از: مدثر جمال تونسوی
استاذ العقیدۃ والحدیث جامعۃ الصابر، بھاولپور
اَکابر علمائے دیوبند کی متفقہ علمی دستاویز ’’المہند علی المفند‘‘ کے شروع میں شیخ المحدثین مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒنے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ فقہی اجتہادات میں ہم امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت ؒ کے پیروکار ہیں، جب کہ عقیدے کی مباحث و اسلوب تحقیقات میں ہم امام ابوالحسن اشعری اور امام ابومنصور ماتریدی کے پیروکار ہیں۔ یہاں دو سوالات کا جواب بھی جان لینا ضروری ہے۔
پہلا سوال: عقیدے میں تو تقلید جائز نہیں ہوتی، پھر امام ابوالحسن اشعری یا امام ابومنصور ماتریدی کی پیروی کا کیا مطلب؟
جواب: اس جواب کے دو پہلو ہیں:
(۱)عقائد کی دوقسمیں ہیں: (۱)اصولِ عقائد(۲) فروعِ عقائد؛ چنانچہ عقیدے میں عدم تقلید کا تعلق اصولِ عقائد کے ساتھ ہے۔ عقائد کے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے؛ کیوں کہ عقائد کی فروعی جزئیات و مسائل منصوص نہیں ہوتے بلکہ علماء کے اجتہادات کا نتیجہ ہوتے ہیں چنانچہ جس طرح فقہی اجتہادات میں فقہائے کرام کی پیروی کی جاتی ہے اسی طرح اِن اجتہادات میں بھی ماہرین عقائد جنہیں بالعموم اصطلاح اہل سنت میں ’’متکلمین‘‘ کہاجاتا ہے، اُن کی پیروی کی جاتی ہے۔
(۲)ان ائمہ کی طرف عقائد میں پیروی کا مطلب یہ نہیں کہ ان حضرات نے اپنی طرف سے عقائد گھڑے اور علمائے امت نے اس میں ان کی پیروی کرلی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان حضرات اسلامی عقائد کی تشریح و تبیین اور ان کے دفاع کے لیے اپنی زندگی بھر کی کاوشوں سے جو ایک منہج اور اسلوب وضع کیاتو بعد والوں نے اس منہج اور اسلوب کو بے حد مفید اور نافع سمجھ کر اپنالیاتو واضح ہوا کہ یہ پیروی اسلوب بیان و طرز توضیح و تشریح میں ہے ، نفس عقائد میں تقلید اور پیروی نہیں ہے۔
یہ وہ بات ہے جس کو جلیل القدر فقیہ و محدث قاضی عیاض المالکی (متوفیٰ نے )ترتیب المدارک میں امام ابوالحسن اشعریؒ کے حالات تحریر کرتے ہوئے واضح فرمایا ہے۔
دوسرا سوال: جب حنفیہ ، فقہی اصول و فروعات میں امام ابوحنیفہ کے پیروکا رہیںتو عقائد کی تفریعات اور اصول و ضوابط میں ان کی پیروی کیوں نہیں کرتے؟ اور انھیں چھوڑ کر امام ابومنصور ماتریدی کی پیروی کیوں کرتے ہیں؟
جواب : احناف نے امام ابوحنیفہ کو چھوڑا نہیں ہے؛ بلکہ عقائد کے بیان و اسلوب کا جو سلسلہ امام ابوحنیفہ سے چلا تھا، اسی سلسلے کو امام ابومنصور ماتریدی نے مضبوط و مستحکم کیا اور اسی میں اپنی بیشتر زندگی صرف کی اور یوں اس فن کی خدمت حنفیہ میں سے انھیں میں سمٹ گئی اور آگے جتنے بھی علماء اس فن کے ماہر ہوئے وہ یا تو براہ راست انھیں کے شاگرد تھے یا ان کے شاگردوں کے شاگرد اورانھیں کی کتابوں کے فیض یافتہ تھے؛ اس لیے پھر یہ نسبت انھیں کی طرف ہونے لگی ؛ چنانچہ اس سے واضح ہوا اس نسبت سے امام ابوحنیفہ کی طرف جو نسبت ہے اس کی نفی ہرگز ہرگز نہیں ہوتی۔
اس تمہید کے بعد اب امام ابومنصور ماتریدیؒ کے حالات کا تذکرہ شروع کیا جاتا ہے۔
