسلامی ممالک پر، امریکی یورپی اور مغربی حملوں کی بوچھار کی جائے۔ اور کم سے کم ہلاکتوں و نقصان کے ساتھ اسلامی ممالک پر قبضہ کیا جاسکے۔
اسلام کے خلاف یہودی، عیسائی تبلیغ و دعوت کا یہ عالم ہے کہ عیسائی مشنریاں ہرخطہ اور ہر چپہ میں ببانگ دہل اعلان کررہی ہیں کہ ”اب وقت آگیا ہے کہ قرآن کے خلاف کھل کر جنگ لڑی جائے، اور اس میں یہودی و عیسائی کا ہر بچہ، نوجوان، بوڑھا، عورت اور مرد شرکت کرے؛ کیوں کہ اسلام، قرآن اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کے علاوہ اب کوئی دوسرا چارہ کار نہیں رہا۔ جنگ ہی ایک واحد صورت رہ گئی ہے، جس کے دائرہ کار میں اس کے وجود کا صفایا مضمر ہے۔ تنظیم کے منصوبہ کے تحت اس بات کی بھی صراحت موجود ہے کہ امریکہ اور یورپ ممالک میں مسلمانوں کی رہائش و سفر پر پابندی عائد کردی جائے۔
قرآن حکیم جس کے وجود کو خطرہ میں ڈالنے کے لیے یہود و نصاریٰ اپنی قدیم عداوت کا استعمال کررہے ہیں، یہ اسلام کا وہ مایہٴ ناز خزانہ ہے، جس پر پورے اسلام کی بنیاد کھڑی ہے، اس میں تحریف کے بعد اسلام کی جڑیں کھوکھلی ہوجائیں گی اور پوری اسلامی عمارت متزلزل ہوکر رہ جائے گی۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9، جلد: 89 ، رجب، شعبان 1426ہجری مطابق ستمبر 2005ء