از:مفتی محمد اجمل قاسمی

استاذ تفسیر و ادب جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی، مرادآباد

            استاذ کوئی بھی ہو، تعلیم کے کسی بھی مرحلے میں اس نے پڑھایا ہو، وہ آدمی کا محسن اور کرم فرما ہے؛ مگر محسنین کی اس فہرست میں کچھ ایسی ہستیاں بھی ہوتی ہیں جن کی طرف انتساب آدمی کے لیے وجہِ افتخار اور باعث امتیاز بنتا ہے، میرے اور مجھ جیسے ہزاروں فیض یافتگان دارالعلوم دیوبند کے لیے جو ہستیاں وجہ افتخار ہیں ، ان میں ایک نمایاں اور جلی نام حضرت الاستاذ حضرت مولانا و مفتی سعید احمد صاحب صدرالمدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کا ہے (رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ) اردو شاعر فراقؔ گورکھپوری نے کبھی اپنے معاصرین سے کہا تھا:

نے والی نسلیں تم پر رشک کریں گی ہم عصرو!

جب یہ دھیان آئے گا ان کو، تم نے فراقؔ کودیکھاہے

            پتہ نہیں یہ فراقؔ کی بڑھی ہوئی خوش فہمی تھی یا اس میں حقیقت کا عنصر بھی کسی قدر شامل تھا؟ مگر حضرت مفتی صاحب کے نیاز مندوں کے بارے میں یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آنے والی نسلیں ان پر ضرور رشک کریں گی کہ انھوں نے مفتی سعید احمد صاحب سے شرف تلمذ حاصل کیاہے۔

            ہزارہا ہزار شاگردوں ، عقیدت مندوں ، وفا کیشوں اور نیاز مندوں کے دلوں میں حضرت مفتی صاحب کے لیے عقیدت ومحبت اور عظمت واحترام کے غیر معمولی جذبات تھے، آپ کی اچانک اور غیر متوقع رحلت نے ان جذبات میں ایک زبردست تلاطم برپا کردیا ہے،آپ کی عقیدت ومحبت میں نوک قلم سے ٹپکنے والے الفاظ اور تحریریں سوشل میڈیا پر امڈتے سیلاب کا سماں پیش کررہی ہیں ، منظوم و منثور خراجہائے عقیدت کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔

            وادی ایمنِ ہند مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کو اللہ سدا شاد وآباد رکھے عنادل خوش نوا اس کی شاخِ نشیمن کو اپنی نغمہ سرائیوں سے معمور کرتے رہے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز صبح قیامت تک معمور کرتے رہیں گے؛ مگر جن بلبلان خوش الحان نے ہمارے کانوں میں رس گھولے ہیں یکے بعد دیگرے ان کے کوچ کرتے رہنے سے یہ فضا ہمیں سونی سونی سی نظر آنے لگی ہے، پندرہ سال کے عرصہ میں کتنے اکابر رخصت ہوگئے جو اپنی طویل خدمات کی وجہ سے اس ادارے میں اپنا ایک مقام اور وقار رکھتے تھے، لیجیے اب اس گلشن سے وہ گلِ سرسبد بھی رخصت ہوا جس کی بہارِ حسن اپنے رنگ کی رعنائی اور معطر شمیم سے دل وجان کو تازہ اورقلب ونظر کو مست کیے رکھتی تھی۔

            جن خوش نصیبوں نے آپ کی مجلس درس کا رنگ دیکھا انہیں دکھانا کیا، جنہوں نے نہیں دیکھا واقعہ یہ ہے کہ انہیں دکھانا مشکل ہے، قلم کو یارائے بیان کہاں جو منظر کی صحیح تصویر اتار سکے، انگلیاں کیبورڈ پر حرکت میں ہیں اور حضرت الاستاذ کا دل آویز سراپا اور آپ کی مجلس درس کا دلکش منظر دماغ کی اسکرین پر متحرک ہے، یوں محسوس ہوتاہے کہ میں احاطہ مولسری میں نگاہوں کو فرش راہ کیے کھڑا ہوں ، اورحضرت الاستاذ بعد نماز مغرب صدر گیٹ سے داخل ہو رہے ہیں ، وجیہ شخصیت، دراز قد وقامت، باوقار سراپا، متین چال، صاف ستھرا لباس، احاطہ مولسری میں پہنچ کر کنویں والے ہینڈ پائپ پر پان تھوک کرمنہ صاف کر رہے ہیں ، پھر دارالحدیث کی طرف محو خرام ہورہے ہیں ، وہی تاریخی سرخ رنگ والی دارالحدیث جودارالعلوم دیوبند کا حسن اور اس کی پہچان ہے، جہاں پہنچ کر مجھ جیسے ہزاروں دل ادب واحترام میں جھکے اورفرط عقیدت سے کھنچے جاتے ہیں ۔

