از: ڈاکٹرسیدحسنین احمد ندوی
اسلام ان مصنوعی مذاہب یا خیالی فلسفۂ حیات میں سے نہیں ہے جو سوشل ورک، سماجی خدمات اور دوسروں کے ساتھ تعاون وہمدردی کے رویہ کو محض قابلِ توصیف اور لائق ستائش سمجھتے ہیں ؛ بلکہ اسلام اپنی اصل کے اعتبار سے ہی ایک فلاحی دین ہے، اس کا خمیر ہی خلق خدا کی خدمت اور اس کی فلاح وبہبود سے اٹھا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ وہ اپنی ہی نہیں ؛ بلکہ دوسروں کی بھی فکر کریں ، اور یہ فکر صرف مادی آسودگی تک محدود نہیں ہونی چاہیے؛ بلکہ روحانی تشنگی کا ازالہ بھی اس میں شامل ہو اور اس تصور خیر میں اس نے صرف فانی دنیا ہی نہیں ؛ بلکہ لافانی آخرت کو بھی شامل رکھا ہے؛ اس لیے خود پیغمبر اسلام کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری توانائی، تمام تر صلاحیتیں اور انتھک جدوجہد اس راستہ میں صرف ہوتی تھیں کہ کس طرح بچھڑی ہوئی مخلوق کو اس کے خالق سے ملا دیں ؛ تاکہ اس کا نصیب جہنم کے دہکتے شعلے نہیں ؛ بلکہ جنت کے جانفزا جھونکے بن جائیں ، اس سوچ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح حرز جاں بنایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کے ہو کر رہ گئے، اور اپنے آپ کو بھی فراموش کر دیا، اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے قرآن میں کہا گیا ہے:
فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی آثَارِہِمْ إِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ أَسَفًا (الکہف:۶)
ترجمہ: اگر وہ ایمان نہ لائے تو کیا آپ ان کی خاطر اپنے آپ کو ہلاک کرڈا لیں گے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شب و روز اسی فکر وعمل میں بسر ہوتے کہ کس طرح خلق خدا کی خدمت کی جائے اور ان کے مسائل کو حل کیا جائے، اس میں امیرو غریب، بچے بوڑھے اور مردو عورت کی کوئی تخصیص نہ تھی، اور نہ ہی ان کے درمیان کوئی تفریق برتی جاتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدمت کے معاملہ میں مکمل عالم انسانیت کو ایک خاندان کا درجہ دیا اس طرح کہ تمام انسانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیال اللہ قرار دیا اور ہر اس شخص کو لائق تکریم، جو اللہ کے عیال کی کسی بھی طرح خدمت کرتا ہے چنانچہ فرمایا:
الخلق کلھم عیال اللہ وأحب خلقہ إلیہ أنفعھم لعیالہ (مجمع الزوائد:۱۳۷۰۷)
ساری مخلوق اللہ کی عیال ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ وہ ہے جو اس کے عیال کے لیے فائدہ مند ہو۔
فارس کے عظیم جنرل رستم نے جب اسلام اور ان کے آنے کے مقصد سے متعلق سوال کیا تو ربعی بن عامررضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
جئنا لنخرج العباد من عبادۃ العباد الیٰ عبادۃ رب العباد ومن ضیق الدنیا إلٰی سعۃ الآخرۃ ومن جور الأدیان إلٰی عدالۃ الإسلام (البدایۃ والنھایۃ: ۷)
ترجمہ: ہم اس لیے آئے ہیں کہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اس کے رب کی بندگی تک پہنچا دیں ، دنیا کی تنگی کے مقابلہ میں آخرت کی وسعت سے آشنا کریں اور مذاہب کے ظلم کے مقابلہ میں اسلام کے عدل سے روشناس کریں ۔
اسلام نے انسان کی عظمت وبڑائی کے لیے معیار اس چیز کو بتایا ہے کہ ان سے لوگوں کو کس قدر فائدہ پہنچ رہا ہے، لہٰذا جو دوسروں کے لیے جتنا نافع ہوگا وہ اتنا ہی بہتر تصور کیا جائے گا۔
