(۱)

نام کتاب :           الدروس النحویہ مع التمرین للمدارس الإسلامیہ

تالیف    :           جناب مولانا محمد علی بجنوری قاسمی، استاذ دارالعلوم دیوبند

تعریب   :           جناب مولانا محمد ناظم بجنوری قاسمی، استاذ دارالعلوم دیوبند

صفحات   :           ۱۱۲،قیمت: (درج نہیں)

ناشر       :           دارۃ الصدیق دیوبند

تعارف   :           مولانااشتیاق احمد قاسمی، مدرس دارالعلوم دیوبند

====================

            عرب کہتے ہیں :  ’’النحو في الکلام کالملح في الطعام‘‘  اس کا مطلب ہے: علم نحو کی حیثیت عربی زبان میں ایسی ہے جیسی نمک کی حیثیت کھانے میںہوتی ہے، کھانا نمک کے بغیر کھایا نہیں جاتا اسی طرح عربی زبان نحوی اصول وضوابط کی رعایت کے بغیر بولی نہیں جاسکتی، جس طرح کھانے کے ہر جز میں نمک داخل ہوتا ہے اور اپنا اثر چھوڑے ہوے ہوتاہے؛ اسی طرح نحوی قواعد ہر لفظ میں نفوذ کیے ہوے ہوتے ہیں؛ لیکن نمک کی مقدار کی طرح نفوذ آخری حرف تک ہی محدود رہتا ہے، علم نحو علم صرف کی بہ نسبت وسعت رکھتا ہے، اس کی اصطلاحات بھی زیادہ ہیں، فلسفیانہ بحثیں بال کی کھال نکالنے جیسی ہیں، طلبہ کے لیے نحوی بحثوں پر قدرت حاصل کرنا دشوار ہوتا ہے، اس دشواری کو ہرزمانے میں ماہرین نے محسوس کیا اور اس کا حل پیش کیا ہے، حضرت مولانا محمد علی بجنوری زیدمجدہ اس میدان کے معروف شہسوار ہیں، متعدد کتابیں لکھ کر اور دارالعلوم میں معین المدرسین کو تربیت دے کر انھوں نے اپنا ایک مقام بنایا اور اپنی شخصیت کو متعارف کرایا ہے، نحو وصرف کی تدریس کی تربیت کے پروگراموں میں بلائے جاتے ہیں، افریقہ وغیرہ کے شائقین نے اردو نہ جاننے کی وجہ سے عربی ترجمہ کی خواہش کی، اسی کی تکمیل کے لیے ’’الدروس النحویہ‘‘ کا عربی ترجمہ وجود میں آیا، کتاب میںاصطلاحات کی نہایت جامع تعریف لکھی گئی ہے، تمرینات کے ذریعے قواعد کے استحضار کی تدبیریں کی گئی ہیں، مترجم زید علمہ موصوف کے شاگرد رشید ہیں انھوں نے دائرئہ افادیت بڑھانے کے لیے عناوین اور حواشی کا اضافہ کیا ہے، ’’اسمائے عدد‘‘ کی بحث اصل کتاب میں نہیں تھی اس کو بھی بڑھایا ہے، اخیر میں مآخذ ومراجع کی فہرست دی ہے، اس میں درج چھبیس کتابوں اور ’’فٹ نوٹ‘‘ میں اس کے حوالہ جات کو دیکھ قاری کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔

            راقم حروف کی نگاہ میں مؤلف ومترجم کی محنت قابل قدر اور لائق تحسین ہے، طباعت کا معیار اچھا ہے؛ البتہ خط باریک رکھا گیا ہے، اگر اگلے ایڈیشن میں قدرے جلی کردیا جائے تو پڑھنے والوں کو زیادہ سہولت ہو۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی خدمت کو قبولیت سے نوازیں! وباللہ التوفیق۔

====================

(۲)

نام کتاب :           تذکرہ حضرت آہؔ مظفرپوری مع کلیاتِ آہ

تالیف    :           مولانا مفتی اخترامام عادل قاسمی

بانی و مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف سمستی پور (بہار)

ناشر       :           مفتی ظفیرالدین اکیڈمی جامعہ ربانی منوروا شریف

صفحات   :           ۷۲۴،    قیمت     :   پانچ سو روپے

سن اشاعت:         ۲۰۱۸ء/۱۴۳۹ھ

تعارف   :           مولانااشتیاق احمد قاسمی، مدرس دارالعلوم دیوبند

====================

            حضرت مولانا عبدالشکور آہؔ مظفرپوری (۱۸۸۱ء تا ۱۹۴۶ء) دارالعلوم دیوبند کے اس مایہ ناز فرزند کا نام ہے، جس کو حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندیؒ سے شرفِ تلمذ حاصل ہے، بدعات سے مسموم کان پور کی فضا میں جس نے اپنے استاذ محترم کے ذریعے دیوبندیت کی دھاک بٹھائی، جس کو معقولات کے ساتھ منقولات میں اپنے معاصرین میںامتیاز حاصل تھا، جامع العلوم مظفرپور، دارالعلوم مئو اور شمس الہدیٰ پٹنہ میں منطق وفلسفہ کے ساتھ فقہ وحدیث کی کتابوں کا مثالی درس دیا، علمی کمالات کے ساتھ ادب و انشاء میں امتیاز، کمال اور برتری بہت کم علماء کے حصے میں آتی ہیں، موصوف اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں میں شستہ اور شگفتہ انداز میں لکھتے تھے، شاعری میں زبان وبیان کے ساتھ فکر وفلسفہ کی باریکی، پاکیزگی، ندرت، دل کشی، حکمت آفرینی اور وارفتگی وشیفتگی خوب ملتی ہے، معرفتِ الٰہی، مفراقبۂ محبوب اور وصل وفصل کے رموز بڑی کامیابی سے بیان فرماتے ہیں- شاعری میں کہیں غالبؔ کی رعنائی کے ساتھ ایہام وابہام دکھائی دیتا ہے؛ تو کہیں میرؔ کا سُرود؛ کہیں اقبالؔ کا آہنگ اور کہیںجگرؔ کا نغمہ سنائی دیتا ہے۔ معرفتِ الٰہی میں حیرانی، مراقبۂ ذات، آہ سحرگاہی اور وصل کی تڑپ کی تعبیر کس طرح کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیے!