            دارالحدیث کی شمالی سمت سے جوں ہی آپ اندرداخل ہوتے، طلبہ کے کچھا کھچ بھرے مجمع پر سناٹا چھاجاتا، ہرکوئی سنبھل کر باادب بیٹھ جاتا، درس کو قلم بند کرنے والے سیکڑوں طلبہ اپنے کاغذ قلم ٹھیک کرنے لگتے، پہلی تپائی پر بیٹھنے والے اپنے بال اور ٹوپی بھی اہتمام سے درست کرنے لگ جاتے؛ اس لیے کہ کسی طالب علم کا الول جلول ہیئت میں قریب بیٹھنا حضرت کے لیے باعث تکدر تھا، مسند کے پاس پہنچ کرحضرت سروقد کھڑے ہوجاتے، مجمع پر نظرڈالتے ہوئے خاص ادا سے سلام کرتے،  سال میں دوچار دفعہ ایسا ہوتا کہ مجمع کو ناموافق پا کر غصہ میں تنبیہاً یہیں سے الٹے قدم یہ کہتے ہوئے واپس چلے جاتے کہ تمہیں اگر پڑھنے کا شوق نہیں رہا تو ہمارا بھی پڑھانے کا شوق پورا ہوچکا ہے جس کا آئندہ طلبہ کے اہتمام درس پر اچھا اثر مرتب ہوتا، ورنہ عام معمول تھا کہ سلام کے بعد خاص لب ولہجے میں ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کہتے ہوئے مسند حدیث پر فروکش ہوجاتے، آپ کی زبان اس مبارک ورد کی عادی تھی، دوران درس جب بھی پہلو بدلتے، یا کسی مضمون کومکمل کرتے، یاکوئی نئی بات شروع کرنے کا ارادہ کرتے تو بے اختیاریہ کلمہ آپ کی زبان پرجاری ہو جاتا۔

’’وہ آئے کب کے، گئے بھی کب کے،نظر میں اب بھی سمارہے ہیں ‘‘

            آپ کی چال ڈھال، نشست وبرخاست اور رفتار و گفتار میں عالمانہ وقار اور خاص قرینہ نظر آتا تھا،آپ مسند پر جب فروکش ہوتے توسامنے کتاب کی طرف کسی قدر جھک کر بیٹھتے، مائک والے کو ہدایت ہوتی کہ آواز بس اتنی رکھے جو دارالحدیث میں صاف سنائی دے، اس بارے میں اسے رہ رہ کر تنبیہ ہوتی رہتی،اس گھنٹے کی چوکسی اسے پورے دن کی ڈیوٹی پر بھاری تھی، دوران گفتگو سامنے مخاطب ہوتے، کسی قدر دائیں بائیں بھی متوجہ ہوتے، مگر پوری طرح چہرہ نہ اِدھر پھیرتے نہ اُدھر، بات کہتے ہوئے ہاتھوں کے اشارے سے بھی مدد لیتے؛ مگر نہ اٹھاپٹخ کرتے نہ زیر و زبر ہوتے، بس سینے تک ہی ہاتھ اٹھایا کرتے تھے، تدریس و تقریر دونوں کا انداز یکساں تھا۔

            دوران درس طلبہ یا تو گوش بر آواز ہو کر بدیدہ و دل آپ کی طرف متوجہ ہوتے، یا نظر نیچی کیے آپ کی تقریر قلمبند کرنے میں جٹے ہوتے، ہرطرف سکوت وسکون کی ایسی حکمرانی ہوتی کہ صریرخامہ صاف سنائی دیتی، اوراق الٹنے کی آواز محسوس کی جاتی، دارالعلوم کی مسندحدیث کویقینا بہت سے ایسے اکابر نے زینت بخشی ہے جو علم و تحقیق اور صلاح وتقوی کے میدان میں حضرت مفتی صاحب سے بہت فائق ہوئے ہیں ؛ مگر جس اہتمام اورشوق سے طلبہ کی جتنی بڑی تعداد نے حضرت کے درسی افادات قلم بند کیے کسی اور کے نہ کیے گئے۔

