ادارہ

کنتم خیر امة اخرجت للناس ․(۱)

ترجمہ: تم ایک بہترین امت ہو جو لوگوں کیلئے نکالی گئی ہو۔

اچھائیوں کی طرف بلانا اور برائیوں سے روکنا ایک مسلسل عمل ہے جو کسی دور میں بھی ختم نہیں ہوسکتا کہ انسانی رویوں کے متغیر ہونے کا سلسلہ اٹل ہے۔

ولتکن منکم أمة یدعون الی الخیر ویأمرون بالمعروف وینہون عن المنکر(۲)

ترجمہ: تم میں ایک جماعت ہمیشہ ایسی ہونی چاہئے جو خیر کی طرف لوگوں کو دعوت دے اور نیک کام کرنے کیلئے حکم دے اور برے کاموں سے روکے۔

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ذاق طعم الایمان من رضی باللّٰہ ربًّا وبالاسلام دیناً و بمحمد نبیًّا ․(۳)

ترجمہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھا جو راضی ہو اللہ کو رب ٹھہراکر،اور اسلام کو دین قرار دے کر اور محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی جان کر۔

جو خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہو اور کسی کو اپنا رفیق مان لے تو اس دوستی کی خبر بھی اسے دے اور اسکے خوبیوں اور خامیوں کی اسے اطلاع کرے۔

اس دنیا میں جو بھی کمایا وہ دنیا ہی میں رہ جاتا ہے۔ رشتے ناطے دنیاوی سہارے ہیں۔ آخرت میں صرف اعمال کام آتے ہیں۔

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتبع المیت ثلاث فیرجع اثنان ویبقی واحدٌ أہلہ مالہ وعملُہ فیرجع اہلہ ومالہ ویبقی عملہ․ (۵)

ترجمہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساتھ جاتی ہیں میت کے تین چیزیں پھر لوٹ آتی ہیں دو اور باقی رہ جاتی ہے ایک۔ اہل و مال و عمل۔ پھر لوٹ آتے ہیں اہل و مال،اور باقی رہتا ہے اس کے ساتھ اس کا عمل۔

خوف: ایک اصطلاحی عنصر کے طور پر

”خوف“ تربیت کے اعلیٰ کارکنوں میں سے ہے اور انسان و حیوان کی صلاح کاری کیلئے معتدل خوف کا وجود بے حد ضروری ہے۔ دشمن کی مخالفت اور ان کی مخالفت سے پیدا ہونے والی اذیت و تکلیف کا خوف ہے۔ ذلت اور رسوائی کی تکلیف کا خوف ہی ہم کو ہمارے اعمال میں کامیاب بنانے کیلئے آمادہ کرتا ہے۔

ہمارے اخلاق اور ہمارا حسن سلوک بلاشبہ فساد کا ذریعہ بن جاتے ہیں اگر ماحول کی مذمت و تحقیر کا خوف ان کی حفاظت نہ کرتا، اور مزید یہ کہ مستقبل کے برے نتائج کا خوف ہی وہ چیز ہے جو مصلحین امت کے اندر اپنی امتوں کی اصلاح کیلئے حمیت وغیرت بھر دیتا ہے اور ان کو اس قابل بنادیتا ہے کہ اصلاح امت کے نفاذ و اجراء میں جس قدر مکروہات پیش آتے ہیں وہ بخوشی ان کو جھیلتے اور برداشت کرتے ہیں۔

تنازع للبقاء میں یہی جذبہ کار فرمارہتا ہے کہ انسان کو زندہ رہنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ ایک قدرتی جذبہ ہے جو انسان اپنی ذات کی حفاظت میں زندگی کی تدابیر اختیار کرتا ہے۔ اگر ان تدابیر میں حبّ ذات کا شکار ہوکر رہ جائے تو وہ خود غرضی میں اس خوف کی وجہ سے دوسروں کے حقوق غصب کرنے لگتا ہے۔ لہٰذا حب ذات میں میانہ روی چاہئے۔(۶)

