علماء وطلباء سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی باتیں

از:  مولانا مفتی سمیع الرحمن                          

استاذ  ورفیق شعبۂ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

عالم عرب کے معروف عالم دین صالح احمد شامی نے ملفوظاتِ صحابۂ کرام کا ایک مجموعہ ’’مواعظ الصحابہ‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس مجموعے میں سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے منتخب ملفوظات ترجمہ وتشریح کے ساتھ پیش خدمت ہیں، جن کا تعلق براہ راست طلبا اور علماء کرام کے طبقے سے ہے۔

طلباء کی صفات

            حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب نوجوانوں کو طلب علم میں مشغول دیکھتے تو خوش ہو کر فرماتے:

مرحباً بینابیع الحکمۃ، ومصابیح الظلم، خلقان الثیاب، جدد القلوب، حبس البیوت، ریحان کل قبیلۃ۔

            اے حکمت ودانش کے چشمو! جہالت کے اندھیروں میں علم کے روشن چراغو! حصول علم کی کوششیں تمہیں مبارک ہوں، تمہارا لباس بوسیدہ؛ لیکن دل تروتازہ رہتا ہے۔ بے مقصد گھومنے پھرنے کے بجائے اپنی اقامت گاہوں تک محدود رہتے ہو، تم ہر قبیلے کے پھول ہو۔

            فوائد: (۱) طلباء کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ اپنے رویوں سے انھیں دل برداشتہ کرنے کی بجائے ان کی نادانی پر صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے۔ مولانا فضل امام خیر آبادی ۱۲۴۲ھ / ۱۸۲۴ء ہندوستان کے معروف عالم گزرے ہیں۔ ان کے صاحبزادے فضل حق کا ایک واقعہ معروف ہے۔ ان کے پاس بڑی عمر کا ایک پٹھان طالب علم پڑھتا تھا، جو غبی اور کندذہن تھا۔ مولانا کا عنفوان شباب تھا، تحمل اور بردباری کی کمی تھی۔ ایک دن پڑھاتے پڑھاتے تنگ آ کر غصے میں کتاب اس کے سر پر دے ماری، وہ منہ بسورتا ہوا ان کے والد مولانا فضل امام کے پاس گیا اور شکایت کی۔ وہ سیدھے درس گاہ میں آئے اور بیٹے کے سر پر اس زور سے تھپڑ رسید کیا کہ دستار فضیلت دور جا گری اور غصے میں فرمایا:

            ’’تو تمام عمر بسم اللہ کے گنبد میں رہا، نازونعم میں پرورش پائی، جس کے سامنے کتاب رکھ دی، اس نے خاطر داری سے پڑھایا۔  طالب علم کی قدر تو کیا جانے؟ اگر مسافرت اختیار کرتا، بھیک مانگتا، مسجدوں میں قیام کرتا اورطالب علم بنتا تو تجھ کو حقیقت معلوم ہوتی، طالب علم کی قدر ہم سے پوچھو‘‘۔ (مثالی اساتذہ، مثالی طلباء، ص: ۴۱)

            اس مادی دور میں مستقبل کے سہانے خوابوں کو فراموش کر کے دور دراز کے علاقوں، دشوار گزار راستوں کے سفر کی مشقتیں اٹھا کر کسمپرسی کے عالم میں علومِ نبوت کو اپنے سینے سے لگانے والے مہمانانِ رسول کی عزت افزائی اور ان کے علمی افادے کو اپنا شرف سمجھنا چاہیے۔

            (۲) طلباء دین کو اپنی ظاہری شکل وصورت کی تزئین میں منہمک ہونے کی بجائے دل کی دنیا کو باطنی گندگی (تکبر، بغض، حسد، خود پسندی، قومی، لسانی، علاقائی تعصب اور عشق مجازی) سے پاک کرنے اور اخلاقِ حسنہ، تواضع، عاجزی، ادب، اخوت، ایثار سے سنوارنے کی کوششوں میں لگے رہنا چاہیے۔

            (۳) بے مقصد گھومنے پھرنے اور تفریح میں پڑنے کے بجائے طالب علم کو اپنی فکر ونظر اور چلت پھرت کا محور محض ’’علم‘‘ کو بنانا چاہیے۔

