سوال:  (۱) بارات لے جانا جائز ہے یا نہیں؟ اور کتنے آدمی تک لے جاسکتے ہیں؟

            (۲)       سہرا باندھنا اور سہرا پڑھوانا جائز ہے یا نہیں؟

            اگر کسی شادی میں سہرا باندھا یا پڑھوایا جائے تو اس میں شرکت کرنا علماء اور عوام کے لیے جائز ہے یا نہیں؟

            (۳)      ڈیجے بجوانا شادی میں کیسا ہے؟ ایسی شادی میں شرکت کرنا علماء اور عوام کے لیے جائز ہے یا نہیں؟

            (۴) (الف) شادی میں کھڑے ہوکر کھانا کھلانا۔ (ب) کچھ ٹیبل لگاکر ان پر لگادینا اور بیٹھنے کے لیے کرسیاں لگادینا اور کھانا وہاں سے لے کر کرسیوں پر بیٹھ کر کھانا (ج) کچھ مخصوص لوگوں کے لیے بیٹھ کرکھانا کھانے کا انتظام کرنا اور بقیہ کے لیے کھڑے ہوکر انتظام کرنا (د) کرسیوں کے سامنے ٹیبل لگاکر ان پر تمام عوام وخواص کو کھلانا، مذکورہ بالا چاروں صورتوں میں جس شادی میں کھانا کھلایا جارہا ہو اس شادی میں علماء اور عوام کے لیے شرکت کرنا اور کھانا کھانا درست ہے یا نہیں؟ اگر ان میں سے کوئی صورت جواز کی ہوتو اس کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمائیں، نیز اگر ناجائز شکلیں ہوں تو اس کی بھی مفصل وضاحت فرمادیجیے۔

            نوٹ: تمام جوابات مفصل اور مدلل مطلوب ہیں۔

            نیز جس شادی میں کھڑے ہوکر کھانا کھلایا جارہا ہو اس میں طلبہ کو دعوت میں بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟

مولانا محمد عمار ندوی

استاذ وامام مسجد ابوبکر ، دہلی

باسمہٖ سبحانہ

            الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس مجلس میں منکرات ہوں اس میں شرکت کے حکم میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اس منکرکا علم پہلے سے ہے تو وہاں جانا ہی درست نہیں؛ لیکن اگر وہیں جاکر پتہ چلا اور صورت حال ایسی ہے کہ لوگ منع کرنے سے مان جائیںگے تو ان کو اس منکر سے روکے اور اگر نہیں مانیں گے تو اگر مقتدیٰ (عالم، امام وغیرہ) ہے تو واپس چلا آئے، اور عام آدمی کے وہاں ٹھہرنے کی گنجائش ہے بشرطے کہ عین دسترخوان پر منکر نہ ہو اور اگر عین کھانے کی جگہ منکر ہوتو پھر عام آدمی بھی واپس چلا آئے۔ (رد المحتار:۹/۵۰۱-۵۰۲، ط: زکریا، حظرواباحہ)

            (۱) بارات لے جانے کا جو طریقہ رائج ہے وہ بہت سی خرابیوں کا مجموعہ ہے، مثلاً اس میں لڑکی والوں پر ایک خاص تعداد کی دعوت کا دبائو ہوتا ہے اور باراتیوں کے ٹھہرنے کے انتظام اور کھانے کے معیار وغیرہ میں طرح طرح کے مطالبات ہوتے ہیں، جن میں ادنیٰ کمی پر ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے، پھر بعض دفعہ متعینہ تعداد سے زیادہ آدمی پہنچتے ہیں، جس سے تعلقات میں ناخوشگواری آجاتی ہے، پھر اگر بارات میں عورتیں بھی ہوں تو بے پردگی بھی ہوتی ہے، اس لیے یہ رسم مذموم اور قابل ترک ہے۔ البتہ اگر دوچار قریبی رشتہ دار اور ایک دو مخصوص احباب بغیر مطالبات کیے مہمان بن کر چلے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (کفایت المفتی: ۹/۸۶، حظر واباحہ، اصلاح الرسوم،ص۶۲)

            (۲) سہراباندھنا ہندوئوں کا طریقہ ہے اس لیے اس سے بھی اجتناب ضروری ہے۔ (کفایت المفتی: ۹/۸۷-۸۸، حظرواباحہ، اصلاح الرسوم، ص۶۲) اور سہرا پڑھوانے کا بھی جو طریقہ بہت سی جگہ رائج ہے کہ کسی پیشہ ور پڑھنے والے کو بلوایا جاتا ہے، وہ سہرے میں رشتہ داروں کے نام شامل کرتا ہے، پھر پڑھتے وقت جس جس کا نام آئے اس پر سہرا پڑھنے والے کو انعام دینے کا دبائو ہوتا ہے، یہ طریقہ درست نہیں، ہاں اگر یوں ہی (منکرات سے بچتے ہوئے اور بغیر قیود کا التزام کیے) اشعار پڑھ دیے جائیں تو مباح ہے۔