بھوک اور خوف کا کردار

انسانی زندگی میں بھوک اور خوف کا کردار اہم ہے۔ انسان بھوک کی تکلیف سے بچنے کی خاطر چند لقمے حاصل کرنے کیلئے زندگی بھر محنت و مشقت کرتا ہے اسی طرح خوف کا تاثر جو رنج و غم کا سبب بنتا ہے اس سے رہائی حاصل کرنے کیلئے بھی انسان برابر سرگرم عمل رہتا ہے۔ انسان ہمیشہ امن و اطمینان حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے جس سے اسے مسرت سعادت اور راحت قلب کا احساس حاصل ہو۔ انسان کی زندگی میں بھوک کے محرک اور خوف کے تاثر کا جو اہم کردار ہے اس کی طرف قرآن پاک نے اشارہ کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

ولنبلونکم بشيء من الخوف والجوع ونقص من الأموال والأنفس والثمرات وبشر الصابرین․ (۷)

ترجمہ: اور ہم تمہاری آزمائش کرتے رہیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور مال وجان اور پھلوں کے کچھ نقصان سے اور آپ صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادیجئے۔

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت کے طور پر ذکر کیا ہے:

فلیعبدوا رب ہذا البیت الذی اطعمہم من جوع و آمنہم من خوف(۸)

ترجمہ: اس خانہ کعبہ کے مالک کی عبادت کریں جس نے انھیں بھوک میں کھانے کو دیا اور انھیں خوف سے امن دیا۔

نیکیوں کی طرف ترغیب

نیکیوں سے تہذیب نفس حاصل ہوتی ہے۔ خواہش نفس پوری کرنا اصل بہیمیت کی اطاعت ہے اور شہوت رانی میں عادت سے زیادہ کوئی مصلحت عقل میں نہیں آتی۔

تہذیب نفس میں ترغیب و ترہیب کے کچھ طریقے ہیں اور ہر طریقہ کا ایک راز ہے۔

$ تہذیب نفس کے بارے میں کسی عمل پر جو اثر مرتب ہوتا ہے اسے بیان کردیا جائے۔ مثلاً نفس کی نیک و بد قوتوں میں سے کسی کا کمزور پڑجانا یا غالب آجانا اوراس کا ظاہر ہونا زبان شریعت میں اس کو نیکیاں لکھی جانے اور برائیاں مٹادینے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

$ اس عمل کے کرنے پر شیطان سے حفاظت کا اثر بیان کردیا جائے۔(۹)

خواہش، حرص اور اسلام اور موانع

خواہش:

خواہش شعور کا وہ پہلو ہے جو فعل سے تعلق رکھتا ہے۔ خواہش سے مراد کسی شے کے متعلق یہ چاہنا ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت میں ہی جاری رہے یا اس حالت سے کسی اور حالت میں تبدیل ہوجائے۔ خواہش ہمارے شعور میں کوشش، جدوجہد اور اظہارِ ہمت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، ہمیں ہر کام کی انجام دہی میں اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ یہ ذہن کا فعال پہلو ہے۔

خواہش کا انجام یا آخری حالت تسکین ہے اور جونہی یہ آخری حالت پیدا ہوجائے خواہش ختم ہوجاتی ہے۔(۱۰)

عن ابن کعب قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ماذکیان جائفان ارسلا فی غنم بافسد لہا من حرص للمرء علی المال والشرف لدینہ ․ (۱۱)

ترجمہ: کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر دو بھوکے بھیڑئیے بکریوں میں چھوڑ دئیے جائیں تو اتنا فساد اور خرابی نہ کریں جتنا آدمی کے دین کو مال و جاہ کی حرص خراب کرتی ہے۔

اسلام خواہش نفس کا علاج قناعت بتاتا ہے

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما ملاء آدمی وعاءً شرّ من بطن بحسب ابن آدم اُملاتٍ لقمان صلبہ فان کان لا محالة فثُلُث لطعامہ و ثُلُث لشرابہ و ثُلُث لنفسہ․ (۱۲)

ترجمہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان نے کوئی تھیلی نہیں پیٹ سے بدترین بھری، ابن آدم کو چند لقمے کافی ہیں کہ سیدھا رکھیں اس کی پیٹھ۔ پھر اگر ضرورت ہواس سے زیادہ کی تو تہائی پیٹ کھانے کیلئے اور تہائی پانی پینے کو اور تہائی دم لینے کیلئے مقرر رکھے۔

