از: مولانا توحید عالم قاسمی بجنوری
استاذ دارالعلوم دیوبند
خلاصۂ کائنات، فخرِموجودات، باعثِ کُن فکان، محبوبِ ربِ دوجہاں، سید ِ انس وجن، سرورِ کونین، تاجدارِ عرب وعجم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درس گاہ کے بلاواسطہ اور براہِ راست شاگرد، مسجدِ نبوی کے تربیت یافتہ، وحی ربانی قرآن مقدس کے اولین مخاطب حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت وہ مقدس وپاکیزہ جماعت ہے جو اپنی بے شمار اور اَن گنت خصوصیات اور فضائل ومناقب میں تمام سابقہ ولاحقہ اقوام واُمم میں بے نظیر اور فقید المثال ہے نہ اولین میں اس برگزیدہ طبقہ کی نظیر ومثال ہے اور نہ آخرین میں کوئی قوم وامت اس جماعت کے ہم رُتبہ ہوسکتی ہے، یہی وہ طبقہ ہے جو زمانۂ جاہلیت (قبل ایمان) میں اگرچہ معاصی اور گناہوں میں مبتلا تھے؛ لیکن ایمان قبول کرنے اور ہدایت خداوندی سے مستفیض ہونے کے بعد رحمان ورحیم اور پروردگارِ عالم سے اتنے قریب ہوگئے کہ مردود شیطان دیکھتے ہی دُم دباکر بھاگ جاتا تھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا وہ مقدس گروہ قرآن وسنت، مذہب وشریعت اور تہذیب وتمدن کا رنگ قبول کرنے والا اور اپنی تمام تر سابقہ بے ڈھنگی روش اور طورطریقوں کو یکسر چھوڑ کر رحمانی زندگی اور سیرتِ نبوی کی ایسی جیتی جاگتی تصویر بن گیا کہ کہنے والا کہنے پر مجبور ہوگیا کہ
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا
اور خود کائنات کا پالن ہار ان کی تعریف وتوصیف بیان کرتا ہے، دنیاوی زندگی اور حیاتِ فانی ہی میں اپنی رضامندی اوران کی مغفرت کا اعلان کرتا ہے۔ اپنے خاص مقامِ رحمت جنت کی بشارت وخوش خبری سُناتا ہے، رشاد باری ہے: رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہٗ(۱) اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہوگیا اور وہ اللہ سے، دوسرے مقام پر ان کے ہدایت یافتہ اور بامراد ہونے کو یوں بیان فرماتا ہے، اؤلٰئِکَ عَلٰی ہُدًی مِنْ رَّبِّہِمْ وَأوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۲) ایک موقع پر حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایمان کی قبولیت کواور پھر ان کے ایمان کو معیار اور کسوٹی کا درجہ دیتے ہوئے ارشاد ہے: اٰمِنُوْا کَمَا اٰمَنَ النَّاس(۳) ایمان قبول کرو جیساکہ لوگوں نے ایمان قبول کیا، اور کبھی حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے باہمی ربط وتعلق اور محبت والفت کا نقشہ کھینچتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ(۴) وہ باہم نہایت مہربان اور شفقت کرنے والے ہیں۔ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے قلوب تقوی وطہارت میں نہایت مزکّٰی ومصفّٰی تھے، اسی کو قرآن یوں بیان کرتا ہے: أوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۵) وہی ہیں جن کے دلوں کو جانچ لیا ہے اللہ نے ادب کے واسطے۔ ان کے لیے معافی ہے اور ثواب بڑا اور دشمنانِ اسلام اور کفار ومشرکین کے مقابلے میں ان کی مضبوطی اور طاقت کو قرآن کریم ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ أشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ(۶) زور آور ہیں کافروں پر۔ معصیت وگناہ سے اس گروہ کی نفرت وکراہت کو کلام پاک ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُؤلٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوْنَ(۷) اور نفرت ڈال دی تمہارے دل میں کفر اور گناہ اور نافرمانی کی وہ لوگ وہی ہیں نیک راہ پر۔