حصول علم کا مقصد

            حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

            ’’تعلموا العلم، فإذا علمتم فاعملوا۔ وقال: ویل لمن لا یعلم ولو شاء اﷲ لعلمہ، وویل لمن یعلم ثم لایعمل سبع مرات‘‘۔

            علم دین حاصل کرو۔ جب حاصل کر لو تو اس پر عمل بھی کرو۔ پھر فرمایا: جاہل کے لیے ایک ہلاکت ہے اگر وہ جاہل ہی رہے اور اللہ چاہے تو اسے علم دے کر اس ہلاکت سے نکال بھی سکتا ہے؛ مگر جو شخص علم رکھنے کے باوجود عمل نہ کرے اس کے لیے سات مرتبہ ہلاکت ہے۔

            فائدہ: سات کا عدد محض کثرت کے لیے بھی بولا جاتا ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اس کے لیے ہلاکتیں ہی ہلاکتیں ہیں، کیونکہ بے عمل ہر لمحے رحمت الٰہی سے دور ہوتا جاتا ہے، لہٰذا مقصد علم، عمل ہونا چاہیے۔ علم برائے علم، یا علم برائے اسناد اور اسناد برائے ذریعۂ معاش اس دور کا بہت بڑا فتنہ ہے۔ تصحیح نیت کے ساتھ تبعاً ان امور سے واسطہ پڑے تو کوئی حرج نہیں۔

علم سیکھنے سے آتا ہے

            حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

            ’’إن الرجل لا یولد عالما وإن العلم بالتعلم‘‘۔ (العقد الفرید: ۲/۷۳)

            انسان ماں کے پیٹ سے عالم بن کر پیدا نہیں ہوتا، علم تو سیکھنے سے آتا ہے۔

            فائدہ: علم کسی صاحب فضل وعلم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے سے آتا ہے، کسی کی راہنمائی کے بغیر علمی مدارج طے کرنے کے خواب دیکھنا احمقوں کا کام ہے۔ بعض اوقات طالب علم کی خود پسندی اور اس کا مصنوعی وقار اس کے تحصیل علم میں آڑ بن جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات علمی خانوادوں کے چشم وچراغ ’’پدرم عالم بود‘‘ کے زعم میں مبتلا ہو کر علم وفضل سے محروم رہ جاتے ہیں۔ علمی استفادے کی لذت اس وقت تک حاصل نہیں کی جاسکتی جب تک طالب علم اپنا مصنوعی وقار اور خودپسندی کا لبا س اتار نہ دے اور اصحاب علم سے استفادے میں کسی قسم کی جھجھک محسوس نہ کرے۔

علم بھولنے کی وجہ

            حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

            ’’إني لأحسب الرجل ینسیٰ العلم کان یعلمہ لخطیئۃ یعملھا‘‘۔

            جو شخص علم دین کی کوئی چیز جاننے کے بعد بھول جائے، میرے خیال میں یہ اس کے کسی گناہ کا اثر ہے جو اس سے صادر ہوا ہے۔

            فائدہ: بھول پن کے کئی مادی اسباب بھی ہوسکتے ہیں، جو انسان کو مختلف احوال میں لاحق ہوتے رہتے ہیں، لیکن اگر انسان کو دنیاوی دھندے تو نہ بھولنے پائیں؛ مگر علم دین کے وہ مسائل جنہیں وہ جان چکا تھا، بھول پن کا شکار ہوجائیں تو یقینا یہ کسی گناہ کا ثمرۂ بد ہے جو اس سے صادر ہوا ہے۔ یہی نسیان کا روحانی سبب ہے۔ علم دین کی حفاظت گناہوں سے محفوظ ہونے میں ہے۔

علم خشیت الٰہی کا نام ہے

            حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’لیس العلم بکثرۃ الروایۃ ولکن العلم الخشیۃ‘‘۔

            علم خشیت الٰہی کا نام ہے، نہ کہ کثرت روایات کا۔

            فائدہ: ایک صحابی رسول کی فراست ایمانی کا اندازہ لگائیے۔ خیر القرون میں رہتے ہوئے انہوں نے جس علمی فتنے کی نشاندہی فرمائی ہے، آج اسے فتنہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔

            علم دین کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ معرفت الٰہی حاصل ہو، اس معرفت کے نتیجے میں انسان کا رواں رواں خشیت الٰہی میں ڈوب کر سراپا اطاعت بن جائے۔ خشیت معرفت سے حاصل ہوتی ہے اور معرفت علم سے، انبیاء کرام علیہم السلام کو یہ معرفت سب سے مستند علم ’’وحی‘‘ سے براہ راست حاصل ہوئی تھی؛ اس لیے ان میں خشیت الٰہی بھی بہ کمال پائی جاتی ہے۔ اس تعلق علم کی وجہ سے علماء کرام کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ وہ عالم لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ {انما یخشی اﷲ من عبادہ العلماء} ’’کہ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘‘۔ [فاطر: ۲۸] جو علم انسان کو خشیت سے دوچار کرنے کے بجائے محض جستجو کے لیے مہمیز کا کام دے، اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ ایسا شخص قابل رحم ہے جس کی معلومات تو وسیع ہوں، مقالے، مضامین، علمی تحقیقات نوک قلم پر ہوں، ہر عہد کی کتابوں سے نام بہ نام واقفیت ہو؛ مگر دل خیشت الٰہی سے خالی ہو۔

            ایک اضافی خوبی کے لیے حقیقی مقصد کو نظر انداز کر دینا، پانی کی تلاش میں سراب کے پیچھے جان گنوانے کے مترادف ہے۔

علماء پر شہداء کا رشک

            حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

            ’’علیکم بالعلم قبل أن یرفع، ورفعہ موت رُواتہ، فو الذي نفسي بیدہ! لیودن رجال قتلوا في سبیل اﷲ شھداء أن یبعثھم اﷲ علماء لما یرون من کرامتھم، فإن أحدا لم یولد عالما، وإنما العلم بالتعلم‘‘۔

            علم کو اس کے اٹھ جانے سے قبل ہی حاصل کر لو، اہل علم کا فوت ہو جانا ہی علم کا اٹھ جانا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، قیامت کے دن اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہوئے شہید ہوجانے والے لوگ جب اپنی آنکھوں سے علماء کی قدرومنزلت کا مشاہدہ کریں گے تو حسرت کریں گے کہ کاش اللہ تعالیٰ انھیں بھی علماء کی صف میں اٹھاتا، کوئی شخص بھی عالم بن کر پیدا نہیں ہوتا اور علم، علم حاصل کرنے سے آتا ہے۔ 

            فائدہ: اسلام کی سربلندی اور دفاع امت کے لیے جان  کا نذرانہ پیش کرنا قابل قدر قربانی ہے؛ لیکن علماء حق کی قربانیاں اپنے پہلو میں ’’افضل الجہاد‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس مقدس جماعت کے افراد امت مسلمہ کی ایمانی دولت کے محافظ بن کر پوری زندگی شیطانی قوتوں سے نبردآزما رہتے ہیں۔ میدان کارزار میں اترنے والا مسلح سپاہی دشمن کے ایک وار سے اپنے اوپر شہید حق کی خلعت سجا لیتا ہے؛ مگر حق گو عالمِ دین دشمنوں کی بھیڑ میں رہ کر صبح وشام اپنی آرزوؤں کا خون کر کے گلستانِ اسلام کی آبیاری کرتا رہتا ہے۔

            نیز جہاد انسانوں کے حق میں سراپا رحمت بننے کے لیے آئین شریعت کا محتاج ہے۔ اگر جہاد آئین شریعت سے آزاد ہو جائے تو پھر صرف چنگیزیت رہ جاتی ہے۔ گویا جہاد کی بقا علم شریعت کی بقا پر موقوف ہے۔ اس سے فضیلت علم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