ترغیب و ترہیب اور ممانعت

ترغیب اور ترہیب کا ایک پہلو یہ ہے کہ برائی سے روکا جائے اور اچھائی کی طرف بلایا جائے، اور اچھائی کا صلہ بھی بتادیا جائے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : الدعاء ہو العبادة ثم قراء وقال ربکم ادعونی استجب ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جہنم داخرین ․(۱۳)

ترجمہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا ہی تو عبادت ہے پھر آپ نے آیت پڑھی تمہارے رب نے فرمایا: مجھ کو پکارو میں تمہاری پکار کو قبول کروں گا۔ جو لوگ تکبر کرتے ہیں میری عبادت سے، وہ داخل ہوں گے جہنم میں ذلیل ہوکر۔

اور ان لوگوں کے بارے میں حدیث ہے:

قال ما من قوم یذکرون اللّٰہ الا حفّت بہم الملٰئکة و غشیتہم الرحمة ونزلت علیہم السکینة وذکرہم اللّٰہ فیمن عندہ․ (۱۴)

ترجمہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ کوئی جماعت ایسی نہیں کہ اللہ کویاد کرتی ہو مگر یہ کہ اس کو گھیرلیتے ہیں فرشتے اور اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر تسکین اترتی ہے اور اللہ ان کو یاد کرتا ہے۔

ترغیب و ترہیب و مجادلہ

وجادلہم بالتی ہی أحسن ․(۱۵)

ترجمہ: اور ان سے بحث اچھے طریقے سے کرو۔

کسی کو ہم خیال بنانا ہو یا اسے برائی سے ہٹانا مقصود ہو تو اسے نرم اور اچھے طریقے سے راغب کیا جائے۔ ورنہ کچھ بھی موٴثر نہ ہوگا۔

ولا تستوی الحسنة ولا السیئة ادفع بالتی ہی أحسن ․(۱۶)

ترجمہ: اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتے ان میں برائی کو دور کرو اچھے طریقے سے۔

دنیا امتحان گاہ ہے۔ اچھائی اور برائی دونوں راستے انسان کے اختیار میں ہیں یہ دنیاوی عوامل اور مصائب بھی زندگی کی آزمائش ہیں۔

آلٓمٓ احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنّا وہم لا یفتنون․ (۱۷)

ترجمہ: کیا لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ انھیں ایمان کا دعوی کرنے کے بعد چھوڑ دیا جائے گا اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔

من راضوا اللّٰہ بسخط اللّٰہ کفاہ اللّہ موٴنة الناس ومن أرضی الناس بسخط اللہ لم یغنوا عنہ من اللّہ شیئًا․ (۱۸)

ترجمہ: لوگوں کو ناراض کرکے جو اللہ کو خوش کرے گا اس کی کفایت اللہ تعالیٰ کرے گا اور جو اللہ کو ناراض کرکے لوگوں کو خوش کرے گا اسے وہ کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔

ترغیب و ترہیب اور موٴاخذہ و محاسبہ

ترغیب و ترہیب میں موٴثر پہلو یہ ہے کہ موٴاخذہ اور محاسبہ کا خوف دلایا جائے۔ یہ اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہے، کہ جرم کا موٴاخدہ اسی سے ہوگا جو اس کا ارتکاب کرے گا۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی حجة الوداع : ألا لا یجنی جان الا علی نفسہ لا یجنی والد علی ولدہ، ولا مولود علی والدہ․ (۱۹)

ترجمہ: نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا: آگاہ ہوجاؤ، جو قصور کرے گا وہ اپنی ہی ذات پر کرے گا، باپ کے قصور میں بیٹا نہیں پکڑا جائے گا اور بیٹے کے قصور میں باپ کو سزا نہیں دی جائے گی۔