            آپ کے یہاں ہر چیز کا ایک معیارتھا جس پر مضبوطی سے قائم رہتے، ہرکسی کو آپ کے یہاں عبارت خوانی کا شوق پوراکرنا ممکن نہ تھا، اس کے لیے سال کے شروع میں ایک جائزہ ہوتا، شوقین طلبہ درخواست دیتے، حضرت خود ان کا امتحان لیتے جس کو پاس کرتے اسی کو بس عبارت خوانی کی اجازت ہوتی، جب تک یہ مرحلہ طے نہ ہوجاتا عبارت بھی خود پڑھتے، شروع ہی میں یہ تاکید ہوتی کہ میرے دارالحدیث میں داخل ہونے کے بعد کوئی داخل نہ ہو،اس کا نتیجہ تھا کہ آپ کی تشریف آوری سے پہلے سبھی طلبہ موجود ہوتے، اتفاقیہ کوئی پچھڑ جاتا تو مفتی صاحب کی نظروں سے بچ بچاکر کسی گوشہ میں بیٹھتا یا پھر اوپر کی گیلری میں چلاجاتا، شخصیت کی مقناطیسیت تھی،حسن تدریس کا جادو تھا یا کوئی کرامت تھی کہ طلبہ پروانہ وار آپ پر نثار تھے، اور آپ کے آداب درس کو سعادت سمجھ کر بجا لاتے، صدائے احتجاج بلند کرنا تو کجا، شکوہ سنج بھی کم ہی دیکھے گئے ہوں گے۔

            آپ درس دے رہے ہوں ، تقریر کر رہے ہوں یا عام مجالس میں گفتگو کر رہے ہوں انداز یکساں ہوتا، موقع عجلت کا ہو یا اطمینان کا گفتگو میں ہمیشہ اطمینان اورٹھہراؤ ہوتا، بولنے کا ان کا اپنا لب و لہجہ تھا  آواز بھی کسی قدر پست تھی؛ مگر اسی لب ولہجے میں جب بولتے تھے توعلم کے موتی رولتے تھے، محبوبیت ایسی تھی سب کچھ بھاتا اور بھلا لگتا تھا۔

            تدریس میں ان کااپنا خاص نہج اور منفرد انداز تھا جوعلامہ ابن رشد مالکی کی معرکہ الآراء تصنیف ’’بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد‘‘ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی مسوی شرح موطا کے نہج سے ملتا جلتا اوراس کے قریب تر تھا، عام طور پر ہمارے مدارس میں ائمہ کے مذاہب پر طویل بحث ہوتی ہے، دلائل کے درمیان موازنہ ومحاکمہ کیا جاتاہے، اورمذہب حنفی کی وجہ ترجیح بیان کی جاتی ہے، اس طریقے کی بنیاد حضرت گنگوہیؒ ونانوتویؒ سے ہوئی، شیخ الہند تک بات اختصار اور اشاروں تک محدود تھی، علامہ انورشاہ کشمیریؒ آئے توانھوں نے اپنے وسیع مطالعہ، بے پناہ علم، اور بے مثال قوت حافظہ سے اس نہج کو زبردست ترقی دی، اور ان کے شاگردوں نے اس کوعام کیا اور پھیلایا، یہ نہج وقت کی ضرورت کے تحت سمجھ بوجھ کر اختیار کیا گیاتھا، ہندوستان میں غیرمقلدین نے یہ پروپیگنڈہ زور وشور سے کرنا شروع کر دیا تھا کہ فقہ حنفی احادیث صحیحہ کے بجائے قیاس اور ضعیف احادیث پر قائم ہے،اس بے حقیقت پروپیگنڈے کاصحیح جواب یہی تھا کہ تدریس و تحریر کے ذریعہ یہ بات اہل علم پر واشگاف کی جائے کہ فقہ حنفی بھی دیگر مذاہب متبوعہ کی طرح کتاب اللہ اورسنت صحیحہ پر قائم ہے؛ چنانچہ اس نہج پر درس وتدریس کے فوائد بھی سامنے آئے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو نفحۃ العنبر اورنقش دوام)

            حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا موقف تھا کہ جب چاروں مذاہب برحق ہیں تو دلائل میں موازنہ و محاکمہ اورترجیح کے قصوں کے دراز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، وہ ائمہ کے مذاہب اوران کے مستدلات کو پیش کرتے، ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتے کہ یہ اختلاف نص فہمی کا ہے یا تعارض نصوص سے پیدا ہوا ہے، یہ بھی واضح کرتے کہ مسئلے کی اصل کتاب اللہ ہے یا سنت رسول اللہ، مثلاً ترمذی شریف میں جب ’’مس المرأۃ‘‘  کا مشہور مسئلہ زیربحث آیا تو آپ نے فرمایا: یہ مسئلہ دراصل حدیث کا نہیں بلکہ قرآن کا ہے، پھرآپ نے ’’اولامستم النساء الخ‘‘ آیت کریمہ تلاوت فرمائی، اوریہ بھی بتایا کہ اس مسئلے میں اختلاف نص فہمی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، جن لوگوں نے ’’لامس‘‘ کو اس کے حقیقی معنی میں رکھا انھوں نے ’’مس‘‘ کو ناقض وضو قرار دیا، اورجن لوگوں نے ’’ملامسۃ‘‘ کو جماع سے کنایہ سمجھا انھوں اس کو جنابت سے متعلق قرار دیا اور ’’مس‘‘ کوناقض وضو نہیں سمجھا۔

