حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            گزشتہ کئی ماہ سے دنیا کا بڑا حصہ، کورونا (یا کووِڈ ۱۹) نامی وبا اوراس کے نتائج کی زد میں ہے، جب چین کے شہر ووہان میں اس وبا کے پھیلنے کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو اس وقت کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ یہ وبا ہماری آبادیوں پر بھی دستک دینے والی ہے؛ بلکہ اس کے اثرات ہر گھر تک پہنچنے والے ہیں ؛ لیکن ظاہر ہے کہ حالات ہمارے تصور یا سوچ کے تابع نہیں ہیں نظام قدرت کے تابع ہیں ، خالق کائنات نے جو چاہا وہ ہوا اور اب صورت حال یہ ہے کہ سپرپاور امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ممالک لاک ڈائون میں ہیں یا اس کے سنگین نتائج سے جوجھ رہے ہیں ، خود ہمارے وطن عزیز میں جہاں یہ وبا دیگر بہت سے ملکوں کے مقابلے دیر سے آئی ہے، لاک ڈائون ڈیڑھ ماہ سے آگے بڑھ چکا ہے اور اس کے دیرپا اور دوررس نتائج سے تو واسطہ بعد میں پڑے گا، فوری طور پر جو فاقہ کشی، بے روزگاری اور اضطراری نقل مکانی کی صورت حال سامنے آگئی ہے وہ رونگٹے کھڑے کرنے والی ہے اور اس کے مناظر جو ذرائع ابلاغ پر آرہے ہیں ، ان کا تو دیکھنا بھی بڑے دل گردے کا کام ہے۔

            ان حالات میں مذہبی یا سیاسی قائدین، اصحاب قلم اور اہل صحافت کی جانب سے، ہر پہلو پر اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کیاگیا ہے، وبا کے سلسلے میں رہنمائی کی گئی ہے۔ پابندیوں کی پاسداری کی تاکید کی گئی ہے، انتظامی کوتاہیوں پر تنقید کی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ ملی اور سماجی تنظیموں اور بہت سے اشخاص کی جانب سے پریشان حال لوگوں کی مدد بالخصوص ان کے لیے کھانے کا انتظام کرنے کے سلسلے میں زبردست محنت کی گئی ہے، جو اب تک جاری ہے۔ اس سلسلے میں تشویش کی بات یہ ہے کہ بعض ملکوں یا علاقوں میں قابوپائے جانے اور لاک ڈائون ختم ہونے کے باوجود اب تک وبا کے بارے میں ماہرین کوئی اطمینان بخش بات کہنے سے قاصر ہیں ؛ بلکہ بعض لوگ تو آئندہ کچھ مہینوں کے دوران دوبارہ اس وبا کے پھیلائو کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ابھی زندگی معمول پر آنے میں کتنا وقت لگے گا اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔

            یہ حالات تو وہ ہیں جن سے دنیا کے اکثر ممالک کے باشندے، بلا قید مذہب وملت دوچار ہیں ؛ لیکن امت مسلمہ کے دکھ درد ان کے علاوہ بھی ہیں ، جن میں سے کچھ نئے ہیں کچھ پرانے ہیں اور دونوں ہی کے متعلق سنجیدہ فکر مندی کی ضرورت ہے؛ اس لیے ان سطور میں چند گزارشات پیش کی جاتی ہیں ۔

            (۱) سب سے پہلی بات تو اس وبا کے نتیجے میں عبادات اور مساجد کے نظام سے متعلق ہے، سب کو معلوم ہے کہ اس وقت مساجد میں نماز باجماعت اور جمعہ ادا کرنے سے اکثر مسلمان محروم ہیں ، اس سے انکار نہیں کہ اس پابندی کا دائرہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں تک پھیلا ہوا ہے اور اس طرح یہ ایک ظاہری اسباب سے تعلق رکھنے والا فیصلہ ہے؛ لیکن ہم مسلمان اس قسم کے معاملات کے صرف ظاہری سبب پر نظر رکھ کر مطمئن نہیں ہوسکتے، ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسے معاملات کا زیادہ گہرا تجزیہ کریں اور اپنی کوتاہیوں کی تلافی کی کوشش کریں ،اس موقع پر کسی عزیز سے سنا ہوا یہ شعر بار بار یاد آتا ہے جو دیوبند کے شاعر مولانا عامر عثمانی مرحوم کا ہے۔؎

