فقیہ النفس، استاذ محترم حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب قدس سرہٗ

…….. تبسم برلبِ اوست!

از: مولانا محمد اصغرقاسمی، سہارنپوری

تحویلدار دارالعلوم دیوبند

            سماحت وبشاشت کی غمازکشادہ جبیں ، بارعب چہرہ، علم وحکمت کا آئینہ دار اور علوم وفنون کا منبع قدرے بڑا گول سر،بلند ناک،گھنی اور مسنون خضاب سے مزین داڑھی،فصاحت وبلا غت اورطلاقت لسانی کا آئینہ دار کشادہ منہ، سر سے چپکی ہوئی گول ٹوپی اور سفید عمامہ اور بدن پرعالمانہ عربی لباس، کشیدہ قامت،دوہرا مضبوط محنتی وجفاکش بدن، باوقار،میانہ چال، آنکھوں پر موٹا چشمہ یہ سراپا ہے فقیہ النفس اور محدث جلیل مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کے فرزندارجمندشیخ الحدیث وصدر المدرسین اور عالم اسلام کی بافیض عظیم ترین شخصیت حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری قدس سرہ کا،جوا ب اس دارفانی سے دار باقی میں منتقل ہوگئے ہیں ،جن کی رحلت اور وفات حسرت آیات پر یہ شعر بالکل صادق آرہا ہے   ؎

ماکان قیس ہلکہ ہلک واحد

ولکنہ بنیان قوم تہدما

             ایسے ہی اردو کے ایک شاعر نے اس طرح کے موقع کے لیے کیا ہی عمدہ شعر کہا ہے۔؎

اٹھا سروں سے ایسا گھنیرا سایہ کہ آہ

رنج والم کی ایک گھٹا چھاگئی

            حضرت کے انتقال پر ملال کی خبر یقینا برق بن کر گری،اس نے کچھ لمحات کے لیے قلب وقالب میں کپکپی پیدا کر دی رب ذوالجلال نے حضرت الاستاذکی ذات والا صفات میں علم وعمل کی جامعیت ودیعت فرمائی تھی وہ جہد مسلسل،محنت شاقہ وجفاکشی،اور صبر واستقامت کے کوہ گراں تھے،انھوں نے ممتاز مدارس خاص طور پر مظاہر علوم سہارنپور اور دارالعلوم دیوبند میں انتہائی قابل رشک طالب علمانہ زندگی گذاری تھی اور ہمیشہ نمایاں نمبرات سے کامیابی حاصل کرتے کرتے دورہٴ حدیث شریف سے ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۹۶۲ء اور افتاء ۱۳۸۳ھ مطابق ۱۹۶۳ء میں بھی امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے تھے اورپھر اس سے بھی زیادہ محنت ولگن سے عالم وتدریس اور تصنیف وتالیف کو جلا بخشی تھی،ان کی شہر ہ ٔآفاق عظمت کے نقیب زبان وقلم دونوں تھے، قسام ازل نے انھیں اس دور انحطاط میں رسوخ فی العلم میں سلف صالحین اور علمائے متقدمین کا نمونہ بنایا تھا،جتنا مقبول ان کا درس تھا اسی طرح سے ان کی نگارشات و رشحات قلم نے بھی اپنا لوہا منوایا ہے،وہ تدریس کے اعلی منصب پر فائز تھے انھیں تمام شرعی علوم پر مکمل استحضار حاصل تھا،وہ جہاں بخاری وترمذی کے عظیم شارح تھے تو وہیں آسان نحو اور آسان صرف؛ بلکہ آسان فارسی کے ماہر مؤلف بھی تھے،اتنی جامعیت کی حامل شخصیات خال خال ہی جنم لیتی ہیں ،راقم الحروف ایک مرتبہ عصر بعد کی مجلس میں موجود تھا تو حضرت نے فر مایا تھا کہ میں نے فن منطق میں سترہ کتا بیں پڑھی ہیں ؛جب کہ فی الوقت پورے درس نظامی میں منطق کی صرف پانچ کتابیں داخل درس ہیں اور جو ہیں وہ بھی چراغ سحری ہیں ،ایک شعر بہت گھِس جا نے کے بعد بھی حضرت کی شخصیت پر موزوں معلوم ہوتا ہے ۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نور پے روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدور پیدا