            نصوص سے فقہاء کے طرز استدلال کو حدیث کے درس میں زیرِ بحث لانے کا فائدہ بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کرتے کہ جو مسائل فقہاء نے طے کردئے ان میں تو اب اجتہاد کی ضرورت نہیں ، لیکن جونئے نئے مسائل پیش آتے رہتے ہیں ان میں اجتہاد کی ضرورت قیامت تک باقی رہے گی، جب آپ گذرے ہوئے مسائل میں فقہاء کے طرز استدلال سے واقف ہوں گے تو آئندہ اس میں پختگی پیدا کر کے آپ بھی اپنے دور کے مسائل اسی نہج پر حل کر سکیں گے،اور اگر واقفیت ہی نہیں ہوگی تو آپ فقہی بصیرت سے محروم رہیں گے اورنت نئے مسائل کا حل پیش کرنے سے عاجز ہوں گے۔

            درس حدیث میں اسناد اور روایت کے مقابل میں درایت کے پہلو پر زیادہ توجہ فرماتے تھے، مختلف فیہ مسائل میں اپنی رائے بھی رکھتے تھے، اور اس کو بہت اہمیت اور قوت کے ساتھ پیش کرتے تھے،بہت سے علمی مسائل میں آپ کی اپنی آراء اور تفرادات ہیں جوآپ کے درسی تقریر کے مجموعوں میں دیکھے جا سکتے ہیں ، آپ کی بعض آراء اور تفردات آپ کی حیات ہی میں بحث کا موضوع بنے، سوال وجواب اور بحث و مباحثے کا ایک طویل سلسلہ رہا ۔ناچیز کے دل میں آپ کی عظمت ومحبت کے جو نقوش دور طالب علمی میں قائم ہوئے الحمد للہ وہ اب تک مدھم نہیں پڑے، آپ کے دروس سے خاص شغف رہا ہے، سبق میں حاضری کا اہتمام اللہ کے فضل سے ہمیشہ رہا، دورے میں یہ اہتمام مزید بڑھ گیا، شاذ و نادر ہی کسی سبق میں ناغہ ہوا؛ مگر کچھ گھنٹے ایسے تھے جس میں الحمدللہ کوئی ناغہ نہیں ہوا،ان میں ایک گھنٹہ حضرت مفتی صاحب کا بھی تھا۔

            آپ کا نمایاں امتیاز آپ کی عمدہ تفہیم اور مباحث کی تسہیل وتبسیط ہے، آپ گھول کر پلا دینے کے گُر سے واقف تھے، آپ کے سبق میں پیچیدہ مسائل کی گتھیاں سلجھتیں ، اور سنگلاخ علمی مباحث پانی ہوجاتے، آپ کے اس انداز کو آپ کے سیکڑوں تلامذہ نے حسب ظرف واستعداد جذب کیا، اورکامیاب و باتوفیق مدرس بن گئے:

یہ بھی اعجاز ہے آپ کے نطق کا

بے زبانوں کوطرز کلام آگیا

            آپ کی اسی خوبی وکمال کا نتیجہ تھا کہ ذہین وزیرک بھی آپ کی باتوں کوسمجھتے، اورغبی وکند ذہن بھی، سبھی کے لیے آپ کے درس میں دلچسپی کا سامان موجود تھا،طلبہ تو خیر طلبہ ہیں ، مدرسہ اورمدرسے کی کتابوں سے ناآشنا کوئی عام پڑھا لکھا آدمی بھی اگر آپ کے سبق میں شامل ہوجاتا تو وہ بھی مستفید ہوتا اور بے مزہ نہ رہتا، ایک مرتبہ گاؤں اور علاقے کے کچھ لوگ دارالعلوم کی زیارت کے لیے تشریف لائے، ان میں ایک دوکے علاوہ یاتواسکول کے ماسٹر تھے یاتاجر، ان کی خواہش حدیث کے سبق میں شرکت ہوئی، میں ان کو مغرب کے بعد حضرت مفتی صاحب کے درس میں لے گیا، اتفاق سے اس دن ترمذی کے سبق میں اعتکاف کے مسائل زیرِ بحث تھے،ہمارے یہ زائرین دیندار لوگ تھے،ان میں سے بعض اعتکاف وغیرہ کا بھی اہتمام کرتے تھے، حضرت مفتی صاحب نے دیر تک اعتکاف و معتکف کے مختلف مسائل بیان کیے،معتکف کے لیے غسلِ نظافت وتبرید کا مسئلہ آج کل کے ماحول میں اہمیت اختیار کر چکاہے، مفتی صاحب نے اس پربھی تفصیل سے روشنی ڈالی، زائرین بہت محظوظ اورمستفید ہوئے،ایک صاحب توکہنے لگے مولانا بہت اچھا پڑھاتے ہیں ، اگر یہ کتاب اتنی آسان ہے توہم لوگ بھی پڑھ سکتے ہیں ، غرض آپ کے سبق میں کس و ناکس کوئی بھی محروم نہیں رہتاتھا:

