حرفِ آغاز

حبیب الرحمن اعظمی

دنیا کے مذاہب میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کی تعلیمات و ہدایات انسانی زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں، مرد اور عورت کا باہمی جنسی تعلق جو ایک فطری و طبعی عمل ہے اسلام، زندگی کے اس مرحلہ میں بھی انسان کو آزاد نہیں چھوڑ دیتا کہ وہ جس طرح چاہے اور جس سے چاہے یہ رشتہ استوار کرلے اور خواہش کے مطابق جب چاہے ناطہ توڑلے بلکہ اسلام میں اس کا ایک مکمل نظام ہے جس میں پوری وضاحت سے بتایاگیا ہے کہ اس رشتہ کو کس طرح جوڑا جائے اور اگر کسی ناگزیر مجبوری کی بنا پر اس رشتہ کو باقی نہیں رکھا جاسکتا تو اسے کیسے ختم کیا جائے۔ نیز پوری تفصیل کے ساتھ یہ بھی متعین کردیاگیا ہے کہ زندگی کی رہ گزر میں انسانی فطرت کے مطابق کسے رفیق سفر بنایا جاسکتا ہے اور کسے نہیں، ان ساری تفصیلات کے مجموعہ کو آج کی اصطلاح میں ”اسلام کا ازدواجی نظام“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اوراس کے الگ الگ شعبہ اور حصہ کو نظام نکاح، نظام طلاق، اور نظام حرمت کا عنوان بھی دیا جاسکتا ہے۔ آج کی صحبت میں ازدواجی نظام کے آخری شعبہ یعنی نظام حرمت پر ہم اپنے قارئین سے کچھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔

اس بات سے کون واقف نہیں کہ ہماری معاشرتی زندگی گوناگوں رشتوں اور قرابتوں کے گرد گھومتی ہے اور ہر فرد بشر ان رشتوں کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے۔ جن کا پاس و لحاظ انسانی فطرت کا خاصہ ہے، ایک سلیم الفطرت انسان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ انھیں یکسر نظر انداز کردے، فطرت انسانی یہ بھی جانتی و مانتی ہے کہ ان رشتوں میں بعض رشتے ایسے ہیں جو اپنے اندر ایسا تقدس اور عزت و احترام کا پہلو رکھتے ہیں کہ طبع سلیم ایسے اہل قرابت اور رشتہ داروں سے ازدواجی اور جنسی تعلق کو گوارا نہیں کرتی اور اسے انسانی شرافت ہی نہیں بلکہ خود انسانیت کے منافی باور کرتی ہے۔

چنانچہ اسلام نے آدمی کی اصل فطرت سے ہم آہنگ اس کے صالح جذبات کی رعایت ملحوظ رکھتے ہوئے اس شعبہ سے متعلق ایسا قانون اور ضابطہٴ عمل وضع کیا ہے کہ اگر علم و انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو اس اعتراف میں ادنیٰ تردد نہیں ہوگا کہ اس باب میں اس سے جامع اور بہتر قانون سے دنیائے انسانیت نا آشنا ہے۔

محرمات کی تفصیل

جن قرابت داروں سے ازدواجی تعلق قائم کرنا اسلام کی نظر میں ممنوع اورحرام ہے انہیں تین حصوں میں تقسیم کیاگیاہے۔

(۱)    محرمات نسبیة             (۲)         محرمات رضاعیة         (۳)         محرمات بالمصاہرت

(۱) محرمات نسبیة : یعنی جن عورتوں سے نسبی رشتہ ہے ان میں حسب تصریح قرآن حکیم سات رشتہ کی عورتیں ایسی ہیں کہ ان کے رشتہ کے احترام میں ان سے ازدواجی تعلق قائم کرنا ممنوع اور حرام ہیں۔ یہ سات عورتیں یہ ہیں:

(۱) مائیں۔( اس میں سب اصول آگئے یعنی ماں کی ماں نانی پرنانی وغیرہ)

 (۲) بیٹیاں (ان میں سب فروع داخل ہیں، یعنی لڑکی کی لڑکی وغیرہ نیچے تک)

(۳) بہنیں (خواہ سگی ہوں یا باپ شریک یا ماں شریک)

(۴) پھوپیاں (اس میں باپ اور باپ سے اوپر دادا وغیرہ کی تینوں قسموں کی بہنیں داخل ہیں)

(۵) خالائیں (اس میں ماں اور ماں سے اوپر نانی وغیرہ کی تینوں قسموں کی بہنیں آگئیں)

(۶) بھتیجیاں (تینوں قسموں یعنی سگے، علاتی یا اخیافی بھائیوں کی اولاد در اولاد سب شامل ہیں)