در پہ سجدے کی اجازت کو غنیمت جانو

اُس نے حق یہ بھی اگر چھین لیا، کیا ہوگا

            حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بالکل بے نیاز ہے، اس کی عبادت کرنا، اُس کی نہیں ہماری ضرورت ہے اور اس باب میں ہماری کوتاہی کوئی راز نہیں ہے، اس لیے تمام اہل ایمان کو، دل سے سچی توبہ کرکے پوری طرح نماز کی پابندی شروع کردینی چاہیے اور عاجزی کے ساتھ اللہ رب العزت سے مساجد کی آبادی اور اُن میں عبادت کی سہولت کی دعاء مانگنی چاہیے اور جب تک یہ صورت حال جاری ہے، گھروں میں نماز کا باقاعدہ اہتمام کرنا چاہیے، اس میں کسی کوتاہی سے کام نہ لیا جائے۔

            (۲)دوسری بات مدارس کی صورت حال سے متعلق ہے۔ اس وبا اور اس سے متعلق پابندیوں نے مدارس اسلامیہ کو کتنا متاثر کیا ہے اس کا صحیح اندازہ تو مستقبل میں ہی ہوسکے گا؛ لیکن سردست دوتین باتیں سامنے ہیں ، ایک تو یہ کہ مدارس کا سالانہ امتحان صحیح طور پر نہ ہونے یا ملتوی ہونے کی وجہ سے اس پورے سال کی تعلیمی محنت کے فوائد متاثر ہوگئے اور مدارس کا تعلیمی نظام عموماً قبل ازوقت موقوف کرنا پڑا۔ طلبہ کے لیے مدارس میں مقیم رہنا مشکل ہوگیا اور لاک ڈائون کی وجہ سے گھر جانا بھی دشوار ہوگیا، اس طرح تعلیمی نقصان کے علاوہ مدارس پر زائد مصارف کا بوجھ پڑگیا اور بڑے مدارس میں یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اسی کے ساتھ دوسری تشویش انگیز بات یہ ہے کہ اب طلبہ کی مدارس میں واپسی کی راہ کب تک ہموار ہوگی اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ اس طرح آنے والا تعلیمی سال مزید متاثر ہونا یقینی ہے۔

            ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ مدارس کے وسائل کی فراہمی عموماً ماہ رمضان میں ہوتی ہے، جو اس بار معمول کے مطابق ہونا غیرممکن ہے، اب اگر اہل خیر حضرات بعد رمضان، پابندیاں ختم ہونے کے بعد اپنی ذمہ داری پوری کریں تب بھی یہ مشکل ہے کہ تمام مدارس کو حسب ضرورت وسائل حاصل ہوسکیں ۔ اس طرح مدارس مجبور ہوں گے کہ اپنی تعلیمی سرگرمیاں محدود کریں اور داخلوں کی تعداد کم کریں (جیسا کہ بہت سے مدارس کی جانب سے نئے داخلہ نہ لینے کے اعلانات آبھی چکے ہیں ) اور یہ بات چوں کہ کسی ایک علاقہ کے ساتھ خاص نہیں ہے؛ اس لیے اس کا یہ نتیجہ تقریباً یقینی ہے کہ مدارس میں مسلم بچوں کا تناسب جو پہلے ہی کم ہے، مزید گھٹ جائے گا۔ اس طرح مسلمانوں کا مزید دینی نقصان ہوگا۔ یہ خدشہ ہرصاحب فکر کے لیے موجب تشویش ہے۔ اس لیے ذمہ دارانِ مدارس اور معاونین کو مل کر اس مسئلہ کا حل سنجیدگی سے تلاش کرنا چاہیے۔ بے شک  یہ مسئلہ کسی کے اختیار کا نہیں ہے؛ لیکن اپنی تدابیر کی حد تک ہمیں کوتاہی سے کام نہ لینا چاہیے، اس کے بعد نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