وللأرض من کأس الکرام نصیب

            بعض احادیث فکری و نظری کے بجائے عملی ہوتی ہیں ، ایسی احادیث کی تشریح میں اگر علمی وفنی موشگافیوں کے بجائے عمل اورتجربہ پیش کیا جائے تومضمون زیادہ دلنشین ہوتا ہے اور ساتھ ہی عمل کا داعیہ بھی پیدا ہوتا ہے،حضرت مفتی صاحب ایسی حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے بہت سی دفعہ یہی دوسرا طریقہ اختیار کرتے، دوران درس کسی مناسبت سے رقیہ (جھاڑ پھونک)کا مسئلہ زیرِبحث آیا تو حضرت نے فرمایا: ’’کلمات میں اللہ نے اثر رکھاہے، اللہ پر بھروسہ کر کے اگر ان کوپڑھ کرمریض کودم کیا جائے تو فائدہ ہوتا ہے،تجربہ کر کے دیکھو! ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے‘‘ پھر فرمایا:’’بارہا ایسا ہوا کہ میرے والد کو دانت یا سر میں درد ہوا، میں نے احادیث میں وارد کلمات پڑھ کردم کیا اور الحمدللہ تھوڑی ہی دیر میں افاقہ ہوگیا، ایک مرتبہ فون کیا، پتہ چلا والد صاحب کو سر میں تکلیف ہے، میں نے ان سے کہا ریسور سر پر رکھیے، میں نے ادھر سے ریسور میں دم کیا اورالحمدللہ افاقہ ہوگیا۔ اس طرح کے بعض اور واقعات بھی ذہن میں ہیں مگر طوالت کاخوف دامن گیر ہے،اس طرح کی احادیث میں تجربہ پیش کرنے  سے حدیث پر اعتماد بڑھتا تھا، اور عمل کا داعیہ بھی پیدا ہوتا تھا۔

            آپ کی ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ اگر آپ مسلسل دوگھنٹے پڑھاتے، تو آواز انداز رفتار شروع آخر اور درمیان میں یکساں ہوتی، عام طور سے دورہ حدیث میں سال کے شروع میں طویل تقریریں ہوتی ہیں ، پھر وقت کی کمی کے باعث سرداً وروایۃ ًکتاب پوری کرادی جاتی ہے؛ مگر حضرت اس معاملے میں بھی طاق تھے جوانداز اور رفتار شروع میں ہوتی وہی آخری سبق تک بحال رہتی، ہر ہر حدیث پر حسب ضرورت کلام فرماتے۔

            آپ کو اردو بالخصوص مغربی پوپی میں بولے جانے والے محاورات اور کہاوتوں پر دسترس تھی، احادیث کے ترجمہ میں کبھی اردو کا کوئی مناسب محاورہ نقل کرتے توطبیعت محظوظ ہوتی، مانعین زکاۃ کے خلاف خلیفہ الرسول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے جہاد کی تھی، جب کہ دیگر بہت سے صحابہ کی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جہاد میں تامل تھا، جس کا اظہار انھوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کیا، اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو مومنانہ اور جوشیلے جملے ارشاد فرمائے ان میں ایک جملہ یہ بھی ہے ’’یاعمر! أجبار فی الجاہلیۃ وخوار فی الإسلام‘‘ استاذ محترم نے اس کا ترجمہ فرمایا: ’’عمر!جاہلیت میں توبڑے سورما تھے اسلام میں بھیگی بلی بن گئے؟؟‘‘ حضرت کے اس ترجمہ نے بہت محظوظ کیا، آپ کے درسی افادات میں اس کی مثالیں امید ہے جا بجا دیکھنے کو ملیں گی۔