خَیْرُ النَّاسِ أَنْفَعُھُمْ لِلنَّاسِ(مسند الشہاب: ۱۲۹) اسلام کا اصل مشن ہی چونکہ خدمت خلق ہے اس لیے اس نے خادم ومخدوم کے روایتی تصور کو بالکل ہی بدل دیا، اس نے قائد،لیڈر، سردار اور ذمہ دار کو مخدوم کی بجائے خادم بنادیا؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سید القوم خادمھم (جامع المسانید والمراسیل: ۱۳۱۰۳) قوم کا سردار تو قوم کا خادم ہوتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم صرف قولی ہی نہیں ؛ بلکہ عملی بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدمت خلق کی صرف دعوت ہی نہیں دی؛ بلکہ اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا، حضرت خبابؓ ایک جنگی مہم پر مدینہ سے باہر گئے ہوئے تھے ان کے گھر پر کوئی مرد نہیں تھا، اور عورتیں دودھ دوہنا نہیں جانتی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ ان کے گھر جا کر دودھ دوہ دیا کرتے تھے، اسی طرح ایک مرتبہ ایک پاگل لڑکی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مدینہ کی کسی بھی گلی میں بیٹھو میں تمہاری مدد ضرور کروں گا، خدمت خلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیازی وصف تھا، اس کی جھلک صرف بیرونِ خانہ ہی نہیں ؛ بلکہ درونِ خانہ بھی دیکھی جا سکتی ہے، حضرت اسودرضی اللہ عنہ نے جب حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر میں کیا معمول تھا ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر والوں کی خدمت میں رہا کرتے تھے، نماز کا وقت آتا تو نماز کے لیے چلے جاتے تھے۔
خدمت خلق کا معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کتنا اہم تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو عبادات کے ساتھ خدمت خلق کی باضابطہ تلقین فرمایا کرتے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ آپ کے ساتھی دوسروں کے لیے سراپا خیر اور بھلائی کا سرچشمہ بن جائیں ؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر جب حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو انھوں نے صورت حال معلوم کرنے کے لیے اپنے بھائی کو مکہ بھیجا، مکہ سے واپسی پر انھوں نے ابو ذر غفاریؓ کو یہ تفصیل بتائی: رأیت یأمر بمکارم الأخلاق میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ اعلیٰ اخلاق کا حکم دیتے ہیں ، حضرت عبد اللہ بن سلام بیان کرتے ہیں کہ وہ پہلا ارشاد جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا وہ یہ تھا: ’’سلام کو عام کرو، کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کیا کرو‘‘۔ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسکین کو کھانا کھلا نا اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے‘‘(کنزالعمال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات اور اس نہج پر اپنے ساتھیوں کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ کرام میں خدمت خلق کا جذبہ اس طرح رچ بس گیا کہ ان کی زندگیاں اس جذبہ سے معمور ہو گئیں اور یہ چیزیں اس طرح ان میں سما گئیں جیسے پھولوں میں خوشبو، چند ا میں چاندنی اور شفق میں لالی، اس کا نتیجہ تھا کہ یہ حضرات جہاں بھی رہے غریبوں کی دستگیری، مصیبت کے ماروں کی اعانت، مہمانوں کی ضیافت اور محتاجوں کی خدمت، آپ حضرات کا خاص مشغلہ رہا، یہی ان کا مشن تھا، انھوں نے زندگی اپنے لیے نہیں ، بلکہ دوسروں کے لیے جیا، ضرورت مند ان کی تلاش میں نہیں نکلتے؛ بلکہ آپ حضرات ضرورت مندوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے، اس کی مثالوں سے تاریخ وسیر کی کتابیں بھری پڑی ہیں ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب آپ ؓ خلیفہ بنے تو مدینہ کی ایک بچی آپ کے پاس آئی اور افسردگی کے ساتھ کہنے لگی: اب آپ خلیفہ بن گئے ہیں ہماری بکریوں کا دودھ کون دوہے گا؟ ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر کہا: میں پہلے کی طرح اب بھی یہ کام کروں گا، میری خلافت اس میں رکاوٹ نہیں بنے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے سینوں میں خدمت خلق کی جو شمع روشن کی تھی اس کی تابانی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کوئی فرق نہیں پڑا اور خلیفہ ہونے پر بھی خدمت خلق کا مشن بدستور جاری رہا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے آپ کو امیر المؤمنین نہیں ، بلکہ اجیر المؤمنین یعنی مومنوں کا مزدور کہا کرتے تھے اور ہمیشہ ضرورت مندوں کی حاجت روائی میں لگے رہا کرتے تھے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی دولت رفاہ عام کے کاموں کے لیے تقریباً وقف تھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی خدمت خلق کے جذبہ سے اس طرح سرشار تھے کہ آپؓ کے در سے کوئی سوالی خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا، آپ کا معروف قول ہے کہ جنت اس شخص کی مشتاق رہتی ہے جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں مصروف رہتا ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہے کہ دنیا سماجی فلاح اور معاشرتی بہبود سے آشنا ہوئی، سوشل ویلفیئر Social welfare کا چرچا عام ہوا اور فلاحی مملکت کے قیام کا راستہ ہموار ہوا، اسلام میں خدمت خلق پر اس قدر زور اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ معاشرہ میں استحکام اور امن وامان کے قیام کو یقینی بناتا ہے، لہٰذا جو سماج یا ملک اس جذبہ سے جتنا محروم ہوگا وہاں اسی حساب سے جرائم کی زیادتی، معاشی عدم مساوات، قتل وغارت گری اور خود غرضی ونفس پرستی کا دور دورہ ہوگا۔
وہ چیزیں جونت نئے مسائل کو جنم دیتی ہیں ، ان میں جھوٹے اورمصنوعی دین ومذاہب سر فہرست ہیں ، جن کے پیشوا مذہب کے نام پر لوگوں کو اپنا غلام بناتے ہیں ، یہ اپنے فائدے کے لیے نت نئی رسمیں ایجاد کرتے ہیں اور ان کے ذریعہ لوگوں کا استحصال کرتے ہیں ، یہ لوگوں سے نہ صرف ان کے مال واسباب؛ بلکہ ان کی عزت وآبرو تک لوٹ لیتے ہیں اور یہ سب کچھ مذہب کے نام پر ، انھوں نے اپنے کھوٹے مذاہب کو افیون کی شکل دے دی ہے کہ اس کے زیر اثر آنے والا اپنے دھرم گروؤں کے آگے بلا چوں چرا سر تسلیم خم کر دیتا ہے، وہ صاحب علم ہو کر بھی نرے جاہل کی سی حرکت کرتا ہے اور عقل ودانائی رکھتے ہوئے بھی بے عقلی ونادانی کا مظاہرہ کرتا ہے، ان مصنوعی مذاہب نے لوگوں کو ذہنی وجسمانی طور پر اپنا غلام بنانے کے علاوہ ان کے درمیان نفرت وعداوت کی آگ بھڑکا رکھی ہے، انھوں نے انسانوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے او ر انھیں وہ ایک دوسرے سے متصادم رکھتے ہیں ؛ تاکہ لو گ صحیح صورت حال کا ادراک نہ کر پائیں ، ان دھوکہ باز مذہبی رہنماؤں کی غلامی کو اپنے لیے اعزاز وافتخار سمجھیں اور اسی میں مست رہیں ، اس نے بھی لوگوں کے مسائل میں کوئی کم اضافہ نہیں کیا ہے؛ اس لیے کہ اس کی وجہ سے لو گ باہم