اگر دنیا میں انسان کو محاسبہ کا ڈر نہ رہے تو وہ سب کچھ کرگزرے گا اور اخلاقی اور قانونی خوف انسان کو صراط مستقیم پر چلاتے ہیں اور آخرت میں موٴاخذہ دنیا میں نیک اعمال پر آمادہ رکھتا ہے۔

الا لکل مسئول کلکم راعٍ ومسئول عن رعیّتہ ․ (۲۰)

ترجمہ: تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائیگا۔

محتسب کی ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہے کہ وہ نیک و بد کی تحقیق و تفتیش کرتا رہے تاکہ بد کاموں کو بند کرے اور نیک کاموں پر پابند کرے۔(۲۱)

ترغیب و ترہیب اور فلاح

جب کسی کام سے روکا جائے تواس کی وضاحت کردی جائے تاکہ کوئی نفس اس ممانعت کو گراں محسوس نہ کرے۔

ولا تقربوا الزنا انہ کان فاحشة وساء سبیلا (۲۲)

ترجمہ: اور زنا کے قریب نہ بھٹکو وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ۔

اور جس طرح شراب کی ممانعت کی جارہی تھی تو جسم اور دماغ اس ممانعت کو فوری طور پر قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے اس لئے فرمایاگیا کہ اس میں نفع کم اورنقصان زیادہ ہے۔

یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیہما اثم کبیر ومنافع للناس واثمہما اکبر من نفعہما․(۲۳)

ترجمہ: اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ سے شراب اور قمار کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کیلئے فائدے ہیں، اور ان دونوں کا گناہ نفع سے زیادہ ہے۔

اور دوسری جگہ اسی بات کو یوں بیان کیاگیا ہے۔

یا ایہا الذین آمنوا انما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون․ (۲۴)

ترجمہ: اے ایمان والو! یقینا شراب، قمار اور بت اور پانسوں کے تیر نجس ہیں اور شیطانی اعمال ہیں۔ پس اس سے بچو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔

$$$

حوالہ جات

(۱)     آل عمران : ۳/۱۱۵

(۲)    آل عمران : ۳/۱۵۴

(۳)    ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی حلاوہ الایمان۔

(۴)    ایضاً، کتاب الزہد، باب ما جاء فی اعلام الحب

(۵)    ایضاً،ایضاً، باب ما جاء فی مالہ و عملہ

(۶)    اخلاق و فلسفہ اخلاق، ص: ۳۹

(۷)    البقرة : ۲/۱۱۵

(۸)    قریش : ۱۰۶:۳-۴

(۹)     حجة اللہ البالغة، ص: ۲۸۳

(۱۰)   مبادیات نفسیات، ص: ۵۹، سید کرامت حسین جعفری، ایم آر برادران، لاہور، ۱۹۷۵/

(۱۱)    ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء أن غنی النفس

(۱۲)   ایضاً، ایضاً، باب ما جاء فی کراہیة کثرة الاکل

(۱۳)   ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعاء

(۱۴)   ایضاً، ایضاً، باب ما جاء فی القوم یجلسون فیذکرون اللہ مالہم من الفضل

(۱۵)   النحل : ۱۶/۱۲۵

(۱۶)   حم السجدہ : ۴۱/۳۵

(۱۷)  العنکبوت : ۲۹/۲

(۱۸)   زاد المعاد، ص: ۱۷۸، امام ابن القیم الجوزی، تالیف شیخ الاسلام محمد ابن عبدالوہاب، ترجمہ: ڈاکٹر مقتدی الحسن الزہری، ناشر: ادبیات ایبک روڈ، انار کلی، لاہور

(۱۹)   ابن ماجہ ابواب الدیات

(۲۰)  صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب قوا انفسکم واہلیکم ناراً

(۲۱)   احکام السلطانیہ، ۱۳۵، ماوردی، ابوالحسن علی بن محمد حبیب، مطبع الوطن، مصر، ۱۲۹۸ھ

(۲۲)  الاسراء : ۱۷/۲۲

(۲۳)  البقرة : ۲/۲۱۹

(۲۴)  المائدة : ۵/۹۰

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8، جلد: 89 ‏،   جماد ی الثانی‏، رجب  1426ہجری مطابق اگست 2005ء

Related Posts