            حضرت الاستاذ کی علمی وفکری جولان گاہ صرف درس نظامی تک ہی محدود نہیں تھی؛بلکہ وہ دورحاضر کی نبض کو بھی،بخوبی جانتے تھے،دینی علوم میں رسوخ وگہرائی کے ساتھ عصری علوم سے واقفیت اور اس سے حاصل نتائج پر بھی گہری نظر تھی اس کی مثال حضرت الاستا ذ کی کتاب’’ عصری علوم ضرورت اندیشے اور تدبیریں ‘‘ہیں حضرت الاستاذ ہر طالب علم کو علم وعمل کا جامع اور اس پر مٹنے والا شہید جستجو دیکھنا چاہتے تھے،مختلف زاویوں اور پہلوؤ ں سے طلبہ کو محنت وجفا کشی پر ابھار تے رہتے تھے،کبھی لہجہ نرم ہوتا تو کبھی انتہائی گرم،اور محنتی طلبہ سے بہت خوش ہوتے تھے،اور اپنے سے قریب رکھتے تھے،حضرت الاستاذ ایک ماہر نفسیات رجال ساز بھی خوب تھے،سیکڑوں نہیں ہزاروں طلبہ اور فضلا ہوں گے جن کا حضرت سے خصوصی ربط و تعلق تھااور وہ مقبول تدریسی اورتصنیفی خدمات انجام دے رہے ہیں ،حضرت الاستاذ کی رجال سازی کا ایک ادنی نمونہ ہدیۂ قارئین ہے،راقم الحروف حضرت کے محلہ اندرون کوٹلہ میں رہائش پذیر تھا اسی درمیان حضرت سے واقفیت ہوچلی تھی اور حضرت کے یہاں مجلس میں کبھی کبھی چلا جایا کر تا تھا چوں کہ احقر اپنی مادر علمی جامعہ ناشرالعلوم بانڈولی ضلع سہارن پور میں مدرس رہ چکا تھا،یہ تدریسی چسکا بھی عجیب وغریب ہوتا ہے،اسی جنون کے تحت بندہ خارج اوقات میں طلبہ کو فارسی اور ابتدائی عربی درجات کی تیار ی کرایا کر تا تھا اسی درمیان دارالعلوم کے درجہ فارسی میں ایک جگہ خالی ہوئی تو تدریسی ذوق نے جنبش کی؛ چنانچہ میں ایک درخواست لکھ کر برائے سفارش حضرت کے پاس لے گیا،حضرت نے میرے شوق کو دیکھ کر فرمایا کہ میں تیری درخواست پر جب سفار ش کروں گا جب تو درخواست بھی فارسی زبان میں لکھ کر لائے گا،میں اگلے ہی دن درخواست فارسی زبان میں مرتب کر کے لے گیا، حضرت نے اس میں اصلاح فرمائی اور کہا کہ اسے صاف کر کے لے آ؛چنانچہ میں غالباً سردی کے زمانے میں حسب الحکم نماز فجر سے قبل جا دھمکا حضرت الاستاذ اس وقت الاؤ جلاکر مطالعہ میں مشغول تھے میری آمد پر بہت خوش ہوئے اور انتہائی جامع الفاظ میں سفارش تحریر فرمائی حضرت الاستاذ کی رجال سازی کی ادنیٰ سی جھلک ہے،جب کہ میں باضابطہ تدریس سے وابستہ بھی نہیں تھا؛ مگر پھر بھی حضرت نے مجھے قابل اعتناء سمجھا اور دست گیر ی،و حوصلہ افزائی اوررہنمائی فر مائی،ہائے اب ایسے مشفق اساتذہ کہاں سے آئیں گے ۔

جان کر منجملۂ خاصانِ میخانہ تجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