            (۳)تیسری بات وبا اور اس سے متعلق صورت حال میں ہمارا کردار ہے۔ یہ بات تو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمیں سبب کے درجہ میں پوری احتیاط سے کام لینا چاہیے اور کہیں بھی حکومتی قوانین کی خلاف ورزی کرکے اپنے آپ کو مجرم نہیں بنانا چاہیے؛ لیکن ساتھ ہی اپنے ایمان وعقیدہ کی حفاظت کے بارے میں بھی پوری طرح بیدار رہنا ضروری ہے کہ ہمارا ایمان وعقیدہ ہی ہماری اصل پونجی ہے۔

            اس کے ساتھ کچھ اور باتیں بھی ہماری توجہ کی مستحق ہیں ۔ مثلاً یہ کہ لاک ڈائون کے زمانے میں جس طرح کی زندگی گزارنے پر ہم مجبور ہیں کہ کسی رشتہ دار یا دوست احباب سے ملاقات کا سلسلہ بند ہے؛ کہیں سفر نہیں ہورہا ہے، بہت سی سرگرمیاں موقوف ہیں ، غیرضروری کھانے پینے یا زبان کے چٹخارے لینے کا سلسلہ بند ہے، اس کے باوجود زندگی کا سفر جاری ہے۔ اس سے یہ سبق لینا چاہیے کہ پابندیاں ختم ہونے کے بعد ہم اپنی زندگی سے غیرضروری کام اور غیرضروری اخراجات کو مستقل طور پر ختم کردیں ، بے ضرورت سفر یا ملاقات میں وقت، توانائی اور پیسہ خرچ کرنے کے بجائے بامقصد کام کریں اور اپنی زندگی کی متاع عزیز کو ضائع کرنے سے پرہیز کریں ، بالخصوص وقت کا صحیح استعمال کرنے کی عادت ڈالیں ۔

            (۴) ایک اہم موضوع جس پر ہم سب کو متوجہ  رہنا چاہیے، وہ کورونا کے بعد کی صورت حال ہے، اس  وبا کے خاتمہ کے بعد دنیا میں کیا حالات ہوں گے یہ کہنا تو مشکل ہے؛ لیکن یہ بات واضح ہے؛ بلکہ زبان وقلم سے اس کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ مابعد کورونا کی دنیا ماقبل کورونا سے مختلف ہوگی، ان الفاظ میں ہوسکتا ہے کہ بعض اذہان مبالغہ محسوس کریں ؛ لیکن اس بات سے تو انکار ناممکن ہے کہ ہمارے علاوہ تمام لوگ مستقبل کے لیے کام کرنے میں مصروف ہیں ۔ جن طاقتوں سے ہمیں ملک وبیرون ملک واسطہ ہے، ان کی سرگرمیوں سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والا شخص بھی یہ بات بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ ان کے لیے کورونا کوئی مسئلہ نہیں ہے یا کم از کم مشغلہ نہیں ہے، یعنی جس طرح ہم لوگوں کی اکثریت ان پابندیوں کے دوران، فقط زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے پر مجبور ہے، یہاں تک کہ ہماری قیادت کے لیے بھی اس وبا کے پیدا کردہ مسائل ہی درد سر بنے ہوئے ہیں کہ کہیں ہمیں بحیثیت مسلمان پوری قوم کو مجرم بنانے کی مہم کا مقابلہ درپیش ہے، کہیں کسی کو سفر کی اجازت دلانے کے لیے عدالتوں تک پہنچنا پڑرہا ہے، کہیں کسی کو طویل مدت تک کورنٹائن کیے جانے کی پریشانی ہے، کہیں کسی کے دوا علاج کا مسئلہ ہے وغیرہ وغیرہ، یہ اور اس طرح کے دیگر مسائل ومشاغل اُن طاقتوں کو گھیرے ہوئے نہیں ہیں اور وہ پورے اطمینان؛ بلکہ پہلے سے زیادہ یک سوئی کے ساتھ اپنے ایجنڈے کے خاکوں میں رنگ بھرنے میں مصروف ہیں ۔ ہمارے ملک میں جو مسائل ماقبل کورونا سے جاری تھے، ان کے سلسلے میں منصوبہ بند طریقہ سے ہمیں مجرم بنانے اور کوئی خطا معاف کرنے کے بجائے دوسروں کی خطائیں ہمارے سر ڈالنے کا سلسلہ سرگرمی سے جاری ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کورونا سے فرصت پانے کے بعد، نہ صرف یہ کہ پہلے سے چل رہے مسائل کا سامنا ہوگا؛ بلکہ کچھ اور مسائل بھی اس امت کے سامنے کھڑے کیے جاسکتے ہیں ۔