اور شارحِ قرآن کریم، مبینِ مُرادِ خداوندی، مہبط وحی حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے بھی صادق ومصدوق ارشادات اور فرمودات میں حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب اور ان ذواتِ قدسی صفات کی تعریف وتوصیف خوب خوب بیان فرمائی ہے۔ خلیفۂ ثانی فاروقِ اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أکرموا أصحابي فإنہم خیارکم ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم الخ(۸) میرے صحابہؓ کا اعزاز واکرام کرو کیوںکہ وہ تم سے بہتر ہیں پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعد والے۔ دوسری روایت حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے۔ عَنْ جَابِرٍؓ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا تَمْسَ النَّارُ مُسْلِماً راٰنِي أو رأی من راٰنِی(۹) آگ اس شخص کو نہ چھوپائے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے صحابی کو دیکھا ہوگا۔ ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے: عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا رأیتم الَّذِیْنَ یَسُبُّوْنَ أصْحَابِیْ فَقُوْلُوْا: لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی شَرِّکُمْ(۱۰) جب ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے ساتھیوں کو برا بھلا کہہ رہے ہوں تو یوں کہوکہ اللہ کی لعنت تمہارے شرپر۔ اسی طرح ایک روایت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تسبوا اَصْحَابِی فَلَوْ أنَّ أحَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ أحُدٍ ذَہَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أحَدِہِمْ وَلاَ نَصِیْفَہٗ(۱۱) تم لوگ میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو! کیوںکہ (وہ تم سے بہت افضل ہیں) اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا راہِ خدا میں خرچ کرے گا تب بھی وہ ان کے ایک مُد یا نصف مُد کو نہیں پہنچ پائے گا۔ ایک روایت حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ عَن عمران بن حصین قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: خَیْرُ اُمَّتِی قَرْنِی ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ الخ(۱۲) میری امت میں سب سے بہتر لوگ میرے زمانے کے لوگ پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعد والے۔
قارئین گرامی قدر! قرآن وسنت سے ثابت ان تمام فضائل ومناقب اور خصوصیات کے باوجود دشمنانِ خدا اسلام اور مسلمانوں سے حسد رکھنے والے بالخصوص یہود ونصاریٰ کو جب اسلام کی ہمہ جہت ترقی اور اہلِ اسلام کا عروج ہضم نہ ہوسکا اور ان شیطان کے چیلوں، خدائی دشمنوں کو سوفی صد یقین تھا کہ اسلام کی صداقت وحقانیت، عالم گیر حیثیت اور غلبہ کے سامنے باطل کے لیے ٹھہرنا ممکن نہیں ہے؛ لہٰذا مذہبِ اسلام اور مسلمانوں میں کم زوری اور ضعف پیداکرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ان میں افتراق وتشتت پیدا کرنا، ان میں غلط فہمیاں پیدا کرکے خلفشار وانتشار پیدا کرنا؛ لہٰذا یہودی شاطروں نے مسلمانوں میں تفرقہ اندازی کرکے اپنے شیطانی مشن میں کامیابی حاصل کی اور اپنی مسلسل ناکامیوں اور شکستوں کا بدلہ بھی لے لیا کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حق تلفیوں، مظلومیت اور محرومیوں کی جھوٹی سچی داستانیں سنا سنا کر مسلمانوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کیے، مزید کام منافقین نے جھوٹے پروپیگنڈے کا وہ چکر چلایا کہ سادہ دل مسلمان بھی ان کے جال میں پھنس گئے یہیں سے افتراق وانتشار کے دہانے کھل گئے۔