(۷) بھانجیاں (اس میں بھی تینوں قسموں کی بہنوں کی اولاد بواسطہ و بلا واسطہ سب آگئیں)۔

اس بات سے کسے انکار ہوسکتا ہے کہ اوپر مذکور ایسے محترم خونی رشتوں سے متصف عورتیں ہیں جن سے کوئی صحیح الدماغ، سلیم الفطرت ازدواجی تعلق قائم کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ذرا سوچئے کوئی بیٹا، اپنی ماں کو باپ اپنی بیٹی کو بیوی بنانے پر آمادہ ہوسکتا ہے،اسی پر بقیہ مذکورہ رشتوں کا قیاس کیا جاسکتا ہے۔

(۲) محرمات رضاعیہ : یعنی جن عورتوں نے دودھ پلایا ہے یہ عورتیں اگرچہ حقیقی مائیں نہیں ہیں مگر حرمتِ نکاح میں والدہ ہی کے حکم میں ہیں لہٰذا ماں کی طرح اپنی اَنّا سے بھی نکاح کرنا حرام ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ یہ نکاح کی حرمت اسی وقت ثابت ہوگی جبکہ بچپن میں جو دودھ پینے کا زمانہ ہوتا ہے اس میں پیا ہو، اور دودھ شریک بہنوں سے بھی نکاح حرام ہے (یعنی جن کی حقیقی یا رضاعی ماں کا تم نے دودھ پیا ہے وہ تمہاری رضاعی بہنیں ہوجائیں گی ان سے بھی سگی بہن کی طرح نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہوگا) قرآن پاک میں تو صرف رضاعی ماں، بہن ہی کا ذکر ہے، لیکن جس طرح نسبی رشتہ کی سات عورتوں سے (جن کا ذکر اوپر آچکا ہے) نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہے اسی طرح رضاعی رشتہ کی بھی سات قسم کی عورتوں سے نکاح ممنوع ہوگا۔ نبیٴ پاک  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”یحرم من الرضاعة ما یحرم من النسب“ یعنی دودھ پینے کے رشتہ سے وہ سب عورتیں حرام ہوجاتی ہیں جو نسبی رشتہ کی بناء پر حرام ہیں۔

(۳) حرمت بالمصاہرت : یعنی سسرالی رشتہ کی بناء پر نکاح کی حرمت، قرآن نے اس سلسلہ کی چار عورتوں کا ذکر کیا ہے:

(۱) باپ کی بیوی یعنی سوتیلی ماں۔

(۲) بیٹے کی بیوی یعنی بہو، بیٹے کے ساتھ ”مِنْ اَصَلاَبِکُمْ“ کی قید سے لے پالک کی بیویاں اس حکم سے نکل گئیں لہٰذا ان سے نکاح جائز ہوگا۔

(۳) بیوی کی ماں یعنی خوشدامن (اس حکم میں بیوی کے سب موٴنث اصول یعنی بیوی کی دادی وغیرہ شامل ہیں)

(۴) اس بیوی کی بیٹی جس سے ہمبستری ہوچکی ہے، یعنی کسی عورت سے صرف نکاح کرلینے سے اسکی لڑکی سے نکاح حرام نہیں ہوگا بلکہ اس سے صحبت بھی ہوجائے تب اسکی لڑکی حرام ہوگی۔

نسب، رضاعت (دودھ پینا) اور مصاہرت (سسرالی رشتہ) کی بنیاد پر ثابت حرمت دائمی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی، ان تینوں قسم کی حرمت میں تمام فقہاء محدثین اور اہل سنت والجماعت کااتفاق ہے۔

حرمت بالمصاہرت کی تفصیل میں دو نقطئہ نظر

البتہ فقہائے اسلام کا مصاہرت کی بناء پر حرمت کی تفصیل میں نقطئہ نظر مختلف ہے۔ ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ ناجائز و حرام صحبت یعنی زنا سے بھی یہ حرمت ثابت ہوجائے گی اور جس عورت سے یہ حرام کاری کی گئی ہے اس کے اصول و فروع یعنی مائیں اور بیٹیاں زانی پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائیں گی ان سے ازدواجی تعلق قائم کرنا صحیح نہ ہوگا، جبکہ دوسری جماعت کی رائے یہ ہے کہ زنا سے یہ حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ ائمہ اربعہ میں امام اعظم ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل پہلی رائے کے قائل ہیں، اور امام مالک و امام شافعی دوسری رائے کو مانتے ہیں۔(۱)