قرآن کریم عمل کے لیے اترا ہے، نہ کہ محض پڑھنے کے لیے

            حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

            ’’أنزل القرآن لیعمل بہ فاتخذتم دراستہ عملا، وسیأتي قوم یثقفونہ مثل القناۃ لیسوا بخیارکم۔ والعالم الذي لا یعمل کالمریض الذي یصف الدواء، وکالجائع الذي یصف لذائذ الأطعمۃ ولا یجدھا، وفي مثلہ قولہ تعالیٰ: {ولکم الویل مما تصفون}۔ [الأنبیاء: ۱۸]

            قرآن کریم عمل کی غرض سے نازل کیا گیا ہے؛ لیکن تم نے اس کے نازل ہونے کا مقصد محض پڑھاناسمجھ لیا ہے۔ عنقریب ایسے لوگ آ کر رہیں گے جو قرآن کریم کے الفاظ کو نیزے کی طرح سیدھے کرنے کو مقصدِ زندگی سمجھ لیں گے، ایسے لوگوں کا شمار تمہارے اچھے لوگوں میں نہیں ہوگا۔ جو صاحبِ علم اپنے علم پر عمل نہ کرے اس کی مثال اس مریض کی طرح ہے جو مرض کی دوا بیان کرتا ہے، مگر خود اس سے شفا نہیں پاتا، یا اس بھوکے کی طرح ے جو کھانوں کے ذائقے بیان کرتا ہے؛ مگر لذت دین سے محروم رہتا ہے۔ ایسے بے عمل کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {ولکم الویل مما تصفون} تم جو باتیں بناتے ہو وہ تمہارے لیے باعث خرابی ہیں۔

            حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بعض عارفین کا قول نقل کیا ہے کہ لوگ تجوید کے قواعد میں اس قدر منہمک ہوجاتے ہیں کہ قرآن کریم کی حقیقی روح ’’خشیت‘‘ پسِ پردہ چلی جاتی ہے۔ (الفوز الکبیر، ص: ۳۵)

اعترافِ جہالت

            حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

            ’’جو شخص ہر سوال کا دھڑلے سے جوب دیتا چلا جائے وہ بے وقوف ہے۔ پھر فرمایا: عالم کی ڈھال یہ کلمہ ہے: ’’مجھے معلوم نہیں‘‘۔ پھر اگر کسی مسئلے سے ناواقف ہونے کے باوجود اعتراف جہالت کرنے کی بجائے جواب دینے کی غلطی کر بیٹھا تو برباد ہوگیا‘‘۔  (الأحیاء: ۱/ ۹۱)

            فائدہ: کسی مسئلے کا جواب سوچ سمجھ کر اور صورت مسئلہ کو جان کر دینا چاہیے؛ اس لیے محتاط اہل علم پیچیدہ مسائل کا جواب تحریری صورت میں دیتے ہیں۔ اس میں خطا کا امکان کم ہوتا ہے۔ بعض اوقات انسان کی ’’انا‘‘ اعتراف ِجہالت کے لیے آڑ بن جاتی ہے اور مسئلے کا جواب کسی قاعدے اور نظیر کو سامنے رکھ کر دے دیتا ہے؛ لیکن اس میں ٹھوکر کھاتا ہے؛اس لیے جب تک یقینی مسئلہ معلوم نہ ہو، جواب سے گریز کرنا چاہیے۔ اس سے اعتماد بھی بڑھ جاتا ہے۔

عالم دین مسلسل نماز میں ہوتا ہے

            حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

            ’’لا یزال الفقیہ یصلي‘‘۔ ’’فقیہ ہمیشہ نماز میں ہوتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: کیسے؟ آپ نے فرمایا: ’’ذکر اللّٰہ تعالیٰ علیٰ قلبہ ولسانہ‘‘ کہ اس کا دل اور اس کی زبان ذکر الٰہی سے معطر رہتے ہیں۔

            فائدہ: یاد الٰہی اور حضوری ایک والہانہ حقیقت ہے۔ دینی مسائل کا تکرار، استحضار بھی درحقیقت اللہ کی یاد ہے؛ اس لیے اسے نماز سے تشبیہ دی ہے کہ فقیہ ہمیشہ یاد الٰہی میں مصروف رہتا ہے۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:102‏،  محرم الحرام – صفر المظفر 1440ھ مطابق اكتوبر 2018ء

٭           ٭           ٭

Related Posts