گردش میں آفتاب بھی ہے ماہ تاب بھی

منزل کا تیری ملتا کسی کو نشاں نہیں

کس دن ترا خیال ہمیں جانِ جاں نہیں

گزری وہ کون رات کہ آہ وفغاں نہیں

===============

کعبے میں تم ملے، نہ کلیسا میں تم ملے        ٭        روزِ ’’الست‘‘ سے تمہیں ڈھونڈا کہاں نہیں

===============

تم سراپا ناز ہو، ہم ہیں سراپا آروز          ٭        کشمکش ہے کس طرح سے وصل، آخر کار ہو

===============

آیا خیال جب کبھی تصویر یار کا               ٭        ایسے خموش ہم ہوے گویا زباں نہیں

امید وصل میں مایوسی کے بعد کی کیفیت کی تعبیر دیکھیے!

امید وصل نے کیسی دکھائی آہؔ مایوسی     ٭        کہ ہم پینے کوہردم ساغرِ زہرآب رہتے ہیں

سہلِ ممتنع کی مثال ملاحظہ کریں:

ہم سے ملنے میں وہ بہانہ کریں   ٭        عذر اغیار سے ذرا نہ کریں

میں ہوں بیمار چشمِ نرگس کا       ٭        دوست میرے، مری دوا نہ کریں

ہے تواضع یہی، یہی تسلیم        ٭        سر کو سجدہ سے ہم جدا نہ کریں

درد وغم کو میرؔ کی طرح بڑے عمدہ انداز میں بیان کرتے ہیں:

کسی کو کیا خبر دردِ جگر کی         ٭        تڑپ کر آہؔ ہم نے شب بسر کی

===============

ناصح نہ پوچھ مجھ سے میرے رنج ویاس کو ٭        خاطر جو ہو ملول تو ممکن بیان نہیں

===============

اپنی اسلامی شاعری کی پاکیزگی اور بلندی کو بیان کرتے ہوئے، کہتے ہیں:

فیض روح القدس سے، اے آہؔ میں ہوں مستفیض   ٭        میری نظمیں کاشفِ اسرار قرآں ہوگئیں

            موصوف کی شاعری کے یہ چند نمونے ہیں، پوری کلیات معنویات سے لبریز اشعار کی ستاویز ہے، عربی اور فارسی زبان میں بھی نظمیں اور قصیدے ملتے ہیں۔ اصناف کے لحاظ سے مفتی اخترامام عادل قاسمی زیدمجدہٗ نے مرتب فرمایا ہے،اس میں قصیدہ، نظم، غزل، مرثیہ، رباعی اور قطعات ہیں، تاریخی قطعات بھی نظر آئے، قصائد میں جہاں طربیہ اور نشاطیہ اسلوب ہے، وہیں مراثی میں غم ناکی بھی بے پناہ ہے، حضرت آہؔ نے اپنی شاعری کو دیوان کے انداز میں حروفِ تہجی پر مرتب فرمایاتھا؛ مگر دس بارہ حروف پر اشعار نہیں تھے؛ اس لیے مرتب نے صنفی ترتیب کو مناسب سمجھا، ترتیب نہایت عمدہ ہے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حضرت آہؔ کی سوانح مرتب ہوئی، گویا ان کو دوبارہ زندگی مل گئی، اگر یہ سوانح اور کلیات مرتب نہ ہوتیں تو موصوف کو ہم سب جان نہیں سکتے تھے، قارئین کو نام میں لفظ ’’تذکرہ‘‘ سے دھوکہ نہ ہو، یہاں تذکرہ کے اصطلاحی مراد نہیں؛ بلکہ ’’سوانح‘‘ کے معنی میں ہے۔ محقق مرتب نے مجموعے میں صوبۂ بہار کی علمی، ادبی اور فنی تاریخ بھی شامل فرمائی ہے، مفید حواشی بھی لکھے ہیںجن سے کلیات کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور درآئی شخصیات، مقامات اور مبہمات سے قاری متعارف ہوجاتاہے، موصوف کی محنت قابلِ داد اور لائق ستائش ہے، رسم الخط باریک ہے اگر قدرے جلی ہوتا تو بہتر تھا اور بعض جگہ پُروف ریڈنگ کی غلطیاں رہ گئی ہیں، مثلاً ’’بوچڑ خانہ‘‘ (ص۱۲۶) کا املا غلط ہے، ’’ڑ‘‘ کی بجائے ’’ر‘‘ ہے، ایک جگہ ’’کاکوں‘‘ کو ’’کالوں‘‘ (ص۶۲۲) لکھا ہے وغیرہ اگر اگلی اشاعت میں اس پر توجہ دیں تو بہتر رہے گا۔

            بہرکیف! کتاب بڑی عمدہ اور مفیدہے، محنت سے لکھی گئی ہے، کلاسیکی ادب میں اس کے مقام ومرتبہ سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا، اللہ کرے موصوف کی کاوش شرفِ قبول حاصل کرے!

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 12-11،  جلد:102‏،  صفر المظفر –ربيع الثانی 1440ھ مطابق نومبر –دسمبر2018 ء

۞     ۞     ۞

Related Posts