اختلاف کی بنیاد

اس اختلاف کی بنیاد دراصل سورہٴ نساء آیت ۲۲ ”وَلاَ تَنْکِحُوا مَا نَکَحَ آبَاءُ کُمْ مِنَ النِّسَاءِ“ (اور نکاح نہ کرو ان عورتوں سے جن سے تمہارے باپ دادا نے نکاح کیا ہے) میں وارد لفظ ”نکاح“ کے لغوی معنی کے فہم میں اختلاف پر ہے۔ جن فقہاء و محدثین کے نزدیک زنا سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے وہ کہتے ہیں کہ ”نکاح“ کا اصلی معنی ازروئے لغت وطی یعنی ہمبستری ہے، عقد معنی مجازی ہے اور جو حضرات فقہاء اس حرمت کے قائل نہیں ان کے نزدیک نکاح کا اصلی و حقیقی معنی ”عقد“ ہے اور وطی اس کا معنی مجازی ہے۔ لہٰذا جن حضرات فقہاء کے نزدیک نکاح کا اصلی معنی وطی ہے وہ کہتے ہیں کہ وطی جس صورت میں بھی پائی جائے چاہے نکاح کے ساتھ یا بغیر نکاح کے حرمت ثابت ہوجائے گی۔ اور جن حضرات کے نزدیک عقد کے معنی میں ہے ان کے نزدیک نکاح کے ساتھ جو وطی ہوگی اسی سے حرمت ثابت ہوگی۔

لفظ نکاح کی معنوی تحقیق

خود اہل لغت کا اس کے اصلی معنی کے متعین کرنے میں اختلاف ہے بقدر ضرورت اس اختلاف کی تفصیل ملاحظہ کی جائے۔

(۱) حافظ بدرالدین عینی حنفی عمدة القاری شرح بخاری میں لکھتے ہیں:

قال الازہری اصل النکاح فی کلام العرب الوط ء وقیل للتزویج نکاح لانہ سبب الوط ء․

وقال الزجاجی : ”ہو فی کلام العرب الوط ء والعقد جمیعًا ․․․ وحقیقتہ عند الفقہاء علی ثلاثة اوجہ حکاہا القاضی حسین اصحہا انہ حقیقة فی العقد مجاز فی الوطیٴ وہو الذی صحہ ابوالطیب وبہ قطع المتولی وغیرہ، الثانی انہ حقیقة فی الوطیٴ مجاز فی العقد وبہ قال ابوحنیفة، والثالث انہ حقیقة فیہما بالاشتراک“ (ج:۲۰، ص: ۶۴)

امام لغت ازہری کہتے ہیں کہ کلام عرب میں نکاح کا اصلی معنی ”وطی“ ہے عقد تزویج کو نکاح اس لئے کہا جاتا ہے یہ عقد، وطی کا سبب اور ذریعہ ہے۔ اور امام لغت زجاجی کہتے ہیں کہ کلام عرب میں لفظ نکاح، وطی اور عقد دونوں معنی میں مشترک ہے، اور فقہاء کے یہاں اس لفظ کی حقیقت کے بارے میں تین اقوال ہیں جسے قاضی حسین نے نقل کیا ہے۔ (۱) صحیح تر یہ ہے کہ نکاح معنی عقد میں حقیقت اور معنی وطی میں مجاز ہے۔(۱) اسی قول کو امام ابوالطیب اور متولی وغیرہ فقہائے شافعیہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ (۲) لفظ نکاح معنی وطی میں حقیقت اور معنی عقد میں مجاز ہے اسی کے امام ابوحنیفہ قائل ہیں، (۳) وطی اور عقد مشترک طور پر دونوں معنی میں حقیقت ہے۔

(۲) حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی فتح الباری میں ان الفاظ میں اپنی تحقیق نقل کرتے ہیں:

”النکاح فی اللغة الضم والتداخل و تجوّز من قال انہ الضم، قال الفرّاء النُکح اسم للفرج ویجوز کسرہ، وکثر استعمالہ فی الوط ء و سمی بہ العقد لکونہ سببہ وقال ابوالقاسم الزجاجی ہو حقیقة فیہما وفی الشرع حقیقة فی العقد، مجاز فی العقد علی الصحیح ․․․ وفی وجہ للشافعیة کقول الحنفیة انہ حقیقة فی الوطء ومجاز فی العقد“ (ج:۹، ص: ۱۲۸)