            دوسری طرف ہمارا یہ حال ہے کہ ہم کچھ تو حالات کے جبر کے تحت اور کچھ اپنے غفلت شعار مزاج کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ کسی منصوبہ بندی اور مشاورت سے بے نیاز بیٹھے ہیں ؛ بلکہ آج بھی ہماری دلچسپی اپنے پروپیگنڈے اور دوسروں کو رسوا کرنے کی مہم چلانے میں ہے، ہماری توانائی کا بڑا حصہ اب بھی بے مقصد ضائع ہورہا ہے، جس کے نتیجہ میں امت ایسی بے وزنی اور ہلکے پن کا شکار ہے جس کی کوئی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس صورت حال کے مقابلے کے لیے نہایت سنجیدگی کے ساتھ باہمی مشاورت سے کام لیتے ہوئے ہر’’ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا‘‘ سے بے نیاز ہوکر کام کرنا قائدین کا فرض اولین ہے۔ بقول حضرت اکبر الٰہ آبادی مرحوم۔؎

تو وضع پہ اپنی قائم رہ، فطرت کی مگر تحقیر نہ کر

دے پائے نظر کو آزادی، خود بینی کو زنجیر نہ کر

گو تیرا عمل محدود رہے اور اپنی ہی حد مقصود رہے

رکھ ذہن کو ساتھی فطرت کا، بند اُس پہ درِ تدبیر نہ کر

باطن میں اُبھر، کر ضبطِ فغاں ، لے اپنی نظر سے کارِ زباں

دل جوش میں لا فریاد نہ کر، تاثیر دکھا تقریر نہ کر

تو خاک میں مل اور آگ میں جل، جب خشت بنے تب کام چلے

ان خام دلوں کے عنصر پر، بنیاد نہ رکھ تعمیرنہ کر

٭        ٭        ٭

            ۱۶؍شعبان ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۱؍اپریل ۲۰۲۰ء ہفتہ کی شام تقریباً ساڑھے آٹھ بجے جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ کے شیخ الحدیث، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا وسیم احمد صاحب سنسارپوری رحلت فرماگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔  حضرت مرحوم احقر کے نہایت اہم استاذ تھے جن سے احقر نے بخاری شریف اور بہت سی کتابیں پڑھی تھیں ، ذاتی طور پر یہ احقر کے لیے بڑا حادثہ ہے، جس سے دل ودماغ بہت متاثر ہے۔ مناسب وقت ان شاء اللہ احقر اپنے تاثرات پیش کرے گا۔ حضرت کے بارے میں ایک مضمون اس شمارے میں شائع کیا جارہا ہے۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2-3،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق اپریل –مئی  2020ء

*      *      *

Related Posts