نام و نسب
محمد بن محمد بن محمود کنیت ابو منصور، اور نسبت ماتریدی اور سمرقندی ہے۔ سمرقند شہر کی طرف کی نسبت ہے اور ماتریدی اُس بستی کی طرف جہاں اِن کی پیدائش ہوئی۔ بعض اہلِ علم مثلاً علامہ بیاضی حنفیؒ نے آپ کا نسب مشہور صحابی حضرت سیدنا ابوایوب انصاریؓ تک پہنچایا ہے ؛ مگر دیگر کسی اور معتبر اور قدیم ماخذ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔
ماترید: میں تا پر ضمہ بھی پڑھاگیا ہے اور فتح بھی یعنی : ماتُرید اور ماتَرید؛ جب کہ بعض لوگ ماتریت بھی پڑھتے ہیں۔ علامہ عبدالکریم السمعانیؒ نے اس محلے کی متعدد بار زیارت کی اور اس کے بارے میں اپنا یہ تبصرہ نقل کیا :
قد تخرج منہا جماعۃ من الفضلاء (الأنساب للسمعانی۔ص۴۹۸)
اس محلے میں فاضل اہل علم کی ایک بڑی جماعت پیدا ہوئی ہے۔
پھر یہی بات علامہ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں اور علامہ ابن الاثیر الجزری نے اللباب میں بھی نقل کی ہے۔
جب کہ سمرقند ماوراء النہر کے مشہور ترین قدیم شہروں میں سے ایک ہے ۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق اسکندر مقدونی نے اپنے زمانے میں اس کی تعمیر نو کی تھی، اور بعض سیاح مورخین نے تو یہاں تک لکھا ہے:
کل ما سمعت عن محاسنہا صحیح باستثناء أنہا أجمل مما تصورت
اس شہر کی خوبصورتی کے بارے میں جو کچھ بھی سنا تھا سب صحیح ہے؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی خوب صورت میرے تصور سے بھی زیادہ تھی۔
ولادت
اکثر مورخین نے امام ماتریدیؒ کے حالات اور خاص کر تاریخ پیدائش سے کچھ خاص تعرض نہیں کیا؛ اس لیے اکثر تاریخی کتب اس حوالے سے خاموش ملتی ہیں؛ لیکن اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس جلیل القدر امام کے حالات کی جستجو کرنے والوں نے اس کا کچھ نہ کچھ پتہ لگا لیا ہے ۔
اس بارے میں محققین نے جس تاریخ کو راجح قرار دیا ہے وہ ہے: سنہ ۲۳۸ھ؛ کیوں کہ آپ کے ایک استاذ محمد بن مقاتل الرازیؒ کی وفات سنہ ۲۴۸ھ میں ہے اور اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ امام ماتریدی نے جب آپ سے استفادہ کیا ہو تو کم از کم ان کی عمر دس سال ہونی چاہیے کیوں کہ اس عمر سے کم میں استفادہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
اساتذہ
امام ماتریدی نے چونکہ ایک ایسے علاقے میں آنکھ کھولی جو علم و فقہ کی سرگرمیوں سے خوب آباد تھا، خصوصاً امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے سلسلے کے علمائے کرام وہاں بکثرت تھے اور اپنی علمی تگ و دو سے پورے علاقے کو روشن کیے ہوئے تھے تو یہ وہ ماحول تھا جس نے امام ماتریدی کو اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ بہترین اساتذہ کی بدولت درجۂ امتیاز عطا کردیا تھا اور آپ کی علمی کاوشوں نے آگے چل کر ایسی مقبولیت حاصل کی کہ بالعموم علمائے احناف نے عقائد کے مباحث و مسائل اور تحقیقاتی اسلوب میں انھیں کی پیروی کی اور یوں علمائے ماتریدیہ اہل السنۃ و الجماعۃ کا ایک علمی ترجمان حلقہ بن کر تاریخی حقیقت بن گیا ۔
امام ماتریدی کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ امام ابوحنیفہؒ کی کتابوں کو خصوصاً عقائد سے متعلق رسائل کو اپنے اساتذہ کے توسط سے سند متصل کے ساتھ روایت کرنے والے اور ان کی ترویج و اشاعت کرنے والے ہیں۔
چنانچہ امام ماتریدی نے ، امام ابوحنیفہ کے عقائد سے متعلق رسائل :’’ الفقہ الابسط ، رسالہ الی عثمان البتی ، العالم و المتعلم ، یوسف بن خالد کے نام وصیت ‘‘ کو اپنے شیخ ابونصر احمد بن عباس العیاضی ، شیخ احمد بن اسحاق الجوزجانی اور شیخ نصیر بن یحییٰ البلخی سے روایت کیا ہے اور یہ تینوں شیوخ ان کتابوں کو اپنے شیخ ابو سلیمان الجوزجانی سے روایت کرتے ہیں اور شیخ ابو سلیمان الجوزجانی ، روایت کرتے ہیں اپنے شیخ محمد بن حسن شیبانی سے اور امام محمد انھیں روایت کرتے ہیں امام اعظم ابوحنیفہ سے۔
یہ سند متصل اس بات کی دلیل اور شاہد ہے کہ امام ماتریدی نے عقائد کے مسائل و مباحث اور اسلوب تحقیق میں جو بھی کاوشیں کی ہیں ان کی بنیاد و اساس وہی فکر ہے جس کی بنیاد امام ابوحنیفہ نے رکھی، اور امام ابوحنیفہ کے حالات پر نظر رکھنے والوں سے یہ مخفی نہیں کہ جس طرح آپ فقہ کی تاسیس رکھنے والے ہیں اسی طرح گمراہ فرقوں کے ظہور کی وجہ سے اہل السنۃ والجماعۃ کی ترجمانی کرتے ہوئے عقائد کی مباحث و مسائل کو بھی ایک مستقل علم و فن کی حیثیت دینے والے ہیں ، اگرچہ آپ پر اس کے بعد فقہ کا رنگ غالب آگیا اور یہی چیز آپ کی پہچان بن گئی اور عقائد والے مباحث کو پھر آپ کے شاگرد درشاگرد اِمام ماتریدی نے پوری توجہ سے بڑھایا اور اسی سبب سے پھر یہ علمی نسبت امام ابوحنیفہ کے بجائے امام ماتریدی کی طرف ہوگئی۔ و اللہ اعلم
مشہور اساتذہ
امام ماتریدی نے چند نامور اساتذہ کرام کا مختصر تذکرہ بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔
(۱)اِمام محمد بن مقاتل الرازی
علامہ عبدالحی لکھنویؒ نے ’’الفوائد البہیۃ فی تراجم الحنفیۃ‘‘ میں آپ کو امام ماتریدی کے اساتذہ میں ذکر کیا ہے۔
آپ ایک فقہ بھی تھے اور محدث بھی، اور دیگر علومِ اسلامیہ بھی مہارت رکھتے تھے۔ علم حدیث امام وکیع بن الجراح اوران کے طبقے کے دیگر اہلِ علم سے حاصل کیا تھا ۔ علامہ کمال پاشا نے آپ کے حالات لکھے ہیں اور اس میں یہ صراحت کی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے عقائد میں جو شاگرد اور ان کا سلسلہ چلا ہے، تو یہ اس میں چوتھے طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ ایک مدت تک رے میں قضا کے منصب پر فائز رہے۔
آپ کی وفات کے بارے میں دو قول ہیں: ایک قول کے مطابق وفات ۲۴۲ھ میں ہوئی جب کہ راجح یہ ہے ان کی وفات سنہ۲۴۸ھ میں ہوئی، قریبی زمانے کے نامور محقق عالم دین شیخ محمد زاہد الکوثری نے اسی کو ذکرکیا ہے اور راجح قرار دیا ہے۔ (مقدمہ العالم و المتعلم)
(۲) اِمام اَبو نصر احمد العیاضی
آپ امام ماتریدیؒ کے اُن اساتذہ میں سے ہیں جن سے آپ کو خصوصی تعلق تھا، چنانچہ شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ محدث قاسم بن قطلوبغا نے آپ کے اساتذہ میں سے صرف انھیں کا ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں دیگر تمام طبقات حنفیہ میں بھی امام ماتریدی کے اساتذہ میں ان کا نام شامل ہے۔ علامہ محمد مرتضی زبیدی نے بھی امام ماتریدی کے اساتذہ میں ان کا ذکرکیا ہے اور آپ کا نسب اس طرح بتایا ہے:
احمد بن عباس بن حسین بن جبلۃ بن جابر بن نوفل بن عیاض بن یحییٰ بن قیس بن سعد ابن عبادۃ الانصاری الفقیہ السمرقندی
اس نسب سے واضح ہوتا ہے کہ آپ مشہور صحابی رسول…، حضرت سعدؓ بن عبادہ کے خاندان سے تھے۔
آپ نے علاقہ ماوراء النہر کے معروف حنفی فقیہ شیخ ابوبکر احمد بن اسحاق جوزجانی سے علم حاصل کیا تھا۔ موصوف حددرجہ بہادر اور جراء ت مند تھے۔ جہاد میں بے دریغ شریک ہوتے تھے اور پھر اسی راہِ جہاد میں احمد بن اسد بن سامان کے عہد ولایت میں ایک معرکے میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
علم و فضل میں اس قدر بلند مرتبے رکھتے تھے کہ علماء سیر نے یہاں تک تحریر کیا:
اِن الدلیل علی صحۃ مذھب ابی حنیفۃ کون الامام احمد العیاضی علی مذھبہ (ذیل الجواہر المضیئۃ لابن ابی الوفاء۔ج۲، ص۵۶۲)
امام احمد العیاضی جیسے شخص کا امام ابوحنیفہ کے مذہب پر ہونا، امام ابوحنیفہ کے مذہب کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔
(۳)ابوبکر احمد بن اسحاق الجوزجانیؒ
علامہ عبدالحئی لکھنوی، علامہ تمیمی اور علامہ زبیدی سب نے ان کو امام ماتریدی کے اساتذہ میں ذکر کیا ہے اور سب نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ:
کان عالما جامعا بین الاصول و الفروع و قد اخذ العلم عن ابی سلیمان الجوزجانی۔
موصوف ایک بڑے عالم اور اصول وفروع دونوں میں مہارت رکھتے تھے اور (امام محمد کے نامور شاگرد)امام ابو سلیمان الجوزجانی سے علم حاصل کیا تھا۔
ان کی دوکتابوں کے نام ملتے ہیں: (۱)الفرق و التمییز (۲)کتاب التوبۃ
(۴)نصیر بن یحییٰ البلخیؒ
اتحاف السادۃ المتقین فی شرح احیاء علوم الدین میں علامہ زبیدی نے انھیں امام ماتریدی کے اساتذہ میں ذکر کیا ہے۔ ابومطیع حکم بن عبد اللہ، ابو مقاتل حفص بن مسلم السمرقندی اور ابوسلیمان الجوزجانی آپ کے شیوخ میں سے ہیں۔ موصوف فقہ حنفی اور علم کلام میں ماہرتھے اور سنہ۲۶۸ھ میں وفات پائی۔
علمی مقام ومرتبہ
امام ماتریدی کا علمی مقام ومرتبے تین باتوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔
(۱) آپ کی تالیفات
(۲)آپ کے شاگردوں اور استفادہ کنندگان کا سلسلہ
(۳)سیرت نگار علماء و محققین کی طرف سے آپ کے لیے ذکر کیے گئے القاب
پہلے ہم تیسرے نکتے کوذکر کرتے ہیں؛ چنانچہ سیرت نگاروں نے آپ کے لیے جو القاب ذکر کیے ہیں وہ سب کے سب آپ کے بلند پایہ علمی مقام اور درجہ اِمامت کو واضح کررہے ہیں؛ چنانچہ درج ذیل تین القابات دیکھئے:
اِمَامُ الہُدیٰ
اِمَامُ الْمُتَکَلِّمِیْن
مُصَحِّحُ عَقَائِدِ الْمُسْلِمِینْ(مسلمانوں کے عقائد کو درست کرنے والے)
جب کہ آپ کی تالیفات کی عمدگی اور کمال کی گواہی دینے والے سب ہی وہ علماء ہیں جنہوں نے آپ کی تالیفات دیکھیں، اوران کا مطالعہ کیا؛ چنانچہ اب بھی جو کتابیں خاص کر آپ کی ضخیم تفسیر بنام ’’تاویلات اہل السنۃ‘‘ اور علم التوحید پر ضخیم اور دقیق کتاب بنام ’’کتاب التوحید‘‘ شائع ہوچکی ہیں اور عرب و عجم کے اہل علم کی توجہات کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ خصوصا تفسیرماتریدی کو تو متعدد اہل علم نے اپنی تحقیق کی جولانگاہ بنایا ہے اور اس کے متعدد تحقیقی ایڈیشنز شائع ہوچکے ہیں اور سناگیا ہے کہ پاکستان کے بعض ادارے اس کے اردو ترجمے کی طرف بھی پیش رفت کرچکے ہیں۔
علامہ بیاضی حنفی آپ کی تالیفات کے بارے میں لکھتے ہیں:
و حقق فی کتبہ المسائل بقواطع الادلۃ و اتقن التفاریع بلوامع البراہین الیقینۃ (اِشارات المرام، ص۲)
امام ماتریدیؒ نے اپنی کتابوں میں مسائل کو قطعی دلائل سے پایہ تحقیق کو پہنچایا ہے اور تفریعات کو روشن براہین سے مستحکم کردیا ہے۔
یہ بات محققین کے لیے بہت ہی واضح اور کافی ہے جب کہ عام آدمی کے لیے یہ بات کافی ہونی چاہیے کہ عالم اسلام کے مایہ ناز اور قدیم ترین علمی و تعلیمی ادارے : مصر کا جامعہ الازہر، مغرب کا جامعہ الزیتونہ اور جامع القرویین، ماوراء النہر کے علمی ادارے اور پاک و ہند و افغانستان کے تعلیمی اداروں میں صدیوں سے امام ماتریدی کے اسلوب فکر والے عقائد کو درسی نصاب کا حصہ بنایاگیا ہے اور جلیل القدر علمائے کرام انھیں پڑھتے اور پڑھاتے چلے آرہے ہیں؛ چنانچہ عقیدہ نسفیہ جو ماتریدی اسلوب فکر کا نمائندہ اور مختصر ترین رسالہ ہے اور اس کی شرح جو علامہ ثانی سعدالدین التفتازانیؒ نے تحریر کی ہے وہ اوپر ذکرکردہ دینی جامعات میں داخل نصاب رہی ہے یا درسی نصاب میں بہ طور معاون کتاب کے پڑھی اور پڑھائی جاتی رہی ہے۔
امام ماتریدی کے تلامذہ
امام ماتریدی کی علمی سرگرمیوں اور علم مقام دونوں سے واقفیت کے لیے ان کے تلامذہ پر بھی ایک نظر ہونی چاہیے؛ اس لیے ذیل میں ان کے چند نامور تلامذہ کا ذکر کیاجاتا ہے:
(ا)ابوالقاسم السمرقندی
اپنے وقت میں علم فقہ اور علم کلام امام ماتریدی سے حاصل کیا اور بلخ کے مشایخ سے علم تصوف حاصل کیا اور اس میں اس قدر ترقی ہوئی کہ ’’الحکیم‘‘ ان کا لقب پڑگیا۔ سمرقند کے قاضی بھی مقرر ہوئے اور اچھی سیرت وکردار کے مالک تھے۔ سمرقند میں سنہ۳۴۲ھ میں وفات پائی۔ دوکتابیں یادگار چھوڑیں: الرد علی اصحاب الہوی، اور کتاب الایمان جزء من العمل۔
(۲)شیخ علی الرستغنی
ابوالحسن علی بن سعد الرستغنی ان کا پورا نام ہے۔ سیرت نگاروں نے آپ کو امام ماتریدی کے جلیل القدر تلامذہ میں بتلایا ہے۔ یادگارکتابوں میں ’’ارشاد المہتدی، اور الزوائد و الفوائد فی انواع العلوم‘‘ کے نا م ملتے ہیں۔
(۳)ابومحمد عبدالکریم بن موسیٰ البزدوی
آپ علمائے حنفیہ میں سے دو مشہور شخصیات : امام ابوالعسر البزدوی اور امام ابوالیسر البزدوی کے دادا ہیں۔ یہ پورا خاندان علمی ہے۔ سنہ ۳۹۰ھ میں وفات پائی۔
امام ماتریدی کی وفات:
آپ کی وفات میں اہل علم کا تھوڑا سا اختلاف ہے؛ مگر جو راجح ہے وہ سنہ ۳۳۳ھ ہے اور آپ کی قبر سمرقند میں ہے اور مشہور ہے۔
(باقی آئندہ)
—————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 7، جلد:102، شوال- ذیقعدہ ۱۴۳۹ھ مطابق جولائی ۲۰۱۸ء
٭ ٭ ٭