نکاح لغت میں چپکنے اور ایک دوسرے میں داخل ہونے کے معنی میں ہے۔ جن حضرات نے نکاح کو ضم یعنی ملنے کے معنی میں لیا ہے انھوں نے مجاز کو اختیار کیا ہے، امام نحو و لغت فرّا کا بیان ہے لفظ نُکّحَ کااصلی معنی شرمگاہ کے ہیں، وطی کے معنی کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ نکاح کو عقد اس لئے کہا جاتا ہے کہ عقد، وطی کا ذریعہ و سبب ہے۔ اور ابوالقاسم زجاجی نے کہا کہ عقد اور وطی مشترک طور پر اس کے دونوں معنی اصلی و حقیقی ہیں،اور شرعی(۲) اصطلاح میں صحیح قول کے مطابق عقد اس کا معنی حقیقی اور وطی معنی مجازی ہے، اور فقہائے شافعیہ کے یہاں ایک قول امام ابوحنیفہ کی تحقیق کے مطابق ہے۔ یعنی یہ لفظ معنی وطی میں حقیقی اور معنی عقد میں مجازی ہے۔

(۳) حافظ ابوالعباس القرطبی مالکی اپنی معروف محققانہ تصنیف ”المفہم“ شرح تلخیص صحیح مسلم میں لکھتے ہیں:

”حقیقة النکاح الوط ء ․․․ وقد اشتہر اطلاقہ علی العقد“ (ج:۴، ص: ۸۰)

وطی نکاح کا اصلی معنی ہے اور عقد میں بھی اس کا بولا جانا مشہور ہے۔

مشہور لغوی عالم ناصرالدین المطرزی لکھتے ہیں:

اصل النکاح الوطء ․․․ ثم قیل للتزوج نکاح مجازا لانہ سبب للوطء المباح (المُغرِب ج:۲، ص: ۲۲۶) نکاح کااصلی معنی وطی ہے پھر شادی کرنے کے معنی میں مجازا استعمال ہونے لگا کیونکہ یہی شادی وطی مباح یعنی جائز ہمبستری کا سبب اور ذریعہ ہے۔

علامہ مجدالدین فیروز آبادی اللغوی القاموس میں لکھتے ہیں:

النکاح، الوطء والعقد لہ، نکاح کا لفظ وطی اور عقد نکاح کے معنی میں ہے۔ موصوف کی تعبیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں معنی میں اسے مشترک مانتے ہیں۔

فقہ اور اصول کے مشہور امام ابوبکر جصاص رازی حنفی اپنی محققانہ تصنیف احکام القرآن میں لکھتے ہیں:

اخبرنا ابوعمر (الزاہد) غلام ثعلب قال : الذی حصلناہ عن ثعلب عن الکوفیین والمبرد عن البصریین ان النکاح فی اصل اللغة ہو اسم للجمع بین الشیئین․․․ والجمع انما یکون بالوطء دون العقد اذالعقد لا یقع بہ جمع لانہ قول منہما جمیعًا لایقتضی جمعًا فی الحقیقة ثبت ان اسم النکاح حقیقة فی الوطء مجاز للعقد ، والعقد انما سمی نکاحاً لانہ سبب یتوصل بہ الی الوطء ․( مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۱۲ھ، ص: ۴۹-۵۰)

ہم سے الشیخ الزاہد ابوعمر ملقب بہ غلام ثعلب نے بیان کیا کہ ہمیں ثعلب کے واسطہ کوفیوں کی اور مبرّد کے بالواسطہ بصریوں کی جو رائے معلوم ہوئی وہ یہ ہے کہ لفظ نکاح اہل لغت میں دو چیزوں کے باہم ملنے کے معنی میں ہے․․․ اور یہ معنی وطی اور ہم بستری میں پایا جاتا ہے عقد میں نہیں کیونکہ نفس عقد سے جمع و ضم (باہم ملنے) کا وقوع و ثبوت نہیں ہوتا اس لئے کہ عقد تو زوجین کا قول ہے (یعنی زوجین کا ایجاب و قبول کے الفاظ کا زبان سے ادا کرنے کو عقد کہا جاتا ہے) جو درحقیقت جمع کو چاہتا ہی نہیں(۱) لہٰذا ثابت ہوا کہ اسم نکاح معنی وطی میں حقیقت اور معنی عقد میں مجاز ہے، عقد کو نکاح محض اس بناء پر کہا جاتا ہے کہ یہ وطی تک پہنچنے کا (ایک جائز) وسیلہ و ذریعہ ہے۔