            (۳) ڈیجے بجوانا جائز نہیں اور جس محفل میں ڈیجے بج رہے ہوں اس میں شرکت بھی ناجائز ہے۔ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت اور ہدایت بناکر بھیجا گیا اور میرے رب نے مجھے لہو ولعب اور گانے بجانے کے آلات کو ختم کرنے کا حکم فرمایا، عن أبي أمامۃ أنہ قال: قال رسول اللّٰہ – صلی اللّٰہ علیہ وسلم -: إن اللّٰہ بعثني رحمۃ للعالمین، وہدیً للعالمین، وأمرني ربي بمحق المعازف والمزامیر الخ۔ (مشکاۃ:۳۶۵۴، حدود، بیان خمر، فصل ثالث، مرقاۃ: ۷/۲۱۹)

            (۴) کھانا کھانے اور کھلانے کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ زمین پر دسترخوان بچھاکے بیٹھ کر کھانے کا نظم کیا جائے اور اگر کسی مجبوری میں زمین پر بیٹھنے کا نظم نہ ہوسکے تو کم از کم کرسی پر بیٹھنے کا نظم کردیا جائے۔ کھڑے ہوکر کھانا بالکل خلاف شریعت اور غیراسلامی طریقہ ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع فرمایا، پوچھا گیا کہ اور کھانے کا حکم؟ تو فرمایا کہ وہ تو اور سخت ہے۔ (ترمذی، ابواب البر والصلۃ، النہی عن الشرب قائماً، ۲/۱۰، قدیم) نیز یہ غیر اسلامی طریقہ اور جدت پسندوں کا فیشن ہے، لہٰذا اگر صرف کھڑے ہوکر کھانے کا نظم ہو تو ایسی دعوت میں شرکت سے گریز کیا جائے اور طلبہ کو بھی نہ بھیجا جائے، البتہ بقیہ صورتوں میں کرسی پر بیٹھ کر کھانے کی گنجائش ہے گو خلاف سنت ہے۔

الجواب صحیح: فخر الاسلام عفی عنہ،   محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند فقط  واللہ تعالیٰ أعلم زین الاسلام قاسمی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۹؍۱۲؍۱۴۴۰ھ

==============================

            سوال: میں اپنے ساتھیوں میں عقائد کی اصلاح کی فکر کرتا ہوں اور اکثر مواقع پر اسی کی ترغیب دیا کرتا ہوں۔ جس میں ایک بات میں یہ کہتا ہوں کہ ہم جو مسجد آئے ہیں یہ ہمیں اللہ نے نہیں لایا بلکہ اللہ پاک کی توفیق ہوئی اور ہم چل کر آئے، یہ کہنا کہ اللہ لاتے ہیں یہ غلط ہے. اور ویسے ہی جب کسی انجان علاقے میں ملاقات کے لیے ہم جاتے ہیں تو اس سے متعلق جو یوں کہا جاتا ہے کہ اللہ نے ہمیں بھیجا آپ کے پاس ورنہ ہمیں کیا خبر تھی ہماری آپکی ملاقات ہونی ہے، تو اس میں بھی میں اس کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ یہ ہمیں اللہ نے نہیں بھیجا بلکہ اللہ کا نظام ہے اس نے مقدر میں لکھ دیا ہے کب کس وقت کس جگہ کیا ہوگا، پس ویسے ہی وہ امور عمل میں آتے ہیں، اس میں ہم پر کونسی اللہ کی طرف سے معاذ اللہ وحی یا الہام ہوتا ہے کہ فلاں کام کرنا ہے یا فلاں سے جاکر ملنا ہے.. تو کیا میرا ان باتوں پر نفی کرنا درست ہے؟ برائے کرم جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الجواب وباللّٰہ التوفیق: اللہ تعالی کا ارشاد ہے اللّٰہ خالق کل شيء (اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے)  نیز ارشاد ہے واللّٰہ خلقکم وما تعملون (اور اللہ نے پیدا کیا تم کو اور اس کو جو تم کرتے ہو) اس سے معلوم ہوا کہ بندہ بظاہر جو بھی کرتا ہے اس فعل کو در اصل اللہ تعالی ہی وجود میں لاتے ہیں، بندے کی طرف سے صرف کسب (کوشش و عمل) ہوتا ہے۔ اور بندے کو اپنے افعال کا خالق ماننا معتزلہ کا مسلک ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں کہ اللہ تعالی ہمیں مسجد میں لائے ہیں یا اللہ تعالی نے بھیجا ہے، تمام چیزیں اگرچہ تقدیر میں لکھی ہوئی ہیں اور اسی کے مطابق افعال وجود میں آتے ہیں، مگر بندے کی طرف ان کی نسبت اس کے کسب کے وجہ سے ہوتی ہے۔ افعال کو عدم سے وجود میں لانا اللہ ہی کا فعل ہے، اس لئے یہ نفی کرنا کہ ’’اللہ تعالی ہمیں نہیں لائے‘‘ غلط ہے۔ 