متصادم رہتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ امن وچین سے محروم ہیں ، ان کی توانائیاں اور صلاحیتیں منفی چیزوں میں ضائع ہوتی ہیں ، اسلام کا عالم انسانیت پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے باطل خداؤوں ، دھوکہ باز آقاؤوں سے انسان کو نجات دلوایا اور حقیقی خالق تک ان کی رہنمائی کی،جہاں سب برابر ہیں ، رنگ ونسل اور زبان وعلاقہ کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہے، سب ہی اللہ کے بندے ہیں اور سب ہی برابر ہیں ۔
معاشرہ میں عام طور پر زندگی کزارنے کے لیے لوگوں کو جن چیزوں کی شدید ضرورت پڑتی ہے وہ گنتی کی چند چیزیں ہیں جن میں قابل ذکر یہ ہیں : کھانا، کپڑا اور مکان۔
انسان کی ضرورتوں اور حاجتوں میں کھانے کا حصول سب سے اہم ہے، غریبوں ، مسکینوں ، مسافروں یہاں تک کہ طالب علموں کے لیے بھی کھانے کا حصول ایک بڑا مسئلہ ہے، اسلام نے انسان کی اس اہم اور بنیادی ضرورت کی مختلف طرح سے تکمیل کی ہے، سب سے پہلے تو اس نے ہر صاحب حیثیت اور مالدار کو اس بات پر اُبھارا اور مختلف طرح سے اس کی ترغیب دی کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلائیں اور اس عمل پر زبردست اجروثواب کا وعدہ کیا: فَکُلُوْا مِنْھَا وَاطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِیْرَ (الحج:۲۲) خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلائیں ۔ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَیَتِیْمًا وَأَسِیْرًا (الدھر:۸)’’ وہ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ‘‘۔
یہ اجر وثواب کا وعدہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اس پر قادر ہوں اور جو لوگ اس پر قدرت نہیں رکھتے ہوں تو ان کے لیے یہ حکم ہے کہ دوسروں کو اس کی ترغیب دیں اور اس کام کے لیے انھیں آمادہ کریں ، اس صورت میں وہ بھی اس کار خیر میں برابر شریک ہوں گے اورانھیں بھی اس پر اجر ملے گا؛ لیکن اس عمل کو ترک کر دینے کی صورت میں وہ عذاب کے مستحق ہوں گے، یہ اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے مالداروں کے اموال میں فقراء اور مساکین کا حصہ رکھا ہے، اگر وہ اس کی ادائیگی نہیں کریں گے اور غرباء بھوکے وننگے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے تو اللہ کی جانب سے اس پر ان کا سخت محاسبہ ہوگا:
إن اللّٰہ فرض للفقراء من أموال الأغنیاء قدر مایسعھم وإن منعوا ھم حتی یجوعوا أو یعروا حاسبھم اللّٰہ حسابًا شدیدًا (تاریخ بغداد: ۳۷۸)
خالق کائنات کی عظمت کا اعتراف اور خلق خدا پر شفقت ورحمت یہ اسلام کاوہ بنیادی پیغام ہے جسے نظر انداز کرنے کی نہ صرف مذمت کی گئی ہے؛ بلکہ اس کے لیے سخت عذاب کی وارننگ بھی دی گئی ہے۔
أَرَأَیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ O فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ O وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ (الماعون:۱-۳)
ترجمہ: تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزاو سزا کو جھٹلاتا ہے، وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔
وَلَا تَحَاضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ (فجر:۱۸)
ترجمہ: اور مسکینوں کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اُکساتے۔