نکاح کے لغوی معنی کی اس تفصیل سے ان لوگوں کے قول کی وجاہت و قوت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو کہتے ہیں کہ لفظ نکاح کی حقیقت لغویہ وطی ہے اور عقد و تزویج اس کا معنی مجازی ہے۔ بایں ہمہ اس بات سے بھی انکار مبنی بر انصاف نہیں ہوگا کہ اس لفظ کا معنی مجازی یعنی عقد اس کے معنی اصلی یعنی وطی کے مقابلہ میں کتاب و سنت اور کلام شریعت میں کثیر الاستعمال اور زیادہ مشہور ہے، لیکن اس کثرت و شہرت کی بناء پر یہ دعویٰ کرنا بھی صحیح نہیں ہوگا کہ قرآن و حدیث میں لفظ نکاح صرف عقد اور تزویج کے معنی ہی میں استعمال کیاگیا ہے کیونکہ محققین علمائے تفسیر کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں یہ لفظ اپنے اصلی معنی وطی ہی میں مستعمل ہوا ہے، چنانچہ امام تفسیر ابوعبداللہ محمد بن احمد القرطبی اپنی نہایت مفید قابل فخر کتاب ”الجامع لاحکام القرآن“ میں سورئہ بقرہ آیت ۲۳۰ کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں کہ نحاس نے اپنی کتاب ”معانی القرآن“ میں لکھا ہے:

قال : واہل العلم علی ان النکاح ہاہنا الجماع، لانہ قال ”زَوْجاً غَیْرَہ“ فقد تقدمت الزوجیة فصار النکاح الجماع، الا سعید بن جبیر فانہ قال النکاح ہٰہنا التزویج الصحیح اذا لم یرد احلالہا․ (ج:۳، ص: ۱۴۸، مطبوعہ احیاء التراث العربی بیروت)

نحاس کا بیان ہے کہ اہل علم کااس پر اتفاق ہے کہ لفظ نکاح اس آیت میں جماع یعنی ہمبستری کے معنی میں ہے اس لئے کہ آیت میں ”زَوْجًاغَیْرَہ“ فرمایا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ عقد و تزویج تو پہلے ہوچکا ہے لہٰذا نکاح وطی اور صحبت کے معنی میں ہوگا، البتہ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ نکاح بیان تزویج صحیح کے معنی میں ہے، جبکہ یہ تزویج و عقد عورت کو پہلے شوہر کے لئے حلال کی نیت سے نہ ہو۔

امام فخرالدین رازی اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں:

اختلف العلماء فی ان شرط الوطء بالسنة او بالکتاب، قال ابومسلم الاصفہانی الامران معلومان بالکتاب وہذا ہو المختار․․․ فقولہ ”تنکح“ یدل علی الوطء وقولہ زوجاً یدل علی العقد، واما من یقول ان الآیة غیر دالة علی الوطء وانما ثبت الوطء بالسنة فضعیف․ (تفسیر کبیر، ج:۶، ص: ۱۱۲، مطبوعہ الاعلام الاسلامیہ ۱۳۱۳ھ)

علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ (جس عورت کو اس کے شوہر نے تین طلاقیں دیدیں اس طلاق دینے والے کے نکاح میں دوبارہ آنے کے لئے کسی اور شخص سے شادی کے بعد ہمبستری کرنے کی جو شرط ہے یہ) شرط حدیث سے ثابت ہے، یا قرآن سے ،ابومسلم اصفہانی کا قول ہے کہ شادی اور ہمبستری دونوں قرآن سے ثابت ہیں۔ یہی قول مختار ہے․․․ (اپنے معروف اسلوب برہان ولیل کے ساتھ ابومسلم کے قول مختار و راجح ثابت کرنے کے بعد بطور خلاصہ کلام لکھتے ہیں) لہٰذا اللہ تعالیٰ کا قول ”تنکح“ وطی و ہمبستری پر دلالت کررہا ہے اور ”زوجاً“ کا فرمان عقد و تزویج کے معنی کو بیان کررہا ہے، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آیت وطی کے معنی کو بیان نہیں کررہی بلکہ وطی کی شرط کا ثبوت حدیث سے ہے ان کا یہ قول ضعیف ہے۔

عصر حاضر کے معروف مفسر شیخ محمد علی صابونی لکھتے ہیں:

وذہب جمہور العلماء والائمة الاربعة المجتہدون الی ان المراد فی قولہ تعالیٰ ”حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہ“ الوطء لا العقد فلا تحل للزوج الاول حتیٰ یطأہا الزوج الثانی فقد وضّحت السنة المطہرة ان المراد من لفظ النکاح فی الآیة الکریمة ہو الجماع لا العقد“ (الردائع البیان فی تفسیر آیات الاحکام، ج:۱، ص: ۳۳۹)

جمہور علماء اور چاروں ائمہ مجتہدین اس طرف گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ”حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہ“ میں تنکح سے مراد وطی ہے عقد نہیں لہٰذا (مطلقہٴ ثلاثہ) سے جب تک دوسرا شوہر وطی نہ کرے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوگی اور حدیث پاک نے وضاحت کردی کہ آیت کریمہ میں لفظ نکاح سے مراد ہمبستری ہے، عقد نکاح نہیں۔

علاوہ ازیں سورئہ نساء آیت ۶ ”حَتّٰی اِذَا بَلَغُوْا النِکَاحَ“ میں سارے مفسرین و فقہاء نکاح کو حلم یعنی احتلام کے معنی میں لیتے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ سونے والا جب خواب میں صورة وطی کو دیکھتا ہے تو اسے احتلام پیش آتا ہے۔ اس آیت میں عقد نکاح کا معنی کسی کے نزدیک بھی صحیح نہیں ہے۔

حدیث پاک میں بھی لفظ نکاح ”وطی“ کے معنی میں استعمال ہوا ہے چنانچہ مشہور حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولدت من نکاح لا من سفاح“ میں نکاح حلال سے پیدا ہوا ہوں نکاح حرام سے نہیں۔ اس حدیث سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ لفظ نکاح عقد کے معنی میں بھی بولاجاتاہے اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ لفظ نکاح ”وطی بغیر عقد“ یعنی عقد نکاح کے بغیر ہمبستری پر بھی بولا جاتا ہے۔ اگر اس لفظ میں یہ مفہوم نہ ہوتا تو آپ صرف فرماتے ”ولدت من نکاح“ لیکن نکاح کے بعد آپ کا ”لا من سفاح“ فرمانا بتا رہا ہے کہ یہ لفظ ”وطی حرام“ پر بھی بولا جاتا ہے ورنہ اس لفظ کے زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

اسی طرح حائض عورت (ماہواری والی) سے متعلق ایک شرعی حکم کے بیان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یحل للرجل من امرأتہ الحائض کل شيء الا النکاح“ اپنی حائض بیوی سے مرد کو ہر چیز حلال ہے سوائے نکاح یعنی وطی کے۔

حدیث و قرآن کے علاوہ عرب کے جاہلی شعراء کے کلام میں بھی لفظ نکاح ہمبستری کے معنی میں کثرت سے استعمال ہوا ہے اگر طوالت اور ناظرین کی عدم دلچسپی کا اندیشہ نہ ہوتا تو اس کے بھی شواہد پیش کئے جاسکتے تھے۔

مسئلہ زیر بحث کا اصل مستدل

اس مذکورہ تفصیل سے یہ بات اچھی طرح سامنے آگئی کہ نکاح کا لفظ کلام عرب بالخصوص قرآن وحدیث میں عورت کے ساتھ ہمبستری اور صحبت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ خواہ یہ ہمبستری عقد نکاح کے ساتھ ہو یا بغیر عقد کے، اور اوپر مذکور علمائے لغت اور شارحین حدیث کی عبارتوں سے یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ ازروئے لغت کلام عرب میں اس لفظ کا اصلی و حقیقی معنی ”وطی“ اور ہمبستری ہے، تو سورئہ نساء کی آیت ۲۲ ”وَلاَ تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ آبَاءَ کُمْ مِن النِسَاءِ“ سے حرمت مصاہرت بالزنا (یعنی زنا سے حرمت مصاہرت کے ثبوت) پر استدلال میں کیا تردد ہوسکتا ہے؟ بلاشبہ یہ استدلال اصول فقہ اور عربیت کے موافق بے غبار ہے (یہ الگ بات ہے کہ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ نے اپنے ذوق اجتہاد سے یہاں بھی ”نکاح“ کو عقد و تزویج کے معنی پر محمول کیاہے جس کی گنجائش سے مطلقاً انکار نہیں کیا جاسکتا ہے) چنانچہ مشہور ظاہری امام حافظ ابن حزم اس استدلال کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قول اللّٰہ عزّ وجلّ ”وَلاَ تَنْکِحُوا مَا نَکَحَ آبَاءُ کُمْ مِنَ النِسَاءِ“

قال ابو محمد : النکاح فی اللغة التی نزل بہا القرآن یقع علی شیئین، احدہما الوطء کیف کان بحرام او بحلال والآخر العقد، فلا یجوز تخصیص بدعوی بغیر نص من اللّٰہ تعالیٰ او من رسولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فای نکاح نکح الرجل المرأة حرة او امة بحلال او حرام فہی حرام علی ولدہ بنص القرآن ․․․ وہذا قول ابی حنیفة و جماعة من السلف․ (المحلّٰی کتاب النکاح، ج۱۱، ص: ۷۹ رقم المسئلة ۱۸۶۶)

ابومحمد (یہ ابن حزم کی کنیت ہے) کہتا ہے نکاح لغت میں جس کے مطابق قرآن نازل ہوا ہے دو معنوں پر واقع ہوا ہے اول ”وطی“ جیسے بھی ہو حرام طریقے پر یا حلال طریقے پر، اور دوسرا عقد، لہٰذا لفظ نکاح میں تخصیص کا دعوی اللہ اور رسول اللہ کی نص کے بغیر صحیح نہیں ہوگا۔ لہٰذا مرد کسی عورت کے ساتھ جس نوع کا بھی نکاح کرلے (خواہ نکاح وطی یا نکاح عقد) عورت خواہ آزاد ہو یا باندی حلال طور پر یا حرام طور سے یہ عورت مرد کے لڑکے پر بنص قرآن حرام ہوجائے گی یہی امام ابوحنیفہ اور سلف کی ایک جماعت کا قول ہے۔

پھر اس جماعت سلف میں سے حضرت عبداللہ بن عباس، مجاہد، ابراہیم نخعی، ابن مغفل، عکرمہ، شعبی، سعید بن المسیب، ابی سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف، عروہ بن زبیر، اور سفیان ثوری کے آثار و اقوال نقل کئے ہیں جو آئندہ سطور میں مسئلہ زیربحث سے متعلق احادیث و آثار کے ضمن میں انشاء اللہ پیش کئے جائیں گے۔

حافظ ابوالفرج ابن الجوزی حنبلی لکھتے ہیں:

الزنا یثبت تحریم المصاہرت، واصحابنا یستدلون بقولہ تعالیٰ ”وَلاَ تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ آبَاءُ کُمْ“ والنکاح حقیقة فی الوطء“ (تنقیح تحقیق احادیث التعلیق للحافظ ابن عبدالہادی، ج:۳، ص: ۱۸۰)

زنا حرمت مصاہرت کو ثابت کردیتا ہے، ہمارے علمائے مذہب اس مسئلہ پر اللہ تعالیٰ کے فرمان ”وَلاَ تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ“ سے استدلال کرتے ہیں، اور وطی لفظ نکاح کی حقیقت لغویہ ہے۔ (اس جملہ سے موصوف نے طریق استدلال کی جانب اشارہ کیا ہے)

محقق ابن قدامہ اپنی عظیم المرتبت تصنیف المغنی میں لکھتے ہیں:

۵۳۵۵ – مسئلة : و وطء الحرام محرم کما یحرم وطء الحلال والشبہة ․

یعنی انہ یثبت بہ تحریم المصاہرت فاذا زنیٰ بامرأة حرمت علی ابیہ وابنہ و حرمت علیہ امہا و ابنتہا کما لو وطہا بشبہة و حلالا، ولو وطی ام امرأتہ او بنتہا حرمت علیہ امرأتہ نص احمد علی ہذا فی روایة جماعة و روی نحو ذلک عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ، و بہ قال الحسن و عطاء و طاوٴس و مجاہد والشعبی، والنخعی، واسحاق واصحاب الراے وروی عن ابن عباس ان وطء الحرام لا یحرم، و بہ قال سعید بن المسیب، ویحییٰ بن یعمر، وعروة، والزہری، ومالک، والشافعی، وابوثور، وابن المنذر لما روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال: ”لا یحرم الحرامُ الحلالَ“ ولانہ وطء لا تصیر بہ الموطوة فراشا فلا یحرم کوطء الصغیرہ“

ولنا قولہ تعالیٰ ”وَلاَ تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ آبَاءُ کُمْ من النساء“ والوطء یسمّٰی نکاحا ․․․ فحمل فی عموم الآیة وفی الآیة قرینة تصرفہ الی الوطء وہو قولہ سبحانہ تعالیٰ ”اِنَّہ کَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَ سَاءَ سَبِیْلاً“ وہذا التغلیظ انما یکون فی الوطء الخ․ (ج:۷، ص: ۹۰)

حرام وطی یعنی زنا وغیرہ حرام کردیتا ہے جس طرح وطی حلال اور وطی بالشبہ حرام کردیتی ہیں (یعنی جس طرح منکوحہ یا شبہ سے غیر منکوحہ کے ساتھ ہمبستری سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا سے بھی اس کا ثبوت ہوجاتا ہے)

لہٰذا جب کوئی شخص کسی عورت سے حرام کاری کرے گا تو یہ عورت اس مرد کے باپ اور بیٹے پر حرام ہوجائے گی اور خود اس شخص پر مزنیہ عورت کی ماں اور بیٹی حرام ہوجائیں گی، جیسے کہ اشتباہ کی بناء پرغیر بیوی سے یا خود اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے سے حرمت مصاہرت کا ثبوت ہوجاتا ہے، نیز اگر کسی نے اپنی بیوی کی ماں یعنی ساس، یا بیوی کی بیٹی سے صحبت کرلی تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔ ایک جماعت کی روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل نے اس مسئلہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ صحابی رسول عمران بن حصین سے بھی یہی قول مروی ہے اور یہی قول امام حسن بصری، عطاء بن ابی رباح، طاؤس، مجاہد، شعبی، ابراہیم نخعی، اسحاق بن راہویہ اور فقہائے احناف کا ہے۔