الجواب صحیح: فخر الاسلام عفی عنہ،   محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند فقط  واللہ تعالیٰ أعلم زین الاسلام قاسمی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۷؍۱۱؍۱۴۴۰ھ

==============================

            سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ کیا مدارس کے طلباء سے صاف ستھرائی کا کام کرا سکتے ہیں؟ یعنی خادم نہ رکھ کر بچوں سے سارا کام کرانا کیسا ہے؟ بچوں سے ناشتہ بنوانا اور مہتمم صاحب کا کہنا ہے کہ ہم اس لیے بچوں سے کام کراتے ہیں تاکہ بچے صفائی ستھرائی کو سمجھیں اور ان کی تربیت ہو ۔ دوسری بات کیا بچوں کو مہتمم صاحب گھر میں بلا کر اپنا ذاتی کام کرا سکتے ہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دے کر ممنون و مشکور ہوں ۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

            الجواب بعون مُلْہِمِ الصواب: طلباء سے بغرض تربیت، عرفی کام مثلاً صفائی ستھرائی کا کام یا کبھی گھر بلا کر ذاتی کام کرایا جا سکتا ہے بشرطے کہ درج ذیل حدود کا خیال رکھا جائے:

            (الف)  بطیب خاطر و رضا ہو، جبراً خدمت نہ لی جائے۔

            (ب)  استطاعت و طاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔

            (ج)       تعلیم میں حرج واقع نہ ہو۔

            (د)        خوبصورت امرد بچوں سے خدمت لینے میں احتیاط کی جائے۔

            (مستفاد: احسن الفتاوی: ۸؍۲۱۶۔ کفایت المفتی: ۲؍۴۳، فتاوی محمودیہ: ۶۲۶، آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۸؍۶۴۹)

الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ،محمد اسد اللہ غفرلہ مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند فقط  واللہ تعالیٰ أعلم وقار علی غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۸؍۱؍۱۴۴۱ھ

==============================

            سوال: میرے نبیﷺ نے فرمایا کہ کچھ عورتوں کو میں دیکھوں گا کہ ایک طرف سے آکر وہ مجھ سے آگے جنت میں نکل جائیں گی میں ان سے حیران ہو کر پوچھوں گا تم مجھ سے آگے کیسے نکل گئیں وہ کہیں گی اے ہمارے نبیﷺ ہم آپ کی امت کی وہ بیٹیاں ہیں جو جوانی میں بیوہ ہو گئیں تھیں؛ لیکن اولاد کے پیار کی وجہ سے دوسری شادی نہیں کی ٭کیا یہ حدیث ہے٭ اگر ہے تو کس درجہ کی مع حوالہ مطلوب ہے ۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

            الجواب بعون مُلْہِمِ الصواب: روایت میں اس طرح کا مضمون وارد ہے اور اس کی سند لائق اعتبار ہے حدثنا سلیمان بن عبد الجبار أبو ایوب، حدثنا یعقوب بن اسحاق الحضرمي عن عبد السلام بن عجلان الہجیمي حدثنا أبو عثمان النہدي، عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أنا أول من یفتح لہ باب الجنۃ، إلا أنہ تأتي امرأۃ تبادرني فأقول لہا: مالک؟ ومن أنت؟ فتقول: انا امرأۃ قعدت علی أیتام لي (ابویعلی: ۱۲؍۷، دارالثقافۃ العربیۃ، دمشق بیروت) اور حاشیہ میں ہے:  إسنادہ جید، عبد السلام بن عجلان فصلنا القول فیہ عند الحدیث (۶۱۳۵) وبیّنا أنہ جید الإسناد، وباقی رجالہ ثقات۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی ابویعلی کے حوالے سے روایت نقل کی ہے اور حکم لگایا ہے کہ اس کے راویوں پر اعتبار کرنے میں حرج نہیں۔ عن ابی ہریرۃ رفعہ: أنا أول من یفتح باب الجنۃ فإذا امرأۃ تبادرني، فأقول من أنت فتقول: أنا امرأۃ تأیمّت علی ایتام لي، ورواتہ لاباس بہم۔ (فتح الباری:۱۰؍۵۳۶، بیروت عن ابی یعلی)

الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ،محمد اسد اللہ غفرلہ مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند فقط  واللہ تعالیٰ أعلم وقار علی غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۷؍۱؍۱۴۴۱ھ

==============================

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:103‏،  صفر المظفر 1441ھ مطابق اكتوبر 2019ء

*    *    *

Related Posts