چنانچہ مسلمانوں میں فرقے بننے لگے کوئی فرقہ محبتِ آلِ بیت میں غلو کا مرتکب ہے تو کوئی حضراتِ صحابہ پر زبانِ لعن وطعن دراز کرتا نظر آتا ہے، کوئی حضرات شیخین ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو غاصب خلافت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلا فصل گردانتا ہے کوئی دوسرا حضرت علی کو خارج از اسلام قرار دیتا ہے، اسی طرح ان کے باہمی مشاجرات اور اختلافات کے حوالے سے بھی بہت سے حضرات افراط وتفریط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حقانیت کو بیان کرتے کرتے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص وتوہین پر اترآتا ہے العیاذ باللہ، تو مدمقابل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی براء ت کرتے کرتے یزید بن معاویہ کو صحابہ پر فضیلت دیتا نظر آتا ہے۔ العیاذ باللہ۔ وغیرہ وغیرہ جب کہ خود حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم تمام کے تمام حسنِ سلوک، باہمی تعاون، خانگی مراسم، نسبی تعلقات اور امور خلافت میں بھرپور ایک دوسرے کے معاون ومددگار تھے۔
لہٰذا مذہب اسلام اور قرآن وسنت کے ماننے والوں کو اس حوالے سے قرآن وسنت ہی کو بڑی مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے کہ جو داستانیں اور موضوع روایات قرآن وسنت کے خلاف یا معارض سامنے آئیں ان کو رد کرنا چاہیے اور جو روایات اور واقعات قرآن وسنت کے موافق ہوں ان کو لینا چاہیے، قرآن وسنت سے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے جو اوصاف ثابت ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں: (۱) حضراتِ صحابہؓ معصوم تو نہیں ہیں؛ لیکن محفوظ ضرور ہیں، (۲) حضرات صحابہؓ خوفِ خدا اورتقوے والے تھے، (۳) حضرات صحابہؓ قرآن وسنت کو مضبوطی سے تھامنے والے تھے، (۴) حضراتِ صحابہؓ دینی ودنیاوی امور میں امانت دار تھے، خیانت کا تصور بھی گناہ سمجھتے تھے، (۵) حضراتِ صحابہؓ باہم شیروشکر رحماء بینہم کی واضح تصویر تھے، (۶) دنیاوی نفع ونقصان سے قطعِ نظر عدل وانصاف کے خوگر تھے، (۷) حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل واولاد سے حددرجہ محبت والفت کو فلاحِ دارین تصور کرتے تھے، (۷) جان ومال کی پرواہ کیے بغیر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کو اپنا فرضِ منصبی اورنصب العین سمجھتے تھے، (۸) حضرات صحابہؓ کے درمیان آراء کا اختلاف اجتہادی شان وحیثیت کا تھا مخالفت وعداوت کی رسائی ان کے قلوب تک نہ تھی، (۹) حضراتِ صحابہؓ بالاتفاق خلافت کی تقسیم من جانب اللہ تسلیم کرتے تھے۔ اس میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا، (۱۰) حضراتِ صحابہؓ معیار حق تھے۔