            ابھی وصال سے تقریباً ایک دیڑھ ماہ قبل خدمت میں حاضر ی ہوئی تو حضرت نے میری طرف اشارہ کر کے مزاحاً فرمایا کہ ’’اس کا دعویٰ ہے کہ میں فارسی کا ماہر ہوں ‘‘ نیز حضرت نے چائے وائے سے بھی ضیافت فر مائی،کسے معلوم تھا کہ یہ آخری ضیافت ہے۔

            حضرت الاستاذ کو اللہ رب العزت نے بے مثال اولوالعزمی اور ہمالیہ جیسا دل بھی عطا فر ما یا تھا جس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت نے اپنی طالب علمانہ زمانہ کے تمام اخراجات اور تدریسی زندگی کی تمام تنخواہ دارالعلوم دیوبند اور دیگر متعلقہ مدارس کو ایک خطیر رقم دے کر لوٹا دیئے،تو گویا حضرت نے پوری تدریسی خدمات فی سبیل اللہ انجام دی ہیں ،یہ بڑے دل گر دے کی بات ہے ۔

ایں سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

            حضرت الاستاذ تعلیم وتربیت پر کڑ ی نظر رکھتے تھے اور معاملات کے صاف وشفاف تھے، حضرت طویل غورو فکر کے بعد جو رائے قائم فر ما لیتے تھے اس پر جمے رہتے تھے مثلا تعزیتی جلسوں اور اس طرح کے سمیناروں کے حضرت شدید مخالف تھے،اللہ رب العزت نے بھی اس کی لاج رکھی ہے کہ حضرت کے وصال پر لا ک ڈاؤن کے باعث کوئی روایتی تعزیتی جلسہ نہیں ہوا؛ البتہ لاکھوں قلوب نے آپ کے الم ناک حادثۂ فاجعہ کے موقع پر  اپنے اپنے مقامات پر رہتے ہوئے عقیدت ومحبت کا نذرانہ پیش فر مایا ہے اور رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں خوب خوب ایصال ثواب کرکے آپ کے لیے رفع درجات کی دعائیں کی ہیں جو حضرت کے درجات کی بلندی کا باعث ہیں ۔ اللّٰہم زد فزد ابدا ابدا۔

            تجہیزو تکفین کے بعد حضرت الاستاذ کے چہرے پر انتہائی بشاشت تھی اور چہرے کے انوار و تجلیات،ربانی قلبی اطمینان وسکون کا باعث تھے اور ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ حضرت سج دھج کر مسکرا رہے ہیں اور بارگاہ صمدیت میں خوش خوش تشریف لے جارہے ہیں ۔

نشانِ مرد مؤمن بات گویم

چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست

            میں نے ۱۴۱۶ھ میں حضرت الاستاذ سے ترمذی شریف جلد اول اور طحاوی شریف پڑھی ہے اور ترمذی شریف کی مکمل کاپی لکھی ہے اور ۱۴۱۷ھ میں شعبہ تکمیل دراسۃ المعارف الاسلامیہ میں داخل رہ کر حجۃ اللہ البالغہ پڑھنے کی بھی سعادت حاصل کی ہے اور اس شعبہ میں اللہ رب العزت نے امتیازی کامیابی عطا فرمائی ہے فالحمد للہ والشکرلہ۔اس طرح احقر کو حضرت سے متعلقہ تمام کتب پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔الغرض حضرت الاستاذ مضبوط قوت ارادی، بے مثال قوت فیصلہ اور بے نظیر قوت عمل کے مالک تھے ۔ خودداری، اصول پسندی، حق گوئی اور بے باکی کے پیکر جمیل تھے، ان کے ساتھ عقیدت و محبت کا صحیح تقاضہ ہے کہ ان کی شخصیت کے اوصاف حمیدہ کو اپنے اندرپیدا کرنے کی کوشش کی جائے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

————————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:104‏،  ذی الحجہ 1441ھ – محرم الحرام 1442ھ مطابق اگست  – ستمبر 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts