سجدہ پر قادر نہ ہوتو قیام ساقط
سوال: زید قیام و رکوع کرنے پر قادر ہے لیکن سجدہ و قعدہ کرنے سے معذور ہے ، کرسی کے استعمال میں زید قیام و رکوع کس طرح کرے گا؟ اگر کرسی پر بیٹھے تو قیام نہ ہوگا، اور قیام کرے تو صف بندی کی خلاف ورزی ہوگی۔ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
مرزا نزیر بیگ برطانیہ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو شخص حقیقی سجدے سے عاجز ہو، یعنی: اس کے لیے اشارے سے نماز پڑھنا جائز ہو، اس سے قیام ساقط ہوجاتا ہے اگرچہ وہ قیام پر قادر ہو؛ کیوں کہ قیام مقصود بالذات رکن نہیں ہے؛ بلکہ اصل اور بنیادی رکن سجدہ ہے اور قیام اس کے لیے وسیلہ ہے؛ اس لیے جب سجدہ ساقط ہوگیا تو قیام بھی ساقط ہوجائے گا؛ لہٰذااگر زید اس درجہ کا معذور ہے کہ وہ حقیقی سجدہ بالکل نہیں کرسکتا اور اس کے لیے کرسی پر بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھنا جائز ہے تو اسے تکبیر تحریمہ کہنے یا قراء ت کرنے کے لیے قیام کرنے کی ضرورت نہیں، وہ شروع ہی سے اپنی پوری نماز کرسی پر بیٹھ کر اشارے سے پڑھ سکتا ہے۔احنافؒ کے نزدیک صحیح، راجح اور مفتی بہ قول یہی ہے جیسا کہ متعدد کتب فقہ میں اس کی صراحت آئی ہے: چند حوالہ جات حسب ذیل ہیں:
الف: کتاب الأصل المعروف بالمبسوط للشیبانی (کتاب الطھارۃ والصلاۃ، باب صلاۃ المریض فی الفریضۃ ۱: ۲۰۷ مطبوعہ: عالم الکتب) میں ہے: قلت: فإن صلی وکان یستطیع أن یقوم ولا یستطیع أن یسجد؟ قال: یصلي قاعداً یومي إیماء۔ قلت: فإن صلی قائماً یؤمی إیماء؟ قال: یجزیہ۔
ب: مبسوط سرخسی (کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض۱:۲۱۳ مطبوعہ: دار المعرفۃ بیروت، لبنان) میں ہے: وأما إذا کان قادرًا علی القیام وعاجزًا عن الرکوع والسجود فإنہ یصلی قاعداً بإیماء وسقط عنہ القیام؛ لأن ھذا القیام لیس برکن؛ لأن القیام إنما شرع لافتتاح الرکوع والسجود بہ فکل قیام لا یعقبہ سجود لا یکون رکناً، ولأن الإیماء إنما شرع للتشبہ بمن یرکع ویسجد، والتشبہ بالقعود أکثر، ولھذا قلنا بأن المؤمیٔ یجعل السجود أخفض من رکوعہ؛ لأن ذلک أشبہ بالسجود، إلا أن بشراً یقول: إنما سقط عنہ بالمرض ما کان عاجزاً عن إتیانہ، فأما في ما ھو قادر علیہ لا یسقط عنہ ولکن الانفصال عنہ علی ما بینا۔
ج: الاختیار لتعلیل المختار (کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض۱:۱۰۳ مطبوعہ: دار الرسالۃ العالمیۃ) میں ہے: قال: (فإن عجز عن الرکوع والسجود وقدر علی القیام أومأ قاعداً)؛ لأن فرضیۃ القیام لأجل الرکوع والسجود؛ لأن نھایۃ الخشوع والخضوع فیھما، ولھذا شرع السجود بدون القیام کسجدۃ التلاوۃ والسھو، ولم یشرع القیام وحدہ، وإذا سقط ما ھو الأصل في شرعیۃ القیام سقط القیام، ولو صلی قائما مؤمیا جاز، والأول أفضل؛ لأنہ أشبہ بالسجود۔
د: رد المحتار (کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب بحث القیام، ۲:۱۳۲، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) میں ہے: قولہ: (فلو قدر علیہ) أي: علی القیام وحدہ أو مع الرکوع کما فی المنیۃ۔ قولہ: (ندب إیماؤہ قاعداً) أي: لقربہ من السجود، وجاز إیماؤہ قائماً کما فی البحر، وأوجب الثاني زفر والأئمۃ الثلاثۃ؛ لأن القیام رکن، فلا یترک مع القدرۃ علیہ۔ ولنا أن القیام وسیلۃ إلی السجود للخرور، والسجود أصل؛ لأنہ شرع عبادۃ بلا قیام کسجدۃ التلاوۃ، والقیام لم یشرع عبادۃ وحدہ، حتی لو سجد لغیر اللہ تعالی یکفر بہ بخلاف القیام۔ وإذا عجز عن الأصل سقطت الوسیلۃ کالوضوء مع الصلاۃ والسعي مع الجمعۃ۔ وما أوردہ ابن الھمام أجاب عنہ في شرح المنیۃ الخ۔ فقط واللّٰہ تعالی أعلم۔
محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
۱۸؍۱۱؍ ۱۴۳۹ھ = ۱؍ ۸؍۲۰۱۸ء، چہارشنبہ
الجواب صحیح:
محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد مصعب عفی عنہ
مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
لینس لگاکر وضو اور نماز
سوال: کیا لینس لگاکر وضو کرسکتے ہیں اور نماز بھی پڑھ سکتے ہیں؟ شو کے لیے نہیں؛ بلکہ نظر کمزور ہے اس لیے میں لینس لگاتا ہوں۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التــوفیق: لینس آنکھ کے اندر لگتا ہے اور آنکھ کا اندرونی حصہ نہ وضو میں دھونا ضروری ہے اور نہ ہی غسل میں؛ اس لیے لینس لگاکر وضو (یا غسل) بھی ہوجائے گا اور نماز بھی، وضو (یاغسل) یا نماز سے پہلے لینس نکالنے کی ضرورت نہیں اگرچہ اسے نکالنے میں کوئی دقت وپریشانی نہ ہو۔
وإدخال الماء في داخل العینین لیس بواجب؛ لأن داخل العینین لیس بوجہ؛ لأنہ لا یواجہ إلیہ، ولأن فیہ حرجاً (بدائع الصنائع، ۱:۶۷، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند)، لا غسل باطن العینین… للحرج (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارۃ، بیان الوضوء، ۱:۲۱۱، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند)، قولہ: ’’لا غسل باطن العینین الخ‘‘:؛ لأنہ شحم یضرہ الماء الحار والبارد، ولھذا لو اکتحل بکحل نجس لا یجب غسلہ کذا في مختارات النوازل لصاحب الھدایۃ (رد المحتار)، لایجب غسل ما فیہ حرج کعین وإن اکتحل بکحل نجس (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارۃ، بیان الغسل، ۱:۲۸۶)، قولہ: ’’کعین‘‘: لأن في غسلھما من الحرج ما لا یخفی؛ لأنھا شحم لا تقبل الماء، وقد کف بصرہ من تکلف لہ من الصحابۃ کابن عمرؓ وابن عباسؓ، بحر (رد المحتار)۔ فقط واللّٰہ تعالی أعلم۔
محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
۲۵؍۱۱؍ ۱۴۳۹ھ = ۸؍ ۸؍۲۰۱۸ء، چہارشنبہ
الجواب صحیح:
محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد مصعب عفی عنہ
مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
=====================
ایکسپورٹ کے کاروبار میں حکومتی اسکیموں سے فائدہ اٹھانا
سوال: میں ایکسپورٹ کا کاروبار کرتا ہوں، سرکار ہر مصنوعات کو ایکسپورٹ کرنے پر الگ الگ فیصد کے حساب سے فائدہ دیتی ہے ؟ جیسے اگر میں نے پیاز ایکسپورٹ کی تو مجھے سرکار جتنے کی پیاز تھی اس کا تینفیصد اپنی جانب سے مجھے دے گی، اس طرح کی سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانا کیسا ہے ؟
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التــوفیق: ایکسپورٹر کو مال ایکسپورٹ کرنے پر سرکار کی طرف سے بہ طور انعام جو کمیشن ملتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مال ایکسپورٹ کرنے سے ملک کی معیشت بڑھتی ہے؛ اس لیے سرکار ترغیب اور حوصلہ افزائی کے لیے ایکسپورٹر کو مختلف اشیا پر الگ الگ فیصد کے حساب سے ایک متعینہ انعام دیتی ہے او ر اس انعام کے لیے سرکار ایکسپورٹر سے کسی طرح کی کوئی فیس وغیرہ بھی نہیں لیتی ( جیسا کہ مجھے معلوم ہوا)؛ اس لیے از روئے شرع ایکسپورٹروں کو سرکار کی طرف سے ملنے والا یہ انعام بلاشبہ جائز ہے، اس میں کچھ شبہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
فقط واللّٰہ تعالی أعلم۔
محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
۲۰؍۱۲؍ ۱۴۳۹ھ = ۱؍ ۹؍۲۰۱۸ء شنبہ
الجواب صحیح:
محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد مصعب عفی عنہ
مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
=====================
———————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 10، جلد:102، محرم الحرام – صفر المظفر 1440ھ مطابق اكتوبر 2018ء