            حضرت عزم کے سچے اوردھن کے پکے تھے، جوٹھان لیتے اس میں جٹ جاتے، اور کر گذرتے، آپ کی زندگی اور کارنامے اس کے شاہد اور گواہ ہیں ،افتاء کرتے ہوئے حفظ قرآن کا شوق پیدا ہوگیا، توافتاء کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ چند ماہ میں حفظ بھی کر ڈالا، معاشی حالات کچھ بہتر ہوئے تو بلامعاوضہ خدمت تدریس انجام دینے اوراب تک اس خدمت پر معاوضے میں جو کچھ لیا تھا اس کو واپس کرنے کا داعیہ پیدا ہوا، چنانچہ اللہ کے بھروسہ پر ٹھان لیا اور کر گذرے،حالاں کہ یہ عمل آسان ہرگز نہ تھا، اولوالعزمی کی یہ مثال اس دور میں مشکل سے ہی ملے گی، ہم طلبہ کو بھی نصیحت کی تھی کہ تنخواہ لے کر کام کرو، اور یہ نیت رکھو کہ اللہ دوسرے ذرائع پیدا کردے گا تو تنخواہ نہیں لیں گے، اور اگر ممکن ہوسکا تو لی ہوئی تنخواہ بھی واپس کردیں گے؛ مگریہ فرہادی حوصلہ اوریہ آہنی ارادہ ہرکس و ناکس میں کہاں ، یقینا یہ چیزیں مفتی صاحب کو بہت عظیم بناتی تھیں :

ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

            آپ مضبوط جی گردے اور طاقتور شخصیت کے مالک تھے، جھینپنا اور مرعوب ہونا جانتے ہی نہیں تھے، اندرون دارالعلوم طلبہ واساتذہ کے مجمع کوخطاب کررہے ہوں یا باہر کسی سیمینار یا اہل علم کے مجمع سے مخاطب ہوں ، لہجے میں وہی ٹھہراؤ اوراطمینان ہوتا اور گفتگو کا وہی رنگ وآہنگ ہوتا جس سے وہ جانے اورپہچانے جاتے تھے،ایسا نہیں ہوتا تھا کہ مجمع سے متاثر ہوجائیں ، اورانداز گفتگو میں فرق آجائے، جوموقف رکھتے مضبوطی سے پیش کرتے اوراس پر قائم رہتے۔

            آپ مقبولیت اورمحبوبیت کی جس بلندی پر تھے وہاں پہنچ کر خواہی نہ خواہی آدمی کے اسفار نیز پروگراموں اورجلسوں میں شرکت کا سلسلہ دراز ہوجاتاہے، یہ آدمی کی مجبوری بھی ہوتی ہے اور لوگوں کی ضرورت بھی، بلکہ دیکھا جائے تویہ ایک دینی ضرورت بھی ہے؛ مگر اس مرحلے میں پہنچ کر اعتدال پر قائم رہنا مشکل ہوجاتاہے،عموماً ہوتا یہ ہے کہ بیرونی پروگراموں کی کثرت کی وجہ سے اسباق کا حرج اورطلبہ کا نقصان ہوتا ہے؛ مگر مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا معاملہ اس سلسلے میں بالکل مختلف تھا،آپ کے نزدیک درس کوہمیشہ اولیت اور اہمیت حاصل رہی، دوران تعلیم سفر سے مکمل پرہیز کرتے اور یکسو ہوکر پڑھنے لکھنے اور پڑھانے میں لگے رہتے، سفر کرنا ہوتا تو چھٹیوں کے ایام میں کرتے، عوامی جلسوں اور پروگراموں سے خود بھی پرہیز کرتے اور پڑھنے لکھنے کا ذوق رکھنے والے طلبہ کوبھی اسی کی تاکید کرتے، فرماتے کہ عوامی جلسوں کی نذر ہو کر آدمی علم کے مطلب کا نہیں رہتا، مفتی صاحب کا یہ معمول جہاں ان کے علم دوست ہونے کا ثبوت ہے وہیں طلبہ کے تئیں ان کی خیرخواہی اور امانت داری کی بھی دلیل ہے۔ اور بلاشبہ ہم شاگردوں کے لیے ایک بہترین مشعل راہ بھی۔

            آپ کی بڑی خوبی وقت کی حفاظت اور اس کی قدردانی تھی،آپ اپنے اوقات کا ایک ایک لمحہ وصول کرتے، ہر وقت علمی مشاغل میں لگے رہتے؛ آپ کے یہاں مجلس آرائی، لایعنی مشاغل، حد یہ ہے کہ جائز تفریحات کا بھی کوئی خانہ نہ تھا،عیادت وتعزیت کے علاوہ عام طور پر کسی کے یہاں آتے جاتے نہیں تھے، دو تین مرتبہ ایسا اتفاق ہواکہ ناچیز چھتہ مسجد کے قریب واقع افریقی منزل (جس میں اساتذہ کی رہائش گاہیں ہیں )سے گذر رہا تھا،کہ حضرت پر نظر پڑی، دیکھا حضرت دارالعلوم کی طرف تیزگامی سے جارہے ہیں یا واپس ہورہے ہیں اور ہاتھ میں کوئی کتابچہ ہے جس کا مطالعہ بھی جاری ہے، میری حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ اس مصروف راستے میں تیزگامی سے چلنا اور پھر مطالعہ بھی کرتے رہنا کیوں کر ممکن ہوا، اور اگر ساتھ میں دیوبند کے رکشہ چلانے والوں کی ہٹو بچو اور طوفانی چال کوبھی ذہن میں رکھ لیا جائے تو استعجاب اور سوا ہوجاتاہے۔اسی طرح عصر بعد آپ کی مجلس میں جب پہلی بار حاضری ہوئی تو خیال تھا کہ حضرت طلبہ کو کچھ نصیحت فرماتے ہوں گے، مگر جب وہاں پہنچا تو قصہ بالکل مختلف تھا، ایک طالب سر میں تیل کی مالش کر رہا تھا، اور حضرت کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف، حاضرین میں کسی نے کچھ پوچھا تو مطالعہ جاری رکھتے ہوئے جواب دے دیا اور پھر وہی خاموشی، وقت کی اس طرح قدردانی ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ ترقی کے اس بام عروج پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