انسان کی اہم اور بنیادی ضرورتوں میں کھانے کے بعد لباس کا نام آتا ہے، جس کی فراہمی کے لیے اسلام میں مختلف طریقے اختیار کیے گئے ہیں اور کھانے کے ساتھ ساتھ لباس کا باضابطہ ذکر کیا گیا ہے:
وَلاَ تُؤْتُوا السُّفَہَائَ أَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیَامًا وَارْزُقُوْہُمْ فِیْہَا وَاکْسُوْہُمْ وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا(النساء:۵)
ترجمہ: وہ مال جسے اللہ نے تمہارے لیے قیام حیات کا ذریعہ بنایا ہے نادان لوگوں کے سپرد نہ کرو؛ البتہ انھیں کھانے اور پہننے کی لیے دو۔
فَکَفَّارَتُہٗ إِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَہْلِیْکُمْ أَوْ کِسْوَتُہُمْ أَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ (المائدہ:۸۹)
ترجمہ: قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو اوسط درجہ کا کھانا کھلاؤ جو اپنے گھر میں کھانا کھلاتے ہو یا انہیں کپڑا پہناؤ۔
کھانے اور کپڑے کا معاملہ چونکہ کافی اہم ہے؛ اس لیے اسلام نے اس پر خاص طور پر زور دیاہے؛ تاکہ محروم افراد کے لیے ضروریات کی تکمیل کے لیے کو ئی نہ کوئی شکل نکل جائے اورمعاشرہ میں کوئی بھوکا ننگا نہ رہے، اس عام تعلیمات کے علاوہ اسلام نے سماج کے ایسے طبقوں کی جانب خاص طور پر توجہ دلائی ہے جو کسی طور پر اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل میں دشواری محسوس کرتے ہوں یا اس سے محروم ہوں ، ان طبقوں میں اہم درج ذیل ہیں :
یتیم:اسلام نے کھانا کھلانے کی جہاں بھی ترغیب دی ہے اس میں یتیم کا خاص طور پر ذکر کیا ہے، اسے ایک بڑا کار خیر قرار دیا گیا ہے اور اس پر زبردست اجرو ثواب کا وعدہ کیا ہے، اس کے علاوہ ان کے تحفظ، بہتر نشوونما ، اچھی تعلیم وتربیت اور ان پر خصوصی شفقت کا حکم دیا ہے؛ تاکہ باغ انسانیت کے یہ پھول مرجھانے نہ پائیں ، اگر وہ ایک مالی سے محروم ہوتے ہیں تو اس کی جگہ سیکڑوں مالی حرکت میں آئٗیں ، اور اس طرح سے دیکھ بھال کریں کہ اس کی خوشبوساری امت کے مشام جاں کو معطر کردے، تقریبََا بائیس آیتیں قرآن میں ایسی ہیں جن میں یتیم سے متعلق خصوصی تعلیمات دی گئی ہیں ۔
اس کے علاوہ کمزور ومعذوور، بیوہ، پڑوسی، مسافر اور ایسے مقروض جو اپنے قرض کی ادائیگی سے معذور ہوں ، قوم ان کی حاجت روائی اور خدمت کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہے، اورانھیں کبھی بھی بے یارو مددگار نہ چھوڑے، تعاون اور خدمت کے سلسلہ میں ہر شخص کے لیے یہ عمومی حکم موجود ہے کہ وہ اپنے عزیزو اقارب کی ہر طرح سے تعاون کرتے رہیں ، رشتہ داروں میں سب سے سر فہرست والدین ہیں ، اسی طرح اسلامی معاشرہ کا تانابانا اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ اگر اسے مسلم معاشرہ میں ٹھیک طور پر برتا جائے تو وہاں کوئی بھوکا پیاسا یا بغیر پرسان حال نہیں ہوگا، ہر ایک کی خبر گیری کی جانی یقینی ہے؛ لیکن اگر اتفاق سے کوئی بدنصیب ایسا ہو کہ اس تک مدد کا کوئی ہاتھ نہ پہنچ پائے تو یہ اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ حرکت میں آئے اور اس کی داد رسی کرے، خدمت خلق کا یہ اسلامی درس صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ؛ بلکہ اس میں غیر مسلم بھی شامل ہیں ؛ اس لیے کہ وہ بھی اللہ کی ہی مخلوق ہیں ، چاہے وہ اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں ؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الخلق عیال کلھم عیال اللہ وأحب خلقہ الیہ أنفعھم لعیالھم (طبرانی)