محترم قارئین! حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مذکور بالا اوصاف قرآن وسنت سے ثابت ہیں، صراحتاً یادلالۃً۔ قرآن وسنت کا علم رکھنے والا کوئی شخص ان کا انکار نہیں کرسکتا؛ لہٰذا جب بھی جو روایات یا واقعات ان ارواحِ مقدسہ کے حوالے سے سامنے آئیں اگر وہ درج بالا اوصاف سے ہم آہنگ ہوںگی تو تسلیم کی جائیںگی اوراگر ان اوصاف سے متصادم اورمخالف ہوںگی تو وہ دشمنوں کی شاطرانہ چال اور دجل وفریب کا شاخسانہ ہوںگی، پس ان سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شہادتیں ان برگزیدہ شخصیات کے لیے دی ہیں وہ کسی صورت بھی جھوٹی نہیں ہوسکتیں؛ بلکہ یقینا ان مقابل آنے والے واقعات اور روایات ہی من گھڑت اور جھوٹی ہوںگی۔ خود محبوب کبریا حضرت نبی دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا احساس کرتے ہوئے فرمایاتھا: عن أبی ہریرۃؓ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ قال: سَیَاتَیْکُمْ عَنِّی أحَادِیْثُ مُخْتَلِفَۃٌ فَمَا جَائَکُمْ مُوَافِقًا لِکِتَابِ اللّٰہِ وَسُنَّتِی فَہُوَ مِنِّی وَمَا جَائَکُمْ مُخَالِفًا لِکِتَابِ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی(۱۳) عنقریب تمہارے پاس میری جانب منسوب شدہ مختلف روایات پہنچیں گی جو کتاب اللہ اور میری سنت (مشہورہ) کے موافق اور مطابق ہوں تو وہ درست ہوںگی اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے معارض ہوںگی تو وہ صحیح نہیں ہوںگی۔
اسی اصل کو خلیفہ رابع حضرت شیرخدا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے بھی بیان فرمایا ہے۔ عَن أبی الطُّفَیْلِؓ عَنْ عَلِيٍ رَصِیَ اللّٰہ عَنْہُ قَالَ: حَدِّثُوْا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ وَدَعَوْا مَا یُنْکِرُونَ اَتُحِبُّوْنَ أنْ یُّکَذَّبَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ(۱۴) معروف مشہور چیزیں بیان کرو اور منکر یعنی مشہور ومعروف کے خلاف عوام میں ذکر نہ کرو! کیا تمہیں پسند ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے۔
امام ذہبیؒ مذکورہ اصول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: فَقَدْ زَجَرَ الْاِمَامُ عَليٌّ رَضِی اللّٰہ عَنْہُ عَنْ روَایَۃِ الْمُنْکَرِ وَحَثَّ عَلَی التَّحْدِیْثِ بِالْمَشْہُوْرِ وَہٰذَا أصْلٌ کَبِیْرٌ فِي الْکَفِّ عَنْ بَثِّ الْأَشْیَائِ الوَاہِیَۃِ وَالْمُنْکَرَۃِ مِنَ الْأحَادِیْثِ فِي الْفَضَائِلِ وَالْعَقَائِدِ وَالرَّقَائِقِ(۱۵)۔
ہمارے امام ومقتدی علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ہمیں شاذ ومنکر روایات کے بیان کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے اور مشہور ومعروف چیزوں کے بیان کرنے میں رغبت دلائی ہے اور بے سروپا اور بے اصل روایات کے پھیلانے اور تشہیر کرنے سے روکنے کے لیے یہ ایک اہم اصول ہے یہ روایات خواہ عقائد سے تعلق رکھتی ہوں یا فضائل وترغیبات سے متعلق ہوں۔
٭ ٭ ٭
حواشی
(۱) سورۃ البینہ/۸۔ (۲) سورۃ البقرہ/۵۔
(۳) سورۃ البقرہ/۱۲۔ (۴) سورۃ الفتح/۲۹۔
(۵) سورۃ الحجرات/۵۔ (۶) سورۃ الفتح/۲۹۔
(۷) سورۃ الحجرات/۷۔ (۸) سنن نسائی بحوالہ مشکاۃ المصابیح/۵۵۴۔
(۹) سنن ترمذی بحوالہ مشکاۃ المصابیح/۵۵۴۔ (۱۰) سنن ترمذی بحوالہ مشکاۃ المصابیح/۵۵۴۔
(۱۱) متفق علیہ بحوالہ مشکاۃ المصابیح/۵۵۳۔ (۱۲) متفق علیہ بحوالہ مشکاۃ المصابیح/۵۵۳۔
(۱۳) الکفایہ في علم الروایۃ للبغدادی/۴۳۰۔ (۱۴) تذکرۃ الحفاظ للذہبی، ج۱، ص:۱۲۔
(۱۵) تذکرۃ الحفاظ للذہبی، ج۱، ص:۱۲۔
———————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 12-11، جلد:102، صفر المظفر –ربيع الثانی 1440ھ مطابق نومبر –دسمبر2018 ء
۞ ۞ ۞