            آپ حصول علم کی راہ میں مشقت اٹھانے کے عادی اورسخت کوش واقع ہوئے تھے،اور اپنے شاگردوں کو بھی اسی طرح دیکھنا چاہتے تھے، فرماتے تھے کہ دینی پیشوائی اللہ کے وعدوں پر یقین اوردین کی راہ میں قربانی اور مشقتوں پر صبرکیے بغیرنہیں ملتی،اور اپنی بات کی تائید میں یہ آیت کریمہ پیش کرتے: ’’وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّۃً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُونَ‘‘ (السجدۃ:۲۴) اورہم نے ان (بنی اسرائیل) میں سے کچھ لوگوں کو، جب انھوں نے صبرکیا، ایسا پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔

            علمی مشاغل میں اس درجہ اشتغال کا ایک ناخوشگوار نتیجہ بسا وقت یہ سامنے آتا ہے کہ آدمی کی معاشرت کمزور پڑجاتی ہے، لوگوں کے حقوق کا لحاظ نہیں ہوپاتا؛ مگر مفتی صاحب کا یہ پہلو بھی تشنہ نہیں تھا، اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر جس طرح انھوں نے توجہ دی اس کی تفصیل آپ کے برادر خورد استاذ محترم حضرت مفتی امین صاحب دامت برکاتہم کے قلم سے ممدوح محترم کی زندگی میں منظر عام پر آچکی ہے، ایک دو واقعہ اور پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو دوران درس حضرت سے سنے۔ فرمایا: ’’میں اپنے گھر کی تعمیر کرا رہا تھا، کہ ایک پڑوسی نے مجھ سے کہا حضرت! میری طرف دیوار میں ایک طاق اگر نکلوادیں تو مہربانی ہوگی، وہ میرے چراغ رکھنے کے کام آئے گا، میں نے کہا کہ بہترہے، اور مستری کوکہہ کر پڑھانے چلاآیا، واپس آیا تو دیوار اونچی ہوگئی تھی، اورطاق نہیں نکلا تھا، میں نے مستری سے وجہ پوچھی، تواس نے کہا مولانا صاحب آپ سمجھتے نہیں ہیں ، اگر آپ اس طرف طاق نکلوادیں گے توکل کو اُسے آدھی دیوار پر دعوے کا حق ہوجائے گا؛ لہٰذا طاق نکالنے میں آپ کا نقصان ہے، میں نے کہا بھائی تمہاری خیرخواہی کا شکریہ، مگر تم نکال دو، اور میں نے اپنے بچوں سے کہہ دیا کہ اگر یہ پڑوسی کبھی دیوار پر دعوی کردے توآدھی دیوار اسے دے دینا۔

            اسی طرح ایک مرتبہ دوران سبق وہ معروف حدیث کسی مناسبت سے زیرِ بحث آئی جس میں ہے ’’إذا طبختَ مرقۃً فأَکْثِر مَائہا، و تَعَاہَد جِیرانَک‘‘ (کہ جب (گوشت کا ) شوربا پکاؤ تو پانی بڑھا لو، اور اپنے پڑوسیوں کا بھی خیال رکھو) ’’آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ اچار بنانے کے لیے گھر میں بڑے برتن کی ضرورت ہوئی،پڑوسی کے گھر سے منگایا گیا، جب برتن واپس کرنے کی باری آئی تو میں نے کہا اس برتن میں اچار رکھ کر واپس کرو، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب اچار بنانے کا موسم آتاہے تووہ پڑوسی صاحب پوچھنے لگتے ہیں کہ برتن کب بھیجوں ؟