یہ ایک حقیقت ہے کہ عہد حاضر میں سماجی خدمات کی جانت کافی توجہ دی گئی ہے، اس کے لیے سوشیالوجی کے نام سے مستقل مضمون اسکول کالج میں متعارف کرایا گیا ہے، اوراس میں پی ایچ، ڈی کی سطح تک تعلیم دی جاتی ہے، اس کام کے لیے دنیا میں ہر جگہ ہزاروں این جی اوز قائم ہیں ، جنہوں نے سماجی خدمات کو ہی اپنا مشن بنایا ہوا ہے، عام طور پر یہ تأثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ خالص مغربی دریافت ہے؛ چنانچہ اس سلسلہ میں ان کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کار خیر کا آغاز برطانیہ کے بادشاہ ہنریHenry کے اس حکم سے ہوا جو اس نے ۱۵۳۱ءمیں غرباء کی جانچ پڑتال اور ان کی مدد سے متعلق دیا تھا؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اس سے صدیوں پہلے کسی شخصی امر کے ذریعہ نہیں بلکہ اس دین کے ذریعہ ہوا ہے جسے اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے، اس میں خدمت خلق کوئی اضافی یا اخلاقی امر نہیں ؛ بلکہ اس کے لیے وہ روح کا درجہ رکھتی ہے؛ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس دین کو قیامت تک کے لیے چن لیا ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ وہ نفع بخش چیزوں کو ہی قرار ودوام عطا کرتا ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کچھ بھی ہو کہ: وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِي الْأَرْضِ (الرعد: ۱۷) لوگوں کو جو چیزیں فائدہ پہنچاتی ہیں ان کو ہی زمین پر قرار عطاہوتاہے۔
آج مغرب کو ان کی سرکشی اور ضلالت وگمراہی کے باوجودجو حیران کن ترقیاں ، آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا عروج اور ناقابل تسخیر قوت وشوکت عطا ہوئی ہے، اس کے پس پردہ ان کی نفع رسانی کی صفت بھی ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج زندگی کا کوئی گوشہ اور کائنات کا کوئی چپا ایسا نہیں ہے جہاں انھوں نے اپنی نفع رسانی کی مہر ثبت نہ کی ہو، دنیا کو پتھر کے دور سے خلائی دور تک پہنچانے میں ان کا بلا شبہ بہت بڑا حصہ ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عہد حاضر میں مادیت کے طوفان اور خود غرضی کے عفریت نے اس طرح انسان کو جکڑ لیا ہے کہ وہ انسان ہو کر بھی انسانیت سے عاری ہے، ایسے ماحول میں مغرب نے آگے بڑھ کر انسانیت کی خدمت کا بیڑا اٹھایا، مجبور و معذور اور بے کس وبے سہارا کو تعاون کی بیساکھی فراہم کی، مظلوم ومقہور اور بے در و بے گھر افراد کے آنسو پوچھنے کے جتن کیے اور کر رہے ہیں ؛ لیکن ان کا یہ کام صرف انسانیت کی خدمت کے لیے نہیں جو کہ اسلام کا خاصہ ہے؛ بلکہ اکثر وبیشتر ان کے بہت سے خفیہ ایجنڈے بھی ہوتے ہیں جنھیں وہ اس کے در پردہ انجام دیتے ہیں ؛ چنانچہ اس وقت مغربی این جی اوز جن ممالک میں بھی انسانی خدمات کا شوروم کھولے بیٹھے ہوئے ہیں ، خواہ وہ پناہ گزینوں کے لیے کیمپ کا انتظام ہو یا پھر غریبوں کے لیے ہاسپیٹل اور اسکول وکالج کا قیام اس کی آڑ میں عیسائیت کی تبلیغ، ملکوں کی جاسوسی اور مختلف طرح کے فتنوں کی نت نئی کاشت ان کا محبوب مشغلہ ہے، لہٰذا یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانیت کی حقیقی اور بے لوث خدمت صرف اسلام کا حصہ ہے۔
——————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 1، جلد:103، ربیع الثانی – جمادی الاول 1440ھ جنوری 2019ء
٭ ٭ ٭