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ سے یہ بات روایت کی جاتی ہے کہ وطی حرام سے حرمت ثابت نہیں ہوتی، اور یہی حضرت سعید بن المسیب، یحییٰ بن یعمر، عروة بن زبیر، زہری، امام مالک و امام شافعی، ابوثور اور ابن المنذر رحمہم اللہ کا قول ہے۔ اس حدیث کی بنیاد پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لا یحرم الحرام الحلال“(۱) حرام ، حلال کو حرام نہیں کرتا۔

اور ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ”وَلاَ تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اَبَاءُ کُمْ مِنَ النِّسَاءِ“ اورنکاح نہ کرو ان عورتوں سے جن سے تمہارے باپ دادا نے نکاح کیاہے، اور وطی کو(لغة) نکاح کہا جاتا ہے لہٰذا آیت کے عموم میں وطی بھی شامل ہوگی۔

پھر آیت میں ایسا قرینہ بھی موجود ہے جو نکاح کو معنی وطی کی جانب پھیرتا ہے اور یہ قرینہ اللہ عز و جل کا یہ قول ہے ”اِنّہ کان فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِیْلاً“ یہ بدکاری اور ناراضگی کا کام ہے اور بدترین طریق عمل ہے (یعنی باپ دادا کی منکوحہ عورتوں سے نکاح عقل، شرع اور عرف پر اعتبار سے ناپسندیدہ و ممنوع ہے) اس طرح کی شدت مذمت ان مذکورہ عورتوں کے ساتھ وطی کی بناء پر ہی ہوگی محض عقد نکاح اس تغلیظ و تشدید کا متقاضی نہیں۔

معروف صاحب نظر و فہم فقیہ و محدث ابوبکر جصاص رازی لکھتے ہیں:

فوجب اذا کان علی ما وصفنا ان یحمل قولہ تعالیٰ ”وَلاَ تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ آبَائُکُمْ مِنَ النِسَاءِ“ علی الوطء فاقتضیٰ ذلک تحریم من وطیہا ابوہ من النساء علیہ لانہ لما ثبت ان النکاح اسم للوطء لم یختص ذلک بالمباح منہ دون المحظور کالضرب، والقتل والوطء نفسہ لا یختص عند الاطلاق بالمباح منہ دون المحظور بل ہو علی الامرین حتی تقوم الدلالة علی تخصیصہ الخ (احکام القرآن، ج:۳، ص:۵۱)

(اس بحث و تحقیق کے بعد کی لفظ نکاح کا از روئے لغت عربی اصلی و حقیقی معنی وطی ہے) تو جب ہماری بحث سے ثابت ہوگیا کہ نکاح کا حقیقی معنی یہی ہے تو ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ”وَلاَ تَنْکِحُوْا الآیة“ کو وطی پر محمول کیا جائے اور اس معنی کا یہ مقتضی ہے کہ وہ عورتیں بیٹے پر حرام ہوجائیں جن سے اس کے باپ نے وطی کی ہے، کیونکہ جب یہ ثابت ہوگیا کہ نکاح، مطلق وطی کا نام ہے تو یہ معنی وطی ممنوع کو نظر انداز کرکے صرف مباح کے ساتھ خاص نہیں ہوگا جیسے لفظ ضرب اور قتل۔ جائز و ناجائز دونوں طرح کی ضرب و قتل پر بولا جاتا ہے، اور خود لفظ وطی مطلق بولا جاتا ہے تو جب تک کہ کسی معنی کے ساتھ خاص ہونے کی دلیل نہیں پائی جاتی تو کسی ایک نوع کے ساتھ مختص ہونے کے بجائے دونوں طرح کی وطی پر صادق آتا ہے۔

علامہ ابن حزم، امام ابن الجوزی، محقق ابن قدامہ اور فقیہ النفس جصاص رازی رحمہم اللہ کے یہ واضح بیانات بتارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان بالا کی رو سے حرام کاری اور صحبت ناجائز سے بھی حرمت مصاہرت کا ثبوت ہوجاتا ہے۔

رسالہ کی تنگ دامانی کی بناء پر انھیں گذارشات کے ساتھ آج کی مجلس برخاست کی جارہی ہے ، انشاء اللہ آئندہ اشاعت میں زیر بحث مسئلہ کی تائید میں احادیث و آثار وغیرہا پیش کئے جائیں گے۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7، جلد: 89 ‏،  جمادی الاول‏، جماد ی الثانی 1426ہجری مطابق جولائی 2005ء

Related Posts