اک دھوپ تھی جوساتھ گئی آفتاب کے

            آپ قناعت پسندی، سادگی، خودداری، وضع داری، عزت نفس، عالمانہ وقار، علم کے ساتھ عمل کی دولت سے نہ صرف مالا مال تھے؛ بلکہ ہم ایسوں کے لیے مثال بھی تھے، حرص وطمع اورتعلقات سازی کے فن سے ناآشنا تھے،ان باتوں پر بھی دوچار سطر لکھنے کا ارادہ تھا مگرخوف طوالت مانع ہے ۔

            حضرت سے سنہ ۲۴-۱۴۲۳ ہجری مطابق۲۰۰۳ ءمیں دورہ حدیث کے سال جامع ترمذی اور امام طحاوی کی شرح معانی الآثار پڑھنے کی سعادت ملی،دورہ کے بعد مزید پانچ سال اورکل سات سال دارالعلوم میں رہنا ہوا، اس دوران حضرت کے بہت سے خطابات سننے اور ان سے مستفید ہونے کا موقع ملاجس پر ناچیز اللہ تعالی کا بے حد شکر گزار ہے، میرے تدریب فی الافتاء کے سال حضرت کو بخاری شریف کی جلد اول کی تدریس سونپی گئی؛ چنانچہ ناچیز جناب مفتی فخرالاسلام صاحب نائب مفتی دارالعلوم زیدمجدہم کے ہمرا ہ آپ کے پہلے درس بخاری میں شریک ہوا، حضرت نے سبق شروع میں فرمایا: ’’جس نے بخاری میں تین باتیں پڑھیں اس نے بخاری پڑھی ورنہ اس نے بخاری نہیں حدیث بخاری پڑھی‘‘،(۱)فرمایا: امام بخاری خود مجتہد ہیں وہ اپنا موقف اورعلمی آراء ابواب کے تراجم کی شکل میں پیش کرتے ہیں ؛ چنانچہ کہا گیاہے کہ ’’فقہ البخاری فی تراجمہ‘‘  لہٰذا بخاری پڑھنے میں پہلا کام تراجم میں پیش کردہ بخاری کی آراء اور مجتہدات کوسمجھنا ہے،(۲) امام بخاری ادنیٰ ادنیٰ مناسب سے تراجم کے تحت احادیث نقل کرتے ہیں ، بخاری پڑھنے اور پڑھانے میں دوسرا اہم کام تراجم اوراس کے تحت نقل کی گئی احادیث میں مناسبت اور جوڑ کو سمجھنا ہے،یہ موضوع بخاری کے حوالے سے اہم اور ارباب فن کی جولان گاہ رہا ہے۔ (۳)تیسری بات جو حضرت نے فرمائی وہ ذہن میں نہیں رہی، شاید مفتی فخرالاسلام صاحب کو یاد ہو، یا آپ کے درسی افادات میں موجود ہو۔ فرمایا: اگر آپ نے ان تینوں باتوں کی رعایت کے ساتھ بخاری پڑھی توبخاری پڑھی، ورنہ اس کی احادیث پڑھیں ۔

            اس مقالے میں حضرت کی شخصیت اوران کارناموں کا پیش کرنا مقصود نہیں ہے، ان باتوں کے لیے تو مبسوط مقالہ درکار ہے،سنا ہے کہ آپ کی حیات ہی میں اس پرکام شروع ہوچکا ہے، ان سطور میں تو بس اپنی تسکین خاطر کے لیے مفتی صاحب سے وابستہ اپنے مشاہدات وتاثرات کو پیش کرنا ہے،اب اگر اس حکایت میں دوسروں کو بھی اپنے مشاہدات و تاثرات کی جھلک مل جائے تو یہ میرے لیے خوشی اورسعادت کی بات ہوگی،کچھ اور باتیں بھی پیش کرنے کا ارادہ تھا؛ مگر مضمون کی طوالت دیکھتے ہوئے ترک کرنا پڑا، امید ہے کہ جوباتیں رہ گئیں ہیں وہ بھی دوسروں کے مضامین یا آپ کے سوانحی خاکے یا افادات میں آگئی ہوں گی یا آجائیں گی ۔

ورق تمام ہوا اورمدح ابھی باقی ہے

            اللہ تعالی حضرت الاستاذ کی حسنات وخدمات کوشرف قبولیت بخشے،زلات کو معاف فرمائیں ، مقام قرب میں جگہ عطافرمائے، اور دارالعلوم کو آپ کا نعم البدل عطا فرما کر آپ کے خلا کوپرفرمائے،  اللّٰہم لاتحرمنا اجرہ، ولا تفتنا بعدہ، واغفرلنا و لہ، واجمعنا معہ فی جنات النعیم یارب العالمین، آمین!

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:104‏،  ذی الحجہ 1441ھ – محرم الحرام 1442ھ مطابق اگست  – ستمبر 2020ء

٭        ٭        ٭

Related Posts